رات کا نجانے کونسا پہر تها جب جہانزیب کی آنکھ نرس کی چیختی آواز سے کهلی
بجلی کی تیزی سے وہ اٹھ کے باهر دوڑا ایمان سیڑهیوں سے نیچے منہ کے بل بے هوش پڑی تهی سر سے خون کا فوارا سنگ مرمر کے سفید فرش کو سرخ کر چکا تها دو دو سیڑهیاں طے کرتا وہ اس کے پاس پہنچا
“ایمان ایمان آنکهیں کهولو رابرٹ گاڑی نکالو بی فاسٹ”
ایمان کو گود میں اٹهاۓ گاڑی کی جانب دوڑا اگلے کچھ هی منٹوں میں ایمان کو اسٹریچر پر ڈال کر آئی سی یو لے جایا جا رها تها
جبکہ وہ باهر لگے بینچ پر بیٹها اپنے هاتهوں کو دیکهنے لگا جہاں تازہ گیلا خون لگا هوا تها آنسو کا ایک قطره اسکے گال پہ بہہ نکلا وقت دیکها صبح کے چار بج رهےتهے انگریزوں کے دیس میں اذان کی آواز آنا بہت مشکل تها وہ اٹها وضو کیا اور وهیں ایک کونے میں اندازے سے قبلہ رخ هوکر نماز ادا کرنے لگا دعا مانگتے وقت وہ بلک بلک کر بچوں کی طرح رو دیا نجانے کتنی دیر وہ اللہ کے حضور گڑگڑاتا رها تبهی ڈاکڑ کی آواز پر وہ چونکا
“سوری هم آپکے بےبی کو نہیں بچا پاۓ”
ڈاکڑ نے تاسف بهرے لہجے میں کہا
“میری مسز وہ کیسی هیں”
کهڑے هوکر بے صبری سے پوچها
“ڈونٹ وری وہ ٹهیک هیں”
“میں مل سکتا هوں ان سے پلیز”
“آف کورس تهوڑی دیر میں هم انھیں روم میں شفٹ کر دیں گے پهر آپ مل لینا”
“اوکے ڈاکڑ تهنیک یو”
“ویلکم”
یہ کہہ کر ڈاکڑ آگے بڑھ گیا جبکہ اس نے دل هی دل میں ایمان کی زندگی پر اپنے رب کا شکرادا کیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
جب وہ روم میں داخل هوا تو وہ سامنے هی آنکهیں بند کیے لیٹی تهی سر پر پٹی بندهی تهی چہرہ شدید تکلیف کی وجہ سے زرد هو رها تها اسے اس حالت میں دیکھ کر جہانزیب کا دل کٹ کر رہ گیا کچھ پل اسے یوں هی دیکهتا رها پهر ہمت کر کے آگے بڑها “ایمان” بے حد پیار سے اسے پکارا گیا اس آواز پر اس نے آنکهیں کهول دیں “آپ۔۔۔۔۔”
اٹهنے کی کوشش کی مگر جہانزیب نے اسے روک دیا
“لیٹی رهو کیسی هو”
چہرے سے بال هٹاتے هوۓ بولا
“ٹهیک هوں آپ رو رهے تهے”
وہ اسکی سرخ آنکهیں دیکهتے هوۓ بولی “تمهارا هی اثر هے یار ورنہ میں ایسا نہیں تها”
آنکهیں رگڑتا هوا بولا حقیقتا اسے ایمان کو اس حالت میں دیکھ کر تکلیف هو رهی تهی
“اچها یہ تو بتاؤ اتنی رات کو باهر کیوں نکلی تهیں تم روم سے”
مصنوعی غصے سے پوچها
“مجهے پانی چاهیے تها”
“حد هے ایمان مجهے اٹها دیتی خود جانے کی کیا ضرورت تهی هاں” “ائم سوری”
شرمندہ لہجے میں کہا
“اٹس اوکے تم نے جان هی نکال دی تهی میری” وہ خاموش رهی
“ایمان” کچھ پل اسکے بولنے کا انتظار کرتا رها جب وہ کچھ نہ بولی تو اسکا هاتھ پکڑ کر دهیرے سے پکارا
“جی”
“ایمان تمهیں پتہ هے تمهارا بچہ۔۔۔۔۔۔”
دانستہ بات ادهوری چهوڑ دی اس نے
“جی مجهے پتہ هے مجهے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی پلیز”
یہ کہتے اسکی آنکهوں میں جو دکھ تها جہانزیب کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکا
“اوکے تم ریسٹ کرو میں ابهی آتا هوں”
وہ اٹهتا هوا اسکے سر پر هاتھ پهیرتا باهر نکل گیا جبکہ ایمان نے شدت سے آنکهیں میچ لیں
باهر نکل کر جہانزیب نے کب کے روکے آنسوؤں کو بہنے کی اجازت دے دی
“کاش ایمان کاش میں تمهارے دکھ کا مداوا کر سکتا کاش کاش کاش” دیوار پر مکے برسا کر اپنی بے بسی پر وہ رو دیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
تین دن وہ هاسپٹل میں رهی اس دوران جہانزیب نے ایک منٹ کے لئے بهی اسے تنہا نہیں چهوڑا تها اس رات هاسپٹل میں هی سب گهر والوں سے بات کر لی تهی جہانزیب نے انہیں سب بتا دیا تها سب ایمان کے لئے پریشان تهے ایمان کی تسلی اور جہانزیب کی باتوں سے انہیں تهوڑی تسلی هوئی
کچھ باتوں کے بعد کال بند کر دی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
تین دن بعد اسے هاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تها جہانزیب نے ایک ویک کی مزید رخصت لے لی تهی آفس سے اب وہ پورا دن ایمان کے ساتھ رهتا اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتا مگر اس واقعے کے بعد ایمان جو پہلے جہانزیب سے کچھ باتیں کر لیتی تهی اب بالکل خاموش هو گئی تهی یہی بات جہانزیب کےلئے تکلیف دہ تهی
ایک دن جب اسکی طبعیت قدرے بہتر تهی وہ اسے گهمانے باهر لے آیا آئس کریم پالرر پر رک کر انہوں نے گاڑی میں هی آئس کریم سے انصاف کیا اور پهر وہ اسے لندن کے مشہور و معروف شاپنگ سنٹر لے آیا
یہاں آکر ایمان کی آنکهیں چندهیا سی گئی کیا نہیں تها وهاں وہ خواب سی کفیت میں آگے بڑھ گئی جبکہ جہانزیب بهی اسکے ساتھ هولیا “مجهے یقین نہیں آ رها میں یہاں کهڑی هوں اتنے بڑے شاپنگ مول میں اگر ثنا یہاں هوتی تو وہ پکا بے هوش هوجاتی اور میں۔۔۔۔۔۔۔”
بولتے بولتے ایک دم وہ رک گئی
“آیم سوری”
شرمندگی سے بولی
جہانزیب جو اسکے یوں بولنے پر جهوم اٹها تها ایک دم بجھ سا گیا “ایمان ماضی کو سوچنا چهوڑ دو پلیز” جہانزیب کے لہجے میں نجانے ایسا کیا تها کہ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا
“آئی ویل ٹراۓ” “پرامس”
زیب نے اپنا هاتھ آگے کیا اور اس نے مسکراتے هوۓ اپنا هاتھ اسکے مضبوط هاتھ پر رکھ دیا
“اچها چلو اب شاپنگ هو جاۓ تهوڑی” جہانزیب نے اسکا هاتھ تهامتے هوۓ کہا”جی ”
اور وہ دونوں مسکراتے هوۓ آگے بڑھ گئے کتنے هی لوگوں نے انہیں ستائش بهری نظروں سے دیکها
آنے والے دنوں میں ایمان نے اپنے آپکو نارمل کرنے کی هر ممکن کوشش کی جہانزیب بهی تقریبا هر روز شام کو اسے آوٹنگ پر لے جاتا
اکثر وہ خود هی قریبی پارک میں چلی جاتی گهنٹوں وهاں بیٹهی اپنی سوچوں میں مگن رهتی تھی وہ اسی طرح اپنی سوچوں میں گم تهی تبهی کسی نے اسکے کندهے پر هاتھ رکها وہ بری طرح چونکی اور پلٹ کر آنے والے کو دیکها تو حیرت کا جهٹکا لگا آنے والا کوئی اور نہیں بلکہ کامران سلمان تها
“میں یہاں بیٹھ سکتا هوں؟”
عاجزی سے اجازت طلب کی گئی اور وہ جو اب تک حیرت کی تصویر بنی هوئی تهی صرف سر هلا کر رہ گئی اور وہ کشادہ بینچ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا
“کیسی هو”
بنا اسکی طرف دیکهے اس نے پوچها
“ٹهیک هوں آپ کیسے هیں پهپهو کیسی هیں”
اب نارمل لہجے میں اطمینان سے بولی
“هممم ٹهیک هیں مما بهی”
“آپ یہاں کیسے”
اعتماد سے پوچها
“بس یونہی کافی دنوں سے تمهیں یہاں آتا دیکھ رها تها تو آج دل کا بوجھ هلکا کرنےآ گیا”
اس لہجے میں نجانے ایسا کیا تها کہ ایمان چونک گئی
“کیا مطلب دل کا بوجھ”
الجهے هوۓ لہجے میں سوال کیا “ایمان میں نے تمهارا بہت دل دکهایا هے جس کے لئے میں نے یہ سب کیا وهی آج مجهے چهوڑ کر چلی گئی هو سکے تو پلیز مجهے معاف کر دینا ”
ملتجا لہجے میں کہا گیا اور ٹهکراۓ جانے کا احساس پهر سے اسکے اندر جاگ گیا شکست خورد لہجے میں بولی
“جو هوا اچها نہیں هوا اچها آپ نے بهی نہیں کیا تها مجهے اس بات کی سزا دی جس میں میرا کوئی قصور نہیں تها مگر آپ سے کوئی سوال نہیں کروں گی نہ مجهے آپ سے کوئی شکایت هے آپ کی جگہ کوئی بهی هوتا وہ یوں هی سرراہ چهوڑ جاتا”
بهیگے لہجے میں بولی ماضی کی کرچیاں آنکهوں میں چهب رهی تهیں
“ایمان پلیز مجهے معاف کر دو”
“کامران میں نے آپکو معاف کر دیا هے آپ میرے مجرم نہیں هیں میرا مجرم وہ شخص هے جس نے میری زندگی برباد کی”
آنسو آنکهوں سے رواں تهے
ایمان میں تمهیں کچھ بتانا چاهتا هوں میری پوری بات سن کر جو تمهیں ٹهیک لگے تم وہ کرنا مگر پلیز ایک بار میری بات سن لو”
“کامران میں نے آپکو معاف کر دیا هے مجهے سے دوبارہ ملنے کی کوشش مت کرنا پلیز”
یہ کہہ کر وہ وهاں سے اٹھ کر جانے لگی تبهی کامران کی بات پر وہ پتهر کا بت بن گئی آسمان سر پر گرنا کیا هوتا هے یہ بات اسے اب سمجھ میں آئی تهی “ایمان تمهارا مجرم میں هوں”
اسے شاک لگا تها سامنے بیٹها وہ شخص عجیب انکشاف کر رها تها وہ ڈرتے ڈرتے مڑی تهی جب دیکها تو وہ منہ نیچے کیے جوتوں سے گهاس کرید رها تها
“کیا مطلب”
وہ اب تک شاکڈ تهی
“تمهارا مجرم هوں میں ایمان میری وجہ سے تمهاری لائف خراب هوئی میں نے کی تمهاری لائف خراب اپنی لائف سنوارنے کے لئے مگر میں خالی هاتھ رها”
وہ اعتراف کر رها تها اور وہ سن کهڑی تهی
“کیوں کیا آپ نے ایسا”
بہت دیر بعد بولی اسے اپنی آواز کهائی سے آتی هوئی محسوس هوئی
“پاکستان آنے سے پہلے هی میں یہاں اپنی گرل فرینڈ تانیہ کو شادی کا وعدہ کر گیا تها جب وهاں آیا تب صرف تمهیں ایذ اے کزن ٹریٹ کیا میں نے مگر پهر ماما نے تم سے منگنی کر دی یہ کہہ کر کہ یہ میری خواہش هے وہ تمهیں بہت پسند کرتیں تهیں مگر میرے دل میں تمهارے لئے کچھ نہیں تها تم بہت اچهی تهی ایمان تمهاری اسی اچهائی کا میں نے فائدہ اٹهایا تم سے پیار کا ناٹک کیا اور جب یہاں آکر ماما تمهارا ذکر کرتیں تو مجهے تم سے چڑ هوتی اور پهر میرے دماغ میں تم سے چهٹکارے کا ایک منصوبہ آیا ”
وہ سانس لینے کو روکا جبکہ ایمان نیچے گهاس پر ڈهے سی گئی “تبهی میں ماما سے بزنس میٹنگ کا جهوٹ بول کر دس دن کے لئے پاکستان آیا
اور پهر تمهیں کڈنیپ کر کے تمهارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔”
جان بوجھ کے اس نے جملہ آدها چهوڑ دیا
“جب ماما کو پتہ چلا کہ تم گهر سے بهاگ چکی هو تب انهوں نے مجهے بہت کالز کی میں نے جان بوجهه کر اپنا موبائل بند رکها تمهیں قید رکھ کر ایک ویک بعد چهوڑ دیا اور پهر میں نے تم سے شادی سے انکار کر کے ماما کو تانیہ کے لیئے کنوینس کیا مگر جس دن هماری اینگجمنٹ تهی تانیہ شاپنگ پر گئی تهی تب هی واپسی پر اسکا ایکسڈنٹ هو گیا اور وہ اور اسکی ماما کی ڈیتھ هوگئی میرا سب کچھ ایک ہی جهٹکے میں ختم هوگیا جس لڑکی کے لیئے میں نے یہ سب کیا خدا نے اسے مجھ سے چهین لیا”
یہ کہہ کر وہ پهوٹ پهوٹ کے رو دیا جبکہ ایمان بے یقینی سی کفیت میں اسے دیکهے گئی
“ایمان پلیز مجهے معاف کر دو پلیز تهک گیا هوں ضمیر کا بوجھ برداشت کرتے کرتے پلیز معاف کر دو”
کامران اس کے برابر بیٹها رو رها تها
“میں نے آپکو معاف کیا اپنے اللہ کے لیئے مگر اب مجھ سے کبهی ملنے کی کوشش مت کرنا”
یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے اٹھ کهڑی هوئی وہ نم آنکهوں سے اسے جاتا دیکهتا رها۔۔۔
۔۔۔
گهر آئی تو جہانزیب اسے ڈهونڈنے کے لیۓ نکلنے والا تها اسے دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا “ایمان کہاں تهی تم پتہ ہے کتنا پریشان ہو گیا تها میں” وہ اس کے قریب آکر فکرمندی سے پوچھرہا تها
“جہانزیب وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ اپنی بات پوری نہ کر پائی اور جہانزیب کی بانہوں میں جهول گئی “پیشنٹ کو برین ہمیرج ہوا ہے اگلے چوبیس گهنٹے پیشنٹ کے لیۓ بہت امپورٹنٹ ہیں ورنہ کومہ میں جانے کے چانسزہیں آپ دعا کریں” جہانزیب اس وقت آئی سی یو کے باہر بے چین تها جب ڈاکڑ نے آکر اسے اطلاع دی اس “مگر ڈاکٹر وہ بالکل ٹهیک تهی ذرا سا چکر آیا تها آپ۔۔ آپ پهر سے چیک کریں پلیز”
بے تابی سے بولا
“دیکهیں آپکی وائف کو گہرا شاک لگا هے جسکا اثر ڈرایکٹ دماغ پر ہوا ہے ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رهے هیں باقی آپ دعا کریں”
ڈاکڑ اسے تسلی دیتے ہوئے وہاں سے چل دیا جبکہ جہانزیب نے ایک نگاہ آئی سی یو کے دروازے پر ڈالی اور اس طرف چل پڑا
دروازے پر پہنچ کر شیشے سے اندر کا منظر دیکھ کر اسکا دل کٹ کر رہ گیا ایمان بے شمار مشینوں کے بیچ بے سدھ پڑی تهی کچھ پل وہ اسے دیکهتا رها پهر آہستگی سے ہٹ گیا “ایمان پلیز ٹھیک هو جاؤ تمهاری زندگی خوشیوں سے بهر دوں گا پلیز ٹهیک هو جاؤ”
سائیڈ بینچ پر بیٹهتے ہوئے دل ہی دل میں وه اس سے مخاطب تها
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“ڈاکڑ میں اپنی وائف سے مل سکتا هوں پلیز”
ایمان کا چیک اپ کر کے جونہی ڈاکڑ باهر نکلا جہانزیب نے بے تابی سے آگے بڑھ کر پوچها نرس اسے ایمان کے هوش میں آنے کی اطلاع دے چکی تهی
“پیشنٹ کو کچھ دیر میں روم میں شفٹ کر دیں گے تب آپ ان سے مل سکتے هیں مگر زیادہ باتیں کرنے سے گریز کیجیۓ گا”
ڈاکڑ نے اجازت کے ساتھ ساتھ اسے وارننگ بهی دی
“اوکے ڈاکڑ تهینک یو”
جہانزیب نے ڈاکڑ کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکڑ ویلکم کہتا آگے بڑھ گیا وہ روم میں داخل هوا تو ایمان سامنے آنکهیں موندهے لیٹی تهی دهیرے دهیرے چلتا وہ اسکے پاس آیا بیڈ کے پاس رکهے چهوٹے بینچ پر بیٹھ گیا جبکہ ایمان نے کسی کی موجودگی محسوس کرکے آنکهیں کهول دیں اور جہانزیب کو دیکھ کر دهیرے سے مسکرادی۔ “اتنا ڈرا کر اب مسکرا رهی هو هاں”
وہ مصنوعی خفگی سے بولا
اس نے اٹهنے کی کوشش کی تبهی جہانزیب نے اسے روک دیا
“لیٹی رهو پلیز کچھ چاهیے تمهیں”
وہ فکرمندی سے بولا اور ایمان نے نہ میں سر هلا دیا
“کیسی طبعیت هے اب”
وہ اب نرمی سے پوچھ رہا تها
“ٹهیک هوں”
وہ کمزور آواز میں بولی
“تمهیں هوسپٹل کی سیر کرنے کا زیادہ هی شوق هو گیا هے هاں زیادہ هی پسند آ گئۓ هیں کیا یہاں کے هاسپٹل”
وہ اسکا هاتھ پکڑے پیار سے پوچھ رها تها جبکہ وہ مسکرا کر رہ گئی
“اب یہ هسسپٹل واک چهوڑو اور جلدی جلدی ٹهیک هو جاؤ یار ایسے تم بالکل اچهی نہیں لگ رهی”
وہ ناک چڑها کر بولا
“میں ٹهیک هوں آپ بس گهر چلتے هیں”
وہ اپنا سر اٹهاتے هوۓ بولی
“جی نہیں پہلے ڈاکڑ سے پرمیشن لیں گے پهر چلیں گے اوکے”
اس بات پر وہ بس سر هلا کر رہ گئی
“تم آرام کرو میں تمهارے لئے ناشتہ لے کر آتاهوں تمهارے چکر میں تو میں نے بهی بهوک ہڑتال کی هوئی تھی میں ابهی آتا هوں اوکے”
وہ اسکی چهوٹی سی ناک کهنچتا باهر نکل گیا جبکہ ایمان کا دل اپنے رب کے حضور ایسا شریک حیات ملنے پر سجدہ ریز هو گیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
چار دن بعد اسکو ڈاکڑ نے ڈسچارج کر دیا اور جہانزیب اسے گهر لے آیا
“میڈم کا هر طرح سے خیال رکهنا هے میڈسن ٹائم پر دینی هے اور کهانا بهی پرهیز کے ساتھ انڈراسٹنڈ اگر گڑبڑ کی تو تم لوگ سب فارغ هو میری طرف سے”
ایمان کو روم میں لیٹا کر اب وہ سب ملازمین کو هدایات دے رها تها اور یہ آواز ایمان باخوبی سن رهی تهی وہ انگلش میں هدایات دیتا جب روم میں آیا تو وہ مسکرا رهی تهی
“ارے واہ۔۔۔ کس بات پر اکیلے اکیلے مسکرایا جا رها هے همیں بهی تو پتہ چلے”
اسے مسکراتے دیکھ کر اسے خوشی هوئی تهی
“بس یوں هی آپ آفس نہیں گئے اب تک”
وہ وال کلاک کی طرف نظر ڈال کر بولی
“جا رها هوں نکالنے کے پیچهے پڑی هو خیر هے
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں”
وہ شرمندہ سی بولی
“اچها جی چلیں چلتا هوں شام کو ملاقات هوگی اوکے”
“جی خداحافظ”
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
جہانزیب کے جانے کے بعد وہ اٹهی اور کچن میں چلی آئی جہاں میڈ لینچ کی تیاری کر رهی تهی
“لنچ میں کیا بناؤ گی”
وہ میڈ سے پوچھ رهی تهی
“آپ کے لئے سوپ اور سر ڈنر گهر میں کرتے هیں تو ان کے لئے ڈنر میں میکرونی ”
وہ بولی تو ایمان نے اپنا سر پیٹ لیا
“میڈم آپ پلیز ریسٹ کریں ورنہ میری جاب۔۔۔۔۔”
“کچھ نہیں هوگا تمهاری جاب کو پہلے تم کسی مسلم جنرل سٹور سے یہ سامان لے آؤ اور ٹرسٹ می تمهاری جاب نہیں جاۓ گی اب جاؤ جلدی سے لے کر آؤ”
ایک لمبی لیسٹ اسکے هاتهوں میں دیتے هوۓ بولی
دو گهنٹے بعد وہ سارا مطلوبہ سامان لے آئی تهی
ایمان نے ٹائم دیکها تو ایک بج رها تها جہانزیب کی واپسی کا وقت سات بجے تها اس نے میڈ کے ساتھ مل کر تیاری شروع کر دی جہانزیب کی ڈائری سے وہ اسکی پسند کی ایک ایک چیز پڑھ چکی تهی سب سے پہلے اس نے چکن بریانی تیار کی پهر کهیر شامی کباب اور وائٹ قورمہ ان سب کی تیاری میں اچها خاصا وقت گزر گیا میڈ حیرت سے پاکستانی کهانے دیکھ رهی تهی یہ سب تیار کرکے میڈ کو کچن صاف کرنے کا کہہ کر وہ واش روم کی جانب چل پڑی
غسل کرکے اس نے سمپل بلیک فراک چوڑی دار پاجامے کے ساتھ پہنا هلکا سا میک اپ کرکے گیلے لمبے بروان بالوں کو شانوں پر پهیلا کر وہ باهر آئی
“میڈم یو آر لوکنگ سو بیوٹی فل لائک اینجل”
میڈ توصیفی نظروں سے اسے دیکهتے هوۓ بولی اور وہ مسکرادی نظر وال کلاک پر ڈالی تو ساڑهے آٹھ بج چکے تهے
جہانزیب کو فون کرنے کے لئے نمبر ڈائل کرنے والی تهی کہ ڈور بل بج گئی میڈ کو ٹیبل لگانے کا آڈر دے کر دروازے کی جانب بڑھ گئی
دروازہ کهولتے جونہی جہانزیب کی نظر اس پر پڑی پلٹنا بهول گئی
“اسلام علیکم”
اس نے سلام کیا
“لگتا هے میں غلط گهر میں آ گیا هوں”
“جی نہیں صحیح گهر آۓ هیں اب اندر آ جائیں آپ”
وہ شرمائی شرمائی سی بولی جہانزیب کو اپنا دل قابو کرنا مشکل هوگیا
“جائیں جاکر فریش هوکر کهانے کی ٹیبل پر آ جائیں”
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
جوں جوں وہ ڈهکن اٹهاتا جا رها تها ایمان پر پیار آتا جا رها تها وہ جانتا تها یہ سب اسی نے بنایا هے
“تمهاری طبعیت ٹهیک نہیں تو یہ سب کیوں کیا”
“بالکل ٹهیک هے طبعیت”
اور پهر پورا ٹائم اسکی نظریں ایمان پہ رهیں کهانا کهانے کے بعد جہانزیب روم میں چلا گیا جبکہ ایمان کافی بنانے کچن کی جانب بڑھ گئی
کافی مگ لے کر وہ روم میں انٹر هوئی تو جہانزیب میگزین پڑهنے میں مصروف تها
کافی کا مگ جہانزیب کی جانب بڑهایا جسے اس نے مسکراتے هوۓ تهام لیا
مگ اسے دے کر وہ الماری کی جانب بڑھ گئی جیسے هی کپڑے نکال کر وہ پلٹنے لگی جہانزیب سے ٹکرا گئی اس سے پہلے کے وہ گرتی جہانزیب نے اسے اپنے بازوں کے حصار میں لے لیا
“جہانزیب ائم سوری۔۔۔۔۔”
بازوں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی
“شششش”
جہانزیب نے اسکے هونٹوں پر انگلی رکھ دی اور هاتھ بڑها کر دروازہ لاک کر دیا پهر اسے گود میں اٹها کر بیڈ کی جانب چل پڑا ایمان شرم سے سرخ هو گئی هاتھ بڑها کر لائٹ آف کر دی
کهڑکی سے گزر کر آنے والی هوا چاند تارے سب مسکرا دئیے اور تقدیر بهی غم کے بعد اب خوشیوں کا موسم تها کائنات کی هر چیز نے انکی دائمی خوشیوں کی دعا مانگی۔
ختم شد