لاونج میں پہنچ کر دونوں ٹهٹهک گئیں سامنے صوفے پر مسز اسد براجمان تهیں اور ساتھ ایک اور خاتون بهی تهیں دونوں نے آگے بڑھ کر باری باری سلام کیا
“وعلیکم سلام بچوں جیتے رهو خوش رهو”
دونوں کو باری باری پیار سے اپنے ساتھ لگا کر کہا
“آؤ بچوں بیٹهو”
انہوں نے پیار سے کہا تو وہ دونوں بهی انکے ساتھ بیٹھ گئیں
“بهئی مجهے آپکی بچی بہت پسند هے”
انہوں نے ایمان کی طرف دیکهتے هوۓ کہا اور ایمان نے نا سمجهی سے اپنی ماں کی طرف دیکها
“ایمان ثنا جاؤ چاۓ وغیرہ کا انتظام کرو”
مسز علی نے ایمان اور ثنا کو کہا اور وہ دونوں شرافت سے کهسک گئیں
“مجهے دال میں کچھ کچھ کالا لگ رها هے”
ایمان نے چاۓ کے لئے پانی چڑهاتے هوۓ کہا
وہ دونوں اس وقت کچن میں کهڑی باتوں میں مصروف تهیں
“اور مجهے پوری کی پوری دال هی کالی لگ رهی هے ڈئیر سسٹر”
ثنا نے کباب فرائی کرتے هوۓ کہا
“کیا مطلب”
“مطلب آنٹی جس طرح تیرے صدقے واری هو رهی تهیں باہر اور جیسی باتیں کر رهیں تهیں اسکا صاف مطلب هے وہ تیرے رشتے کے لئیے تشریف فرما هیں”
“هاں هو سکتا هے مگر انکا بیٹا کون هے پارٹی والے دن بهی نظر نہیں آیا نا؟”
۔۔۔
“جو بهی هوگا تیرا هی نصیب هوگا فکر مت کر اور میرے ساتھ یہ چیزیں اٹهوا اور اپنی هونے والی ساس کو چاۓ سرو کر”
ثنا نے ٹرے کی طرف اشارہ کرتے هوۓ کہا
“ایویں هی میرا نصیب هوگا تو جانتی هے مجهے ایم ایس سی کرنی هے اس سے پہلے شادی نو نیور ایور”
ایمان نے گردن نفی میں هلاتے هوۓ کہا
“اوکے بابا کر لینا تو ایم ایس سی فی الحال تو چاۓ ٹهنڈی ہورہی ہے اور لاونج میں مما اور چاچی گرم هو رهے هو گے بہتر هو گا ابهی چاۓ وغیرہ پہنچا آئیں هم کیا خیال هے میڈم ایم ایس سی”
ثنا نے ایمان کو کہا تو اس نے بهی سر هلا کر ٹرے اٹها لی اور دونوں لاونج کی طرف روانہ هوگئیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“مجهے کیا اعتراض هوگا مگر ایمان کی مرضی بهی پوچهنا ضروری هے”
علی آفندی بولے اور ایمان اپنا نام سن کر جاتے جاتے وهیں رک گئی
“هاں ضرور بهائی صاحب کیوں نہیں اور مجهے یقین هے ایمان کا جواب بهی اثبات میں هوگا انشاءاللہ”
یہ سارہ کی آواز تهی اور اس انشاءاللہ پہ سب نے انشاءاللہ کہا
اس وقت علی آفندی کے روم میں گهر کے سبهی بڑے موجود تهے جبکہ کامران ثنا حمزہ اس وقت ٹیرس پر موسم انجواۓ کر رهے تهے اور بہت منتوں کے بعد ایمان کو نیچے پکوڑے بنانے کے لئے بهیجا گیا تها۔۔۔
“اسکا ارادہ تو پوری بات سن کر جانے کا تها مگر اپنے موبائل پر کامران کی کال آتا دیکھ کر بادل نخواستہ اس نے پکوڑوں کی ٹرے کیساتھ اپنے قدم ٹیرس کی جانب بڑها دئیے
“پکوڑے بنا رهی تهی یا پاۓ اتنی دیر سے ویٹ کر رهے هیں هم تمهارا لاؤ پکڑاؤ مجهے یہ”
ثنا نے اسکے هاتھ سے ٹرے لیتے هوۓ ہلکی سی ڈانٹ لگائی
“حد هے ثنا هر وقت پیٹ تو جیسے هاتهوں میں هوتا هے تمهارا لو ٹهونسو”
ٹرے اسے پکڑاتے هوۓ بولی اسی اثناء میں حمزہ اور کامران بهی قریب آ گئے جو کچھ فاصلہ پر کهڑے بزنس ڈسکس کر رهے تهے
“ارے واہ میری گڑیا بہن کے هاتھ کے پکوڑے واہ واہ مزہ آگیا”
حمزہ نے پکوڑآ منہ میں ڈالتے هی تعریف شروع کر دی سب جانتے تهے یہ تعریف دراصل ثنا کو جلانے کے لئے تهی اور کوئی موقع هوتا تو وہ جواب دینے میں دیر نا لگاتی آج نجانے کس موڈ میں تهی
“کها لیں اس کے هاتھ کے بهی ساری زندگی میرے هی هاتهوں کی سوغاتیں نوش فرمانی پڑیں گی جناب”
ثنا نے اتراتے هوۓ کہا اور حمزہ وهیں دل پکڑ کر بیٹھ گیا اور اس حرکت پر سب هی ہنس پڑے
کامران کی نظر ایمان پر پڑی تو اسے کسی گہری سوچ میں ڈوبے پایا ایمان کچھ دیر پہلے کی باتوں کو سوچ رهی تهی جبکہ کامران اسکی سوچ کو سوچ رها تها کہ وہ کیا سوچ رهی هے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“نہیں مما مجهے کوئی اعتراض نہیں مگر آپ کامران بهائی سے بهی پوچھ لیں”
مسز علی نے اس وقت ایمان کو اپنے روم میں بلایا تها وہ اس سے کامران کے ساتھ منگنی کی رضامندی پوچھ رهی تهیں اور ایمان کے جواب نے انہیں مطمئن کر دیا تها
“اسی کے کہنے پر هی تو یہ منگنی هو رهی هے اور تم اب اسے بهائی کہنا چهوڑ دو”
انہوں نے اس پر انکشاف کیا اور ساتھ هی تنبہی بهی
“کیا مطلب مما اسی کے کہنے پر”
“مطلب میری پیاری پری کو وہ پسند کرتا هے اسی لئیے وہ چاہتا هے جتنا جلدی هو تم اس سے منسوب هو جاؤ”
انہوں نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگاتے هوۓ کہا اور ایمان کے اندر سکون اترتا گیا چاهے جانے کا احساس واقعی کمال هوتا هے
۔
ادهر ثنا کو پتہ چلا تو اس نے باقاعدہ بهنگڑے ڈالے
“میں تمهارے لئے بہت خوش هوں ایمان کامران بهائی اور تمهاری جوڑی پرفیکٹ کپل هوگا”
اور ثنا کی اس بات پر اسکا چہرے پر دهنک کے رنگ بکهر گئے اور اس لمحے کو کامران نے اپنے فون میں قید کر لیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
آج آفندی ہاوس کو دلہن کی طرح سجایا گیا تها
علی آفندی کی لاڈلی بیٹی ایمان افندی آج کامران سلمان سے منسوب هونے جارهی تهی۔۔۔
پورا گهر مہمانوں سے بهرا هوا تها هر سو خوشیاں تهیں
“ارے ثنا ایمان تیار هوئی کہ نہیں”
مسز احمد نے ثنا سے پوچها جو ابهی ابهی ایمان کی طرف سے آ رهی تهی
“جی مما بس فائنل ٹچ رہ گیا هے آل موسٹ ریڈی هی هے آپ چلیں میں دس منٹ میں اسے لے کر آ رهی هوں”
“اوکے مگر جلدی کرنا بیٹا سب فنکشن شروع هونے کا ویٹ کر رهے هیں”
“جی مما”
ثنا نے سعادت مندی سے سر هلایا اور کمرے کی جانب بڑھ گئی
اور پهر جیسے هی ایمان نے محفل میں قدم رکها سب کی نظریں اس پر جم سی گئیں
مسڑ اینڈ مسز علی نے نظروں هی نظروں میں اسکی نظر اتاری جبکہ مسز احمد اور سارہ سلمان نے بهی نظر نہ لگ جانے کی دعا مانگی
جبکہ کامران کی نطریں تو جیسے پلٹنا هی بهول گئیں
سی گرین کلر کے فراک اور سی گرین اینڈ گولڈن کلر دوپٹہ ساتھ میں سمپل جیولری اور هلکے میک آپ میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رهی تهی
لڑکیوں کے جهرمٹ میں اسے اسٹیج تک لایا گیا
“آهھھمممم کامران بهائی نظروں کے راستہ هی کهانے کا ارادہ هے کیا”
ثنا نے کامران پہ ٹونٹ کیا اور اس نے چهینپ مٹانے کے لئے دائیں بائیں دیکهنا شروع کر دیا
اسی طرح خوشگوار موڈ میں رسم ادا کی گئی اور آخر میں فوٹو سیشن هوا۔۔۔
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“واوو ایمان تمهاری پکس تو بہت زبردست آئیں هیں کونگریس وانس اگین”
کلاس فیلوز کے بے حد اصرار پر آج ثنا منگنی کی تصاویر کا البم کالج لائی تهی اور اب سب ایمان کو مبارک باد دے رهے تهے
کچھ دیر بعد جب مبارک باد کا سلسلہ تهما تو دونوں کلاس سے باهر اپنی من پسند جگہ کوریڈور کا چکر لگانے لگیں
“ثنا یار سن تهوڑی دیر یہیں بیٹهتے هیں”
ایمان نے سیڑهیوں کی طرف اشارہ کرتے هوۓ کہا
“کیوں کیا هوا طبعیت تو ٹهیک هے نا تیری”
ثنا نے تشویش سے اسکے زرد پڑتے چہرے کو دیکها
“پتہ نہیں یار بس چکر آرهے هیں”
دونوں هاتهوں سے سر تهامتے هوۓ بولی
“مائی گاڈ تجهے تو بخار هے تو یہاں بیٹھ میں تیرے لئے جوس لے کر آتی هوں”
ثنا نے اسے سیڑهیوں پر بٹهایا اور خود کنٹین کی طرف دوڑی جبکہ ایمان نے نقاہت سے آنکهیں موند لیں
“واٹ هیپنڈ مس آفندی آر یو اوکے”
اسے آنکهیں بند کیے بمشکل ایک منٹ هوا تها جب سر جہانزیب کی آواز پر وہ چونکی
“یس سر ایم فائن”
دیوارکا سہارا لے کر وہ کهڑی هوئی
“ٹهیک لگ تو نہیں رهیں آپ”
انہوں نے اسکی لال آنکهوں کو دیکهتے هوۓ کہا
“سر ایکچولی اسے بخار هے”
ایمان نے کچھ کہنے کے لئے منہ کهولا هی تها کہ ثنا جو ابهی ابهی جوس لے کر لوٹی تهی بول پڑی
“اوہ! پهر تو آپکو گهر جانا چاهیے چلیں میں آپ لوگوں کو گهر ڈراپ کر دیتا هوں”
انہوں نے آفر دی
“بٹ سر ابهی ایک پیریڈ باقی هے چهٹی میں”
ثنا نے ایمان کو تهامتے هوۓ کہا جو کچھ هی دیر میں برسوں کی بیمار نظر آنے لگی تهی
“نو پرابلم میں پرنسپل سے بات کر لیتا هوں آپ انہیں لے کر میری کار تک چلیں یہ لیں چابی”
انہوں نے چابی ثنا کے حوالے کی اور خود پرنسپل کے آفس کی طرف چل پڑے جبکہ ثنا ایمان کو سہارا دے کر گاڑی تک لے آئی
“ایمان ویٹ کر میں هم دونوں کے بیگ لے کر آتی هوں اوکے”
ثنا نے اسے گاڑی میں بٹهانے کے بعد کہا
“پلیز جلدی آنا”
ایمان نے کہا اور وہ سر هلاتی هوئی کلاس کی طرف روانہ هو گئی
“مس آفندی اگر آپکی طبعیت زیادہ خراب هے تو ڈاکڑ کے پاس چلتے هیں”
سر جہانزیب نے گاڑی میں بیٹهتے کر اسے دیکهتے هوۓ کہا چہرہ بخار کی شدت سے سرخ هو رها تها
“نو سر کائنڈلی گهر ڈراپ کر دیں اینڈ ایم سوری سر آپکو زحمت هوئی میری وجہ سے”
کمزور آواز میں معذرت کی گئی
“اٹس اوکے مس آفندی آپ حمزہ کی سسڑ هیں اگر حمزہ کو پتہ چلا کہ میں نے آپکا خیال نہیں رکها تو مجهے معطل هی کروا دے گا”
انہوں نے هلکے پهلکے انداز میں کہا اور اپنے بهائی کی محبت سوچ کر ایمان مسکرادی
“مے آئے کم ان کار سر”
ثنا نے مزاحیہ انداز میں پوچها اس انداز پر سب جی جان سے مسکرا اٹهے
جہانزیب نے کار آفندی هاوس کی جانب بڑها دی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
گهر پہنچتے هی ایمان کو شدید بخار نے آلیا فوری طور پر ڈاکڑ کو بلایا گیا اس نے سکون آور انجکشن لگایا اور کچھ میڈیسن دیں وقتی طور پر اسکا بخار کم هو گیا مگر رات هوتے هی پهر سے بخار کا حملہ هو گیا فوری طور پر اسے هاسپٹل لے جایا گیا ڈاکڑ کے تفصیلی چیک اپ اور کچھ ٹیسٹ کے بعد اسے ڈینگی بخار تشخیص هوا تشخیص کے بعد اسکا علاج شروع کر دیا گیا تها گهر کی عورتوں کے علاوہ سب مرد اس وقت هاسپٹل میں تهے
“انکل آپ سب گهر جائیں میں هوں یہاں پر”
کامران نے احمد آفندی کی طرف دیکهتے هوۓ کہا
“هاں پاپا آپ جائیں گهر وهاں سب پریشان هو رهے هونگے هم هیں یہاں پر آپ بالکل فکر مت کریں ایمان ٹهیک هو جاۓ گی”
حمزہ نے اپنے باپ اور تایا کو کہا وہ جانتا تها ایمان میں سب کی جان هے
“بیٹا مگر میری بچی۔۔۔۔۔۔”
پاپا وہ ٹهیک هے دیکهنا صبح تک بالکل ٹهیک هو جاۓ گی انشاءاللہ”
“انشاءاللہ”
سب نے یک زبان هوکر کہا
“کامران تم پلیز انہیں گهر چهوڑ آؤ”
حمزہ نے کامران کو کہا جو خود بهی کافی پریشان تها
“هاں۔۔۔۔۔۔ چلیں انکل”
بیٹا خیال رکهنا میں صبح آؤں گا”
جاتے جاتے انہوں نے حمزہ سے کہا اور اس نے اثبات میں سر هلا دیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
چار دن هاسپٹل میں زیر علاج رہ کر بلاآخر آج اسے ڈسچارج کر دیا گیا تها مگر ساتھ هی مکمل پرهیز اور میڈسنز کا ڈهیر دیا گیا
“تم نے تو ڈرا هی دیا تها یار”
سب باری باری مل کر اور آرام کرنے کی تلقین کر کے جا چکے تهے تب ثنا نے اس کے گرد کمبل لپیٹتے هوۓ کہا
“کیوں میں اتنی بدصورت لگ رهی هو کیا؟”
بے حد معصومیت سے سوال کیا گیا اور ثنا نے اپنا سر پیٹ لیا
“هاں بہت بدصورت لگ رهی هو بالکل بل بتوڑی کی اماں”
ثنا نے سنجیدگی سے کہا اور ایمان کو تو جیسے صدمہ هی لگ گیا
“کیا کہا صبر کر”
اسے مارنے کے لئے اٹهی مگر کمزوری کے باعث چکرا کر دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئی یہ منظر اندر آتے کامران نے بهی دیکھ لیا تها اور بهاگ کر اس کے پاس پہنچا تها
“ایمان تم ٹهیک هو نا”
وہ اس کے پاؤں میں بیٹها اس سے نرمی سے پوچھ رها تها
“جی میں ٹهیک هوں”
مسکراتے هوۓ جواب دیا
“اوۓ لڑکی میری وائف سے دور رهو تم ذرا”
کامران نے انگلی اٹها کر ثنا کو کہا
“ایکسوزمی یہ آپکی وائف نہیں هے هاں میری فرینڈ کزن دوست بہن ضرور هے تو آپ ذرا فاصلہ رکهیں”
ثنا نے بهی ترکی بہ ترکی جواب دیا
“وائف تو میری هی بنے گی اور تب تو میں تم جیسی چڑیل کو اسکی آس پاس بهی نہیں پهٹکنے دوں گا”
شرارت سے بهرپور لہجے میں کہا گیا
“دیکهیں گے تب کی تب فی الحال آپ تشریف لے جائیں تاکہ وہ آرام کر سکے”
ثنا نے ایمان کو دیکهتے هوۓ کہا جو نڈهال سی لگ رهی تهی
“اوکے بابا جارها هوں گیٹ ویل سون ایمان”
ایمان نے مسکراتے هوۓ سر هلا دیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
کامران اور سارہ کو واپس لندن جانا تها
“میں واپس آؤں تو تم بالکل فریش ملنی چاهیے سمجهی”
اس وقت وہ لان میں ایمان کے ساتھ بیٹها تها صبح نو بجے انکی فلائٹ تهی
“میں ٹهیک هوں آپ جلدی واپس آنا پلیز”
گلوگیر لہجے میں بولی
“اوکے بابا اب یہ بن موسم برسات مت شروع کر دینا آئی پرامس میں جلدی واپس آوں گا اور تمهیں همیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جاؤں گا”
اسکی اس بات پر ایمان کا سر جهک گیا
“اب تو مسکراؤ نا پرامس بهی کر لیا”
اور وہ نم آنکهوں سے مسکرا دی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...