“پتہ نہیں بابا ماما مجھے معاف کریں گے بھی یا نہیں” بابا جاتے ہوئے ڈر رہے تھے
“آپ فکر نہ کریں ہر ماں باپ کے پاس اولاد کی خاطر بڑا دل ہوتا ہے اولاد کی بڑی سی بڑی غلطی بھی معاف کردیتے ہیں” شائستہ انکو سمجھاتے ہوئے بولیں
“مجھے معاف کردو شائستہ میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی تم پر ظلم کیا تمہاری زندگی کو اجیرن کردیا” بابا شرمندگی سے بولے
“کیسی باتیں کر رہے ہیں میں اپنے رب کی شکر گزار ہوں اس نے مجھے ثابت قدم رکھا میں نے اپنے بچوں کی تربیت کی اور آپ واپس آگئے میرے لئے یہی بہت ہے” شائستہ انکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں
“تم بہت اچھی ہو پتہ نہیں مجھے پہلے عقل۔کیوں نہ آئی” بابا بولے تو شائستہ مسکرادیں اور بول بھی کیا سکتی تھیں
“میں پیکنگ کرتی ہوں” وہ اٹھتے ہوئے بولیں
“ایمان کو بھیج دو میرے پاس” بابا بولے تو شائستہ نے مسکرا کر ایک نظر انکو دیکھا جسکی وجہ سے وہ۔انکو چھوڑ کر گئے تھے آج وہی انکو سب سے زیادہ عزیز تھی اور ایمان کو تو بس اپنے ساتھ کوئی کھیلنے والا چاہیئے تھا اور بابا سارا دن اسی کے ساتھ لگے رہتے ایمان بھی ان سے اٹیچ ہوگئی وہ یہ بھول گئی تھی کہ یہ بابا ہیں یا نہیں؟؟ بس ایک پارٹنر مل گیا تھا اور اسی۔میں وہ خوش تھی
_________________________________________
“بابا آپ کب جائیں گے؟” عثمان انکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا
“کہاں؟” بابا حیران ہوئے
“بابا میرا رشتہ لینے حیا کے گھر” عثمان بے تابی سے بولا
“اوہ اچھا اچھا بڑی جلدی نہیں ہورہی آپکو؟” بابا اسکو چھیڑنے لگے عثمان نے خفا سا منہ بنایا
“آپ بات نہ کریں اب تنگ کریں گے نا مجھے” عثمان روٹھے انداز میں بولا
“ہاہاہاہاہا” بابا کا قہقہہ بلند ہوا
“میں جارہا ہوں” عثمان غصے میں اٹھنے لگا تب بابا نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
” میری ابھی ابھی کال پر اسکے دادا سے بات ہوئی تھی میں نے انکو بتایا ہم رشتے کیلئے آنا چاہ رہے ہیں بہت خوش ہوئے لیکن انکا کہنا ہے کہ ابھی حیا کے والدین گھر آرہے ہیں پھر ہم آجائیں” بابا سنجیدہ ہوتے ہوئے سب بتانے لگے
“والدین مطلب اسکے بابا بھی؟؟” عثمان حیرت سے بولا
“ہاں شاید” بابا نے کندھے اچکائے اور عثمان ہونٹ سکوڑتے ہوئے گہری سوچ میں چلا گیا
_________________________________________
شہریار گاڑی روک کر ساحل سمندر پر کھڑا تھا دل کو سکون سا محسوس نہیں ہورہا تھا دل بے چین تھا نجانے کیوں کچھ غلط ہونے کا احساس اسکے اندر جاگ رہا تھا
“شہریار میری جان ہے” ماما کی آواز کانوں میں گونجی
“میں شہریار کے بغیر نہیں رہ سکتی” جب وہ امریکہ جارہا تھا تب اسکی ماں کیسے تڑپی تھی شہریار گیلی ریت پر ہی بیٹھ گیا
“شہری بیٹا کب تک ناراض رہے چلو شاباش یہ کھالو” ماں سے بد تمیزی کرنے کے بعد بھی ماما بار بار اسکے پاس آکر اسکو مناتیں
“ماما” شہریار زور سے بولا
سمندر کی لہروں نے جوش مارا
کانوں میں ماں کی آوازیں گونج رہی تھیں اس نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں
“مجھے معاف کریں ماما میں اچھا بچہ نہیں ” وہ گیلی ریت پر ہی رونے لگ گیا گیلی ریت اسکے آنسو جذب کر لیتی ایک بار پھر سمندر کی فضائیں ایک انسان کے دکھ میں شریک تھیں
_________________________________________
حیا ساری تیاریاں کر کے دادا کے ساتھ ہوٹل سے باہر نکلی
“دادا پہلے ہادیہ سے ملنا چاہتی ہوں” اس نے دادا کو پکارا
“اسکے گھر جاوگی؟” دادا نے پوچھا
“جی بالکل” حیا کے لہجے میں بے صبری واضح تھی
دادا نے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی ہادیہ کے گھر کی طرف موڑ دی
ہادیہ کے گھر پر گاڑی رکی کتنے عرصے بعد وہ اس گھر میں آئی جہاں اسکی جان سے زیادہ عزیز سہیلی رہتی تھی سب گلے شکوے باہر پھینک کر وہ اندر داخل ہوئی کیونکہ جس دل میں رب رہتا ہو وہاں یہ سب نہیں ہوتا
حیا اندر داخل ہوئی تو سامنے سے آتی آنٹی دادا کے ساتھ ایک پردہ دار لڑکی کو دیکھ کر چونکیں
“السلام عکیکم بابا” آنٹی بھی انکو بابا ہی کہتے تھے
“وعلیکم السلام بیٹی خوش رہو” دادا انکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے اسی وقت حیا نے اپنا نقاب اتارا
“ح حیا ” ماما شاک سی اسکو دیکھ رہی تھیں
“کیسی ہیں آنٹی؟” حیا انکے گلے لگ کر بولی
“کہاں چلی گئی تھی تم حیا؟” آنٹی کے لہجے میں ہلکا سا شکوہ آیا
“سوری آنٹی کچھ حالات نے دور جانے پر مجبور کردیا تھا” وہ انکے ساتھ لگتے ہوئے بولی
“ہادیہ کہاں ہے؟” حیا پر چوش لہجے میں بولی
“اپنے کمرے میں بہت خوش ہوگی تم سے ملکر جاؤ بیٹا میری بیٹی کو خوشی دیدو” آنٹی رندھے لہجے میں بولیں
حیا سر ہلا کر ہادیہ کے کمرے کی طرف چل دی
_________________________________________
تائی گھر آچکی تھیں سمرہ بھر پور انکی خدمت کر رہی تھی لیکن انکی زبان پر بس ایک ہی نام تھا
“مجھے حیا نے معافی ماگنی ہے اسکو بلاؤ” سمرہ بے بسی سے انکو دیکھتی
“کاش حیا تم آجاو” سمرہ اسکو پکارتی
_________________________________________
حیا نے دروازہ کھٹکھٹایا
“کم ان” ہادیہ کی نحیف سی آواز آئی حیا کا دل دھڑک اٹھا وہ کمرے میں داخل ہوئی ہادیہ آنکھیں موندے لیٹی تھی
“ہادیہ” حیا نے دھیرے سے پکارا
“حیا” ہادیہ سر اٹھا کر بنا دیکھے بولی
“یہ حیا کی ہی آواز تھی” ہادیہ اٹھ کر بولی تو سامنے ہی حیا کھڑی تھی
“تت تم آگئی حیا؟” وہ ایک دم سے اٹھتے ہوئے بولی
“بالکل میں آگئی” حیا مسکراتے ہوئے اسکے پاس بیٹھ گئی
“تم کہاں چلی گئی تھی حیا” ہادیہ اسکے سینے سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رودی
“بس اب رونے کی نہیں ہورہی اب تو میں آگئی نا؟”حیا سے اسکا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا
“بہت رلایا ہے تم۔نے حیا بہت تم ایک دفعہ مجھ سے شکوہ تو کرتی ایک دفعہ مجھے بولتی تو سہی میں منا لیتی مجھ سے دور کیوں گئی تم نہیں جانتی تم میرے لئے کیا ہو حیا میری جان ہو تم ۔۔۔میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی پھر بھی چھوڑ دیا مجھے” ہادیہ اس سے شکوہ کر رہی تھی زار و قطار رو رہی تھی
“میں تھک گئی تھی مجھے لگا تمہیں اب میری ضرورت نہیں منزہ مجھ سے زیادہ تمہیں خوش رکھ سکتی ہے اور میں تمہیں اسکے ساتھ نہیں دیکھ سکتی تھی اسی وجہ سے چلی گئی” حیا اسکو ساتھ لگاتے ہوئے بولی
“میں تمہارے علاوہ کسی کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی تم۔میری زندگی ہو” حیا اسکو خود سے لپٹاتے ہوئے بولی ہادیہ نے بھی اسکو ٹائیٹ سے ہگ کرلیا دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہرہے تھے ہادیہ نے الگ ہوکر اسکا ماتھا چوم لیا
“اب شوہروں والی حرکتیں کون کر رہا ہے؟” حیا شرارتی انداز میں بولی
“چپ کرو تم سخت ناراض ہوں میں” ہادیہ خفگی کے انداز میں بولتی ہوئی پھر سے لپٹ گئی
“اچھا ٹھیک ہے پھر میں چلی جاتی ہوں” حیا اٹھتے ہوئے بولی
“خبردار اب جو تم کبھی گئی” ہادیہ اسکو ٹائیٹ سے پکڑ کر بولی مبادا کہیں وہ سچ میں اٹھ کر ہی نہ چلی جائے
“ہاہاہا” حیا اسکے انداز پر مسکرادی
“حیا میں اب بہت ماروں گی تمہیں بہت مزہ آتا ہے تمہیں تڑپانے میں” ہادیہ مصنوعی غصے بولی
“اللہ نہ کرے جو تم کبھی تڑپو میری جان” حیا اسکو پیار کرتے ہوئے بولی
“جتنا آپ نے تڑپایا ہے نا اتنا کوئی بھی نہیں تڑ پاسکتا” ہادیہ ناراضگی سے بولی
“اچھا چلو نیچے چلیں بلا فضول میں آنٹی کو پریشان کر رکھا ہے” حیا اسکو اٹھا کر بولی
“بلا فضول میں؟؟؟” ہادیہ ابرو اچکاتے ہوئے بولی
“اچھا نا چلو” حیا اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے بولی
اور دونوں ہنستی مسکراتی باہر آگئیں
_________________________________________
“دادا حیا کو آج رات ادھر ہی رہنے دیں نا پلیز” ہادیہ دادا کی منتیں کر رہی تھی
“ابھی اسکے ماں باپ بھی آرہے ہیں کل اور گھر پر تائی بھی اسکی منتظر ہیں” دادا شفقت سے بولے
“ہاں لوگوں کی بہت ویلیو بڑھ گئی ہے” ہادیہ جلے کٹے انداز میں بولی
“اور لوگ جیلس ہورہے ہیں” حیا بھی تڑپانے سے باز نہیں آئی
“آپ۔سے بات نہیں کی دادا آپ ابھی اس چڑیل کو لے جائیں پھر رات کو چھوڑ دیں نا پلیز” ہادیہ دادا سے بولی تو دادا بھی اسکی ادا کر مسکرادئیے
“اچھا چلو ٹھیک ہے ابھی جانے دو میں رات کو چھوڑ دوں گا” حیا بھی نقاب پہننے لگی ہادیہ اسکو حیرت سے دیکھ رہی تھی پھر رات کا سوچ کر کچھ نہ پوچھا
حیا دادا کے ساتھ گھر آئے تھی ابھی لاونچ میں قدم رکھا ہی تھا کہ شہریار سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا
“یہ کون ہیں دادا؟” شہریار اسکے نقاب کو عجیب نظروں سے دیکھتا ہوا بولا
“حیا” دادا نے بہت ضبط کر کے جواب دیا ان سے اپنی ہوتی پر ایک غلط نظر بھی برداشت نہیں ہوتی تھی
“اوہ یہ تم ہو مائی گاڈ کیا بنی ہوئی ہو؟” شہریات ہنستے ہوئے بولا
“مسلمان” حیا نے کرخت لہجے میں بولی شہریار کی ہنسی کو بریک لگا
“اوہ” وہ ہونٹ سکوڑتے ہوئے ہاتھ میں موجود چابی گھماتے ہوئے باہر چل دیا
“صبر کرنا بیٹی خدا کی راہ میں ایسی مشکلات تو آتی ہی ہیں طرح طرح کے تیر اور نشتر دل میں لوگ چبھاتے ہیں لیکن تم نے ان سب کو بہادری سے سہنا ہے بیٹی” دادا پیار سے اسکو کہنے لگے جسکا غصے سے برا حال تھا
“مجھے اسکی بات غصہ نہیں آرہا دادا جان اس نے میرے رب کے حکم کا مذاق اڑایا ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتی ایک مسلمان ہوکر وہ کیسے یہ کہ سکتا ہے میرے دوست کو کتنا دکھ ہوا ہوگا نا اور میں یہ برداشت نہیں کرسکتی دادا” اسکی آنکھیں نم ہوگئیں تھیں اور اسکی بات پر دادا کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں
“بہت محبت کرتی ہو نا اس سے میری جان” دادا ستائشی لہجے میں بولے
“محبت نہیں عشق کرتی ہوں کیونکہ وہ میری ہر راہ سہل کر دیتا ہے” حیا کا لہجہ محبت میں ڈوبا ہوا تھا
“چلو اندر چلتے ہیں تائی سے مل لو اپنی” دادا اسکو اندر لے آئے
_________________________________________
عثمان لاونچ میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر کام کر ہا تھا کچھ سوچیں اسکو مسکرانے پر مجبور کر ہی تھیں
“مانی بھائی بڑے خوش ہیں آپ” اریشہ شرارتی انداز میں بولی عثمان کے مسکراتے لب سمٹے
“کیا مطلب ہے تمہارا؟” وہ اسکو خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا
“اب مطلب بھی میں سمجھاؤں ڈیئر برو” اریشہ چھیڑنے سے باز نہیں آئی
“ہاں تو مجھے نہیں پتہ تم کس بارے میں بات کر رہی ہو” عثمان کندھے اچکاتے ہوئے واپس اپنے کام میں مصروف ہوگیا
“حیا آپی کو کال کروں؟” حیا کے نام پر عثمان کے کی پیڈ پر چلتے ہاتھ رک گئے
“کس خوشی میں؟” عثمان اسکو بنا دیکھے بولے ورنہ اسکی آنکھوں کا بھی ریکارڈ لگالیتی جہاں خوشیاں رقص کر رہی تھیں
“مجھے نا انکی یاد آرہی ہے” اریشہ اسکے پاس آکر اسکے کان میں بولی
“اریشہ پٹو گی مجھ سے مجھے کام کرنے دو” عثمان مسکراہٹ روکتے ہوئے اسکو مصنوعی غصہ میں بولا
“ہنسی آرہی ہے ہنس جائیں میں کچھ نہیں کہوں گی” اریشہ کو بڑا مزہ آرہا تھا
“اریشہ” عثمان اٹھتے ہوئے بولا اور یہ لگائی اریشہ نے دوڑ اب کچھ منظر اسطرح تھا آگے اریشہ پیچھے عثمان ایک دم اریشہ کا سر ٹکرایا بابا سے
“یہ کیا ہو رہا ہے؟” بابا حیرت سے ان دونوں دیکھتے ہوئے کو بولے جو کہ ہنس رہے تھے
“بابا مانی بھائی”
“بابا یہ مجھے تنگ کر رہی ہے سمجھالیں اسکو” اس سے پہلے اریشہ کچھ کہتی عثمان کہ کر فورا اندر چلا گیا
“مجھے لگتا ہے بھائی مشرقی لڑکیوں کی طرح شرماتے ہیں” اریشہ ہنستے ہوئے بولی بابا نے اسکے سر پر چپت لگائی
“شرم کرو بڑا ہے تم سے” بابا اسکو ساتھ لگاتے ہوئے چلنے لگے
“سمجھا کریں نا بابا انکو تنگ کرنے میں کچھ خاص سا مزہ آتا ہے” وہ ہنستے ہوئے بولی اسکی بات پر بابا بھی ہنستے ہوئے اندر کی جانب بڑھنے لگے
_________________________________________
حیا تائی کے کمرے میں داخل ہوئی جو پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں بہلے سے بہت کمزور ہوگئیں تھیں ساتھ ہی سمرہ انکو دوائی دے رہی تھی
“السلام علیکم” حیا کی آواز پر سمرہ نے چونک کر اسکو دیکھا تائی نے بھی اسکی آواز پر آنکھیں کھولیں حیا نقاب اتار چکی تھی البتہ عبایا ابھی بھی پہنا ہوا تھا
“حیا” سمرہ خوشگوار حیرت سے بولی
“کیسی ہو” حیا مسکرائی سمرہ نے بے تابی سے اسکو گلے لگا لیا
“کہاں چلی گئی تھیں حیا؟” وہ رندھے لہجے میں بولی
“بہت تھک گئی تھی سمرہ کچھ سکون لینے گئی تھی اور سچ پوچھو میرا جانا میرے لئے اچھا ثابت ہوا” وہ مسرور سے انداز میں بولی
“کیا مطلب؟” سمرہ کو کچھ سمجھ نہ آیا
“دیکھو نہ ہدایت کی راہ مل گئی مجھے” حیا نے اپنے عبایہ کی طرف اشارہ کیا
“اوہ اچھا” سمرہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی
“حیا” تائی کی نحیف آواز پر دونوں چونکیں
“کیسی ہیں تائی؟” حیا انکے قریب آتے ہوئے بولی
“عذاب میں ہوں” تائی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے
“کیسی باتیں کر رہی ہیں تائی؟” حیا انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
“مجھے معاف کردو بیٹا میں نے بہت زیادتی کی تمہارے ساتھ اگر تم نے معاف نہ کیا تو اللہ بھی معاف نہیں کریگا حیا پھر ۔پھر میں اس آگ میں جلوں گی جو مجھے روز دکھائی جاتی ہے مجھے معاف کردو میری بچی” وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ بولیں
“تائی میری کیا اوقات کی آپکو معاف کروں معاف کرنے والی ذات تو اللہ کی ہے اور جہاں تک رہی میری بات میرا دل بالکل صاف ہے کیونکہ رب کا گھر ایسا ہی ہوتا ہے” تائی کو آج حیا کا لہجہ بہت میٹھا اور دلکش لگ رہا تھا
“تم۔بہت پیاری بچی ہو حیا مجھے تیری قدر نہ ہوئی بیٹا شائستہ بہت خوش نصیب ہے جسکی تم بیٹی ہو” تائی اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولیں
حیا فقط مسکرادی کدورت کا منہ بنا کا بنا رہ گیا جبکہ معافی آج پھر جیت گئی نفرت دم دبا کر بھاگی تو محبت کا سر فخر سے بلند ہوا
آنکھوں سے کدورت اور نفرت کی پٹی اتری تو موسم دلشاد ہوگیا دو نفرت والے قلب محبت کے سمندر میں ڈوبنے لگے کیونکہ جیت ہمیشہ محبت کی ہی ہوتی ہے
_________________________________________
“دادا مجھے ہادیہ کے گھر چھوڑدیں اسکی بار بار کالس آرہی ہیں حسین اور تائی سے ملنے کل امی کے ساتھ جاؤں گی بہت تھک گئی ہوں دادا” حیا کی تھکاوٹ کا اندازہ اسکی سرخ آنکھوں سے بھی کیا جاسکتا تھا
“ہاں ٹھیک ہے بیٹا” دادا اٹھتے ہوئے بولے
وہ تائی سمرہ سے مل۔کر ہادیہ کے گھر پر آگئی جہاں وہ اسکا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی
“تھینک یو دادا” وہ دادا کو تشکر بھرے لہجے میں بولی جوابا دادا نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا
“چلو حیا میں چلتا ہوا پھر کل آجاوں گا تمہیں لینے” دادا اسکو ساتھ لگاتے ہوئے بولے
“نہیں دادا آپ مت آئیگا میں خود چھوڑ دوں گی” ہادیہ بولی
“میرے گھر پر یا قبرستان؟؟” حیا اسکی کمزور حالات دیکھتے ہوئے بولی
“حیاااا میں بہت ماروں گی تمہیں” ہادیہ نے اسکی بات سمجھتے ہوئے اسکے کندھوں پر ہاتھ مارا
“چلو میں چلتا ہوں” دادا مل۔کر چلے گئے جبکہ ہادیہ حیا کو ہگ کیا اور اسکا ہاتھ پکڑ اپنے کمرے میں لے آئی
_________________________________________
“شایان اتنا مسکرا کیوں رہے ہو؟” وہ ٹیوی دیکھنے کے بجائے مسکرا رہا تھا اماں کی آنکھوں سے یہ بات چھپ نہ سکی
“کچھ نہیں ایسے ہی” شایان کے مسکراتے لب سمٹے
“میرا بچہ کتنے دنوں بعد اپنے ہونٹوں پر مسکان لایا ہے” اماں اسکا ماتھا چومتے ہوئے بولیں
شایان نے انکا ہاتھ پکڑ کر انکو اپنے پاس بٹھایا
“اماں مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے” شایان انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
“ہاں میرا بچہ بول اتنے دن بعد تو بول رہا ہے” اماں صدقے وار جارہی تھیں
“اماں میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں” یہ جملہ کہ کر اس نے ماں کے تاثرات دیکھنے چاہے لیکن وہاں سکون تھا تو اس نے بات جاری رکھی
“میں نے اسکو بتایا نہیں میں اپنی محبت پاکیزہ رکھنا چاہتا تھا نکاح کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی نوبت نہ آئی اور وہ بنا بتائی اپنی فیملی کے ساتھ باہر چلی گئی تھی یہ بات مجھے اسکی دوست نے بتائی اسی وجہ سے میں بہت ٹوٹ گیا تھا اماں پھر کل اسکی دوست کی کال آئی اس نے کہا کہ شہیرہ نے اسکو کال کر کے بتایا وہ لندن چلی گئی تھی اور اب وہ واپس آرہی ہے اماں بس آپ رشتہ لیکر چلی جائیگا اماں” وہ انکا ہاتھ پکڑے پکڑے ہی ساری دل کی روداد سنانے لگا
“بیٹا یہ بات تو نے مجھے پہلے کیوں نہ بتائی میں ماں ہوں تیری تیرے دکھ میں شریک ہوتی تجھے دکھی دیکھ کر میں بھی تو دکھی رہتی تھی تو مجھے بتاتا کو سہی اب بس تو مجھے اسکا پتہ بتا میں کل ہی جاؤں گی” اماں نے تابی سے بولیں
“ارے ارے آپ ناراض نہیں ہوئیں؟؟؟ میں نے تو سنا تھا ماں بیٹے کی محبت کا سن کر ناراض ہوجاتی ہیں” شایان حیرت سے بولا
“نہیں بیٹا میں ان عورتوں میں سے نہیں جو بیٹے کی خوشی سے زیادہ اپنی خواہشات کو ترجیح دیں اور تیری محبت میں خوش ہوں بیٹا تو نے اور لڑکوں کی طرح اظہار کر کے عشق نہیں لڑایا بلکہ صحیح وقت کا انتظار کیا اور تو جانتا ہے نا میرے االلہ نے فرمایا ہے نیک عورتوں کیلئے نیک مرد ہیں تو جب تو ایسا ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی اللہ تجھے خوش رکھے” وہ اسکا ماتھا چومتے ہوئے بولیں
“اماں کل نہیں جائیگا پرسوں جائیگا کل تو وہ لوگ آئیں گے” شایان نے بولا تو اماں بھی مسرور سے انداز میں اٹھتی ہوئیں بولیں
“چلو اٹھو کھانا کھالو” وہ اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے اٹھتے ہوئے بولیں
ہادیہ اور حیا رات دو بجے تک باتیں کر ہے تھے
“اب میں سو رہی ہوں” حیا اپنی جمائی روکتے ہوئے بولی
“کوئی ضرورت نہیں سونے کی مجھے باتیں کرنی ہے” ہادیہ بھرم سے بولی
“لڑکی میں لمبی فلائیٹ سے آئی ہوں” حیا تھکاوٹ سے بولی
“اتنی راتیں مجھے جگایا ہے نا اب خود بھی جاگو” ہادیہ اسپر کشن مارتے ہوئے بولی
“تم۔خود جاگی میں نے تو نہیں کہا تھا کہ جاگو” حیا مسکراہٹ روکتے ہوئے بولی اسکی بات پر ہادیہ نے ایک خفگی بھری نظروں سے دیکھا اور سونے نہ دیا پوری رات جاگ کر۔حیا جانے سے لیکر آنے تک سب کچھ بتا چکی تھی
“اب میں نماز پڑھ لوں” حیا اٹھتے ہوئے بولی
“کونسی نماز؟” ہادیہ حیرت سے بولی
“تہجد کی” ایک نور اسکے چہرے پر آیا
“تم یہ والی نمازیں بھی پڑھتی ہو؟” ہادیہ حیرت سے بولی
“یہ والی سے مطلب؟” حیا نا سمجھی میں پوچھ بیٹھی
“مطلب کہ یہ سب تو بڑی بڑے لوگ پڑھتے ہیں” ہادیہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بولی
“بڑے بڑے لوگ ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہی بڑے بنتے ہیں اور چلو تم بھی پڑھو پھر ایک بات بتاؤں گی” حیا اپنے ساتھ اسکو بھی اٹھاتے ہوئے بولی اور کچھ ہی دیر میں دونوں دوستیں رب کے حضور سجدہ ریز تھیں چودھویں رات کا چاند ان دونوں کی ابدی دوستی کی دعا مانگ کر مسکرا رہا تھا فضا میں ایک سکون کی ہوا چلی تو انکے دل کو بھی چھو گئی ایک سکون اور اطمینان دونوں کے قلب پر اترنے لگا سکینت سی طاری ہونے لگی اور رب انکی خواہشات۔۔۔ آرزو سننے لگا
_________________________________________
“یا اللہ میرا تیرا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔۔۔ اے میرے مالک تو میرا پیارا رب۔۔ تو میرا دوست ۔۔۔تو میرا سب کچھ ہے یا اللہ میں تجھے اب کھونا نہیں چاہتا۔۔۔ میں نے جو مانگا تو نے اس سے بڑھ کر عطا کیا۔۔۔ اے میرے پیارے اللہ جی آپ بہت اچھے ہیں میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں میں آپ سے عشق کرتا ہوں اللہ جی آگے بھی مجھے اسی طرح اپنا دوست بنائے رکھنا مجھے خود سے کبھی دور نہ کرنا میں تیرے بغیر ادھورا ہوں میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتا” عثمان تشکر کے آنسوؤں بہائے تاریک رات میں رب سے سرگوشی میں مصروف تھا رب سے اظہار محبت اسکو سکون اور ایک نیا احساس دے رہا تھا
_________________________________________
“ہادیہ جانتی ہو جب میں یہاں سے گئی تھی تو بہت ٹوٹ کر گئی تھی اتنا ٹوٹ چکی تھی کہ میرے دل کے ریزہ ہوئے ذرات سمیٹنا بھی مشکل تھا میں اپنی زندگی سے بہت تھک گئی تھی مین بات کرتے کرتے چپ ہوجاتی میں ہنستے ہنستے رو جاتی ہر وقت میری آنکھین نم رہتیں مجھے سکون کی تلاش تھی مجھے کہیں سے سکون نہیں مل رہا تھا یقین جانو میرا دل چاہتا تھا سب کچھ چھوڑ کر ایک ویرانے میں چلی جاوں جہاں کھل کر رووں پھر لندن میں میری ملاقات عائشہ سے ہوئی وہ عالمہ بن رہی تھی ہادیہ اسکے چہرے پر ایک عجیب سا نور تھا اسکی باتیں بہت میٹھی اور دل۔کو چھو جانے والی ہوتی تھیں اس نے مجھے سکون کا راستہ دکھایا اس نے مجھے تہجد پڑھنے کا درس دیا اس نے مجھے دعا مانگنے کا کہا اور یقین جانو ہادیہ جس رات میں نے پہلی دفعہ تہجد پڑھی اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اس وقت مجھے لگا آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں رب کے خزانیں مجھ پر برس رہے ہیں ایک عجیب سی کیفیت تھی شروع میں میں صرف روتی رہی کچھ بولا نہیں کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی وہ تو دل کی بات سن لیتا ہے وہ تو سب جانتا تھا نا بس میرا منتظر تھا میں گئی اس نے مجھے تھام لیا مجھے جوڑا مجھے ایک نئی حیا بنایا جو پہلے سے زیادہ مظبوط ہے اس نے میرے دل کے ذرات کو سمیٹا میرے لیے اپنا در کھول کر مجھے تھام لیا اور میں جو برسوں سے سکون کی تلاش میں تھی مجھے وہ وہاں ملا اب میرا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں میں رب سے مخاطب نہ ہوں مجھے سکون ہی نہیں ملتا میرا دل چاہتا ہے ہر وقت اس سے بات کرتی رہوں میں بہت بہت بہت محبت کرتی ہوں اس سے ہادیہ اب تو دل چاہتا ہے اسکے پاس چلی جاؤں۔۔۔” اس سے آگے حیا کچھ کہتی ہادیہ نے اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا دونوں دوستوں کی آنکھیں نم تھیں
“میں چاہتی ہوں تم بھی رب سے رجوع کرو ہادیہ تم بھی وہ بنو جو میں بننے کی کوشش کر رہی ہوں میں اپنی دوستی جنت تک ساتھ رکھنا چاہتی ہوں” حیا اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
“میں ضرور کوشش کروں گی حیا” ہادیہ اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولی جسکا چہرہ چمک رہا تھا
” میں اپنی دوستی کا حق ادا کرنا چاہتی ہوں اتنے سال جو ہم نے دوستی رکھی وہ کسی کام کی نہیں تھی جانتی ہو اللہ کے نزدیک سب سے بہترین بندہ یا بندی وہ ہے جو اللہ کیلئے محبت کرے اور اللہ کیلئے نفرت کرے اور میں تم سے اللہ کیلئے محبت کرتی ہوں اسلیئے چاہتی ہوں میری دوست پر سکون زندگی جیئے وہی محسوس کرے جو میں محسوس کرتی ہوں” حیا دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھامتے ہوئے بولی
“تھینک یو حیا تمہاری باتیں میرے دل پر اثر کر رہی ہیں اور میں نے زندگی میں پہلی بار تہجد پڑھی مجھے بھی ایک سکون سا اطمینان سا محسوس ہوا مجھے لگا میرے دل پر پڑے پتھر ہٹ رہے ہوں ایک بوجھ سا کم ہورہا تھا” ہادیہ نم آنکھوں سے بول رہی تھی اتنے میں فجر کی اذان ہونے لگی
“اچھا اب فجر پڑھو اور خدا کیلئے مجھے سونے دو لڑکی” حیا با قاعدہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی
“اور اگر نہ سونے دوں تو؟” ہادیہ شرارت سے بولی
“تو تمہیں کمرے سے باہر نکال کر خود کمرہ لاک کر کے سوجاؤں گی” حیا ہنستے ہوئے بولی
“ارے واہ میرا کمرہ ہے اور حق آپ جتا رہی ہیں” ہادیہ انگلی سے طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
“اچھا اب تیرا میرا ہوگیا ہے” حیا مصنوعی تعجب سے بولی
” نہیں میرا تو سب کچھ تمہارا ہے حیا” وہ اسکو ہگ کرتے ہوئے بولی
“یہ تمہارے اندر شوہروں والی روح کہاں سے آگئی ہے؟” حیا اسکو الگ کرتے ہوئے بولی جو چھوڑ کہ ہی نہیں دے رہی تھی
“تم تو۔۔۔ایک تو پیار کرو اوپر سے۔۔۔” ہادیہ کنفیوژ ہوتے ہوئے بولی اسکو واقعی حیا پر بہت پیار آرہا تھا حیا اسکی بے ربط باتوں پر ہنس دی جسپر ہادیہ نے ایک مکا اسکے کاندھے پر جڑا
_________________________________________
وہ سب کراچی آچکے تھے سعد پاکستان کو دیکھ کر بہت ایکسائیٹڈ تھا عائشہ بھی کچھ کم خوش نہ تھی
“سعد بھائی ہم یہاں سی ویو چلیں گے بڑا مزہ آتا ہے ادھر” ایمان چہکتے ہوئے بولی
وہ سب گھر کے سامنے کھڑے تھے بابا کے اندر ماں باپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی شائستہ انکی کیفیت کو اچھے سے سمجھ رہی تھیں شہیرہ اور زنیرہ دل ہی دل میں خوش تھیں
“امی دروازہ کھٹکھٹائیں نا” کافی دیر تک جب وہ کھڑے رہے تو ایمان بولی شائستہ نے آگے بڑھ کر بیل بجائی چوکیدار نے دروازہ کھولا اور ان سب لوگوں کو دیکھ کر حیران ہوا
زنیرہ سوٹ کیس لیکر اندر آئی اور اسکے پیچھے باقی سب۔۔۔ لاونچ میں قدم رکھا بہت سی یادیں بابا کے ارد گرد گھومنے لگیں انکی آنکھیں نم ہونے لگیں
“سلمان” گھر کے کسی کونے سے دادی نکل کر آئیں اور ان سب کو دیکھ کر شاک میں چلی گئیں
“امی” بابا رندھی آواز میں بولے زندگی کے ہر مقام پر ماں کی یاد ستائی تھی کتنے عرصے سے یہ میٹھا لفظ منہ سے نہ نکالا تھا
“سلمان میرا بچہ” دادی تیز رفتار سے چلتی ہوئی آئیں اور انکو چھو کر انکی مجودگی کا یقین کرنا چاہا
“میں واپس آگیا ہوں ماں کیا میں اس لائق ہوں کہ معافی مانگ سکوں؟” بابا نم آنکھوں سے ماں کے ہاتھ پکڑتے ہوئے بولے
“بہت ستایا ہے تو نے بیٹا” دادی تھکے تھکے لہجے میں بولیں بابا نے اسکو اپنے سینے سے لگایا اور دونوں ماں بیٹے رونے لگے پیچھے کھڑے دادا انکو دکھی نظروں سے دیکھ رہے تھے وقت سے پہلے ہی وہ بوڑھے لگ رہے تھے دادا نے آگے بڑھ کر دادی کو الگ کیا کہیں زیادہ رونے سے انکا بلڈ پریشر ہائی نہ ہوجائے ایک نظر بیٹے کو دیکھا بابا نے دادا کو دیکھا نظروں سے نظیریں ملیں گلے شکووں کا تبادلہ ہوا بازو پھیلا کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔باقی سب بھی مسکرادئے
شائستہ بیگم تائی سے ملنے گئیں انکی حالت دیکھ کر شائستہ واقعی بہت دکھی ہوئیں تائی نے ان سب کو دیکھ کر سب سے معافی مانگی
“شہیرہ آپی یہ سب ایک دوسرے سے معافیاں کیوں مانگ رہے ہیں” سعد کو کچھ سمجھ نہ آیا وہ سب کو ایب نارمل سمجھ رہا تھا اسکے انداز پر۔شہیرہ کو زور سے ہنسی آئی
“بتاتی ہوں تم کمرے میں چلو” شہیرہ اسکو اپنے ساتھ کمرے میں لے آئی اور اول سے آخر تک۔سب کچھ بتاتی چلی گئی
“لیکن بابا ایمان کے بعد آپ سب کو چھوڑ کر گئے تو پھر میں ایمان سے بڑا کیسے ہوگیا؟؟” سعد حیرانی سے بولا
“ایسے کہ بابا نے پہلے سے شادی کی ہوئی تھی یہ بات صرف ماما کو پتہ تھی انہوں نے ہمیں بھی کل ہمارے اصرار پر بتائی” شہیرہ مسکراتے ہوئے بولی
“مطلب میں آپ لوگوں کا سچی مچی والا بھائی ہوں؟ ” سعد کی خوشی کی انتہا نہیں تھی
“ہاں جی” شہیرہ اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولی سعد نے اسکو بڑے حق سے اپنے ساتھ لگایا
“میری آپی” وہ بڑے جذب سے بولا اور اسکے اس انداز پر شہیرہ مسکرادی
_________________________________________
حیا ہادیہ کے ساتھ گھر آچکی تھی وہاں سب کو دیکھ کر خوش ہوئی خصوصا عائشہ اور سعد کو دیکھ کر وہ آگے بڑھ کر عائشہ کے گلے لگی
“حیا تمہارا پاکستان بہت پیارا ہے” عائشہ اسکے کان میں بولی
“ہاں واقعی” حیا بے ساختہ بولی
“مجھ سے بھی مل لیں” وہ دونوں الگ ہوئیں تو سعد جلے کٹے انداز میں بولا
“تم کون ہو؟” حیا چھیڑتے ہوئے بولی
“آآآپی” سعد چیخا
“ہاہاہا میرا بھائی” وہ اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے اسکے ساتھ لگ گئی سعد نے بھی بازو پھیلا کر اسکو ساتھ لگا لیا
“ایک بات بتاؤں؟” سعد اسکے کان میں بولا
“کیا؟” حیا بولی
“میں آپکا سچی مچی والا بھائی ہوں” سعد کی بات پر وہ ہنس دی
“جانتی ہوں” حیا بولی
“آپکو کیسے پتہ؟؟؟” سعد اپنا سرپرائیز خراب ہوتا دیکھ کر برے منہ سے بولا
“امی اسی رات بتا چکی تھیں جب بابا ملے تھے” وہ بولی اسکی زبان سے بابا کا نام سن کر بابا کی آنکھوں میں امیدوں کی روشنی چمکی
حیا باری باری سب سے مل۔کر آخر میں بابا کے سامنے کھڑی ہوئی
“معاف کردو” بابا ڈبڈباتی آنکھوں سے بولے
“حیا کردو تمہارا دل رب کا گھر ہے اور والد کی خوشی میں رب کی خوشی ہے” اسکا دل بولا
“پر انہوں نے بھی چھوڑا تھا کتنی مشکلات سہی ہیں ہم نے” اسکا دماغ جھگڑنے لگا
“ہیں تو تمہارے والد نا اور اب شرمندہ بھی ہیں کخا تم رب کی محبت کیلئے معاف نہیں کروگی؟” اسکا دل بولا
“میں نے معاف کیا” حیا بول کر انکے سینے سے لگ گئی بابا نے اپنی لاڈلی بیٹی کو ٹائیٹ سے ہگ کرلیا
برسوں بعد ایک بیٹی باپ کے سینے سے لگی تھی دل میں چبھا ایک کانٹا تھا وہ بھی نکل گیا درمیان میں حائل دیوار گر گئی باپ کے پیار کی ٹھنڈک براہ راست حیا کے دل میں اتر رہی تھی اس نے مسرور سے انداز میں آنکھیں موند لیں ہادیہ حیا کی خوشی دیکھ کر مسکرادی
_________________________________________
“عائشہ یہ ہادیہ ہے” حیا عائشہ سے اسکا انٹرو کروا رہی تھی
“السلام علیکم کیسی ہو ہادیہ؟” عائشہ شائستہ لہجے میں بولی
“وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں” جوابا ہادیہ بھی مسکرائی
“حیا میں امی کو دوائی کھلا کر آتی ہوں” عائشہ اٹھتے ہوئے بولی حیا نے اثبات میں سر ہلادیا
“سنو” ہادیہ اسکے قریب آئی
“ہوں” حیا متوجہ ہوتے ہوئے بولی
“تم اس سے مجھ سے زیادہ محبت تو نہیں کرتی نا تمہاری جان میں ہوں نا؟” ہادیہ کے لہجے میں خوف تھا حیا کو کھو دینے کا
“ہر گز نہیں وہ میری ٹیچر کی حیثیت رکھتی ہے ہادیہ میں عائشہ اسکے کہنے پر ہی بولتی ہوں ورنہ تو مس کہتی تھی اور تم تو میری جان ہو” حیا اسکا ماتھا چومتے ہوئے بولی تو ہادیہ خوش ہوگئی
“آئی لو یو حیا مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا مین تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی” ہادیہ اس سے لپٹتے ہوئے بولی
“لو یو ٹو” حیا بھی مسکرادی
سچ ہے انسان کی قدر و قیمت اسکے دور یا ہمیشہ کیلئے چلے جانے کے بعد ہی ہوتی ہے پھر بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جنکو قدر ہونے کے بعد کھویا ہوا انسان واپس مل جاتا ہے ورنہ ساری عمر کا پچھتاوا رہ جاتا ہے
_________________________________________
اگلے دن زنیرہ کو حسین کی خبر پہنچیں وہ غم سے نڈھال ہونے کو تھی صبح سے ہزار بار وہ حسین کو دیکھنے گئی تھی رات کو وہ لان میں بیٹھی تھی کہ حسن آتا دکھائی دیا
“حسن بھائی” وہ بے تابی سے بولی
“ہاں بولو” حسن چونکتے ہوئے بولا
“وہ وہ۔۔۔” زنیرہ کنفیوژ تھی
“بولو گڑیا” حسن پیار سے مخاطب ہوا
“آپ مجھے حسین کے پاس لے جائیں پلیز” اسکے لہجے میں التجا تھی
“خیریت؟” حسن حیرت سے بولا
“مم میں اکیلے میں ملنا چاہتی ہوں کسی کو بتائے بغیر” زنیرہ نظریں جھکاتے ہوئے بولی
“اوکے چلو” حسن گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے بولا
وہ اسکے ساتھ حسین کے کمرے تک آئی
“آپ چلے جائیں حسن بھائی میں آجاوں گی” وہ دروازہ کی طرف رکتے ہوئے بولی
“تمہیں جو بولنا ہے بول لو میں باہر کھڑا ہوں” حسن اسکی مشکل آسان کرتا ہوا بولا وہ اسکی شکل دیکھنے لگی کہیں اسکو برا تو نہیں لگا
” آئی کین انڈراسٹینڈ” وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر مڑ گیا زنیرہ اسکی پشت دیکھتی رہی اسکے جانے کے بعد اندر آگئی جہاں حسین چت لیٹا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...