تیل کی رسم افطار کے فوراً بعد ادا کر لی گئی تھی۔ اجر کا نکاح چونکہ انجام دیا جا چکا تھا سو رخصتی ہی تھی ان سب کے ولیمے پر ہی عمل میں آنے والی تھی۔ عشاء کی نماز کے بعدسبھی لوگ لان میں جمع ہونے لگے تھے۔ عبادت کو شام ہی کے وقت حویلی لے آیا گیا تھا کہ آج کے کارِ خیر میں اس کا ہونا بھی لازم تھا۔ کمیل جو کہ اس دن سے کمہلایا ہوا تھا، شام میں اسے دیکھ کر کھل سا گیا تھا۔ ایک ساتھ چار نکاح اور وہ بھی ترتیب سے۔ وہ تو اسی بات میں خوش تھا کہ اسے وہ عطا کی گئی تھی جس کی بچپن ہی سے خواہش لیے بیٹھا تھا۔ اور تو اور جس دن سے وہ منال کو لے کر اس کے کالج گیا تھا، تب سے اب تک نہ تو بات کر پایا تھا نہ ہی غور سے دیکھ ہی پایا تھا۔ لان میں جمع سب لوگ اب ٹولیاں سی بنا ئے کھڑے تھے۔ کچھ چارپائیوں ہی پر بیٹھے تھے جبکہ احاطے کی دیوار کے ساتھ کرسیاں لگا کر لڑکوں کو بٹھایا گیا تھا۔ اور ان میں سے ایک کرسی پہیوں والی بھی تھی ۔ لوگ اس کرسی والے کو ترحم سے دیکھتے تھے مگر وہ یوں بیٹھا تھا گویا کسی بات کی پرواہ نہ رہی ہو۔ زہرہ بیاحطے ہی میں پردہ سا ڈالے ان چاروں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔نمل اور فجر بلک رہی تھیں۔ اجر بھی ایک آدھ سسکی بھرتی تھی ۔ زہرہ بی اور قدسیہ بیگم مسلسل انہیں ڈانٹ رہی تھیں۔ غنویٰ جو خود اپنی کیفیات سے گھبرا رہی تھی ، ان کو چپ کروانے میں مگن نظر آتی تھی۔ منال بھی رونے کاسیشن پورا کر چکی تھی۔عبادت بس خاموشی سے ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔ اسے تو یہ دکھ نہ بھولتا تھا کہ اس کی ماں اس وقت وہاں نہیں تھی۔ نمل، فجر اور اجر کا بلکنا بنتا بھی تھا کہ ساری زندگی اسی چار دیواری میں گزاری تھی۔ کبھی اپنے ننھیال میں بھی گئے تو کچھ دن سے زیادہ نہیں رہے اور اب تو کہاں کہاں اڈاری بھرنی تھی۔ چاہے وابستہ انہی لوگوں سے رہنا تھا مگر اپنے شوہروں کے ساتھ جڑ جانا تھا۔ ماں باپ پر وہ مان نہیں رہ جاتا۔ اب تو ماں باپ کے مان دکھانے اور منوانے کے دن آئے تھے۔
امام صاحب کب اندر آئے کب اجازت لی کب وہ کلمہ لبوں سے ادا ہواکہ جو باندھ دیا کرتا ہے دلوں کو اور کب ہاتھوں نے رجسٹر پرموجود اقرار نامے پر دستخط کیے، کچھ نہ یاد پڑتا تھا۔ یاد تھا تو بس یہ کہ اب وہ سب کی سب پرائی ہیں۔ اب وہ آزاد نہیں ہیں۔ اب وہ حکم کی پابند ہیں۔ اب وہ ذمہ دار عورت کے روپ میں ہی سجیں گی۔ وہ فجر جو کام سے انتہا کا گھبراتی تھی اور جبل زمان کے غصے کےآگے ڈٹ جاتی تھی ، اب سوچ کر ہول رہی تھی اس کے غصے کو برداشت کیسے کرے گی۔
باہر سے مبارک سلامت کا شور اٹھا تو وہ مزید ہول گئیں۔ کیسی زندگی ہے لڑکیوں کی بھی۔ کہیں تو سر پر بٹھایا جاتا ہے اور کہیں تو پاؤں کی جوتی بنا دیا جاتا ہے۔ بس ان کچھ بولوں کی مار ہیں یہ لڑکیاں۔ بس پھر ایک دائرے میں قید۔ پھر زندگی اپنی رہتی بھی کب ہے۔ شوہر، سسرال ۔ بچے اور ذمہ داریاں۔ اور پھر عورت کہلانا تو اسی کا حق ہے جو ان ذمہ داریوں کو یوں نبھائےجیسے نبھائے جانے کا حق ہے۔عورت کہلاتی تو وہی اچھی لگتی ہے ناں جس کاشوہر چاہے ساری زندگی آنکھیں ماتھے پر سجائے رکھے، مگر آخر ایک دن تو ایسا آئے کہ وہ کہے ‘ہاں میں نے تمہیں اپنے لیے ثابت قدم پایا۔ سب نے مجھے تنہا کر دیا مگر تم میرے ساتھ کھڑی رہیں’۔ اور عورت کہلاتی تو وہی اچھی لگتی ہے ناں جس کی اولاد کی تربیت دیکھ کر مقابل رشک کرے۔
“ابھی کچھ دیر میں مہندی کی رسم ہے ۔ تم لوگ منہ دھو کر سیدھی ہو جاؤ ورنہ سب کے سامنے یہ ڈنڈے سے سیٹ کروں گی میں” زہرہ بی ان کے قریب سے اٹھتی ہوئیں اپنے آنسو بمشکل سنبھالے باہر کی طرف بڑھ گئیں۔ ذرا بھی جو کچھ ظاہر ہونے دیا ہو۔
“ایک تو ہمارے دادا حضور خود تشریف لے گئے یہ ڈنڈا زہرہ بی کو تحفتاً دے گئے۔ مجھے تو قسم سے کبھی یہ اکیلا ملے تو توڑ ہی دوں” فجر ان کے باہر جاتے ہی آنسو صاف کرتی ہوئی پرانی جون میں واپس آئی۔
“منہ دھو لو فجر زمان ڈرا رہی ہو ہمیں۔ عبادت جس طرح سہمی بیٹھی ہے گر جائیگی تمہیں ایک نظر دیکھ کر ہی”نمل آنسوؤں سمیت ہی ہنستی ہوئی کہنے لگی۔ سبھی روئی روئی سی بھی اتنی کھلی ہوئی لگ رہی تھیں کہ وہاں ان کے پاس بیٹھیں قدسیہ بیگم نے دل ہی دل میں ان کی بلائیں لیں۔
سبھی ایک ایک کر کے احاطے کے باہر لگے نلکے سے منہ دھو آئی تھیں۔ فجر اور نمل آتے ہی اپنا میک اپ درست کرنے لگی تھیں۔ عبادت جو پہلے سہمی سی بیٹھی تھی اب باقاعدہ آواز کے ساتھ رونے لگی تھی۔ اس کے ابا اکیلے رہ جائیں اس کو یہ دکھ مار رہا تھا۔منال اور آمنہ بیگم اسے چپ کروانے لگی تھیں۔غنویٰ جو خاموش تھی کبھی کبھی ایک سسکاری بھر لیتی اور ان دونوں کو دیکھنے لگتی جو منہ بنا بنا کر سیلفیاں اتار رہی تھیں۔
“بس کرو عبادت۔ ہم اتنے دن سے رو رو کر تھک گئے ہیں۔ چاچا کو یہ غنویٰ سنبھالا کرے گی فکر نہ کرو۔ اس کی بھیا کے ساتھ بننی ہی نہیں ہے وہاں اپنا میکہ بنا لینا ہے اس نے”نمل عبادت کو خاموش کروانے لگی تھی۔
“اوہ خدا دی بندیو کدی چنگا وی بول لیا کرو”ہاجرہ جو پانی کا گلاس لیے وہاں آئی تھی پہلی بار ان کی کسی بات پر ان کے ہی سامنے تبصرہ کر گئی۔ سب پہلے تو حیرانی سے اسے دیکھنے لگیں پھر ہولے سے ہنس دیں۔ عبادت بھی کچھ نارمل ہوئی تھی۔نمل، فجر اور منال اب سب کو بلا بلا کر سیلفیاں لے رہی تھیں ۔
“بھئی اب دلہن بننے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہماری ایک بھی تصویر ہمارے اپنے ہاتھ کی بنائی گئی نہ ہو”قدسیہ بیگم کے گھورنے پر اجر نے ان سے کہا۔
“Most Satisfactory Answer Ever” منال بولی تو نمل اور فجر بھی ہنس دیں۔اسی دوران میں باہر سجے اسٹیج کی طرف بلاوا آگیا تھا۔ وہ وقت جس سے سبھی لڑکیوں کے دل دہل رہے تھے۔ ایسے شخص کے ساتھ بیٹھنا جس کے ساتھ لڑائی جھگڑا رہا ہو۔ ۔
ایسا شخص جس کو کبھی منہ نہ لگایا ہو۔۔
ایسا شخص جس کے بارے میں سوچتے ہوئے اپنے باپ کی پگڑی اور اس کی جھریوں کا خیال رہتا ہو ۔۔
اور پھر۔۔۔
ایسا شخص جس کو دیکھتے ہی دل بغاوت کر گیا ہو مگر رب کا حکم اس شخص کی دید سے افضل ہو جائے۔۔
مگر یہ قانونِ فطرت ہے۔ اور قانون اپنا آپ خود منواتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“جگ دی نظراں تو چوری کتھے مل۔۔” جبل سر پر سرخ کلاہ باندھے آف وہائٹ شیروانی زیب تن کیے ، گہری سیاہ داڑھی اور مونچھوں میں کہیں مسکراہٹ چھپاتا فجر کو ریسیو کرتا ہوا ہولے سے اس کی طرف رخ موڑ کر گنگنایا اور واپس یہاں وہاں دیکھنے لگا۔وہ جو بڑی تمکنت کے ساتھ آگےبڑھی تھی، سمٹ سی گئی۔
“ارے آپی گھبرائیں مت۔ یہاں آپ کو عاشق اپنی محبوبہ کو ورغلاتے ہوئےہی ملیں گے۔”کمیل نے آگے ہو کر بات کو مزاح کا رخ دیتے ہوئے فجر کا ہاتھ تھاما اور صوفے کی طرف لے گیا جہاں پہلے ہی غنویٰ سمٹی اور گھبرائی ہوئی سی بیٹھی تھی۔فجر اس کے پاس آخر بیٹھی تو اسے کچھ سکون کا سانس آیا تھا۔وہ سرخ اور سنہرے امتزاج کے سٹون ورک سے بھرے پرے لہنگے کے ساتھ بہت ہی پیارا میک اپ جو اس کے نقوش کو مزید پیارا بنا رہا تھا ، ماتھے پر سنہری جھومر اور ٹیکہ، کانوں میں برے بڑے سنہری جھمکے،بھورے بالوں کا جوڑا جو صراحی دار گردن پر ایک طرف سیٹ کیے نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔ شہد رنگ آنکھوں کا میک اپ اتنا پیارا کیا گیا تھا کہ وہ سنہری شعاعیں بکھیر رہی تھیں۔
ہوتا ہے ناں یوں بھی۔۔۔
جب کبھی صرف منہ دھو کر ہی سامنے آنےوالا اچانک سے یوں سج دھج کر سامنے آئے ۔ دل ہی لوٹ لے وہ تو پھر۔ اور یہی حال وہاں سب کا تھا۔اس کا شوہر ایک طرف ،وہاں موجود عورتیں بھی اس کی بلائیں لے رہی تھیں۔ کشور بیگم تو کئی بار اس کے پاس سے ہو کر گئی تھیں مگر گھبراہٹ تھی کہ کسی طور کم ہونے میں نہ آتی تھی۔
“یہ سب سیشن کب ختم ہو گا”وہ ہراساں سی فجر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کےبائیں پہلو میں سجاول زمان سرخ کلاہ اور اسی کی شال جیسے رنگ کی کالی شیروانی میں بیٹھا تھا۔اس کی آج سج دھج ہی نرالی تھی۔ آج وہ مسکراہٹ تھی جو کافی عرصے سے اس چہرے پر سجی ہوئی نہ ملی تھی۔
“تمہیں اتنی جلدی کس بات کی ہے بتانا ذرا” فجر اسے گھورنے لگی۔ پہلے ہی جبل کے تیور اسے سہما گئے تھے۔ کہاں ہر وقت لڑائی جھگڑے کرنے والے وہ دو۔۔ کہاں اب ایک آنکھوں میں شرارت لیے دیکھنے والا اور دوسرا گھبرا سا جانے والا۔۔۔
“مجھے سب عجیب طرح دیکھ رہے ہیں فجر۔۔”اس نے گھبراہٹ میں فجر کے لہنگے پر رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ وہ بس رو دینے کو تھی اور ہاتھ جو پہلے بھی کم ٹھنڈے نہ ہوتے تھے، اب برف ہوئے پڑےتھے۔ سنبھالے ایک دم سیدھی ہو بیٹھی اور نمل کو اس طرف لاتے کمیل کو اشارہ کیا۔
“کیا ہوا؟” وہ جھک کر پوچھنے لگا۔ آج وہ سب کچھ یوں سنبھالے ہوا تھی کہ لگتا ہی نہ تھا وہ اس خاندان کا چھوٹا بیٹا ہے۔ سجاول ابھی چلنے میں دقت محسوس کرتا تھا، جبکہ آج جبل اور حبل کا خاص دن تھا سو وہ اس بات کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے۔اور وہ کمیل جس کا خاص دن، اجر ہی کی رخصتی کے ساتھ جبل اور حبل کے ولیمے پر رکھا گیا تھا، بھائیوں والی پوری ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔
“یہ مرنے والی ہے ۔ چچی کو کہو اسے کچھ کھلا پلا دیں” فجر نے کہا تو غنویٰ رونے کو ہوئی۔
“مجھے بھوک نہیں ہے کمیل۔ مجھے پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے” وہ اب آف وہائٹ ڈریس شرٹ پر نیوی بلیو کوٹ، اور نیو بلیو ہی پینٹ پہنے ٹائی پن کو ٹھیک کرتے کمیل کاہاتھ تھام کر بولی۔
“آپی! کچھ نہیں ہو رہا۔ ابھی بس تھوڑی دیر پاس بیٹھے گا۔ جب فوٹو شوٹ مکمل ہو گیا میں خود لے جاؤں گا ان کوبس تھوڑی دیر اور” کمیل سجاول کی طرف دیکھتا ہوا بولا جو ابرو اچکائے اس سے سوالیہ انداز میں ‘کیا ہوا’ پوچھ رہا تھا۔ پاس ہی تھا مگر غنویٰ کی آواز مجال ہے جو اس تک پہنچی ہو۔ ہاں مگر وہ جان چکا تھا۔ جو کبھی اس طرح کسی کے سامنے نہیں آئی تھی اب سج دھج کر یوں بیٹھنا اور بیٹھنا بھی اس کے پہلو میں کہ جس سے نظریں تک چرائی گئی ہوں۔ ہاں دل پھر گھبرا ہی سکتا ہے۔
“کیا ہوا خیریت؟” حبل، سرخ ہی کلاہ اور آف وہائٹ شیروانی کے ساتھ سرخ شال کندھے پر ڈالے وہ بھی جبل سے کم نہ لگتا تھا۔ وہ کافی دیر سے غنویٰ کی گھبرائی نظریں دیکھ رہا تھا اسی کی طرف آیا۔اسے نمل کے آنے کا انتظار تھا جو اب بھی ضد میں تھی کہ کمیل ہی کے ساتھ اسٹیج تک بھی جائیگی اور اسی کے ساتھ صوفے تک بھی جائیگی۔ یعنی حبل اس قصے میں کہیں وجود رکھتا ہی نہ تھا۔ وہ تپنے لگا تھا۔ ‘یہ اب نکاح کے بعد بھی یوں کترائے گی ۔ میں تو گدھا ہی بن گیا بھئی” وہ منہ بنا کر باربار کبھی سجاول کے کان میں کہتا تھا تو کبھی سانول کے۔ جبل تو آج تھا ہی اپنی بیوی کو دیکھنے میں مگن۔
‘اس سے کچھ کہنا فضول ہے۔ یہ بک چکا ہے”جبل کے بارے میں اس کے یہی خیالات تھے۔
“یہ گھبرا رہی ہے” ان دو کی بجائے فجر نے کہا تو حبل زمان نے فوراً سے اپنے ہونٹ ‘اوہ’ کے انداز میں گول کیے۔
“تو آپ بول بھی لیتی ہیں؟ بائے دا وے بہت ہی غلط وقت پر بولتی ہیں۔ خود تو اپنے شوہر کو دیکھ لیا ہے۔ مجھے بھی اپنی بیوی دیکھ لینے دیتیں۔ ساتھ نہیں لا سکتی تھیں اسے؟” و ہ اب اسے گھور رہا تھا اور جس سختی سے وہ فجر کو کہہ رہا تھا غنویٰ اپنی گھبراہٹ بھولے ان کو دیکھنے لگی تھی۔کمیل اور اسے خدشہ ہوا کہ یہ اب یہاں بھی بحث شروع کریں گے۔
“میں ٹھیک ہوں حبل۔ جاؤ وہ نمل آگئی ہے۔ “غنویٰ نے فجر کے منہ کھولنے سے پہلے ہی حبل کا دھیان پیچھے منال اور عبادت کے ساتھ ہولے ہولے قدم دھرتی نمل کی طرف کروایا۔
“واہ بہن! تھا جس کا انتظار وہ شہ کار آگیا” حبل تو یوں ہوا تھا جیسے آنکھوں کی جگہ اس کے دل نے لے لی ہو۔ غنویٰ گھبراہٹ کے باوجود مسکا دی۔ وہ اورکمیل آگے بڑھ گئے تو فجر اس کی طرف دیکھ کر روہانسا سا منہ بنا گئی۔
“یہ اس کا بھائی کم تھا جو اب یہ بھی طعنہ مار گیا ہے”
“کیا ہوا؟” غنویٰ نے شہد رنگ آنکھیں حیرت سے پھیلائیں۔
“میں نے نہیں دیکھا جبل کو ایک بھی بار۔ اس بدتمیز نے دیکھ کر کمنٹ پاس کیا تھا۔ میں نے دیکھا بھی نہیں سچی” فجر واقعی روہانسی ہو رہی تھی۔
“اتنا ڈر کیوں رہی ہو؟ میں بھی تو اب بیٹھی ہی ہوں جس کا کچھ پتہ ہی نہ تھا۔ اور اگر دیکھ بھی لیا تو کیا غلط کیا؟ شوہر ہے تمہارا۔ دیکھ بھی لیتیں تو کیا تھا؟” اس کا ہاتھ اپنے ٹھنڈے مہندی لگے ہاتھوں سے تھپکتی وہ مسکرا کر اسے نارمل کرنے لگی تھی۔ یہ اور بات کہ جب سجاول زمان پہلو ہی میں بیٹھا کچھ دیر بعد ہلکا سا کھنکارتا تو دل عجب لے پر دھڑکتا تھا۔اس نے کنکھیوں سے اسے دیکھا جو پہلے ہی اس کی طرف نظر جمائے مسکرا رہا تھا۔
سب کی آنکھوں سے بچا کر کسی شرمیلے نے
ہم سے یوں آنکھ ملائی ہے کہ سبحان اللہ!
وہ ابرو اچکا کر شرارت سے اسے دیکھنے لگا۔غنویٰ نے فوراً نظروں کا رخ بدلا تھا۔
اور سجاول زمان۔۔۔
اس کی تو مسکراہٹ ہی نرالی تھی کہ آج اس کا دل سجدۂ شکر ادا کر رہا تھا۔
“اور وہ جو کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے دل کا سکون اورا ولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما۔ اور ہمیں پرہزگاروں کا امام بنا۔ ”
(الفرقان:74)
تو ایسے ہی لوگوں کے لیے پھر اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ
” ان کو اونچے اونچے محل دئیے جائیں گے اور وہاں فرشتے ان سے دعا و سلام کے ساتھ ملاقات کریں گے۔”
(الفرقان:75)
اور وہ تو آخرت کا اجر ہے ناں؟
پھر دنیا کا اجر؟
دنیا اکا اجر ہے کہ وہ رب اسی آدم کی پسلی سے بنائی گئی حوا کو اس کے دل کا چین اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کرتا ہے۔
یہی تو بہترین اجر ہے۔
اور اللہ بہترین اجر دینا جانتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عاشقی چہ است بگو بندہ جاناں بودن
دل بدستِ دیگرے دادن و حیراں بودن
(عاشقی کیا ہے؟ کہو کہ محبوب کا غلام ہو جانا، دل کسی دوسرے کےحوالے کر دینا اور خود حیراں ہو جانا)
کمیل جو سب کاموں سے تھکا ہارا آکر لاؤنج میں بیٹھا تھا اب یہاں وہاں اس کو تلاش کرنے لگا جو بس دور سے مسکراہٹ اچھالتی کہیں غائب ہو جاتی تھی۔وہ آنکھیں موند کر گردن پیچھے کو گرا گیا۔
“مجھے تو کہیں نہیں پائیں گے اگر یوں یہاں وہاں دیکھیں گے” عبادت نے بھاپ اڑاتی کافی اس کے سامے میز پر رکھی اور خود بالکل سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔
“اور میں سوچ رہا تھا کہ آج بھی سامنے نہیں آئیں گی آپ محترمہ”وہ منہ بناتا ہوا آنکھیں ملنے لگا۔
“اگر ایسا لگا تھاتو میں ۔۔۔”
“اچھا اب میں نے اٹھ کر جانے کا بالکل نہیں کہا ” وہ اٹھنے لگی تو اس کی بات کاٹتے ہوئے کمیل نے شہادت کی انگلی سے اسے وارن کرتے ہوئے گھور ا۔
“کافی چاہیے تھی ناں؟ لا دی۔ اب میں واپس جاؤں ۔ کل کام ہیں بہت مجھے” وہ پھر سے اٹھنے کو پر تول رہی تھی۔
“کیوں کل کیا ہے؟” وہ ابرو اچکا کر انجان بنتے ہوئے پوچھنے لگا۔
“میری رخصتی ہے کل ۔ آپ بھی آئیے گا ناں۔۔ میں ابا سے کہوں گی آپ کو کھلائے پلائے بغیر مت جانے دیں” وہ اٹھی اور ایک ناز سے گردن اکڑاتی دوپٹہ سر پر درست کرتی ہوئی بولی۔
“خیر اب میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں ہوں کہ آپ ہی کی رخصتی کا کھانا کھاؤں ۔ الحمدللہ میری بھی بارات ہے اورمیرے سسرال والے بہت اچھا کھانا فراہم کریں گے۔ میری فکر میں آپ مت دبلی ہوئیے گا” وہ بھی اسی کی طرح شہد رنگ آنکھوں میں شرارت سموئے ، گردن اکڑائے ٹانگیں پسار کر بولا۔
“ہاں جیسے ابھی آپ میری فکر میں دبلے ہو رہے تھے ویسے؟ ارے نہیں میں صرف اپنے شوہر کو فوکس میں رکھتی ہوں جسے یہ تک نہیں پتہ تھا کہ اس کی ٹائی پن کاموں کے دوران کہاں کھو چکی ہے۔ ہنہ!!” عبادت نے اپنے دوپٹے کی سائڈ سے ایک پن اتاری اور شیشے کی سطح والی میزپر آہستہ سے رکھ کر اسے دیکھا۔
“خیال رکھا کریں کمیل زمان! اپنی چیزوں کا بھی اور اپنے رشتوں کا بھی” سنہری رنگت اور گلابی فراک میں وہ دمک رہی تھی۔ کجری آنکھیں اٹھا کراس کا حیران سا چہرہ دیکھا اور مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
اور وہ ۔۔
‘ہاہ۔۔ میں تو سوچ رہا ہوں کہ اصل والا ویاہ کب ہو گا میرا’ سر کھجاتے وہ کافی اٹھا کر چسکیاں لینے لگا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خبرم رسید امشب ، کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدا راہے کہ سوار خواہی آمد
(میرے محبوب! مجھے خبر ملی ہے کہ آج رات کو تو آئے گا۔ جس راہ سے تو آئے گا ، میرا سر اس راہ پر قربان۔۔)
وہ کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ کبھی جو اس لمحے کی خواہش کی تھی وہ اب اس کا وہم نہ تھا۔ وہ یہی تو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ یہی تو دیکھنا چاہتا تھا۔ اور وہ جو دل کی دھک دھک سنبھالے بیٹھی تھی جالی دار گھونگھٹ سے نظر آتے اس سراپے کو دیکھا اور دل کو ہاتھوں سے پھسلتا پایا۔وہ ہولے ہولے قدم جماتا اس کی طرف آیا ، اپنی شیر وانی بیڈ ہی پر ایک طرف ڈالی اور آنکھیں اس کے چہرے پر جمائیں جو گھونگھٹ کے پار آنکھیں جھکائے سہمی سی بیٹھی تھی۔
“غنویٰ سجاول زمان” اس کے لبوں سے سرسرایا اور ہوا میں تحلیل ہوا۔ ہر طرف یوں ہوا جیسے خوشبو نے ان کا احاطہ کیا ہو۔
بہ لبم رسیدہ جام، تُو بیا کہ زندہ مانم
بس ازان کہ بن نمانم، بہ چہ کار خواہی آمد؟
(اب آ بھی جاؤ کہ میری جان لبوں پر آگئی ہے ۔ جب میں نہ رہا تو کس کام کو آؤ گے؟)
اس کی طرف دیکھتے ہوئے جالی کا وہ دوپٹہ اوپر اٹھایا جو گھونگھٹ کی غرض سے اوڑھایا گیا تھا۔وہ جو پہلے آنکھیں جھکائے بیٹھی تھی اب اس کے لبوں سے ادا ہوتا اپنا نام سن کر انوکھے سے احساس کے تحت اسے دیکھنے لگی۔ یہ نہ تھا کہ دل کبھی اس لے پر دھڑکا نہ تھا۔ نیا تو یہ نام تھا تو جو ہر فاصلہ سمیٹ دیتا تھا۔لب اب بھی خاموش تھے مگر شہد آگیں آنکھیں سامنے موجود سجاول زمان کو دیکھ کر مسکرا دیں۔
“اجازت دو کہ میں چھو کر دیکھ پاؤں۔ حقیقت ہو یا خواہش کو سراپا بنائے بیٹھا ہوں” وہ آنکھوں میں حیرت سموئے اسے دیکھ کر بولا ۔
دل و جان ببرد چشمت، بہ دو کعبتین زیں پس
دو جہانت داو ـــــــ اگر تُو بہ قمار خواہی
(تیری یہ آنکھیں اپنے دانوں سے میرے دل و جان چھین کر لے گئی ہیں۔ اگر تو قمار بازی پر آجائے تو دونوں جہان داؤ پر لگ جائیں)
چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔وہ نظریں جھکا گئی۔ لب کپکپا رہے تھے۔ اس نے فاصلہ سمیٹا اور صبیح سی پیشانی پر سے ٹیکہ ہٹاتا مہرِ محبت ثبت کر گیا۔
بہ یک آمدن ربودی دل ود یں و جانِ خسروؔ
چہ شُد اگر بدینساں ، دو سہ بار خواہی آمد
(تیرے ایک بار آنے سے خسروؔ اپنا دل وجان اور دین و دنیا قربان کر چکا ہے۔ اگر جو تیری آمد دو تین بار ہو جائے تو کیا ہو۔۔)
نہ تو کوئی وعدہ ہوا تھا نہ معافی تلافی کہ عشق میں یہ منازل بہت دور رہ جایا کرتی ہیں۔ وہ چار آنکھیں اب قربان ہوتی ہوئی دکھتی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“آج کیا تاریخ ہے؟” وہ ایک جوگر سیڑھی پر رکھے ہوئے اس کا تسمہ بند کر رہا تھاجب وہ ‘معطرہ’ کو لیے وہاں چلی آئی۔
“میں حساب میں کبھی اتنا اچھا نہیں رہا”وہ بولا اور دوسرے جوگر کے تسمے بند کرنے لگا۔ بچی ‘با،با’ کرتی ہوئی اس کے ہاتھ سے اپنے باپ کی طرف پھسل رہی تھی جبکہ باپ تھا کہ بے نیاز سا صرف اپنے جوگرز کو فوکس کیے ہوئے تھا۔
“ہاں اگر ابھی میں اپنے میکے جانے کی بات کردوں تو اچھل کر کہو گے پانچ ماہ، چار ہفتے،تین دن، دو گھنٹے ،ایک منٹ، پچاس سیکنڈ پہلے ہی تو گئی تھیں” وہ دانت پیس پیس کر بولی تو سیدھا ہو کر معطرہ کو ہاتھوں میں لیتا وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا تھا۔
“ہاہ ۔۔میری تو حسرت رہ جائیگی تمہیں شوہر پرست دیکھنے کی”وہ مصنوعی آہ بھر تا بچی کو گدگدانے لگا۔
“اور مجھے حسرت رہ جائیگی تمہیں زن مرید دیکھنے کی”اسی کے انداز میں بولتی، وہ سر جھٹکتی کچن کی جانب بڑھ گئی ۔
“تاریخ کو چھوڑیں غنویٰ زمان! اور میکہ کی بھی بات مت کریں کہ سب بذاتِ خود تشریف لے آتے ہیں یہاں۔ مجھے صرف اتنا بتائیں کہ یوں اتنے آرام سے بے جھجک اور بنا شرمائے بات کرنا سیکھ کیسے لیا ان دو دنوں میں؟” وہ اس کے پیچھے ہی چلا آیا تھا۔وہ پچھلے دو دن حویلی سے غائب رہا تھا کہ فخر زمان اور قدسیہ بیگم کو آمنہ بیگم جو کہ لاہور میں اپنی فیملی ہی کے ساتھ تھیں اور کشور بیگم اور شیر زمان جو نمل کے لیے فیصل آباد میں شفٹ تھے، سے ملوانے لے گیا تھانمل کے ہاں بیٹا تھا اور وہ ایک سال کا بچہ اس حد تک شرارتی تھا کہ خود ٹکتا تھا نہ ہی نمل کو ٹکنے دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کشور بیگم اسی کے پاس رہا کرتی تھیں۔ زہرہ بی وقت کے ساتھ اتنی چست نہ رہی تھیں سو غنویٰ کو ہر وقت ان کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ ۔ غنویٰ اس لیے نہ جا پائی تھی کہ زہرہ بی اور اکرم چاچا گھر پر ہوا کرتے تھے۔
بچی اپنی کسٹڈی میں لینے کے بعد سجاول نے زوئنہ کو ڈائیورس پیپرزخود اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اسی کے گھر میں تھمائے تھے۔
لیکن وہ جو سوچے بیٹھا تھا کہ شاید وہ شرمندہ ہو گی۔ نہیں۔۔۔۔ ہوا کرتا ہے یوں بھی کہ کچھ لوگ اپنی پستی کو حد تک پہنچا کر ہی اپنا اصل دکھایا کرتے ہیں اور زوئنہ نے یہ ہی کیا تھا۔ اسے اپنے جسم سے کاٹ کر الگ کیے جانے والے وجود سے نہ توکل کوئی غرض تھی نہ ہی آج۔۔ وہ ماں بن کر بھی ماں کے دل سے پھوٹنے والی خوشی سے محروم رہی تھی۔اڑھائی سال ہونے کو آئے تھے معطرہ اب چھوٹے چھوٹے قدم جمانے لگی تھی اور جہاں سجاول کو ‘با’ کہتی تھی وہیں غنویٰ کو پورا ‘مما’ کہتی تھی۔ اور سجاول تھا کہ اس کو پورا بابا سکھا سکھا کر تھک چکا تھا لیکن بیٹی بھی آخر اسی کی تھی کہ جو بھی کہہ لو۔ کرتی اپنی ہی تھی۔
کمیل اور حیدر زمان لاہور میں سجاول ہی کا آفس سنبھالے ہوئے تھے ۔ منال اور عبادت نے ایک ہی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ جبل اس ایک سال میں ایک بھی بار چکر نہ لگا پایا تھا البتہ اب ایک بیٹے کا باپ تھا۔ اور غنویٰ اس ایک سال میں اس کا جتنا سر کھا سکتی تھی کھا چکی تھی۔ وہ اپنے بھتیجے سے ملنا چاہتی تھی مگر جبل تھا کہ ہر ماہ کاوعدہ اگلے ماہ پر ٹال جاتا تھا۔ اجر ایک بیٹی کی ماں تھی اور اس دوران میں کئی چکر لگا چکی تھی۔ جتنی غیر ذمہ دار وہ سب لگتی تھیں، شادی کے بعد سے اتنے ہی احسن طریقے سے اپنے گھروں کو سنبھالے ہوئے تھیں۔
“زہرہ بی کہتی ہیں شوہر کو اتنا بھی سر پر نہیں چڑھانا چاہیے” وہ مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی۔ پیاری تو وہ پہلے بھی کم نہ تھی مگر اب تخلیق کے مراحل سے گزرتا اس کا وجود کھلتے ہوئے گلاب کا سا تاثر دیتا تھا،
“زہرہ بی کے بھی کیا کہنے۔ میں ان کے ساتھ بھی ایک آدھ میٹنگ ارینج کرتا ہوں” معطرہ کوڈائیننگ ٹیبل پر بٹھا کر وہ فریج کی جانب بڑھا،اندر سے کچھ کینو نکالے اور غنویٰ کی طرف بڑھائے جو جوسر کو سیٹ کر رہی تھی۔
“بائے دا وے میں نے تاریخ پوچھی تھی ” وہ جوسر پر ہی نظر جمائے ہوئے بولی۔
“یوں پوچھیں گی تو کبھی نہیں بتاؤں گا” لہجہ مسکراتا ہوا ساتھا۔
“چلیں میں خود ہی یاد کروائے دیتی ہوں زمان صاحب!!”اس نے اب بھی بنا دیکھے کینوؤں کو چھیلا اور ایک ایک پھانک بنانے لگی۔وہ مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اور یہی عادت غنویٰ زمان کو چڑاتی تھی۔ وہ اردگرد کی پرواہ کیے بناءاسے دیکھا کرتا تھا۔ اپنی بیٹی کے سامنے بھی یوں دیکھنا اسے تاؤ دلا رہا تھا۔
“یہ نظریں اپنی بیٹی پر جمائیں پہلی بات تو یہ ہوئی۔ اب دوسری بات یہ کہ آج پانچ تاریخ ہے دسمبر کی۔۔ ٹھیک ایک ماہ بعد ڈلیوری ہے۔ تاریخ آگے پیچھے بھی ہو سکتی ہے۔ گھر پر گاڑی بھی چھوڑ جایا کریں۔ اگر کہیں باہر ہوں تو کم ازکم کوئی اور تو لے جا سکے مجھے” وہ جوس بنا کر گلاس میں ڈالتی ہوئی بولی۔
“پہلی بات تو یہ غنویٰ سجاول زمان صاحبہ کہ میری بیٹی ابھی بہت چھوٹی ہے اسے ان باتوں سے کوئی غرض نہیں کہ ماں باپ ایک دوسرے کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ اسے صرف اس بات سے غرض ہے کہ ہم ‘اسے’ دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔ “اس نے معطرہ ،جو فرش پر اترنے کے لیے مچل رہی تھی، کو اٹھا کر نیچے اتارا۔ وہ چھلانگیں لگاتی کچن سے باہر بھاگی تھی کہ باہر سے زہرہ بی کی ٹک ٹک سنائی دی تھی۔وہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا جو گلاس اسی کو پکڑانے آگے بڑھی تھی۔ گلاس اس کے ہاتھ سے لیااور پیچھے شیلف پر رکھ دیا۔
“دوسری بات پر آتا ہوں۔ یہ ابھی کچھ دیر پہلے بات میں ‘تم’ کیسے استعمال کیا تھا؟ ایک بار پھر بولو میں سننا چاہتا ہوں” اس کے کندھے پر بازو پھیلا کر خود سے لگاتے ہوئے وہ شیلف سے ٹیک لگا کر شرارت سے بولا تو وہ جو پہلے ہی یہاں وہاں دیکھ رہی تھی اس عجیب سی صورتِ حال پر سرخ انار ہوئی۔
“سجاول صاحب بات گھمائیں مت۔۔”وہ منہ بنا کر بولی۔
“میں گھر پر ہی ہوں گا اب سے فکر نہیں کریں بیگم صاحبہ ! بس اب ایک بار تُو تُڑاک کر لیں مجھے لگے تو سہی ایک اکتائی ہوئی بیوی کا شوہر ہوں” یوں ہی اسے ساتھ لگائے اس کے ماتھے پر مہرِ محبت ثبت کرتے ہوئے وہ بولا۔
“بس آپ کو تو موقع چاہیے۔ اور میری بات سنیں!”اپنے کندھے سے اس کا بازو ہٹاتی وہ اس کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔
” بیٹی چھوٹی ہو یا بڑی۔۔ بیٹی ہوتی ہے، اور اولاد کے سامنے ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔ ان کے اس چھوٹے پن میں ہی اگر احتیاط شروع کریں گے تو بڑے پن میں آپ کو پختگی مل پائے گی۔آج کل جیسا زمانہ ہے ،اس زمانے میں اگر ہم اپنے گھر سے ان چھوٹی چھوٹی بے احتیاط باتوں کا خاتمہ شروع کریں گے تو ہی ہمیں اپنے بچوں میں بچگانہ پن ملے گا۔ ورنہ آج کا معاشرہ آپ کے سامنے ہے کہ ایسے بچے جو ابھی جوانی کی دہلیز کو چھو ہی رہے ہوتے ہیں وہ بھی زنا سے واقف ہوتے ہیں۔ ان کو بھی معلوم ہے کہ فیس بک کو ہیک کیسے کرنا ہے۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ماں باپ کو کیسا ٹھوس بہانہ کرنا ہے کہ وہ واقعی بدھو بن جائیں” اس نے ایک اور کرسی کھینچ کر سامنے کی تاکہ وہ جوگلاس پکڑے کھڑا جوس کو منہ لگانے لگا تھا ،بیٹھ کر پیتا۔وہ یونہی اسی کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی اصلاح کر دیا کرتی تھی۔ وہ چپ چاپ آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔
“آج اگر بچوں کو اس دورسے دُور رکھا جائے کہ جس میں ہم خود جی رہے ہیں تو بچے ابھی سے اس دور کو نہیں جئیں گے۔ وہ ٹھیک وقت کا انتظار کریں گے۔ ہمارا وقت ہے ۔ بےشک ہے کہ ہمایک دوسرے کے محرم ہیں ہم کچھ بھی اور کوئی بھی بات کر کستے ہیں ۔ کیونکہ آخر کو ہم ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ مگر یہ بچے۔۔۔ ان بچوں کو ابھی سے ان چیزوں سے دور کھنا ، ان کے سامنے کسی Eye Contact سے بھی خود کو بچانا بہتر ہے۔ میں نہیں چاہتی میری بچی یا میرا مزید کوئی بچہ اس معاشرے میں خود کو ان عام لوگوں جیسا ہی بنا لے۔ میرے نبیؐ کے امتی اتنے گرے ہوئے نہیں ہو سکتے۔ میں ایسی تربیت چاہتی ہوں کہ میری نسل کی شفاعت کرتے ہوئے وہ ؐ شرمندہ نہ ہوں۔ وہ فخر سے کہیں کہ دیکھ اے عزت والے رب ! میں معطرہ بنتِ غنویٰ کی شفاعت کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔” نظر اب بھی نہ ملی تھی۔ مگر وہ یوں قطرہ قطرہ اس کے دل میں اپنی تمام باتوں سمیت اتری تھی کہ وہ جو پہلے خاموشی سے اسے سن رہا تھا، اٹھا اور آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر ایک بار پھر سے اپنی محبت کی مہر ثبت کی۔
کہ یہ اس کا حق تھا۔
کہ یہ عشق کے دربار میں ایک بیش قیمت نذرانہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کیا کر رہی ہو؟”پیک اپ کرتے ہوئے اس نے کال ملاکر سپیکر آن کیا اور سامنے میز پر رکھ دیا۔
“تمہاری گندی اولاد کو باہر مٹی سے لے کر آرہی ہوں” وہ چڑ کر بولی تھی۔ آج غصہ انتہا کا تھا۔ یہ پھرتیلا سا چھوٹا ‘عبدالباری’اپنی ماں کو کبھی ٹکنے نہ دیتا تھا۔ایک سال کا ہو چلا تھا مگر حرکتیں ایسی تھیں گویا ابھی سے سکول جانے لگا ہو۔ ماں کے تو ہاتھوں میں آتا ہی نہ تھا۔ نمل جو انتہائی صفائی پسند تھی اپنی بہن تک کو کمرے سے نکال دیتی تھی کہ کمرہ خراب نہ کرے، اب اپنے بیٹے سے عاجز آئی پڑی تھی۔ دن میں کئی بارنہلا دھلا کر صاف ستھرا بنا کر بٹھاتی اور وہ بھی ایسا اپنے باپ کا بیٹا تھا کہ ماں کو پھرکی بنائے رکھتا تھا۔
“ہاہاہاہا۔۔۔ نمل زمان اب تو مان جاؤ وہ حبل زمان کا بیٹا ہے”اپنی فائلیں لیپ ٹاپ کے ساتھ لیپ ٹاپ بیگ میں رکھتے ہوئے وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا تھا کہ نمل کا یوں روتا دھوتا روپ اسے بڑا مزا دیتا تھا۔
“ہاں تو کب انکار کیامیں نے؟ تمہی کا بیٹا ہے تبھی اتنا شیطان ہے۔ کہیں سے لگتا ہے کہ عبدالباری یعنی روح پھونکنے والے اس رب کا بندہ ہے یہ؟ مجھے تو بنا بنایا شیطان کا چیلا لگتا ہے۔ کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ میں نام کے ساتھ زیادتی کر گئی ہوں۔ بہت شوق سے رکھا تھا نام میں نے۔ دل ہی توڑ دیا تمہاری گندی اولاد نے میرا” وہ اس کو بیڈ پر بٹھا کر غصے سے شہادت کی انگلی دکھاتی وارن کرتی ہوئی باتھ روم کی طرف بڑھی تاکہ پانی گرم کرکے نہلا سکے۔ کشور بیگم اس وقت آرام کر رہی تھیں ورنہ وہ یوں روہانسی نہ ہوئی ہوتی۔
“اچھا اچھا سن لو میری بھی۔۔ بھوک لگی ہے کیا؟” وہ ہولے سے اس کا غصہ مٹانے کو بولا تو وہ جو کھانے کی اتنی شوقین ہے فوراً سے اس پیار بھرے لہجے پر قربان گئی۔ آؤٹنگ کے خیال ہی سے تازہ دم ہوئی تھی۔
“ہاں ۔۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات تھی؟” وہ مسکرا کر بولی اورباتھ ٹب میں گرم پانی والا نل چلا دیا۔
“بہت اچھی بات ہے۔۔ کھانا کھا کر تیار ہو جاؤ اور امی ، ابوکو بھی بتا دوہم گاؤں کے لیے نکل رہے ہیں۔” اس نے کہا اور اگلی سنے بغیر مزے سے سیٹی بجاتا اسے جلتی بھنتی چھوڑ کر کال بند کر گیا تھا۔
اور وہ۔۔
ذرا جو مسکراہٹ آنے ہی لگی تھی۔۔ ‘بے ہودہ انسان’
باہر آکر موبائل ڈیسنگ ٹیبل پررکھا اور مڑی تو دیکھا کہ وہ جسے بیڈ پر ٹکا کر آئی تھی وارننگ کے باوجود اب بیڈ کے میٹرس سے لڑھک کر فرش پر بیٹھا اپنے باپ کی چپل کان سے لگائے اس کی نقل اتار رہا تھا۔اگر مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ کیا تھا تو سر بھی پیٹ کر رہ گئی کہ جوتا اب اس کے منہ کے پاس پہنچ رہا تھا۔
ایک بار پھر منہ سے نکلا تھا ‘گندی اولاد’
“یا اللہ میں مانتی ہوں کہ غصے میں اسے ایسی ہی اولاد کی بددعائیں دیتی رہی ہوں مگر اب اس میں مجھے کیوں پھنسا دیا آپ نے” وہ باآوازِ بلند بولتی عبدالباری کی طرف بڑھی تو وہ قلقاری مار کر باہر کی جانب بھاگا تھا۔
آخر تھا بھی تو حبل زمان کا بیٹا۔ اتنی جلدی ہاتھ کیسے آجاتا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“چچی ! ابھی ابوکی کال آئی تھی۔ آپی کو ہاسپٹل لے کر جا رہے ہیں۔ دعا کے لیے کہا ہے۔ “عبادت نے کمیل کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے پاس سے گزرتیں آمنہ بیگم سے کہا۔کمیل ذومعنی نظروں سے اسے دیکھنے لگا تو اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر رہ گئی۔
“ایسی فضول نظروں سے نہیں دیکھا کریں ۔ ابھی میں بچی ہوں” کھانا کھاتے کمیل کے گلے میں جانے کیا اٹکا تھا کہ کھانسنے لگا تھا۔عبادت نے نظر انداز کیا۔ جانتی تھی یہ اس کے آج کل کے ڈرامے تھے۔ مگر وہ طے کیے بیٹھی تھی تب تک نہ ہاتھ آئیگی جب تک منال کی شادی نہیں ہو جاتی۔
“اور میں جانتی ہوں بھائی کو کھانسی کیوں آرہی ہے” منال پاس بیٹھتی ہوئی بولی تو وہ جو پہلے کھانسی کا ڈھونگ کر رہا تھا اب صحیح معنوں میں کھانس دیا۔ آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں۔ یہ ٹڈی سی تھیٹا لڑکی کتنی بڑی جاسوس ہے۔
“کیوں؟” کمیل نے پانی پی کر اسے دیکھا۔
“دوپہر میں ابو کے ساتھ گول گپے کھا کر آئے ہیں آپ۔ مجھے سب معلوم ہے”اس نے اپنی عینک کو ناک پر درست کیا۔ وہ دونوں جو حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے، اب سکو کا سانس خارج کیا۔
“یہ تو ہو گیا ایک بہانہ۔۔ اب بات یہ ہے کہ جو میری بھابی کو ورغلاتے ہیں ناں آپ۔ باز آجائیں۔ اٹھو عبادت” اس نے کمیل کو گھورتے ہوئے کہا اور اسے اٹھانے لگی۔
“او ہیلو تھیٹے! یہ میری بیوی ہے۔۔ جو چاہوں بات کر سکتا ہوں۔ تم کباب میں ہڈی بننا چھوڑ دو ۔ اور جو یہ تم اس کی فضول گوئی میں آتی ہو مر نہ جانا کسی دن میرے ہاتھوں دونوں ہی” کمیل نے عبادت کو گھورتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پر بٹھایا اور ساتھ والی ہی کرسی پر کود بھی براجمان ہو گیا۔ عبادت کی پہلے والی جھجھک کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔
“ایسی بات ہے؟” منال نے گھور کر ابرو اچکائے اور ایک کرسی گھسیٹی اور عین کمیل کے سامنے بیٹھ گئی۔
“ہاں” کمیل نے للکارنے والے انداز میں اسے دیکھا۔
“پھر عبدالباری کے پاس چھوڑ آئیں ناں میں نے ملنے جانا ہے اس سے۔۔آپی کو تو ملوانے لے چلیں ناں” وہ جو کچھ اور سوچے بیٹھا تھا ، اس کی طرف سے اس عجیب مطالبے پر حیران ہوا۔
“تم واقعی یہی چاہتی ہو؟” اس نے تھوڑا سا آگے ہوتے ہوئے کہا۔
“ہاں ناں۔۔ معطرہ سے بھی ملنا ہے بھائی سچ میں زہرہ بی بھی بہت یاد آرہیں۔ اب تو جبل بھائی بھی آرہے ناں کچھ دن تک۔ لے چلیں ناں۔ایک آدھ دن کی چھٹی تو ماری جا سکتی ناں آفس سے” وہ منتیں کر رہی تھی۔ عبادت بھی رونی صورت بنا کر اسے دیکھنے لگی تھی۔ ظاہر ہے اس کے بابا بھی وہیں حویلی میں مقیم تھے۔
“ٹھیک ہے لے جاتا ہوں لیکن ایک شرط پر” وہ دونوں کو دیکھ کر کچھ سوچتا ہوا بولا۔
“سب شرطیں منظور” منال نے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔
“دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ مجھے اپنی بیوی سے دو گھڑی بات کرنے دیا کرو۔ آئیندہ دوررہنا جب ہم دونوں اکٹھے بیٹھے ہوں۔ اب نکل لو” اس کی پونی کھینچ کر وہ عبادت کی کلائی تھام کر باہرلان کی طرف نکل گیا ۔ منال غصے کے باوجود مسکرا دی تھی۔ جبکہ کمیل مسکراہٹ چھپاتی عبادت کو دیکھ کر واری ہونے لگا۔
اِدھر ہے کوہ کنِ دشتِ عشق ــــ یعنی میں
اُدھر ہے حُسنِ نزاکت مآب ـــــ یعنی تُو
بہت طویل سہی داستانِ دل، لیکن
بس ایک شخص ہے لُبِّ لُباب ـــ یعنی تُو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میں تو سوچ رہا تھا کہ تم بھلا ہی چکے ہو ہمیں” شیر زمان نے سامنے کھڑے اپنے شیروں جیسے بیٹے کو خود میں بھینچتے ہوئے کہا۔
“آپ کبھی کبھار بہت ہی غلط سوچ جاتے ہیں ابو” جبل نے ان کو زور سے بھینچا اور الگ ہو کر کشور بیگم سے ملنے لگا ۔ فجر اپنا بیٹا’عون’ قدسیہ بیگم کے حوالے کیے، زہرہ بی سے مل رہی تھی ۔ اس اتنے عرصے میں اسے اگر کوئی سب سے زیادہ یاد آیا تھا تو وہ ہستی صرف زہرہ بی تھیں۔ اپنے عصا کو لہرا کر اسے گانے گنگنانے سے، قہقہے اور ٹھٹھے لگانے سے باز رکھنے والی زہرہ بی۔ ۔۔
دونوں بہت دیر تک ساتھ لگی بیٹھی رہی تھیں۔ جبل بھی وہیں ان کے پاس براجمان ہو گیا تھا۔ معطرہ بڑے مزے سے جبل کی گود میں چڑھے بیٹھی تھی۔غنویٰ کو چونکہ ہاسپٹل سے چھٹی مل چکی تھی سو سبھی لوگ حویلی ہی میں جمع تھے۔ ہر طرف جشن کا سا سماں تھا۔ اسی دوران میں نمل بھی اپنا بیٹا منال کے حوالے کیے وہاں چلی آئی۔
“اس سے پہلے کہ آپ میرے اس قمیص کے حشر نشر کی وجہ پوچھیں۔ میں پہلے ہی بتا دوں یہ آپ کے پڑ پوتے کے کمال ہیں۔ مجال ہے جو ایک جگہ ٹک جائے” آتے ہی زہرہ بی کی نظروں کا مطلب سمجھ کر بولی۔وہ جلی بھنی پڑی تھی۔ فجر جو اس وقت بہت ہی پیاری لگ رہی تھی اس کی اس بات پر ہنس دی۔
“عون بھی کم نہیں ہے۔ جانتی ہو یہ اس حد تک مجھے نچاتا ہے کہ کیا ہی کوئی اپنی ماں کو تنگ کرتا ہو گا۔ ابھی تم سوچ نہیں سکتیں یہ تمہارا دیور۔۔۔”
“آدھا گھنٹہ بڑا دیور”جبل نے لقمہ دیا تو وہ سر جھٹک کر رہ گئی۔
“یہ تمہارا ‘آدھا گھنٹہ بڑادیور’ جو خود بھی میری جان کو آیا رہتا ہے، اپنے بیٹے کو بھی ایسی ترغیبات دیتا ہے کہ وہ جو تھوڑی بہت سنتا تھا میری،، اب وہ بھی نہیں سنتا۔بولنا ٹھیک سے آیا نہیں ہے اور ہر وقت یوں میراثی بنا کچھ نہ کچھ گنگناتا رہتا ہے” فجر نے غصے سے اپنی طرف روتے ہوئے آتے عون کو دیکھا اور زہرہ بی کو’لیں دیکھیں’ کا اشارہ کیا۔
“نہیں ویسے فجر یہ تو عادت تم میں نہیں تھی؟” نمل حیرانی سے اسے دیکھتی ہوئی عون کواپنی گود میں بٹھا کر بولی تو جبل ، اندر داخل ہوتے حبل، کمیل اور سجاول نے بے اختیار قہقہہ لگایا تھا۔فجر اسے گھورنے لگی تھی۔
“جو مرضی کر لو۔ بیٹھی تم میرے خاندان میں ہو۔ اس لیےمیری برائی سے باز ہی رہو”جبل نے عون کو نمل کے ہاتھوں سے لیا اور سجاول کی طرف بڑھایا۔ وہ بڑے پیار سے اسے اٹھائے باتیں کرنے لگا۔ ماموں بھانجے کا پیار۔ وہ شیطان سا بچہ ہاتھوں سے پھسلتا جاتا تھا۔
“بس شروع۔۔ اسے تو موقع چاہیے سب کے سامنے میری عزت افزائی کرنے کا”فجر منہ بنا کر بولی۔
“اچھا بس کرو لڑکی! شوہر ہے یہ تمہارا۔۔کچھ ہدایت پکڑو۔ لو بھلا مجھے تو لگتا ہے تم وہاں بھی یہ ہی حرکتیں کرتی ہو تبھی میرے بیٹے کا اتنا سا منہ نکل آیا ہے” زہرہ بی اسے ڈپٹتے ہوئے بولیں۔ فجر جتنا جل سکتی تھی جل گئی۔
“یہ اب دل کے پھپھولے پھوڑنے غنویٰ کے پاس جائیگی۔ وہی ایک اس کی سنتی ہے” سجاول قہقہہ لگاتے ہوئے بولا تھا۔
“تائی امی کہہ رہی ہیں کہ لاؤنج میں آجائیں۔کھانا آج لاؤنج میں کھائیں گے ہم۔ آئیں زہرہ بی ہم سب سے پہلے جگہ لیں گے “منال نے اندر داخل ہوتے ہی شور مچایا اور آگے آکرزہرہ بی کوسہارا دے کر اٹھایا۔
“میں بتا دوں کہ چھوٹا صوفہ میرا ہے۔ اور یہ جو اب ‘گندی اولاد ‘ میری طرف آ رہی ہے اسے اس کا باپ ہی اٹھائے گا” اس نے مٹی میں لتھڑے عبدالباری کو قلقاریاں لگاتے اپنی طرف آتے دیکھا تو غصے سے بولی۔ ایک تو وہ اس عادت سے بہت عاجز تھی۔ فجر نےاس کی ٹانگ پر چٹکی کاٹی اور بچے کو خود اپنی گود میں لے کر اٹھ گئی۔
“میں دھلوا دیتی ہوں منہ۔ کبھی جو ہل کر کام کیا ہو”فجر کے کہنے کی دیر تھی وہاں بیٹھی نمل کا منہ ایک دم کھلا تھا۔ یہ وہ لڑکی تھی جو خود اٹھ کر پانی بھی نہ پیتی تھی۔
“ہمیں اپنوں نے لوٹا ، غیروں میں کہاں دم تھا۔۔۔”نمل نے پیچھے سے ہانک لگائی ۔
“ہمیں بم نے اڑیا ، گولی میں کہاں دم تھا” جبل نے فلبدیہہ ایک مصرعہ بنایا مگر وہاں بیٹھا حبل ایک دم اٹھا اور بولا
“پھر بھلا کیا ہوا؟ پھر ہمیں کرین نے اٹھایا ، گاڑی میں کہاں دم تھا” اونچی آواز میں نمل کے بھرے بھرے سے وجود کو نشانہ بنا کر یہ جا وہ جا۔۔۔
وہ اب سب کے سامنے اسے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ کہ آخر یہ وہی گھر تھا جہاں اب بھی بیاہی بیٹیوں کو روکنے ٹوکنے میں عار محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ پھر چاہے بیٹی اٹھ کر منہ بناتی یا ناراض ہی کیوں نہ ہو جاتی۔ لیکن تربیت اب بھی یوں ہی جاری رہتی تھی۔ ہر ماں اپنی بیٹی کی غلطی کو سدھارنے میں پیش پیش تھی۔ پھر چاہے وہ قدسیہ بیگم تھیں ، کشور بیگم یا آمنہ بیگم۔۔ کیونکہ زہرہ بی بھی اب تک اپنی بیٹیوں کو روکتی ٹوکتی سمجھاتی رہتی تھیں۔اور ماؤں کی تربیت بیٹوں میں نہیں لیکن بیٹیوں میں ضرور نوٹ کی جاتی ہے۔ بیٹے جیسے بھی ہوں زندگی نبھا لیتے ہیں ۔ لیکن بیٹیوں کو زندگی کو یوں گزارنا پڑتا ہے جیسے کسی اڑیل گھوڑے کو سدھایا جاتا ہے۔
وہ اٹھی اورباہر لاؤنج کی جانب چل دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کیاہوا؟” وہ جو وضو کر کے نکلی تھی اب ‘سی سی’ کر رہی تھی۔ سجاول کمرے میں داخل ہوا تو اسے قمیص کے بازو ٹھیک کرتے پیلی سی رنگت میں کھڑی دیکھ کر پوچھا۔
“محمد کو فیڈ کروانا تھا۔ وضو کرنے گئی ہوئی تھی۔ گیزر خراب ہو گیا ہے شاید، پانی بہت ٹھنڈا تھا” وہ ہکلاتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
“اب یہ تمہیں وضو کرنے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی ” وہ گھورتا ہوا اسکی طرف آیا۔
“بچے کو فیڈ کروانا تھا سجاول زمان” اس نے بھی صبیح پیشانی پر تیوری ڈال کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
“تو وضو کا اس بات سے کیا تُک؟” وہ کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ اور بات لہجے میں نرمیاں گھلی ہوئی تھیں۔
“بحث مت کیا کریں ہر بات میں۔”وہ اکتا کر سانس کھینچتی بے بی کاٹ کی طرف آئی۔سنہرے مکئی جیسے بالوں اور روئی جیسے گالوں والے بچے کو گود میں لے کر بیڈ کی طرف آئی۔اس نے بچے کو فیڈ کروانے کے اوقات مقرر کر رکھے تھے۔ اور بچہ بھی ایسا وقت کا پابند کہ وقت پر ہی انگڑائیاں لینی شروع کر دیتا تھا۔
“تم بات سنو میری۔۔ خبردار آئیندہ بتائے بغیر تم بیڈ سے اتریں بھی” وہ غصے سے اسے دیکھتا ہوا اسی کے قریب بیٹھ گیا۔
“آپ اٹھ کر جائیں میں آجاؤں گی باہر”اس نے خود میں سمٹتے ہوئے اسے وہاں سے اٹھانا چاہا۔
“میرے یہاں بیٹھنے میں کیا مسئلہ ہے؟ تمہارا شوہر ہوں اس کا باپ ہوں ” وہ محمد کو اس کے ہاتھ سے لیے بیڈ پر سیدھا دراز ہونے لگا تو غنویٰ نے فوراً سے بچے کو واپس لیا۔
“سجاول بات کو ایک دفعہ میں مان لیا کریں ۔ اٹھیں باہر جائیں۔”اس نے اسے کندھے سے اٹھانا چاہا جو کہ نا ممکن تھا۔
“وجہ؟” وہ اٹھا اور اسے گھورنے لگا۔
“وجہ؟ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔ پر آپ کو کیا پتہ وہ کیا ہوتی ہے۔۔ اٹھیں اب” اسے پھر سے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“ایک تو تمہاری اس شرم سے بہت تنگ ہوں میں” سجاول منہ بناتا اٹھا تھا۔
“ہاں تو لے آئیں کوئی اور، بہت تنگ ہوں میں”اسکی نقل اتارتی وہ پرانی غنویٰ کہیں سے نہ لگتی تھی۔
“خدا کا خوف کرو۔ دو کو بھگتا چکا ہوں۔ اب تو اللہ نے جنت میں سے میرے حصے کی حوریں بھی کم کرتے جانا ہے کہ بھئی تم تو دنیا میں ہی بھگتا آئے ہو” وہ ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھا تھا۔
“بس اب چپ کر کے باہر چلے جائیں میرا وضو خراب مت کروائیے گا” غنویٰ نے بچے کو گود میں ڈالا اور اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی۔
“وضو کیوں کیا تھا یہ تو فرما دیتیں”سجاول پھر سے مڑا۔
“تاکہ میری اولاد کے پیٹ میں کچھ جائے بھی تو پاک ہو۔ وضو کرکے فیڈ کروانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ میرا بیٹے کے جسم کو لگنے والا ایک ایک قطرہ پاک ہو” اس نے کہا اور دوپٹہ پھیلانے لگی کہ سجاول کے وہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہ لگتا تھا۔
“میں تو سوچ رہا ہوں تمہیں دل میں رکھ لوں۔ ایویں یہاں بیڈ پر بیٹھی ہوئی ہو” اس نے آنکھوں میں شرارت سمو کر کہا۔ کہیں سے نہ لگتا تھا کہ یہ وہ سجاول زمان ہے جو اس کے سامنے بہت سنجیدہ سا رہتا تھا۔
“آپ باہر جاتے ہیں یا تائی امی کو بلاؤں؟” اس نے شہد رنگ آنکھوں میں غصہ سمو کر کہا تو وہ جو باہر جانے کو مڑا ہی تھا، واپس اس کی طرف آیا۔ وہ شہد رنگ آنکھیں اس وقت غصے سے سنہری سی ہورہی تھیں ۔
ان جیسی آنکھوں والے، جب آ رکتے ہیں ساحل پر
تو لہریں شور مچاتی ہیں ــــــــ لو آج سمندر ڈوب چلا
آگے بڑھ کر اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا اور دونوں آنکھوں پر لب رکھے ۔
“بس کرو اب” اسےکندھے پر دھکیلتی ہوئی غنویٰ نے کہا۔
“یقین جانو ! یوں دھمکاتی رعب ڈالتی سیدھی دل میں اترتی جاتی ہو” مسکرا کر اسے دیکھا پھر جھک کر منہ بسورتے رونے کو تیار محمد کے گالوں کو چٹاچٹ پیار دیا اور باہر نکل گیا۔
اور وہ۔۔۔
مسکرانے کے علاوہ چارہ بھی کیا تھا اب۔۔
کہ وہ عطا کی گئی تھی ایک خاص دولت سے۔۔
اور ہاں وہ کہتا ہے کہ
“تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے”
وہ یہ بھی ضرور ہی کہتا ہے کہ ایک چاہت تیری ہے اور ایک چاہت میری ہے۔اور پھر اگر ہم بنی نوعِ انسان اپنی چاہت کو اس کی چاہت میں ڈھال لیں تو وہ وہی عطا کرتا ہے جو ہماری چاہت ہو، کیونکہ وہ کسی کو اس کی سکت اور برداشت سے زیادہ دکھ نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جوا س کی خواہش کا مقدم جانے اسے بقاء کیسے عطا کرنی ہے۔
اور اللہ سے بہتر عطا کرنے والا کون ہے؟؟پھر چاہے تار تار ہوئی رگوں کو دوا عطا کرنی ہو یا پھر بے سکون روح کو سکون عطا کرنا ہو۔
یا کسی بھٹکے ہوئے کو راہ پر لانا ہو یا مہر لگے سیاہ دل کو نور عطا کرنا ہو۔
بے شک وہ بہترین عطا کرنے والا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...