دونوں گهروں میں ایک بار پهر سے شادی کی تیاریاں عروج پہ تهیں جبکہ مریم یہ سب چپ چاپ دیکھ رہی تهی
“مریم اج ماہم آۓ گی اسکے ساتھ جاکر ذرا شاپنگ وغیرہ کر آنا اتنے کم دن رہ گئے ہیں ایک کام بهی پورا نہیں ہوا”
فاطمہ بیگم نے مریم کو کہا جو ماہین کےساتھ کپڑے سمیٹ رہی تهی
“جی مما چلی جاؤ گی”
کپڑے الماری میں رکهتے ہوۓ بولی
“مما میں بهی جاؤں آپی کے ساتھ پلیز”
شاپنگ کی شوقین ماہین جهٹ سے بولی
“کوئی ضرورت نہیں گهر میں ہزار کام ہیں پہلے وہ کرواؤ میرے ساتھ یہ کام نپٹا کر آؤ ذرا کچن میں”
فاطمہ بیگم نے ماہین کو حکم نامہ سنا کر کہا اور باہر چلی گئیں
“یا اللہ میاں پلیز میری بهی شادی کروا دیں”
منہ اوپر کرکے معصوم شکل بنا کر بولی بے اختیار اسکے انداز پہ مریم کو ہنسی آ گئی
“ہاں ہنس لو مجھ غریب پہ اللہ دیکھ رہے ہیں”
“بالکل اللہ تو دیکھ ہی رہے ہیں کوئی شک نہیں اس بات میں”
مریم اسکی چهوٹی سی ناک کهینچتے ہوۓ بولی اور وہ منہ دوسری طرف کرکے بیٹھ گئی
“اچها بتاؤ کیا چاہیے میں لے آؤ گی پکا پرامس”
اسے آفر دیتے ہوۓ بولی
“سچی…… مجهے ایک ڈریس چاہیے اسکے ساتھ میچنگ چوڑیاں پرس اور سینڈل بس ”
اپنی چیزیں گنواتے ہوۓ بولی اور مریم ہنس دی
“حد ہے ماہی پہلے ہی تیری وارڈروب ابل ابل کر باہر آ رہی ہے اور کتنے ڈریسسز چاہیے تم کو چڑیل”
“جاؤ آپی صاف صاف بول دو آپ نہیں لے کر آؤ گی”
پهر سے منہ سوجا لیا
“لے آؤں گی بابا کہا نا اب چلو تم جاؤ مما بلا رہی تهیں تمہیں باقی کام میں سمیٹ لیتی ہوں”
مریم نے کہا تو وہ بهی سر ہلاتی باہر کی طرف چل دی ماہین کے جانے کے بعد اس نے ٹهنڈی سانس بهری
“پاپا ,مما میں بوجھ ہوں نا آپ پہ اس لئے آپ لوگ مجھ سے پیچها چهڑانا چاہ رہے ہیں نا ”
سامنے ٹیبل پر پڑی ایاز شاہ اور فاطمہ بیگم کی تصویر کو دیکھ کر اس نے سوچا آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکهوں سے گرے باہر سے آتی ایاز شاہ کی آواز سن کر آنکهوں کو بے دردی سے رگڑتی واش روم کی طرف بڑھ گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
آج مریم کی شادی تهی اس پر ٹوٹ کر روپ چڑها تها ہر طرف گہما گہمی کا سماں تها سب خوش تهے سواۓ ایک کے.
“ارے مریم چلو منہ دهو کر آؤ بیوٹیشن آ گئی ہے جلدی کرو”
ماہم نے کمرے میں جهانک کر اسے دیکهتے ہوۓ کہا جو اپنی ڈائری میں نجانے کیا لکھ رہی تهی
“جی اچها” کہہ کر واش روم میں گهس گئی
کچھ دیر بعد برائیڈل ڈریس پہنے باہر آئی بیوٹیشن پوری طرح سے الرٹ کهڑی تهی اسکے بیٹهتے ہی وہ اسکے چہرے پہ جهک گئی
“میم آپ بہت خوبصورت ہیں بنا میک اپ کے بهی آپکی سکن بہت فریش لگ رہی ہے”
چہرے پر ہاتھ چلانے کے ساتھ ساتھ زبان بهی چل رہی تهی جبکہ مریم اسکی بات پر پهیکا سا مسکرا دی
اور پهر تقریبا آدهے گهنٹے بعد بیوٹیشن اپنا کام کر کے فارغ ہوئی اور بولی
“بیوٹی فل لک لائک باربی”
جب مریم نے آئینے میں اپنا عکس دیکها کئی لمحے تو وہ خود کو پہچان ہی نہ سکی
“یہ واقعی میں ہوں”
بے یقینی سے بولی
“جی میم آپ ہی ہیں اچها میم میں چلتی ہوں ہیپی ویڈنگ”
کہہ کر باہر نکل گئی جبکہ وہ اب تک خود کو دیکھ رہی تهی
سرخ دلہن لباس سلیقے سے لیا اور کیا گیا بهاری کام والا دوپٹہ اور میک اپ اوپر سے اسکے چہرے کی معصومیت اور آنکهوں میں حیرت نے اسے حسین تر سے حسین ترین بنا دیا تها
.
بارات آ چکی تهی ولید کی بے تاب نگاہیں جسکو ڈهونڈ رہی تهی اسے اسکی جهلک بهی نصیب نہ ہوئی مجبورا ماہین کی مدد لینی پڑی
“ماہی بات سن”
اسٹیج فی الحال خالی تها آواز بنا رکاوٹ کے ماہین کے کانوں تک پہنچ گئی
“جی ولید بهائی”
“ایک کام کرو گڑیا مریم کی ایک پک کلک کر کے لا دو پلیز”
اپنا فون اسکی طرف بڑهاتے هوۓ بولا
“نا بابا نا اگر مما بجو یا آپی کو پتہ چلا تو میری شامت آ جانی هے مجهے معاف رکهیں آپ”
اس نے سیدهے هاتهه کهڑے کر دئیے
“پلیز نا صرف ایک پک”
التجائیہ لہجے میں کہا تو نجانے کیا سوچ کر اس نے فون لے لیا
“اوکے میں ٹرائی کرتی ہوں بدلے میں آپکو مجهے آئس کریم کهلانا پڑے گی”
“اوکے ڈن اب جاؤ جلدی سے پک لے کر آؤ”
اسکی بے تابی پہ ہنس دی اور مریم کے روم کیطرف چل پڑی
روم میں کوئی نہ تها پهر بهی اسے کهڑکی سے تصویر لینا زیادہ مناسب لگا
“کلک”
اور پهر کچھ اس انداز سے تصویر لی کہ وہ بیڈ پر بیٹهی چوڑیوں سے کهیل رہی تهی چہرہ مسکراہٹ سے سجا
“واہ ماہین شاہ تجهے تو فوٹوگرافر ہونا چاہیے”
تصویر دیکهتے دل ہی دل بولی اور ولید کی طرف چل دی جو اسٹیج پر بیٹها بے تابی سے اسکا منتظر تها
“یہ لیں اور پرامس یاد رکهنا اپنا”
فون ولید کو دیتے ہوۓ بولی
اسٹیج پر سب جمع تهے اس نے موبائل جیب میں ڈال لیا مگر دل جلد از جلد اسے دیکهنے پر اکسا رہا تها واش روم جانے کے بہانے بالاآخر اس نے وہ پک دیکھ لی اور پلکیں جهپکانا بهول گیا
پهر نکاح سے رخصتی تک دل رب کے حضور سجدہ ریز رہا پوری طرح چادر میں ڈهک کر بے شمار دعائیں لے کر آنسو دے کر بابل کے گهر سے رخصت ہوئی شدید سردی کے باوجود گاڑی کی ونڈو کا شیشہ نیچے رکها
“مریم”
ساتھ بیٹهے ولید نے پکارا
“آں… جی”
چونک کر بولی چہرہ اب تک گهونگٹ میں تها
“شیشہ بند کر لیں سردی لگ جاۓ گی”
“نہیں اٹس اوکے میں ٹهیک ہوں”
آنسوؤں سے بهرے لہجے میں بولی اور ولید کے دل کو کچھ ہوا
“آج کے بعد تمهیں کبهی رونے نہیں دوں گا مریم”
باقی کا راستہ وہ خود سے عہد کرتا آیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
وقار ہاؤس آکر چهوٹی چهوٹی رسموں کے بعد اسے کمرے میں پہنچا دیا گیا
کمرہ بے حد خوبصورتی اور نفاست سے سجایا گیا تها ہر طرف گلاب کی خوشبو پهیلی ہوئی تهی
جب دل کا موسم اداس ہو تو باہری دنیا خودبخود حد درجہ بری لگنے لگتی ہے یہی حال اس وقت مریم کا تها
کچھ ہی دیر بعد دروازہ کهلنے کی آواز آئی ساتھ ہی بهاری مردانہ قدم اپنی طرف آتے محسوس ہوۓ سر بے اختیار کچھ اور جهک گیا
“اسلام علیکم کیسی ہو”
قریب بیٹھ کر پیار سے پوچها وہ کچھ نہ بولی
کچھ دیر انتظار کے بعد ولید نے اپنا ہاتھ اسکے مہندی سے سجے ہاتهوں پہ رکھ دیا اور پهر گهونگٹ الٹ دیا
گهونگٹ اٹهتے ہی ولید آنکهیں جهپکنا بهول سا گیا سحر زدہ سا اسکے صبیح چہرے کو تکتا رہا
اسطرح سے اسکا دیکهنا مریم کو شدید جهنجلاہٹ کا شکار کر گیا
“مجهے نیند آ رہی ہے”
دھیرے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ کی گرفت سے آزاد کرواتے ہوۓ بولی
اسکی آواز پہ وہ چونکا
“ہاں تم چینج کرلو میں تهوڑی دیر میں آتا ہوں”
یہ کہتے ساتھ وہ اٹھ کر باہر چلا گیا اتنا تو وہ بهی جانتا تها کہ وہ اسے شاید پسند نہیں کرتی نہ ہی اس رشتے کو اب تک قبول کر پائی ہے وہ اسے اس نئے رشتے کو قبول کرنے کا وقت دینا چاہتا تها جتنا وہ چاہتی اتنا وقت…
**************
اسکے لئے یہی بہت تها جیسے اس نے چاہا قدرت نے اسے جائز اور پاک رشتے کے ساتھ اسے اسکی تقدیر میں لکھ دیا تها__,, جس لڑکی کی ایک جهلک دیکهنے کے لئے آنکهیں ترس جاتی تهی ہر دن اب اسکا دیدار کرسکتا تها وہ بهی سب کے سامنے…….
تقریبا ایک گهنٹے بعد وہ واپس روم میں آیا اندر کا منظر دیکھ کر ٹهٹهک گیا مریم صوفے پر بنا کمبل کے بے خبر سو رہی تهی دهیرے سے چلتا وہ اسکے قریب آیا اور گٹهنوں کے بل بیٹھ کر اسکے میک اپ سے عاری بے حد خوبصورت چہرے کو کتنے ہی پل بے خود سا دیکهے گیا
سوتے ہوۓ وہ ولید کو ایک معصوم پری لگی
یکدم اسے سردی کا احساس ہوا
وہ اٹها اور بیڈ پر پڑا کمبل لا کر اسکے اوپر ڈال دیا خود دوبارہ اسکے سرہانے بیٹھ گیا
“بہت پیاری ہو تم بہت معصوم سی اسی معصومیت پہ ہی تو دل ہارا ہوں ولید شاہ کو محبت نے زیر کر ہی دیا میں جو محبت کو فضول شے سمجهتا تها آج اقرار کرتا ہوں محبت پاک جذبہ ہے میں ولید شاہ تم سے ٹوٹ کے محبت کرتا ہوں مریم تم وہ پہلی اور آخری لڑکی ہو جس نے میرے دل کے نہاں خانوں میں پوشیدہ محبت کو جگا دیا میں ساری زندگی تم سے صرف تم سے محبت کرتا رہوں گا اور مجهے یقین ہے میں اپنی محبت سے تمهیں مجھ سے محبت کرنے پہ مجبور کر دوں گا”
اسکے چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکهتے ہوۓ دهیرے سے بول رہا تها کچھ لمحے یوں ہی دیکهنے کے بعد وہ اٹها اور وضو کی غرض سے واش روم کی جانب چل پڑا جس رب سے اس نے اسے مانگا تها جب اس نے اسکی دعا پہ کن کہا تو اب رب کے حضور جهک کر وہ پاک پروردگار کا شکر ادا کرنا چاہتا تها_____
دو نفل شکرانے کے پڑھ کر اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹها دئیے اپنی اور مریم کی اچهی زندگی کی دعا کرکے وہ اٹها اور کچھ پڑھ کہ اس پر پهونکا تبهی وہ تهوڑا سا کسمسائی کچھ ولید کے قدموں میں گرا جهک کر اٹهایا تو ڈائری تهی مریم کی ڈائری ایک لمحہ کو دل چاہا پڑھ لے پهر نجانے کیا سوچ کر
مسکراتے ہوۓ اسکے سرہانے رکھ دی…
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...