بیدل کی شاعری دشت حیرت ہے اس میں تجلیات کی بارش ہوتی ہے ہر لحظہ میں شواہد اور نقوش شکلیں اور رنگتیں بدلتے ہیں اور ہماری حیرت میں اضافہ کرتی ہے ۔بیدل کے جہاں کا ہر ذرہ محو دعا ہے گویا
ربّ زدنی فیک تحیّراً
بیدل کے یہاں اسما، افعال اور صفات کاادراک ہوتا ہے سبحا ان اللہ بیدل کے نزدیک عرفان کا حاصل تحیر ہے۔ اور انکی شاعری میں آئینہ حباب وغیرہ استعارات اسی حقیقت کے اظہار کے لئے مستعمل ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو بیدل کی شاعری میں ہر جگہ تحیر ہی تحیر اور سرگشتگی کی فضا اور ماحول ہی ملتا ہے۔ خیال بندی ،مضمون آفرینی و رنگینی
( Florid and Flowery Style )
بیدل کی شاعرہ کی نمایاں خصوصیات ہیں شبلی اور شیخ اکرام کو غلظ فہمی ہوئی تھی بیدل کے طرز سے نہ تو فارسی آہنگ کو نقصان پہنچا اور نہ ہی زبان کی لطافت اور شیرینی میں فرق آیا ۔ بلکہ بیدل نے فارسی شاعری کو سطحیت اور پایابی سے نکال کر بحر ناپیدائے کنار کردیا۔ چونکہ بیدل اور غالب کا طرز شاعری کی عام نہج سے ہٹ کر تھا اس لئے ناقدین کو وقتی طور پر ان کی شاعری وقتی محاورہ اور زمانہ کے دستور کے خلاف محسوس ہوئی۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد یہی شاعری دیرپا اور بڑی شاعری ثابت ہوئی شاید شبلی کو بھی کسی وقت یہ احساس ہوا ہو ۔ میرے خیال میں وہ بیدل و غالب کی عظمت سے وہ اسقدر خائف تھے کہ ا نہوں نے ان دو عظیم شعرا کا تذکرہ سرے سے کیا ہی نہیں بیدل اور غالب کے استعارے ہر دور میں نئے مفاہیم اور معانی دیتے رہیں گے۔ بیدل اور غالب کا ابہام اور غرابت
Obscure and Mysty Style
شاعری کے جہاں میں انقلاب ثابت ہوا اور انکی عظمت کا راز بھی اسی میں ہے ۔ بی شک یہ دونوں شعرا Trend Setterتھے ۔ عام ناقدین ،عام پڑھے لکھے لوگ تو روایتی اور سہل ممتنع شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ شبلی چونکہ عاشقانہ مزاج کے ادیب تھے اس لئے وہ حسن و جمال کی وادیوں سے باہر نہیں نکل سکے۔ ورنہ بیدل کی اعلی شاعری کے کوہ قاف کو ضرور سر کیا ہوتا۔ بیدل اور غالب روایت شکن تھے اس لئے بھی معاصرین کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے۔ بیدل و غالب کی شاعری ذرا اگلے زمانے ahead of times کی شاعری تھی استعارے کی تازگی پیکروں کی بوقلمونی اور لہجہ کی پیچیدگی اور ابہام کے باعث وہ ہر دور کے شاعر ثابت ہوئے ہیں ان کی شاعری پایاب کے بجائے گہرادریا ہے . بی شک انکی چشمہ زار سر زمینوں میں سدا بہار پھول اور پھل بکثرت ملتے ہیں ۔
بیدل سخنت نیست جز انشا تحیر
کو آیینه تا صفحهٔ دیوان تو باشد
بیدل تیری شاعری فروغِ تحیر کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کوئی ایسا آئینہ نہیں جو تیری شاعری کے صفحہ جیسا ہونے کی تمنا کرے۔
بر نماید بجز هیچ از معمای حباب
لفظ ما گر وا شگافی معنی حرف مگست
پانی کے بلبلے جو ایک معما ہے اسکے بیچ میں کچھ ہے ہی نہیں میرے الفاظ کو بھی اگر چیر کر دیکھا جایے ان میں لکھا ہے ” مت کہو”۔ بیدل کی شاعری تعقل کے بجائے تحیر ہے اور نیرنگ
صفحهٔ سادهٔ هستی خط نیرنگ ناداشت
خیرگی کرد نظر هر رقمی پیدا شود
دنیا دراصل خالی اور ساده صفحه پر ایک نیرنگ سے بھر پور ایک سطر بھی نہیں لکھی گئی تھی میری حیرت زدہ آنکھوں نے کچھ تحریر کے نشان ثبت کئے۔
موج و کف مشکل کہ گردد محرم قعر محیط
عالمے بیتاب تحقیق است و استتعداد نیست
موج اور جھاگ سمندر کی گہرائی میں نہیں دیکھ سکتے ساری دنیا حقیقت کے علم کے لئے بیقرار ہے۔
این جملہ دلائل کہ زتحقیق تو گل کرد
در خانۂ خورشید چراغان نجوم است
یہ سارے دلائل جو تمہارے دل و دماغ سے پھوٹتے ہیں خانہ خورشید میں ان کی حیثیت چراغان نجوم جیسی ہے۔
بیدل نشوی بے خبر از سیر گریبان
اینجا ست کہ عنقا تہ پا گشت مگس را
یعنی
بیدل سیر گریبان یعنی اپنے من میں ڈوب جا یہی وہ جگہ یا مقام جہاں عنقا مکھی کی پاوں کے نیچے آتا ہے۔
درین دریا کہ عریانیست یکسر ساز امواجش
حباب ما بہ پیراہن رسید از چشم پوشیدن
زندگی کے دریا میں موجیں برہنہ ہو کر ظاہر ہورہی ہیں
میری حباب، آنکھیں بند کرکے یعنی ہستی مٹاکر دوبارہ اصلی وجود یعنی سمندر تک پہنچ گئی ۔
در طلب گاہ دل چون موج و حباب
منزل و جادہ ہر دو را سفر است
دل کی طلب گاہ میں منزل اور جادہ دونوں موج و حباب کی طرح ابدی سفر میں ہیں۔
ہستی روش ناز جنون تاز کہ وارد
می آیدم از گرد نفس بوئے خرامے
ہستی، معشوق پر وارد، ناز جنوں کی روش ہے۔نفس کی گرد سے خرام کی مہک آرہی ہے ۔
سراپا وحشتم اما بناموس سبک روحی
زچشم نقش پا چو ریگ می دارم سفر پنہان
میں تو سراپا وحشت ہوں لیکن سبک روحی کے ناموس سے، نقش قدم کی آنکھ سے چھپ کر سفر جاری رکھتا ہوں۔ ہستی کے فنا کے سفر کی سبک روحی ہمارے اندر محسوس نہیں کی جاسکتی ہے۔
بیدل از خویش بایدت رفتن
ورنہ نتوان بآن خرام خرام رسید
بیدل اپنے سے باہر نکل جاو ورنہ اسکی یعنی محبوب کی خرام کو نہ پا سکو گے۔
غبار ماضی و مستقبل از حال تو میجوشد
در امروز استگمگر واشکافی دی و فردا را
ماضی اور مستقبل کی دھند تیرے حال سے پیدا ہوتی ہے
اگر اپنے پچھلے اور اگلے کی نگہداشت کر اور انہیں اپنے امروز میں تلاش کر
فطرت سست پئے از پیروی وہم امل
لغزشے خورد کہ امروز مرا فردا شد
میری سست طبع جھوٹی خواہشوں کا پیروی کرتے وقت کچھ ڈگمائی کہ میرا امروز فردا میں بدل گیا۔
جو یہاں ہے وہ وہاں پہنچنے پر یہاں میں بدل جاتا ہے ٹھیک اسی طرح تمہار امروز بھیس بدل کر کل میں بدل جاتا ہے
تنزیہ ز آگاہی ما گشت کدورت
جان بود کہ در فکر خود افتاد و بدن شود
یعنی
ہماری آگہی نے مطلق صداقت یعنی ذات حق کو مکدر کردیا ۔روح جو محرک اول تھا کو جب اپنے نمود کی سوجھی تو بدن نبض ہوگیا یعنی کثافت کے پیکر میں ڈھل گئی۔ غالب نے یہی خیال یوں پیش کیا ہے
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا
غالب
در حق من بدرد کشی ظن بد مبر
کآلودہ گشت خرقہ ولے پاکدامنم
تو میرے حق میں ذرا بھی بد گمانی نہ کر میں تلچھٹ پینے والا ہوں اگر چہ میری گدڑی آلودہ ہوچکی ہے لیکن پاکدامن ہوں
تر دامنی پہ ہماری نہ اے شیخ جائیو
دن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
بی تمیزی داشت ما را نازپرورد غنا
آخر از آدم شدن محتاج آب و نان شدیم
بقول غالب: حصول آب و نان کی فکر نے ہمیں مقام سے گرا دیا کردیا ہم آدمی ہونے کے بجانے روزی روٹی کے غلام ہوگئے
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے
میر تقی میر
اقبال
زپاس ناموس ناتوانی چو سایه ام ناگزیر طاقت
که هر چه زاین کاروان گران شد به دوشم افگند بار خود را
بیدل
جلوہ از شوخی نقاب حیرتے افگندہ است
رنگ صہبا در نظر ہا کار مینا می کرد
یعنی
نقاب کی شوخی سے جلوہ حیرت میں پڑگیا ہے
شراب کا رنگ ہماری نظر میں مینا کا کام کرتا ہے
جائے نیست بجولانگاہ معنی ہشدار
خواب پا در رہ ما سنگ نشاں می باشد
حقیقت کی جولانگاہ م ریس کورس میں کوئی رخنہ نہیں سویا ہوا پاوں یا رکی ہوئی حرکت
benubmed foot or arrested motion
یعنی واماندگی اگلی منزل کے لئے سنگ میل کا کام کرتی ہے۔
دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
غالب
گر تغافل می تراشد گاہ نیرنگ نگاہ
جلوہ را آئینہ ما سخت رسوا کردہ است
ہماری نگاہ یعنی ذہانت نے حقیقت کے بارہ میں فرضی کہانیاں گڑلی ہیں اب یہ نیرنگ نگاہ، حقیقت کو تغافل یعنی ڈسٹارٹ کر کے ظاہر کررہی ہے
ز نقص تشنہ لبی واں بعقل خویش مناز
دلت فریب گر از جلوہ سراب نخورد
اپنی تمیز اور پہچان کی سوجھ بوجھ پر ناز مت کرو
تمہاری پیاس کی کمی نہیں بلکہ تمہاری کی خواہش نے تمہیں سراب کے فریب سے بچا لیا
تا خموشی داشتیم آفاق بی تشویش بود
موج این بحر از زبان ما تلاطم کردہ است
جب تک خاموشی چھائی ہوئی تھی ہر چیز بے خلل اور خاموش تھی زندگی کے سمندر میں ساری لہریں انسان کی زبان کے ہلنے سے پیدا ہوگئیں۔
ےا خموشی نہ گزینی حق و باطل باقی
رشتہ را کہ گرہ جمع نسازد دوسرا است
گل یاد غنچہ می کند و سینہ می درد
رفت آنکہ جمع می شدم اکنوں نمی شود
دل را نفریبی بفسونہای تعین
آرائش این آیینہ تمثال نباشد
بیدل
اسی خیال کو محمد رفیع سودا نے یوں مستعار لیا ہے
پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا
یک دو نفس خیال باز، رشتهٔ شوق کن دراز .
تا ابد از ازل بتاز ملک خداست زندگی
بیدل
ایک دو پل کے لئے اپنے خیال کو روک اور محبت کے کے رشتہ کو دراز کر ۔ اور پھر ازل سے ابد خدا کی وسیع زندگی کے دائرہ میں چلا جا۔
بیدل
ز نقص تشنہ لبی دان بعقل خویش مناز
دلت فریب از۔ جلوۂ سراب نخورد
اگر تم نے سراب سے دھوکہ نہیں کھایا تو اپنی عقل پر مغرور مت ہو، اصل میں تم تو اپنی تشنہ لبی میں کمی کے باعث دھوکہ کھانے سے بچ گئے۔ یعنی اگر تمہاری طلب بہت ذیادہ سرگرم ہوتی تو سراب سے سیرابی کے سامان مہیا کر لیتی ۔ عجیب و غریب خیال ہے۔
ز موج خیز فنا کوہ و دشت یک دریا است
خیال تشنۂ لب ما سراب می ریزد
ذات کے سمندر میں کوہ و دشت ایک ہی مسلسل بہاو کی تشکیل کرتے ہیں۔
پیاسی انکھ ریت کی چادر کوچشمہ سمجھتی ہے جب طوفان اٹھتا ہے تو کوہ و دشت برابر ہوجاتا ہے
گہ تعافل می تراشد گاہ نیرنگ نگاہ
جلوہ را آئینہ ما سخت رسوا کردہ است
ہمارا آئینہ عقل کی حقیقت کی ماہیت کے باب میں رسوا کن انکشاف کرتا ہے کبھی تو حقیقت کو تغافل قرار دیتا ہے اور کبھی نیرنگ نگاہ۔
جلوہ از شوخی نقاب حیرتے افگندہ است
رنگ صہبا در نظر ہا کار مینا می کرد
شراب کی اڑتی ہوئی چمک نے خود کو نقاب حیرت میں چھپا لیا اور شراب کا رنگ نگاہوں کی صرا حی بن گیا۔
تنزیہ ز آگاہی ما گشت کدورت
جان بود کہ در فکر خود افتاد و بدن شد
ہماری آگہی نے صفائے مطلق کو گرد و غبار بنا ڈالا ، ہماری جان جوشش حیات اپنے تقاضوں کی خاطر کثیف لبادہ اوڑھ لیا۔
ہر چہ آنجا است چون آن جا رسی اینجا گردد
چہ خیال است کہ امروز تو فردا گردد
فطرت سست پے از پیروی وہم امل
لغزشے خورد کہ امروز مرا فردا شد
موہوم امیدوں کی پیروی کرتے ہوئے مری فطرت سست نے ایسی لغزش کھائی کہ میرا امروز فردا میں تبدیل ہوگیا۔
تغافل نشد مانع عمر قید تعلق
تو رفتار این پائے گل ندیدی
جسم کے ساتھ انسلاک کے نتیجے میں ہم پر عائد ہونے والی پابندیاں زندگی کے بہاؤ کو روک نہیں سکتی ہیں معاملہ صرف اس قدر ہے کہ اس پا بگل کی رفتار کو ریکھنے سےقاصر ہے۔
طپش دل بصد ہزار آہنگ
ہر نفس شیشہ می زند بر سنگ
میرے دل کی طپش ہزار آہنگ سے ہر سانس میں شیشے کو پتھر پر مار رہی ہے۔ یعنی میری ہر سانس سے دل کی شکست کی آواز آ رہی ہے۔
بسکہ این جاز عجز یاس نمو
زورقِ ماہ رفتہ است فرو
اس جگہ اظہار سے مایوس ہو کر چاند کی کشتی پھر ڈوب گئی۔
حق نفس بر حیات دہر دمید
کاروانہای بوی گل جوشید
زندہ نفس یعنی خدا نے اطراف عالم میں اپنی سانسیں پھونکیں اور بوئے گل کے کراوان چل پڑے۔
نقشبند ہوا درین پردہ
عالمی را بصورت آوردہ
ہوا کے کاریگر نے زین کو اس کے کینوس پر کھینچ لایا ہے
ماہمہ نقشبند تشبیہم
عبرت کار گاہ تنزیہم
ہم سب تشبیہاتSimilies کے مصور ہیں اور اس تنزیہ purification of style کی کار گاہ کے نشان عبرت ہیں۔
زیر بال است آشیانۂ ما
چون کمان در خود است خانۂ ما
خاننۂ کمان کی طرح ہمارے پروں کے نیچے ہمارا آشیانہ ہے،
سعی ہر چند می کشود قدم
مژہ میخورد چون دو تیغ بہم
اس کو دیکھ کر حیطۂ نظر میں لانے کے لئے قدم پیمائی ہوئی ہی تھی کہ پلکیں دو تلواروں کی طرح باہم ٹکراگئیں ۔۔ دوتلواروں کا بہم ٹکرانا پلکیں جھپکنے کا استعارہ ہے۔ یعنی پلکوں کا جھپکنا مانع نظارہ تھا۔
از تسلسل چو سبحہ سر بقدم
می دویدند جامہا پیہم
پیہم جام پر جام گردش میں آگئے جیسے تسبیح کے منکےپھرے جارہے ہوں۔
شمع این محفلی ولیک چہ سود
آتش افتادہ در بنای وجود
تم اس بزم کی شمع ہو لیکن تمہارے اپنے وجود کی بنیاد میں آگ لگی ہوئی ہے۔
دل افسردہ اخگر است اینجا
پای خوابیدہ شہپر است اینجا
افسردہ دل دہکتا ہوا انگارا ہے اور سویا ہوا پاوں شہپر ہے ۔
اخگر live coal
بود بی کلفتی و اندوہی
گل خود روی دامن کوہی
وہ ہر غم و اندوہ سےآزاد ہے
گویا وہ پہاڑ کے دامن میں کھلا پھول ہے۔
دست چون کاسۂ یتیم تہی
کیسہ چون معدۂ لعیم تہی
اس کا ہاتھ یتیم کے پیالے کی طرح خالی اس کی کنجوس کے معدہ کی طرح تہی یعنی خالی۔
پای تدبیر بر سر خرمن
لیک یکسر چو گاو بستہ دہن
وہ کاشتکار ازل ہمیشہ اپنے کھیتوں میں منہ بندھی ہوئی گائے کی طرح مصروف کار ہے۔
غم عمر گزشتہ خوردن چند
نقد گم کردہ وا شمردن تا چند
ہم کہاں تک اپنی عمر گزشتہ کا غم کھائیں اور گمی ہوئی رقم کو گنتے رہیں ۔
دخمہ است این بساط گردو غبار
من و تو جملہ نقش لوح مزار
یہ زمین گرد و غبار کی قالین خاموشی کا مزار ہے۔ میں اور تو اس لوح مزار کی عبارت ہیں۔
دہر مرآت شاہد غیب است
لوح تمثال حسن لاریب است
زمانہ شاہد غیب کا آئینہ ہے اور لوح تمثال یعنی یہ جہان حسن لاریب ہے۔
الفت آئینہ ایست کز ہر سو
گشتہ خلقی بطوف او یل رو
محبت ہی وہ آئینہ ہے کہ جس کے ہر طرف طواف کے لئے لوگوں نے تانتا باندھا ہوا ہے۔