اگلے کچھ دن تک وہ غیر محسوس طریقے سے ولید کو سوچے گئی دوسری طرف ولید کا بهی کچھ یہی حال تها
“تمهارا کیا خیال ہے ولید اس پروجیکٹ کے بارے میں..؟”
اس وقت حسن حسنین اور ولید اپنے آفس میں بیٹهے ایک بے حد اهم پروجیکٹ ڈسکس کر رہے تهے ساری تفصیلات بتا کر حسن نے حسنین اور پهر ولید سے پوچها جو اس وقت بهی مریم کو سوچ رہا تها
“ولید…. ولی”
حسن کے بعد حسنین نے کندهے سے پکڑ کر ہلایا تو وہ خواب سی کیفیت سے بیدار ہوا
“جج.. جی بهائی کیا ہوا۔۔۔؟”
سیدها ہوکر بیٹهنے کے بعد وہ بولا حسن اور حسنین نے حیران نظروں سے پہلے ایک دوسرے کو دیکها اور پهر ولید کی طرف دیکها
“کیا هوا بهائی لوگوں۔۔۔؟؟؟ آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں مجهے بہت ہینڈسم لگ رہا ہوں کیا”
ان کے دیکهنے کے انداز پر وہ حیران ہوا تها
“ہاں بیٹا جی بہت ہی ہینڈسم لگ رہے ہو آپ بلکہ بہت ہی زیادہ”
حسنین نے لفظ بہت ہی زیادہ پر زور دے کر کہا
“ولی….”
ولید نے حسنین کو جواب دینے کے لئے منہ کهولا ہی تها جب حسن نے اسے مخاطب کیا
“جی بهائی…..”
حسن کی طرف متوجہ ہوا
“کیا بات ہے ولی کچھ دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں میں تم کام پر دهیان نہیں دے رہے ابهی بهی ایک گهنٹے سے ہم ہمدانی صاحب والا پروجیکٹ ڈسکس کر رہے تهے اور تمهارا مائینڈ ادهر تها ہی نہیں کیا بات ہے طبیعت ٹهیک نہیں یا کوئی اور پروبلم ہے تو بتاؤ”
بے حد پیار سے پوچها
“نہیں بهائی کوئی پرابلم نہیں میں آئندہ خیال رکهوں گا سوری”
یہ کہتے ہوۓ مریم کی تصویر آنکهوں کے آگے لہرائی بے اختیار اس نے سر جهٹکا
“اٹس اوکے… اچها یہ فائل لو تم دونوں اور اسے اچهی طرح سٹڈی کرو۔۔۔۔کل بابا سے ڈسکس کرکے یہ پروجیکٹ فائنل کر دیتے ہیں”
حسن نے فائل ولید کی طرف بڑهاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کام کے دوران مسلسل مریم اسکے حواسوں پر سوار رہی۔
“میری جان کام تو کرنے دو مجهے صبح بهی تمهاری وجہ سے ڈانٹ پڑ گئی”
خیالوں میں اسے مخاطب کرتے ہوۓ کہا
“کیا خوب ہو اگر تمهارا دیدار ہوجاۓ آج کاش”
مسکراتے ہوۓ سوچا
“اوکے۔۔۔۔ برادر ! اب میں گاڑی نکال رہا ہوں جلدی سے آ جاؤ”
حسنین نے آکر کہا تو ولید نے چونک کر ٹائم دیکها
“ساڑهے سات”
صبح سے شام ہو گئی جبکہ اسکا کام ویسے کا ویسے پڑا تها
“شٹ یار… اب گهر لے جانا پڑے گا کام…. ”
ضروری کاغذات سمیٹ کر وہ باہر چل پڑا جہاں دونوں اسکا انتظار کر رہے تھے ہاتھ میں فائلیں دیکھ کر حسنین نے معنی خیز مسکراہٹ اسکی جانب اچهالی جبکہ وہ خاموشی سے کار میں بیٹھ گیا اور کار گهر کی طرف رواں دواں ہوگئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
سنڈے پر سب کا اچانک پکنک کا پلان بن گیا سب لوگ تیاری میں لگ گئے تبهی ولید ،وقار صاحب کے پاس آیا
“ہاں بهئی برخوردار.!!! ہوگئی تیاری”
انہوں نے اخبار لپیٹ کر سامنے ٹیبل پر رکها
“جی بابا تقریبا سب ہوگیا.”
سعادت مندی سے کہا
“اچها… کچھ کہنا ہے تمهیں؟؟”
انہوں نے اسکے کندهے پر ہاتھ رکھ کر پوچها
“جج۔۔۔۔ جی بابا وہ میں سوچ رہا تها کہ آج سنڈے هے تو کیوں نہ ایاز انکل کی فیملی کو بهی اپنے ساتھ لے چلیں”
وہ اعتماد سے بولا
“واہ… میرے دل کی بات کہہ دی تو نے یار میں بهی یہی سوچ رہا تها میں فون کرکے انکو یہاں بلوا لیتا ہوں ”
یہ کہتے ساتھ ہی سامنے پڑا فون اٹها کر نمبر ڈائل کرنے لگے جبکہ وہ اپنی خوشی چهپاتا وہاں سے اٹهه کر روم کیطرف چل پڑا
اگلے ایک گهنٹے میں ایاز شاہ اپنی فیملی کے ساتھ وقار ہاؤس میں موجود تهے
حسن، حسنین، سونیا ،ماہم اور ماہین ایک کار میں بیٹھ گئے بہت کوشش کے بعد بهی مریم کے لئے جگہ نہ بن پائی اس بات پر وہ خفا ہوگئی جبکہ دوسری کار میں ایاز شاہ وقار ،فاطمہ بیگم اور مسز وقار بیٹھ گئے مریم کے لئے اس میں بهی جگہ نہ بن پائی اس بات پہ بے اختیار اسکی آنکهیں چهلک پڑیں
یہ منظر ایاز شاہ، وقار صاحب اور ولید نے دیکها تبهی وہ کار سے اتر کر ولید کی طرف آۓ
“ولی بیٹا…”
“جی بابا”
“بیٹا تم ایسا کرو مریم بیٹی کے ساتھ دوسری کار میں آجاؤ.. کیوں ایاز کوئی اعتراض تو نہیں تجهے”
مسکراتے ہوۓ ایاز شاہ سے پوچها تو انہوں نے بهی مسکرا کر سر نفی میں ہلا دیا جبکہ اس مسکراہٹ کا مطلب ولید نہ سمجھ سکا
“جی بابا آپ لوگ چلیں ہم بهی آ رہے ہیں”
ولید نے کہا تو ایاز شاہ مریم کی جانب چل دئیے
“ہاں تو برخوردار…. میری بہو کا ذرا خیال رکهنا”
“جی بابا”
کہہ کر وہ مڑا اگلے ہی لمحے کرنٹ کها کر پلٹا
“کیا کہا آپ نے بابا”
“وہی جو آپ نے سنا”
اسی کے لہجے میں جواب دیا
“تجهے کیا لگا تیری حرکتیں میری نظروں سے پوشیدہ رہیں گی نہ بیٹا جی یہ بال دهوپ میں سفید نہیں کیے”
بالوں کی طرف اشارہ کرکے کہا
“مگر….”
“اگر مگر واپس آکر کرنا چل جا اب”
“تهینک یو سو مچ بابا”
وقار صاحب کے گلے لگ کر کہا
“اچها بس بس جا اب”
یہ کہہ کر وہ اپنی کار کی جانب چل پڑے جہاں ایاز شاہ انکا انتظار کر رہے تهے جبکہ وہ مریم کیطرف مڑا
“کیسی ہو”
لہجے سے خوشی چهپاتے بظاہر عام سے لہجے میں پوچها
“ٹهیک ہوں اب چلیں یا یہی پہ ڈیرے ڈالنے کا ارادہ ہے”
دونوں گاڑیوں کو جاتا دیکھ کر بولی “ہاں چلو”
یہ کہہ کر وہ کار کیطرف چل دیا جبکہ وہ بهی اسکے پیچهے روانہ ہوگئی
“اب چلنے کے لئے اسپیشل انویٹیشن دینا پڑے گا آپکو”
کار اسٹارٹ کرنے کے باوجود وہ آگے نہیں بڑها رہا تها اس حرکت پر مریم سلگ اٹهی
“مس مریم شاہ کیا میں آپکو شکل سے ڈرائیور لگ رہا ہوں؟؟”
سنجیدگی سے بولا
“نہیں تو”
اس سوال پہ حیران تهی وہ
“تو آپ پلیز آپ آگے آکر بیٹهیں”
اور وہ چپ چاپ اٹھ کر اسکے برابر آکر بیٹھ گئی تب ولید نے کار آگے بڑها دی
“آپکی آئیز بہت بیوٹی فل ہیں”
کچهه دیر بعد وہ بولا تو وہ چونک کر اسے دیکهنے لگی پهر تهینکس کہہ کر ونڈو سے باہر دیکهنے لگی
“اتنا کم کیوں بولتی ہو آپ”
“میری مرضی میں کم بولو یا زیادہ آپکو کیا پرابلم… بلڈوز کہیں کا”
منہ ولید کی طرف کر کے غصے سے بولی آخری جملہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تو وہ مسکرا دیا
“اوکے اوکے ایم سوری”
باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا ولید کے لئے یہ ہی بہت تها کہ اس وقت وہ دشمن جاں اسکے برابر بیٹهی تهی چاہے مجبوری میں ہی سہی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
دوسری طرف وقار اور ایاز شاہ نے راستے اپنی اپنی بیگمات سے ولید اور مریم کے رشتے کی بات کر لی تهی ان دونوں کو بهی کوئی اعتراض نہ تها
“بهائی صاحب میں تو کہتی ہوں منگنی وغیرہ کے جهنجهٹ میں پڑنے کی ضرورت ہے ہی نہیں شادی کی تیاریاں کرتے ہیں”
مسز وقار نے اپنی راۓ دی
“ہاں ایاز تیرا کیا خیال ہے”
وقار صاحب نے ایاز شاہ سے پوچها
“ہاں ٹهیک ہے یار جیسے تیری مرضی کیوں فاطمہ؟؟”
انہوں نے فاطمہ بیگم کیطرف چہرہ کر کے پوچها
“جی جیسے آپ لوگوں کو ٹهیک لگے مگر مریم سے ایک بار پوچھ لیتے تو بہتر ہوتا”
“یہ نیک کام ہم آج ہی کریں گے آپ بالکل بهی فکر مت کریں”
مسز وقار نے اسے حوصلہ دیا ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد ولید اور مریم کے علاوہ سب مطلوبہ پکنک پوائنٹ پر پہنچ گئے
وہاں پہنچ کر بڑوں نے جب یہ خبر سنائی تو سب ہی خوشی سے جهوم اٹهے
“واؤ…. کتنا مزہ آۓ گا میں تو بہت زیادہ اکسائیٹڈ ہوں”
سونیا نے کہا تو ماہم اور ماہین دونوں نے اسکی تائید کی
“میں تو بہت خوش ہوں بهئی واہ مریم اور ولید بهائی کی ڈائریکٹ شادی افففف.”
مالین نے خوشی سے بهرپور لہجے میں کہا
اتنے میں ان دونوں کی کار بهی پہنچ گئی
ولید اتر کر حسن، حسنین کی طرف چل پڑا جبکہ مریم کو ایاز شاہ اور فاطمہ بیگم نے اپنی طرف بلا لیا
اور پهر اس سے پوچھ کر وہ دونوں خوشی خوشی وقار صاحب کی طرف بڑھ گئے جبکہ مریم اپنی جگہ منجمد ہو گئی
“اس بلڈوزر سے شادی افففف اللہ میاں یہ کیا جوڑ بنایا آپ نے”
اسمان کی طرف منہ کرکے بڑبڑائی
“بس جی بس ہو گئی آپکی دعائیں قبول”
اسطرح بڑبڑاتے دیکھ کر ماہم نے کہا تو وہ پهیکا سا ہنس دی دوسری طرف ولید کو جب یہ بات پتہ چلی تو اسکا دل رب کے حضور سجدہ ریز ہوگیا جسے اس نے دل کی گہرائیوں سے چاہا وہ نازک معصوم اور خوبصورت لڑکی اس کی ہونے والی ہے یہ احساس اسے دنیا کا خوبصورت احساس لگ رہا تها پورا وقت اسکی نگاہ مریم پہ رہی اور وہ اسکے اسطرح گهورنے پہ جی جان سے سلگ اٹهی “مسکرا لو مسکرا لو جی بهر کے مسکراؤ جب میں بدلا لوں گی تب پتہ چلے گا مجھ سے شادی کرکے رو گے بیٹا آپ نے مریم شاہ سے پنگا لیا ہے”
اسکے مسکرانے پہ دل ہی دل میں بولی
اور پهر شام ہوتے ہی سب گهر جانے کے لئے کار کی طرف بڑہے
“آئی لو یو مائی اینجل”
اسکے ساتھ چلتے ہوۓ ولید نے سرگوشی کی
جبکہ وہ چونک کر اسے دیکهنے لگی۔۔۔
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...