عاشر گھر میں داخل ہوا تو فاخرہ بیگم اسی کی منتظر تھی۔آگیا میرا بیٹا اسے دیکھتے ہی پیار سے بولیں۔جی امی جان بہت تھک گیا ہوں۔پانی ملے گا۔ہاں لاتی ہوں۔فاخرہ پانی لینے چلی گئں۔بھائی آگئے ہیں کیا ۔عاشر نے پوچھا۔نہیں ابھی تو نہیں آیا آزر۔کہہ رہا تھا لیٹ آئے گا۔انھوں نے بتایا۔مجھے زہرہ باجی کے گھر لے چلو۔ان سے ملے کتنے دن ہوگئے ہیں۔وہ منت سے بولیں۔امی ابھی شارم کی شادی میں تو ملے تھے آپ ان سے عاشر چڑ کر بولا۔۔اوفو میں جا نہیں سکتی کیا۔وہ بھی تنک کر بولی۔بلکل جا سکتی ہیں لیکن کیوں جا رہی ہیں بتائیں گی آپ کل چلی جائیے گا میں تھک گیا ہوں آج۔نہیں کل نہیں آج جانا ہے۔۔ہاں تمھارے لیے لڑکی دیکھنی ہے اسکی بھتیجی آئی ہوئی ہے۔میں نے بات کی تھی اسےتمھارے لیے اسنے بلاوا بھیجا ہے اسکی امی اور وہ آئی ہوئی ہے زہرہ کے گھر۔امی جان ۔۔میری پیاری ماں میری بات سنیں۔مانیں گی میری بات عاشر لاﮈ سے بولا۔جی میرا بیٹا بولو۔فاخرہ بیگم پیار سے بولیں۔آپ غصہ تو نہیں کریں گی ناں۔بلکل بھی نہیں میری جان۔ اچھا بولو کیا بات ہے فاخرہ بیگم بولیں۔امی جان میں انابیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔وہ سر جھکا کر بولا۔کیا دماغ خراب ہے کیا تمھارا پاگل ہوگۓ ہو۔وہ غصے میں بولیں۔کیوں امی کیا کمی ہے انابیہ میں پڑی لکھی ہے گھر سمبھال سکتی ہے سب کی عزت کرتی ہے۔اور آپ تو اچھے سے جانتی ہے اسے عاشر نے صفائی دی۔عاشر میری بات کان کھول کر سن لو وہ میری بہو کبھی نہیں بنے گی۔لیکن امی کیوں۔وہ معصومیت سے بولا کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتی۔وہ بڑبڑائی۔جسے عاشر نے سن لیا۔لیکن امی میں تو کرتا ہو ناں۔میرے ہوتے ہوۓ وہ اس گھر میں کبھی نہیں آۓ گی عاشر ۔۔میں صرف انابیہ سے شادی کروں گا۔سن لیا آپ نے۔وہ کہتا ہوا غصے میں گھر سے باہر نکل گیا۔اور فاخرہ بیگم بڑبڑاتی رہ گئی۔۔۔
اگلے دن زہرہ آج خود فاخرہ بیگم کے گھر آئی ہوئی تھی اپنے شوہرکی بھتیجی اور بھابھی کے ساتھ۔زہرہ فاخرہ کی خالہ زاد بہن ہے۔اسکی شادی بھی فاخرہ کے پڑوس میں ہوئی تھی۔۔وہ دونوں ﮈرائنگ روم میں بیٹھی تھی جبکہ فاخرہ کچن میں تھی اور زہرہ اسکے پاس آگئی۔۔زہرہ تمھاری بھتیجی تو بہت پیاری ہے۔۔۔ماشاءاللہ۔فاخرہ نے کپوں میں چائے ﮈالتے ہوئے زہرہ کو کہا۔مجھے تو بہت پسند آئی ہے۔سچی فاخرہ۔زہرہ خوش ہو کر بولیں۔ہاں میں سجاد صاحب سے بات کروں گی اچھا کیا تم انھیں یہاں لے آئی۔ابھی عاشر بھی آتا ہوگا دیکھ کر خود پسند کر لے گا۔یہ تو اچھی بات ہے فاخرہ۔۔زہرہ خوش ہوگئی۔۔آؤ مدد کرو یہ ٹرے لیتی آؤ یار۔ہاں لا رہی ہوں چلو تم۔۔ابھی وہ باتیں کر رہی تھیں کہ عاشر گھر میں داخل ہوئے۔فاخرہ بیگم نے بیٹے کا تعارف کروایا۔۔اور بیٹھنے کا کہا۔۔امی میں روم میں جا رہا ہوں۔۔عاشر نے معزرت چاہی۔۔عاشر تم بیٹھ جاؤ۔۔عاشر نے ماں کو خونخوار نظروں سے دیکھا اور کمرے میں چلتا بنا۔۔۔
تمھیں حرا کیسی لگی۔بات چلواؤں آگے۔ان کے جانے کے بعد وہ عاشر کے پاس آئیں اور پوچھا۔میں آپ کو بتا چکا ہوں میں صرف انابیہ سے شادی کروں گا وہ چیخ کر بولا۔میں بھی تمھیں بتا چکی ہوں ۔انابیہ میری بہو کبھی نہیں بنے گی۔۔وہ چھٹانک بھر کی لڑکی نا جانے کتنے لڑکوں کو پھنسا چکی ہے کتنے لڑکوں پر ﮈورے ﮈال چکی ہے اب تمھیں پکڑ لیا اس نے۔عاشر کی سننےکی قوت جواب دے گئی اسنے ٹیبل پر پڑا گلدان اٹھا کر زمین پر دے مارا۔انابیہ کے بارے میں میں ایک بھی لفظ برداشت نہیں کروں گا۔سن لیا آپ نے وہ چیخ کر بولا۔یقین نہیں تو جا کر پوچھو اپنے بھائی سے وہ بھی اسی کے پیچھے پاگل ہو گیا ہے۔تبھی ماہم کے لے انکار کر رہا ہے۔۔۔۔کیا ۔عاشر کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔جھوٹ بول رہی ہیں آپ انابیہ ایسی نہیں ہے۔وہ صرف مجھ سے پیار کرتی ہے۔۔اچھا میں جھوٹ بول رہی ہوں ۔ہاں آپ جھوٹ بول رہی ہیں وہ دوبارہ چلایا۔۔۔جاؤ پوچھو اپنے بھائی سے وہ اسکے ساتھ بیٹھ کر کہاں کہاں جاتی ہے گھومتی پھرتی ہے۔۔کیسے تمھارے بھائی کو پاگل کیا ہوا ہے اس پستی نے۔وہ غصے میں بولی۔میں نہیں مان سکتا وہ صرف مجھ سے ملتی ہے۔مجھ سے پیار کرتی ہے۔۔مجھ سے باتیں کرتی ہے۔۔وہ یقین سے بولا۔۔بیٹا جولڑکی تم سے ملتی ہے۔تم سے باتیں کرتی ہے تمھارے ساتھ آتی جاتی ہے گھومتی پھرتی ہے ۔کیا وہ کسی اور کے ساتھ۔۔۔بس امی بہت ہوگیا۔میں اور کچھ نہیں سنوں گا۔اسکی ہمت جواب دے گئی وہ فاخرہ بیگم کی بات ادھوری سن کر چلایا آپکو انابیہ پسند نہیں کوئی بات نہیں ایسے اسکی عزت پر انگلی نا اٹھائیں وہ پاک ہے سمجھیں آپ ۔۔آپ چلی جائیں یہاں سے۔۔اسنے غصے میں انھیں کمرے سے باہر نکل جانے کا کہا۔۔وہ باہر آگئی عاشر نے پیچے دروازہ دھڑام سے بند کر دیا ۔۔۔فاخرہ بیگم روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی
فاخرہ بیگم تو چلی گئی لیکن اپنی باتوں سے عاشر کے دماغ میں زہر گھول گئی۔عاشر نے اپنے غصے پر قابو رکھنے کی کوشش کی لیکن بے سود غصہ تھا کہ کم نہیں ہو رہا تھا۔۔انابیہ مجھے تم سے ملنا ہے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔عاشر نے انابیہ کو میسج کیا ۔۔اور آنکھ پر ہاتھ رکھ کر پلنگ پر لیٹ گیا۔۔کچھ دیر بعد بھی جواب نہیں آیا تو اسنے دوبارہ میسج کیا۔۔اور انتظار کرنے لگا۔۔۔آخر تنگ آکر اس نے کال ملائی۔۔۔دی نمبر یو ﮈائیل از آن این آدر کال۔۔ایک دو نا جانے کتنی بار۔۔اسکے دماغ میں دھماکا ہوا اسے ماں کی دہرائی باتیں یاد آنے لگی۔۔۔پوچھ لو اپنے بھائی سے۔۔وہ اسکے ساتھ نا جانے کہاں کہاں گئی ہے ایسی لڑکیاں۔۔۔۔آہہہ وہ چلایا اور موبائل زور سے دیوار میں دے مارا۔اور سر گھٹنوں میں دیے نا جانے کتنی دیر بیٹھا رہا۔۔موبائل کی اسکرین چکنا چور ہوگئ تھی۔۔۔
صبح فاخرہ بیگم ناشتہ بنا رہی تھیں۔اور سجاد صاحب معمول کے مطابق اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔۔ عاشر ہے کہاں امی۔کلاسز نہیں لینی کیا اسنے کل بھی نہیں آیا تھا سینٹر۔اسٹوﮈنٹ کی پڑھائی کا حرج ہورہا ہے۔۔۔آﺫر تیار ہوا نیچے آیا اور کمرے میں آتے ہی ماں سے بھائی کا پوچھا۔۔بیٹا وہ کل سے کمرے سے نہیں نکلا ناں کچھ کھایا پیا ہے۔وہ پریشانی سی بولیں۔کل سےکیوں خیریت ہے سب۔سجاد صاحب اخبار سائیڑ پر رکھتے ہوۓ تشویش سے بولے۔ہاں خیر ہے فاخرہ بیگم جانتی تھیں اپنے دونوں بیٹوں کو وہ غصے میں ان سے زیادہ تیز تھے اور شوہر کبھی بھتیجی کے خلاف بات نہیں سنیے گا اس لیے انابیہ اور عاشر کے بارے میں بات نہیں کی۔کل رات بھی ٹیبل پر نہیں تھا ورنہ اسے بات کرتا میں۔آﺫر کہتا ہوا اوپر گیا اور جا کر کمرے کا دروازہ ناک کیا۔دروازہ اندر سے بند تھا۔وہ ناک کرتا رہا۔لیکن کوئی آواز نہیں آئی ۔ایک بار دو بار نا جانے کتنی بار۔۔پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔فاخرہ بیگم نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا۔سجاد صاحب بھی ﮈائنگ ٹیبل سے اٹھ کر آگئے۔۔۔انھوں نے بھی کوشش کی آواز دیں کوئی ریسپونس نہیں ملا۔امی کمرے کی دوسری چابی کہاں ہے۔آﺫر نے پریشانی میں ماں سے چابیوں کا پوچھا۔۔۔میں لاتی ہوں وہ کہتی ہوئی اپنے کمرے میں آئیں اور دراز سے چابیوں کا گچھا نکال کر اوپر لائی ۔۔تب تک آﺫر دروازہ کو دھکا لگاتا رہا کہ شاید لاک اندر سے ٹوٹ جائے ۔۔لیکن کچھ نا ہوا۔۔اتنی ساری چابیاں وہ جھنجھلا گیا اور باری باری سب چابیاں لگانے لگا۔۔۔اسکی ویکنس تھی ٹینشن یا پریشانی میں اسکا ہاتھ کانپنے لگتا تھا ۔۔۔ابھی بھی وہی کنڑیشن تھی۔۔سجاد صاحب نے اسے چابیوں کا گچھا لیا اور خود کھولنے لگے۔۔فاخرہ بیگم کے رونے سے اسے چڑ آرہی تھی امی جان آپ تو چپ کریں۔پریشانی ہو رہی ہے مجھے آﺫر ۔انھوں نے دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھتے ہوۓ آواز روکنے کی کوشش کی۔۔دروازہ تھا کہ کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔اس کمرے کی چابیاں تو عاشر کے پاس تھی اس نے کچھ دن پہلے مجھ سے لی تھی۔۔انھوں نے سر پکڑتے ہوۓ کچھ یاد آنے پر بولیں اور دیوار کے ساتھ لگ گئیں۔۔میرا بیٹا اندر ہے اسے کچھ ہو تو نہیں گیا سجاد صاحب ۔اللہ کے واسطے دروازہ کھلوائیں ۔۔وہ روتے روتے ان سے فریاد کر رہی تھی۔۔آﺫر دروازہ توڑ دیتے ہیں ہیں۔۔سجاد صاحب نے آﺫر کو فیصلہ سنایا۔اور دونوں نے مل کر دروازے کو دھکا لگاتے رہے۔۔تھوڑی دیر میں لاک اندر سے ٹوٹا اور دروازہ دھڑام سے کھلا۔۔اندر عاشر بے سدھ آدھا پلنگ پر آدھا نیچے گرا ہوا تھا۔۔کمرے کا حال برا تھا۔۔سجاد صاحب فورا سے اندر گئے اور بیٹے کو اٹھانے کی کوشش کرتے رہے۔فاخرہ بیگم بھی اسے اٹھاتی رہیں بامشکل اسے اٹھا کر پلنگ پر کلیٹایا۔۔پانی کے چھینٹے ﮈالے سب کچھ کر دیکھا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔آﺫر نے ایمبولینس کے لیےکال کی۔کچھ دیر میں ایمبولینس بھی پہنچ گئی۔سلیم صاحب اور شارم ابھی آفس کے لیے نکل رہے تھے۔ایمبولینس کی آواز سنی تو دونوں باہر آگئے۔ایمبولینس کو سجاد صاحب کے گھر کے باہر دیکھا ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔اللہ خیر کرے سلیم صاحب کے منہ سے نکلا۔اور دونوں سجاد صاحب کے گھر کی طرف بھاگے۔۔ انھیں اندر آتا دیکھ کر فاخرہ بیگم نے منہ بڑا کر لیا ۔۔کیا ہوا ہے بھائی انھوں نے آتے ہی بھائی کے بازو سے پکڑ کر ہلایا۔عاشر کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے سلیم۔۔ وہ پریشانی سے بولے۔۔۔آﺫر اور شارم نے عاشر کو ایمبولینس میں ﮈالنے میں مدد کی اور سجاد سلیم اور آﺫر فورا اسے اسپتال لے گئے ۔۔اسپتال والوں نے فورأ داخل کر لیا تھا۔۔ سب پریشانی میں ادھر ادھر ٹہل ریے تھے ۔۔تھوڑی دیر میں شارم فاخرہ اور زینب بیگم بھی پہنچ گئی۔۔کیا ہوا ہے میرے بیٹے کو ﮈاکٹر کو باہر نکلتا دیکھ کر وہ انکے پاس جا کر روتے ہوۓ بولیں جی خطرے کی کوئی بات نہیں ہے ﮈاکٹر نے انھیں تسلی دی۔اور کچھ ہدایات کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔اور سجاد صاحب کو ساتھ آنے کا کہا۔۔ انکا بی پی شوٹ کر گیا ہے۔۔اسی وجہ سے انکے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہورہی تھی۔۔انھیں ریسٹ کی ضرورت ہے اچھا کیا آپ لوگ جلدی لے آۓ انھیں ان کی لیے مزید خطرہ ہو سکتا تھا۔انھیں فالج کا اٹیک بھی ہو سکتا تھا۔۔۔انھیں کسی چیز سے الرجی تو نہیں ہے آئی مین کسی دوائی وغیرہ سے یا پہلے کبھی ایسا ہوا ہے۔۔۔نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے لیکن کبھی کبھار یہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔لیکن ایسی حالت پہلی مرتبہ ہوئی ہے۔سجاد صاحب نے آگے بڑھ کر بتایا۔فلحال انھیں ﮈیسچارج نہیں کریں گے کچھ بہتری آئی تو دیکھیں گے۔ﮈاکٹر نے کچھ دوائیاں لکھ کر دی اور فورأ منگوانے کا کہا۔شارم تم جاؤ فاخرہ بھابھی اور اپنی ماں کو لے جاؤ ہم یہی ہیں۔۔۔سلیم صاحب نے شارم کو ہدایت کی ۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی اپنے بیٹے کو چھوڑ کر۔۔وہ مسلسل رو رہی تھیں اور دعائیں کر رہی تھیں۔بھابھی ﮈاکٹر نے کہا کہ عاشر بیٹا ٹھیک ہے سجاد بھائی آﺫر اور میں ہوں یہاں فکر نہیں کریں آپ۔سلیم صاحب نے انھیں تسلی دی۔۔سلیم مجھے میرے بیٹے کے پاس رہنے دو مجھے ملنا ہے اپنے بیٹے سے وہ روئے جا رہیں تھیں۔اچھا میں ﮈاکٹر سے پوچھتا ہوں بھابھی وہ ﮈاکٹر سے پرمیشن لے آۓبھابھی آپ جائیں عاشر کے پاس ۔وہ انھیں اندر لے گئے۔اور زینب اور شارم گھر آگئے
انابیہ ابھی کالج سے آئی تھی جب امی نے اسے عاشر کے بارے میں خبر دی تھی انابیہ کے ہوش اڑ گئے۔وہ کمرے میں آئی اور روتے ہوۓ موبائل آن کیا۔ عاشر کو کال کی اسکا نمبر آف تھا۔۔وہ جانتی تھی کہ وہ اسپتال میں ہے۔پھر بھی پاگلوں کی طرح رو رو کر نمبر ملاۓ جا رہی تھی۔کل رات وہ عائشہ سے بات کر رہی تھی اسنے بھی اسنے کتنی کالز کی تھی اسکا میسج پڑھ کر لیکن اسکا نمبر آف تھا وہ رو رو کر دعائیں کر رہی تھی۔جب زینب بیگم اسکے کمرے میں آئی اور اسکو پاگلوں کی طرح نمبر ﮈائیل کرتے دیکھا۔۔وہ آزر کو کال ملا رہی تھی تاکہ پتا چلے اسکے بارے میں کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔۔ امی عاشر کا نمبر بند ہے امی کیا ہوا ہے اسے مجھے بتائیں ۔۔زینب حیرت سے اسکا منہ تکے جا رہی تھیں ۔۔امی بولیں ناں پلیز مجھے اسکے پاس لے چلیں پلیزوہ پاگلوں کی طرح رو رہی تھی اور انھیں جھنجوڑ رہی تھی۔انابیہ یہ کیا طریقہ ہے پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔ہوش میں آؤ وہ غصے سے بولیں۔۔ امی کل عاشر نے میسج کیا تھا اسے مجھ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔اب کیا ہوگیا ہے اسے انابیہ بری طرح روئے جا رہی تھی۔انابیہ۔۔۔ زینب بیگم نے منہ پر رکھ کر حیرانگی سے اسے پکارا۔۔یہ کیا کہہ رہی ہو ۔۔تمھاری وجہ سے ۔۔عاشر ۔۔یا اللہ مجھے پوری بات بتاؤ۔۔وہ چیخ کر بولیں۔۔ امی میں اور عاشر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اسنے تائی جان سے بات بھی کی تھی امی۔۔زینب بیگم کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ انابیہ روۓ جا رہی تھی ۔۔چپ ہو جاؤ انابیہ تم اور میں اکیلے نہیں ہیں گھر میں۔ ماہین بھی ہے اس نے سن لیا تو۔۔اللہ کے واسطے خاموش ہو جاؤ۔وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔۔۔ امی ۔۔۔۔انابیہ روتے ہوۓ زمین پر بیٹھ گئی۔۔۔یہ کب سے چل رہا ہے انابیہ بولو۔۔وہ غصے میں اسکو کھڑا کرتے ہوۓ چلائیں۔۔ امی بہہہہہ۔۔ت پہل۔۔۔ےےے سے۔۔کہتے ہی انابیہ ہوش وحواس سے بیگانی انکے اوپر گر گئی۔۔۔انابیہ انابیہ اٹھو ۔۔انابیہ ۔۔۔زینب اسے جھنجھوڑتے کر اٹھانے لگی اور ۔۔یا اللہ یہ کیا ہورہا ہےمجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔وہ جانتی تھی فاخرہ بیگم کے مزاج کو کوئی طوفان برپا ناں کر دیں بھابھی۔۔۔۔