احمد اور علی آفندی نے کامیاب بزنس ڈیلینگ کی خوشی میں لان میں ایک چهوٹی سی پارٹی کا اہتمام کیا تها جس میں ان کے نئے بزنس پارٹنر اور انکی فیملی انوائٹیڈ تهی۔
چونکہ یہ ایک فیملی پارٹی تهی تو آفندی هاؤس کے مکین بهی پارٹی میں پیش پیش تهے
ثنا اور ایمان بهی جب تیار هو کر لان میں پہنچے بے اختیار سب کی نظریں دونوں کی جانب اٹھ گئیں لائٹ پنک کلر کے فراک میں لائٹ میک اپ اور جیولری پہنے ثنا اچهی لگ رهی تهی جبکہ فل بلیک ڈریس میں ملبوس میک اپ اور جیولری سے بے نیاز کهلے بالوں کے ساتھ ایمان نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رهی تهی
“ارے ادهر آؤ ثنا, ایمان”
مسز علی کی آواز پر وہ دونوں انکی جانب بڑھ گئیں
“یہ میری بیٹی ایمان اور یہ میری بهتیجی اور میرے حمزہ کی هونے والی دلہن ثنا اور بچوں یہ مسز اسد هیں تمهارے پاپا اور انکل کے نیو بزنس پارٹنر کی وائف”
مسز علی نے باقاعدہ تعارف کرواتے هوۓ کہا
“اسلام عکیکم آنٹی”
دونوں نے بیک وقت سلام داغا
“وعلیکم اسلام بچے ماشاءاللہ بہت پیاری بچیاں هیں”
مسز اسد نے دونوں کو پیار کرتے هوۓ کہا
اور وہ دونوں وہاں سے کهسک گئیں۔۔۔
•••••••
“ایمان بات سنو ثنا کہاں هے”
جمزہ کی آواز پر وہ پلٹی
“وہ ثنا تو ابهی یہیں تهی شاید اندر هو میں بلا کے لاتی هوں بهائی”
اس نے اندر کی جانب قدم بڑهاۓ جب حمزہ نے اسے روک دیا
“اسے چهوڑو آؤ تمهیں کسی سے ملوانا هے”
حمزہ اسے لئے ایک ٹیبل کی جانب بڑھ گیا جو قدرے الگ گوشے میں تهی “یہ هے میری لاڈلی بہن ایمان اور ایمان یہ هے میرا بیسٹ فرینڈ اور اب بزنس پارٹنر بهی جہانزیب”
حمزہ نے بڑے اطمینان سے تعارف کروایا
“تم لوگ باتیں کرو میں ابهی آیا”
حمزہ نے موبائل کان سے لگاتے هوۓ کہا اور جہانزیب نے مسکراتے هوۓ اثبات میں سر ہلا دیا اور ایمان کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی عملی تفسیر بنی کهڑی تهی
“مس آفندی آر یو اوکے”آنکهوں کے آگے هاتھ لہرا کر پوچها جو کہ اب تک بے یقینی سے آنکهیں پهاڑے اسے دیکهے جا رهی تهی
“مس ایمان”
قدرے تیز آواز میں بولا گیا تو وہ چونکی
“سس۔۔۔سر آپ یہاں کیوں”
صدمے اور ڈر کے مارے بولا هی نہیں جا رها تها
“کیا مطلب میں یہاں کیوں”
آنکهیں سکیڑ کے پوچهے گۓ سوال پر پهر سے گڑبڑا گئی
“مم۔ میرا مطلب سر موسٹ ویلکم ان آور هوم میں ابھی آتی هوں”
گبهرائی هوئی سی وہ سیدها اپنے روم کی طرف بهاگی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
وہ دونوں اس وقت کالج کوریڈور میں گهوم رهیں تهیں جب سر زیب کی آواز پر دونوں چونکیں
“مس آفندی ذرا لیب میں تشریف لائیں”
سپاٹ لہجے میں کہا گیا
“سر کو مجهے سے کیا کام پڑ گیا”
ایمان پر سوچ انداز میں بولی
“ایمان کہیں سر تیرے سے پارٹی والی بات کا بدلہ تو نہیں لینا چاهتے”
ثنا نے راز داری سے کہا جس کو ایمان نے ساری سٹوری بتادی تهی
“نہیں کیوں لیں گے بدلہ میں نے کونسا ان کی پاکٹ ماری هے چل پهر بهی دیکهتی هوں ایسا کیا کام پڑ گیا”
“هاں تو جا میں جب تک کنٹین میں تیرا ویٹ کر رهی هوں سیدهی وهیں آ جانا”
ثنا نے کہا اور وہ سر هلاتی لیب کی جانب بڑھ گئی
¤ ¤
“مے آئی کم ان سر”
“یس کم ان”
سپاٹ لہجے میں اجازت دی گئی
“سر آپ نے بلایا تها”
سر جهکا کر بولی
“جی کچھ پوچهنا تها آپ سے پلیز هیو آ سیٹ”
نرم لہجے میں کہا گیا مگر وہ اندر تک ڈر گئی
“کہیں اس دن والی بات تو نہیں پتہ چل گئی؟”
خوفزدہ انداز میں سوچتے هوۓ سامنے رکهی چیئر پر براجمان هو گئی
“تو مس آفندی پارٹی والے دن کہاں غائب هو گئیں تهیں آپ”
نظر اٹها کر اس کے چہرے کو دیکها
“وہ ۔۔۔سس۔ سر میں مممم مجهے کام تها تو بس میں بزی هو گئی تهی ایم سوری سر”
انگلیوں کو آپس میں مروڑتے سر جهکا کر بولی
“ہمممم۔۔۔اٹس اوکے یہ لیں آپکا ایئر رنگ پارٹی کی شام جب آپ جانے لگیں تهیں تب گر گیا تها اینڈ آئی ایم ون هنڈرڈ پرسنز شیور کہ آپ نے دوبارہ اسے ڈهونڈنے کی زحمت نہیں کی هو گی”
اسکا ائیر رنگ دراز سے نکال کر اس کے سامنے رکهتے هوۓ بولے تو مارے ندامت کے اسکا سر مزید جهک گیا
اس میں کوئی شک نہ تها کہ اس نے اپنے گمشدہ ائیر رنگ کو ڈهونڈنے کا تکلف نہیں کیا تها حالانکہ مسز علی نے کئی بار اسکو اپنا کمرہ چیک کرنے کا کہا مگر هر بار اس نے ٹال دیا
“هینک یو سر”
ائیر رنگ اٹها کر وہ جانے کے لئے کهڑی هوئی
“بی میچیور مس آفندی”
جاتے جاتے بهی نصحیت کرنا نہ بهولے اور وہ ایک پل رک کر تیزی سے آگے بڑھ گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“واٹ”
ایمان اپنی پوری طاقت سے چلائی
“اففففف توبہ هے ایمان کان کا پردہ پهاڑو گی کیا میرے”
ثنا نے اسے پهپهو کے انگلینڈ سے آنے کی خبر سنائی تب هی حیرت اور خوشی سے وہ چلا اٹهی اور اب ثنا اتنا زور سے چلانے پر اسکی عزت افزائی کر رهی تهی
“کب آ رهیں هیں کتنے دنوں کے لئے تمهیں کس نے بتایا”
ایک هی سانس میں سوال کیے گئے
“حوصلہ حوصلہ ایک ویک تک آئیں گی مما نے بتایا”
#
#
“یاهو کتنا مزہ آئے گا نہ پهپهو کے ساتھ گهومیں گے پهرے گے شاپنگ آوئٹنگ هوٹلنگ او ایم جی مجهے تو سوچ سوچ کے هی مزہ آ رها هے ورنہ تو سارا دن بور هوتی رهتی هوں بورنگ لوگوں کے ساتھ”
سب جانتے تهے کہ سارہ سلمان کو شاپنگ هوٹلنگ کا جنون کی حد تک شوق هے اسی شوق کے جراثم کچھ ثنا میں اور بہت زیادہ ایمان میں منتقل هو چکے تهے
“کیا کیا کہا تم نے بورنگ هاں میری کمپنی تمهیں بور لگتی هے هاں صبر کرو تمهارا دماغ ابهی درست کرتی هوں میں”
ثنا جو اسکی اکسایٹمنٹ پر مسکرا رهی تهی آخری جملے پر جی جان سے سلگ اٹهی
اور پهر کمرے میں وہ طوفان آیا کہ اللہ امان
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“پههپو جان”
کالج سے واپسی پر ڈرائنگ روم میں سارہ سلمان کو بیٹها دیکھ کر دونوں بیک وقت چلائیں اور تقریبا بهاگ کر ان سے لپیٹ گئیں
جبکہ کامران جو اپنے دهیان میں چاۓ کے سیپ لے رها تها ان دونوں کی اچانک آواز پر صوفے سے دو فٹ اچهلا اور اپنے ساتھ ساتھ چاۓ کو بهی فضا میں اچهال کر اپنے تهری پیس سوٹ پر گرنے کا نادر موقع فراهم کیا
“آؤچ”کی آواز پر وہ دونوں کے ساتھ ساتھ سارہ مسز احمد اور مسز علی بهی پلٹیں۔۔۔
“ارے بیٹا یہ کیسے هو گیا دهیان سے پکڑنا تها نا کپ”
سارہ سلمان سوٹ پر گری چاۓ دیکهتے بولیں
کامران نے کچھ بولنے کے لئے منہ کهولا هی تها کہ مسز احمد بول پڑیں
“ارے سارہ چهوڑو بهی ڈانٹنا جان بوجھ کے تهوڑی نا گرائی هے اور کامران تم بیٹا جاؤ جا کر چینج کر لو تمهارا سامان اوپر کمرے میں رکهوا دیا تها چلو ایمان بیٹا کمرہ دیکهاؤ اسے”
مسز احمد نے ایمان کو حکم دیا جو اس کی اس حالت پر زیرلب مسکرا رهی تهی مسز احمد کا حکم سن کر مسکراہٹ غائب هو گئی اور وہ “آئیے” کہہ کر آگے روانہ هو گئی جبکہ کامران اسکے پیچهے چل پڑا
“ثنا اٹهو بچے کهانا لگواؤ تم جاکر باقی باتیں بعد میں کر لینا”
مسز علی نے ثنا کو کہا جو سارہ سلمان کے ساتھ لگ کربیٹهی تهی
چاچی کا حکم سن کر بادل نخواستہ اسے اٹهنا پڑا اور وہ لوگ پهر سے باتوں میں مشغل هو گئے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
رات کے کهانے پر خصوصی اہتمام کیا گیا تها
سب اس وقت ڈائنگ ٹیبل کے گرد بیٹهے کهانے اور خوش گپیوں میں مصروف تهے
“پهپهو هم کل گهومنے چلیں گے آپ ریڈی رہنا”
سیر و تفریح کی شوقین ایمان نے کہا
“هاں هاں کیوں نہیں ضرور چلیں گے میری جان”
سارہ نے حامی بهری۔۔۔
“کامران بهائی آپ بهی همارے ساتهه چلنا بہت مزہ آۓ گا”
ایمان نے کامران کو آفر کی جو کہ اسے هی دیکھ رها تها
“هاں ضرور کیوں نہیں”
کامران نے مسکرا کر کہا
ایمان اور ثنا کے فائنل پیپرز شروع هو گئے تهے اور دونوں اسکی تیاری میں مصروف تهیں تبهی گهر میں امن و سکون تها
خدا خدا کر کے پیپرز ختم هوۓ اور وہ دونوں پهر سے اپنی پرانی جون میں لوٹ آئیں
“کامران بهائی چلیں نا پلیز پلیز”
اس وقت وہ دونوں کامران کے سر پر کهڑی اس سے شاپنگ پر چلنے کی ضد کر رهیں تهیں جبکہ وہ مسلسل انکار کر رها تها
“توبہ هے لڑکیوں کتنی شاپنگ کرو گی ابهی هفتہ پہلے تو لے کر گیا تها تم لوگوں کو”
کامران حقیقت میں حیران تها
“وہ تو دو چار چیزیں هی لی تهی نا اب تهوڑی زیادہ شاپنگ کا موڈ هے اب اٹهیں نا کامران بهائی”
“واٹ دو چار چیزیں مس ایمان آفندی صاحبہ میرے خیال سے آپکی میتهمیٹک کافی خراب هے دس پندرہ شاپرز تو تهے هی یہ بات تو میں دعوے سے کہہ سکتا هوں”
ایمان کی دو چار چیزوں کی بات پر وہ اب تک صدمے میں تها
“ٹھیک هے مت لے کر جائیں آپکی هماری کٹی بس”
ثنا اور ایمان نے آنکهوں میں آنسو بهر کر کہا اور اپنے کمرے کی طرف روانہ هو گئیں۔۔۔
پانچ منٹ بعد هی ان کے دروازے پر دستک هوئی اور کامران کا چہرہ نمودار هوا
“توبہ هے بلیک میلر بلیوں اب یہ دریا بہانا بند کرو اور دو منٹ میں ریڈی هو کر آؤ گاڑی میں ویٹ کر رها هوں میں”
کامران نے انہیں اطلاع دی اور پورچ کی جانب چل پڑا
وہ رونا دهونا بهول کر نعرہ شاپنگ لگا کر تیاری میں لگ گئیں
“کتنی ڈرامے باز هو تم لوگ اللہ معاف کرے”
کامران نے کہا
“بس کبهی غرور نہیں کیا اپنی خوبی پر”
ثنا نے فرضی کالر جهاڑ کر کہا اور دونوں ہنس دیئے۔
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ثنا اور ایمان اس وقت سو رهیں تهیں جب مسز احمد نے آکر دونوں کو جگایا
“اٹهو تم لوگ جلدی سے فریش هو کر نیچے آؤ مہمان آۓ هیں”
مسز احمد نے چادر کهنچتے هوۓ کہا
“بڑی مما پلیز پانچ منٹ سونے دیں”
ایمان نے چادر واپس اوپر کهنچتے هوۓ کسمندی سے کہا
“دس منٹ میں تم لوگ نیچے هونے چاهیے هو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں هوگا”
یہ کہہ کر وہ چلی گئیں اور ان دونوں نے پٹ سے آنکهیں کهول دیں
“افففف ایک تو یہ مما کی دهمکیاں”
ثنا بڑبڑاتے هوۓ واش روم میں کهس گئی جبکہ ایمان نے بهی بستر چهوڑ دیا تها