“ہیلو” حیا کے جانے کے بعد عثمان نے ہادیہ کو کال کی
“جی مانی بھائی” ہادیہ کی چہکتی آواز آئی
“کہاں ہو تم؟”
“میں ابھی تو گھر پر ہوں”
“میرے آفس آؤ فورا” عثمان نے کہ کر کال کاٹ دی جبکہ دوسری جانب ہادیہ فون حیرانی سے تکتی رہ گئی
“کیا ہوا مانی بھائی اتنی ایمرجینسی میں کیوں بلایا؟” آدھے گھنٹے بعد ہادیہ اسکے روم میں موجود تھی
“بیٹھو” عثمان نے سنجیدہ لہجے میں کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہادیہ بیٹھ گئی
“حیا کو کیا ہوا ہے؟” عثمان اسکی طرف سنجیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا
“کیا ہوا ہے؟” ہادیہ نے پریشانی سے کہا
“تمہیں نہیں پتہ؟” عثمان نے حیرانی سے کہا تو ہادیہ۔کو اسوقت اپنا آپ بہت برا لگا
“نہیں میری بات نہیں ہو پائی اس سے آپ بتائیں کیا ہوا ہے باہر بھی نہیں بیٹھی وہ تو” ہادیہ پریشانی سے بولی
“ریسٹ روم میں ہے وہ جا کر دیکھ لو” عثمان کے کہنے پر وہ فورا اٹھی اور ریسٹ روم کی جانب چل دی
_________________________________________
“شائستہ” تائی کی آواز پر شائستہ بیگم بھاگم بھاگ انکے پاس آئیں
“جج جی بھابھی” وہ ہانپتے ہوئے بولیں
“شام۔کو میری بہن آرہی ہیں کھانے کا اچھا والا انتظام کرو اور کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے میرے کپڑے بھی استری کرو” وہ حکم جاری کرتے ہوئے اوپر چل دیں
“چچی” شائستہ کچن کی طرف جانے ہی والی تھیں جب حسن کی آواز پر رک گئیں
“آپکو تو بخار تھا نا” وہ تشویش سے پوچھنے لگا
“نہیں بیٹا اب ٹھیک ہوں میں” وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولیں حسن نے آگے بڑھ کر انکی پیشانی پر ہاتھ رکھا جو گرم انگارہ ہو رہی تھی اس نے سختی سے ہونٹ بھینچ لئے
“آپ آج کوئی کام نہیں کریں گی کپڑے آیا (ماسی) استری کریں گی اور کھانا میں لے آؤں گا باہر سے” وہ سختی سے کہتا ہوا انکو روم۔میں لے آیا
“بیٹا یہ ظلم نہ کرو میں کرلوں گی” وہ سہمتے لہجے میں بولیں
“نہیں آپ۔کچھ نہیں کریں گی میں نے کہ دیا نا اور پریشان مت ہوں میں سب سنبھال لوں گا آپ بس آرام۔کریں ” وہ انکو۔لٹاتے ہوئے زنیرہ کے کمرے میں گیا اور اسکو انکا خیال رکھنے کا کہ کر باہر چلا گیا
_________________________________________
“حیا” ہادیہ ریسٹ روم میں آئی تو حیا آنکھیں موندی لیٹی تھی ہادیہ کی آواز پر آنکھیں کھولیں جو سرخ ہورہی تھیں
“کیا ہوا میری جان؟” وہ فورا اسکی طرف بڑھتے ہوئے بولی
“کچھ نہیں” وہ رکھائی سے بولی
“ناراض ہو کیا؟” ہادیہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی جسپر حیا نے فورا اپنا ہاتھ چھڑوایا
“میرا کیا حق آپ سے ناراض ہونے کا” اسکی آواز بہت دھیمی تھی نقاہت کی وجہ سے بولا نہیں جارہا تھا
“سارے حق تمہارے پاس ہی ہیں سوئٹی” وہ پیار سے اسکا ہاتھ واپس سے پکڑتے ہوئے بولی حیا میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ اپنا ہاتھ چھڑوا سکتی
“تصحیح کرلیں سارے حق میرے پاس تھے۔۔ ہیں نہیں”
“حیا کیوں ناراض ہو مجھے بتاؤ پلیز میں بہت پریشان ہورہی ہوں” وہ واقعی میں پریشان تھی
“حیرت ہے آپکو میری ناراضگی سے فرق پڑتا ہے اب؟” وہ حیرت سے بولی تو ہادیہ نے لب بھینچ لئے
“آئی ایم سوری حیا میں کل پارٹی میں گئی تھی اسلئے ناراض ہو نا؟” وہ فکرمندی سے بولی تو حیا کا دل چاہا کہ اسکی بے وفائی پر زور سے روئے
“نہیں یقینا آپکو بہت فورس کیا ہوگا آپکی دوست نے اور آپ دل۔دکھانا نہیں چاہتی ہونگی منع کر کے تو آپ چلی گئیں میں آپکی مجبوری سمجھ سکتی ہوں” اسکا اجنبی لہجہ دیکھ کر ہادیہ کا دل مزید دکھ گیا اس نے حیا کے سینے پر سر رکھا اور رو گئی
“آئی ایم سوری حیا پلیز” وہ روتے ہوئے اس سے معافی مانگنے لگی تو حیا کے دل کو کچھ ہوا
“کہا نا میں ناراض نہیں ہوں” وہ اٹل لہجے میں بولی
“تم نہ بھی بولو تو تمہارے لہجے سے میں جان جاتی ہوں” وہ اداسی سے بولی
“یہی تو مسئلہ ہے ہادیہ اب تم میرے لہجے سے بھی نہیں جانتی کچھ” حیا کا لہجہ بھیگ گیا وہ اس لڑکی کے سامنے اپنے آنسو روک نہیں پاتی تھی ہادیہ نے اسکو اٹھا کر بٹھایا اور اسکے برابر میں بیٹھ کر اپنا کندھا اسکے آگے کردیا جسپر پہلے حیا نے ہادیہ کا چہرہ دیکھا جہاں خالص اسکیلئے محبت تھی پھر اسکے کندھے پر سر رکھ کر روتے روتے سب کچھ کہدیا
_________________________________________
“سمرہ” حسن اسکے کمرے میں ناک کرکے آیا تو سمرہ اسکا سنجیدہ لہجہ دیکھ کر حیران رہ گئ
“جی” وہ اسکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی
“میں کھانا لینے جارہا ہوں چچی کو بہت تیز بخار ہے اگر ماما یا چھوٹی تائی انکے کمرے میں جائیں تو کچھ بھی بہانہ کر کے جانے مت دینا تم سب لڑکیاں لاونچ میں بیٹھ جاؤ تاکہ تمہیں اکیلا بیٹھا دیکھ کر انکو کسی بات کا شک نہ ہو” حسن کے کہنے پر وہ اسکو دیکھنے لگی کتنا خیال تھا اسکو مظلوم چچی کا
“جی ٹھیک ہے آپ پریشان نہ ہوں میں سب کرلوں گی” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“میں جانتا ہوں میری بیوی سب کرلے گی” وہ واپس اپنی ٹون میں آتے ہوئے بولا
“آپ جائیں یہاں سے” وہ اسکو کمرے سے دھکیلتے ہوئے بولی
“شرم کرو لڑکی شوہر کو باہر نکالتی ہو” وہ ہنستے ہوئے اسکے بال بگاڑ کر چلا گیا جبکہ وہ پیچھے ہنستی لاونچ میں آگئی
_________________________________________
“حیا ابھی فی الحال تم میرے گھر چلو” ہادیہ اسکی ساری بات سن کر بولی
“نہیں یار آنٹی پریشان ہوجائیں گی” وہ نقاہت سے بولی
“کیسی اجنبیوں والی باتیں کر رہی ہو چلو” وہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی اور حیا صرف سوچ کر رہ گئی کہ اب تو تم اجنبیوں والی ہی ہوگئی ہو نہ رات کو کال کرتی ہو نہ میرے کھانا کھانے پر فورس کرتی ہو
“ہادیہ ایک بات پوچھوں؟” وہ دونوں ہادیہ کی گاڑی میں تھے جب حیا بولی
“بولو سوئیٹی” ہادیہ پیار سے بولی
“میں تمہیں اپنی باتیں بتا بتا کر بور کر دیتی ہوں نا” حیا سامنے کی طرف دیکھ رہی تھی اسکی اس بات پر ہادیہ نے اسکا چہرہ دیکھا جو کہ اسپاٹ تھا کچھ بھی اخذ کرنا مشکل تھا
“نہیں جانی میں نے ایسا کب کہا؟” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“کبھی کبھار بغیر بولے بھی سب سمجھ آنے لگتا ہے” وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی
“کیا کہ رہی ہو حیا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا” ہادیہ کنفیوژ ہوتے ہوئے بولی
“چھوڑو کچھ نہیں پاگل ہوگئی ہوں میں” وہ سر جھٹک کر بولی
“ہاں لگ بھی رہی ہو” وہ ہنستے ہوئے بولی جبکہ حیا اسکا چہرہ دیکھ کر رہ گئی
“مجھے گھر چھوڑ دو ہادیہ” اس نے اسپاٹ لہجے میں بولا
“کیوں؟” ہادیہ کی حیرانی بجا تھی
“گھر پر کچھ کام ہے امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے” اسکو ایک یہی بہانہ سجھا
“تو تمہاری بڑی ٹھیک ہے” وہ اسکو ڈپٹتے ہوئے بولی
“پلیز ہادیہ میں اپنے روم میں آرام کرنا چاہتی ہوں” وہ رونے کی جگہ آرام کا لفظ استعمال کرتے ہوئے بولی
“چلو میں بھی ساتھ چلتی ہوں آنٹی کی طبیعت بھی پوچھ لوں گی” اس نے گاڑی حیا کے گھر کی طرف موڑ دی اور حیا چاہ کر بھی منع نہ کرسکی
_________________________________________
“کیا ہوا عثمان کچھ پریشان ہو؟” بابا کے کہنے پر وہ چونکا
“نہیں تو بابا” وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولا
“کیوں بھول رہے ہو تمہارے باپ ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک دوست بھی ہوں” وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے
“بابا حیا آج کچھ پریشان تھی اسکو بہت تیز بخار بھی تھا پر اس نے وجہ نہیں بتائی” وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا
“کوئی پرسنل میٹر ہوگا تم پریشان مت ہو” وہ اسکو تسلی دیتے ہوئے بولے
“پرسنل میٹر شیئر بھی ہوسکتے ہیں”
“ہاں لیکن کسی اپنے سے بولے گی نا” بابا مسکراتے ہوئے بولے
“میں اپنا نہیں ہوں کیا” وہ انکی طرف دیکھتے ہوئے بولا تو بابا اسکو حیرانی سے دیکھنے لگے عثمان کو اپنے جملے کا احساس ہوا تو فورا چہرہ پھیر لیا
“بخوردار خیریت تو ہے نا؟” وہ اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولے اب عثمان برا پھنسا تھا
” میں ذرا فریش ہولوں ” وہ فورا وہاں سے بھاگ نکلا جبکہ بابا اپنی خواہش کو اسطرح پورا ہوتا دیکھ کر مسکرادئیے
“آں ماما کہاں جارہی ہیں؟” تائی کو شائستہ بیگم کے کمرے میں جاتا دیکھ کر سمرہ فورا اٹھتے ہوئے بولی
“یہ سوٹ دینے جارہی ہوں استری کیلئے” وہ سوٹ دکھاتے ہوئے بولیں
“اوہ اچھا میں ابھی ان لوگوں سے اسی سوٹ کے بارے میں بات کر رہی تھی آپ یہ مجھے دیں میں انکو دکھا کر چچی کو دے دوں گی” وہ مسکراتے ہوئے ان سے سوٹ لیتے ہوئے کہنے لگی
“چلو ٹھیک ہے یاد سے دے دینا شام کو پہننا ہے مجھے” وہ سوٹ دیکر یہ جا وہ جا
“فائقہ تمہارے روم میں استری ہے نا جاکر اسکو پریس کرو پلیز” وہ رازداری سے بولی جبکہ فائقہ فورا بات مانتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی
_________________________________________
حیا اپنے کمرے میں آئی ہادیہ بھی ساتھ تھی لیکن اسکا بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا اسلئے خاموش تھی
“کیا ہوا حیا اتنی خاموش کیوں ہو؟” ہادیہ نے اسکے خاموشی محسوس کرتے ہوئے کہا
“ظاہر ہے طبیعت خراب میں خاموشی ہی اچھی لگتی ہے” وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی جبکہ ہادیہ دل مسوس کر رہ گئی وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ حیا اب بھی اس سے ناراض ہے
“حیا تم نے ابھی تک مجھے معاف نہیں کیا؟” وہ حیا کا ہاتھ پکڑے ہوئے بولی
“کس بات پر؟” حیا انجان بنتے ہوئے بولی
“جس بات پر ناراض تھی” ہادیہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی
“میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی میری طبیعت ٹھیک نہیں آرام کرنا چاہتی ہوں” وہ یہ کہ نہ سکی کے دل میں گھسی ایک پھانس نکل بھی جائے تو سوراخ ضرور باقی رہتا ہے
“اوکے تم آرام کرو” ہادیہ اسپر کمبل اڑاتے ہوئے بولی
حیا کی آنکھ لگ گئی تین گھنٹے ہادیہ مسلسل اسکے کمرے میں رہی پھر ماما کی کال پر شہیرہ کو اسکے پاس بٹھا کر کھانے وغیرہ کا خیال رکھنے کا کہ کر گھر چلی آئی
_________________________________________
“ہیلو” بیل کی آواز پر ایمان نے حیا کا فون اٹھایا
“ارے میری گڑیا کیسی ہے؟” عثمان کی آواز پر ایمان کا دل خوشی سے بھر گیا لیکن وہ ناراض تھی نا
“میں آپ سے ناراض ہوں” اپنی ناراضگی جتانا اس نے اپنا فرض سمجھا
“اچھا وہ کیوں بھئی؟” عثمان نے مصنوعی حیرت سے کہا
“کیونکہ دو دن سے آپ مجھے گھمانے نہیں لے کر گئے نہ مجھ سے ملنے آئے” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی
“ارے بے بی میں بہت بزی تھا نا اور آپکی آپی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی نا انکو چھوڑ کر ہم گھومنے کیسے جاتے” وہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولا
“مانی بھائی آپی اتنی خاموش ہوگئی ہیں مجھ سے بات بھی نہیں کرتیں جب سے تائی نے انکو مارا ہے” وہ اداسی سے بولی جبکہ مار کی بات کر عثمان سن سا رہ گیا
“اچھا آپی کہاں ہیں؟” وہ ہوش میں آتے ہوئے بولا
“آپی ایک منٹ میں بلا کر لاتی ہوں” وہ کال رکھ کر کچن بھاگی جہاں حیا ایمان کیلئے فرائس بنا رہی تھی
“آپی” وہ پیچھے سے بولی
“جی آپی کی جان” حیا آلو کاٹتے ہوئے بولی
“میں نے آپکو منع کردیا تھا نا کہ مجھے نہیں بنا کر دیں پھر آپ کیوں بنا رہی ہیں” ایمان اپنے ننھے ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی تو وہ مسکرادی
“میری مان کوئی فرمائش کرے اور میں پوری نہ کروں ایسا ہوسکتا ہے کیا؟” وہ اسکے گال کھینچتے ہوئے بولی
“اچھا اسکو چھوڑیں مانی بھائی کی کال آئی ہے آپکا ویٹ کر رہے ہیں” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر روم میں لے آئی جبکہ پیچھے کھڑی سمرہ ایمان کیلئے فرائس بنانے لگی
“جی؟” وہ کال پر نام لئے بنا کہنے لگی
“کیسی طبیعت ہے؟” عثمان کا لہجہ آج کچھ بدلا بدلا تھا
“میں ٹھیک ہوں” وہ آہستہ آواز میں بولی
“اپنا خیال نہیں رکھتی ہو نا تم بالکل بھی” عثمان کے لہجے میں اپنائیت تھی
“رکھتی ہوں” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“اچھا بابا اور اریشہ پریشان ہورہے تھے تمہارے لیے آنا چاہ رہے ہیں لے آوں؟” عثمان نے سکی تائی کے ڈر سے اجازت لینا مناسب سمجھا
“آج تو گھر پر مہمان آئیں گے آپ کل لے آئیگا اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں ٹھیک ہوں ” وہ پیش آنے والے تائی کے رویے کے بارے میں سوچتے ہوئے بولی جسپر عثمان فورا مان گیا اور مزید دو منٹ کی بات کر کے کال بند کردی
_________________________________________
“ہیلو ماما” شہریار کی کال پر تائی نہال ہی ہوگئیں
“ارے شہری میری جان کتنے دنوں بعد کال کی” تائی نے اپنے لہجے میں پیار سموتے ہوئے کہا
“بس ماما دکھ سے نکلنے کیلئے کافی دن لگ جاتے ہیں” وہ اپنا لہجہ حد درجہ دکھی بناتے ہوئے بولا
“کیا ہوا میری جان؟” اسکے لہجے اور دکھ کا سن کر تائی کے دل کو کچھ ہوا تھا
“چھوڑیں ماما کیا بتاؤں آپکو آپکی طبیعت کیسی ہے ویسے؟” وہ ایکٹنگ کمال کی کرتا تھا
“تم میری طبیعت کو چھوڑو یہ بتاؤ کون سا دکھ لگ گیا ہے تمہیں پلیز شہری میرا دل بند ہوجائیگا” تائی روہانسے لہجے میں بولیں
“اوہو ماما آپ بھی نا۔۔۔۔اچھا سنیں۔۔۔ حیا صاحبہ نے مجھ سے منگنی توڑ دی” وہ دکھی لہجے میں بولا
“کیا۔۔۔کیا کہ رہے ہو شہری اس دو ٹکے کی لڑکی کی اتنی ہمت؟؟” وہ غصے سے پاگل۔ہو رہی تھیں
“بس ماما کل کال آئی کہنے لگی میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی آپ میرے قابل نہیں فلاں فلاں فلاں میں بہت دکھی ہوا پھر”
کئی دنوں سے بنائی ہوئی کہانی ماں کے گوش گزار دی
“اسکی کیا اوقات کہ میرے بیٹے سے منگنی توڑے میں یاد دلاتی ہوں اسکو اسکی اوقات” وہ فون بند کرنے کی والی تھیں جب شہریار کی آواز پر رک گئیں
“چھوڑیں ماما میں محبت کرتا ہوں اس سے آپ کچھ کہیں گی تو اسکو تکلیف ہوگی میں یہ برداشت نہیں کرسکتا” کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ شہریار سات سمندر پار اپنی حرکت پر خوشی سے ہنس رہا ہے
“ہائے ماں صدقے کیسے نہ بولوں میرا بیٹا اتنا دکھی ہوا ہے اس منحوس کی وجہ سے تیرے لیے ہزاروں لڑکیاں ہیں اس کو تو تو بھول ہی جا اچھا پھر بات کرتی ہوں” وہ فون بند کر کے لاؤنچ میں آئیں جہاں بڑی تائی کی بہن اور انکی فیملی آئی ہوئی تھی
_________________________________________
“حیا حیا” چھوٹی تائی چیخ رہی تھیں جسپر سب انکی طرف متوجہ ہوئے
“کیا ہوا بھابھی” شائستہ پریشان ہوتے ہوئے آگے بڑھیں
“تم تو رہنے ہی دو بہن اپنی بیٹی کا کارنامہ سن کر کہیں مر ہی نہ جاؤ” وہ حیرانی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں
“کیا ہوا تائی” حیا اپنا نام سن کر فورا کمرے سے باہر آئی بخار کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہورہی تھیں جو صرف اسکی ماں بہنوں اور کزنز کے علاوہ کسی کو نہیں دکھ رہی تھیں سب تماشہ دیکھنے کے شوقین تھے
تائی نے آگے بڑھ کر اسکا کان پکڑ کر موڑا حیا چھڑانے لگی تو تائی نے اور زور سے موڑ کر اسکو صوفے پر گرایا
“کیا کر رہی ہیں تائی” حسن نے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ روکا جو انہوں نے فورا چھڑایا
“چھوڑو مجھے آج اسکو اسکی اوقات یاد دلاؤں” ساتھ ہی اس پر دھڑا دھڑ چماٹے مارنا شروع کردیئے حیا میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اپنا آپ بچاتی دادا دادی شائستہ بہنیں اور ساری کزنز اسکو بچا رہی تھیں لیکن تائی کسی کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دے رہی تھی
“بس کردیں تائی بس کریں میری آپی نے کچھ نہیں کیا اس گھر میں سب لوگ گندے ہیں اللہ میاں کسی کو نہیں چھوڑیں گے دیکھنا سب کو عذاب دیں گے میری ٹیچر کہتی ہیں اللہ میاں ظالم کو سخت عذاب دیتے ہیں اور آپ لوگوں سے بڑا ظالم کوئی نہیں” ایمان کی چیخ اور اسکی بات نے سب کو دہلا کر رکھ دیا تائی اسکی طرف بڑھیں تو زنیرہ فورا آگے آئی
“نہیں تائی وہ چھوٹی بچی کے آپ آپ مجھے ماردیں اسکو کچھ نہیں بولیں” زنیرہ ہاتھ جوڑ کر آنسو بہاتی منتیں کر رہی تھی
“ہٹ جاؤ لڑکی” اسکو ایک سائڈ پر دھکیل ہوئے وہ ایمان کی طرف بڑھیں جسکی آنکھوں میں خوف کے بجائے ایک جنون سوار تھا
“کیا کہا تم نے بڑی زبان نکل آئی ہے تیری” وہ ہاتھ اٹھانے کی والی تھیں جب ایمان نے انکا ہاتھ پکڑلیا اور زور سے موڑ دیا ۔۔۔ننجا کارٹونز اور بلیک بیلٹ ویڈیوز دیکھ کر کچھ تو اثر آنا تھا نا تائی کراہ کر رہ گئیں جبکہ سب سانس روکے اسکی اس ہمت کو دیکھ رہے تھے جو کام بڑے بڑے نہ کرپائے آج اس چھوٹی بچی نے کر دکھایا
“کہا تھا نا اللہ میاں عذاب دیں گے اب آپ مار بھی نہیں سکتیں کسی کو” وہ تائی کو کہ کر ہنس دی انکی خونخوار نظروں کو نظرانداز کرتے ہوئے حیا کی طرف بڑھی جسکے منہ سے خون بہ رہا تھا
“بہو کچھ بتاؤ بھی اس معصوم نے کیا قصور کیا ہے؟” حسن حیا کو ہاسپٹل لے کر گیا تو دادا نے افسوس سے پوچھا ان سے لاڈلی ہوتی کہ یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی
” معصوم؟؟؟ ہاں آپ تو معصوم۔ہی کہیں گے ابا جی ابھی آپکو اسکے کرتوت پتہ جو نہیں ہیں محترمہ میرے لائق فائق بیٹے کو فون کر کے کہتی ہیں میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی آپ میرے قابل نہیں واہ میں تو کہتی ہوں ابا اسکی نوکری چھڑوائیں ورنہ یہ ہم سب کا سر ڈبو دیگی” تائی سب کے سامنے حیا پر جھوٹے الزام لگا رہی تھیں شائستہ بیگم کے آنسو نہیں رک رہے تھے
“ارے جاؤ شائستہ کھانا لگاؤ بہت بھوک لگی ہے” بڑی تائی بغیر انکی حالت دیکھ کر حکم جاری کرنے لگیں جسپر سمرہ اور زنیرہ کو بہت غصہ آیا
“چچی آپ جاکر بیٹھیں میں اور زنیرہ لگا دیں گی” شائستہ کے کچن میں آنے کے بعد سمرہ نے کہا
“نہیں بیٹی میں کرلوں گی” شائستہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر بولیں انکی حالت دیکھ کر سمرہ کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں
“چچی آپ فکر نہ کریں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ایک نہ ایک دن ان سب کو اپنے کئے کا ضرور احساس ہوگا” وہ انکو تسلی دیتے ہوئے بولی
“اللہ ان سب کے ساتھ بہتری کا معاملہ کرے” وہ کہتے ہوئے باول میں سالن نکالنے لگیں تو سمرہ نے انکے ہاتھ سے باول لے لیا اور انکو کرسی پر بٹھا کر خود سالن نکالنے لگی شائستہ بیگم بے اختیار اسکو دعائیں دینے لگیں
_________________________________________
ہاسپٹل پہنچ کر ایمان نے فورا حیا کے موبائل سے عثمان کو کال ملالی اسکو ساری صورتحال بتا کر وہیں بینچ پر بیٹھ گئی تھوڑی دیر میں عثمان کاؤنٹر کی جانب جاتا دکھائی دیا وہ فورا بھاگ کر اسکے پاس گئی
“مانی بھائی” زور سے آواز دی عثمان بے ساختہ پیچھے مرا وہ بھاگتی ہوئی اس سے لپٹ گئی اور اپنی بہن کی طرح سب کے سامنے مضبوط بنی وہ ننھی لڑکی ہمت ہار گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رودی
عثمان اسکو بینچ تک لایا
“کیا ہوا گڑیا” عثمان اسکو چپ کراتے ہوئے بولا
“مانی بھائی میری آپی۔۔۔(سسکی)” وہ اسکی گود میں سر رکھے رو رہی تھی
“ٹھیک ہوجائینگی آپ پریشان مت ہو چندا” وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
“اللہ میاں انکو عذاب دیں گے نا” وہ سر اٹھا کر معصومیت سے پوچھنے لگی عثمان نے لب بھینچ لئے
“مانی بھائی جو آپ نے سکھایا تھا میں نے تائی کے ساتھ وہ والا اسٹیپ اپلائی کیا” وہ ایک دم پر جوش ہوتے ہوئے بولی اور عثمان اپنی جگہ سن سا رہ گیا
“تت تم نے تائی کا ہاتھ موڑ دیا؟؟؟؟” عثمان نے حیرت سے کہا
“ہاں آپ نے ہی تو کہا تھا جب کوئی سامنے سے حملہ کرے تو اپنا دفاع اس طرح کرنا ہے” وہ باقاعدہ اسکو ہاتھ گھما کر دکھانے لگی
“اففف ایمان میں نے اپنے لوگوں کیلئے تھوڑی سکھایا تھا اور تائی بڑی بھی ہیں آپ سے” وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا
“پر بھائی آپ نے کہا تھا جب کوئی ظلم کرنے لگے تو اسپر اپنے کرتب آزماؤں اور وہ ظلم ہی تو کر رہی تھیں” ایمان اپنی گول آنکھیں پٹکا پٹکا کر بولی
“اوکے پر اب میں کوئی اور اسٹیپ نہیں سکھاؤں گا کل کو آکے بولو گی میں نے اسکی ٹانگ توڑ دی اسکا ہاتھ توڑ دیا اور جو تم چھپ چھپ کر مجھ سے جمناسٹک کی ٹریننگ لے رہی ہو نا تمہاری آپی کو پتہ چل گیا نا تو نہ تم بچو گی نہ میں” وہ اسکو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولا جو کھڑے ہوکر اپنے کرتب دکھانے میں مصروف تھی
“ویسے مانی بھائی تائی کا ہاتھ تو نہیں ٹوٹا آپ نے کہا تھا اس اسٹیپ سے کسی کا بھی ٹوٹ جاتا ہے” وہ معصومیت سے بولی
“شکر کرو نہیں ٹوٹا ورنہ اپنی آپی کی طرح تم بھی مار کھاتیں” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“مجھے اپنا دفاع کرنا آتا ہے” عثمان کا سکھایا ہوا جملہ اسی پر لوٹایا تو وہ اس ننھی پر انتہا کی ذہین لڑکی کو اپنا اسٹوڈنٹ ہونے پر فخر کرنے لگا
_________________________________________
حسن ایمان اور حیا گھر واپس آچکے تھے جبکہ عثمان وہیں سے حیا سے بغیر ملے گھر چلا گیا تھا اور ایمان کو بھی اسکو بتانے سے منع کردیا تھا کہ وہ آیا تھا وہ حیا کو اپنے سامنے شرمندہ ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا
“آگئی مہرانی” بڑی تائی کی نظریں جیسے ہی حیا پر پڑیں وہ طنز کرنے سے باز نہیں آئیں
“ہاں جی میری آپی کوئن ہیں حسن بھائی مہرانی کو انگلش میں کوئن بولتے ہیں نا؟” وہ حسن سے معصومیت سے پوچھنے لگی جبکہ حسن کیلئے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہورہا تھا
“اے لڑکی تم چپ رہا کرو زیادہ بک بک نہ کیا کرو” تائی جلی بلیوں کی طرح کہنے لگیں
“یہ بک بک کیا ہوتا ہے؟” وہ تائی سے پوچھنے لگی
“افف یہ لڑکی پاگل کردیگی مجھے” تائی غصے سے آٹھ کر چکی گئیں
“میں نے تو صرف سوال کیا تھا مس کہتی ہیں سوال کرنے سے نالج بڑھتی ہے” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی جبکہ حسن نے اسکو گود میں اٹھالیا
” بہت چالاک ہوتی جارہی ہو بھئی” وہ اسکو پیار کر کے گود سے اتارتے ہوئے بولا جبکہ وہ ہنستے ہوئے حیا کے روم۔میں چلی گئی
_________________________________________
تــــــم
مــــوســـموں کے روگ کا
درد مـــت ســـہا کـــرو
اداس مـــت ہوا کــــرو
یہ درد ہیں حــــیات کـــے
کــــچھ رنــــگ کائنـــات کـــے
کــــچھ دکــــھوں کــی تــیز بارشـــیں
کــــچھ پھـــول ہـــیں نشــــاط کـــے
تـــم پھــــول بــس چھــــوا کـــرو
اداس مـــت ہـــوا کـــرو ــــ
عثمان نے اسکے موبائل پر یہ نظم بھیجی جسپر۔وہ۔اداسی سے مسکرادی
کہِیں نزدیک ہی سے مِلتا ھے
مجھ سے شجرہ ‘ اُداس لوگوں کا
مَیں ہُوں تقسیم ‘ شام ِ ہِجرت کی
مَیں ہُوں حِصّہ ‘ اُداس لوگوں کا
خال و خد ہیں عبارتیں غم کی
مَیں ہُوں چہرہ’ اُداس لوگوں کا
اب تو ہنستے ہُوئے بھی ڈرتا ہوں
ھے زمانہ ‘ اُداس لوگوں کا
استعارہ ‘ اُداس لوگوں کا
مَیں ہُوں لہجہ ‘ اُداس لوگوں کا
جی میں آتا ھے ‘ مَیں بنا ڈالُوں
ایک فِرقہ ‘ اُداس لوگوں کا
رپلائی دیکر وہ آنکھیں موند لیٹی تھی دن بھر کی کہانی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی اس نے کرب سے آنکھیں بھینچ لیں
“کیا ہم صدا اسی طرح رہیں گے؟؟کیا ہمارا کوئی نہیں؟؟ کیا ہماری کوئی عزت۔نہیں؟؟؟ کیا ایک بیٹی ہونا ایک بے آسرا لڑکی ہونا اتنا بڑا جرم۔ہے کہ جب جو چاہے الزام لگادے جب چاہے ذلیل کردے؟؟؟ ان گنت سوچیں تھیں جو اسکے آس پاس منڈلا رہی تھیں وہ۔رونا نہیں چاہتی تھی پر وہ رو رہی تھی سوچتے سوچتے کب وہ غنودگی میں چلی گئی پتہ نہیں چلا
_________________________________________
“مانی بھائی آپ۔سوئے نہیں ابھی تک؟” اریشہ پانی پینے آئی تو رات کے دو بجے عثمان کو لاونچ میں بیٹھا دیکھ کر پوچھے بنا نہیں رہ سکی
“آں نہیں نیند نہیں آرہی تھی تم کیوں آئی ہو؟” وہ سوچوں سے نکلتے ہوئے بولا
“میں پانی پینے آئی تھی” وہ گلاس لیکر اسی کے پاس بیٹھ گئی
“صبح اسکول نہیں جانا کیا؟” وہ۔اسکو فرصت سے بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگا
“جانا ہے پر میں دیکھ رہی ہوں میرے بھیا کچھ اداس اداس سے ہیں” وہ اسکا چہرہ بغور دیکھنے لگی جہاں بال بکھرے اور بنا شیو کیے وہ آج بہت ہی اداس دکھ تھا
“نہیں تو ایسے ہی بس” وہ نظریں چراتے ہوئے بولا
اریشہ اتنی چھوٹی بھی نہ تھی کہ بھائی کی حالت سمجھ نہ پاتی چودہ سالہ لڑکی کو اتنا سینس تو ہوتا ہے لیکن عثمان کی نظروں میں وہ ابھی بھی ایک چھوٹی سی گڑیا تھی
“بھیا آپ۔مجھ سے شیئر کر سکتے ہیں میں بہن ہوں آپکی” وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی عثمان کو بے ساختہ اسپر پیار آیا
“میرے سر میں درد ہورہا ہے بس” وہ اپنا سر دباتے ہوئے بولا تو اریشہ نے چپ رہنا مناسب سمجھا اور اسکا سر دبانے لگی
_________________________________________
“حیا تم آج بھی آفس جارہی ہو؟” سمرہ۔اسکو ناشتہ دینے آئی تو اسکو تیار ہوتا دیکھ کر ٹھٹھک سی گئی
“ہاں” وہ دوپٹہ سیٹ کرنے لگی
“تم پاگل تو نہیں ہوگئی ہو؟؟؟ اتنی طبیعت خراب میں آفس جاوگی؟؟؟” اسکو حیا کی دماغی حالت۔پر شبہ ہونے لگا
” اس دوزخ سے تو اچھا ہے کم از کم” اسکے لہجے کی تلخی محسوس کرتی سمرہ اندر تک کٹ گئی
“بہت خفا ہو؟” وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی
“کس سے” وہ بنا اسکی طرف متوجہ ہوئے بولی
“ہم سب سے کل سے تم ایمان کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرہی ہو” وہ اداسی سے بولی
“میں کسی سے خفا نہیں ہوں بس اپنے آپ۔۔۔ اپنے نصیب سے ہوں” وہ بیگ اٹھا کر چیزیں ڈالنے لگی
“ناشتہ تو کرلو”اسکو ریڈی دیکھ کر سمرہ بولی
“وہیں کرلوں گی ” حیا سینڈلز پہنتے ہوئے کہنے لگی
“آج جلدی آجانا حیا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹرز نے ریسٹ کا کہا ہے” وہ فکرمندی سے بولی اور وہ بنا کچھ بولے ایمان کو لئے گھر سے باہر چلی گئی
کوئی نہیں جانتا تھا یہ جلدی کب آئیگی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...