حافظ عرفان احمد نظام آباد کی پھولانگ کی مدینہ مسجد اور بعد میں اوپر ٹیکری کی مسجد کے خطیب تھے۔ وہ نظام آباد کی معروف شخصیت تھے۔امامت کے علاوہ شادی بیاہ میں نکاح خوانی بھی کرتے اور کوئی مرجائے تو غسل کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ انہوں نے شائد میرے والد صاحب سے بات کی تھی کہ وہ ایک دینی مدرسہ حفظ قرآن کی تعلیم کے لیے شروع کر رہے ہیں۔ اور انہوں نے ترغیب دی کہ مجھے حفظ قرآن کریم کی تعلیم کے لیے ان کے مدرسے میں داخلہ کرائیں۔ ہمارے خاندان میں اکرام ماموں کے بیٹے حافظ ارشاد صاحب جنہیں ہم لوگ حافظ خالد کہتے وہ حافظ قرآن اور قاری تھے۔ گھر کے لوگوں کو یہ بات معلوم تھی کہ حافظ قرآن کا بڑا رتبہ ہوتا ہے قیامت میں وہ سات خاندانوں کی بخشش کا ذریعہ بنتا ہے اور حافظ قرآن دنیا میں بھی کافی ترقی کرتا ہے۔ میرے بڑے بھائی صاحب ہائی اسکول کے متعلم تھے۔ میرے حق میں فیصلہ ہوا کہ مجھے عرفان صاحب کے مدرسے میں حفظ کی تعلیم کے لیے داخل کرایا جائے ایک دن میں اپنی پھوپھو کے گھر خالد کے ہمراہ کھیل رہا تھا کہ میرے بڑے بھائی مجھے بلا کر لے گئے اور پھولانگ کی مدینہ مسجد میں حفظ قرآن کے پہلے درس کے لیے بٹھا دیا گیا۔ بعد میں کچھ دن مدرسہ عرفان صاحب کے گھر میں چلا پھر مدرسہ حفاظ نظام آباد مدرسہ میں عرفان صاحب اور دیگر اساتذہ کی زیر نگرانی صبح اور شام میری حفظ کی تعلیم چلتی رہی اور ہائی اسکول کی تعلیم بھی۔ میں قلعہ ہائی اسکول میں پڑھا کرتا تھا صبح دو گھنٹے شام دو گھنٹے حفظ کا سلسلہ چلتا رہا۔ دادی ماں کے زیر مطالعہ رہنے والے پندرہ سطری حافظی کلام مجید میں پڑھا کرتا تھا سورہ یوسف پھر پہلے پارے سے یاد کرنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ درمیان میں کہا گیا کہ مکمل حفظ کی تعلیم کے لیے وقف ہوجائیں تو جلدی حفظ ہوگا ۔ میرے ساتھ جناب حسین صاحب ٹیچر کے فرزند عابد حسین بھی پڑھا کرتے تھے عرفان صاحب کے بہنوائی کا سوریا پیٹ میں مدرسہ تھا عابد حسین مستقل حفظ کی تعلیم کے لیے وہاں منتقل ہوگئے۔ ایس ایس سی کی تعلیم کے بعد جب میں حیدرآباد منتقل ہوا اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل ہوئی تو ملے پلی میں قیام کے سبب میں نے ملے پلی مسجد کے شعبہ حفظ میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی وہاں جناب حافظ شیخ احمد صاحب اور حافظ شوکت صاحب کے پاس پڑھائی ہوئی۔جب ہم معراج کالونی کرایہ کے مکان میں منتقل ہوئے تو معراج کالونی میں واقع مدرسہ روضتہ العلوم میں مولانا جمال الرحمٰن صاحب کے زیر نگرانی میری حفظ کی تعلیم مکمل ہوئی۔ یہ مدرسہ جناب عابد خان صاحب نے اپنے بچوں سعد سعید اور بیٹیوں کی تعلیم کے لیے شروع کرایا تھا۔مولانا جمال الرحمٰن مفتاحی مکتھل میں مدرسہ میں پڑھاتے تھے انہیں بہ طور خاص حیدرآباد لایا گیا۔ اور اب یہ مدرسہ عاقل صاحب کے مدرسہ دارالعلوم حیدرآباد کی شاخ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس مدرسے کا سنگ بنیاد شیخ عبداللہ سبیل امام کعبہ کے ہاتھوں رکھا گیا۔ اپنے استاد کے ساتھ شمالی ہند کے دینی مدارس کا دورہ کیا۔ اور مظاہر العلوم سہارنپور‘دارالعلوم دیو بند اور دیگر مدارس کا دورہ کیا۔معراج کالونی کے میرے اساتذہ میں مولانا عبدالملک صاحب‘مولانا عبیداللہ صاحب مولانا عبدالغنی صاحب اور دیگر اساتذہ شامل تھے۔حفظ کرنے والے ساتھیوں میں موسیٰ خان عترت‘عبدالرزاق صاحب‘حاجی‘وصی مدنی خالد وغیرہ دوست شامل تھے۔موسیٰ خان اب ٹولی چوکی کی بلال مسجد کے خطیب و امام ہیں اورمولانا جمال الرحمٰن صاحب کے مرید ہیں۔ حفظ کی تعلیم کی تکمیل کے بعد دور کی خاطر شائد ۱۹۸۸ء میں نے حضرت شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم کے شہر ہ آفاق دینی مدرسے اشرف المدارس ہردوئی میں بھی کچھ عرصہ قیام کیا اور وہاں تجوید قران کی تعلیم حاصل کی۔ اس موقع پر مجھے حضرت شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم کی علمی مجالس سے استفادے کا موقع بھی ملا۔ وہاں داخلہ لینے کے کچھ عرصہ بعد میری طبعیت خراب ہوگئی معلوم ہوا کہ گردے میں پتھری ہے۔ اساتذہ نے مشورہ دیا کہ گھر جاکر علاج کرالو چنانچہ میں ہردوئی سے واپس حیدرآباد آگیا۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ ساری دنیا میں صحت کے ساتھ قرآن پڑھنے میں ہردوئی مدرسہ کا مقام سرفہرست ہے وہاں تجوید کی باریکیوں سے قرآن لحن کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔وہاں دیوبند کے فارغین بھی تصحیح قرآن کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔
نظام آباد سے حیدر آباد ومنتقل ہونے کے بعد اپنے والد کے مشورے پر کہ دینی مدرسے کے طالب علم کو دنیاوی علوم بھی حاصل کرنے چاہئیں‘ انٹر میڈیٹ میں میرا داخلہ بوائز گورنمنٹ کالج نامپلی میں ہوا جو بازار گارڈ میں واقع ہے۔ بھائی صاحب بڑے چاچا کے گھر مقیم تھے۔ میں بھی کچھ مہینے چاچا کے گھر مقیم رہا ۔ حیدرآباد میں فاصلے زیادہ ہوتے ہیں۔ کالج کو بس سے جانا تھا۔ بس پاس بنایا گیا۔ روٹ پاس نامپلی تا ٹولی چوکی کالج کے اوقات بارہ تا شام پانچ بجے تک تھے ایک خاص بات کے میرا داخلہ انگریزی میڈیم ایم پی سی میں کرایا گیا۔ بھائی صاحب اور گھر والوں کی خواہش تھی کہ بھائی صاحب ڈاکٹر بن رہے ہیں تو میں انجینر بنوں۔ لیکن ایم پی سی اور انگریزی میڈیم میرے لیے مشکل رہا۔ میرے ہم جماعت حنیف بھائی اور دوسرے تھے کبھی میں ان کی سائیکل پر نامپلی سے ٹولی چوکی آیا کرتا تھا ۔میرے ہم محلہ دوست شہریار بھی سی ای سی اسی کالج سے کر رہے تھے ہم لوگ ۱۱۶ بس میں سفر کرتے تھے بس آتی دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ شام کے اوقات میں معراج کالونی کے میدان میں کرکٹ کھیلنا اور مغرب کے بعد پڑھائی اور عشاء کے بعد کھانا کھا کر آرام کرنا یہ معمولات زندگی تھے۔ انٹر کے ساتھیوں میں عرفان ان دنوں امریکہ میں ہیں جب کہ مہتاب صاحب پڑوسی کے بیٹے احمد ان دنوں آسٹریلیا میں ہیں۔ چاچا کے گھر کے روبرو اقبال صاحب پینٹر رہا کرتے تھے ان کے بیٹے حمایت اچھے کرکٹر تھے ان کا حال ہی میں انتقال ہوگیا۔ محلے میں ظفر سہیل یوسف شہریار‘اشفاق اور دوسرے بچے کرکٹ کھیلتے ہر اتور کو خصوصی میچ ہوتے۔رمضان گرمیوں میں آیا کرتا تھا ہم رمضان میں زیادہ وقت مسجد میں گزارا کرتے تھے حافظ ارشاد صاحب تراویح پڑھایا کرتے تھے۔ وہ افطار اور سحر چاچا کے گھر کیا کرتے تھے ۔مسجد اور محلے میں اچھا ماحول تھا۔جس کے سبب حیدرآباد میں کالج کے ایام میں میرا اچھا اور یادگار وقت گزرا۔ اس طرح میرا انٹر کا سفر تمام ہوا۔ بعد میں میں نے سائنس کی تعلیم ترک کی اور بی اے اویوننگ کالج میں داخلہ لیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...