صبح فجر میں ہی اسکی آنکھ کھل گئی تھی اس نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی آج اسے اس گھر سے رخصت ہوجانا تھا۔۔۔۔۔۔وہ اللّه کو سجدہ ریز ہوئی اور سلام پھیر کر اس نے مہندی لگے ہاتھوں کو دعا کے لیے بلند کیا۔۔۔۔۔
اور دل سے دعائیں کرنے لگی
اللّه مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے
میری مدد فرما اب کچھ برا نا ہو میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔
“شاہ میر”اچھا انسان ہو۔۔۔۔۔اگر شاہ میر “تیری” رضا ہے میرے مالک تو میرے دل میں اسکی محبت ڈال دے۔۔۔۔۔۔
آج میں یہاں سے چلی جاؤں کی اللّه۔۔۔۔۔۔میں اپنے گھر والوں کو تیرے سپرد کر کے جا رہی ہوں میرے ماں باپ اور سب گھر والوں کو اپنے حفظ امان میں رکھنا!!!!
آمین۔۔۔
نماز کے بعد وہ پھر ناسوئی تھی۔۔۔
“شاہ میر” کو لے کر بہت سے خدشات اسکے دل میں پل رہے تھے۔۔۔۔۔۔
*بھابھی اسے پالر لے جانے کو گھڑی تھی اور وہ روے جا رہی تھی۔۔۔۔
سب نے باری باری گلے لگا کر اسے تیار ہونے بھیج دیا۔
*خوبصورت پھولوں اور لائٹینگ سے سجا ہوا شاندار میرج حال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا،وہ ڈریسنگ روم میں دلہن بنی بیٹھی تھی نفاست سے کیے گئے “میک اپ” نے اسکے نین نقش کو اور بھی دلکش بنا دیا تھا سرخ لہنگا پہنے جس کے ہر ایک تار میں،اس میں جڑے ہر ایک موتی میں ایک نئی داستان چھپی تھی۔۔۔۔
بلاشبہ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔
برات آگئی اور نکاح کے لیے جب لوگ اسکے پاس آے تو وہ انھیں دیکھتے ہی رونے لگی تھیں
“قاضی صاحب” بھی اسکا رونا دیکھ کر شک کی نگاہوں سے اسکے گھر والوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
پر ماں باپ نے ہاتھ سر پر رکھ کر بیٹی کو حوصلہ دیا تو۔۔۔۔۔
اس نے قاضی صاحب کو “ہممم”کا اشارہ آہستہ سے سر ہلا کر دے دیا تھا
اس نے نکاح نامے پردستخط کر دیے تو سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد سے نوازا پر وہ تھی اپنے میک اپ کی فکر کیے بنا ہی رو رہی تھی۔۔ماں نے اپنے آنسو چھپانا چاہے پر ناکام رہیں!
(تین بار “ہاں قبول ہے” کہنا آسان نہیں ہوتا بہت کچھ پیچھے چھوٹ جاتا ہے)
“شاہ میر” نے اللّه کا نام لے کر خوشی سے نکاح نامے پر سائن کر دیے تھے اسکے چہرے پر خوشی صاف جھلک رہی تھی وہ مسکراتے ھوۓ سب سے گلے مل رہا تھا۔۔۔۔۔
پورے میریج حال کی لائٹ اوف کر دی گئی اور اچانک سامنے انٹری گیٹ پر دلہن بنی کھڑی شبینہ پر فوکس کر دیا گیا۔۔۔۔۔
بہاروں کی ___جان پر بن آئی ہے۔۔!!
آج دیکھا ہے انہیں سرخ لباس میں۔۔۔!!!
اسکے بابا بھائی نے اسکی شادی اپنی حیثیت سے بڑہ کر ارینج کی تھی انکی آخری چھوٹی لاڈلی بیٹی کی شادی تھی اور بیٹی بھی وہ جس نے ہمیشہ عزت کے ساتھ اپنے بابل کے گھر سے رخصت ہونے کے لیے زمانے کا ہر درد سہا تھا بیشک جوڑے “اللّه” بناتا ہے اور انکا ملن اس زمین پے کب، کہاں اور کیسے رب نے لکھا ہے یہ اس ہی وقت پتا چلتا ہے جو وقت اللّه نے دنیا بنانے سے پچاس ھزار سال پہلے قلم بند کر دیا ہے۔۔
اور جب وہ “کن” فرماتا ہے کہ “ہوجا” تو وہ کام ہوجاتا ہے
شاہ میر کی نگاہ اس پڑی تو وہ نظر ہٹانا بھول گیا۔۔۔۔۔
“شہنائیوں کی صدا کہہ رہی ہے
خوشی کی مبارک گھڑی آگئی ہے
سجی سرخ جوڑے میں
چاند سی دلہن
زمیں پے فلک سے پری آگئی ہے”
شاہ میر کو ایسا لگا کہ وقت تھم سا گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکا نصیب سرخ جوڑے میں اسکے سامنے کھڑا تھا کیا نصیب اتنا خوبصورت بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔اچانک قریب کھڑے شاہ میر کے دوست نے اسکو کونی ماری کیا کر رہا ہے یار
صبر رکھ سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔ فکر نا کر بھابھی اب تیری ہی ہے۔۔۔۔۔
شاہ میر اپنی اس حرکت پے شرمندہ سا ہوگیا تھا اسے احساس کب ہوا تھا کے یہاں آس پاس سب موجود ہیں۔۔۔۔۔
نظر جھکا کر کھڑے ہیں
روبرو سرخ جوڑے میں آج
دل کو میرے چین نہیں آرہا
پریوں کی شہزادی کو دیکھ کر!
کیمرہ مین نے شاہ میر کو ساتھ کھڑا کیا تو شبینہ کی امی نے دور سے دونوں کی بلائیں لیں!
اور کیمرا مین نے مختلف زاویوں سے انکے قیمتی لمحات قید کرنا شروع کر دیے۔۔۔۔۔۔۔
اپر سے فلائ کیمرا انکے آگے پیچھے دائیں بائیں سے انکا ہر لمحہ محفوظ کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں کھانا شروع ہوگیا تو ساری عوام کھانے میں مگن ہوگئی شاہ میر نے پاس بیٹھی شبینہ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔
وہ نظریں جھکاے بیٹھی تھی “شاہ میر” نے اسے رشک کی نگاہ سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔!
رخصتی کا وقت آیا تو شبینہ بھائی کے گلے لگ کر رونے لگی اسکے بھائی نے سر پر ہاتھ رکھا اور امی نے گلے لگا لیا ماں سے لپٹ کر وہ روے جا رہی تھی بہت مشکل سے اسے جدا کیا گیا بابا سے لپٹ کر اسکی سسکیاں بلند ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
کیسی میری تقدیر ہے
پاوں میں رسموں کی زیجیر ہے
وہ گھر ہی پرایا ہے
جہاں میں نے جنم لیا ہے
جن درودیوار میں
میرے قہقے رچے ہیں
وہی درودیوار
آج مجھ کو چھوڑنی ہے
جس آنگن میں،میں نے
چلنا سیکھا ہے
اسی آنگن کی مٹی پرائی ہے
جن بہن بھائیوں پہ
میں جان دیتی تھی
اُنہی سے جدا ہونا ہے
بابل کے گھر سے مجھے
کیوں آج وِداع ہونا ہے
کتنے ارمانوں سے
میری شادی کی ہے
خوشی خوشی
سب رسمیں ہوئی ہیں
مگر وقتِ رخصت
عجب عالم ہے
کتنا خوش میرا ساجن ہے
لیکن
میری آنکھوں میں آنسو ہیں
بھائی خاموش کھڑے ہیں
ماں باپ کے لبوں پہ
دعا ہے
یوں میری زندگی کی
شروعات ہے
نیا سفر ہے
نئے ہمسفر ہیں
نئے لوگ، نئے رشتے ہیں
مگر پرانے رشتے بھی
بھول نہ پاؤں گی
آج میں سب سے جدا ہو رہی ہوں
بابل کے گھر سے وِداع ہورہی ہوں!!
*نئے گھر میں اسکا استقبال شاندار طریقے سے ہوا تھا شاہ میر کی شادی شدہ بہنیں اسکا راستہ روکے کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اور اسکی ساری کزنز نے مل کر ہنگامہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔
شاہ میر بھائی پہلے منہ مانگی رقم دیں پھر ہی جانے دے گے۔۔۔۔۔۔
شاہ میر بھی اتنی آسانی سے نہیں دینے والا تھا۔۔۔۔۔۔
کافی دیر بحث چلتی رہی شبینہ اتنے بھاری کپڑوں میں کھڑی تھک گئی تھی۔۔۔۔۔۔
شاہ میر نے اپنی جیب سے مطلوبہ رقم دے کر جان چھوڑائی تو پھر جا کر راستہ ہموار ہوا۔۔۔۔
اسکی نند اور تمام کزنز اسے حجلہ عروسی میں لا کر بیٹھا دیا تھا رخصتی پے رونے سے جو اسکا میک اپ خراب ہو گیا تھا انھوں نے مل کر اسے ٹھیک کر دیا، شبینہ کی ساس بھی کمرے میں آگئیں اور انھوں نے اپنی بہوں کا صدقہ اتارا اور کہا بیٹا کسی چیز کی ضرورت ہو تو اپنی امی کی طرح ہی مجھ سے مانگ لینا اب یہ ہی تمہارا گھر ہے اس نے مسکرا کے “شاہ میر” کی امی کو دیکھا تو اسے امی کی پھر سے یاد آگئی۔۔۔۔۔۔
اسکی ساس نے تمام لڑکیوں کو کمرے سے جانے کا کہا اور خود بھی اسے آرام کا کہہ کر چلی گئیں۔۔۔۔
“انکے جاتے ہی اسکا دل خوف سے لرز اٹھا “شاہ میر” ایک مرد تھا اور مرد اسے زرا بھی اچھے نا لگتے تھے۔۔۔۔
وہ “شاہ میر” کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی ہاں مگر شادی سے پہلے اسکی بہن نے اسے”شاہ میر” کی تصویر دیکھا دی تھی
“امی کی نصیحت وہ بھلا چکی تھی وہ صرف وہی کرنے کے لیے تیار تھی جو اسکا پاگل من کہتا!
اسنے نظریں دوڑا کر کمرے کا جائزہ لیا۔۔۔۔کمرا خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں اسے دروازے کے باہر “شاہ میر” کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تو اسکا دل اچھل کود کرنا شروع ہوگیا اور بنا سوچے سمجھے اس نے سونے کی ادا کاری شروع کر دی۔۔اور وہی بیڈ پے کنارے ڈھیر ہوگئی۔۔۔۔۔
شاہ میر کمرے میں آتے ھوۓ سوچ رہا تھا کے وہ حجلہ عروسی میں بیٹھی اسکے آنے کی منتظر ہوگی پر ایسا نا ہوا “شاہ میر” ایک پڑھا لکھاسلجھا ہوا انسان تھا وہ جانتا تھا کے شبینہ اب عمر بھر کے لیے اسکی ہوچکی ہے اور محبت کے اظہار کے لیے صرف آج کی ہی رات نہیں بلکہ اب سے ہر رات محبت کی رات ہے۔۔۔۔۔
اس نے اسے سوتے دیکھا تو اس کی تھکن کا احساس کر کے مسکرا دیا
اسنے قریب بیٹھ کر نظر بھر کر شبینہ کو دیکھا۔۔۔۔
خوبصورت سا میک اپ کیے چاند سی بندیا ماتھے پر سجائیں۔۔۔
زیورات سے سجی شادی کا جوڑا پہنےمہندی لگےہاتھ۔۔۔۔ وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
اسکی ناک میں بڑے سے نوز رنگ میں ننھا سا موتی اسکے ہونٹوں پے جھک کر بوسہ لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اسے اس موتی پر بہت غصہ آیا تھا۔۔۔
وہ خاموشی سے اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔اسکی جانے کی آہٹ سے شبینہ نے ایک آنکھ کھول کر ماحول کا جائزہ لیا تو وہ کمرے میں موجود نا تھا اس نے سکون کا لمبا سانس لیا۔۔۔
اوراس سے پہلے شاہ میر واپس آتا وہ جلدی سے سچ مچ سوگئی۔۔۔۔۔
شاہ میر کمرے میں واپس آیا تو اسے شبینہ کو اسے بھاری جوڑے اور جیولری میں دیکھ کر اسے ترس آیا تھا پر پھر اسنے کچھ سوچ کر اسے اٹھانے سے خود کو روک لیا۔۔۔۔۔۔
بٹها کر یار کو پہلو میں رات بھر غالب
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
وہ بیڈ کے دوسری سائیڈ پے لیٹ کر اسے دور سے چند لمحے دیکھتے دیکھتے وہ بھی نیند کی وادی میں اتر گیا!!
صبح شبینہ کی آنکھ کھلی تو شاہ میر کمرے میں موجود نا تھا وہ اٹھی اور جا کر آئینے میں خود کا چہرہ دیکھا۔۔۔
پھر ساری جیولری اتار کر ڈریسنگ پے رکھ کر الماری سے اچھا سا جوڑا نکال کر فریش ہونے چلی گئی۔۔۔۔۔۔
وہ شاور لے کر کمرے میں بال جھٹکتی ہوئی ائی تو شاہ میر واہائٹ کاٹن کے سوٹ میں آئینے کے سامنے کھڑا انگلیوں سے اپنے بال ٹھیک کر رہا تھا وہ بھول گئی تھی کےیہ “شاہ میر” کا کمرا بھی ہے اسنے جلدی سےبیڈ پے پڑا دوپٹہ اٹھا کےاوڈھ لیا۔۔۔۔۔۔
شاہ میر نے اسے ایسے کھبراتا دیکھا تو اسکے ہونٹوں پے مسکان سی آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبینہ نے شاہ میر کو سلام کیا تو شاہ میر جیسے اسٹاپ ہوگیا۔۔۔۔۔۔
“کچھ اور بھی جذبوں کو بیتاب کیا اس نے
آج مہندی لگے ہاتھوں سے آداب کیا اس نے”
اسکا جواب نا پا کر وہ چپ سی ہوگئی تھی۔۔۔۔۔اور اسے خاموشی سے خود کو دیکھتے ھوۓ وہ اب خود آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔۔
اسے تیار ہو کر جلدی نیچے جانا تھا تو وہ اپنے گیلے بالوں کو جھٹک رہی تھی۔۔۔۔۔
شاہ میر اسے دیکھتا رہا۔۔۔۔
بارش تھم چکی تو دیکھا اس کو ۔۔
وہ تولیے سے گیلے بال چھانٹ رہی تھی۔۔۔۔
اس طرح شاہ میر کے دیکھنے سے وہ نروس ہورہی تھی۔۔۔۔۔
تو اس نے خود ہی “شاہ میر” کو ہوش میں لانا چاہا۔۔۔۔۔۔کیاہوا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے۔۔۔۔۔۔۔؟
لال گالوں پہ گرے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گیلے بال
ہوش گیا، میں کیا کہوں،میری کیا مجال!!
وہ اچانک اسکی آواز سے ہوش میں آگیا تھا ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم اسلام۔۔۔۔۔۔۔
اتنی دیر کے بعد شبینہ نے سلام کا جواب موصول ہوا تھا وہ اور بھی ڈر گئی تھی کے اتنا اکڑ کے اتنی دیر بعد جواب دیا ہے لگتا ہے بہت کھڑوس ہے۔۔۔۔۔۔
تم کل سوگئیں شاہ میر نے اسے پوچھا تو وہ کوئی جواب نا دے پائی تھی کے اچانک دروازہ دھیرے سے بجا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جان بچا کر دروازہ کھولنے چلی گئی۔۔۔۔۔ناشتے کے لیے نیچے آجائیں آپ دونوں شاہ میر کی بہن نے کہا تو شبینہ نے انھیں سلام کیا پھر اسکی نند اسے تیار کرنے میں مدد کرنے لگیں تو شاہ میر کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔۔۔۔
ناشتہ لے کر شبینہ کی بھابھی بہن اور اسکی کزنز زرنش بھی ائی تھی۔۔۔۔۔۔
زرنش ناشتے بعد اسکا کمرا دیکھنے اسکے ساتھ آگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ شبینہ کتنا پیارا کمرا ہے اور کل تم لوگ بہت پیارے لگ رہے تھے اچھا یہ بتاو شاہ میر بھائی نے تمہیں منہ دیکھائی کیا دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبینہ ایک دم گھبرا گئی کیا بتاتی کے اس نے کل کیاکیا “شاہ میر” کے ساتھ اور نا ہی شاہ میر سے کوئی بات ہو پائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے اچانک “شاہ میر”کمرے میں کسی کام سے آیا تو زرنش ادھر متوجہ ہوگئی
وہ جھوٹ بولنے سے بچ گئی تھی زرنش کمرے سے چلی گئی تھی تو “شاہ میر” اسکے قریب آگیا۔۔۔۔۔۔۔
گھر جا رہی ہو؟؟
جی گھر والے لینے آگئے ہیں!
تو مت جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔!وہ حیران ہوگئی تھی آج پہلے ہی دن وہ مجھ پر اتنی سختی کر رہا ہے۔۔۔۔۔
شاہ میر نے اسکا اترا چہرہ دیکھا تو ہنسنے لگا ارے جاؤ مذاق کر رہا ہوں۔۔
وہ جانے لگی تو شاہ میر نے محبت سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا۔۔۔۔۔۔
سنو!!!!!!!!
گھر پے کچھ دیر سو جانا!
نیند پوری کر لینا!!
اس نےشرارت سے کہا تو وہ نظریں جھکا گئی “شاہ میر” نے اسکی کلائی میں پیارا سا بریسلیٹ پہنا دیا! اور اس سے دور ہوگیا!!!
شبینہ کے من میں محبت کی بیج بو کر “شاہ میر”باہر چلا گیا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر آگئی تھی۔۔۔۔!
شبینہ کی امی نے جب اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھا تو انکا دل مطمئن ہوگیا تھا کیوں کے شبینہ سب سے ہنس بول رہی تھی۔۔۔۔وہ خود کو بہت خوش ظاہر کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
بھابھی کے پوچھنے پے اسنے اپنی کلائی میں بندھا بریسلیٹ آگے کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔
اسے واپس جلدی جانا تھا۔۔۔
رات اسکا ولیمہ تھا اور وہ بس چار گھنٹوں کے لیے آئی تھی۔۔۔۔
یہ وقت ہسنے بولنے اور کل شادی میں ہونے والی باتوں میں ہی گزر گیا تھا۔۔۔۔!