هوش آنے کے بعد پہلے تو اسے کچھ سمجھ ہی نا آیا اور جب سمجھ آیا تب اسے اپنے آپ سے گهن آنے لگی لڑکهڑاتے قدموں سے اٹھ کر واش کی طرف بڑهی یہ احساس کہ اسکی عزت کو داغدار کر دیا گیا ایک گالی سے کم نہیں نجانے کتنی دیر هی وہ شدید سردی میں ٹهنڈے پانی سے اپنے وجود پہ اسکا احساس مٹاتی رهی
وجود کے زخم بهر جاتے هیں مگر روح پہ لگے گهاؤ کبهی نہیں بهرتے اور پهر هر روز اسکی عزت کا جنازہ نکالا جاتا عورت هونا کتنا بڑا جرم هے هر رات اسے بتایا جاتا اور وہ بس رحم کی بهیک مانگتی مگر وهاں کوئی نہ تها مرنے کی دعائیں مانگتی مگر وہ بهی قبولیت کا درجہ نہ پا سکیں۔۔۔ مسلسل ایک هفتہ اسے عورت هونے کی سزا دی گئی اور ایک هفتہ بعد یہ کہہ کر رات کی تاریکی میں اس کے گهر کے باهر پهنیک گئے کہ غلطی سے تمهیں اٹها لاۓ تم وہ لڑکی نہیں هو جسکی انہیں تلاش تهی۔۔۔ٹوٹے قدموں سے ایمان گهر کی جانب چل دی چوکیدار اسے دیکھ کر اسکی جانب لپکا “چهوٹی بی بی آپ آ گئیں” وهی اسے سہارا دے کر گهر کے اندر لے گیا
••••••••••••••••••
اسے اچانک دیکھ کر سب سکتہ میں آ گئے ثنا بهاگ کے اس کے گلے لگ گئی سب هی حیرت بهری خوشی میں مبتلا تهے
شور سن کر مسز علی اپنے روم سے باهر آئیں ایمان کو سامنے دیکھ کر ان کی ممتا تڑپ اٹهی سات دنوں کی ممتا کی پیاسی ایمان ان کے گلے لگ کر پهوٹ پهوٹ کر رو دی اور یوں هی روتے روتے کب اسکے حواس ساتههھ چهوڑ گئے اسے خبر نہ هوسکی
هوش آیا تو اپنے بیڈ روم میں تهی ثنا مسز علی مسز احمد اسکے سرهانے هی بیٹهی تهیں هوش آتا دیکھ کر مسز احمد نے ثنا کو کهانا لینے دوڑا دیا
“ایمان بچے کیسی طبعیت هے تمهاری”
مسز احمد نے پوچها اور ایمان خالی خالی نظروں سے دیکهتی مسز علی کی گود میں سر چهپاۓ سسکنے لگی
احمد صاحب نے کچھ بهی پوچهنے سے منع کر دیا تها کہ جب تک وہ شاک سے باهر نہیں آ جاتی کوئی اس ٹاپک پہ بات نہ کریں نارمل هونے کے لئے اسے ٹائم دیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اس واقعہ کو دو ماہ هوچکے تهے مگر اب تک وہ اس شاک سے باهر نہیں آ سکی تهی
“ایمان چلو شاپنگ پر چلتے هیں اٹهو ریڈی هوجاؤ”
ثنا نے ایمان سے کہا جو اپنے بیڈ پر بیٹهی خلاؤں میں نجانے کیا ڈهونڈ رهی تهی
“ایمان”
اس نے اسے بازو سے پکڑ کر هلایا اور وہ ڈر کر پیچهے هوگئی
اتنا عرصہ گزرنے کے بعد وہ اب بهی ڈر جاتی تهی وهی ڈر ذہن میں اپنی جڑیں پختہ کرچکا تها
ایک دن جب مسز علی اسے کهانا کهلا رهیں تهیں تب اسے زور دار ابکائی آئی بے اختیار وہ واش روم کی جانب دوڈی
کچھ دیر بعد جب واپس آئی چہرہ ہلدی کی مانند پیلا ہورہا تها مسز علی جہاندیدہ عورت تهیں آگے بڑھ کر اسے تهام لیا اور بیڈ تک لے آئیں اسے سلا کر خود مسز احمد کے روم کی جانب بڑھ گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“بهابی جسکا ڈر تها وهی هوا آخر”
مسز علی نے کہا
“کیا مطلب کیا هوا”
مسز احمد نے خوفزدہ لہجے میں پوچها
“ایمان شاید پریگننٹ هے بهابی”
مسز علی نے گلوگیر لہجے میں کہا
“کیا؟ تمهیں کیسے پتہ چلا کیا اس نے خود بتایا”
“نہیں جیسی اسکی حالت هے مجهے شک هے ایسا هی هے۔ میری پهول سی بچی کی کیا حالت کر دی ظالموں نے اللہ پوچهے گا ان سے”
وہ باقاعدہ رونے لگیں
“حوصلہ کرو عالیہ تم ایسے ٹوٹ جاؤ گی تو ایمان کو کون سنبهالے گا”
مسز احمد نے انہیں تسلی دیتے هوۓ کہا
“میں کیا کروں بهابی مجھ سے اسکی حالت دیکهی نہیں جاتی”
آنسوؤں میں روانی آگئی
“حوصلہ کرو کل پہلی فرصت میں اسے ڈاکڑ کو دیکهاؤ اور میرا مشورہ مانو ابارشن کی بهی بات کرنا ڈاکڑ سے جتنا جلدی هو ابارشن کروا دینا”
مسز احمد نے مشورہ دیا
“جی بهابی میں کل هی اسے هاسپٹل لے جاؤ گی”
انہوں نے دکهی لہجے میں کہا
“اور ایک بات اور آج صبح سارا کا فون آیا تها”
مسز احمد نے انہیں کہا
“کیا کہہ رهی تهی”
“کہنا کیا هے منگنی ختم کر دی هے کامران کا کہنا هے وہ کسی کا تهوکا هوا نہیں چاٹے گا”
مسز احمد نے بتایا تو وہ سر تهام کے بیٹھ گئی
“عالیہ ہمت کرو اور جاؤ جا کر پہلے علی کو ساری صورتحال بتاؤ پهر جو تم لوگوں کا فیصلہ هو اٹهو شاباش”
مسز احمد نے کہا تو وہ سر هلاتیں اٹھ کهڑی هوئیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اور اگلے دن وہ اسے گائنا کولوجسٹ کے پاس لے آئیں مکمل چیک آپ کے بعد پتہ چلا کہ وہ پریگننٹ هے اور ابارشن پاسبل نہیں اسے هر صورت بچے کو جنم دینا هی پڑے گا اس خبر سے حقیقتا ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کهینچ لی گئی تهی وہ زرد پڑتی ایمان کو لئے روم سے باهر نکل رهیں تهیں تبهی کسی سے ٹکرا گئیں مڑ کے دیکها تو مسز اسد تهیں
“کیسی هیں آپ اور ایمان بچے آپ کیسی هو بہت افسوس هوا ایمان کا سن کر”
انہوں نے تاسف سے کہا
“ان ظالموں نے جو کیا اس کے بعد مجهے اپنے ہاتهوں سے اپنی بچی کو زہر دینا پڑے گا”
یہ بول کے وہ آگے بڑھ گئیں
اسکی پریگنینسی اور منگنی ٹوٹنے کی خبر پورے خاندان میں جنگل میں آگ کیطرح پهیل گئی
ایمان پوری طرح ٹوٹ چکی تهی پورا گهر هر وقت اسے تسلیاں دیتا رهتا مگر هر پل مسکرانے والی زندگی سے بهرپور وہ لڑکی ایسی بکهری کہ اپنی هی ذات کی کرچیوں سے لہولہان هوگئی
ایک دن اچانک هی مسز اسد ان کے گهر پہنچ گئیں
چاۓ اور ادهر ادهر کی باتوں کے بعد گویا هوئیں
“بہن میں آج یہاں آپکی قمیتی چیز مانگنے آئی هوں مجهے امید هے آپ انکار نہیں کریں گی بہت امید لے کر آئی هوں آپکے پاس”
چاۓ کا کپ میز پر رکهتے هوۓ بولیں
“جی همارے پاس کونسی ایسی قمیتی چیز هے سب آپکے سامنے هے”
مسز احمد نے کہا وہ حققیقا حیران تهیں
“میں اپنے بیٹے کے لئے ایمان کو مانگنے آئی هوں مجهے امید هے آپ لوگ مجهے خالی هاتھ نہیں لوٹائیں گے”
انہوں نے پر امید لہجے میں کہا
“مگر بہن ایمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ اتنا بڑا حادثہ هوا اور اسکی پریگنینسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
مسز علی نے دانستہ بات ادهوری چهوڑ دی
“مجهے سب معلوم هے انفیکٹ میرے بیٹے کو بهی سب پتہ هے بس آپ هماری جهولی بهر دیں”
انہوں نے مسز علی کے هاتھ پر دباؤ ڈالتے هوۓ کہا۔۔۔
“جی همیں تهوڑا وقت دیں آپکو سوچ کے جواب دیں گے”
مسز احمد نے کہا
جبکہ مسز علی اب تک شاکڈ تهیں
“جی جی آپ سوچ لیں مگر جواب هاں میں هونا چاهیے میرے بیٹے سے تو آپ مل چکی هیں پارٹی میں”
“جی هاں ماشاءاللہ بڑا هی پیارا فرمانبرار بچہ هے”
“بس تو پهر آپکے جواب کا انتظار رهے گا جلد از جلد میں یہ چاند اپنے آنگن میں دیکهنا چاهتی هوں”
انہوں نے کہا تو ان دونوں نے بهی اثبات میں سر هلا دئیے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
سب سے صلح مشورہ اور ایمان کی مرضی پوچهنے کے بعد مسز اسد کو هاں کہہ دی گئی اور وہ تو خوشی سے نہال هو گئیں ساتھ هی ساتھ دس دن میں هی شادی کی ڈیٹ بهی فکس هوگئی
نکاح سے رخصتی تک ایمان مٹی کی مورت بنی رهی مگر جب رخصتی کا وقت آیا تو کب کے روکے آنسو بہہ نکلے وہ اس شدید سے تڑپ کے روئی کہ وهاں موجود هر ایک کی آنکھ نم هو گئی
بے شمار دعاؤں کے ساۓ میں وہ ایمان علی سے ایمان جہانزیب بن کر آفندی هاوس سے رخصت هوگئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
دلہن بنی وہ بے انتہا خوبصورت لگ رهی تهی مگر اپنے حسن سے انجانے اسکا دل اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تها رب کے بعد وہ اس ایک شخص کی شکرگزار تهی جیسے اس نے آج تک نہیں دیکها تها مگر اسی شخص نے آج اسکو اور اسکے بہت سے اپنوں کو بے موت مرنے سے بچا لیا تها
اسکی سوچوں کی ڈور تب ٹوٹی جب اسے دروازہ کهلنے اور بند هونے کی آواز آئی سر بے اختیار جهکا لیا آنسو بہت ضبط کے باوجود بهی اسکا دامن بهگونے لگے
وہ شخص آکر اسکے سامنے بیٹھ گیا
“آج کے بعد آپ کبهی نہیں روئیں گی مس آفندی اوہ سوری مسز جہانزیب
وعدہ کریں”
اس نے اپنا هاتھ آگے کیا
ایمان نے بے اختیار نظریں اٹهائیں
وہ روئی روئی سی آنکهیں وہ معصومیت بهری حیرت والے چہرے والی لڑکی سیدها اسکے دل میں اتر گئی
جبکہ دوسری طرف ایمان حیرتوں کا پہاڑ لئے اسکی طرف دیکهے گئی ذهن دهندلا هونے لگا اس سے پہلے کہ وہ گرتی جہانزیب نے آگے بڑھ کر اس کانچ کی گڑیا کو بانہوں میں بهر لیا۔۔۔۔۔۔
چہرے پر پانی کے قطرے محسوس کر کے اس نے آنکهیں کهول دیں جہانزیب جو پچهلے پندرہ منٹ سے اسے هوش میں لانے کی کوشش کر رها تها اس نے سکون کا سانس لیا جبکہ ایمان اٹھ بیٹهی
“سر آپ یہاں”
وہ اب بهی حیران تهی
“تو پهر مجهے کہاں هونا چاهیے”
اشتیاق سے پوچهامگر۔۔۔۔”
وہ الجھ سی گئی
“آپ هی نے مجهے تین بار قبول کیا هے آپکو شاید یاد نہیں مگر مجهے یاد بهی هے اور میرے پاس گواہ بهی هیں”
نرم لہجے میں کہا گیا وہ کچھ نہ بولی خاموشی سے آنسو بہاتی رهی
“ارے ارے اب یہ آنسوؤں کا نلکا بند کر دیں همیشہ کے لئے کیونکہ اب میں آپکو کبهی رونے نہیں دوں گا جتنا رونا تها رو چکیں”
وہ اس کے آنسو صاف کرتا هوا بولا
“اچها چلیں اب آپ چینج کر لیں بہت رات هو گئی هے”
اور وہ اٹهنے لگی تبهی جہانزیب نے روک دیا
“ائم سوری منہ دکهائی تو میں دینا هی بهول گیا هاتھ دیں اپنا”
جیب سے رنگ نکال کر اسکی انگلی میں پہنا دی
“اب آئی هے یہ اپنی اصلی جگہ پر”
رنگ پہنا کر اسکو دیکهتا هوا بولا اور وہ چینج کرنے واش روم کی جانب بڑھ گئی
چینج کر کے جب وہ واپس آئی تب تک جہانزیب اپنا بستر صوفے پر سیٹ کر چکا تها وہ چپ چاپ آکر بستر پر لیٹ گئی مرد ذات پر سے اعتبار ٹوٹا تها اس بات کا اندازہ شاید جہانزیب کو هو گیا تها تبهی اس نے صوفے پر شفٹ هونے کا فیصلہ کیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اگلے کچھ دنوں تک دعوتوں کا سلسلہ چلا مسز اسد ایک مہربان اور خیال رکهنے والی ساس ثابت هوئیں انکا کہنا تها جو هوا اس میں ایمان کا کوئی قصور نہیں تها جبکہ جہانزیب بهی اسکا اس حالت میں حد سے زیادہ خیال رکهتا
ایک دن جہانزیب کے بهائی اور بهابی جو کہ الگ رہتے تهے ملنے آۓ خوب آؤبهگت هوئی انکی اور پهر سونیا بهابی کے اصرار پر ایمان اسے اپنے روم میں لے آئی
“هاں تو کیسی جارهی هے تمهاری لائف”
طنزیہ لہجے میں پوچها گیا اور وہ سر جهکا کر صرف “اچهی” هی کہہ سکی
“هاں بهئی اچهی هی جاۓ گی آخر اتنا هینڈسم هزبینڈ اور مما جیسی ساس جو ملی هیں”
اس بات پر اسکا سر مزید جهک گیا
“ویسے ایمان تم نے جہانزیب کو پهنسایا کیسے آئی مین تم جیسی یوزلیس گرل سے شادی کیسے کر لی نجانے کس کس کا گناہ پیٹ پر سجا کر گهوم رهی هو کریکڑلیس اسٹوپڈ گرل”
بے حد حقارت بهرے لہجے میں کہا گیا
“آپکی همت کیسے هوئی ایمان سے اسطرح بات کرنے کی هوتی کون هیں آپ اسکے کریکڑ کے بارے میں راۓ دینے والی”
جہانزیب جو کسی کام سے روم میں آرها تها سونیا کی باتیں سن کر اس سے برداشت کرنا مشکل هو گیا اب سونیا پر برس رها تها
“ہنہہ۔۔۔۔ میں نے کوئی غلط بات نہیں کی”
“چلی جائیں یہاں سے آپ”
کنڑول کرتے هوۓ بولا
“ویسے تمهیں میری بہن سے شادی کرنی چاهیے تهی کم از کم کنواری تو تهی اسکی طرح یوزلیس۔۔۔۔۔۔”
“آئی سیڈ گیٹ آوٹ فروم مائی روم”
بات پوری هونے سے پہلے وہ دهاڑا اور سونیا پاؤں پٹختی وهاں سے چلی گئی اور جہانزیب ایمان کی طرف مڑ گیا جو آنسوؤں کے ساتھ دهیرے دهیرے کانپ رهی تهی جہانزیب نے اسے سہارا دے کر بیڈ پر بیٹهایا گلاس میں پانی انڈیل کر اسکے هونٹوں سے لگا دیا
“تم ٹهیک هو ایمان”
آنسو صاف کرتے هوۓ نرم لہجے میں بولا اور وہ سر هلا کر رہ گئی
“آیم سوری ایمان مجهے تمهیں اکیلے نہیں چهوڑنا چاهیے تها”
وہ اسکے بےحد قریب آکر گلے لگاکر بولا اور تبهی وہ پهوٹ بهوٹ کر رو دی اور وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پهیرتے هوۓ ایک فیصلہ کر چکا تها
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“ماما میں نے فصیلہ کیا هے کہ میں لندن میں جو همارے آفس کی برانچ هے اسے میں خود هینڈ اوور کروں”
ناشتہ کی ٹیبل پر جہانزیب نے مسز اسد کو اطلاع دی
“مگر بیٹا اسطرح اچانک اور تم تو یہاں کے بزنس کو هائی اپ کرنا چاهتے تهے”
“جی ماما بس میں سوچ رها هوں وهاں کا کام بهی دیکھ لوں یہاں کا کام شاهزیب بهیا ال ریڈی دیکھ رهے هیں”
جہانزیب نے توس پر جیم لگاتے هوۓ کہا
“ٹهیک هے بیٹا جیسے تمهاری مرضی اور ایک بات میں بتا دوں تمهیں مجهے فورس مت کرنا ساتھ چلنے کو میں اپنا وطن نہیں چهوڑنے والی تم ایمان کو ساتھ لے جانا”
انہوں نے اجازت دینے کے ساتھ وارنگ بهی دے دی
“اوکے ماما”
مسکرا کر کہا
“خوش رهو خوب ترقی کروں”
انہوں نے صادق دل سے دعا کی
ایمان کو جب پتہ چلا کہ وہ ملک سے باهر جا رهے هیں تو منہ سے کچھ نہ بولی بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکهے گئی
“ایمان ایسے کیا دیکھ رهی هو مانا میں بہت هنڈسم هوں مگر یوں گهورو تو مت”
جہانزیب نے شرارت سے کہا اور وہ هونٹ کاٹ کے رہ گئی
“ایمان کیا بات هے کچھ کہنا چاهتی هو”
وہ اٹھ کر بیڈ پر آ بیٹها
اور اس نے نفی میں سر هلا دیا ساتھ هی آنسو اسکے گال پہ بہہ گیا
“ارے اتنا پانی کہاں سے لے آتی هوں میں تو کسی دن ڈوب هی جاؤں گا یار”
هلکے پهلکے لہجے میں کہا اور وہ نم آنکهوں سے مسکرادی
“گڈ گرل اچها اب بتاؤ کیا بات هے شاباش”
بالکل بچوں کیطرح ٹریٹ کر رها تها
“مما یاد آ رهی هیں”
رندهے هوۓ لہجے میں کہا اور جہانزیب تو گویا اسکی معصومیت پر فدا هو گیا
“اوه۔۔۔۔ اب سمجها اس لئے اتنا سیلاب بہایا جا رها هے ویسے ایمان ایک بات هے اگر یہی پانی کسی ڈیم میں سٹور کر لیں تو پاکستان کا الیکڑک کا پرابلم سولوز هو سکتا هے۔ نہیں۔”
مزاحیہ انداز پر اسکی آنکهیں ساون بهادو بن گئیں
“ایمان پلیز رو مت صبح چلیں گے وهاں پرامس اب یہ آنسو بند اوکے”
اسکے آنسو صاف کرتے هوۓ بولا اس نے بهی سر هلا دیا
¤ ¤ ¤ ¤
اگلی صبح ناشتے سے فارغ هوکر آفندی هاوس چل دیئے سب انہیں دیکھ کر خوش هوگئے جبکہ ثنا تو دیوانی هی هوگئی
“شکر هے تمهاری شکل تو دیکهنے کو ملی سچی میں نے تمهیں بہت مس کیا”
گلے لگتے هوۓ کہا
“آؤ بیٹا جہانزیب تم بهی آؤ بچے”
مسز علی نے دونوں کو ڈرایئنگ روم میں آنے کا کہا جہاں علی اور احمد آفندی صاحب آفس جانے کے لئے تیار کهڑے حمزہ کا انتظار کر رهے تهے وہ بهی ان کو دیکھ کر بہت خوش هوۓ
“ارے واہ میری بیٹی آئی هے”
علی اور احمد آفندی نے خوش اخلاقی سے ایمان اور جہانزیب کو گلے لگایا
“ثنا بهائی کہاں هیں”
چاۓ لاتی ثنا سے پوچها
“وہ محترم تیار هو رهے تهے لو آ گئے
“ارے میری گڑیا آئی هے کیسی هو بیٹهو”
حمزہ نے پیار سے اسے ساتھ لگاتے هوۓ کہا
“اور بڈی تو کیسا هے غائب غائب هے آفس بهی نہیں آ رها خیر هے نا سب”
کچھ باتوں کے بعد جب سب لوگ ایمان کو لے کر روم میں گئے جبکہ احمد اور علی صاحب ضروری میٹنگ کی وجہ سے آفس جا چکے تهے حمزہ کا کوئی خاص کام نہیں تها تو اس نے چهٹی کر لی تهی
” هاں یار خیر هے سب بس لندن والا بزنس جوائن کرنے کا ارادہ هے کچھ دنوں میں یہاں کا کام شاہزیب بهیا سنبهال لیں گے”
“او۔۔۔۔ اچها تو لندن شفٹ هونے کا
ارادہ هے”
حمزہ نے پوچها
“هاں یار ”
“ایمان کو بهی ساتھ لے جاۓ گا کیا”
“هاں یار میں نہیں چاهتا وہ یہاں رہ کر سب خاندان کی باتیں برداشت کرے اسے بهی لے جاؤں گا ساتھ”
جہانزیب نے بتایا تو حمزہ نے سر هلا دیا
لنچ ٹائم میں سب موجود تهےاور خاصا اهتمام کیا گیا تها
کهانے کے دوران هی جہانزیب نے سب کو لندن شفٹ هونے کی خبر سنائی سب نے اسے ایک اچها فیصلہ قرار دیا ساتھ هی همیشہ رابطے میں رهنے کا وعدہ بهی لیا اور پهر شام هونے سے پہلے وہ سب کو خداحافظ کہہ کر لوٹ آۓ
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اور پهر کچھ دنوں میں وہ دونوں لندن کی سرزمین پر کهڑے تهے
ڈرائیور کو جہانزیب نے کال کر دی تهی وہ انہیں لینے پہنچ گیا تها
“چلیں بیگم صاحبہ”
جہانزیب نے ایمان کو کہا جو آنکهیں پهاڑے دیکھ رهی تهی جہانزیب کے پکارنے پر چونکی اور سر جهٹک کر کار میں بیٹھ گئی پورا سفر وہ صاف شفاف سڑکیں بلند و بالا عمارتیں دیکهتی رهی جبکہ جہانزیب اسے اشتیاق سے دیکهتا رها
اور جب گهر میں قدم رکها تو وہ ٹهٹهک گئی
“اتنا بڑا گهر هم یہاں اکیلے رهیں گے”
حیرت سے پوچها
“نہیں نہیں اکیلے کیوں میں کوئین الزبتهه کو کال کرتا هوں وہ کمپنی دے گی یہاں آکر همیں”
شوخیہ انداز میں کہا گیا پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور جب سمجھ آیا تو بے اختیار سر جهکا لیا
“ایمان اس طرح سر مت جهکایا کرو تم مجرم نہیں هو اعتماد پیدا کرو خود میں اسطرح سر جهکا کر تم مجهے میری محبت کو مجرم بنا دیتی هو تم میری بیوی هو میری عزت میری محبت جو بیت گیا بهول جاؤ وہ تمهارا ماضی تها اپنے حال میں جینا سیکهو بہادر بنو”
کندهے سے پکڑ کے وہ اسے سمجها رها تها اور وہ سر جهکاۓ سر هلا رهی تهی
“یہاں دیکهو اور سمائل کرو”
اور وہ مسکرادی
“آؤ تمهیں گهر دکهاتا هوں”
وہ اسکا هاتھ پکڑتے هوۓ آگے بڑھ گیا جبکہ کوئی ایمان سے پوچهتا بهول جانا اگر آسان هوتا تو آج دنیا میں کوئی دکهی نہ هوتا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
آنے والے دنوں میں جہانزیب نے اسکے لئے ایک نرس میڈ گاڈز سب کا بندوبست کر دیا تها وہ خود بهی آفس سے شام کو جلدی گهر واپس آجاتا اسے آوٹنگ پر لے جاتا ڈاکڑ نے واک کرنے کو کہا تها وہ اسکا هر طرح سے خیال رکهتا اور رات کو اسکائپ پر سب سے بات کروا کر اسے خود کهانا کهلا کر سلا کر صوفے پر لیٹ جاتا دیر تک اسکے بارے میں سوچتا رهتا اور نجانے کب نیند کی وادیوں میں کهو جاتا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...