حسین چت لیٹا تھا زنیرہ کو اسکو دیکھ کر بہت رونا آیا اس نے کب یہ چاہا تھا؟؟؟ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکے بستر کے پاس آئی وہاں قریب رکھی کرسی پر بیٹھی اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر اپنا سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی
“حسین آج مجھے رونا آرہا ہے اور آپکا کندھا ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے آپکے علاوہ تو کوئی میرے آنسو نہیں پونچھ سکتا نا آپکے علاوہ تو کوئی مجھے صحیح سے نہیں سمجھتا پلیز حسین ٹھیک۔ہوجائیں آنکھیں کھولیں دیکھیں نا آپکی زنیرہ کس حالت میں ہے۔۔۔ کتنی دکھی ہے ۔۔۔ حسین میں بہت اکیلی ہوں سب خوش ہیں سب کو انکے بچھڑے مل گئے اور میں ؟؟؟مجھے مل کر بھی نہیں مل رہے میں خوش نہیں ہوں حسین میں اب کبھی نہیں جاؤں گی بس پلیز ایک بار مجھے دیکھ لیں” وہ رو رہی تھی حسین کا پورا ہاتھ اسکے آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا زنیرہ اٹھی اور اسکے برابر میں بیٹھنا چاہا کہ ایک دم اسکی سانسیں اکھڑنے لگیں
“حسین” زنیرہ چلائی حسین کی ہارٹ بیٹ نہ ہونے کے برابر ہو رہی تھی زنیرہ بھاگ کر ڈاکٹرز کے پاس گئی
“آپ پلیز باہر جائیں” ڈاکٹرز اسکو جلدی بولے
“میرے حسین کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے پلیز” زنیرہ سے بولنا مشکل ہو رہا تھا ڈاکٹرز بھاگ بھاگ کر ادھر ادھر جارہے تھے
“شارٹ لگاؤ جلدی” ایک ڈاکٹر چیخے ایک۔مشین لائی گئی زنیرہ اسکو دیکھ کر دہل گئی
“وقت نہیں ہے جلدی لگاؤ جلدی” ڈاکٹر پھر چیخے
“وقت نہیں ہے؟؟؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا حسین مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے انہوں نے وعدہ کیا تھا وہ کبھی نہیں چھوڑیں گے” زنیرہ وہیں بیٹھتی چلی گئی
_________________________________________
“ہیلو ڈیئر” حیا کچن میں تائی کیلئے سوپ بنا رہی تھی جب کیتھرین آئی
“اوہ اسلام علیکم کیسی ہو کیتھرین؟” حیا خوش اخلاقی سے بولی کیتھرین اسکے لب و لہجے پر حیران تھی
“تم بہت خوبصورت ہو حیا” کیتھرین اسکے پر نور چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی حیا مسکرادی
“تم وہ پہلی لڑکی کو جس نے مجھ سے اتنے اچھے سے بات کی ورنہ یہاں مجھے کوئی ایک نظر بھی نہیں دیکھنا چاہتا” کیتھرین کے لہجے میں دکھ تھا
“جانتی ہو حیا میرے ماں باپ نہیں ہیں جب میں نے شہری سے شادی کی تو اس نے پاکستان کے لوگوں کے بارے میں بتایا کہ بہت مخلص ہوتے ہیں میں یہ سوچ کر پاکستان آئی کہ بچپن نہ سہی اب تو مجھے ماں باپ کا پیار مل جائیگا لیکن یہاں آکر انکل آنٹی نے اتنا برا سلوک کیا میرے ساتھ کہ میں بھی بری ہوگئی انکے ساتھ مجھے بہت دکھ ہوا تھا” کیتھرین پتہ نہیں کیا سمجھ کر اسکو اپنی داستان سنا رہی تھی
“کیتھرین تم میرے کمرے میں بیٹھو میں تائی کو یہ سوپ دیکر آتی ہوں ” حیا اسکے گال تھپتھپاتے ہوئے بولی
“اوکے” کیتھرین اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر چلی گئی
_________________________________________
” تم پھر یہ لے آئی حیا” تائی اسکو سوپ لاتا دیکھ کر بولیں
“ہاں تو آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اب یہ پئیں جلدی سے میں کیتھرین سے بات کر کے آئی” حیا جلدی جلدی انکو اٹھاتے ہوئے بولی
“بیٹا تم مجھے بہت شرمندہ کرتی ہو” تائی ندامت سے بولیں
“ارے کیتھرین سے بات کرنے میں آپ کیوں شرمندہ ہونے لگیں؟؟” حیا بات سمجھتے ہوئے بھی انجان بنی
“میں نے تمہارے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور تم اتنا اچھا کیوں کر رہی ہو؟” تائی کے لہجے میں شرمندگی تھی
“کیونکہ یہ میرے رب کو پسند ہے میرے رب کی عادت ہے ہم اسکے ساتھ بہت برا کرتے ہیں پر وہ فورا معاف کردیتا ہے اور میں اپنے رب ی عادت اپنانا چاہتی ہوں کیونکہ وہ میرا دوست میرا سب کچھ ہے اور میرا دل بالکل صاف ہے تائی جان آپ یہ پئیں وہ میرا انتظار کر رہی ہے میں بات کر کے آئی” حیا انکو گال پر پیار کرتے ہوئے بولی
” اس چڑیل سے کیا بات کرنی ہے تمہیں ” تائی کو حیا کا اس سے بات کرنا پسند نہ آیا
” تائی انسان برے نہیں ہوتے انکے فعل برے ہوتے ہیں ہمیں انکے گناہ سے نفرت کرنی چاہیئے انسان سے نہیں وہ ماں باپ کے پیار کو ترسی ہوئی ہے اور آپ لوگوں کا پیار ہی تو لینے آئی تھی پر آپ نے سمجھا اس نے آپ سے آپکا بیٹا چھین لیا یہ صحیح نہیں ہے تائی جان ایک اور بار اپنی بیٹی بن کر اسکو سوچیں ایک بار اس سے اچھے سے بات کر کے دیکھیں ایک بار اپنے بیٹے کی محبت سمجھ کر بات کریں پھر آپکو پتہ چل جائیگا وہ کیا ہے” حیا انکو پیار سے سمجھا کر چلی گئی اور تائی پیچھے سوچتی رہ گئیں
_________________________________________
“بابا آج بھی آپ نہیں گئے” عثمان بے تابی سے بولا
” ہمیں آج جانا تھا پر ابھی حسین کا کچھ مسئلہ ہوگیا ہے وہ لوگ پریشان ہیں تو جانا مناسب نہیں لگ رہا” بابا متانت سے بولے
“اف اللہ پتہ نہیں یہ رکاوٹیں کب دور ہونگی” عثمان زچ ہوتا ہوا بولا
“صبر بیٹے صبر اتنی بھی کیا جلدی ہے” بابا اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بولے
“وہ کسی اور کی ہوجائیگی جتنی دیر آپ لوگ لگائیں گے آپ لوگ نہیں سمجھیں گے” عثمان بے چینی سے بولا
“میں نہیں سمجھوں گا تو اور کون سمجھے گا بیٹا” بابا اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے
بولے جسپر عثمان خفیف سا ہنس دیا
_________________________________________
حیا کیتھرین کے پاس آکر بیٹھی ہی تھی جب اسکا موبائل فون بجا
“ہاں زنیرہ بولو” حیا بولی
“آپی”زنیرہ سے کچھ بولا نہ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی
“کیا ہوا ہے زنیرہ کچھ بتاؤ تو سہی'” حیا پریشان ہوگئی
“آپی وہ۔۔۔ وہ حسین” زنیرہ کی سسکی گونجی
“کیا ہوا حسین کو اور تم کہاں ہو؟” حیا چونکتے ہوئے بولی
“انکی حالت بگڑ گئی ہے آپی انکو بچائیں میں ہاسپٹل میں ہوں” زنیرہ روتے ہوئے بولی
“تت تم ہاسپٹل کب گئی اور مجھے پتہ بھی نہیں” حیا شاک میں آگئی اب زنیرہ اسکو کیا بتاتی کہ رات سے ہی ہاسپٹل میں ہے
” تم پریشان مت ہو میں آرہی ہوں” حیا بے چینی سے بولی اور لب کاٹنے لگی
“اٹس ایوری تنگ آل رائیٹ حیا؟” کیتھرین اسکو پریشان دیکھتے ہوئے بولی
“ہاں وہ حسین کی حالت بگڑ گئی ہے تم سے بعد میں بات کرتی ہوں پلیز برا مت ماننا” حیا اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی
“میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں” حیا عبایا پہن رہی تھی جب کیتھرین کی بات پر حیران ہوتے ہوئے مڑی
“تم یہ پہن کر آجاو میں پورچ میں انتظار کر رہی ہوں” کیتھرین کہ کر چلی گئی جبکہ حیا حیران ہوتے ہوئے عبایا پہننے لگی
_________________________________________
“سعد بھائی اٹھیں” ایمان سعد کو مسلسل اٹھا رہی تھی جو گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا
“کیا ہے مان سونے دو نا” سعد کسمسا کر بولا
“اٹھیں مجھے ہاسپٹل لیکر چلیں” ایمان زور لگا کر بولی ہاسپٹل کے نام پر سعد اٹھ کر بیٹھا
“کیوں؟” اس نے بے چینی سے پوچھا
“حیا آپی ہاسپٹل میں ہیں” ایمان نظریں جھکا کر بولی
“کیا کک کیا ہوا آپی کو؟؟” سعد کو پریشان ہونے میں لمحہ بھی نہیں لگا تھا
“ارے آپی کر کچھ نہیں ہوا وہ حسین بھائی کی طبیعت خراب ہوگئی نا تو وہاں گئی ہیں” ایمان اپنا ننھا سا ہاتھ اپنے ماتھے پر مار کر بولی
“اوہ حسین؟؟ مطلب زنیرہ آپی ۔۔۔۔ اوہ نو۔۔۔ نہیں نہیں اللہ زنیرہ آپی کو خوشی دے دینا پلیز” وہ بے ربط جملے کہتا ہوا فورا سے اٹھا اور واروں فریش ہونے چل دیا اس کو اپنی کسی بھی بہن کا دکھ برداشت نہیں تھا
حسین کو شارٹ لگائے جارہے تھے حیا وہاں جلدی پہنچی زنیرہ غم سے نڈھال تھی
“زنیرہ دعا کرو جانی سب ٹھیک ہوجائیگا” ایک بہن سے دوسری بہن کا غم برداشت نہیں ہوسکتا
“آپی وہ بچ جائیگا نا” زنیرہ اس سے لپٹتے ہوئے بولی
“ہاں بالکل انشاء اللہ” حیا اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تسلی دینے لگی
“آپی آپ دعا کریں نا آپکی دعائیں قبول ہوتی ہیں” زنیرہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے بولی
“دعا تو ہر کسی کی قبول ہوتی ہے زونی بس اسکیلئے دھیان اور یقین کی ضرورت ہے جاؤ شاباش خود دعا مانگو جتنے خلوص سے مانگو گی اتنی جلدی دعا قبول ہوگی ” حیا کے کہنے پر زنیرہ بنا کچھ کہے فورا اٹھی اور ایک علیحدہ کمرے میں چلی گئی جہاں نمازیں پڑھی جاتی تھیں
_________________________________________
ہاسپٹل میں سب پہنچ چکے تھے اور سب حسین کی زندگی کی دعائیں کر رہے تھے اتنے میں ڈاکٹر آئے اور حسن کے کندھے پر ہاتھ رکھا
“پلیز کوئی غلط خبر مت سنائےگا” حسن انکی شکل دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے
“اچھی خبر ہے اللہ کے فضل سے وہ بچ گیا ہم نہیں جانتے کیسے کیونکہ عموما مریض اس حالت میں وفات پا جاتے ہیں پر آپ لوگوں کی دعائیں کام کر گئیں” ڈاکٹر مسکراتے ہوئے بولے جسپر سب نے سکھ کا سانس لیا زنیرہ ابھی تک کمرے میں دعا مانگ رہی تھی
حیا اسکے پاس کمرے میں گئی جو بہت پر خلوص انداز میں دعائیں مانگ رہی تھی وہ اسکے کے پاس بیٹھ گئی حیا کے ساتھ کیتھرین بھی تھی وہ خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی زنیرہ نے دعا مانگ کر ہاتھ چہرہ پر پھیرا اور اپنے آنسو صاف کئے
“کیا ہوا آپی؟” حیا کو یوں مسکراتا دیکھ کر زنیرہ حیران ہوئی
” تمہاری دعا قبول ہوگئی” حیا اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولی
“اوہ سچ آپی؟؟؟؟ مم میں دیکھ کے آتی ہوں” زنیرہ سے خوشی کے مارے بولا نہیں جارہا تھا وہ فورا اٹھنے لگی جب حیا نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
“اللہ کا شکر ادا تو کر لو زونی” حیا نم آنکھوں سے بولی زنیرہ مسکراتی ہوئی دو رکعت صلاة الشکر پڑھنے لگی
_________________________________________
حسین گھر آچکا تھا البتہ زنیرہ سے اس نے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی زنیرہ کو کوئی موقع ملنے دیا حسن کی امی بھی گھر آچکی تھی اور انکو بھی اپنے کئے کا پچھتاوا تھا انہوں نے بھی معافی مانگی تھی جسپر کھلے دل سے معاف کر دیا گیا تھا اب یہ ایک مکمل گلشن تھا دادا دادی بے حد خوش تھے
_________________________________________
حیا ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو عائشہ اسکے پاس بیٹھی تھی
“کافی دنوں سے تم سے بات نہیں ہوئی تم تو یہاں آکر بھول ہی گئی ہو” عائشہ نے دوستانہ شکوہ کیا
“تم دیکھ رہی کتنی افرا تفری کے” حیا ہنستے ہوئے بولی
“ہممم وہ تو ہے اور ایمان صاحبہ بھی اپنی آپی کو بھول کر سعد کے آگے پیچھے گھومتی ہیں” عائشہ ہنستے ہوئے بولے
“ہاں بھئی وہ تو اب لفٹ ہی نہیں کرواتی بابا اور بھائی جو مل گئے لیکن یہ میں سو فیصد یقین سے کہ سکتی ہوں اس کے دل میں سب سے زیادہ میری محبت ہے” حیا کے لہجے میں ایک مان تھا
“حیا میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں” عائشہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
“میں جانتی ہوں اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا جو مجھے اتنی عزت ملی کبھی سوچا بھی نہ تھا بیشک۔اللہ اپنے بندوں کو کبھی رسوا نہیں ہونے دیتا اگر تم مجھے دعا کا راستہ نہ بتاتی تو آج میں ایک بھٹکی ہوئی لڑکی ہوتی لہکن اللہ نے مجھے توفیق دی مجھے چنا اور مجھے سمیٹ کر سرخرو کیا وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے عائشہ ” حیا نم آنکھوں سے بولی جسپر عائشہ مسکرادی اللہ کے ذکر پر اسکا لہجہ ہمیشہ محبت میں ڈوب جاتا تھا جیسے کوئی اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہو سننے والا اسکے لہجے پر ڈول سا جاتا اور اسکی آنکھیں نم ہوجاتیں کہ دیکھنے والا اس میں ڈوب جاتا
“چلو تم قرآن پڑھ لو میں جانتی ہوں تم ہر نماز کے بعد ضرور قرآن پڑھتی ہو میں بھی نماز پڑھ لوں” عائشہ اسکے گال تھپتھاپتے ہوئے چلی گئی حیا قرآن کھول کر تلاوت کرنے لگی یا یوں کہا جائے کہ رب سے باتیں کرنے لگی تو زیادہ مناسب ہوگا
________________________________________
حیا قرآن پڑھ رہی تھی کیتھرین دروازہ پر کھڑی اسکی تلاوت سن رہی تھی حیا کی اسکی طرف پیٹھ تھی اسی لئے دیکھ نہ پائی کافی دیر بعد حیا تلاوت سے فارغ ہوئی تو دروازہ کی طرف مڑی اور حیران نظروں سے کیتھرین کو دیکھنے لگی
“کیا ہوا کیتھرین کچھ کام تھا؟” حیا نرمی سے مخاطب ہوئی
” تم۔ابھی کیا پڑھ رہی تھی؟” کیتھرین بولی
“میں اپنے اللہ کا کلام پڑھ رہی تھی” حیا محبت بھرے لہجے میں بولی
“تم۔بہت محبت کرتی ہو اپنے اللہ سے؟” کیتھرین رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی
“محبت نہیں عشق کرتی ہوں” حیا کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی
” اوہ آئی سی حیا کیا تم مجھے بھی یہ پڑھنا سکھاؤگی اسکو سن کر مجھے بہت سکون مل رہا تھا” کیتھرین نم آنکھوں سے بولی حیا اسکی بات پر بوکھلا گئی اسکو کیسے بولتی کہ وہ مسلمان نہیں ہے
“مجھے پتہ ہے تم کیا سوچ رہی ہو کہ میں مسلمان نہیں ہوں” اسکی بات پر حیا نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا کیتھرین کے چہرے پر مسکراہٹ تھی
“میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں” کیتھرین کی بات پر حیا کی آنکھیں نم ہوگئیں
” میں کبھی مسلمانوں سے اتنا انسپائیر نہیں ہوئی جتنا تم سے کوئی حیا تمہاری تائی نے تمہارے ساتھ اتنا برا کیا لیکن تم نے صرف اسی لئے معاف کردیا کہ تمہارے اللہ کو پسند تھا جب حسین کومے میں تھا سب پریشان تھے اور تم پر سکون تھی میں نے تم سے اسکی وجہ پوچھی تو تم نے کہا تھا میں نے دعا مانگ لی ہے اب سکون ہے تب میرے دل کو کچھ ہوا تھا میں بھی ڈاکٹر ہوں ایسی حالت میں مریض نہیں بچتے پر حسین اگر بچا تو تمہاری دعا سے جب تم نماز پڑھتی ہو یا قرآن پڑھتی ہو بے انتہا حسین لگتی ہو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اپنے محبوب سے باتیں کر رہا ہو تم سے باتیں کر کے سکون ملتا ہے کوئی اپنے اللہ سے اتنی بھی محبت کر سکتا ہے مجھے اب اسکا اندازہ ہوا میں بھی تمہاری جیسی بننا چاہتی ہوں حیا میں بھی پر سکون ہونا چاہتی ہوں جیسے تم ہر وقت پر سکون رہتی ہو ” کیتھرین آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے بول رہی تھی اور حیا نم آنکھوں سے سن رہی تھی اس کے رب نے اسکو اتنی عزت دی کہ اسکو اندازہ بھی نہ تھا اس نے تو بس اللہ سے دوستی کی تھی نا اور اب اسکی زندگی پر سکون ۔۔۔ حسین ترین ہوگئی تھی جیسے کوئی پریشانی ہی نہ ہو اسکا دل چاہا کہ فرط جذبات میں اپنے اللہ اپنے محبوب اپنے دوست کو ہگ کر لے
“میں اتنی بڑی نہیں کہ تمہیں مسلمان کروں کیتھرین تم میرے ساتھ چلو لیکن میری طرح نقاب پہن کر ہم امام صاحب کے گھر جائیں گے اور وہاں انشاءاللہ تم مشرف بااسلام ہوجانا” حیا اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی جبکہ کیتھرین مسکرادی
_________________________________________
“حیا کہاں ہو یار” وہ دونوں جا رہے تھے جب ہادیہ کا فون آیا
“ایک ضروری کام سے جارہی ہوں آکر بات کرتی ہوں کادیہ” حیا مسکراتے ہوئے بولی
“تم نا دفع ہوجاو اب بالکل بھی مجھے لفٹ نہیں کراتی کو” ہادیہ خفگی سے بولی
“ارے ارے کرتی ہوں نا فون ایک گھنٹہ تک” حیا ہنستے ہوئے بولی
“ایک گھنٹہ؟؟؟ ایسا کون سا کام ہے جو آپ مجھے بھی نہیں بتا رہیں؟” ہادیہ کی بات پر حیا ہنس پڑی
“تم نا دفع ہوجاو بات نہیں کرو بہت انور کر نے لگی ہو مجھے” حیا کو وہ دن یاد آنے لگے جب حیا کو لگتا ہادیہ اسکو اگنور کر رہی ہے کیا مکافات عمل تھا!!!! حیا نے سر جھٹک دیا
“ارے ہادیہ آکر بتاتی ہوں جانی” اسکو تو اللہ کی دوست بننا تھا پرانی باتیں بھول کر صلح رحمی کا دامن تھام کر بدلہ کی آگ سے بچنا تھا کیونکہ وہ اللہ کی دوست تھی اور اللہ معافی کے بعد بدلہ نہیں لیا کرتا اور رجوع کرو تو بھلے کتنا ہی ناراض نہ ہو اپنے بندے کو تھام لیتا ہے۔۔۔۔
حیا کیتھرین کو مسجد کے امام صاحب کے گھر لے آئی وہاں پر امام صاحب نے اسکو مسلمان کیا تو کیتھرین خوشی سے رو پڑی
“اب تم کیتھرین نہیں ہو” حیا اپنے آنسوؤ چھپاتے ہوئے بولی
“کیا مطلب؟” اس نے حیرانی سے دیکھ کر بولا
“تم اب فاطمہ ہو” حیا مسکرا کر بولی
“اوہ یہ تو بہت اچھا نام ہے” فاطمہ خوش ہوتے ہوئے بولی واپسی پر حیا اسکو اسلام کے بارے میں کتابیں دلانے کے بعد گھر کی طرف چلی
________________________________________
حیا گھر آئی تو عثمان کی گاڑی دیکھ کر ٹھٹھک گئی اسکے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں فاطمہ اور وہ دونوں اندر کی جانب بڑھنے لگے کی عثمان باہر کی جانب آرہا تھا نظروں کا تصادم ہوا حیا نقاب کے اندر تو عثمان سر جھکاتے ہوئے مسکرایا قدرت کو یہ ادا بہت بھائی حیا اندر بڑھی تو گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا وہ حیران تھی کہ اچانک کیا ہوگیا
“حیا یہ کون ہے؟” حیا کے ساتھ نقاب میں ایک اور لڑکی کو دیکھ کر تائی جو کہ اب کمرے سے باہر آجایا کرتی تھیں حیرانی سے بولیں
“خود پہچانیں” حیا خوشی سے مہمانوں کی پروا کئے بغیر بولی
“ارے بتاؤ نا کیوں سسپینس پیدا کر رہی ہو” سمرہ بے چینی سے بولی جسپر حیا ہنس دی ایک شفاف۔۔۔ ہنسی ایک پاکیزہ ہنسی
حیا نے اسکا نقاب اتار دیا جسکو دیکھ کر سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے
“کیتھرین” کئی جگہوں سے آواز ابھری
“کیتھرین نہیں فاطمہ” حیا مسکراتے ہوئے بولی
” تت تم مسلمان ہوگئی” تائی اسکو حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولیں
“جی” فاطمہ سے ادب سے جواب دیا تائی ویل چیئر پر بیٹھی بیٹھی اسکے پاس آئیں اور ہاتھ بڑھا کر اسکو اپنے سینے سے لگایا جسپر وہاں موجود ہر آنکھ اشک بار تھی
اب حیا نے مہمانوں کی طرف نظریں دوڑائیں ایک نفس کے علاوہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی
“السلام علیکم آنٹی” حیا مسکرا کر عثمان کی والدہ سے سلام کرنے لگی جو اسکو بہت گہری نظروں سے دیکھ رہی تھیں
“وعلیکم السلام کیسی ہو بیٹا؟” وہ شفقت سے بولیں
“میں الحمدللہ ٹھیک ہوں۔۔۔۔ میں ذرا عبایا اتار کر آتی ہوں” وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی
_________________________________________
حیا اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو زنیرہ ۔۔۔شہیرہ۔۔۔ عائشہ۔۔۔ حسن ۔۔۔سمرہ ۔۔۔سعد ۔۔۔ایمان۔۔۔ ہادیہ اور حسین جمع تھے اور اسکو شرارتی نظروں سے دیکھ رہے تھے
“تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو اور ایسے کیوں دیکھ رہے ہو” حیا خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی نقاب واپس پہن چکی تھی حسن اور حسین کی وجہ سے
“ہائے میری بہن” سعد اٹھا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر گھما ڈالا
“کیا کر رہے ہوں سعد پاگل تو نہیں ہوگئے؟” حیا پریشان ہوتے ہوئے بولی
“ابھی تو ہم بچھڑے ملے تھے۔۔۔ابھی تو دل کی باتیں کرنی تھیں۔۔۔۔ ابھی تو محبت کا اظہار کرنا تھا یہ اچھا نہیں کیا حیا تم نے” سعد کی ایکٹنگ کمال کی تھی اس نے اپنے مصنوعی آنسو صاف کئے
“یار کوئی مجھے بتائیگا یہ کیا ہورہا ہے؟” حیا زچ ہوتے ہوئے بولی
“کتنے وعدے کیے تھے تم نے ساتھ مریں گے ساتھ جئیں گے اب ایسی بے وفائی؟” سعد (مصنوعی) روتے ہوئے بولا
“میں نے یہ سب کب کہا اور تمہاری دماغی حالت خراب ہوگئی ہے جاکر چیک کرواو” حیا اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر بولی
“”اب تو دماغی حالت ہی خراب ہونی ہی اس بے بیوفائی پر ” سعد کی باتوں پر سب ہنس رہے تھے
“حیا عثمان کی امی آئی ہیں تمہارا ہاتھ مانگنے” سمرہ اسکو مزید پریشان ہوتا دیکھ کر بولی حیا نقاب کے پیچھے ہی مسکرادی کسی کو نہ پتہ چلا
“اب مسکرا رہی کو تو کھل کے مسکرادو نا” ہادیہ سے کب چھپا رہ سکتا تھا حیا اسکے برابر میں آکر بیٹھ گئی
“اور ایک اور خوشخبری” سمرہ بولی
“کیا؟” حیا بے چینی سے بولی
“شہیرہ کا بھی رشتہ آیا ہے بھئی” سمرہ کی بات پر شہیرہ شرما کر سر جھالا گئی اور سب مل جھل کر ہنسی مذاق کر نے لگے خصوصا سعد اور ہادیہ کی چھیڑ چھاڑ عروج پر تھی جسپر حیا نروس ہوئے جارہی تھی
_________________________________________
“حسین” زنیرہ کب سے اسکا انتظار کر رہی تھی اب حسین باہر سے آیا وہ فورا اسکے طرف لپکی
“جی” اجنبی لہجے پر زنیرہ رونے والی ہوگئی
“کس بات پر آپ مجھ سے ناراض ہیں حسین؟” زنیرہ رندھی آواز میں بولی
“میرے خیال میں آپ سارے رشتے ختم کر کے گئی تھیں اور ناراضگی وہیں ہوتی ہے جہاں کوئی رشتہ ہو” حسین اسکو بنا دیکھے بول رہا تھا
“میری طرف دیکھ کر کہیں یہ بات کہ ہم میں کوئی رشتہ نہیں” زنیرہ اسکے سامنے آتے ہوئے بولی حسین نے فورا نظریں پھیر لیں
“مجھے دیکھنے کا کوئی حق نہیں” وہ۔کہتا ہوا آگے بڑھنے لگا زنیرہ نے فورا اسکا ہاتھ پکڑ لیا جانتی تھی اب موقع نہیں ملیگا
“پلیز حسین آپ تو مجھے سمجھتے ہیں نا پھر کیوں ایسا کر رہے ہیں” زنیرہ روتے ہوئے بولی
“جو آپ نے کیا وہ ٹھیک تھا میں کوئی کھلونا لگتا ہوں جب دل چاہا مجھے چھوڑ دیا جب دل چاہا مجھے اپنا لیا واہ زنیرہ بی بی کیا کہنے آپکے” حسین غصے سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے بولا
“میں نے خوشی سے نہیں چھوڑا تھا حسین میری مجبوری تھی” زنیرہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کس طرح اسکو منائے
“ہاں تو ٹھیک اب میری مجبوری ہے میری ماں بھی کہیں اور میری شادی کر رہی ہیں میں انکو منع نہیں کر سکتا” حسین کی بات کر زنیرہ کا دماغ سائیں سائیں ہونے لگا حسین یہ کہ کر چلا گیا اور زنیرہ.. وہ گرنے والی تھی جب دو مضبوط ہاتھوں نے اسکو تھام لیا
_________________________________________
شائستہ بیگم حیا کو رشتہ کے بارے میں بتا چکی تھیں اور حیا نے کہا
“ماما جیسے آپکی مرضی” شائستہ بیگم نے اسکو سینے سے لگا کر ڈھیروں دعائیں دیں وہ واپس اپنے کمرے میں آنے لگی جب بابا کو لاونچ میں اکیلے اور افسردہ دیکھ کر رک گئی
“بابا آپ ادھر کیوں بیٹھے ہیں؟” حیا انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی بابا نے چہرہ موڑ کر اسکی طرف دیکھا اور نم آنکھوں سے دیکھتے ہی رہے
“کیا ہوا بابا؟” حیا پریشان ہوتے ہوئے بولی
“تت تم چلی جاوگی حیا” بابا نم آنکھوں سے بولی
“ارے بابا ہر بیٹی تو جاتی ہے نا” وہ بابا کو سمجھانے لگی جو باقاعدہ اب رو رہے تھے
” ابھی تو ہم۔ملے تھے حیا ابھی تو میں نے پیار بھی نہیں کیا اور تت تم۔بھی شہیرہ بھی دونوں چلی جاوگی شاید یہی میری سزا ہے مجھے میری بیٹیاں کبھی نہ ملیں گی” حیا نے نم آنکھوں سے بابا کو اپنے ساتھ لگایا
“ایسی بات نہیں بابا جانی یہ تو خوشی کی بات ہے نا کہ بیٹیوں کے اس معاملے میں آپ خوش نصیب ہیں ورنہ لوگ تو در بدر بھٹکتے ہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے اور شادی کے بعد بیٹیاں چھوڑ تو نہیں دیتی نا دل میں محبت اور مقام تو وہی رہتا ہے اور میں تو اپنے بابا سے ملنے بہت آیا کروں گی پر اس طرح اداس رہیں گے تو آپکی حیا بھی اداس رہیگی کیا آپ چاہتے ہیں کہ حیا اداس رہے ہاں؟” حیا پیار سے انکے آنسو صاف کر کے بول رہی تھی
“میں چاہتا ہوں میری بیٹی خوش رہے” بابا بولے تو حیا انکی معصومیت پر مسکرادی
“چلیں اب حیا کو مسکرا کر دکھائیں” حیا بچوں کی طرح انکو بہلارہی تھی بابا نے اسکو اپنے سینے سے لگایا
پیچھے سے آتا سعد نم آنکھوں سے مسکرایا اس سے بھی کب اپنی بہن کی جدائی برداشت ہونی تھی
_________________________________________
“حیا آپی” حیا اپنے کمرے میں جارہی تھی جب سعد بولا
“ہوں بولو سعد” حیا اسکو مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولی جسپر سعد نے حسین اور زنیرہ کے ما بین ہوئی گفتگو اسکے گوش گزار دی
“کہاں ہے زنیرہ؟” حیا بے چینی سے بولی
“میں اسکو کمرے میں لٹا کر آیا ہوں”
“سعد تم اسکے پاس بیٹھو میں ذرا حسین سے بات کر کے آتی ہوں” حیا غصے سے بولی
وہ لمبے لمبے ڈگ اٹھاتی حسین کے کمرے کی طرف بڑھی
“اوہ نقاب تو پہنا ہی نہیں” دروازہ ناک کرنے سے پہلے اسکو یاد آیا دوپٹہ سے اپنے آپکو ڈھانپ کر چہرے پر نقاب کی طرح لپیٹا اور اندر بڑھ گئی حسین اوندھے منہ لیٹا تھا
“حسین” وہ مخاطب ہوئی حسین اسکی آواز سن کر ایک جھٹکے سے اٹھا
“آپ” وہ حیرانی سے بولا
“جب خود بھی سکون نہیں پھر کیوں جھوٹ بولا زنیرہ سے؟” حیا جانچتی نظروں سے بولی حسین نے اپنی نظریں پھیر لیں
” حسین وہ بخار میں تب رہی ہے تم سے محبت کرتی ہے تمہارے ساتھ کسی کا نام بھی برداشت نہیں کر سکتی اور وہ خود نہیں چھوڑ کہ گئی تھی میں نے بولا تھا اسکو کب وہ وہاں خوش رہی ہے ہر پل تمہیں یاد کرتی رہی اسکی آنکھوں میں صرف اپنی محبت پانے کی حسرت تھی اور یہاں آکر سب سے زیادہ وہ خوش تھی لیکن تمہیں کومے میں دیکھ کر وہ ترپتی رہی تمہارے لئے دعائیں کیں اب تو اسکو اپنا لو” حیا اسکو سمجھاتے ہوئے بولی
“میں ناراض نہیں ہوں اس سے” حسین نظریں پھیر کر بولا
“جی ناراضگی تو وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی رشتہ ہو آپکا تو کوئی رشتہ نہیں نا” حیا طنزیہ انداز میں اسی کا جملہ لوٹاتے ہوئے بولی
“ایسا کچھ نہیں ہے میں بھی محبت کرتا ہوں اس سے” حسین تڑپ۔کر بولا
“جاکر دیکھ لو اسکو اپنانا چاہو اپنالو ورنہ میری بہن محبت کی حسرت میں ہی مریگی” حیا بولتی ہوئی کمرے سے باہر آگئی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...