“میرے بغیر ہی اتنا کچھ کر لیا۔ بھلا دیا نا تم لوگوں نے مجھے” وہ رونے کو ہوا تھا۔ زوئنہ نے کل سے اب تک اس سے بات نہیں کی تھی۔ کھانا کھا کر دوبار ہ کمرے میں بند ہو جاتی تھی اور وہ تھا کہ اسے بلانا بھی چاہتا تو یوں اگنور کرتی کہ جیسے جانتی ہی نہ ہو۔ اس کے لیے یہ رویہ تو برداشت کے قابل ہرگز نہ تھا لیکن صرف اس لیے چپ تھا کہ اپنی کو بات کہیں واقعی پوری نہ کر بیٹھے۔
“عجیب شخصیت بن رہا ہے تو۔ تجھے پتہ تو تھا کہ ہونا ہی ہے نکاح۔ اب لالہ نے جانا تھا کم وقت میں تو یہی ہو سکتا تھا۔ ہم خود آج صبح ہی آ پائے ہیں۔ ” جبل کا دل کیا اسے بے نکت سنائے مگر صبر کیے جو بول سکا بول دیا۔
“کب کی فلائٹ ہے لالہ کی؟” اس نے گہرا سانس لے کر خود کو نارمل کیا۔
“نیکسٹ فرائڈے(اگلے جمعے ) ” اس نے بس اتنا ہی جواب دیا۔
“میں نے کچھ بات کرنی تھی تجھ سے یار” سجاول اچانک ہی افسردہ سا ہوا تو جبل کو بے چینی نے گھیرا۔
“کیا ہوا ہے؟ اتنا اداس کیوں لگ رہا ہے؟”
“یار مل لے کہیں ۔ میں بہت ساری باتیں لیے بیٹھا ہوں۔ کہیں مل لو تم دونوں مجھ سے”
“سجاولے ٹھیک طرح سے بول بات کیا ہے۔ ہم نہیں آ پائیں گے اب ۔ تو جانتا ہے ویسی آوارہ گردی نہیں کر سکتے ہم اب۔ جاب کافی ٹف ہے” جبل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہواگویا ہوا۔
“یار جبل!!!” وہ بہ مشکل اپنے آپ کو سنبھال کر بیٹھا تھا۔
“ہوا کیا ہے؟” جبل پریشان ہوا۔
” کچھ دن تک میری اور زوئنہ کی انگلینڈ کی فلائٹ ہے۔ یہ بس دو دن کا وقت ہے درمیان میں۔ میں چاہ رہا تھا مل لیتا تم لوگوں سے۔ ابو تو اب دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں ورنہ میں ہی آ جاتا” اس نے بات کو چھپائے رکھنا ہی مناسب سمجھا۔
“پکا کہ یہی بات ہے؟” جبل مشکوک ہوا تو وہ تلخی سے مسکرا دیا۔
“ہاں تو اب کیا میں باتیں چھپاؤں گا تم سے؟”
“لگ تو یہی رہا ہے۔ لیکن خیر ۔۔ میں کچھ دیر میں کال کرتا ہوں تجھے۔ ابھی زہرہ بی کو چیک اپ کے لیے لے کر جانا ہے” جبل نے کہا اور خداحفظ کہ کر کال بند کر دی۔
تو یہ طے ہوا کہ رگیں کھینچ دی جانی تھیں۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اژدھا بن کے رگ و پے کو جکڑ لیتا ہے
اتنا آسان نہیں غم سے رہا ہو جانا
” میں حیران ہوں چودھری صاحب اس نے کیسے اپنے باپ کو یہ کہہ دیا۔ میں نے کہاں اس کو کمی دی تھی؟ ابھی بھی جب اس نے پیسے مانگے میں نے رکشے کی تھوڑی بہت مرمت کروا کر اپنی بیٹی سے آنکھ بچا کر اسے رقم فراہم کی۔ ” آنسو ان کی بوڑھی آنکھوں سے چھلکتے جاتے تھے۔
“اکرم اتنا نہ سر پر سوار کیا کر میرے بھائی۔ اولاد ایسی ہی نکمی ہوا کرتی ہے” فخر زمان نے ان کے کندھے پر ہاتھ دھرا۔
“فخر پا جی میری دھی بھی تو ہے۔ آج تک اف نہیں کی اس نے۔ ” وہ معترض ہوئے تو فخر زمان تلخی سے مسکرا دئےے۔
“اور دھیاں ہی تو آج کل ماں باپ کو سنبھال رہی ہیں اکرم۔۔۔ تو نے ابھی دیکھا نہیں کہ میں کہاں ٹوٹا ہوں ۔ میرے تو بھائی بھی نہیں جانتے میری ٹوٹ پھوٹ۔ آج تک میں نے ماں کو نہ نہیں کہی تھی۔ آج میں اپنا پورا کا پرا پلا پلایا جوان بیٹا ایک ایسی لڑکی کو تھما آیا ہوں جس کے طور اطوار مجھے وہاں ایک منٹ میں نظر آگئے تھے۔” وہ روئے تو نہ تھے البتہ تھکے ماندے تھے۔
“میں تو کہتا ہوں ایسی اولاد سے انسان بے اولاد مر جائے”
“نہیں چودھری صاحب۔۔۔نہ۔۔ ایسی بات نہیں منہ سے نکالا کرتے۔۔ جہاں رہیں خوش رہیں بس ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔” اکرم چاچا تڑپے تھے۔
ہائے یہ اولاد اور اس کے دکھ۔۔۔۔
“دیکھ اکرم! آج میری دھی کا نکاح تھا۔ میرے پتر کو میرے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ اکرمیا او تے آیا ای نئیں۔۔ اونے تے بھلا ای دتا سانوں”
(اکرم! وہ تو آیا ہی نہیں۔ اس نے تو بھلا ہی دیا ہمیں)
جانے کتنے دکھ اس لہجے میں ٹوٹے کے بکھرے تھے۔
“چودھری صاحب اے اولاد اے۔۔ ازمائش۔۔ میں نئیں کہیندا تسیں اتوں منہ موڑو۔۔ اگر او انج کر ریا اے تے تسیں انوں پچھ لو۔ کی پتہ تہاڈی راہ تکدا ہوئے”
(چودھری صاحب یہ اولاد ہے۔۔ آزمائش۔۔ میں نہیں کہتا کہ آپ اس سے منہ موڑیں۔ اگر وہ ایسے کر رہا ہے تو آپ اس کو پوچھ لیں۔۔ کیا پتہ وہ آپ کی راہ تک رہا ہو)
اکرم کے کون سے غم تھے جو ایک ہی لفظ میں سمٹ آتے؟؟
دراڑ۔۔
یہی ایک لفظ تھا ۔۔ یہی تھا۔۔ دل میں نہیں آئی تھی یہ دراڑ۔۔ ہاں مگر لہجوں میں آئی تھی۔ سانسوں میں آئی تھی۔ جانے کب یہ دراڑ پوری عمارت کو ڈھا دیتی۔۔۔
“تیری بھی تو اولاد ہے نا۔۔ تیرا دل نہیں کرتا عادل تیرے پاس آ کر رہے؟ “فخر زمان نے سامنے پڑا رجسٹر بند کیا اور ان کی طرف دیکھنے لگے۔ غنویٰ کے کہنے پر شیرزمان اور فخرزمان نے انہیں منشی کے طور پر رکھ لیا تھا۔ رکشہ اب یہیں ڈیرے پر ایک طرف ڈال دیا گیا تھا۔ اور جو کام ان کے سپرد اب کیا گیا تھا وہ نہ تو مشقت طلب تھا نہ ہی ان کو گھر سے دور اور بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ ہاں مگر اولاد کا غم۔۔۔ یہ تھا کہ جان نچوڑے رکھتا۔
“میرے دل کو چھوڑیں چودھری صاحب۔۔ وہ بس جہاں رہے خوش رہے۔ میری نسل بڑھ رہی ہے مجھے اور کیا چاہیے۔ اللی سلامت رکھے میری نسل کو۔۔ میری پشتوں تک کبھی کوئی اولاد اپنے ماں باپ کو وہ دکھ نہ دے جو میں نے سہے ہیں” آنکھوں میں آنسو لیے وہ رجسٹر اٹھا کر باہر کی جانب بڑھے تو فخر زمان ان کو دیکھتے رہ گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اے میری آنکھ کے پانی میں نہائے ہوئے شخص
تجھ کو معلوم نہیں ــــــــــ ضبط کہاں ٹوٹتا ہے
وہ بہت دیر سے وہاں لان میں اجڑی ہوئی حالت میں بیٹھی تھی۔ آج کل یہ خواب تھے کہ جان نکالے رکھتے تھے۔ کیا تھا اگر وہ ان آنکھوں کو ہی بینائی سے محروم کر دیتی۔ دل الگ تڑپتا تھا اور روح الگ کانپتی تھی۔ آج بھی ایسا خواب گزرا تھا کہ بھلائے نہ بھولتا تھا۔ سب اپنے کمروں میں بند تھے اور وہ اس آدھی رات میں لان میں اندھیرے میں خود کو چھپائے آدھی موت کے منظردہراتے ہوئی ڈر رہی تھی۔
آندھی کیوں آ رہی تھی خواب میں۔۔ آواز تو وہ اپنی ہوش میں بھی سن چکی تھی۔۔ پھر اس آندھی کا کیا مطلب۔۔۔
مطلب سوچتے ہوئے بھی ڈر آتا تھا۔۔
اس کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں اور چادر مسلسل رونے کے باعث اچھی خاصی بھیگ چکی تھی۔ لوہے کی ٹھنڈی کرسی پر بیٹھی ننگے پاؤں گھاس پر جمائے وہ خواب سوچتی اور اس طرف دیکھنے لگ جاتی جس طرف سے اسے خواب میں یہ آواز سنائی دیتی تھی۔ اس طرف بہت سے درخت لگے تھے۔ چھوتا سا باغ بنایا گیا تھا۔ لان والا حصہ اس حصے سے بہت الگ تھلگ تھا کہ یہاں کچھ کیاریوں اور پھولوں کے گملوں کے علاوہ ہلکی ہلکی گھاس تھی جبکہ وہ حصہ جسے سب ‘پائیں باغ’ کہتے تھے ، میں کچھ درخت بھی لگائے گئے تھے۔ اس طرف سے آندھی ۔۔ تو وہ وجود کیوں گم ہوتا ہے اس آندھی میں۔۔۔
آنکھ میں سرخ آب کا مطلب
تم سمجھتے ہو خواب کا مطلب؟
رکے ہوئے آنسو پھر سے بہنے لگے۔ تو کیا یہ لکھ دیا گیا تھا کہ اب ہی مجھے خود کو رولنا تھا؟ کیوں میں اس کو سوچتی ہوں جب وہ میرا کچھ ہے ہی نہیں۔ میرا تو کوئی شرعی تعلق نہیں نا اس سے۔۔ پھر کیوں گرا گیا اتنا بری طرح مجھے۔۔۔ اور کس مقام پر گرا دی گئی ہوں۔ ۔مجھے تو رب کی محبت چاہیے تھی نا۔۔ کہاں خطا کی میں نے۔۔ کہاں بھول چوک ہوئی مجھ سے۔۔۔
“اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں ۔ ”
اوہ۔۔۔ اوہ اللہ میں نے اسے دیکھا تھا۔۔ ہاں میں اسے غور سے دیکھا تھا۔۔۔
اوہ اللہ یہ کیا ہوا۔۔ میں نے اسے کئی بار دیکھاتھا۔۔ یہاں تو پہلی کے بعد ہر نظر حرام تھی۔۔۔ یہ کیا کیا تھا میں نے۔۔ یہی تھی میری خطا۔۔
“اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ظاہر ہو ان کا چھپا ہوا سنگھار”
اوہ خدایا۔۔۔ تو نے تو پاؤں کے سنگھار کی پائل کی آواز تک کو چھپانے کا حکم دیا۔میں نے تو آواز کا بھی سنگھار ظاہر کر دیا۔۔۔ یا اللہ میں اتنی کمزور کیوں ہو گئی۔۔ مجھے کیوں نہیں ہوش آیا۔۔
آنسو تھے کہ اب ٹپکتے ہی جاتے تھے۔۔
“میں امی سے کہوں گی کہ پھوپھو ریاض کو ہاں کہہ دیں۔۔ میرے لیے وہی تعلق رہے جو حلال ہو۔۔ مجھے نہیں رہنا اس سوچ میں بھی۔۔ مجھے نہیں وہاں رہنا جہاں اس شخص کا سایہ بھی ہو۔۔ میں نے نہیں دل کو زنگ آلود کروانا” ایک فیصلہ مسمم کیا اور آنسو بے دردی سے صاف کرتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اج موسم شاکرؔ چس دا اے
دل آہدا اے یار نوں مل آواں
آج اسے یہاں آئے ہوئے ہفتہ ہو چلا تھا۔ گھر والوں نے اس سے کوئی رابطہ کیا تھا اور نہ ہی اس نے خود ہی کوئی کوشش کی تھی۔ اگر فخر زمان نے اسے اپنے دل سے نکال پھینکا تھا تو اس کا بھی واپس اپنا تسلط ظاہر کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس کا دل ان سے کٹتا ہی جارہا تھا۔ دوسری طرف زوئنہ نے بھی اس سے لا تعلقی بنا رکھی تھی۔ ایسے حالات میں اس کا دل کرتا کہ کہیں جا مرے یا وہیں سکون ڈھونڈے جہاں اس نے اپنی نرم گرم شال میں چھپتی لڑکی کو گاتے دیکھا تھا۔ لیکن ایسا تو ہرگز ممکن نہ تھا کہ وہ اس سے مل آتا۔ ہاں یہ ممکن تھا کہ زوئنہ جو مکمل طور پر اس سے دور ہو رہی تھی اسے منا لیتا۔ لیکن منانے کی جو صورت اسے درکار تھی وہ تو سجاول زمان کو کسی بھی قیمت پر منظور نہ تھی۔ خود کو سمجھاتا وہ اٹھا اور لاؤنج میں بیٹھی زوئنہ کے پاس چلا آیا۔
“اتنے دن ہو چکے ہیں یہاں آئے ہوئے۔ میرا خیال ہے ہم یہاں گھومنے آئے تھے زوئنہ” اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اس نے ریموٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
“تم جاؤ گھومو۔ مجھے کوئی شوق نہیں ” اس کے ہاتھ سے ریموٹ کھنچتے ہوئےاس نے کہا۔
“ایسے کیسے چلے گا۔۔۔ کتنے دن سے منہ بنا کر گھوم رہی ہو۔۔ اب تو مان جاؤ یار۔۔ ” وہ اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“میں شوق سے منہ ہرگز نہیں بناتی۔ تم ہر بار ایسا کام کرتے ہو کہ مجھے خود کو لمیٹائز (حد میں)کرنا پڑتا ہے۔اور اب میرا موڈ مزید خراب مت کرو جان چھوڑو میری ” اس کی نظریں سامنے چلنے والی مووی پر تھیں۔لہجہ سرد تھا۔۔۔
“ادھر میری طرف دیکھو۔۔”سجاول نے اس کا رخ اپنی طرف کیا ۔
“یہ ایک بےبی آجائے پھر آئی پرامس کوئی بھی ڈیمانڈ نہیں کروں گا۔۔ رئیلی آئی پرامس” اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر ہولے ہولے سمجھانے لگا۔ زوئنہ اس کے علاوہ یہاں وہاں موجود ہر چیز کو دیکھ رہی تھی۔
“چلو اب اٹھو باہر چلتے ہیں کہیں۔۔ اٹھو”سجاول نے ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا مگر وہ دوبارہ سے بیٹھ گئی۔
“جس دن یہ تمہیں مل جائے اسی دن مجھے اس گھر سے بھی نکال لینا۔ اس دن تک مت سوچنا کہ میں کچھ بھی لگتی ہوں تمہاری” نظریں اب بھی سامنے ایل ای ڈی پر ہی فکس تھیں۔
“فضول باتیں مت کرو۔ میں نے تم سے کبھی اس قسم کا تعلق نہیں بنایا جو تمہارے یا میرے لیے طعنہ بنے ۔شرعی رشتہ ہے ہمارا۔۔ اگر پریگننٹ ہو بھی چکی ہو تو جائز اولاد ہے ہماری۔۔ ۔ پھر آخر تم اسے بھی کیوں ختم کروانے پر تلی ہوئی ہو” وہ بھی دھپ سے صوفےپر گرتا ہوا بولا۔ البتہ بہت غصے کے باجود اس نے آواز کو نارمل رکھاتھا۔
“مسٹر سجاول زمان یہ اولاد میری مرضی کے بغیر آئیگی تو میں ختم ہی کرواؤں گی اسے۔۔ سر پر نہیں چڑھاؤں گی۔ سمجھے تم” وہ چیخی۔
“تم ختم کروا کے دکھاؤ زوئنہ سجاول زمان!! میں نے تمہیں نہ ختم کیا تو نام بدل دینا میرا تم”
“کیا کرلو گے تم؟؟ ہاں بتاؤ کیا کر لو گے؟ ” ریموٹ سامنے میز پر پٹختے وہ چلائی۔
“کچھ نہیں کروں گا۔ میں کر بھی کیا سکتا ہوں۔۔ خود ے لیے میں کبھی کچھ نہیں کر سکتا” وہ پہلے تو اسے غور سے دیکھتا رہا پھر بول کر اٹھا اور باہر نکل گیا۔ وہاں جہاں کی گلیوں کا اندازہ اسے خود بھی نہ تھا ۔۔۔
وہ چلا جانا چاہتا تھا۔۔۔
وہاں جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وقت کے شکنجوں نے
خواہشوں کے پھولوں کو
نوچ نوچ توڑا ہے
کیا یہ ظلم تھوڑا ہے؟
“امی پلیز سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں کر سکتی ہوں گزراہ وہاں” کشور بیگم تھیں کہ ماننے میں نہ آ رہی تھیں اور وہ تھی کہ ضد پر اری بیٹھی تھی۔
“غنویٰ میں نے ابھی تمہارے ابو سے بھی بات نہیں کی ۔ میں کیسے انہیں ہاں کہہ دوں”
“یہ تو اور اچھی بات ہے ۔ آپ اس طرح ان کو منا بھی سکتی ہیں۔” اس نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
“ہرگز نہیں ۔۔ تم کیسے رہو گی ان کے ساتھ ۔ ان کے تو بات کرنے تک کا انداز بدل چکا ہے غنویٰ” وہ فکرمند تھیں۔
“اس کی آپ فکر نہیں کریں میں ایڈجسٹ کر لوں گی ۔ آپ بس ابو سے پھو پھو کی بات کریں ۔ اور ان کو منائیں ۔ ”
“غنویٰ۔۔” وہ پرسوچ انداز میں اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں۔
“جی ؟” وہ ان کو یوں دیکھتا پا کر ٹھٹکی۔
“تم شاہیر کو پسند کرتی ہو؟”انہوں نے ریاض بیگم کے بیٹے یعنی غنویٰ کے کزن کا نام لیا اور اس کا سانس وہیں سینے میں اٹکا تھا۔
“نہیں امی۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ بس یونہی کہہ رہی تھی۔ پھوپھو آپ کو اتنی باتیں سنا کر گئی ہیں۔ میں تو بس اس لیے۔۔” اسے سمجھ نہ آیا وہ کیا بولے۔
“اچھا وہ اتنی باتیں سنا کر گئی ہیں اس چیز کی ٹینشن ہے۔ وہ آئیندہ بھی باتیں ہی سنایا کریں گی اس بات کو بھی سوچ لیتیں ۔ وہ آض اگر اتنی تیزی دکھا رہی تھیں کل کو بھی یوں ہی کریں گی غنویٰ” کشور نے اس کے ٹھنڈے ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھانا چہا۔
“میں رہ لوں گی امی۔۔ آپ بس ابو کے سامنے پھوپھو کی کوئی برائی مت کیجیے گا۔ ہاں کروا دیں بس”
“اگر کرتی ہو پسند تو بتاتی کیوں نہیں ہو؟ میں کوئی اچھا حل بھی نکال سکتی ہوں بیٹا” انہوں نے اپنی طرف سے اس سے وہ بات اگلوانی چاہی تھی جو کہ اپنا وجود بھی نہ رکھتی تھی۔
“میں زہرہ بی کے پاس جا رہی ہوں۔ آپ آج ابو سے بات کر لیجیے گا” وہ اٹھنے لگی تو انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اسے پھر سے بٹھایا۔
“آنکھوں دیکھی مکھی کون نگل سکتاہے” اس بار ماتھے پر بل واضع تھے۔
“امی۔!! آنکھوں دیکھی مکھی اس مکھی سے بہت بھلی ہوتی ہے جس سے ہم امیدیں باندھ لیتے ہیں” آواز اس وقت جانے کون سی تپش میں بھیگی تھی کہ کشور بیگم ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگیں۔
“اور آنکھوں دیکھی مکھی اس مکھی سے بھی بہت بہتر ہوتی ہے جسے ابھی ہم نے پرکھنا ہوتا ہے۔ کم از کم یہ آنکھوں دیکھی نسل پرکھی اور جانچی ہوئی تو ہوتی ہے نا” وہ کہہ کر اٹھی اور ان کو حیرت میں غوطے کھانے کو اکیلا چھوڑ گئی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے کہنا !!
میری سوچیں ہراساں ہیں
میرے جذبے پریشاں ہیں
پریشاں ہے میرا دل بھی
اسے کہنا!!!
کہ پہلے سے کہیں زیادہ
کہیں بڑھ کر
مجھے اس کی ضرورت ہے
رات زوئنہ کے ساتھ بحث کے بعد وہ یوں ہی باہر نکلا تھا ۔ چونکہ راستوں کا کوئی اندازہ نہ تھا سو وہ یہاں وہاں بس گھومتا رہا تھا۔ رات کا کون سا پہر تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ موبائل بھی ساتھ نہ لایا تھا۔ اور اگر لایا بھی ہوتا تو کس نے اسے کال کر لینی تھی۔
وہ یوں ہی گلیاں ماپ رہا تھا جب نشے میں دھت کچھ ہپی لڑکے بالوں کی میڈھیاں سی بنائے اور ان میں بیڈز پروئے ، کلائیوں میں بینڈز پہنے اور ہاتھوں میں شراب کی بوتلیں تھامے وہاں سے گزرے۔ اس نے دھیان نہ دیا ۔ ظاہر ہے اس کا ان سے کوئی مطلب نہ تھا۔ وہ چلتا چلا گیا جب اپنے پیچھے اسے لڑکھڑاتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھنا چا ہا مگر کسی نے اس کے سر کے پچھلے حصے پر شدت سے کوئی کانچ توڑا تھا۔ وہ ہوش سے بیگانہ ہو کر گر جانا چاہتا تھا مگر آنکھوں کو سامنے کا منظر دیکھتے رہنے پر مجبو ر کیا ۔ اس کو پتھروں کی سخت روش پر پھینک کر وہ گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے تھے ۔ کسی نے پاؤں سے کھینچ رکھا تھا کسی نے لڑکھڑا کر اس کے کندھے پر اپنے جوگرز رکھتے ہوئے بوجھ ڈالا ۔ وہ خود کو چھڑوا رہا تھا۔ منہ سے آہوں اور سسکیوں کے علاوہ ایک لفظ ادا نہ ہوتا تھا۔ اس نے مدافعت دکھانے کی کوشش کی تو ان کے ہاتھ میں جو آیا وہ اٹھا کر اس کی ٹانگوں پر مارتے رہے۔ کمر تک کو توڑ کر وہ راضی نہ تھے۔ جانے کس کا غصہ وہ آج اس پر نکال رہے تھے۔ منہ سے مغلظات کا طوفان ابل رہا تھا اور ہاتھوں میں پکڑے راڈ اور پتھر سب اس پر پھوڑ ڈالنے کا ارادہ کیے بیٹھے تھے۔
جب اچھی طرح تسلی ہوگئی کہ وہ تکلیف سے آواز نکال پائے گا نہ ہی اٹھ پائے گا تو ہاتھ میں پکڑے راڈ ایک آخری بار اس پر پھینکے، اس کی جیبوں کی تلاشی لی جن میں سے ایک خالی والٹ ــــجو کچھ آئی ڈی کارڈز سے بھرا تھا ــــ وہ بھی اس کے منہ پر پھینکا اوراسے بے یارومددگار چھوڑ کر لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
اس کی کمر سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور ٹانگوں سے خون بہنے لگا تھا ۔ وہ اٹھ سکتا تھا اور نہ ہی بول سکتا تھا۔ بالوں کو اس شدت سے کھینچ کر زمین پر پٹخا گیا تھا کہ اب سر بھی درد سے پھٹا جاتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج اتنا اداس ہوں غالبؔ
جیسے زلفیں جوان بیوہ کی
“یار دل بے چین سا ہو رہا ہے” جب بہت دیر کام میں دل لگانے کے باوجود وہ اپنا دھیان بٹا نہ پایا تو حبل کے کیبن میں چلا آیا۔
“چھٹی تو ہرگز نہیں ملنے والی بیٹا۔۔ اگر تو فجریاد آرہی ہے ،اسے کال کر لے۔ سمپل” حبل اپنی بے چینی چھپاتا خود کو مصروف ظاہر کرتا بس اتنا ہی بول پایا۔
“ہاں کرتا ہوں ۔۔ زہرہ بی کا بھی حال پوچھ لیتا ہوں” اس نے نمبر ملاتے ہوئے کہا۔کال جاتی رہی اور دل بیٹھتا گیا۔ دوسری طرف سے کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔
“یار وہ نہیں اٹھا رہی۔۔ میں کیا کروں دل بیٹھ رہا ہے میں” وہ تقریباً رو دینے کو تھا۔
“لے یار اتنا بھی کیا اتاولا ہونا۔۔ میں کرتا ہوں کال” حبل نے کال ملائی اور اس کے پریشان سے چہرے کو دیکھتا ہوا خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرنے لگا ۔
“ہاں فجر۔۔ کیسی ہو؟” حبل نے کہا تو جبل کی سانس میں سانس آئی۔ یہ اور بات دل ابھی بھی اچھل کود میں مصروف تھا۔
“بی بی جبل کی کال کیوں نہیں پک کی تھی؟ وہ اتنا اداس ہوا بیٹھا ہے۔ بس تھوڑی دیر میں رونے ہی والا تھا شکر ہے میری کال اٹھا چکی ہو” اس نے بات کو مزاحیہ رخ دینے کی کوشش کی مگر جبل مسکرا بھی نہ پایا تھا۔
دوسری طرف سے نہ جانے فجر نے کیا کہا تھا کہ حبل ہلکا سا مسکا دیا۔
“اچھا خیر گھر میں سب کا حال سناؤ” جانے فجر ہی اس سے ٹھیک طرح نہیں بول رہی تھی یا کیا وجہ تھی کہ حبل کا اپنا چہرہ دیکھنے والا تھا ۔ جبل کو ہول اٹھنے لگے۔
“چلو ٹھیک ہے میں رکھتا ہو ں ۔۔ سب کو سلام کہہ دینا۔ پھوپھو لوگ تو جا چکے ہوں گے نا” دو تین اور باتیں کر کے اس نے فون رکھا اور جبل کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ دونوں انہی پریشان نظروں سے خود کو دیکھ رہے تھے جب جانے کیا ہوا کہ ایک دم سے دونوں کے ہونٹوں سے سرسراہٹ سی سنائی دی جو وہیں قریب کی ہوا میں تحلیل ہوئی تھی۔
“سجاول۔۔۔”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بہت نہیں تو کم بھی نہیں تھا کہ اس نے خود کو وقت کے اس بہتے ہوئے ریلے کی طرف بہنے دیا تھا جہاں کا انجام وہ خود بھی بہت اچھے سے جانتی تھی۔ وہ جگہ جہاں اس نے اماں لینی چاہی تھی وہیں سے تو لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے اماں مانگتے ہیں ۔ اسے یہ نہ تھا کہ اس گھر سے وحشت تھی۔ اسے خود سے اور اپنی ہراساں سوچوں سے وحشت تھی۔ اسے ا ن خوابوں سے وحشت تھی جو اسے راتوں میں نیند سے جگاتے تھے اور دن میں سوچوں کو رلاتے تھے۔ اور اسی وحشت سے تو اسے انسیت ہو چلی تھی۔ اسے ڈر تھا اگر انہی کیفیات میں رہی تو کسی گناہ کی متکب ہوگی۔
اور اگر یوں ممکن ہو جاتا جیسا وہ آج کشور بیگم سے کہہ آئی تھی۔ تو کیا ہی اچھی بات ہوتی کہ اس کی سوچیں اسی ایک شخص سے منسوب ہوتیں جس پر اس کا شرعی حق ہوتا۔ پھر چاہے وہ شاہیر ہوتا یا کوئی اور۔۔ اسے پرواہ نہیں تھی۔ اس کے لیے یہی ایک اعزاز ہوتا کہ اس کے رب نے اسے ایک امتحان میں سرخرو کیا ہے۔۔ اور اسے چاہیے بھی کیا تھا۔ اس کے لیے ایک ہی نکتہ معنی رکھتا تھا۔ اور وہ تھا ‘شرعیت’ ۔کسی کو وہ سوچے ہی کیوں جب وہ اس کا کچھ ہے ہی نہیں۔ یہی تو وجہ تھی کہ وہ خود اپنی سوچوں کا سودا کرنے چلی تھی۔ یہی تو وجہ تھی کہ اس کے پاس پہلا اور قریبی اختیار شاہیر ہی تھا۔ وہ مزید انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اس سے پہلے کہ دل بے قابو ہوتا سوچیں مزید ہراساں ہوتیں۔۔ وہ اس کیفیت سے نکل جانا چاہتی تھی۔
اے بے دریغ و بے اماں ، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تیری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا تیرا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اکا ساڈا حال نہ جانن گلیوں لنگھن والے
چھتاں وچ جے ہون تریڑاں وگدے نئیں پرنالے
تو طے ہوا تکمیل پا ہی گیا تھاکہ اسے ان سب سے دور بہت دور ان ویرانوں میں آخری سانسوں کی مالا کو نوچ نوچ کر خود سے دور کرتے ہوئے توڑ ہی ڈالناہے۔ وہ جو خود کو کبھی نا قابل تسخیر تصور کیے بیٹھا تھا اب جانا تھا کہ تسخیر تو وہ اب کی بار بہت برا ہوا تھا۔ گھائل ہونے کا مطلب تو وہ اس عشق سے بھی نہ پا سکا جہاں اس نے وہ عشق پایا تھا کہ دل ٹوٹ کر پکارتا تھا۔
“اللہ۔۔۔۔!!!”
ہاں۔۔ ابھی اسے وہی یاد آ سکتا تھا۔۔ اللہ۔۔ وہی جسے تو بھلا ہی بیٹھتا ہے انسان۔ دن میں کیا رات میں بھی یاد نہیں آیا کرتا وہ رب۔ لیکن یہ اندھیرا۔۔ یہ اندھیرا اسے نگل ہی جانے والا تھا۔ یہاں تو کوئی اسے ہرگز نہیں بچانے آئیگا نا۔۔ نکلا تو وہ اسی خواہش سے تھا کہ زندگی کو ایک اختتام دے دے گا۔ مگر ہائے رے انسان ۔۔
یہاں موت نے جھلک دکھائی نہیں وہاں وہ رب یاد آگیا۔
ہے نا آخر انسان اور بکری کے دل والا۔۔’بزدل’ ۔۔
اسے اپنی ٹانگیں بے جان ہوتی محسوس ہوئیں۔ نہ تو وہ اٹھ سکتا تھا نہ ہی خود کو سہارا دے کر ہی کھڑا کر سکتا تھا۔ خون اس حد تک بہہ چکا تھا کہ اسے اپنے وجود پر چیونٹیاں سی چلتی محسوس ہوئیں۔اس واقعہ نے ایک بات تو واضع کر دی تھی۔ ایک انسان کے لیے دوسرے انسان کی اہمیت ہر جگہ ایک سی تھی۔۔ ایک ‘صفر’ جیسی۔۔درمیان سے خالی سے ایک دائرے جیسی۔۔
ایک دم سے دل پکارا تھا
“اللہ۔۔”
اسے نہ تو اپنی ماں یاد تھی نہ ہی نیا آنے والا وجود۔۔
اسے نہ تو زوئنہ یاد تھی نہ ہی وہ شال میں چھپی لڑکی۔۔۔
اسے یاد تھا تو اللہ۔۔
“اور جب انسان کو کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے”
(الزمر:7..)
اس نے خود کو گھسٹنا چاہا مگر خون چونکہ زیادہ بہہ چکا تھا اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ یوں لگا گویا کوئی جان نکال رہا ہے۔ کوئی پکار نہ پکڑ میں آتی تھی۔ ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ کوئی ذی روح دکھتا نہ ہی سنائی دیتا۔ایک آدھ گھنٹے میں کوئی دو تین بار اسے دور سے گاڑی گزرنے کی آواز آتی تو کچھ امید بندھتی۔ جیسے ہی آوا زدور ہوتی وہ ہلکا سا اٹھایا ہوا سر پھر سے گرا دیتا تھا۔ بائیں ٹانگ میں اتنا درد تھا کہ اسے لگا اب وہ اس ٹانگ سے محروم ہو جائیگا۔
اسے جسم میں چیونٹیاں سی محسوس ہوئیں اور آنکھیں اوپر کو چڑھتی ہوئیں بند ہوتی گئیں۔
لب اب بھی پکارتے تھے۔۔
“اللہ۔۔!!!”
ہائے رے انسان۔۔۔
“تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتا ہے”
(یونس:10)
ہوش سے بیگانہ ہوتے ہوئے جو آخری آواز اس نے سنی تھی وہ ایک عورت کی تھی جو چیخ و پکار کر رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے اکّھیں سرمہ پایا، ہتھّیں لائی مہندی
اکھیں میں جگراتے پائے، پیریں پائے چھالے
“تمہارے ابو کہ ہرے ھتے کہ اچھی طرح چھان بین کریں گے پہلے۔ چاہے تم بچپن سے دیکھتی آ رہی ہو مگر پھر بھی جب تک ہم تسلی نہ کر لیں تب تک نہیں ہاں کر سکتے۔ ” کشور بیگم کافی دن سے اس سے منہ بنائے پھر رہی تھیں۔ مگر غنویٰ بھی ضد کی پوری نکلی تھی۔ کشور بیگم نے ہار مان کر شیر زمان سے بات کر ہی لی تھی اور اب کچن میں بریانی کو دم پر لگاتے ہوئے انہوں نے اسے اطلاع بہم پہنچائی ۔ اس کے غور سے اپنی طرف دیکھنے سے کشور بیگم نے دال کا پیکٹ اٹھایا اایل پرات اٹھائی اور باہر کی جانب بڑھنے لگیں۔
“امی میں چن دوں گی” غنویٰ نے ان کو بلانا چاہا۔
” نہیں میں کر لوں گی خود۔ زہرہ بی دھوپ کو دھوپ میں چھوڑ کر آ رہی ہوں انہی کے پاس بیٹھ کر کروں گی ہو جائیگا کام” انہوں نے کہا اور باہر نکل گئیں جبکہ دھنیا چنتی فجر نے تیکھی نظر سے اسے دیکھا تھا۔
“ایسے کون سے ہیرے جڑے ہیں اس بندے میں ویسے؟”
غنویٰ چونک کر مڑی۔
“کیا مطلب؟”
“مطلب یہ کہ کیا ایسا خاص ہے جو ہمیں کسی اور میں نہیں مل سکتا تھا؟ تھوڑا انتظار کر لیتی کوئی اور رشتہ بھی تو آنا ہی تھا۔ یہ ہی کیوں؟” فجر ہمیشہ کی طرح اب بھی تیکھے تیوروں سے بیٹھی تھی۔
“دفع ہو تم تو۔۔ ارے بھئی ہماری غنویٰ اسے پسند کرتی ہے ۔ اس سے آگے کیوں سوچنا کچھ” نمل نے غنویٰ کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
“غلط بات ۔۔ آپی انہیں پسند نہیں کرتیں۔ بس ہم سے دور جانے کے لیے یوں کر رہی ہیں” منال گاجر کترتے ہوئے جانے کس جون میں بولی تھی مگر غنویٰ چونک چونک گئی۔ دل الگ دھڑکا تھا۔ یہی تو اصل وجہ تھی۔ منال نے کیسے محسوس کرلیا۔
“ایسی۔ ۔ ایسی بات نہیں ہے منال! میں کیوں جانا چاہوں گی دور” وہ حیران مگر کھوجتی نظروں سے سب کے چہرے دیکھ رہی تھی۔ اجر بھی وہیں ڈائننگ ٹیبل کے پاس بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھی بولی
“کیونکہ ابھی اگر تم اسی رشتے کے لیے ہاں نہ کہتی تو یقیناً اگلا رشتہ بھی آنا ہی تھا۔ اب اس رشتے کو ہاں کہنے کی دو ہی وجوہات ہیں۔ یا تو تم پسند کرتی ہو اس لڑکے کو۔ یا پھر ہم سے دور جانا چاہتی ہو” وہ آٹے سے لتھڑے ہاتھوں سے پوارا نقشہ بنا رہی تھی اور غنویٰ بس خاموش نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“بولو بھی اب۔۔ یار بتا دو اگر پسند کرتی ہو تو شئیر کر لو۔ ہم پھر مل کر ابھی سے دودھ پلائی ک پیسے بھی ڈیسائیڈ کر لیتے ہیں نا۔۔ اسی حساب سے چلیں گے جس حساب سے تم جواب دو گی” نمل خاصی پر جوش تھی۔
“پہلے اپنی کروالو تم”اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے انہیں ٹالنا چاہا۔
“ارے ابھی ہماری شادی میں تو بہت وقت ہے۔ تمہاری تو اب کچھ ہی عرصے میں رخصتی بھی ہوجائیگی ہماری بنو” نمل نے اسے بھی کھینچ کر اپنی ساتھ والی کرسی پر بٹھایا۔
“یار کتنی اعلیٰ لگے گی ہماری یہ چپ سی رہنے والی چڑیا ” فجر بھی ایک دم پر جوش ہوکر بیٹھ گئی۔
“اگر آپی ‘انہیں’ پسند کرتی ہیں تب تو ‘ریاض’ پھوپھو کو برداشت کر ہی لیں گی۔ ویسے دکھنے میں کیسے ہیں بھائی؟” منال بھی قریب ہوئی تھی۔
“ارے تم لوگ بھی کیا باتیں پوچھ رہی ہو۔ اس سے تو عام حالات میں نہیں بولا جاتا اب تو شرم سے دہری ہو رہی ہوگی۔”اجر نے آٹے کو ایک طرف رکھ کر ڈھانپا اور انہی کی طرف چلی آئی۔ ان سے مخالف وہ خود۔۔
ان کی باتوں پر اس کے لب مسکرائے جاتے تھے اور دل تھا کہ کرلائے جاتا تھا۔
دل دیاں سنیاں، تے او لگیاں، ہور طرح دیاں کُوکاں
رولا اے کجھ ہور طرحاں دا، میرے آل دوالے
وہ خالی نظروں سے سب کو دیکھے جا رہی تھی اور وہ سب اس کی کیفیت سے انجان چٹکلے پر چٹکلہ چھوڑ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...