“السلام علیکم مس حیا” عثمان کی فریش آواز کانوں سے ٹکرائی تو ایک پل کیلئے وہ ساکن رہ گئی اور نظریں اٹھائیں
“ارے سلام کیا ہے بھئی” وہ بشاشت سے بولا
“وعلیکم السلام” وہ ہلکی آواز میں بولی
“آپکو سارا کام سمجھ آگیا نا؟” وہ نرمی سے بولا
“جج جی سر” جھکے سر سے جواب دیا
“گڈ” وہ کہتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا
(پتہ نہیں انکے سامنے میں کپکپانے کیوں لگ جاتی ہوں) وہ سوچتے ہوئے اپنا کام کرنے لگی
کچھ دیر بعد انٹر کام کی بیل نے اسکی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔
“جی”
“میرے روم میں آئیے” سندیجیگی سے کہا گیا اور جواب سنے بغیر کال رکھ دی
(اللہ میاں پلیز ہیلپ یہ اب روم میں کیوں بلا رہے ہیں) ڈرتے ڈرتے وہ اسکے روم آئی تو سامنے ایک شفیق سے آدمی کو دیکھ کر پر سکون ہوگئی
“بیٹھئے” عثمان کے کہنے پر وہ صوفے پر بیٹھ گئی بلکہ دھنس گئی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا
“بابا یہ مس حیا ہیں” وہ با شفیق آدمی سے مخاطب ہوا
“اچھا چلو شکر ہے تم نے کوئی تو ڈھنک کا کام کیا” وہ مزاحیہ انداز پر بولے جسپر حیا بے ساختہ مسکرادی اور آج پہلی مرتبہ عثمان نے اسکی مسکراہٹ دیکھی
“بابا نو مور بے عزتی پلیز” وہ ہنستے ہوئے بولا اور حیا باپ اور بیٹے کے درمیان اتنی فرینکنیس دیکھ کر رشک کرنے لگی
“کاش میں بھی لڑکا ہوتی” وہ دل میں اداسی سے سوچنے لگی
“ہیلو” عثمان کی آواز کر وہ واپس موجودہ دنیا میں آئی
“جج جی” وہ بڑبڑاتے ہوئے بولی
“اگر آپ بھی میری بے عزتی دیکھ کر خوش ہو رہی ہیں تو میں ادھر سے چلا جاتا ہوں دونوں کھل کر میری بے عزتی کریں” وہ چڑتے ہوئے بولا
“نن نہیں ایسی کوئی بات نہیں” وہ بے ساختہ بولی اسکے انداز کر بابا مسکرادئے
“اوکے مس حیا آپ اپنے کیبن میں جاسکتی ہیں” وہ حیا کی حالت دیکھ کر شگفتگی سے بولے اور حیا جھٹ سے اٹھی اور پٹ سے باہر چلی گئی
“لڑکی اچھی ہے ویسے” بابا اسکو چھیڑ رہے تھے
“ٹھیک ہے ماما سے سفارش کردوں گا” وہ مصروف انداز میں بولا
“کیا مطلب؟” وہ نا سمجھی سے بولے
“یہی کہ بابا کو ایک لڑکی پسند آگئی ہے آپ سے اب بے زار آگئے ہیں تو پلیز دوسری شا۔۔۔۔” آگے وہ کچھ کہتا کہ بابا کا ہاتھ کندھے پر پڑا
“برخوردار مت بھولو آپکا باپ ہوں میں” وہ تھوڑی ناراضگی سے بولے
“شکر ہے یاد آگیا ورنہ تو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا میں” وہ بھی ناراض تھا
“ہائے میرا بچہ ناراض ہوگیا” وہ ہنستے ہوئے بولے اور انکے انداز پر عثمان کی بھی ہنسی نکل گئی
“بابا آپ جیسے بابا ملنا بہت مشکل ہے” وہ پیار سے بولا
“واہ بھئی ابھی تو ناراض تھے” بابا اتراتے ہوئے بولے
“میں آپ سے ناراض ہو سکتا ہوں بھلا؟” وہ آبرو اچکائے ہوئے بولے اور بابا نے ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا
وہ انکا سب سے زیادہ لاڈلا تھا گوری ،رنگت کھڑی ناک ، اور براؤن آنکھوں میں وہ انکو اپنا شہزادہ لگتا تھا بچپن سے لے کر آج تک اس کی کوئی خواہش رد نہیں کی اور عثمان بھی انکو اپنا دوست جیسا سمجھتا تھا یہاں تک کہ عثمان کے دوست بھی انکے ساتھ اتنے ہی فری تھے جتنا خود عثمان
“شہباز کب آئیگا؟” انہوں نے اسکے بچپن کے دوست کے بارے میں پوچھا
”اسکی تو آپ بات ہی نہ کریں لندن جا کر ایسا غائب ہوا کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ” وہ ناراض لہجے میں بولا
“مصروف ہوگا آخر اسکے باپ کے دل کا آپریشن تھا” وہ نرمی سے بولے
“ہاں تو اسی لئے کہ رہا ہوں اپنی پریشانی شیئر ہی نہیں کرتا حالانکہ میں جانتا ہوں بہت پریشان ہوگا وہ” عثمان فکرمندی سے بولا
“اچھا چلو میں چلتا ہوں” وہ اٹھتے ہوئے بولے اور عثمان بھی ادبا کھڑا ہوگیا دوست جیسے تھے لیکن تھے تو باپ نا۔۔۔
****$ ***** ***** ****** **
” دادا” زنیرہ کمرے میں آتے ہوئے بولی لیکن سامنے حسین کو بیٹھا دیکھ کر واپس جانے لگی
“ارے زنیرہ بیٹی ادھر آؤ تو سہی” ناچار اسکو دادا کی پاس جانا پڑا
“یہ ہماری اتنی پیاری بیٹی کے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟” وہ پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے
“میں بتاتا ہوں اصل میں لوگ ہم سے ناراض ہیں” اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی حسین نے فورا کہا مبادا وہ کوئی دوسرا بہانہ نہ بول دے رات بھر اسکی ناراضگی سہی تھی اب ہمت نہیں تھی
“ہیں بھائی سے کیوں ناراض ہو بیٹا” بھائی بولنے پر حسین نے بے ساختہ پہلو بدلا جبکہ زنیرہ اسکی حالت دیکھ کر محفوظ بہت ہوئی
“کون بھائی؟” وہ تنگ کرتے ہوئے بولی اور حسین مسکرادیا
“ارے بابا حسین سے کیوں ناراض ہو” دادا وضاحت کرتے ہوئے بولے
“ہاں تو یہ بولیں نا۔۔۔میں ان سے کوئی ناراض نہیں ہوں” وہ مطمئن ہوتے ہوئے بولی
“دادا ہر بار دوسروں کے سامنے ناراض ہوتے ہوئے محترمہ کہتی ہیں میں کوئی ناراض نہیں” وہ منہ بگاڑتے ہوئے بولا
“اے تم ہر وقت کیوں ناراض ہوجاتی ہو اس سے” دادا جیسے دونوں کے درمیان پھنس کر رہ گئے تھے
“ناراض ان سے ہوا جاتا ہے جن سے محبت ہو” وہ بے پرواہی سے بولی یہ جانے بغیر کہ کتنا بڑا اظہار کر چکی ہے حسین کو اپنی بے ساختہ ہنسی چھپانے میں کافی دقت ہوئی اور دادا بھی مسکرادئے جبکہ زنیرہ کو جب اپنی بات کا مطلب سمجھ آیا تو شرم سے سر جھکالیا
“اچھا اب دونوں صلح کرلو اچھا نہیں لگتا دو محبت کرنے والے ناراض ہوں” دادا کی بات بظاہر سادی تھی لیکن دونوں کے حواس کھو گئے
“آں میں ناراض نہیں ہوں اچھا مم میں چلتی ہوں” وہ منمنا کوئے بولی اب دادا کے سامنے بیٹھنا دشوار ہو رہا تھا
“ہاں میں بھی چلتا ہوں” حسین کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی دونوں کمرے سے باہر نکل گئے جبکہ دادا پیچھے انکے نصیب اور دونوں کے ایک ہونے کی دعا کرنے لگے
“اللہ کرے انکے ماں باپ آڑے نہ آئیں” وہ افسردگی سے سوچتے ہوئے اخبار پڑھنے لگے
***** ***** **** ****
“ہائے” ہادیہ کی آواز پر حیا نے سر اٹھایا
“ٹائم دیکھو پورے دو گھنٹے لیٹ ہو” وہ خفگی سے بولی
“ابے یار رش بہت تھا” وہ کرسی پر ڈھے سی گئی حیا اسکو دیکھ کر رہ گئی
“کیا؟” اپنی طرف مسلسل دیکھتا پا کر پوچھا
“تو گھر چلی جاتی نا” وہ فکرمندی سے بولی
“نہیں بعد میں مجھ میں تم سے سننے کی ہمت نہیں ہوتی” وہ ہنستے ہوئے بولی جبکہ حیا منہ موڑ کر کام کرنے لگی
“سوچ رہی ہوں لوگ کتنے بے مروت ہوتے ہیں” حیا خلا میں گھورتے ہوئے بولی جیسے کسی بات کا گہرا صدمہ لگا ہو
“کیوں کیا ہوا؟” بے چاری حیا کو بھی پریشان کردیا
“میں پہلی دفعہ آئی ہوں اور اتنی تھکی ہوئی ہوں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے جو کہ تم
میں بالکل بھی نہیں ہے بندہ جوس ووس ہی پلادیتا ہے” وہ تو جیسے پھٹ ہی پڑی اور حیا ہنس دی
“جاکر اپنے بھائی سے مانگو میں یہاں ورکر ہوں کوئی باس نہیں” وہ ہنستے ہوئے بولی
“ٹھیک ہے جارہی ہوں میں” ہادیہ جھٹکے سے اٹھتے ہوئے چلی گئی جبکہ حیا پیچھے آوازیں دیکر رہ گئی
******* ******* ******
“سنو” دونوں شام۔کو پارک میں بیٹھی تھیں ہادیہ کے پکارنے پر حیا نے اپنی توجہ اسکی جانب مبذول کی
“ہوں”
“یونی میں پتہ ہے کون آیا ہے” ہادیہ سسپنس والے لہجے میں بولی
“اب بول بھی چکو” حیا جھنجھلا کر بولی
“منزہ” وہ جیسے بولی حیا جو کہ بڑے مزے سے اسکے کندھے پر سر کر بیٹھی تھی جھٹکے سے اٹھی
“تو تم اسی لئے لیٹ آئی تھی” حیا نے طنز کیا
“نہیں یار وہ تو میں رش میں پھنس گئی تھی” وہ ہنستے ہوئے بولی
“اتنی مشکلوں سے اس سے جان چھٹی تھی اب واپس آگئی تمہیں مجھ سے چھیننے” وہ روہانسے انداز میں بولی اسکول کالج ہر جگہ وہ منزہ سے جیلس ہوتی آئی تھی کیونکہ وہ ہادیہ سے بہت فری ہونے کی کوشش کرتی اور حیا سے یہ برداشت نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اسکی اکلوتی دوست کو اس سے دور کرے اکثر دونوں کی لڑائی بھی اسی بات پر ہوتی تھی اور اب یونی میں بھی وہ آگئی تو حیا کا دماغ گھوم گیا اب تو ہادیہ اکیلے ہوگی اور وہ اور فری ہوگی وہ بس سوچ کر رہ گئی
“یار مجھے تم سے کوئی نہیں چھین سکتا” وہ پیار سے بولی
“تم نے اگر اس سے بات کی نا ہادیہ تو میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی” حیا انگلی اٹھا کر وارن کرنے لگی
” پتہ ہے جب تم ایسے بولتی ہو نا میں تمہارا شوہر تم میری بیوی لگتی ہو” ہادیہ ہنستے ہوئے بولی
“بکواس بند کرو اور یہ شوہر بیوی کو بیچ میں مت لایا کرو” وہ غصے سے بولی
“اچھا نا یار کبھی نا کبھی تو شادی کرنی ہوگی نا پاگل” وہ اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولی
“میں کبھی بھی نہیں کروں گی” حیا نے قطعیت سے کہا جسر ہادیہ نے حیران اور کچھ تاسف سے اسکو دیکھا
“کیوں نہیں کروگی تم شادی” اگرچہ ہادیہ سب جانتی تھی لیکن پھر بھی پوچھنا ضروری سمجھا اسکے سوال پر حیا نے ایک ناراض بھری نظر اسپر ڈالی گویا کہ رہی ہو (تم تو جانتی ہی نہیں نا)
“یار شادی بہت ضروری ہوتی ہے حیا ایسے کب تک تم گھر پر رہوگی” ہادیہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولی
“پلیز ہادیہ change the topic” وہ جھنجھلا کر بولی اس موضوع سے وہ حد درجہ چڑتی تھی
“اوکے نہیں بولتی” ہادیہ اسکی کیفیت سمجھ سکتی تھی
“چلو گھر چلتے ہیں کافی دیر ہوگئی ہے” حیا اٹھتے ہوئے بولی
“ہاں چلیں گے لیکن آئسکریم کھا کر اور کل اریشہ کا رزلٹ ہے اگر اسکی پوزیشن آگئی تو وہ ہم کو ٹریٹ دینگے اور آپ بھی چلیں گی” عثمان کے نام پر اسکی پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی
“نن نہیں ہادیہ میں نہیں جاؤں گی” وہ منمنا کر بولی
“تمہیں ضرور جانا پریگا کیونکہ انکل نے خود کہا ہے” ہادیہ چلتے ہوئے بولے
“انکل نے؟” وہ حیرت سے بولی
“ہاں انکو تم بالکل اریشہ کی طرح لگی ہو” وہ اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولی اور حیا کے سامنے باپ اور بیٹے کے درمیان نوک جھونک گھوم گئی
“ہاں he is a nice man” اسکے لہجے میں سرشاری تھی
“ہاں وہ بہت فرینک ہیں بابا کے تو بیسٹ فرینڈ ہیں بابا جب بھی اداس ہوتے ہیں انکل ایسے جوکس سناتے ہیں کہ بس پوچھو نہیں” وہ ہنستے ہوئے بولی حیا بھی مسکرایا اور دونوں گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی آئسکریم پارلر کی طرف موڑدی۔
****** ****** ******
وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی ایمان اسکی طرف بھاگتے ہوئے آئی
“آپی” وہ روتے ہوئے بولی
“کیا ہوا میری جان” وہ پریشانی سے بولی
“آپی امی کب سے رو رہی ہیں” وہ روتے ہوئے بولی اور ماں کے رونے کا سن کر اس نے لب بھینچ لئے اور ماں کی طرف قدم بڑھادئیے
“امی” وہ انکے قریب بیٹھتے ہوئے بولی جہاں پہلے سے ہی حسین اور زنیرہ بیٹھی تھی وہ ماں کو کندھے سے لگا کر بولی
“کیا ہوا ہے پلیز کچھ تو بتائیں” وہ پریشانی سے بولی
“تائی امی نے بہت بے عزت کیا ہے” انکے بولنے سے پہلے زنیرہ نے کہا جسکے لہجے میں واضح نفرت تھی اس نے بے ساختہ حسین کی طرف دیکھا جس نے لب بھینچے ہوئے تھے
“کس بات پر؟” وہ بولی تو لہجے میں سختی تھی
“کچھ نہیں بیٹا تم جاؤ کھانا کھاؤ ” وہ اسکے گال سہلاتے ہوئے بولیں جانتی تھیں وہ بہت تھکی ہوئے آئی ہے
“آپ جبتک مجھے پوری بات نہیں بتائیں گی میں ایک انچ بھی یہاں سے نہیں ہلوں گی” وہ قطعیت سے بولیں تو شائستہ نے سر جھکا لیا
“آپی آج امی ایمان کیلئے فرائس بنا رہی تھیں تو غلطی سے ہاتھ پر گرم تیل ڈل گیا ماسی امی کو مرہم لگانے لگی تو تائی امی نے آکر کہنا شروع کردیا کہ نواب کی اولادیں نہیں تمہاری جب چاہے جو چاہے کھلاؤ ہلکا سا تیل کیا گرگیا ہمدردی سمیٹنے اٹھ کھڑی ہوئی وغیرہ وغیرہ” زنیرہ کے کہنے پر حیا کے اعصاب تن گئے اور تیزی سے باہر گئی
“اسکو روکو زنیرہ وہ بھابھی کو کچھ نہ بولدے” شائستہ ڈرتے ڈرتے بولیں
“بے فکر رہیں کچھ نہیں کہ رہی انکو” ایک دم دروازہ کھول کر جملہ بول کر چلی گئی
“چچی پلیز بس کریں اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہورہا” حسین اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا بالکل سگے بیٹوں کی طرح وہ ان سے پیار کرتا تھا انکا خیال رکھتا تھا شائستہ کو بھی حسین بہت عزیز تھا
****** ******* *******
“ہیلو” مسلسل بیل پر حیا نے کال ریسیو کی
“جی آپ۔کون؟” حیا پہچاننے سے قاصر تھی
” حیا میں شہریار ہوں” کتنے سالوں بعد اسکی کال آئی تھی منگنی کے باوجود وہ اس کیلئے اپنے دل میں کوئی جذبہ محسوس نہ کرسکی تھی
“جی بولیں” وہ عام سے انداز میں بولی
“حیا مجھے تمہاری ہیلپ کی ضرورت ہے” شہریار کے لہجے میں التجا تھی
“جی بولیں”
“حیا وہ۔۔ وہ میں نے یہاں ادینہ سے شادی کر لی ہے تم۔پلیز سب کو بول دو کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی”ایک لمحے کیلئے حیا سکتے میں آگئی واہ رے ستم گر یاد کیا بھی تو ضرورت کے وقت اور ضرورت بھی کیا مطلب اسکے نزدیک حیا کی کوئی ویلیو ہی نہیں تھی
“سوری مجھے اپنی بدنامی کرانے کا کوئی شوق نہیں آپ خود کرلیں جو کرنا ہے” اس نے سختی سے کہتے ہوئے فون بند کردیا جبکہ شہریار غصہ سے کھولتا رہا
“اسکی یہ ہمت کہ میرے کام سے انکار کرے” وہ سوچ سوچ کر ہی غصہ سے پاگل ہو رہا تھا
“ہونہہ سمجھتا کیا ہے خود میری کوئی عزت نہیں میں بے حس ہوں میرے اندر کوئی جذبات نہیں” اگرچہ وہ شہریار سے محبت نہیں کرتی تھی لیکن بچپن سے آج تک اپنے نام کے ساتھ بس اسی کا نام سنتی آئی تھی تو ایک انسیت سی ہوگئی تھی
“بھاڑ میں جائے اچھا ہے جان چھوٹی مجھے تو ویسے بھی شادی نہیں کرنی تھی اور شہریار تو پورا باپ پہ گیا ہے ” وہ نفرت سے سوچتے ہوئے سر جھٹک کر رہ گئی
****** ******* *******
“مس حیا ” وہ اپنے کام۔میں مصروف تھی جب عثمان کی آواز پر جھٹکے سے سر اٹھایا جو اسکو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا
“جی” اب اسکے اندر اعتماد آرہا تھا
“آج اریشہ کا رزلٹ تھا محترمہ غلطی سے فرسٹ آگئی ہیں اور مجھ مظلوم کو اپنی جیب خالی کرنا پڑ رہی ہے”
عثمان نے بے چارگی سے کہا جسپر حیا مسکرادی اور کر بھی کیا سکتی تھی
“اوہ ہاں میں کہ رہا تھا کہ آپ چھ بجے تک فری ہوجائیگا” اس نے مسکرا کر کہا تو حیا چاہ کر بھی منع کرنے کے منع نہیں کرسکی
رات کو سب ڈنر کیلئے رہسٹورینٹ میں بیٹھے تھے اریشہ حیا سے کافی مل جھل گئی تھی آنٹی اور دادی بھی اس سے کافی پیار سے پیش آرہی تھیں
“سچ سچ بتاؤ اریشہ چیٹنگ کے طریقے کہاں سے سیکھے میں نے تو آج تک چیٹنگ نہیں کی تمہیں کس نے سکھائے؟” عثمان مسکراہٹ دباتے ہوئے ہاتھ کو ٹھوڑی کے نیچے چہرہ اسکی طرف پھیر کر تنگ کرنے لگا
“بھائی میں نے کوئی چیٹنگ نہیں کی ہے” اریشہ بدک کر بولی ایوئیں اسپر فضول الزام لگا رہا تھا
“چیٹنگ کے بغیر تو پوزیشن وہ بھی تمہاری ایسا شاید تبھی ہو جب تم خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہو” وہ ہنستے ہوئے بولا سب ان دونوں کی نوک جھونک سے محفوظ ہورہے تھے حیا کو یہ فیملی بہت اچھی لگی تھی دوستانہ طبیعت کی مالک اس کو لگا وہ ان سب کے پاس بیٹھ کر اپنے سارے غم بھول گئی ہے
“عثمان بھائی میری بہن نے کوئی چیٹنگ ویٹنگ نہیں کی ہے یہ تو میں نے پڑھایا ہے اسے اس لئیے پوزیشن آگئی” ہادیہ آنکھ مارتے ہوئے بولی جسپر عثمان کا قہقہہ بلند ہوا چونکہ ایک مہینہ ہادیہ نے اسکو پڑھایا تھا اس بنا پر کہا
“بھئی میری بچی کو فضول میں تنگ نہیں کرو بے چاری اتنی محنت کر کے پوزیشن لائی ہے” خاموش بیٹھے بابا نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ سرشار تو ہوگئی لیکن منہ بنا کر انکا ہاتھ سر سے اٹھا کر واپس رکھ دیا
“آپ بھی اب بولے ہیں جب یہ لوگ میری بے عزتی کر چکے یہاں سب سے اچھی حیا آپی ہیں ہیں نا” وہ حیا کی طرف رخ موڑ کر بولی حیا بے چاری اچانک مخاطب ہونے کر غربڑا کر رہ گئی اپنی تعریف کی تائید میں کیا بولتی خاموش بیٹھی مسکرا رہی تھی تب عثمان بولا
“ہاں بہت اچھی ہے” حیا نے بے ساختہ اسکی طرف دیکھا وہ بھی مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا
حیا نے اسکی نظریں اپنے آپ پر کئی دفعہ محسوس کیں اور کئی دفعہ دونوں کی نظریں ملیں بھی
خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا آج حیا کیلئے یہ دن ایک خوشگوار یاد کے طور پر گزر گیا
_________________________________________
حیا گھر میں داخل ہوئی تو سیدھا اپنے کمرے میں گئی وہاں ایمان موجود ٹیب پر کارٹون دیکھ رہی تھی اکثر ایمان اسکے کمرے پائی جاتی تھی اسکو گال پر بوسہ دیکر وہ واش روم فریش ہونے چل دی
۔۔فریش ہوکر باہر آئی تو ایمان اسکو دیکھ کر مسکراہی تھی
“کیا ہوا؟” حیا نے مسکراتے ہوئے پوچھا
“آپی آپ بھول گئیں؟؟؟؟ آج میرا رزلٹ تھا” وہ پہلے افسردہ پھر خوشی سے سرشار لہجے میں بولی
“اوہ اچھا کیا بنا میری گڑیا کا؟” وہ اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی
“یہ میں کیوں بتاؤں آپ بتائیں نا” وہ لاڈ سے اسکے گلے میں ہاتھ ڈال کر بولی
“میں کیسے بتاؤں مجھے کیا پتہ” اسکی بچکانہ حرکت پر وہ ہنس دی
“نہیں آپ ہی بتائیں” وہ ضدی لہجے میں بولی
“اوکے نہ بتاؤ میں مما سے پوچھ لیتی ہوں آپکے ساتھ وہی گئی تھیں نا” وہ اٹھتے ہوئے بولیں
“ارے! !!آپی میں نا سیکنڈ آئی ہوں” وہ خوشی سے بولی
“ہیں!!!!! جھوٹی” چونکہ آج تک ایمان کی گھر میں ٹینشنز کی وجہ سے پوزیشن نہیں آئی تھی اور اب ایک دم پوزیشن آنے پر حیا کا حیران ہونا بجا تھا
“میں آپکو جھوٹی لگتی ہوں؟ جائیں کٹی آپ مت مانیں” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی حیا نے جذب سے اسکو گلے لگا لیا
“مبارک ہو میری جان میں بہت بہت خوش ہوں” وہ خوشی سے بولی
“پر میں نہیں ہوں” ایمان کی آواز کر وہ ساکت رہ گئی کیونکہ ایک تو اسکا جملہ دوسرا اسکا لہجہ بھی بھیگا ہوا تھا مطلب اتنی دیر سے وہ اپنے آنسو روکی ہوئی تھی جو صرف حیا کی گود میں بہتے تھے اب بھی اس کے گلے لگ کر ایمان سنبھال نہ سکی اور رو دی جبکہ حیا انتہائی پریشانی سے اسکو دیکھ رہی تھی
“کیا ہوا مان؟” وہ پریشانی سے بولی
“آپی۔۔۔۔(سسکی) آپی فضا (ایمان کی دوست) کے بابا بھی رزلٹ لینے آئے تھے اور(سسکی) اسکو گفٹ بھی دلائیں گے میرے بابا کب آئیں گے” وہ روتے ہوئے بولی اور حیا کے اعصاب تن گئے اس نے لب بھینچ لئیے باپ کے نام سے بھی نفرت کرتی تھی اور اب ایمان بھی انکی وجہ سے رو رہی تھی تو اسکو اور بھی زیادہ نفرت محسوس ہونے لگی
“وہ مر گئے ہیں” لہجے میں بیک وقت سختی غصہ اور نفرت تھی
“پر ماما تو کہتی ہیں وہ آجائیں گے اور ٹیچر بولتی ہیں کہ مرے ہوئے لوگ واپس نہیں آتے” وہ معصومیت سے بولی
“آپکو میں گفٹ دلاؤں گی نا گڑیا کیا چاہیے میری گڑیا کو؟” وہ اسکا دھیان بھٹکانا چاہتی تھی
“ہیں سچی آپ دلائیں گی؟” شکر ایمان کا دھیان تو بھٹکا جسپر حیا نے ایک اطمینان بھری سانس لی
“ہاں بالکل بتاؤ کیا چائیے؟” وہ پیار سے اسکی آنسو صاف کرتے ہوئے بولی
“میں سوچ کر بتاؤں گی” وہ واپس سے کارٹون دیکھنے لگی جبکہ حیا کے دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑ گئی
_______________________________________
“ہائے” سمرہ کیک بنا رہی تھی کہ حسن کی آواز پر فورا پلٹی لیکن پھر اپنی توجہ کیک کی جانب مبذول کرلی
“کیسی کو؟” حسن سے مسکراتے ہوئے کہا
“جیسے پہلی تھی” اس نے نروٹھے پن سے جواب دیا
“ہائے مطلب تم کبھی نہیں بدلنے والی۔۔۔چلو قسمت میں بندریا ہے تو وہی سہی۔۔” حسن کے لہجے میں شرارت تھی
“آپ چلے جائیں یہاں سے” وہ بیٹر سے دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی
“تمیز سے لڑکی اوہ سوری بندریا شوہر لگتا ہوں تمہارا” وہ رعب جھاڑتے ہوئے بولی
“ابھی ہوئے نہیں ہیں” وہ واپس کیک بنانے میں مشغول ہوگئی
“ویسے یہ کیک کسلیئے بنا رہی ہو؟” وہ سلپ پر بیٹھتے ہوئے بولا
“اپنے لیئے” سمرہ اب رو دینے کو تھی آج اسکی برتھ ڈے تھی اور کسی نے بھی اسکو وش نہیں کیا اور جو سب سے پہلے وش کرتا تھا آج اسکی برتھ ڈے بھولا ہوا تھا
“ہائے کیوں گھر میں کھانے کی قلت آگئی ہے؟” وہ حیرانی سے بولا سمرہ نے جواب دینے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ شائستہ کو آتا دیکھ کر واپس منہ بند کرلیا
“حسن بیٹا میں نے آرڈر دے دیا ہے” شائستہ نے آکر کہا تو حسن نے آنکھوں آنکھوں میں ہی انکو چپ رہنے کا کہا جسکو وہ بخوبی سمجھ گئیں
“کس چیز کا آرڈر چچی؟” سمرہ سے رہا نہ گیا
“میری چیز ہے تمہیں اب ہر بات بتاوں” اس سے پہلے کہ چچی کچھ بولتیں حسن نے انکی مشکل آسان کردی کیونکہ اس نے بہت منع کیا تھا کہ سمرہ کو نہ بتائیں
“نہ بتائیں میں پوچھ بھی نہیں رہی” سمرہ آج کچھ زیادہ ہی ایموشنل ہورہی تھی
“اچھی بات ہے” وہ اطمینان سے کہتا ہوا اسکے بال بگاڑ کر کچن سے چلا گیا جبکہ سمرہ اسکی بیٹھ دیکھتی رہ گئی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...