ولیمے میں وہ برات سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی لائٹ ٹی پنک خوبصورت سا شرارا، لائٹ سی جیولری پہنے اور نازک سی ماتھا پٹی لگاے “شاہ میر” کے برابر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
شاندار ڈنر کے ساتھ پارٹی کا اختتام ہوگیا اور سب اپنے گھروں کو ہنستے مسکراتے لوٹ آے۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں آکر صوفے پے بیٹھ گئی “شاہ میر” بھی ساتھ ہی اندر آگیا تھا اس نے اپنا کوٹ صوفے پے ڈالا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔
وہ سوچ میں پڑھ گئی تھی آج کیا کروں۔۔۔۔
“اسکے دل میں “شاہ میر” کے لیے زرا بھی پیار نا تھا اور نا ہی کوئی احساس۔۔۔۔۔”
اتنے میں “شاہ میر” اسے یوں بیٹھا دیکھ کر اسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔۔ ،،،کیوں آج آپکو نیند نہیں آرہی۔۔۔۔۔۔!
“شاہ میر” نے شرارت سے کہا تو شبینہ نے بات بدلنا چاہی “آج ارینجمینٹ بہت اچھا تھا۔۔۔۔”
“شاہ میر”نے بھی نظر انداز کر کے
اسکی تعریف کی تھی
بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔۔
ایسا دیکھا نہیں خوبصورت کوئی
جسم جیسے ہے جنتا کی مورت کوئی
شاہ میر نے نگاہ بھر کر اسے دیکھا !
“شاہ میر” نے اسکا ہاتھ تھاما تو وہ اٹھ گئی میں فریش ہوجاتی ہوں تھک گئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
وہ “شاہ میر”سے بچ کر ڈریسنگ کے پاس جا کر اپنی چوڑیاں اتارنے لگی۔۔۔۔۔
شاہ میر نے ہمت نا ہاری۔۔۔۔۔اور اسکے پاس جا کر کھڑا ہوگیا میں آپکی مدد کر دوں ،اس سے پہلے وہ کچھ کہتی “شاہ میر” نے اسکے ایئر رنگز نکالنے میں مدد کی تو وہ پیچھے ہٹ گئی نہیں کیجئے پلیز۔۔۔۔۔
“شبینہ کے انداز میں شرم نہیں بیزاریت تھی۔ شاہ میر کو بہت عجیب لگا تھا ”
اس نے “شاہ میر” کی محبت کو جھڑک دیا تھا۔۔۔۔
“شاہ میر” پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔۔
!!کیا ہوا شبینہ تمہیں میں اچھا نہیں لگا؟
شاہ میر سنجیدگی سے مخاطب ہوا !
شبینہ کا دل چاہا کہہ دے ہاں نہیں اچھے لگے،تم مرد کب کس وقت چھوڑ جاؤ کوئی پتا نہیں
مجھے اعتماد نہیں تم پر۔۔۔
دور رہو مجھ سے!!!؛؛
پر وہ کچھ بھی نا کہہ پائی تھی اور رونے لگی “شاہ میر” کو اس پر ترس آیا تھا وہ سب کچھ چھوڑ کر اسکے لیے ہی تو ائی تھی۔۔۔۔۔
“وہ سمجھ سکتا تھا جانتا تھا کہ
رب کائنات نے عورت کو مرد کی نسبت کمزور، حساس اور ضعیف و ناتواں مخلوق بنایا ہے لیکن کمزور ہونے کے باوجود اللہ نے اس کو ہمت و حوصلہ اور عزم کی قوت ایسی عطا کی ہے کہ وہ بہت بڑے بڑے اور مشکل کام خندہ پیشانی سے سرانجام دیتی ہے یہی تو کیا تھا اسنے اپنے ماں باپ اپنا گھر سب چھوڑ آئ تھی اسے یاد آیا کہ وہ کس طرح رو رہی تھی اپنی رخصتی پر وہ اسکے جذبات سمجھ سکتا تھا نیا گھر، نیا ماحول اور ایک ایسے شخص کا ساتھ جیسے کبھی اسکی کوئی بات نا ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ سلجھا ہوا سمجھ رکھنے والا انسان تھا کہ عورت حساس، نازک دل اور نازک جذبات کی مالک ہوتی ہے۔ ذرا سی خوشی پر مسرت سے پھول کر پہاڑ ہو جاتی ہے اور ہلکی سی دل آزاری اور ہلکی سی آنچ سے کانچ کے برتن کی طرح، ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتی ہے، اس کا دل حساس و شفاف آئینہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔
اور اس نے کسی زور زبردستی کے بنا ہی اسکے دل میں اترنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔۔
“شاہ میر” نے پانی کا گلاس اسکے آگے کیا تو اسنے گردن نا میں ہلا دی۔۔۔۔۔
اس نے پھر پینے کو کہا تو! شبینہ نے گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔۔۔۔۔
شاہ میر سنجیدہ ہو کر اسکے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
“شاہ میر”نے پیار سے اسکی طرف دیکھا اور کہا تمہیں پتا ہے تم بہت نازک ہو اور میں تمہیں کبھی ٹوٹنے نہیں دوگا۔۔۔۔میں تمہارا شوہر ہوں میں عمر بھر تمہیں تحفظ دونگا تمہیں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،
تم کیوں رو رہی ہو؟
دیکھوں اگر میں تمہیں اچھا نہیں لگتا تو بتا دو میں دوسری شادی کر لیتا ہوں اس نے شرارت میں کہا!
وہ خاموش رہی تو “شاہ میر”نے کہا اچھا ایسا کرو تم رو مت۔۔۔۔
میں دور ہوں تم سے پر ہم دوست تو بن سکتے ہیں نا؟
اور تمہیں تو پتا ہوگا لڑکا لڑکی کبھی دوست نہیں ہوتے دوستی کے بعد ہوتی ہے محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمارے بیچ صرف پاکیزہ محبت ہوگی کیوں کے ہمارے بیچ ایک نکاح کا پاکیزہ بندھن موجود ہے۔۔۔۔۔
جس میں بچھڑ جانے کا بھی ڈر نہیں ہوگا۔۔
اور پتا ہے جب شوہر بیوی کے درمیان محبت کی ندیاں رواں ہوجائیں تو زندگی حسین و جمیل ہوجاتی ہے!
ایک شوہر خواہ وہ کتنا ہی غریب ہو ان پڑھ ہو یا پھر منصب و شہرت سے خالی ہو پر محبت کی دولت سے خوب مالا مال ہوتا ہے اور اپنی بیوی پر یہ دولت خوب لٹا سکتا ہے۔اسے ہی ایک بیوی بھی چاہے وہ جتنی بھی پھوہڑ ہو کاہل ہو یا یا عام سی شکل صورت کی ہو محبت کی بے پناہ دولت اپنے اندر رکھتی ہےاور جب چاہے جس قدر چاہے اپنے شوہر پر نچھاور کر سکتی ہےاور محبت کے عظیم خزانے قدرت نے سب کے اندر رکھے ہیں۔۔۔۔۔
یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنے اندر موجود ان خزانوں سے مشقت بھری زندگی میں بھی خوش گوار زندگی کا لطف حاصل کر لیتا ہےاور کوئی خوش رہنے کی حسرت لیے ایک دن محبت کے خزانے کو بھی مٹی کے حوالے کر دیتا ہے۔۔
شبینہ پھر تم تو میری بہت حسین بیوی ہو نازک سے دل والی، تم تو محبت کی حقدار ہو پر میں تم سے کبھی کوئی زور زبردستی نہیں کروگا میں تمہیں بہت محبت دینا چاہتا ہوں، اتنی کے تمہارا آنچل بھی میری محبتیں سمیٹتے وقت چھوٹا پڑ جایگا مگر جب تک تم نہیں چاہتی ہو میں اپنی محبت اپنے دل تک محدود رکھوگا اور دیکھنا ایک دن تم بھی ہار جاؤ گی اور خود مجھ سے آکر کہوں گی کے تمہیں مجھ سے محبت ہے!
“اب تم جیسے چاہو فریش ہو کر آرام کر لو میں یہی صوفے پے ہوں کوئی مسلہ ہو تو اپنا دوست سمجھ کر اٹھا دینا ٹھیک ہے نا!وہ تکیہ اٹھا صوفے پر جا کر لیٹ چکا تھا!
شبینہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی کیا کوئی مرد اتنا بھی اچھا ہو سکتا ہے۔
پھر اسے خود پے بیتے ھوۓ لمحات اور بار بار ٹھکرایا جانا یاد آیا تو پھر سے وہ پتھر کی صنم بن گئی!
“شادی کا ہنگامہ ختم ہو چکا تھا اسکی سب نندیں اپنے اپنے گھر واپس چلی گئیں تھیں۔۔۔۔
اس نے اچھی طرح گھر سنمبھال لیا تھا وہ سادہ سے کپڑوں میں بنا کسی میک اپ بالوں کو لپیٹ کر جوڑا سا بناۓ، برتن دھو رہی تھی کے “شاہ میر”کی امی وہیں آگئیں۔۔۔۔
امی کچھ چاہیے تھا آپکو؟ اس نے اپنی ساس سے پوچھا !
“نہیں بیٹا میں تو ایسے ہی کمرے میں بیٹھی تھی تم جب سے آئ ہو مجھے ہلنے ہی کب دیتی ہوں جو میں کوئی کام کر کے مصروف رہوں سوچا تم سے باتیں یہی آ کر کر لوں!
“اچھا کیا امی اپنے !
“بیٹا گھر کے کام تو عورت کے مرنے کے بعد ہی جا کر ختم ہوتے ہیں تم خود پے بھی توجہ دیا کرو ابھی تمہاری شادی کو مہینہ بھی نہیں ہوا اور میں نے تمہیں کام پے لگا دیا!
“ارے نہیں نہیں امی یہ تو میرا اپنا ہی گھر ہے میرے ہوتے ھوۓ آپ کیوں کام کرے گی۔۔۔۔
شبینہ نے اپنائیت سے جواب دیا!
“اسکا رف سا حلیہ دیکھ کر اسکی ساس نے کہا!
بیٹا تم سج بن کر رہا کرو تمہاری عمر کی لڑکیاں تو خوب سجی بنی رہتی ہیں اور تم نے ابھی سے ایسا حلیہ بنا لیا،جب شاہ میر کے آنے کا وقت ہوا کرے تو اچھا سا جوڑا نکال کر پہن لیا کرو شوہروں کو سجی بنی بیویاں اچھی لگتی ہیں۔۔۔۔
“ساس کے کہنے پر اس نے “شاہ میر” کے آنے سے پہلے ہی اچھا سا جوڑا نکال کر پہن لیا تھا اس نے بالوں کو کھلا چھوڑ کر ہالف بالوں میں چھوٹا سا کیچر لگا لیا۔۔۔۔!
لائٹ سی لپسٹک اور کانوں میں بالی ڈالے وہ شام کی چاۓ بنا رہی تھی
شاہ میر بھی آفس سے آگیا
“شاہ میر” نے اسے تیار دیکھا تو پوچھنے لگا کہیں جا رہی ہو؟
اس نے کہا نہیں!
میں کہا جاؤں گی
شاہ میر نے محبت سے کہا !!
جہاں تم چاہو میں لے چلو گا
“نہیں مجھے نہیں جانا”
اسنے منا کر دیا تو شاہ میر بھی چپ ہوگیا۔۔۔۔
اسنے چاۓ کا کپ شاہ میر کو دیا تو اس نے لے لیا اسکی طرف دیکھ کر۔۔۔۔۔۔
چاۓ اس لیے بھی مجھکو بھاتی ہے
اسکی رنگت سے جو میل کھاتی ہے
شبینہ نے اسکا منہ بنا دیکھ کر شاہ میر سے کہا !!
کل آپکے دوست کی شادی ہے نا؟
ہممم ہے “شاہ میر”نے بھی عام سے انداز میں جواب دیا !
“کیا میں چل سکتی ہوں “” اس نے آج پہلی بار خود سے “شاہ میر”کے ساتھ جانے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شاہ میر”نے ہاں کر دی بلکل تم چلو گی؟
“اس نے حیرانی سے سوال کیا “”!!!!
جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کہہ کر کام میں لگ گئی تھی۔۔۔۔۔
“””””شبینہ اور شاہ میر کی شادی کو پورا ایک ماہ ہونے لگا تھا شبینہ نے اسکے گھر کو بہت اچھی طرح سمبھالا ہوا تھا اور وہ شاہ میر کے سارے کام پہلے سے پہلے کر دیتی تھی۔۔۔
شاہ میر کے اچھے برتاؤ کی وجہ سے وہ اس سے اب ڈرتی تو نہیں تھی پر شاہ میر جب اسکے قریب آنے کی کوشش کرتا وہ اسے جھڑک دیتی شاہ میر نے بھی آہستہ آہستہ اسے دوری بڑھا لی تھی۔۔۔۔
وہ اب پہلے کی طرح شبینہ سے بات بھی نہیں کرتا تھا شبینہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی سزا “شاہ میر” کو دے رہی تھی اور شاہ میر کا قصور یہ تھا کے وہ ایک مرد تھا اور اسکے دل میں مردوں کے لیے نفرت سی بیٹھی ہوئی تھی وہ اگر چاہتی بھی شاہ میر کے قریب آنا تو اسکی انا اسے ایسا نہیں کرنے دیتی تھی۔
“شاہ میر” کی امی نے اسے ساڑی پہنے کا مشورہ دیا تو اس نے کہا امی پر میں نے کبھی نہیں پہنی مجھے ساڑی پہن کر چلنا نہیں آتا اگر میں گر گئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساس نے بھی اپنا زور لگایا !
ارے تمہیں کیا دوڑ لگانی ہے ساڑی پہن کر کوئی نہیں گرتا تم نکال کر تیار رکھو وہی پہن کر جانا۔۔۔۔
اچھا سا سج بن کر جانا تم شادی شدہ ہو اس عمر میں جب میں “شاہ میر” کے ابا کے ساتھ جاتی تھی تو پورے چار گھنٹے لگا کر سولہ شنگار کرتی تھی پہلے۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہنس دی تھی پر دوسرے ہی لمحے اسے اپنا پندرہ شنگار یاد آیا تو آنکھوں میں اداسی اور درد کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔
“میں ایسا کرتی ہوں سامنے والی بچی ہے نا سائرہ اسکو بول دیتی ہوں بہت اچھا میک اپ کرتی ہے وہ گھر آ کر تمہیں ڈھنگ سے تیار کر دیگی ورنہ تم تو ایسے ہی ہلکا سا کر کے چلی جاؤ گی بیٹا اپنے شوہر کے لیے دل کھول سجا سنورا کرو۔۔۔۔
“سہاگن وہی جو پیا من بھاۓ”
شام کو وہ تیار ہونے کمرے میں آئی تو سامنے سے سائرہ بھی اسکی مدد کو آگئی۔۔۔۔۔۔
شبینہ بھابھی لائیں آج میں آپکو تیار کردوں ایسا کے شاہ میر بھائی آپکو دیکھتے رہ جائیں وہ اسکی بات پر مسکرا دی تھی۔۔۔۔
سائرہ اسکے میک اپ کرتی گئی ساتھ ساتھ ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی ہنستی ہنساتی رہی اسے بھی اپنا پہلے والا بات بات پر ہنسنا بولنا یاد آیا تو اسے اندازہ ہوا کے وہ کتنا بدل چکی ہے شاہ میر اسکا کتنا خیال رکھتا ہے اور وہ اسے بدلے میں محبت کا جواب کبھی محبت سے نہیں دیتی اس کا دل اتنا سخت کیوں ہوگیا ہے وہ خود چاہتی تھی کے وہ ایسا نا کرے پر اسکے جذبات کو بار بار چکنا چور کیا گیا تھا وہ کیسے پہلے والے جذبات لاتی وہ تو خود ایک محبت کی بھرپور زندگی چاہتی تھی پر دنیا نے اسکی نس نس میں زہر بھر دیا تھا !
“دیکھیں کیسا ہوا میک اپ”
سائرہ کی آواز سے وہ خیال سے باہر آگئی تھی اس نے آئینے میں خود کو دیکھا تو اسے سائرہ کا میک اپ بہت پسند آیا
واہ سائرہ بہت خوبصورت میک اپ کیا تم نے تو۔۔۔۔۔۔
“آپ بلکل گڑیا لگ رہی ہیں شبینہ بھابھی اتنے میں اسکی ساس کمرے میں آگئی تو انھوں نے بھی ماشاء اللّه کہا!
سائرہ نے شبینہ کے لمبے بالوں کو رولر سا کر کے کھلے چھوڑ دیا تھا اور پھر وہ چلی گئی شبینہ پیاری سی بلیک ساڑھی پہنے لمبے بالوں کو کرلز دیے ایئر رنگز پہن رہی تھی کے باہرسے شاہ میر بھی کمرے میں اچانک آگیا!!
وہ شبینہ کو پہلی بار اس روپ میں دیکھ رہا تھا وہ کان میں ایئر رنگ ڈالنے میں لگی ہوئی تھی پتلی سی کمر پے ساڑی اور بھی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔وہ اسے وہی دروازے پر کھڑا دیکھ رہا تھا تو شبینہ کی نگاہ شاہ میر پے پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھبرا کر اپنی ساڑی ٹھیک کرنے لگی شاہ میر اسکے پاس آگیا
آج خیریت ہے نا!
اسکی شریر نگاہوں کی تپش شبینہ کو مسلسل اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی اسے اس قدر نروس دیکھ کر شاہ میر کو اس پر ترس نہیں بہت پیار آیا تھا
“بہت پیاری لگ رہی ہو”
شبینہ نے بات بدلنا چاہی دیر ہوجاۓ گی آپ تیار ہو جائیں!
وہ کہہ کر تیزی سے کمرے سے باہر چلی گئی تھی
شاہ میر نے اپنا سر دیوار پے دے مارا اور فریش ہونے چلا گیا!
“شاہ میر نے اسکا تعارف اپنے دوست کی فیملی سے کر وایا تو سب اس سے مل کر متاثر ھوۓ شاہ میر کے ساتھ نے اسے بہت نکھار دیا تھا وہ وہاں لوگوں سے ہنس بول رہی تھی شاہ میر اسے دیکھتا ہی رہا اسکے لمبے بال جیسےکرلز کیا گیا تھا اسکی نازک سی کمر پر بکھرے پڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر کے دوست کی فیملی کافی بولڈ فیشن ایبل تھی۔۔۔۔
تقریب ختم ہوگئی تھی وہ دونوں اچھے موڈ میں واپس آے تھے۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی چوڑیاں اتارتی جا رہی تھی اور ہنس ہنس کر شاہ میر کے دوست کی شادی میں ہونے والی باتیں بتا رہی آج اسکا موڈ بہت اچھا تھا۔۔۔۔
وہ اپنی دھن میں شاہ میر سے مخاطب تھی آپکے دوست کی پسند کی شادی ہے نا دلہن کتنی تیز لگ رہی تھی کیسے بولنے میں لگی ہوئی تھی مانا کے پسند ہے پر کیا سبکو بتانا ضروری ہے دلہن میں خود بھی تو جھجک ہونی چاہیے نا
دولہا تو سیدھا سادھا شرافت سے بیٹھا وا تھا اور دلہن کی حرکتوں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہر ایک کا تعارف خود ہی دلہے سے کر وا رہی ہو کے جانو! یہ میری بڑی خالہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جان! یہ میرے ابو کے دوست ہیں
اور یہ فیضی ہے میرا کلاس فیلو مل تو چکے ہو نا تم جب ہم کے ایف سی میں کھانا کھا رہے تھے!
“شبینہ کے اس چنچل انداز پے وہ آج دل کھول کر ہنسا تھا!!
اور ایک تم دلہن بنی تھی کتنا رونا پیٹنا مچایا تھا تم نے توبہ
شاہ میر نے اسے تنگ کیا !
ہاں تو مشرقی لڑکیاں اسے ہی ہوتی ہیں وہ اسے ہی روتی ہیں
“شاہ میر کو اسکی معصومیت پے ہنسی آگئی تھی
ہمممم یہ تو ہے !دلہن کو مشرقی انداز میں شرم حیا کا خیال رکھنا چاہیے ساری زندگی پڑی ہے پٹر پٹر بولنے کے لیے ایک دن تو منفرد رہنا چاہیے نا!
اچھا تو کیا جب میں بول رہی تھی دلہن بن کر نہیں نا!!!!
شبینہ نے پھر لاپرواہی سے شاہ میر سے سوال کیا!!
“شاہ میر” سنجیدہ سا ہو کر اسکے پاس آگیا تم آج بھی مجھے دلہن سی لگتی ہو اتنی ہی پیاری اتنی ہی دلکش مشرقی سی شرماتی ہوئی۔۔۔۔!
وہ شبینہ کے بلکل قریب آچکا تھا شبینہ کو اسکا یوں پاس آنا محسوس ہوا تو وہ پیچھے ہٹ گئی پر “شاہ میر” نے اسکے گرد بانہوں کا حصار بنا لیا !
وہ دھڑکنوں کی دھمک سے لزرنے
لگتے ہیں گلے سے کیسے
لگایئں وہ اتنے نازک ہیں۔۔۔!
شبینہ نے قریب بڑھتے “شاہ میر” کو پیچھے کیا اور دور ہوگئی ؟
اسکا موڈ اچانک رووڈ ہوگیا تھا
کیا ہوگیا ہے آپکو کیوں ہر دو دن کے بعد آپکو اس طرح محبت کا دورہ پڑھ جاتا ہے؟ میرے دل میں کوئی جذبات نہیں ہیں کیا شادی صرف اس ہی لیے کی جاتی ہے؟
شبینہ کے لہجے میں بیزاریت تھی
“شاہ میر کو اسکے الفاظ نشتر کی طرح سینے پے جا لگے تھے وہ اپنی بیوی سے محبت چاہتا تھا اور شبینہ اس محبت کو بار بار ٹھکرا کر ایک مرد کی توہین کر رہی تھی!!
“شاہ میر نے غصے سے شبینہ کا بازو پکڑ کر زور سے اسے بیڈ پے دھکا دیا”
شبینہ نازک سا وجود رکھنے والی ایک ہی جھٹکے سے جا گری تھی اسکے سلکی بال بری طرح بکھر چکے تھے اسکی آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا۔۔
شاہ میر غصے سے اس پر چیخ رہا تھا !!!!
آخر تم خود کو سمجھتی کیا ہو، ابھی دو تھپڑ پڑے گے نا سارا نہیں نہیں،نہیں نکل جاۓ گا !
تم چاہتی ہو میں زندگی بھر محبت کا کشکول ہاتھ میں تھام کر تم سے بھیک کا منتظر رہوں
تم اس پاکیزہ رشتے کی توہین کرتی ہو تمہیں یہ محبت کا دورہ پڑتا دکھتا ہے تمہیں پتا بھی ہے میاں بیوی کی محبت سے دیکھی گئی نگاہ پے بھی اللّه نے ثواب رکھا ہے شوہر کی بات پر بیوی کا مسکرانا ثواب، اسے چھونا ثواب ،ایک ایک بوسے پر ثواب ہے !
میاں بیوی کا رشتہ ایک بہت خوبصورت نایاب رشتہ ہے اور تم نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے یہ بندھن دو روحوں کا آپس میں ملن ہوتا ہے نکاح کی طاقت تو ایک اجنبی پر محرم کا تاج پہنا دیتی ہے یہ خوبصورت رشتہ ایک کشش رکھتا ہے میرا دل تمہاری طرف کھیچتا ہے تو میں تمہارے قریب آتا ہوں کیا تمہارے دل میں میرے لیے کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا!
نکاح کے بول میں تو بڑی طاقت ہوتی ہے شبینہ پھر تم کیسی بیوی ہو میری ،کیوں نہیں سمجھتی میرے جذبات۔۔۔۔۔
کائنات کی کی ابتداء میں بننے والا یہ رشتہ اللّه رب العزت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اللّه نے ہر جاندار کے جوڑے بناے ہیں نکاح سے پہلے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا نکاح کس سے کب ہوگا یہ اللّه کے علم میں ہوتا ہے اللّه ہی دو دلوں کو ملاتا ہے یہ رشتہ مقدس ہی نہیں مبارک بھی ہے!
اسکی آنکھیں غصے سے لال ہورہی تھی اس نے شبینہ کا چہرہ ہاتھ سے اپر کیا اور کہا!
میں اب تمہارے قریب نہیں آونگا اتنی ذلت مجھسے برداشت نہیں ہوتی رہو تم اب اپنے حال پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ غصے میں آدھی رات کو گھر سے باہر چلا گیا تھا وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی تھی وہ یہ کیا کر رہی تھی شاہ میر کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﮑﺲ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ
ﯾﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﺭﻭﺑﺮﻭ ﻣﯿﺮﮮ
ﻭﮨﯽ ﻟﮩﺠﮧ، ﻭﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
شبینہ کو یاد آرہا تھااسکو ایسے مرد ہی تو پسند ہے ضدی اپنا آپ منوانے والے اسے بیوی کی ہاں میں ہاں ملانے والے زرا بھی پسند نا تھے
میں چاہوں تو تخت دل پہ
تجھ کو بٹھاؤں راجہ بناؤں
دھڑکنیں تیرے حضور ناچیں
تجھے رجھاؤں راجہ بناؤں
شبینہ کو احساس ہوگیا تھا کے وہ بہت غلط کر رہی ہے وہ کچھ دیر یونہی بیڈ پے لیٹی روتی رہی تھی گھڑی نے وقت کا پتا دیا تو وہ پریشان ہوگئی چار بج چکے تھے اور شاہ میر کا پتا نا تھا!!!
وہ کمرے میں پریشان بیٹھی تھی شاہ میر کا موبائل بھی گھر پے تھا وہ امی کو بھی نہیں اٹھا سکتی تھی وہ وجہ پوچھتی تو کیا بتاتی ایک ایک لمحہ بھاری ہوگیا تھا!
شاہ میر فجر کی اذان کے وقت آگیا تھا وہ نماز پڑھنے کے لیے تیار تھی اسنے اللّه کا شکر ادا کیا شاہ میر اسے کچھ بولے بنا ہی گاڑی کی چابی کو زور سے ٹیبل پے پھیک کر جا کر اپنا تکیہ لے کر چھت پے چلا گیا تھا!
اتنی ٹھنڈ میں بنا رضائی وہ کیسے سو سکتا تھا شبینہ کو اپنے اپر بہت غصہ آیا تھا!
وہ چاہتی تھی اسے روک لے پر ایسا نا کر سکی اسکی انا نے اسکے پاؤں روک لیے تھے!!
وہ نماز پڑھ کر دعائیں کرنے لگی اللّه مجھے معاف کر دے میں کیا کروں میری مدد فرما!
صبح شاہ میر بنا ناشتہ کیے چپ چاپ آفس چلاگیا
سارا دن شبینہ کا دل بوجھل رہا وہ بہت پریشان تھی شام کو شاہ میر آفس سے واپس آیا تو وہ بخار میں تپ رہا تھا وہ رات بھر ٹھنڈ میں اسے ہی رہا تھا
شاہ میر کی امی نے شبینہ کو خاص تاقید کی تھی تم اس کے پاس ہی رہو بخار میں آگ کی طرح تپ رہا ہے
وہ شاہ میر کا بہت خیال رکھ رہی تھی پر شاہ میر نا اس سے بات کر رہا تھا اور نا ہی اسکی طرف دیکھ رہا تھا!
شاہ میر نے اسے دکھانے کے لیے جان بھوج کے سگریٹ نکالا اور بخار میں اسکے سامنے سگریٹ پیتا رہا
شبینہ سمجھ گئی تھی وہ رات بھر یہی کرتا رہا ہے
اسکی آنکھ میں آنسو سے آگئے
کیسے کہتی کے مت پیو اسے میں جینا چاہتی ہوں تمہارے ساتھ تم کیوں ایک ایک لمحہ اپنی زندگی کا اس سگریٹ میں راکھ کر رہے ہو
اس نے مشکل سے شاہ میر کو کہا
آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آپ سگریٹ پی رہے ہیں!
شاہ میر نے اسکی بات کا جواب نا دیا اور یونہی کش لگاتا رہا!
وہ وہاں سے چلی گئی تھی اگر رکتی تو وہ اسکے سامنے ایسے ہی پیتا رہا!!!!
اسکا بخار نہیں اتر رہا تھا وہ شاہ میر کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی اور شاہ میر آنکھیں بند کیے لیٹا تھا!!
شاہ میر نے اپنی آنکھیں کھولیں جو بخار کی شدت سے سرخ ہورہی تھی اور اس نے روکھے سے انداز میں کہا
یہ سب کیوں کر رہی ہو تم ؟ یہاں کوئی تیسرا تو نہیں جو انکے سامنے تمہیں اچھی بیوی ہونے کا ڈرامہ کرنا پڑے۔۔۔۔۔۔
فکر نہیں کرو میں اپنا انتظام کر رہا ہوں باہر جانے کا دو سال کے لیے پھر تم یہاں سکون سے رہنا!
وہ کروٹ لے کر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا تھا!!
شبینہ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے
بکھر رہی ہے تنہائی میں
مجھ کو بانہوں میں بھر لے
کر تو مجھ کو پیار پیا
جیون تجھ پر وار دیا
تمرے بن میں ہوں ادھوری
تم چھو لو تو ہو جاؤں پوری
وہ آنسو پوچھ کر کچن میں جا کر رو رہی تھی آنسو بہتے جا رہے تھے اور وہ اندر ہی اندر سسک رہی تھی رات شاہ میر دوا کے اثر سے سوگیا تھا وہ اسکے پاس آگئی اور شاہ میر کے چہرے کو محبت سے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔آنسو موتیوں کی لڑی بن کر گر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
اسے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا وہ اسکی بے رکھی اور دوری سہہ نہیں پارہی تھی
اس نے سوے ھوۓ “شاہ میر”کے پیروں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے تھے وہ رو رہی تھی اسکے آنسو بوندھ بوندھ اسکے پیروں پے گر رہے تھے۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺎﺱ ﮨﻮﮞ ﺟﯿﺴﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﮐﯽ۔
ﺗﻮ ﭼﺸﻤﮧ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭨﮭﺎﺭ ﭘﯿﺎ!۔۔۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻋﺸﻖ ﺍُﮌﺍﺋﮯ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔۔
ﺍِﺱ ﭘﺎﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺱ ﭘﺎﺭ ﭘﯿﺎ!۔۔
ﮐﺲ ﺟﺎﻝ ﺳﮯﺗﻮ ﻧﮯ ﺑﺎﻧﺪﮬﺎ ﮨﮯ,
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﯽ ﺳﺐ ﻭﺍﺭ ﭘﯿﺎ۔۔۔
ﺗﻮ ﮈﺍﻝ ﻗﻔﺲ, ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ؟
ﺗﯿﺮﯼ ﺟﯿﺖ ﮨﮯ , ﺗﯿﺮﯼ ﮨﺎﺭ ﭘﯿﺎ!۔۔
ﺗﻮ ﺷﺎﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﺎ
ﯾﮧ ﺩﻝ ﺗﯿﺮﺍ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﭘﯿﺎ!!۔۔۔۔
ﺗﻮ ﺭﻭﮒ ﮨﮯ, ﺍﻧﺪﺭ ﭘﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﺯﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﯿﺎ!۔
“شاہ میر کی آنکھ کھلی تو وہ اسے اس طرح پیروں کے پاس بیٹھا دیکھ کر حیران ہوگیا!!
اس نے اٹھ کر شبینہ کو یوں روتے دیکھا تو بہت پریشان ہوگیا
تم کیوں رو رہی ہو کیا ہوا ؟
شاہ میر کا دل بھی تڑپ اٹھا تھا۔۔۔۔
شبینہ نے اپنی گلابی متورم آنکھیں ہاتھوں سے رگڑتے ھوے کہا! مجھے معاف کر دیجئے “شاہ میر” آپ بہت اچھے ہیں میں آپ سے دور نہیں رہنا چاہتی آپ مجھے چھوڑ کر مت جائیں میں مر جاؤں گی مجھے ضرورت ہے آپکی مت جائیں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے
مجھے معاف کر دیں۔۔۔
شاہ میر کو وہ روتی ہوئی پیاری لگ رہی تھی بھیگی ہوئی پلکیں لال سی ناک۔۔۔۔۔اور اس پر اسکا روتے روتے اظہار محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر نے اسکا چہرہ اپر کیا اورکہا
پھر سے کہو تمہیں مجھ سے کیا ہوگیا ہے؟
اسنے پھر سے روتے ھوۓ کہا۔۔۔۔۔
مجھے آپسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت
اب مجھکو اپنے رنگ میں
رنگ دو ناں پیا ۔۔۔۔
اب کر دو یہ احسان پیا
توہی مرا دلدار پیا
مجھے بس اک تو ہی در کارپیا
مجھے آپ سے محبت ہے
شاہ میر کے چہرے پے مسکراہٹ چھا گئی تھی وہ جیت گیا تھا
وہ جانتا تھا کہ عورت مرد کی پسلی سے پیدا کی گئ
پسلی ٹیڑہی ہوتی ہے اگر زور لگا کر سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جاۓ گی یہ مگر سیدھی نہیں ہوگی اور جب ٹوٹے گی تو تکلیف آپ ہی کو ہوگی آخر کو ہیں تو آپ ہی کی پسلی سے۔۔۔۔۔۔
لہذا اس کو سیدھا کرنے کا خیال دل سے نکال کر اس نے یہی سوچا کہ کچھ چیزیں جیسی ھوں ویسے ہی برداشت کرنا پڑتی ہیں!!!
اور شاہ میر نے برداشت کیا تھا
پر اسے یہ بھی پتا تھا کے عورت نادان بھی بہت ہوتی ہے تو جب شبینہ سیدھی طرح شاہ میر کی محبت خود محسوس نا کر پائی تو شاہ میر نے بھی اپنا آپ منوانا چاہا۔۔۔۔
اور اسے ملک سے باہر جانے کی دھمکی دی !
اور وہ نازک دل کی مالک دوڑ ائی تھی اسکے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔
“شاہ میر”نے اسے پہلے ہاتھ تھام کر اسکو دیکھنا چاہا کے یہ پھر تو نہیں بھاگ جاۓ گی۔۔۔
اس نے ہاتھ پکڑ کر اس کو باتوں میں لگایا دیکھو اگر تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو تو ڈرو مت میں کچھ نہیں کہونگا!!
کرتی ہوں نا!
شبینہ نے شرما کر کہا اور پھرشاه میر نےاسکے انداز پر مسکرا کر اسے بانہوں میں بھر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی دو پل کی انتظار کب تک ہم کرے گے بھلا
تمہیں پیار کب تک نا کریں گے بھلا
صبح شاہ میر کی آنکھ کھلی تو وہ گیلے بالوں کو کمر پے ڈالے ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی بڑ بڑا رہی تھی اور غصے میں چوڑیاں پہنتی جا رہی تھی شاہ میر کو اس پر پیار آیا تھا وہ بستر سے اٹھ کر اسکے پاس آگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اور معنی خیز نظروں سے اسے دیکھ کر کہنے لگا
کل رات کا غصہ ان بیچاری چوڑیوں پے نکال رہی ہو؟
اسنے غصے سے شاہ میر کو کہا
آپ بہت گندے ہیں بےشرم عمران ہاشمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ میر کو ہنسی آگئی تھی اور پیار سے اسکے پاس آکر کہنے لگا اچھا میں عمران ہاشمی لگتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پھر سے اسکی شوخ نگاہوں سے شرما گئی تھی اور کہنے لگی دیکھیں آپ ہوں گے اس گھر کے لاڈلے اکلوتے پر میں نہیں ڈرتی آپ سے میں آپکی امی سے بول دوں گی جا کر۔۔۔۔ ۔۔
شاہ میر کو پھر شرارت سوجھی
اچھا کیا بولو گی امی سے وہ اوربھی پاس آگیا تھا۔۔
میں بولوں گی۔۔۔۔۔۔میں کہوں گی۔۔۔کہ
میں کہوں گی کہ۔۔۔۔۔۔وہ اٹک سی گئی تھی۔۔۔۔۔
وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتی تھی
وہ شرما کر اسی کے سینے سے لگ کر اپنا چہرہ شرم سے چھپا گئی تھی۔۔۔۔۔
بہت برے ہیں آپ۔۔۔۔۔
شاہ میر اسکے معصومانہ انداز پے زور سےہنسا تھا۔۔۔۔۔
شبینہ ہار گئی تھی!!!!!
۔چوڑی، گجرا، پائل، کنگنا، تن من تجھ پہ سب واری پیا
ہار سنگھار، سنگھاسن تیری چاہت میں،میں ہاری پیا۔۔!!!
ایک نئی خوشگوار زندگی کا آغاز ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔!!!
نصیب کا لکھا مل کر ہی رہتا ہے
کب،کہاں اور کیسے؟
یہ صرف اللہ پاک جانتا ہے !
ختم شد