حیا دعا مانگ کر باہر آئی تا فجر کی اذانیں ہونے لگیں کتنی پر سکون تھی یہ آواز یہ آذان۔۔۔آذان کی کلمات سیدھا حیا کے دل پر اترنے لگے وہ مسکرادی۔۔۔ایک پیاری مسکراہٹ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ۔۔۔۔حیا فجر کی نماز پڑھ کر باہر لان میں آئی آج سب اسکو بہت اچھا۔۔ بہت پر سکون لگ رہا تھا
حیا لان میں چہل قدمی کر رہی تھی کہ اسکے کانوں میں تلاوت کی خوبصورت آواز آئی وہ اس آواز کی طرف بڑھی جو اندر ہی کی طرف سے آرہی تھی دیکھا تو عائشہ صوفے پر بیٹھی تلاوت کر رہی تھی ایک مسرور کن آواز میں۔۔ اسکی آواز میں ایک سہر تھا حیا خود بخود کھنچتی چلی گئی اور اسکے پاس جاکر بیٹھ گئی عائشہ تلاوت کر کے فارغ ہوئی تو اسکو دیکھا جو عائشہ کو بہت محویت سے دیکھ رہی تھی
“کیا ہوا؟” عائشہ مسکرا کر بولی
“کیا تم مجھے بھی ایسے پڑھنا سکھاوگی؟” حیا نے اپنے دل کی بات کہی
“ہاں ضرور” عائشہ نے صدق دل سے کہا حیا بے اختیار اسکے گلے لگ گئی
“تم بہت اچھی ہو عائشہ” حیا نے دل سے تعریف کی
“اچھی اور میں؟؟؟” عائشہ ہنستے ہوئے بولی
“ہاں تم نے مجھے صحیح راستہ دکھایا یقین جانو دعا مانگ کر ایسا لگا دل پر پڑی غبار چھٹ رہی ہے میں اپنے رب سے باتیں کر رہی ہوں وہ مجھے جواب دے رہا ہے میں سکون محسوس کر رہی ہوں” حیا ایک نقطے پر نظریں جمائے کہنے لگی
“میں نے تمہیں سیدھا راستہ نہیں دکھایا حیا میں تو صرف ذریعہ بنی ہوں تمہیں تو اللہ نے خود چنا ہے” عائشہ مسکرا کر اسکی لٹ پیچھے کرتی ہوئی کہنے لگی
“شکریہ عائشہ” حیا نے ممنونیت سے کہا
“چلو چائے بنا کر باہر چلتے ہیں چہل قدمی کرتے ہوئی تم مجھے اپنی اسٹوری بتانا” عائشہ قرآن پاک کو غلاف میں ڈالتے ہوئے بولی
“ٹھیک ہے” حیا نے بھی مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا
________________________________________
“آنٹی پلیز مجھے ناشتہ بنوادیں” کیتھرین دوپہر ایک بجے سو کر اٹھی اور لاونچ میں بیٹھی تائی سے مخاطب ہوئی
“یہ ناشتہ کا ٹائم ہے؟” تائی نے ابرو اچکا کر پوچھا
“جسکا بھی ہے آپ کو اس سے مطلب آپ مجھے بنوا کر دیں میں اپنے روم میں ہوں” کیتھرین نحوت سے کہ کر اپنے روم میں چلی گئی جبکہ تائی غصے سے کھولتے ہوئی وہیں بیٹھ گئیں
“ہونہہ سمجھتی کیا ہے خود کو میں کوئی نوکر ہوں اسکی۔۔ بھوکی رہے” تائی سر جھٹک کر میگزین پڑھنے میں مصروف ہوگئیں
_________________________________________
“سنو عائشہ” وہ دونوں اسکول کیلئے نکل رہی تھیں جب حیا بولی
“ہاں بولو” عائشہ اسکی طرف متوجہ ہوئی
“میں بھی تمہاری طرح یہ سب پہننا چاہتی ہوں تم بہت پیاری لگتی ہو دکھتی تو صرف تمہاری آنکھیں ہیں پر اسمیں بھی بہت حسین لگتی ہو” حیا دل سے تعریف کرتے ہوئے بولی
“سچ بتاؤ حیا تم واقعی یہ سب پہننا چاہتی ہو؟” عائشہ نے اپنے نقاب اور دستانوں کی طرف اشارہ کیا
“ہاں میں واقعی پہننا چاہتی ہوں” حیا مسکرا کر بولی
“لیکن حیا یہ سب صرف پہننے کا نام نہیں اسکے پہننے کا مقصد بھی پورا کرنا ہوتا ہے” عائشہ اسکا ہاتھ پکڑ کر لان میں لے آئی اور اسکو بینچ ہر بٹھایا
“کیا مقصد؟” حیا کنفیوژ ہوئی
“حیا یہ سب پہننے کا مقصد پردہ ہے” عائشہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولی
“جانتی ہو عورت کو عورت کیوں کہتے ہیں کیونکہ عورت کا مطلب ہوتا ہے چھپی ہوئی چیز ہم بہت نایاب ہیں حیا ہمیں اپنی قدر نہیں ہے جتنی عزت و احترام اسلام نے عورت کو دی ہے اتنی کسی بھی مذہب میں نہیں دیی گئی تم سمجھ رہی ہو نا میری بات؟” عائشہ اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
“لیکن عائشہ میرا دل تو صاف ہے” حیا بولی
“یہی تو مسئلہ ہے نا حیا اگر صرف دل کے صاف ہوجانے سے پردہ ہوجاتا تو اللہ ازواج مطہرات کو کیوں پردہ کا حکم دیتے کیا نعوذ باللہ ہمارے دل ان سے زیادہ صاف ہیں؟؟؟” عائشہ کی بات پر حیا نے حیرانی سے اسکو دیکھا کتنے اچھے اور پیارے انداز میں اس نے اتنی بڑی بات سمجھادی تھی
“بالکل عائشہ میں سمجھ گئی کہ پردہ میرے اللہ کا حکم ہے اب تو مجھے ضرور کرنا ہے مجھے بس بتاؤ میں نے کس کس سے کرنا ہے میں اب اپنے دوست کا کوئی حکم نہیں ٹال سکتی ورنہ وہ ناراض ہوجائیگا” حیا محبت سے چور لہجے میں بولی جوابا عائشہ اسکو مزید تفصیل سمجھانے لگی عائشہ کی بات کا ایک ایک لفظ اسکے دل میں اتر رہا تھا اسکا لہجہ حیا کے دل کو چھو رہا تھا۔۔۔۔
________________________________________
کب تک جیتے رہیں گے تجھے پانے کی حسرت میں
دے کوئی ایسا زخم کہ میری سانس ٹوٹ جائے
اور تیری جان چھوٹ جائے
حسین اپنے کمرے میں آنکھیں موندے لیٹا تھا آج زنیرہ کی یاد دل کو ترپارہی تھی
“حسین” تائی کمرے میں داخل ہوئیں تو حسین نے آنکھیں کھول کہ ایک نظر انکو دیکھا اور منہ پھیر لیا
“کیا ہوا بیٹا اتنا سنجیدہ کیوں ہوگئے ہو کوئی بات ہے کیا اب تو بات بھی نہیں کرتے کسی سے۔۔ ماں ہوں تمہاری مجھ سے تمہاری حالت نہیں دیکھی جاتی” تائی اسکے سرہانے بیٹھتے ہوئے بولیں
“کچھ نہیں آپ جائیں” حسین نے رخی بولا
“بیٹا کچھ تو بولو کیوں ایسے ہوگئے ہو؟” تائی رندھی آواز میں بولیں جو بھی تھا آخر کو ایک ماں تھیں نا اور عورت جیسی بھی ہو ماں کے روپ میں سب ایک سا دل رکھتی ہےں ان سے بھی بیٹے کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی
“آپکو نہیں پتہ؟” حسین نے ابرو اچکا کر پوچھا تائی نے بے اختیار نظریں چرائیں
“بتائیں امی آپکو نہیں پتہ؟” حسین نے اپنی آواز سخت کرلی
“آپ جانتی تھیں نا تبھی تو اسکو مجھ سے دور کیا سب جانتی تھیں آپ مجھے باہر بھیجنے کا مشورہ بھی آپکا تھا بابا کا نہیں میں سب سن چکا تھا جب آپ بابا کو بول رہی تھیں مجھے باہر بھیج دیں کچھ دن اس سے دور رہوں گا تو بھول جاؤں گا لیکن امی آپ محبت نہیں جانتیں ایک سچی محبت جتنا دور رہو اتنا تڑپاتی ہے ۔۔مارتی ہے ۔۔۔جلادیتی ہے ۔۔۔آپ نے جان بوجھ کر یہ سب کیا اب دیکھ لیں میری حالت خوش ہونا چاہیئے آپکو تو دور چلی گئی نا وہ بس اب کیوں آئی ہیں آپکے مقصد تو پورا ہوگیا نا” حسین رندھی آواز میں بولا
“بیٹا وہ لوگ اچھے نہیں تھے اسکے سر پر باپ کا سایہ نہیں ماں ہر وقت مصروف رہتی تھی اسکی کہاں سے تربیت ہوتی اور میں ایسی لڑکی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتی جسکی کوئی تربیت نہ ہو” تائی کے الفاظ دل کو چیر رہے تھے
“چہ چہ چہ امی اب تو بس کریں ان معصوم لوگوں پر الزام لگانا پلیز کچھ تو خدا کا خوف کریں مجھے تو اس گھر میں رہنے سے ڈر لگنے لگا ہے کہیں خدا کا غضب ہم پہ نازل نہ ہوجائے بس آپ چلی جائیں امی مجھے اکیلا چھوڑ دیں اور ہاں ایک بات یاد رکھیں آپ اتنا کریں کہ جب خود پر آئے تو برداشت کرسکیں کیونکہ انکے ساتھ تو اللہ ہے آپکے ساتھ کون ہوگا کیونکہ تکلیف تو اللہ کی طرف سے آئیگی نا” حسین نے الفاظ پر تائی کا دل ایک لمحہ کیلئے لرزا تھا وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئیں جبکہ حسین کے رکے ہوئے دو موتی اسکے گال کو بھگو گئے
آج شدت سے دل چاہ رہا ہے
بند آنکھیں کھولوں تو سامنے تم ہو
آہ زنیرہ۔۔۔کتنا تڑپاؤگی۔۔۔
_________________________________________
“سعد بیٹا” سعد لاونچ سے گزر رہا تھا جب بابا نے پکارا
“جی بابا” سعد سعادتمندی سے بولا
“کہاں غائب رہتے ہو آج کل بیٹا” بابا بولے تو لہجے میں اداسی تھی سعد مسکرا کر انکے پاس آگیا
“ایک فیملی ہے بابا بہت اچھی ہے وہ میری بہنیں انکے پاس رہتا ہوں” سعد گم لہجے میں بولا
“کچھ باپ کو بھی وقت دے دیا کرو بیٹا” بابا اداسی سے بولے
“دیتا تو ہوں” سعد بولا
“تم ایسا کرو اس فیملی کو ہمارے گھر بلالو اس گھر میں کچھ تو شور ہوگا سعد میرا دم گھٹتا ہے خاموشی سے” بابا خوش ہوتے ہوئے بولے
“واقعی۔۔۔۔میں بات کروں گا حیا آپی سے” سعد خوشی سے سرشار لہجے میں بولا
“حیا” بابا بڑبڑائے
“ہاں انکی بڑی بہن ہے حیا” سعد موبائیل نکالتا ہوا بولا
“اور اور باقی بہنوں کا کیا نام ہے؟” بابا بے تابی سے بولے
“بابا بعد میں بتاؤں گا میں کال کرلوں” سعد اٹھتا ہوا بولا جبکہ بابا اسکو آوازیں دیتے رہ گئے
“اللہ کرے میری بیٹی ہو” بابا بڑبڑائے
_________________________________________
“حیا آپی” سعد اسکے گھر پر آیا تو حیا بھی اسکول سے واپس آئی اسکو نقاب میں دیکھ کر سعد حیران رہ گیا
“بولو” حیا بنا نقاب اتارے بولی
“آپ لوگوں نے میرے گھر پر آنا ہے” سعد خوشی سے بولا
“کیوں؟” حیا حیران ہوئی
“میرے بابا کو آپ لوگوں سے ملنا ہے ان سے میں نے آپ لوگوں کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو گھر بلاؤں اچھا یہ تو اتاریں” سعد آخر میں اسکے نقاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
“نہیں” حیا نے قطعیت سے کہا
“کیوں میں تو آپکا بھائی ہوں” سعد حیرانی سے بولا
“پر سگے نہیں ہو” حیا کی بات پر سعد شاک رہ گیا بہت دکھ سے اسکی طرف دیکھا
“ٹھیک ہے میرے گھر پر آجائیگا بھلے آخری بار کیونکہ میرے بابا نے خواہش کی ہے میں رد نہیں کر سکتا میں کل آٹھ بجے لینے آجاوں گا” سعد دکھ سے کہتا ہوا باہر چلا گیا
“سمجھنے کی کوشش کرو سعد میں مخلوق کیلئے خالق کو ناراض نہیں کرسکتی” حیا اسکی پیٹھ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اور اندر کی طرف بڑھ گئی
_________________________________________
“کیا ہوا کیتھرین رو کیوں رہی ہو؟” شہریار گھر آیا تو اسکو روتا ہوا دیکھ کر پوچھا
“جانتے ہو شہری میں صبح سے بھوکی ہوں میں نے آنٹی کو کہا کہ مجھے ناشتہ بنوادیں پر انہوں نے وہ بھی نہیں بنوایا” کیتھرین اسکے سینے سے لگتے ہوئے بولی شہریار نے غصے مٹھیاں بھینچ لیں
“ماما ماما” شہریار لاونچ میں چیخ کر انکو آوازیں دینے لگا
“کیا ہوا بیٹا” تائی ہانپتی کانپتی آئیں
“میری بیوی صبح سے بھوکی ہے آپ نے ناشتہ تک نہیں دیا” شہریار سخت لہجے میں بولا
“بیٹا کچن ہے ادھر یہ خود بھی بنا سکتی ہے” تائی ہمت کر کے بولیں
” جسٹ شٹ اپ مام بیوی ہے میری گھر کی نوکرانی نہیں آئندہ جو بولے آپ نے پورا کرنا ہے سمجھیں آپ” شہریار سخت لہجے میں کہتا ہوا کیتھرین کا ہاتھ پکڑ کر چلا گیا تائی اسکے الفاظ اور لہجے پر دکھ سے مر رہی تھیں کمرے کی کھڑکی سے دادا نے ایک استہزائیہ مسکراہٹ اچھالی “مکافات عمل” دادا نے بڑبڑا کر کھڑکی بند کردی
_________________________________________
“اللہ پلیز اور صبر نہیں ہوتا مجھے حیا دے دیں پلیز اللہ مجھے کوئی امید نہیں لیکن آپکی رحمت پر یقین ہے آپ مجھے روتا ہوا نہیں دیکھ سکتے نا” عثمان پارک میں بیٹھا تھا دل میں رب سے مخاطب تھا
صبر کر کر کے تھک چکا تھا آخر کو انسان تھا نا
کیا ہوا حیا ایسے کیوں بیٹھی
ہو؟” حیا لان میں بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی
“نن نہیں کچھ نہیں آؤ تم بھی بیٹھو”حیا اسکو جگہ دیتے ہوئی بولی
“مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے” عائشہ بیٹھتے ہوئے بولی
“مجھے کیا ہونا ہے عائشہ” حیا ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بولی
“ادھر دیکھو میری طرف” عائشہ نے ٹھوڑی سے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا
“یہ تمہاری آنکھوں میں اداسی کیسی؟” عائشہ کے کہنے پر حیا کی آنکھیں نم ہوگئیں
“کچھ لوگ یاد آرہے تھے” حیا اداسی سے بولی
“کون؟” عائشہ پوچھے بنا نہیں رہ سکی
“عائشہ وہ مجھے روز خواب میں نظر آتا ہے فریاد کرتا ہوا روتا ہوا وہ کسی مشکل میں ہے میں نے اسکے ساتھ اچھا نہیں کیا” حیا کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
“کون؟؟؟” عائشہ بے تابی سے بولی
“میں نے تمہیں عثمان کے بارے میں بتایا تھا نا وہ وہ روز آتا میں نے اسکو کچھ نہیں بتایا نہ کوئی میسج کیا اسکی کوئی غلطی نہیں تھی عائشہ” حیا ہاتھوں سے چہرہ چھپاتے ہوئے بولی
“تم نے اسکو کچھ کیوں نہیں بتایا؟” عائشہ اسکے طرف دیکھتے ہوئے بولی
” میں نے اسکی آنکھوں میں اپنے لئے جذبات دیکھے تھے ایک سچی محبت اس نے کبھی مجھ سے کہا نہیں پر ہمیشہ وہ کر کے دکھایا جو ایک سچی محبت کرنے والا کرتا ہے میرے ہر مشکل وقت میں اس نے میری مدد کی اور تو اور جب میں ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوئی تھی عائشہ اسکی آنکھوں اداسی۔۔ ویرانی۔۔ نمی تھی جیسے کوئی قیمتی چیز کھوگئی ہو اگر میں اسکو بتاتی تو وہ ضرور روکتا اور پتہ نہیں کیوں اسکی کوئی بات رد نہیں کی جاتی۔۔” حیا بے بسی سے بولی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں چہرے کو بھگو رہی تھیں ایک قلب سے دوسرے قلب تک محبت کا سفر شروع ہوچکا تھا
“تم کچھ بول کیوں نہیں رہی عائشہ؟” عائشہ کو چپ پاکر حیا بولی
“اس معاملے میں کیا بولوں حیا میں نے آج تک محبت نہیں کی” عائشہ نے بسی سے بولی
“محبت؟؟نن نہیں مجھے محبت نہیں ہوسکتی” حیا نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی
“میں ایک بات بولوں عائشہ” حیا اسکی طرف مڑ گئی
“مم مجھے اپنا موبائل دو میں عثمان کو فون کرتی ہوں بات نہیں کرونگی بس آواز سنوں گی پلیز عائشہ” حیا بہت امید سے بولی
“اوکے میں لیکر آتی ہوں” عائشہ اٹھ گئی جبکہ حیا اپنے دل کی دھڑکنیں سنبھالنے لگی
_________________________________________
رات کے دو بجے مسلسل رنگ ٹون بج رہی تھی عثمان بھاگتا ہوا آیا وہ رب سے دعا میں سرگوشی کر رہا تھا موبائل کے پاس آیا باہر ملک کا نمبر دیکھ کر حیران ہوگیا کال اٹھائی
“ہیلو” عثمان بولا کوئی جواب نہیں آیا
“ہیلو” کوئی جواب نا پاکر عثمان پھر بولا دوسری طرف سے لائن کاٹ دی گئی
“عجیب ہے” وہ کندھے اچکا کر موبائیل واپس رکھ کر دعا مانگنے چلا گیا
_________________________________________
“کیا ہوا؟” عائشہ اسکے پاس ہی بیٹھی تھی
“وہ رو رہا تھا” حیا بولی تو اسکی آواز بالکل دھیمی تھی
“وہم ہوگا تمہارا” عائشہ اسکو تسلی دیتے ہوئے بولی
“نہیں نہیں وہ سچ میں رو رہا تھا اسکی آواز۔۔” حیا جذباتیت سے بولی
“نہیں یار کیا پتہ اسکی طبیعت خراب ہو تم۔فکر نہ کرو” عائشہ اسکو اداس نہیں کرنا چاہتی تھی
“عائشہ میرا دل ایسے ہی پریشان نہیں ہے محبت دل پر اثر کرتی ہے یہ صرف ایک محبت کرنے والا ہی جانتا ہے” حیا بے دھیانی میں اقرار کر بیٹھی عائشہ اسکو دیکھ کر مسکرانے لگی
“کیا ہوا” حیا نے حیرانی سے پوچھا
“تم نے ابھی ابھی کیا بولا ذرا غور تو کرنا” عائشہ مسکراتے ہوئے بولی
“نن نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا” حیا کو جب بات سمجھ آئی تو خفت سے بولی
“بس کرو حیا محبت کو جھٹلایا نہیں کرتے تم دعا کرو اللہ اسکو تمہارا محرم بنادے” عائشہ صدق دل سے بولی
“میں شادی نہیں کرنا چاہتی” حیا کے لہجے میں اداسی تھی ویرانی تھی قطعیت تھی
“کیوں؟” عائشہ نے حیرانی سے پوچھا
“میں ایک اور حیا نہیں چاہتی” حیا سختی سے بولی
“حیا ہر مرد ایک سا نہیں ہوتا ضروری نہیں جو تمہارے بابا نے تمہارے ساتھ کیا وہ تمہارا شوہر بھی کرے دنیا میں ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں کیا پتہ جس سے تمہاری شادی ہو اسکو بیٹیاں بہت پسند ہوں اور تم تو اللہ کی دوست یو وہ تمہیں کبھی ایسے شخص کے سپرد نہیں کریگا جو تمہاری قدر نہ کرے وہ تمہیں اپنے بہترین بندوں میں سے کوئی بندہ دیگا” عائشہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولی
“عائشہ میرے پاس دادا کی کالس آرہی ہیں وہ مجھے ملنے کیلئے بلا رہے ہیں مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟” حیا نے اپنی پریشانی بولی
“چلی جاؤ” عائشہ بولی
“پر میں پاکستان نہیں جانا چاہتی” حیا کنفیوژن کا شکار تھی
“چلی جاؤ کسی جگہ دادا کو بلالو وہیں مل لینا ایک ہفتہ کیلئے چلی جاو” عائشہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی حیا نے اثبات میں سر ہلادیا
_________________________________________
تائی آج کچن میں گر گئیں تھیں بہت خطرناک طریقے سے انکی ریڑھ کی ہڈی ڈیمج ہوگئی تھی اب وہ ویل چیئر پر تھیں صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اب بھوک سے انکی بری حالت تھی
“بھابھی پلیز کچھ کھالیں”شائستہ کی آواز انکے کانوں میں گونجنے لگی جب وہ ہلکے بخار میں تپ رہی ہوتیں تو کس طرح شائستہ انکا خیال رکھتی تھیں اور کس بے دردی سے وہ دھتکار دیتیں تھیں
“دفع ہوجاو تمہارے غلیظ ہاتھوں سے میں نہیں کھاؤں گی” اس وقت تکبر سر چڑھ کے بول رہا تھا اسوقت شائستہ کی آنکھوں میں نمی نہیں دکھتی تھی اب وہ موجود نہیں تھی تو اب نمی دکھ رہی تھی تائی پچھتاوے کی آگ میں جل رہی تھیں آج خود پر پڑی تو کوئی اور یاد آرہا تھا
واہ رے خداوندا تیری عظمت کے کیا کہنے نیک اور صابر بندوں کا بدلہ دنیا میں ہی لے لیتا ہے
_________________________________________
“شایان بیٹا” وہ اپنے کمرے میں جارہا تھا جب امی نے بلایا
“جی امی” وہ سعادتمندی سے بولا
“میں نے تمہارے لیے لڑکیاں ڈھونڈی شروع کردی ہیں اب تو ماشاءاللہ تمہاری پڑھائی بھی ہوگئی نا اور نوکری بھی مل گئی” امی مسرور سے انداز میں بولیں تو شایان لب بھینچ کر رہ گیا
“کیا ہوا بیٹا خاموش کیوں ہو؟” امی اسکو خاموش دیکھ کر بولیں
“امی میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا بس کچھ دن اور اسکا انتظار کرنے دیں” وہ انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
“کسکا؟” امی حیران ہوئیں
“شادی کے وقت کا نا امی”وہ ہنستے ہوئے بولا
“اچھا میں فریش ہوکر آتا ہوں آپ کھانا لگوادیں” وہ اٹھتا ہوا بولا
“پتہ نہیں یہ لڑکا کب میرے ارمان پورے کریگا” امی بڑبڑائیں اور کھانا لگانے چل دیں
سعد انکو لینے پہنچ چکا تھا۔۔۔آج سعد سنجیدہ سا تھا حیا کو اسکو دیکھ کر دکھ بھی ہورہا تھا لیکن وہ کیا کر سکتی تھی سب لوگ تیار تھے بس حیا کو عبایا پہننا تھا تو وہ کمرے میں عبایا پہن رہی تھی
“سعد بھائی” اتنے میں ایمان اسکے سر پر پہنچ گئی
“ہوں” سعد اسکو دیکھ کر بولا
“آپ مجھ سے اتنے دنوں سے بات کیوں نہیں کر رہے؟؟” ایمان روہانسے انداز میں بولی
“کر تو رہا ہوں” سعد مسکرا بھی نہ سکا
“بالکل بھی نہیں کر رہے کیا اپنی اس چھوٹی سی معصوم سے پیاری سے گڑیا سے ناراض ہیں؟؟؟” ایمان آنکھیں پٹپٹا کر بولی سعد کو اسکے انداز پر ہنسی آگئی
“نہیں گڑیا میں آپ سے کیوں ناراض ہونگا” وہ اسکے گال کھینچ کر بولا
“اوکے ہم آپ کے گھر پہنچ کر کھیلیں گے” ایمان خوش ہوتے ہوئے بولی
“ہاں ضرور” سعد مسکرا کر بولا
حیا بھی عبایا پہن کر آچکی تھی سعد نے اسکو دیکھ کر نظریں پھیر لیں وہ سب گاڑی میں بیٹھ کر رواں دواں ہوگئے البتہ حیا عائشہ سے ملنے کیلئے اندر گئی تو عائشہ نے اسکے کان میں کہا
“دوست کے ساتھ بیوفائی نہ کرنا” حیا اسکی بات سن کر مسکرادی
“کبھی نہیں” وہ بھی سر نفی میں ہلا گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی سعد کے گھر کی طرف رواں دواں تھی
_________________________________________
آج تائی پر خود پر رہی تھی تو پچھتاوے کی آگ میں جھلس رہی تھیں
“کاش میں حیا پر الزام نہ لگاتی” دماغ نے سوچا
“کاش میں اسکو سب کے سامنے ذلیل نہ کرتی”
“کہیں مجھے ایمان کی بد دعا تو نہیں لگ گئی” وہ بڑبڑائیں
“اللہ میاں ضرور عذاب دیں گے ایمان کے الفاظ انکے کان میں گونجے تائی ویل چیئر پر بیٹھی اضطراب کی حالت میں ہاتھ کو چہرے پر پھیرنے لگیں
“نن نہیں نہیں” وہ چلائیں انکو ہر طرف آگ اور دھواں دکھ رہا تھا
“ضرور عذاب دیں گے” کانوں میں واپس سے آواز ٹکرائی
“دیں گے ضرور دینگے” وہ آواز کسی آسیب کی طرح انکا پیچھا کر رہی تھی
“نہییییں” وہ کانوں مین انگلیاں ڈال کر زور سے چلائیں گھر کے سب لوگ انکے کمرے میں جمع ہوگئے
“امی امی” سمرہ انکے قریب گئی وہ بیہوش ہوچکی تھیں
“میں گاڑی نکالتا ہوں” حسن کہتا ہوا پورچ کی طرف دوڑا دادا افسوس سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے
_________________________________________
گھر پہنچ کر سعد نے گاڑی روکی اور خود نکل کر ان سب کیلئے دروازہ کھولا
“سعد بھائی یہ آپکا گھر ہے؟” ایمان اسکی انگلی پکڑتے ہوئے بولی
“ہاں جی” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“واؤ چلیں نا” ایمان کو بہت جلدی تھی اسکے گھر جانے کی
“ہاں چلو” وہ اسکی انگلی پکڑ کر اندر کی جانب بڑھنے لگا باقی سب بھی اسکے پیچھے چل رہے تھے
اندر قدم رکھتے ہی ایمان اسکے بڑے لاونچ میں بھاگنے لگی
“سعد بھائی آپکی امی تو ہیں ہی نہیں پھر ہم کھانا کیا کھائیں گے” ایمان کو بھوک ستانے لگی تھی
“میں کھلاؤں گا نا” سعد اسکے پھولے پھولے گال کھینچتا ہوا بولا
“چلو بابا سے ملواؤں تمہیں آپ لوگ ادھر بیٹھیں میں بابا کو لیکر آتا ہوں” وہ ان سب کو بٹھا کر ایمان کو لئے اندر بڑھ گیا
“بابا دیکھیں میری چھوٹی بہن” سعد اسکو پیار کر کے کہنے لگا
“ماشاءاللہ یہ تو بالکل گڑیا ہے” بابا کو بے اختیار اس پر پیار آیا
“ہاں جی میں گڑیا ہی ہوں” ایمان معصومیت سے بولی بابا نے بے اختیار اسکے ماتھے پر بوسہ دیا ایمان کیلئے یہ باپ کا پہلا بوسہ تھا اگر وہ جان جاتی
“چلیں بابا سب انتظار کر ہے ہیں” وہ انکو لئے باہر آگیا بابا کے سامنے آتے ہی سب نفوس شاک میں رہ گئے
“بابا”
“بابا” زنیرہ اور شہیرہ کے منہ سے بے اختیار نکلا شائستہ بیگم دم بخود کھڑی تھیں حیا انکو حیرت سے دیکھ رہی تھی
“زنیرہ۔۔ شہیرہ ۔۔۔شائستہ” وہ بڑبرائے آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر نکلے ان کے اندر سب کا سامنے کرنے کی ہمت نہیں تھی
“حیا” وہ اسکی طرف دیکھ کر بولے حیا نے ایک نظر انکو دیکھا پھر ایمان کو جو انکے ساتھ لگ کھڑی تھی پھر بابا ۔۔۔پھر ایمان۔۔۔ کو دیکھا بابا سمجھ گئے وہ کیا کہنا چاہتی ہے
“اسی کو چھوڑ کر گئے تھے نا” حیا کی جتاتی نظریں انکی شرمندگی میں مزید اضافہ کر رہی تھیں
سعد ٹک ٹک ان سب کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک سب اسٹیچو کیوں بن گئے
“یہ آپ سب کو کیا ہوا ہے کہیں خدا نخواستہ میرے بابا ایلین نکل آئے یا صوفے ہر کانٹے نکل آئے جو آپ سب ایک دم کھڑے ہوگئے اور بیٹھنے کا نام بھی نہیں لے رہے” سعد حیرانی سے بولا
“حیا آپی کیا ہوا” ایمان کو اپنی بہن کی آنکھوں سے آنسو گرتے دکھ گئے تھے وہ اسکے پاس بھاگ کر گئی حیا نے اسکو اپنے سینے سے لگایا
“ارے آپ لوگ بیٹھیں نا” سعد پھر سے بولا
ہاں ہاں کیوں نہیں” بابا خود کو سنبھالتے ہوئے بولے
“چلیں امی ہم ادھر نہیں بیٹھیں گے” حیا کی سختی سے کہی گئے بات پر سب کے سب حیران رہ گئے
“کیوں آپی” سعد دکھ سے بولا
“بس” وہ ایمان کا ہاتھ پکڑے باہر آگئی سعد اسکے پیچھے بھاگا
“پلیز آپی ایک بہن کا رشتہ تو چھین چکی ہیں آپ۔۔ اب میرے گھر سے بھی جارہی ہیں” سعد دکھ سے بولا آنکھوں میں نمی تھی
“سعد” وہ اسکو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی پر اب ان آنکھوں کا کیا کرتی جو برسنے کو بے تاب تھیں اس نے ایک نظر سعد کو دیکھا
“کیا یہ میرا بھائی ہے” دل زور سے دھڑکا
“نہیں کیسے ہوسکتا ہے بابا تو ایمان کے بعد چھوڑ کر گئے تھے اور یہ تو ایمان سے بڑا ہے” دماغ نے تردید کی
“مجھے بتائیں آپی کیا ہوا ہے؟” سعد سب کچھ بھلا کر اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا حیا نے نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا
“پلیز مت روئیں مجھے تکلیف ہوتی ہے آپ جانا چاہتی ہیں جائیں پر ان آنکھوں کو تکلیف نہ دیں کیونکہ کسی بھی بھائی سے بہن کے آنسو برداشت نہیں ہوتے” سعد کا لہجہ افسردہ تھا ایمان ٹک ٹک کبھی اسکو تو کبھی اسکو دیکھ رہی تھی سعد نے ہاتھ بڑھا کر اسکی آنکھوں سے آنسو پونچھے حیا کے اندر ایک نیا احساس جاگا وہ سب کچھ بھول کر اسکے سینے سے لگ گئی سعد حیران سے بھی حیران کھڑا تھا اسکو ایسی امید بالکل بھی نہیں تھی
“آپی” وہ حیران سے بولا لیکن حیا پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی سعد نے اپنے مضبوط بازوؤں میں اسکو لے لیا پیچھے سے آتے بابا اسکے آنسو دیکھ کر ایک بار پھر پشیمانی میں ڈوب گئے
“میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گی سعد پر تم ابھی مجھے جانے دو پلیز میرے اندر ضبط کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو رہا ہے” وہ بمشکل بولی ایک دم دونوں کو ایمان کے رونے کی آواز آئی دونوں چونک کر اسکی طرف مڑے جو لان میں رکھی بینچ پر بیٹھ پر رو رہی تھی
“ایمان کیا ہوا میری جان” حیا تڑپ کر بولی
“آپ کیوں رو رہی تھیں آپی” ایمان اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکی آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی
“میرے سر میں درد ہے گڑیا آپ کو ادھر رہنا ہے یا میرے ساتھ جانا ہے؟” حیا اسکو پیار کر کے بولی
“میں آپکو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی میں آپکے ساتھ جاؤں گی آپکا سر دباؤں گی” وہ پیار سے بولی حیا نے اسکو سینے میں بھینچ لیا اور کھڑے ہوکر ایک نظر سعد کو دیکھا جو لب بھینچ دیکھ رہا تھا
“پھر بتاؤں گی سعد” وہ اسکو بول کر باہر کی طرف چل دی
“آپی” وہ اسکے پیچھے بھاگا حیا نے مڑ کر دیکھا
“آپکو میں ڈراپ کروں گا گاڑی میں بیٹھیں” حیا نے نفی میں سر ہلانا چاہا پر سعد کو منع کر کے ایک اور بار دکھ نہیں دینا چاہ رہی تھی
“ٹھیک ہے” وہ ایمان کو لئے گاڑی میں بیٹھ گئی
_________________________________________
“پیشنٹ کی حالت کریٹیکل ہے انکو خون کی الٹیاں ہورہی ہیں آپ پلیز رپورٹس کا انتظار کریں ” ڈاکٹر نے حسن کے کندھے پر تھپکی دی سمرہ وہیں بینچ پر بیٹھ گئی
“سمرہ” حسن اسکے گرد اپنے بازوؤں پھیلا کر اسکے پاس بیٹھ گیا سمرہ اسکے سینے سے لگ کر رو دی
“صبر کرو ٹھیک ہوجائیں گی” وہ اسکو تسلی دیتا ہوا بولا
“ہمیں حیا ایمان کی آہ لگ گئی حسن قدرت اب ہمیں تڑپائی گی حسن” وہ رو رو کر بولی حسن نے لب بھینچ لئے
_________________________________________
بابا نے اندر آکر ان تینوں کی شکلوں کو دیکھا تینوں نے انکی طرف دیکھا
“مم مجھے معاف کردو” بابا تینوں کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے شہیرہ تڑپ کر رہ گئی جو بھی تھے اسکے باپ تھے
“کیا کر رہے ہیں بابا” شہیرہ نے آگے بڑھ کر انکے ہاتھ کھولے اور انکے سینے سے لگ گئی باپ کے سینے کی ٹھنڈک شہیرہ کے دل پر اترنے لگی اس نے اپنی آنکھیں موند لیں بابا نے دوسرا بازو پھیلایا زنیرہ جھجکی لیکن حالات سے مار کھائی حسین کی جدائی کا غم لئے باپ کے سینے میں ٹھنڈک حاصل کرنے چل دی
“مجھے معاف کردو بیٹا” بابا انکو سینے سے لگائے رندھی آواز میں بولے
“بس اب اور نہیں رونا” شہیرہ انکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی
“ہم ناراض تھوڑی ہیں بابا بس زندگی کے ہر موقع پر باپ کے سایہ کو بہت مس کیا جب بھی کوئی مصیبت آتی ہم حالات کی گردش میں آتے تو اس آگ سے بچنے کیلئے بابا کا سینے میں پناہ تلاشتے تھے پر نہیں ملتی تھی بس مس کرتے تھے بابا ناراض تھوڑی ہیں” زنیرہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے بولی اسکے لہجے میں موجود شکوہ کو بابا جان گئے اور سینے سے لگالیا
“حیا مجھے کبھی معاف نہیں کریگی” بابا ان دونوں کو سینے سے لگائے لگائے ہی بولے
“بابا بیٹیاں کبھی باپ سے ناراض نہیں رہ سکتیں نہ باپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ سکتی ہیں بس اب آپ نہیں روئینگے” شہیرہ برہمی سے بولے بابا نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا پھر زنیرہ کے ماتھے پر بوسہ دیا دونوں باپ کے پیار کو ترسی ہوئی یہ لڑکیاں اس بوسہ پر نم آنکھوں سے مسکرادیں
“حیا آپی بابا کی بیٹی ہیں؟” پیچھے کھڑا ساری باتیں سنتا سعد اب حیرانی میں ڈوبتا چلا جارہا تھا
“اسکا مطلب میں انکا بھائی ہوا تبھی تو میرے سینے سے لگیں وہ” ایک خوش کن سوچ نے جھمکا کیا
“لیکن بیٹی کیسے ہوئیں،” سعد نے حیرانی سے سوچا
“شائستہ” بابا ان دونوں کو پیار کر کے ان کے سامنے کھڑے ہوگئے
“معاف کردو” وہ ہاتھ جوڑ کر بولے
“شائستہ نے ایک شکوہ کن نظروں سے انکو دیکھا جنکی آنکھوں میں التجا تھی
“مم میری کیا اوقات کہ آپکی معاف کروں معافی اللہ سے مانگیں جسکی رحمتوں کو آپ نے جھٹلایا تھا” وہ نم آنکھوں سے بولیں
“تمہیں بھی تو اذیت دی” وہ پچھتاوے سے بولے
“میں نے معاف کیا” شائستہ نظریں جھکا کر بولیں
بابا نے انکو اپنے ساتھ لگا لیا شادی کے چھبیس سالوں کے بعد یہ شوہر کا پہلا پیار تھا ایک بیوی کیلئے جو انہوں نے دل سے کیا تھا شائستہ مسرور سی مسکرادیں
_________________________________________
گھر آکر حیا نے فورا پاکستان کیلئے ٹکٹ کروائے وہ دادا کے پاس پہنچنا چاہتی تھی
“حیا کیا ہوا تم۔گئی نہیں” عائشہ اسکے پورشن کی لائٹ جلتے دیکھ کر اسکے کمرے میں آگئ
“ہم واپس آگئے” ایمان افسردہ سی بولی
“آپ رک جاتیں نا” حیا اسکے سر پر چپت لگا کر بولی جسکو واپس آنے کا غم لگا ہوا تھا
“میں آپ کو چھوڑ کر کیسے رکتی” ایمان منہ بسور کر بولی
“حیا آنکھیں کیوں لال ہو رہی ہیں” عائشہ ایمان کی باتوں پر۔مسکرا کر حیا کی طرف متوجہ ہوئی
“کیونکہ انکے سر میں درد ہے” ایمان جلے کٹے انداز میں بولی کیونکہ گھر آکر سر کا درد اڑن چھو ہوگیا تھا ایمان اس پر جلی کٹی بیٹھی تھی
“تم چپ نہیں رہ سکتی” حیا ہنستے ہوئے بولی
“اب چپ بھی ہوجاون ایک تو آپ وہاں سے لیکر آئیں اوپر سے اب یہاں بھی مجھ سے بات نہیں کر رہیں اور سعد بھائی نے آئیسکریم کھلانی تھی مجھے” ایمان نے اپنے غم کی اصل وجہ بتا ہی دی
“میں کھلا دوں گی” حیا اسکو پیار کر کے بولی
“سچ؟” ایمان چہک کر بولی
“مچ” حیا اسکے گالوں پر پیار کر کے بولی تو ایمان واپس سے موبائل میں مصروف ہوگئی جبکہ حیا عائشہ کی طرف دکھی نظروں سے دیکھنے لگی
“کیا ہوا؟” عائشہ بولی
“وقت حساب آ پہنچا میرا دوست دعائیں قبول کر رہا ہے” حیا کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
“کچھ تو بتاؤ” جوابا حیا نے سب کہ سنایا ایمان کے کانوں میں ہیڈ فونس تھے اسلئے وہ سن نہ پائی
“اوہ” عائشہ نے ساری بات سن کر ہونٹ سکوڑے
“میں کل پاکستان جارہی ہوں” حیا نے دھماکہ کیا
“کیا اتنی جلدی؟” عائشہ حیرانی سے بولی
“میں نے ویزا اور فلائیٹ اسی وقت کر والی تھی جب دادا نے کہا تھا اب جانے کا وقت ہے اور بہت ہی اچھا وقت ہے” حیا أداس مسکراہٹ کے ساتھ بولی
“ٹھیک اللہ تمہیں حفظ و امان میں رکھے” عائشہ مسکرا کر بولی
“آمین” حیا بھی مسکرادی
_________________________________________
“آپی آپ کیوں چھوڑ کر جارہی ہیں” ایمان اسکا بیگ پیک دیکھ کر بولی
“گڑیا آجاوں گی میں بس کام سے جارہی ہوں” حیا کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسکو کیسے سمجھائے
“اگر آپ نہیں آئیں تو،” ایمان بولی جسپر حیا مسکرادی
“جلدی آؤں گی اور آپکی لئے بہت سارے گفٹس بھی لاؤں گی” حیا اسکو پیار کر کے بولی
“میں آپکے بغیر کیسے رہوں گی؟” ایمان اداسی سے بولی
“سعد بھائی آئیں گے نا روز اور آپکو روز کال بھی کروں گی بس تین دن کی بات ہے مان” وہ اسکو تسلی دیتے ہوئے بولی ایمان نے اثبات میں سر ہلایا حیا بھی سب سے مل کر عائشہ کے ساتھ ائیر پورٹ آگئی
“میرے گھر والوں کا خیال رکھنا عائشہ” وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی
“بولنے کی ضرورت نہیں” عائشہ اسکے گلے لگ کر بولی
“بہت مس کروں گی تمہیں” عائشہ بولی
“میں بھی” حیا نم آنکھوں سے بولی نجانے یہ مس کرنا زندگی بھر لکھا تھا یا کچھ دیر کیلئے
فلائیٹ کے اناؤنس ہونے پر حیا عائشہ سے مل کر اندر کی جانب بڑھ گئی