بیدل نے ہند کے چمن زاروں ، باغوں، بہاروں، یہاں کے گرم و سرد پانی کے چشموں پر مثنویاں کہی ہیں اور ان سے عارفانہ نکات پیدا کئے ہیں ۔ اور یہ سب ” طور معرفت” یا” گلگشت حقیقت”میں شامل ہیں طور معرفت کی ابتدا میں بیدل نے اپنے کوہ بیرات کی سیر پر یادرگار زمانہ مثنوی کہی ہے ۔ ابتدائی اشعار
بدریا گر نداری آشنائی
کف خاکی زساحل کن گدائی
اگر دریا سے آشنائی نہیں تو ساحل کی مشت خاک بھیک میں مانگنی چاہئے۔
اگر در دیدہ سامان نگاہی است
برون انجمن ہم جلوہ گاہی است
اگر آنکھ میں خوش نگاہی موجود ہو تو تو ہر جگہ اسکی جلوہ گاہ ہے۔
غرض بوی نوای آشنا گیر
زهر گردی سراغ توتیا گیر
اگر آواز کی خوشبو گرفت میں آجائے تو ہر گرد کے تودے سے توتیا کا نشان مل سکتا ہے
بیدل نے مقدرت کے مناظر اور مظاہر کو مخصوص نظر سے دیکھا ہے۔ انہوں نے ہر جگہ ہر چیز کو خدا کے وظیفہ میں ڈوبا ہوا دیکھتے ہیں۔ اشعار
چه صحراو چه دریا، وچهکهسار
همه مشتاق تست ای غافلاز کار
اگر صحرا است در راهت خراب است
وگر دریا است از شوق تو آبست
نه کوهت سنگ ره نی در نه دیوار
دو عالم بر صدا راهیست هموار
“در صفت کوہ بیرات ” کے عنوان کے تحت بیرات کے پہاڑوں کےجابجا پھیلے ہوئے سلسلے انکے نشیب و فراز، درے اور بالخصوص چوٹیوں کا ذکر کیا ہے بیدل کو ںوہاں رقص جمل یعنی اونٹ کے ناچنے کا منظر دکھائی دیتا ہےاور پہاڑ انہیں قدرت کے نشہ پرور جام دکھائی دیتا ہے۔ ایک مقام پر کہتے ہیں فلک اپنی انگوٹھی پر ناز کرتا ہے کہ پہاڑ اسکا نگینہ ہے۔۔۔۔ دوسری جگہ کہتے ہیں کہ تصور یہاں احرام باندھے دکھائی دیتا ہے یعنی مںاظر کا طواف کر رہا ہے ۔۔ کوہ بیرات کی هوائے مرطوب اور موسم خوشگوار کا بیدل نے نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے۔
فضا طرح بنائی کرد ایجاد
که طوفش کوه را رقص جمل داد
برنگ باده یکسر نشه پرور
طلسم کوهسارش خط ساغر
فلک نازید بر انگشترینش
که حاصل شد نگینی چون زمینش
تصور ہر طرف می بندد احرام
ہمان به خندۀ گل ریزند گام
رطوبت آنقدر صافی نگار است
که لوح نو خطان هم بی غبار است
“صفت ابر” کے تحت لکھتے ہیں: بجلی چمکنے سے کبھی آفاق مسکراتے ہیں، کبھی خاک پر آنسوں کی جھڑی لگتی ہے اور بادل اپنی چھاتی کو تیغ کوہ سے ملتے ہیں اور کبھی وہ دشت کا راہ لیتے ہیں اور زار و قطار روتے ہیں۔۔۔ پہاڑوں پر مںڈلاتے بادل گویا ہاتھی ہیں جن کی سونڈ نے ان کی چوٹیوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ کمال کی امیجری ہے اور منظر کشی۔۔
به تیغ کوهی گاہی سینہ مالد
گہی گیرد رہ دشت و بنالد
نگویم ابر مستی نشه فیلی
بگردون موج زن دریای نیلی
ولی فیلی که تا جوشید میلش
بپیچد کوه را خرطوم سیلش
بیدل نے صفتِ قطرہ، صفتِ حباب،صفتِ قوسِ قزح، صفتِ شرار ،صفتِ چاہِ معدن،صفتِ چشمۂ گرم، صفتِ باغ، صفتِ گلہای باغ، صفتِ سمن : مثنویات لکھ کر قدرت سے اپنے عشق کا اظہار کیا ہے ۔ ان کی تفصیل طور معرفت میں موجود ہے۔
“قوس قزح” کو بیدل نے نقش “تحیر “کہا ہے ،جس کے آگے دوشِ تفکر خم دکھائی دیتا ہے ۔ وہ اسے کبھی تو رگِ اںرِ بہار کہتے ہیں کبھی ریشۂ فردوس کا طلسم ہوشربا اور کبھی لب جام پر خیال لعل نو خط۔ کیا کہنے!
شعر دیکھیں:
چگویم چیست آن نقش تحیر
کہ خم شد این زمان دوش تفکر
رگِ ابرِبهارستان نیرنگ
طلسم ریشۂ فردوس در چنگ
پر طاؤس صاف رشته دارم
خیال لعل نو خط بر لب جام
بیدل
یک ذرہ نہ دیدم کہ پر طاوس نماند
نیرنگ خیالت بہ ہزار آئینہ پر دارد
بیدل
مجھے ہر ایک ذرہ میں طاوس یعنی حسن فطرت دکھائی دیتا ہے ۔ تیری نیرنگی خیال نے آئینوں کو پر دیے۔
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں جو جو سیر کروں کوہ طور کا