حسین کمرے میں آیا زنیرہ آنکھیں موندے لیٹی تھی
“زونی” حسین گھمبیر آواز میں بولا زنیرہ نے اسکی آواز پر آنکھیں کھولیں
“حسین” زنیرہ حیران ہوتے ہوئے بولی
“جی جان حسین” حسین پیار سے بولا جسپر زنیرہ کی آنکھیں نم ہوگئیں
“ہوں ہوں رونا نہیں اب۔۔۔ میں صرف تمہارا ہوں زونی” وہ اسکے آنسو پونچتے ہوئے بولا
“پھر آپ نے ایسا کیوں بولا؟” زنیرہ خفگی سے بولی
“ایسے ہی غصے میں کہ دیا معاف کردو” وہ اپنے کان پکڑتے ہوئے بولا
زنیرہ ہنس دی
“ہنستی رہا کرو اچھی لگتی ہو” حسین اسکو پیار سے دیکھتا ہوا بولا جسپر زنیرہ نے نظریں جھکالیں
“بہت مس کیا تمہیں زونی بہت تڑپا ہوں میں ۔۔۔مجھے لگتا تھا میں نے زندگی کھو دی” حسین اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
“میں بھی خوش نہیں تھی” زنیرہ نم آنکھوں سے بولی
“اب تو خوش ہوگی” حسین چمکتی آنکھوں سے بولا
“کیا مطلب؟” زنیرہ نا سمجھی میں بولی
“میری شادی پر خوش نہیں ہوگی؟” حسین آنکھ مارتے ہوئے بولا
“دفع ہوجائیں آپ بات نہ کریں” وہ اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی جبکہ حسین بلند آواز میں ہنسا دروازہ پر کھڑا سعد اپنی بہن کی ابدی خوشیوں کی دعائیں کرتا ہوا واپس پلٹا
________________________________________
“سنو شائستہ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے” تائی انکے کمرے میں آتے ہوئے بولیں
“ارے بھابھی مجھے بلا لیتیں آپ کیوں آگئیں” شائستہ خوش اخلاقی سے بولیں
“نہیں نہیں کوئی مسئلہ نہیں” تائی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں
“جی بھابھی کہیں” شائستہ بے تابی سے بولیں
“میں جانتی ہوں ماضی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں چاہ کر بھی انکا ازالہ نہیں کر سکتی اور تم سب نے مجھے اتنی جلدی معاف کردیا واقعی تم اور تمہاری بچیوں کا دل بہت بڑا ہے۔۔۔۔ شائستہ میں حسین کیلئے زنیرہ کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہوں میں اسکو خوش رکھوں گی یقین رکھو” تائی نم آنکھوں سے بیٹے کی خوشی مانگنے لگیں
“بھابھی” شائستہ خوشی اور حیرانی سے انکو دیکھ رہی تھیں
“آپ نے تو میرے دل کی بات ہی کہ دی” شائستہ نم آنکھوں سے بولیں
“میں نے بچوں کی محبت کو بہت پہلے ہی محسوس کر لیا تھا شائستہ پر پہلے مجھ میں عقل نہیں تھی اور اب میں چاہتی ہوں میرے حسین کی دلہن صرف زنیرہ بنے” وہ شائستہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولیں
“ضرور بھابھی کیوں نہیں میں ان سے بھی بات کرلوں گی” شائستہ خوش ہوتے ہوئے بولیں
_________________________________________
گھر بھر میں شادی کی تیاریان ہورہی تھی ہادیہ بھی شادی کیلئے رکنے آچکی تھی عائشہ حیا ہادیہ اور فاطمہ میں بہت گہری دوستی ہوگئی تھی ہادیہ اور سعد کی چھیڑ چھاڑ اور مستیاں عروج پر تھیں دونوں نے گھر میں رونق مچا رکھی تھی حیا بابا کے پاس جانے کیلئے لاونچ سے گزری وہاں ایمان کو اداس بیٹھا پایا
“مان۔۔۔میرا بچہ۔۔۔ اتنا اداس کیوں ہے؟” حیا پیار سے بولی حیا کے کہنے کی دیر تھی ایمان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے
“کچھ نہیں” ایمان اٹھ کر جانے لگی جب حیا نے کھینچ کر اسکو اپنی گود میں بٹھایا
“کیا ہوا میری گڑیا کو؟” حیا اسکے آنسو پونچھتے ہوئے بولی
“کوئی اپنی گڑیا کو چھوڑ کر جاتا ہے آپی؟” ایمان نے شکوہ کن لہجے میں کہا اسکی بات پر حیا کا کلیجہ باہر آنے کو تھا
“آپکو کون چھوڑ کر جارہا ہے؟” حیا زبردستی مسکراتے ہوئے بولی
“آپی میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی میں بھی آپکے ساتھ جاؤں گی” ایمان روتے ہوئے اسکے گلے لگ گئی حیا کو سمجھ نہیں آریا تھا کہ کس طرح اسکو سمجھائے
“جی نہیں ایمان میرے ساتھ رہیگی” سعد کہیں سے آتا ہوا بولا ایمان ہنوز اسکے سینے سے لگی تھی
“ایمان میں اپنی بہن کے پاس رہوں گا نا ہم روز آئسکریم کھانے جائیں گے آپی کو بتائیں گے بھی نہیں” سعد اسکو اپنی گود میں لیتے ہوئے بولا
“آپی مجھے چھور کہ چلی جائیں گی نا” ایمان روتے ہوئے بولی سعد نے حیا کی شکل دیکھی جو اپنے آنسو بہت مشکلوں سے روکی ہوئی تھی
“ارے جاتی ہیں تو جائیں میں تو کبھی نہیں چھوڑوں گا تمہیں چلو یار ہم چلتے ہیں آئسکریم کھانے” سعد اسکو ہنسانے کی کوشش کرنے لگا
“جاؤ ایمان سینڈلز پہن کے آؤ میں آپکو لے کر جاتا ہوں” سعد اسکو گود سے نیچے اتارتا ہوا بولا ایمان بھاگتے ہوئے سینڈل پہننے چلی گئی سعد نے آگے بڑھ کر حیا کو اپنے سینے سے لگایا
“اداس مت ہوئیں آپکا یہ بھائی سب سنبھال لیگا” وہ اسکے سر پر بوسہ دیتے ہوئے بولا آج حیا کو سعد بڑا بھائی لگ رہا تھا
_________________________________________
آج ایک گھر سے تین شہزادیوں کی ڈولیاں اٹھنی تھیں اور دوسرے گھرانوں میں روشن ہوجانی تھیں دن بھر سے مصروفیت ہی مصروفیت تھی ہر طرف افراتفری برپا تھی
“حیا کیا ہوا اداس کیوں ہو؟” عائشہ اسکو پارلر۔لے جانے کمرے میں آئی تو حیا ہادیہ کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی
“کچھ نہیں” وہ زبردستی مسکرائی
“خوش نہیں ہو کیا؟ “عائشہ نے کہا
“نہیں بھئی یہ تو بہت خوش ہوگی آخر میرے اتنے ہینڈسم بھائی مل رہے ہیں” ہادیہ چہکتے ہوئے بولی
“عائشہ میرے پردے کا تم۔نے خیال رکھنا ہے”
حیا عائشہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
“ضرور کیوں نہیں اسکی طرف سے تم۔بالکل بے فکر ہوجاو” عائشہ مسکراتے ہوئے بولی
“افففف میں بہت ایکسائیٹڈ ہوں یاروں” فاطمہ کمرے میں اچانک چہکتے ہوئے داخل ہوئی تینوں نے اسکو دیکھا
“کیا ہوا بھئی” ہادیہ ہنستے ہوئے بولی
“میں یہ پہنوں گی” وہ اپنا شرارہ آگے کرتے ہوئے بولی
“اوہ واؤ یہ تو بہت خوبصورت شرارہ ہے” ہادیہ ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی”
“ہاں مجھے امی (شہریار کی امی) نے دیا ہے وہ کہ رہی تھیں میں یہ پہنوں گی اور اپنے ہاتھ پر وہ بھی لگاؤں گی جو حیا نے لگائی ہے” فاطمہ خوشی سے بتا رہی تھی
“اوہ اچھا مہندی” عائشہ مسکراتے ہوئے بولی
“ہاں اور وہ کہ رہی تھیں میری اور شہری کے ولیمہ کی دعوت کریں گی” فاطمہ اپنی سب سے بہترین دوستوں سے اپنی خوشی شیئر کر رہی تھی اور وہ تینوں بھی اسکی باتیں بہت شوق سے سن رہی تھیں
“چلو اٹھو حیا تمہیں پارلر لے کر جانا تھا” عائشہ کو یاد آیا وہ کس کام سے آئی تھی
“ہاں حیا ابھی چلوگی تو رات ٹائم تک پہنچ پاوگی” ہادیہ اسکو اپنی گود سے اٹھاتے ہوئے بولی
“یار میرا دل نہیں چاہ رہا” حیا سستی سے بولی
“اٹھو چلو” ہادیہ بھرم سے بولی
“پہلے میری مان کو بلاو” حیا پیار سے بولی فاطمہ اسکو لینے چلی گئی جبکہ ہادیہ نے حیا کو ہگ کر لیا
“We will be besties forever haya we will be together till the last breath of our life” ہادیہ جذب سے بولی حیا نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا
“انشاءاللہ” دونوں دوستیں ایک دوسرے سے لپٹ گئیں
حیا عبایا پہن رہی تھی جب ایمان آگئی حیا نے اسکو گود میں اٹھایا
“ناراض ہے میرا بچہ؟” حیا پیار سے بولی
“نہیں” ایمان سنجیدہ لہجے میں بولی
“مجھے سعد بھائی نے کہا ہے وہ مجھے روز آپکے پاس لے آئینگے” ایمان اسکے گال پر پیار کرتے ہوئے بولی حیا نے سکھ کا سانس لیا
“مان آج ہادیہ آپی آپکو تیار کریں گی ” حیا اسکے گال پر پیار کرتے ہوئے بولی ایمان سے اثبات میں سر ہلایا حیا کے سر سے ایک بوچھ کم ہوا ایمان کی اداسی کا اب وہ مطمئن ہوکر عبایا پہننے لگی
________________________________________
تینوں دلہنیں ایک ساتھ اسٹیج پر بیٹھی بہت پیاری لگ رہی تھیں ہر کوئی رشک کی نگاہوں سے انکو دیکھ رہا تھا اتنے مصائب اور مشکلات کا صلہ آج اللہ انکو ایک انعام کی صورت میں دے رہا تھا
بابا دور کھڑے نم آنکھوں سے اپنی بیٹیوں کو دیکھ رہے تھے
“آپ ادھر کھڑے ہیں چلیں ادھر مہمان ڈھونڈ رہے ہیں آپکو” شائستہ کی آواز پر وہ چونکے اور مہمانوں کی طرف بڑھ گئے
رخصتی کے وقت حیا سب سے گلے ملی ایمان اسکو چھوڑنے کو تیار نہیں تھی سعد نے زبردستی چھڑوایا
“بیٹا اپنے باپ کو معاف تو کر دیا تھا نا” جب وہ بابا کے گلے لگی انہوں نے رندھی آواز میں کہا
“جی بابا” اس نے بابا کو پیار کیا پھر دادا اور ماں کے گلے لگ کہ بہت روئی دونوں نے اسکو ڈھیروں دعائیں دیں
“آپی بے وفائی کر کے اچھا نہیں کیا” سعد نم آنکھوں سے مسکرایا حیا بے ساختہ اسکے سینے سے لگ گئی
“آئی لو یو آپی میری دعا ہے آپ ہمیشہ خوش رہیں” سعد اسکو سر پر بوسہ دیتے ہوئے بولا
“آئی لو یو ٹو برو” وہ اسکو ٹائیٹ ہگ کرتے ہوئے بولی دو شفاف موتی سعد کی آنکھوں سے نکلے
“چلو سعد ہٹو مجھے ملنے دو” ہادیہ اسکو ہٹاتے ہوئے آئی دونوں کی نظریں ملیں ہادیہ نے آگے بڑھ کر اسکو ٹائیٹ سے ہگ کر لیا
“بس کرو لیلی مجنوں تو تم دونوں لگ رہے ہو” عائشہ مسکراتے ہوئے بولی
“ہم ہیں لیلی مجنون” وہ بھی ہنستے ہوئے بولی اور نم آنکھیں صاف کیں سب نے تینوں بہنوں کو ڈھیروں دعاووں میں رخصت کیا ہادیہ بھی عثمان کے گھر حیا کے ساتھ ہی آئی تھی
“چلو میں چلتی ہوں مانی بھائی آگئے” ہادیہ حیا کو بٹھا کر کمرے سے باہر کھڑی ہوگئی اریشہ بھی اسکے ساتھ کھڑی ہوگئی
عثمان اپنے دھیان میں کمرے میں جارہا تھا ان دونوں کو راستہ روکے دیکھ کر چونکا
“تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو” عثمان خشمگیں نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا
“ایک لاکھ” ہادیہ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولی
“کیا؟” عثمان چونکتے اور حیران ہوتے ہوئے بولا
“ہاں پورے ایک لاکھ چاہیئے پچاس ہزار میرے پچاس ہادیہ آپی کے” اب کی بار اریشہ بولی
“لڑکیوں اتنی تو میری کمائی بھی نہیں ہے” عثمان بے چارگی سے بولا
“ہمیں کچھ نہیں پتہ” ہادیہ ڈھٹائی سے بولی
“اچھا یہ لو اسمیں جتنے ہیں تم دونوں کے” وہ والٹ پکڑاتا ہوا اندر چلا گیا دونوں نے خوش ہوکر والٹ کھولا اور ایک ساتھ چیخ ماری اسمیں مری ہوئی چھپکلی تھی
“عثمان بھائی دروازہ کھولیں” اریشہ چیخی
“چلو شاباش اپنے کمروں میں جاؤ اور سو جاجو” وہ اندر سے ہی بولا اور قہقہہ لگا کر ہنس دیا ہادیہ نے غصے سے دروازہ پر مکا مارا
_________________________________________
“آج صحیح وقت ہے میں تم۔سے اظہار کر رہا اسوقت کا بے صبری سے انتظار کیا تھا کہیں امید بھی ہار دی تھی میں بے وقت اظہار کا قائل نہیں تھا ورنہ بہت پہلے کر چکا ہوتا میں تم۔سے کئی سالوں سے خاموش محبت کرتا رہا ہوں
تمہیں پانے کی خواہش بہت تھی۔۔۔ بہت تڑپا ہوں تمہارے لئے شہیرہ ۔۔۔پر اب اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتا” شایان اسکا ہاتھ پکڑے مسکراتے ہوئے دل۔کی داستان سنا رہا تھا اور شہیرہ مسکرا کر۔۔۔شرما کر۔۔۔۔ سر جھکا کر سن رہی تھی آسمان پر ستارے دونوں کی خاموش محبت کا اچھا انجام دیکھ کر جگمگ جگمگ کر رہے تھے
________________________________________
حسین اندر داخل۔ہوا تو سرخ جوڑے میں بیٹھی اپنی بچپن کی محبت کو ایک محرم رشتے میں دیکھ کر عش عش کر اٹھا آہستہ آہستہ اسکے پاس آیا
“کچھ کہوں؟” ایک آنکھ مارتے ہوئے شرارتی انداز میں بولا زنیرہ نے پلکیں جھکالیں
“اففف یہ ادائیں” حسین تنگ کرنے سے باز نہیں آیا
“میں جارہی ہوں” زنیرہ اٹھتے ہوئے بولی
“اب کہاں اب تو آپکا مسکن ہی یہی ہے” حسین اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
“آپ آپ۔۔” زنیرہ مصنوعی غصے سے بولی
“بہت ہی حسین ہیں” حسین سے جملہ مکمل کیا
“بالک بھی نہیں” زنیرہ منہ پھیرتے ہوئے بولی
” اففف ایک تو محبوب اوپر سے مغرور ہائے رے ربا ہم کدھر جائیں؟” حسین اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا زنیرہ کا ہاتھ بے ساختہ اپنے سر کی طرف اٹھا
“اففف کہاں پھنس گئی میں” زنیرہ بے بسی سے بولی
“یہاں پر اور نکلنا نا ممکن ہے” حسین اپنے دل۔کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
“یہ تمہارے لئے” وہ ایک لاکٹ اسکو دیتا ہوا بولا جسپر “زنیرہ حسین” لکھا تھا اور آس پاس دل بنا تھا
“بہت خوبصورت ہے” زنیرہ ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی
“ہاں پر ابھی اسکی خوبصورتی ماند ہے” حسین لاکٹ کیس سے نکالتا ہوا بولا اور آگے بڑھا
“اجازت یے” شرارتوں سے بھری آنکھوں سے اسکی طرف دیکھتا ہوا بولا زنیرہ نے نظریں جھکالیں حسین نے آگے بڑھ کر لاکٹ اسکے گلے میں پہنا دیا
“اب خوبصورت لگ رہا ہے” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“اور تم بھی” اسکے ٹھوڑی اپنی انگلی سے چھوتے ہوئے بولا زنیرہ کو آج اپنی قسمت پر بہت پیار آرہا تھا
“تم چاہو تو مجھ سے بھی اظہار محبت کر سکتی ہو میں برا نہیں مانوں گا پرامس” حسین شرارت سے بولا
“آئ ہیٹ یو” زنیرہ دانت پیستے ہوئے بولی
“آئی لو یو ٹو” وہ ہنستے ہوئے بولا زنیرہ کا دل۔چاہا اپنا سر دیوار پر مار لے لیکن اگلے ہی پل وہ حسین کے سینے سے لگی تھی
_________________________________________
“میں سوچ رہا ہوں یہ لو میرج ہے یا ارینج؟” عثمان اسکی طرف دیکھتا ہوا بولا
“ارینج” حیا نے بے ساختہ بولا
” دونوں جانب تو پیار تھا پھر ارینج کیسے ہوئی” عثمان اسکو چھیڑتے ہوئے بولا
“ایک۔جانب تھا بس اور وہ بھی آپکی جانب” حیا مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولی
” بس یار اب مت چھپاؤ مجھے پتہ ہے تم۔بھی محبت کرتی رہی ہو” عثمان ناک سے مکھی اڑانے کے انداز میں بولا
“خوش فہمی ہے آپکی” حیا منہ دوسری طرف کرتے ہوئے بولی کہیں عثمان آنکھوں میں محبت کے جلتے دیپ نہ دیکھ لے
” ویسے دور رہ کر اور بھی حسین ہو گئی ہو” عثمان اسکا چہرہ اپنی طرف موڑ کر بولا حیا کی ہارٹ بیٹ تیز ہونے لگی
“آئی لو یو حیا” عثمان اسکو اپنے گلے سے لگاتے ہوئے بولا حیا نے تشکر سے اپنی آنکھیں موند لیں
“مانی کچھ مانگوں تو دیں گے” حیا الگ ہوتے ہوئے بولی
“ہاں بولو نا کیا مانگنا چاہتی ہو” عثمان اسکو پیار سے دیکھتا ہوا بولا
“تہجد میں آپکی امامت” وہ جذب سے بولی عثمان حیرت اور خوشی سے اسکو دیکھ رہا تھا
“میں تمہیں یہ بن مانگے دے رہا تھا مائی پرنسس” عثمان اسکو اپنے سینے سے لگایا حیا اب اپنی قسمت پر رشک۔کر رہی تھی
_________________________________________
(کچھ مہینوں بعد)
عائشہ واپس جاچکی تھی لیکن اب بھی روزانہ وہ کال پر حیا سے ضرور بات کرتی
تائی فاطمہ سے بہت خوش تھیں شہریار بھی اب اچھائی کے راستہ کی طرف آرہا تھا اور حیا کی خوشیوں کی دعائیں کرتا تھا جسکی وجہ سے ماں اس سے راضی اور بیوی مسلمان ہوگئی تھی
آج تائی کے گھر میں سب کی دعوت تھی
“اففف حیا جلدی تیار ہو کہاں چلی گئی تھی تم” حیا روم میں داخل ہوئی تو اسکو تیار نہ دیکھتے ہوئے بولا
“اریشہ کو اسکارف باندھ رہی تھی مانی” وہ اسکے گال کھینچتے ہوئے بولی
“ایک تو یہ نند اور بھابی کی دوستی سے میں بہت تنگ ہوں” عثمان زچ ہوتے ہوئے بولا
“شکر کریں لوگ تو ترستے ہیں” حیا ہنستے ہوئے واشروم چلی گئی
حیا شیشے کے سامنے کھڑی تیار ہورہی تھی جب عثمان نے پیچھے آکر اسکے کندھوں پر اپنی تھوڑی رکھی
“پیاری لگ رہی ہو” عثمان مسکراتے ہوئے بولا
“مانی دن میں دس دفعہ آپ یہ جملہ کہتے ہیں” حیا ہنستے ہوئے بولی
“ہاں تو بیوی سے ہی بولتا ہوں” عثمان اسکی ناک کھینچتے ہوئے بولا
“آہ مانی آپ جائیں عشاء کی جماعت شروع ہونے والی ہے” وہ اسکو بھگاتے ہوئے بولی عثمان نے اسکے گالوں پر پیار کیا اور ہنستے ہوئے مسجد کی طرف چل دیا حیا بھی مسکراتے ہوئے تیار ہونے لگی
_________________________________________
وہ واپس آیا تو حیا نماز پڑھ رہی تھی عثمان مسکراتے ہوئے اسکو دیکھ رہا تھا حیا نے سلام پھیرا تو عثمان کو مسلسل اپنی طرف دیکھتا پاکر مسکراتی وہ جب بھی نماز پڑھتی عثمان اسکو ایسے ہی دیکھتا تھا وہ کھڑی ہوئی تو عثمان نے شال۔سمیت اپنی بانہیں پھیلادین وہ ان بانہوں میں سما گئی عثمان نے بازو اسکے ارد گرد سمیٹے اب ایک شال میں دو اللہ کے محبوب بندے سمٹے کھڑے تھے
“آئی لو یو حیا” عثمان اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے بولا
“اچھا” حیا ہنستے ہوئے بولی
“یار اب تو اظہار کردو ترس گیا ہوں میری بیوی اظہار کرے مجھ سے” وہ بے چارگی سے بولا حیا نے ہنستے ہوئے اسکے سینے سے سر اٹھایا
” آئی لو یو ٹو” وہ بے ساختہ بولی عثمان کو اپنے کانوں پر۔یقین نہ آیا
“واپس بولنا” وہ سر جھٹکتے ہوئے بولا
“جی نہیں دیر ہو رہی ہے میں جا رہی ہوں” حیا کمرے سے باہر بھاگ گئی
“اففف حیا رکو” عثمان اسکو آوازیں دیتا رہ گیا اور حیا مسکراتی ہوئی عبایا پہننے چل دی
_________________________________________
سب لاونچ میں بیٹھے ہنسی مذاق کر رہے تھے حیا عثمان کے پیچھے اس طرح بیٹھی تھی کہ حسن اور شہریار اسکو دیکھ نہ سکیں عثمان بھی اسکے پردے کا بھر پور خیال رکھتا تھا
“شکر ہے حسین بھائی کی شادی ہوئی اب میری بھی کریں ماما کب سے پینڈنگ پر ہوں” حسن آہ بھرتے ہوئے بولا سمرہ نے اسکے کندھے پر ایک مکا جڑا
“کیا فائدہ یار گھر میں ہی شادی ہوئی ہے کہیں آنا جانا بھی ہو تو اوپر سے نیچے آجاو بس۔۔۔ بندہ ڈرائیو کرتے ہوئے تھوڑا رومینس ہی کر لیتا یہاں تو وہ بھی موقع نہیں ملتا” حسین دکھی لہجے میں بولا
“شرم کریں حسین” زنیرہ شرمندگی سے اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی
“شرم کی کیا بات ہے اپنا دکھ بیان کر رہا ہوں” حسین ڈھٹائی سے بولا زنیرہ اٹھ کر چلی گئی اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بکواس کرتا اس نے بھاگنے میں عافیت جانی
ایمان حیا کی گود میں بیٹھی تھی اور حیا اس کے نخرے اٹھا رہی تھی
“مانی بھائی آج میں آپکے ساتھ جاؤں گی نا” وہ عثمان سے بولی
“ہاں گڑیا” عثمان اسکے گال کھینچتے ہوئے بولا
“کہاں بھئی؟” حیا نا سمجھی میں بولی
” یہ آج ہمارے گھر رکے گی بس” عثمان نے اپنا فیصلہ۔سنا دیا جسپر ایمان حیا کو چھوڑ کر عثمان کی گود میں چڑھ گئی
“افف اتنی بھاری ہوگئی ہو مان” عثمان ہنستے ہوئے بولا
“خبردار جو میری بہن کو کچھ کہا تو” سعد کہیں سے بر آمد ہوتا ہوا بولا
” اور بھئی تم کب شادی کر رہے ہو” عثمان اسکو دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا
“ہائے میری والی کو تو آپ لے گئے اب کس سے کروں” وہ بے بسی سے بیٹھتے ہوئے بولا بابا نے ایک ہاتھ اسکے کندھے پر مارا
“شرم کرو بہن ہے تمہاری” شائستہ بیگم مصنوعی غصے سے بولیں
“بہن تو بعد میں بنی ہیں پہلے تو گرل فرینڈ تھیں۔نا” وہ بے چارگی سے بولا اسکے انداز کر سب ہنس دئے
“السلام علیکم” ہادیہ سب کو سلام۔کرتے ہوئے آئی
اسکو دیکھ کر حیا اٹھی اور اسکو ہگ کرلیا
“کیسی ہو” حیا پیار سے بولی
“بالکل ٹھیک” وہ بیٹھتے ہوئے بولی
“ویسے حیا آپی عثمان بھائی کو چھوڑیں آپ ہادیہ آپی سے شادی کرلیتیں جتنی یہ دیوانی ہیں اتنا تو کوئی نہی ہوگا” سعد ان دونوں کی دوستی اور دیوانگی کو دیکھتا ہوا بولا
“چپ کرو پاگل کبھی بھی کچھ بھی بول دیتے ہو” شائستہ بیگم ڈانٹتے ہوئے بولیں
“ارے چھوڑیں ماما کنوارے پن کی حالت میں دماغی حالت ایسی ہوجاتی ہے” عثمان شرارتی آنکھوں سے بولا
“کتنی دفعہ کہا ہے اپنی حالت بار بار مت بتایا کریں اچھا نہیں ہوتا” وہ بھی سعد تھا اسکی بات پر سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے اور یہ ہنسی مذاق انکی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔۔۔ ان گنت اندھیروں کے بعد روشنیوں کا سفر انکی قسمت میں لکھا جا چکا تھا ۔۔۔اب ساری دشوار راہیں سہل ہوچکی تھی۔۔۔ اندھیروں سے روشنیوں کا سفر اب ممکنات میں سے تھا ۔۔۔۔رب کی آزمائشوں میں ہمت نہ ہارنے کا صلہ اور رب سے دوستی کا صلہ بہت ہی اچھے انداز میں مل چکا تھا ۔۔۔۔
بلا آخر دنیا اور آخرت میں کامیابی۔۔۔ خوشی۔۔۔۔ سکینت وہ تو رب سے محبت۔۔۔ رب سے دوستی۔۔۔ اور رب سے مانگنے کے نتیجہ میں ہی ملتی ہے پھر وہ بھی ملتا ہے جو کبھی سوچا نہ ہو ہر کسی کے دل میں عزت محبت احترام بھی وہی پیدا کرتا ہے کیا اپنے محبوب بندہ یا بندی کو وہ کسی کی نظروں میں برا اور بے عزت کر سکتا ہے؟؟؟؟
راہیں تھی آسان نہ پہلے
کہ کانٹے کی سمیٹ تھی
جس پر صرف تکلیف ملتی تھی
لیکن کہتے ہیں نا کہ راہیں ایک جیسی نہیں رہتیں
ہاں بدل گئی راہیں بھی میری
کہ اللہ نے سن لی پکار بھی میری
اب راہیں سہل ہوگئیں میری
کہ اب راہیں سہل ہو گئی میری
(ختم شد)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...