رات کو کهانا کها کر ولید روم میں آیا تهوڑی دیر بعد پیچهے پیچهے مریم بهی چلی آئی
“آپ کو بابا بلا رہے ہیں اپنے روم میں”
ولید کو دیکهے بنا کہا
“اوکے جی”
اٹهتے ہوۓ بولا
“سنیں”
“جی سنائیں جی”
مسکراتا ہوا پلٹا جانتا تها کیا بولنا چاہتی ہے وہ
“آپ بابا سے ہمارے نہ جانے کی بات بهی کریں گے نا”
بے حد معصومیت سے بولتی ولید کا دل دهڑکا گئی…. “ہاں کرو گا تم فکر مت کرو اوکے”
اسے تسلی دیتا ہوا وقار صاحب کے روم کی طرف بڑھ گیا
“بابا آپ نے بلایا؟”
دروازے پر کهڑے ہوکر پوچها اندر کا منظر اسے کچھ ٹهیک نہ لگا حسن اور حسنین بهی پریشان سے بیٹهے تهے
“ہاں آؤ ولی بیٹهو”
سامنے کرسی پر بیٹهنے کا اشارہ کیا
“بابا کیا ہوا سب خیریت ہے”
وہ حقیقتا پریشان ہوا
“ہمدانی صاحب والا پروجیکٹ یاد ہے تمهیں”
اس بار حسن اس سے مخاطب ہوا
“جی بهائی بہت اچهے سے یاد ہے آئی تهنک وہ پراجیکٹ تو فائنل ہو چکا ہے”
وہ حیران تها
“نہیں وہ ابهی فائنل کرنا باقی ہے اور اسکے لئے کل اسلام آباد جانا پڑے گا ڈیل کرنے”
حسن نے اسے تفصیلات بتاتے ہوۓ کہا
“نو پرابلم بهائی میں کل صبح ہی چلا جاؤں گا” “نہیں ولی تم نہیں جاسکتے وہ ڈیل میں نے کی تهی اور اب اسے فائنل کرنے کے لئے مجهے ہی جانا پڑے گا”
پہلی بار حسنین بولا
“مگر آپ کیسے… میرا مطلب کل کی تو ہماری ٹکٹس کنفرم ہیں نا”
حیرانی سے بولا
“ہاں مگر میں نے اپنی اور ماہم کی ٹکٹ کینسل کروا دی ہیں تو کل تم دونوں جاؤ گے تمهیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے”
حسنین اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکهتے ہوۓ بولا
“نہیں مجهے کوئی اعتراض نہیں مگر آپ…”
دانستہ بات ادهوری چهوڑ دی
“ماہم بیٹا اور حسنین کل اسلام آباد جائیں گے دونوں کا مشترکہ فصیلہ ہے اور ان دونوں کی میں نے ٹکٹس بک کروا دی ہیں”
وقار صاحب نے جیب سے ٹکٹس نکال کر حسنین کی جانب بڑهائی جسے اس نے حیرت بهری خوشی سے تهام لیا
“تهینک یو بابا”
خوشی سے بولا
“اچها اب چلو جاکر دونوں تیاری کرو”
وقار صاحب نے اسکا کندها تهپتهپاتے ہوۓ کہا
“اچها بابا میں بهی چلتا ہوں آپ ریسٹ کریں”
یہ کہتا حسن بهی اٹھ کهڑا ہوا
“ہاں بهئی برخوردار میرے کمرے میں ڈیرے ڈالنے کا ارادہ ہے کیا”
ولید جو ان سے اپنے نہ جانے کی بات کرنے کا سوچ رہا تها وقار صاحب کی بات پہ چونک پڑا
“نہیں بابا وہ میں سوچ رہا تها مری میں اس وقت بہت ٹهنڈ ہوگی تو کیوں نا بعد میں چلے جائیں”
اعتماد سے بولا
“ہاں ٹهنڈ تو ہوگی مگر تم فکر مت کرو میں نے سب انتظام کر رکها ہے وہاں میرا ایک دوست ہے اسفند یار جانتے ہو تم بهی اسے فون کرکے تم لوگوں کے آنے کی اطلاع دے دی ہے تم لوگ اسی کی حویلی میں ٹہرو گے”
اسے تفصیل بتاتے ہوۓ بولے جبکہ اندر آتی مریم نے بهی سن لیا
“ارے مریم بیٹا آجاؤ اندر باہر کیوں کهڑی ہو”
وقار صاحب اسے دیکھ کر شفقت بهرے لہجے میں بولے جبکہ ولید نے بهی چونک کر اسے دیکها
“جی بابا وہ میں چاۓ کا پوچهنے آئی تهی آپ سے”
“ہاں بیٹا چاۓ تو ضرور پیوں گا مگر پہلے تم یہاں آؤ”
اپنے پاس بلاتے ہوۓ کہا جبکہ ولید خاموشی سے اسکے چہرے کا جائزہ لیتا رہا
“جی بابا”
ولید کے ساتھ بیٹهتے ہوۓ بولی
“تم نے سن لیا ہوگا جو میں نے کہا”
پیار سے پوچها
“جی بابا”
سر جهکا کر بولی
“تم لوگوں کو کل روانہ ہونا ہے تیاری وغیرہ تو مکمل ہے نہ سب”
“جی بابا”
“میں اسفند کو پهر سے کال کرکے بتا دوں گا خوشی خوشی جاؤ خوشی خوشی آؤ”
آخر میں اسکے سر پر ہاتھ پهیرتے ہوۓ دعا دی
اور وہ مسکرا دی
“بابا میں چاۓ لے کر آتی ہوں”
کہتے ساتھ ہی وہ اٹھ گئی جبکہ ولید اسکے چہرے پہ چاہ کے بهی کوئی تاثرات نہ ڈهونڈ پایا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اور پهر اگلی صبح ماہم اور حسنین اسلام آباد جبکہ مریم اور ولید ڈهیروں دعاؤں کیساتھ مری کے لئے روانہ ہوۓ
“ناراض ہو…؟”
ولید نے گلا کنهکارتے ہوۓ پوچها “نہیں”
روکها سا جواب آیا
“اچها تو پهر منہ کیوں بنایا ہوا ہے”
اسکی طرف دیکهتا ہوا بولا
“میرا منہ ہی ایسا ہے آپکو پرابلم ہے آپ اپنا منہ دوسری طرف کرلیں”
ایک نظر اسے گهور کر بولی
“خیر اب اتنا بهی برا منہ نہیں ہے”
وہ مسکراتا ہوا اسے زچ کرتا ہوا بولا
مریم نے ایک نظر اسے دیکها آنسو آنکهوں کا بند توڑ کر باہر آنے کو تیار ہو گئے “ارے ارے کیا ہوا”
گاڑی سائیڈ لگاتا ہوا بولا جبکہ وہ چپ چاپ آنسو بہاتی رہی یہ احساس کہ وہ اس پہ مسلط کر دی گئی ہے اسے شدت سے ہوا “مریم کیا ہوا ایم سوری کچھ برا لگا پلیز رو مت میں آئندہ ایسا کوئی مذاق نہیں کروں گا پرامس”
اسے روتا دیکھ کر اسکے دل کو کچھ ہوا سو جلدی سے بولا
“اٹس اوکے چلیں شام ہونے والی ہے”
آنکهیں رگڑتی ہوئی بولی جبکہ ولید نے خاموشی سے کار آگے بڑها دی
باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا….
************************************
رات کے تقریبا نو بجے وہ لوگ اسفندیار کی حویلی پہنچے چونکہ وقار صاحب پہلے ہی ان کو دونوں کی آمد کا بتا چکے تهے سو دونوں کا یہاں بهرپور استقبال ہوا…
***********************************
دو سال پہلے اسفندیار کی بیوی کی موت ہوگئی تهی ایک بیٹا تها جو پڑهنے کی غرض سے امریکہ گیا تو وہیں اپنی دنیا بسا لی کئی بار باپ کو بلا چکا تها مگر انہیں اپنے وطن, اپنے شہر, اپنے گهر سے عشق تها اسی وجہ سے ہر بار منع کر دیتے بیٹا باقاعدگی سے ہر ماہ ایک معقول رقم بهجواتا گهر میں ملازموں کی فوج بهی اسی نے رکهی تهی خود سال دو سال بعد کچھ دنوں کے لئے چکر لگا لیتا ساتھ بیوی بچوں کو بهی لے آتا اسکے جاتے ہی گهر پهر سے سونا سونا ہوجاتا
اب ولید کے آنے کی خبر نے انکے اندر نئی توانائی سی بهر دی تهی ولید کو وہ بہت پسند کرتے تهے وہ بهی انکی بہت عزت کرتا تها اسکی شادی میں اپنی گرتی صحت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے وقار صاحب کو ان دونوں کو یہاں بهیجنے کا مشورہ بهی انہی نے دیا تها “اور بیٹا گهر میں سب کیسے ہیں وقار کیسا ہے”
پر شفقت لہجے میں پوچها
“جی انکل ,بابا بالکل ٹهیک ہیں آپ شادی میں نہیں آۓ میں نے بہت ویٹ کیا تها آپکا”
“بس بیٹا اب صحت اتنا لمبا سفر کرنے کی اجازت کہاں دیتی ہے”
ٹهنڈی سانس بهر کر بولے
“ارے انکل آپ تو ابهی بهی ینگ ہیں اب میں آ گیا ہوں نا دیکهنا کیسے آپ ایک دم فٹ اور ہو جائیں گے”
وہ چٹکی بجا کر بولا… “بول ایسے رہے ہیں جیسے ایم بی بی ایس ڈاکڑ ہوں بلڈوزر کہیں کے…افففف توبہ استغفار”
یہ سب مریم سوچ کر رہ گئی
“اچها بهئی پہلے جاؤ تم لوگ فریش ہو جاؤ پهر کهانا کهاتے ہیں”
انہوں نے ملازم کو آواز دے کر انہیں ان دونوں کو کمرہ دکهانے کا حکم دیا….
کمرہ دیکھ کر مریم کو تو جیسے صدمہ ہی لگ گیا جبکہ ولید نے مشکل سے اپنی مسکراہٹ چهپائی کمرہ کافی کشادہ تها بے حد خوبصورتی سے سجایا گیا تها مگر مریم کو جس چیز نے اپنی جگہ فریز کر دیا تها وہ صوفہ کی غیر موجودگی تهی
ملازم سامان پہلے ہی اندر رکھ چکا تها ولید آگے بڑھ کر اپنی مسکراہٹ چهپاتا اپنا بیگ کهولنے لگا “#بات_سنیں”
ڈرتے ڈرتے بولی
“جی سنائیں”
وہ بیگ چهوڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوا
“وہ یہاں صوفہ کیوں نہیں ہے”
ایک جگہ اشارہ کرتی ہوئی بولی جہاں دو سنگل صوفہ پڑے ہوۓ تهے “ہیں؟؟؟ یار یہ کمرہ میں نے تهوڑی نا ڈیکوریٹ کیا ہے جو مجهے پتہ ہوگا …
کمال کرتی ہو تم بهی”
بظاہر سنجیدہ لہجہ میں بولا جبکہ اسکی معصومیت پہ دل کهول کر ہنسنے کو چاہ رہا تها
ایک نظر اسے دیکهنے کے بعد پاؤں پٹختی اپنے کپڑے اٹها کر واش روم میں چلی گئی جبکہ ولید وہاں کهڑا مسکراتے ہوۓ اسے سوچے گیا “پاگل لڑکی”
سر جهٹک کر پهر سے بیگ پر جهک گیا
**************************************
کهانا کهانے کے بعد مریم معذرت کرکے روم میں آ گئی سفر کی تهکان اس پہ حاوی ہونے لگی جبکہ ولید اسفند صاحب وہیں آتش دان کے قریب بیٹھ کر باتیں کرنے لگے
اندر آکر مریم اپنا بستر سیٹ کر کے لیٹ گئی کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی حسین وادیوں میں کهو گئی “اچها بیٹا اب تم جاکر آرام کرو تهک گئے ہوگے تم بهی اور کسی بهی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جهجهک بتا دینا”
پیار سے ولید کا کندها تهپتهپاتے ہوۓ بولے….
“جی ٹھیک … انکل آئیں میں آپکو آپکے کمرے تک چهوڑ آؤں”
انہیں اٹهاتے ہوۓ بولا
“ہاں بیٹا چلو”
اٹهتے ہوۓ گرم چادر اپنے گرد لپیٹتے ہوۓ بولے
“بس بیٹا جیتے رہو اب تم بهی جاؤ آرام کرو بہت رات ہو گئی ہے”
بیڈ پر لیٹتے ہوۓ بولے
“جی انکل”
کمبل ان کے گرد لپیٹتے ہوۓ بولا اور لائٹ آف کرکے ہاتهوں کو کوٹ کی جیب میں ڈال کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا
کمرے کا دروازہ کهول کر جو پہلا منظر نظر آیا اسے دیکھ کر وہ ٹهٹهک گیا …. مریم آتش دان کے پاس نیچے قالین پر کمبل لپیٹے بے خبر سو رہی تهی …. چهوٹے چهوٹے قدم اٹهاتا ولید اسکے پاس گٹهنوں کے بل بیٹھ گیا چند لمحے اسے دیکهنے کے بعد اسکا کندها ہلایا
“مریم”
“مریم”
دوسری آواز پہ وہ
کسمسائی
“مریم اٹهو بستر پہ سو جاؤں ٹهنڈ لگ جاۓ گی”
اسے اٹهاتے ہوۓ بولا جبکہ وہ کروٹ بدل کر پهر سے سو گئی اس حرکت پہ ولید مسکرا دیا
“تمهیں پتہ ہے مریم ہر گزرتا دن تم سے میری محبت میں اضافہ کرتا جارہا ہے تمهیں اندازہ بهی نہیں مریم شاہ میں تمهیں کتنا چاہتا ہوں, وعدہ کرتا ہوں کبهی تمهیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا”
اسکے صاف شفاف چہرے کو دیکهتے براؤن سلکی بالوں پہ ہاتھ پهیرتے پیار سے بولا
حسب عادت آج بهی مریم کی آنکھ دیر سے ہی کهلی ایک لمحہ کے لئے تو اسے سمجھ ہی نا آیا کہ وہ کہاں ہے اور پهر یاد آنے پہ اپنے سر پہ ہلکی سی چپت لگاتے ہوۓ بولی
“ہوش میں آ جا مریم بیٹا”
اپنا بستر اچهے سے لیپٹ کر اسے الماری میں رکها اور پهر اپنے بالوں کو کیچر میں قید کرکے فریش ہونے کی غرض سے واش کی جانب ہولی
ابهی فریش ہوکر نکلی ہی تهی کہ دروازے پہ دستک ہوئی “آجائیں”
دوپٹہ سنبهالتی ہوئی بولی مبادا اسفندیار یا ولید ہی نا ہو.
“سلام بیٹا یہ آپکی چاۓ”
چاۓ ٹیبل پر رکهتی ہوئی بولی
“ارے عفت بی آپ نے کیوں تکلف کیا میں خود لے لیتی آ کر”
جلدی سے بولی
“بیٹا تکلف کیسا میرا دل کیا تو لے آئی”
شال اپنے گرد لپیٹتے ہوۓ بولیں
“اچها یہاں آئیں بیٹهیں آپ”
اسے آتش دان کے قریب لے آئی
“ارے بیٹا بس میں چلتی ہوں بہت کام ہیں”
وہ اٹهتے ہوۓ بولیں
“عفت بی بیٹهیں ہلیں گی بهی نہیں آپ یہاں سے”
اسے کرسی پہ بٹها کر خود الماری کی طرف بڑھ گئی
کچھ دیر بعد واپس آئی تو ہاتھ میں ایک گرم شال اور نیو سوئیڑ تها
“اتنی سردی میں بنا سوئیڑ کے آپ کو ٹهنڈ محسوس نہیں ہوتی”
سوئیڑ انکے کندهے پہ ڈالتے ہوئے بولی
“ارے بیٹا اسکی کیا ضرورت ہے اور یہ تو بہت مہنگی ہے نہیں بیٹا اسے تم رکهو میں تو عادی ہوں ایسے موسم میں رہنے کی”
سوئیڑ اور شال اسے واپس دیتے ہوۓ بولیں
“اچها مطلب آپ مجهے تحفہ واپس دے رہی ہیں مطلب آپ مجهے اپنی بیٹی سمجهتی ہی نہیں”
دونوں چیزیں ایک طرف رکھ کر منہ پهلا کر بولی
“نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں تم میرے بچوں جیسی ہو مگر یہ سب”…
دانستہ بات ادهوری چهوڑ دی “مجهے کچھ نہیں پتہ بس میں ناراض ہوں آپ سے”
ناراضگی سے کہتی منہ دوسری طرف کرلیا
“اچها رکھ لیا… بس خوش”
“تهینک یو عفت بی اب آپ بالکل بهی یہ چیزیں نہیں اتاریں گیں وعدہ کریں”
سوئیڑ اور شال کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی تو بے ساختہ عفت بی کو اس پہ پیار آیا
“جیتی رہو خوش رہو بیٹا بہت خوش قسمت ہیں تمهارے ماں باپ جو تم جیسی بیٹی ملی آباد رہو”
والدین کے ذکر پہ بے ساختہ اسے کچھ یاد آیا اور پهیکا سا ہنس دی
“اچها جلدی سے تیار ہوکر آجاؤ میں ناشتہ تیار کرواتی ہوں اور ساتھ میں چاۓ بهی یہ تو ٹهنڈی ہوگئی”
ٹیبل سے چاۓ کا کپ اٹها کر اور اسے ناشتہ کےلئے آنے کا کہہ کر وہ دروازے کی جانب بڑهیں دروازے کی اوٹ میں نجانے کب سے کهڑا ولید جلدی سے کچھ اور سائیڈ میں ہوگیا عفت بی کے جانے کے بعد مریم کچھ پل وہیں بیٹهی رہی پهر اٹھ کر تیار هونے چلی گئی
“جتنی خوبصورت ہو اتنا ہی پیارا تمهارا دل بهی ہے” ولید نے اسکی دل کی حالت سے انجان مسکراتے ہوۓ سوچا
سچ ہے عورت کو سمجهنا بے حد مشکل ہے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...