انابیہ گھر آتے ہی اپنا عبایا اور دوپٹہ اتار کر دور پھینکا ۔۔اسے زینب نے بازو سے پکڑ کر روک لیا۔۔دیکھ لیا آپ نے کیا سوچتے ہیں لوگ میرے بارے میں۔ دیکھ لیا آپ نے۔۔وہ چلائی۔اسکی آواز سن کر ماہین باہر آگئی۔بیٹا۔۔۔۔زینب بیچارگی سے بولیں۔آپ کے کہنے پر گئی تھی میں۔۔صرف آپنے کہا تھا۔میں گھر سے نکلنا ہی نہیں چاہتی تھی دیکھ لیا آپ نے امی۔۔۔وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ چلائی۔۔میں نہیں جاؤ اب کہیں بھی۔۔وہ کہتی ہوئی کمرے میں بھاگ گئی۔۔ماہین پانی دو مجھے۔ماہین نے انہیں پانی لا دیا۔وہ پانی لے کر اس کے کمرے میں آئیں۔۔ جہاں وہ اپنی ہر چیز اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی۔۔۔زینب نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔۔انابیہ میری بات سنو۔۔۔انابیہ۔۔ امی میرے ساتھ کیوں ہوا یہ سب امی بتائیں مجھے۔۔میرے لیے اب کہیں بھی جگہ نہیں ہے کیا۔۔میں اتنی بری ہوں کیا امی وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر روتی ہوئی بیٹھ گئی۔۔لو پانی پیو۔۔۔زینب نے اسے گلاس تھمایا۔۔نہیں پینا مجھے امی۔۔۔پانی پیو بیٹا۔۔وہ اسے تسلی دینے والے انداز میں بولیں۔۔انابیہ نے پانی پیا اور خاموشی سے بیٹھی رہی۔۔کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔۔۔انابیہ۔۔۔ انھوں نے آہستگی سے اسکا ہاتھ تھاما۔۔انابیہ سر جھکاۓ بیٹھی رہی۔۔ آﺫر سے شادی کے لیے ہاں کردو بیٹا۔۔ اسکے علاوہ تمھیں کوئی نہیں سمجھ سکتا میں جانتی ہوں۔۔میں ﮈرتی ہوں انابیہ تمھیں بچانا چاہتی ہوں ایسی باتوں سے۔۔ایسے لوگوں سے۔۔۔امی۔۔۔وہ روہانسی ہوئی ۔۔۔ہاں کر دو اپنی خوشی سے اپنی رضامندی سے۔۔زینب اسے کہہ کر آنسو پونچھتی باہر آگئی۔۔
زینب کے جانے کے بعد انابیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا رہا کیا کریں۔۔جس شخص نے اسے محبت کا اقرار کیا تھا۔اسکا دل جس کے نام سے دھڑکتا تھا۔اسکی ہر سانس پر جسکا نام تھاجس نے اسے محبت کی انتہا پر لا کر اکیلا کر گیا تھا ۔جس سے کچھ دن میں اسکی شادی ہونی تھی۔۔وہ دل میں شک کے بیج بو کر اسے سربازار بدنام کر کے چھوڑ گیا تھا۔۔۔اب امی ابو چاہتے ہیں میں اسکے بھائی سے شادی کے لیے ہاں کردوں۔۔کیا اس کے دل میں میرے لیے عزت ہوگی۔اسکی سوچ بھی میرے لیے عاشر عامر اور دوسرے لوگوں جیسی نہیں ہوگی کیا۔۔یا اللہ مجھے راستہ دکھا۔۔میرے حق میں بہتری کر۔۔اس کے اندر گٹھن بڑھنے لگی تھی۔۔آہستہ آہستہ وہ گھٹن آنسؤں میں بدل گئی۔۔اس نے کبھی نماز کی اتنی پابندی نہیں کی تھی۔لیکن جب سے اسکے ساتھ یہ واقع ہوا تھا اسنے نماز کی ادائیگی کے لیے پابندی کی تھی۔۔بے شک اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی نا کوئی مصلیحت ہوتی ہے۔۔وہی انابیہ جس کے چہرے سے ہنسی اور مسکراہٹ شوخیاں نہیں جاتی تھی۔۔رو رو کر بے حال تھی۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ساری دنیا غائب ہوگئی ہے اور صرف اس کا وجود باقی بچا ہوا ہے۔۔اور وہ بھاگے جا رہی ہے۔۔۔ دنیا صرف ایک صحراکی مانند لگ رہی تھی ۔۔وہ شاید بھا گ بھاگ کر تھک گئی تھی ۔۔اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں بھاگ رہی ہے۔۔اس کا دل چاہتا کوئی ٹھنڈی میٹھی چھاوں والی جگہ ہو جہاں وہ کچھ دیر رک جائے۔۔۔کچھ دیر سکون کر لے ۔مگر کہاں؟۔یہی تلاش تو اسے بھگائے جا رہی تھی ۔یوں لگتا وہ اکیلی رہ گئی ہے ۔اس کے اندر ایک بے چینی تھی جسے وہ ختم کرنا چاہتی تھی ۔۔۔لیکن کیسے ؟؟؟ اسے سکون کہاں ملے گا اسکی بےچینی کیسے ختم ہوگی؟وہ اٹھی اوراس نے وضو کیا اور عشاء کی نماز ادا کی۔۔آج اسکی بیس منٹ کی نماز ایک گھنٹے میں بھی پوری نہیں ہورہی تھی۔۔۔اسنے نماز ادا کی۔۔توبہ کے نفل پڑھے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگی۔۔اے میرے رب میری توبہ قبول فرما مجھے راستہ دکھا۔۔اسکی زبان پر یہی دعا تھی۔۔وہ اپنے ماضی کو یاد کر رہی تھی۔۔۔اسکی غلطیاں,اسکی کوتاہیاں وہ معافی مانگ رہی تھی۔۔وہ اپنی حد بھول گئی تھی۔۔اسکی زبان پر توبہ تھی معافی تھی۔۔میرے رب میں اپنی حد بھول گئی تھی۔۔میں اپنے عورت ہونے کی پاکیزگی بھول گئی تھی۔۔میں گنہگار ہوں۔میری توبہ قبول فرما لے میرے مولا۔۔ وہ دعا مانگ کر اٹھیاسکے آنسو تھے جو تھم نہیں رہے تھےصرف توبہ رہ گئی تھی اسے بارہا ایک
ہی بات یاد آرہی تھی
۔*اور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے ، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے ، بھائی ، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے مملوک ، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے ۔ اے مومنو ، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو ، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے
*[Al Qur’an Al Kareem Surah 24۔ AN-NUR:31 ]*
۔۔۔
بے شک اللہ وہ واحد ﺫات ہے جسے دکھ بانٹ کر دل کو سکون ملتا ہے۔صبح انابیہ کی آنکھ جلدی کھل گئی تھی۔۔یا شاید وہ سوئی ہی کچھ دیر کے لیے تھی۔۔وہ نماز ادا کرکے نیچے آئی۔۔جہاں زینب بیگم قرآن پاک کی تلاوت کر رہیں تھیں۔۔اور ماہین ابھی نیچے آئی تھی۔انابیہ نیچے آئی اور ان کے پاس بیٹھ گئی۔۔اسکی بھیگی لال سرخ آنکھیں ان سے چھپ نہیں پائی تھیں۔۔۔انابیہ کو دیکھتے ہی وہ مسکرائیں اور قرآن پاک مکمل کیا۔۔۔اور اس پر پھونک ماری۔۔۔انابیہ نے آنکھیں بند کر لی۔۔اور اس پھونک میں اپنے لیے سکون تلاش کرنے لگی جیسے ۔امی۔۔۔انابیہ نے آہستہ سے انھیں پکارا۔۔۔جی بیٹا۔۔انھوں نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بولی۔۔آپ تایا جان اور ابو جان کو ہاں کر دیں۔۔میں راض۔۔۔الفاظ نے اسکا ساتھ نا دیا اور اسکی آواز کا گلہ گھوٹ دیا۔۔ زینب بیگم نے اسکا ماتھا چوما اور اسے سینے میں چھپا لیا۔۔
اسکی مرضی سے سب ہورہا تھا۔۔۔اس نے خاموشی سے نکاح اور رخصتی کی فرمائش کی تھی۔۔اور اس فرمائش پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔۔لیکن زینب بیگم کی خواہش تھی کہ وہ اسے ویسے ہی دلہن بنوائیں جیسی اسکی خواہش تھی۔۔وہ وہی لہنگا پہنے جو اسنے پسند کیا تھا اور اسی بڑے پالر میں تیار ہوئی تھی۔جہاں پہلے بکنگ کروائی تھی اس نے۔۔۔وہ نا چاہتے ہوۓ بھی ان کی ماننے پر مجبور تھی۔۔وہ اپنی کی گئی غلطیوں پر شرمندہ تھی۔۔جو جانے انجانے اسے ہوئی تھی۔۔جس کی وجہ سے اسکے والدین کی آنکھیں بھیگی تھی۔۔اسنے خاموشی سے ہر چیز پر سر جھکا دیا۔۔لیکن گزری باتیں اور بے وفا کی یادیں اسکا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں۔۔جسکی وجہ سے تھوڑی تھوڑی دیر میں وہ ضبط کھو دیتی تھی۔اور اسکی بڑی بڑی آنکھیں بھیگ جاتی تھی وہ گھر سے ماں باپ کی دعائوں کے ساۓ میں رخصت ہوئی تھی سجاد صاحب نے دونوں بچوں کو اسی گھر کی چابی دی تھی جو انھوں نے عاشر اور انابیہ کے لیے خریدا تھا۔۔۔
گاڑی گھر کے سامنے رکی تھی ۔دروازہ کھولا گیا۔وہ اپنا بھاری بھرکم لہنگا سمبھالتی ہوئی گاڑی سے نیچے اتری۔کتنی شوق سے رو دھو کر اسنے شادی کا اتنا مہنگا لہنگا بنوایا تھا۔لیکن نصیب کا کس کو پتا ہوتا ہے۔کیا سوچا تھا اور ہوا کیا۔صرمہ اور دکھ سے چلنا مشکل لگ رہا۔۔مزید چلتی تو گر جاتی۔مشکل سے اسکا سہارا لیتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی بارات میں صرف وہی ایک انسان تھا جسکے نام کے ساتھ منصوب ہو چکی تھی جسکے نکاح میں تھی۔جو اسکا نصیب بن چکا تھا۔ایسا انسان جس سے ہمیشہ چڑھتی تھی۔گھر میں کوئی استقبال کے لیے موجود نہیں تھا۔کمرے میں داخل ہوئی۔اسکی پسند کا سجایا کمرہ سب اسکی پسند کا تو تھا۔سوائے اس شخص کے ۔جس کے نام سے اس کا دل دھڑکتا تھا۔اپنا سب کچھ جسے مانے بیٹھی تھی وہ عین وقت یہ سب ہو گا۔ماننا بہت مشکل تھاکمرے میں آتے ہی وہ سب چیزوں کو دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
یا اللہ کیسی آزمائیش ہے میرے رب
مجھے معاف کر دے۔میں گنہگار نہیں ہو میں نے کچھ نہیں کیا میرے رب۔
وہ جو کمرے میں داخل ہورہا تھا وہیں رک گیا مزید صبر کرنا مشکل ہوگیا تھا وہ نصیب نہیں بدل سکی تھی اسکے نصیب میں عاشر نہیں آﺫر تھا
آﺫر کمرے میں آنے کے بجاۓ باہر بیٹھا رہا وہ ہمت نہیں کر پا رہا تھا آخر کار جب انابیہ کی سسکیوں کی آواز کم ہوئی تو اسنے ہمت کی اور اندر آیا
۔ جب وہ خوب روچکی تو اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ہیوی میک اپ ہیوی ﮈریس اب مزید ہمت نہیں تھی۔جو مجھ پر گزری ہے وہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔وہ یہی سوچ رہی تھی۔آگے بڑھی۔اور نڑھال سی چلتی ہوئی صوفہ تک آئی۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔سمبھلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔لڑکھڑا کر گرنے لگی
اسنے آگے بڑھ کر تھام لیا۔اور سہارا دی کر کھڑا کیا۔لیکن بے سود۔۔انابیہ آر یو اوکے
۔۔بے چینی سے پوچھا۔۔انابیہ۔
انابیہ اٹھوپلیز۔۔وہ سمبھالے نہیں سمبھل رہی تھی۔
اسے باہوں کے حصار میں اٹھا کر پلنگ پر لیٹا دیا۔انابیہ ٹھیک ہیں آپ۔۔پریشانی مزید بڑھ رہی تھی۔۔۔اسے اس حالت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔
موبائل نکالا اور ﮈاکٹر واسع کا نمبر ﮈائل کرنے لگا۔۔ساتھ ساتھ انابیہ کو بھی اٹھانے کی کوشش کرتا رہا۔
ہیلو ﮈاکٹر واسع ۔
آپ گھر آجائیں فورا۔اٹس ارجنٹ۔
ﮈاکڑ کو گھر آنے کا بول کے وہ دوبارہ انابیہ پر جھک گیا۔انابیہ ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
اسکی پریشانی مزید بڑھ رہی تھی انھوں نے چیک کیا اور بتایا۔۔آئی تھینک ویکنس کی وجہ سےاور انھوں نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے۔می بی اسی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہیں۔۔زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے بس ریسٹ کی ضرورت ہے کچھ دوائیاں لکھ کر دے رہا ہوں۔انھیں کھانا کھلانے کے بعد دیں۔۔ﮈاکٹر نے پیپر پر لکھ کر اسے پیپر تھما دیا
رات میں میں انھیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔وہ پریشان ہوا
اٹس اوکے میں صبح چکر لگاو گا چیک اپ کر لوں گا اور دوائیاں بھی لے آؤں گا فلحال انھیں سونے دیں۔۔۔۔
تھینک یو سو مچ واسع صاحب۔۔وہ مشکور ہوا
اینی وے کونگریجولیشن ۔۔۔اتنی جلدی شادی کر لی بتایا بھی نہیں۔۔۔ میں زیادہ کھاتا ہوں کیا۔۔۔وہ ناراض ہوۓ
ارے نہیں وہ بات نہیں سب بہت جلدی میں ہوا۔۔
کوئی بات نہیں۔ آئی واز جسٹ کﮈنگ۔۔
ہیپی میری۔۔۔
تھینک یو واسع صاحب
اور انکا خیال رکھیں۔۔انھیں کیئر کی ضرورت ہے۔۔انھوں نے نصیحت۔۔۔
اور وہ ﮈاکٹر کو دروازے تک چھوڑنے گیا
اسکی آنکھ کھل گئی تھی ناجانے رات کا کون سا پہر تھا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔کمزوری کی وجہ سے اسے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔۔۔پورے کمرے میں عجیب سی خاموشی کا راج تھا۔سواۓ سانسوں کی آواز کے کمرے میں چار سو سناٹا تھا۔اسنے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی۔اسکا ہاتھ شاید میز پر لگا تھا۔چوڑیوں کی چھنچھناہٹ نے پورے کمرے میں شور مچا دیا۔وہ قریب صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔۔فورا آنکھ کھلی اور بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا۔۔بےچینی سے پوچھا۔ ٹھیک ہیں آپ۔ پانی۔۔پانی مجھے پانی چاہیے اسنے ٹوٹے لفظوں میں کہا۔۔اسنے گلاس بھرا اور اسکو اٹھنے میں مدد کر کے پانی پلایا تھا۔۔وہ نﮈھال سی اسکے سینے سے لگ گئی۔۔اسنے پیار سے اسکے ماتھے پر آتے بالوں کو پیچھے کیا۔دسمبر کی سردی میں بھی وہ پسینہ سے شرابور تھی۔کچھ کھانا ہے آپ نے۔بھوک لگی ہے آپکو۔اسنے پیار بھرے لہجے میں سوال کیا۔نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے چینج کرنا ہے پلیز۔اس نے سہارا دے کر بیٹھایا اسے ۔۔۔اور اسکے سوٹ کیس سے کپڑے نکال کر دیے وہ اپنی مرضی کا کچھ نہیں لائی تھی وہی کچھ کپڑے تھے جو امی نے اسکے لیے بناۓ تھے ۔آپ چینج کر لیں۔اسنے کھڑا ہونے میں مدد کی۔۔آپ باہر جائیں ۔۔آپ کیسے ۔اسکی بات منہ میں رہ گئی اسنے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔۔آپ باہر جائیں۔۔پلیز اچھا جا رہا ہوں۔پلیز بی کیئر فل۔۔وہ اسے احتیاط کرنے کا بول کر باہر آگیا۔لیکن بےچینی اور پریشانی تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
ان دونوں کے درمیان عجیب سی خاموشی تھی وہ سیدھا کچن میں آیا تھا۔رات کو اتے ہوۓ اس نے کھا نے پینے کا کچھ سامان لے لیا تھا۔اسنے کھانا وغیرہ پلیٹ میں نکالا اور ﮈش میں رکھ کر کمرے میں آگیا۔وہ شاید باتھ روم میں تھی۔اسنے کھانا ٹیبل پر رکھا اور انابیہ کا انتظار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آئی اور پلنگ کی طرف بڑھی۔کھانا کھا لیں پہلے پھر سو جانا۔کچھ کھایا نہیں آپ نے ۔مجھے بھوک نہیں ہے۔انابیہ نے اسے نظر انداز کیا اور پلنگ پر آبیٹھی وہ ﮈش اٹھاۓ اسکے سامنے آبیٹھا اور نوالہ بنا کر اسکے سامنے کیا۔مجھے نہیں کھانا ۔پلیز کھانے سے کیا غصہ ہے۔جو ہوا شاید نصیب میں تھا
میرا نصیب ہی اتنا برا کیوں ہےساری آزمائیشیں میرے لیے ہی کیوں۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔اب تو آنکھوں سے آنسو تک ختم ہو چکے تھے۔اللہ پاک ہمیشہ اپنے محبوب بندوں کو آزمائیش میں ﮈالتا ہے۔اگر آپ پر آزمائیش ہے تو ناراض نہیں کریں اللہ کو۔خود کو سنبھالیں پلیز
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے وہ انابیہ کو دلاسا دے رہا ہے۔انابیہ نے دو چار نوالے کھائے۔بس مجھے اور نہیں کھانا ۔ٹھیک ہیں نا آپ۔وہ پریشان ہو کر بولا۔
جی ٹھیک ہوں میں ٹھیک ہے آپ آرام کریں۔وہ انابیہ کو آرام کرنے کا بول کر کچن میں آگیا۔کچھ دیر وہی سر پکڑ کر کھڑا رہا ۔جب تھوڑا سکون ملا تو ﮈش اٹھا کر سائیﮈ پر رکھ دی اور واپس کمرے میں آگیا۔۔انابیہ کو کروٹ لیے سائیڑ پر سوتے دیکھا۔تھوڑی تسلی ہوئی تو خود دوسری طرف آ سویا۔۔انابیہ ابھی بھی بے آواز رو رہی تھی وہ اٹھا اور اسے پکارا۔۔انابیہ۔۔۔۔۔ایک دو بار پکارنے پر بھی آواز نہیں آئی۔وہ خاموشی سے لیٹا رہا۔دونوں کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔وہ دونوں قریب تھے لیکن ان دونوں کے درمیان کی کوسوں کی دوری تھی
دور کہیں سے آﺫان کی آواز اسکی کانوں میں پڑی۔اسکی آنکھ کھل گئی تھی وہ کچھ دیر ویسے ہی لیٹی رہی۔۔انابیہ تھوڑی دیر ہی سوئی تھی۔۔وہ اٹھی اور کچھ دیر پلنگ پر ہی بیٹھی رہی ۔۔وہ نماز پڑھ رہا تھا سکون اور اطمینان سے۔۔کتنا سکون ہے آپکے پاس ایک میں ہوں جسے چین نہیں مل رہا۔۔۔وہ جتنے منٹ تک نماز پڑھتا رہا اور وہ اسے دیکھتی رہی۔۔آﺫر نے سلام پھیرا اور اس پر نظر رک گئی۔کچھ دیر کے لیے دونوں کی نظریں ملی تھی۔۔بس کچھ دیر۔۔انابیہ ہڑبڑا گئ۔۔ اور باتھ روم کی طرف بڑھی۔۔وہ اسکی لال سرخ آنکھوں میں دیکھ چکا تھا جو صاف بتا رہی تھیں کہ وہ سکون سے سو نہیں سکی۔۔انابیہ جلدی سے اندر چلی گئی۔وہ کتنی دیر کے بعد باہر آئی تھی ۔۔آﺫر ابھی تک دعا مانگ رہا تھا۔۔کتنا سکون ہے اس شخص میں وہ اسے دیکھ کر سوچنے لگی۔۔۔اسکا اللہ اکبر سے دعا تک اسنے نا جانے کتنا وقت لگایا تھا ۔۔وہ خاموشی سے کھڑی اسے دیکھتی رہی۔وہ دعامانگ کر اٹھا اور اسنے انابیہ کے لیے جاۓنماز بچھی رہنے دی قرآن پاک اٹھا کر آہستہ آواز میں سورہ یسین کی تلاوت کرنے لگا۔۔۔تاکہ وہ نماز میں ہریشان نا ہو۔۔۔انابیہ نے نماز ادا کی اور دعا مانگ کر اٹھی۔۔۔آﺫر نے تب تک تلاوت ختم کی تھی۔۔اس نے انابیہ کے قریب آکر اس پر پھونک دیا اور قرآن پاک اسے پکڑا دیا۔۔انابیہ سن سی کھڑی اسکے اس عمل کو دیکھتی رہی۔اور اسے ملنے والے سکون کو محسوس کرتی رہی۔۔۔وہ رو رو کر تھک گئی تھی۔۔۔مزید نہیں رو سکتی تھی۔۔اسکی ہمت جواب دے گئ تھی۔۔اسنے قرآن پاک کھولا اور سورۃ یسین نکالی اور بغیر آواز کے پڑھنا شروع کیا۔۔آﺫر باہر کچن سے آیا اور اسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔اسکے ہاتھ میں دو کپ تھے۔وہ کنفیوز ہوگئ لیکن سر جھکا کر پڑھتی رہی۔۔انابیہ نے قرآن پاک پر غلاف چڑھایا اور ویسی ہی سر جھکا کر بیٹھی رہی۔۔۔۔اسنے ایک کپ انابیہ کے آگے رکھ دیا۔صبح اسے نماز کی عادت تھی۔۔لیکن جب سے عاشر سے رات دیر تک بات کرنا شروع کیا تھا اسکی فجر ہمیشہ قضا ہو جاتی تھی۔جب بھی وہ نماز کے لیے اٹھتی تھی چاۓ ضرور پیتی تھی۔۔۔۔آﺫر نے انابیہ سے قرآن پاک لے کر اوپر رکھ دیا۔۔انابیہ نے خاموشی سے کپ تھام لیا ۔۔آپکی طبیعت ٹھیک ہے اب۔۔آﺫر نے جتنا پیار سے پوچھا تھا اسے اتنا بڑا جھٹکا لگا تھا۔۔۔اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ اتنے پیار سے بھی بات کر سکتا ہے۔۔اسنے صرف ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔انابیہ۔۔ اسنے آہستہ سے کہتے ہوۓ اسکا ہاتھ تھاما۔۔انابیہ کو اسجے ہاتھ تھامنے پر ﺫرا سا بھی وہ شرمندگی کا احساس نا ہوا ۔۔جیسا عاشر کے تھامنے پر وہ گھبرا جاتی تھی۔۔۔شاید اس مقدس رشتہ کا اثر تھا۔۔انابیہ میں یہاں زیادہ دن نہیں رک سکتا۔۔یہ گھر آپکی پسند ہے ۔۔لیکن میرا جاب کا مسئلہ ہے مجھے پرسوں واپس جوائن کرنا ہے۔۔آﺫر نے بات ادھوری چھوڑ دی۔آپ کیا چاہ رہے ہیں۔۔انابیہ حیرت سے اسکا منہ دیکھنے لگی۔۔۔میں یہاں نہیں رہ سکتی اکیلی۔۔میں آپکو اکیلا نہیں چھوڑو گا۔۔اسنے یقین دلایا۔۔بس اتنا کہہ رہا ہوں آپ پریشان تو نہیں ہوں گی ناں وہاں۔۔آﺫر کےلیے اس بات کا کوئی مطلب نہیں تھا۔۔وہ اسے وہاں اکیلا چھوڑتا بھی نہیں۔۔وہ بس کسی بہانے انابیہ سے بات کرنا چاہتا تھا اسے یہی بات مناسب لگی۔۔نہیں میں پریشان نہیں ہونگی۔۔میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔۔۔مجھے یہاں سے لے چلیں پلیز وہ گھبرا کر بولی۔۔وہاں کی چیزیں اسکا خون جلا رہی تھیں اس گھر کی ہر چیز اسنے اور عاشر نے سیٹ کی تھی اب انہی چیزوں کو آنکھوں پر نہیں دیکھ پا رہی تھی۔۔۔ﮈونٹ وری۔۔ہم کل روانہ ہوں گے آپ ضرورت کا سامان لے لینا باقی جو رہ جاۓ گا وہ بعد میں منگوا لیں گے یا وہی سے لے لیں گے۔۔
اگلے دن وہ دونوں سب سے مل ملا کر اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگئے آﺫر نے اپنے دوست کو کہلوا کر ہوٹل میں بکنگ کروائی ہوئی کچھ دن ہوٹل میں رکے تب تک آﺫر نے گھر کا انتظام کیا اور کئ دن سیٹنگ میں لگ گئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...