“آآآ وہ۔۔۔ ” اس نے دروازہ کھولا تو سامنے کمیل کو کھڑا پایا۔ اسے سامنے دیکھ کر جہاں عبادت کی سٹی گم ہوئی تھی وہیں کمیل بھی گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
“جی؟” عبادت نے دوپٹہ ناک تک کیا اور آنکھیں تیکھی سی کر کے پوچھا۔
رُخ سے کچھ دیرتو پردے کو ہٹا رہنے دو
تم کو دیکھے گا وہی، جس کی قضا آئی ہے
“وہ آپی غنویٰ کہاں ہیں؟”
“اندر ہیں۔ ” عبادت نے اندر کی طرف اشارہ کیا۔
“کشور چچی بلا رہی ہیں انہیں” کمیل نے اپنا رخ بدلتے ہوئے کہاکہ اسے دیکھتا اور کوئی اسے اس کی طرف دیکھتا ہوا پاتا۔۔۔ پھر ظاہر ہے عزت پر سوال بھی اٹھاتا۔ یہی تو کمیل چاہتا نہیں تھا۔
“میں انہیں لینے آیا ہوں ۔ میں یہیں ہوں۔ آپ انہیں بھیج دیں” کمیل نے کہا تو وہ مڑی اور واپسی پر غنویٰ چادر میں منہ چھپائے دروازے سے باہر نکلی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ فائلوں میں الجھا سا بیٹھا تھا جب اس کے موبائل فون کی گھنٹی نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ واٹس ایپ کی طرف سے نوٹیفیکیشن تھا۔ یونہی دھیان بٹانے کو ا س نے موبائل آن کر ہی لیا۔ اپنا چھپایا ہوا وہ نوٹیفیکیشن جو کہ شاید نہیں یقیناً اس نے کسی ڈر سے چھپایا تھا۔ اس کا موبائل کسی کے ہاتھ میں آ بھی جائے تو اس کی گیلری، فیس بک کے میسجز ، واٹس ایپ کے میسیجز اور انباکس یعنی ہر ایسی جگہ جہاں کسی کی رسائی اس کو شرمندہ کرتی ، اس نے لاک لگا رکھا تھا۔
نوٹیفیکیشن کو چھوا تو سامنے جو میسج کھلا وہ اسے حیران اور پریشان کرنے کے لیے کافی تھا۔ حیران تو یوں کہ اسے اس میسج کی امید ہرگز نہیں تھی اور کم ازکم جس طرف سے وہ میسج موصول ہوا تھاس طرف سے تو امید کیا امید کا ‘میم’ بھی اس کے ذہن سے کبھی نہیں گزرا تھا۔
When I dream, I dream of you
May be one day, my dreams will come true…
Happy ‘Jugat’ day to dearest cousin.
“شرم کرو لڑکی۔ میں نا محرم ہوں تمہارے لیے ابھی” اس نے فوراً سے ٹائپ کر بھیجا۔ اشتیاق سے بار بار سامنے پڑے موبائل کی سکرین پرنظر بھی ڈالتا اورذہن میں اس کے جواب اور لال ٹماٹر منہ کا نقشہ سا کھینچ کر مسکرائے بھی جاتا۔
“تم شرم کرو۔ ذرا بھی جو تمہیں عقل ہو۔ پورامیسج تو پڑھ لے بندہ” میسج کےساتھ بالکل ویسی ہی ایموجی بنا کر سینڈ کی گئی تھی جیسی اس کی شکل اس وقت ہو رہی تھی۔ جبل کو تو شرمندگی ہوئی سو ہوئی کہ جلدی میں بس اپنے مطلب کی چیز ہی دیکھ پایا تھا مگر اس کا چہرہ سوچ کر وہ بڑے موڈ میں بیٹھا تھا۔
“فجر زمان اب تم بات بدل نہیں سکتیں۔ کہہ دو کہ نہیں رہا جا رہا میرے بغیر” ساتھ میں زبان نکالی ہوئی ایک شکل بنا کر بھیجی اور اگلے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
“ڈوب کے مر جاؤ جبل زمان۔۔ یہی میسج میں جا کر ابھی دکھاتی ہوں چاچو کو۔ تمہارا بھی علاج ہونا چاہیے سجاول بھیا کی طرح”
“ہائے میں تو ایسے علاج کے انتظار میں بیٹھا ہوں “اس کا خشک سا موڈ ایک دم خوشگوار ہوا تھا۔
“دفع ہی ہو جاؤ تم۔ میری توبہ میں آئیندہ تمہیں میسج کر گئی تو” اس کے اپنے طوطے اڑ گئے تھے۔
“سیدھی طرح کیوں نہیں کہتیں کہ آجاؤ جبل زمان بہت مس کر رہی ہوں” اسے چھیڑ کر وہ بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کیے بیٹھا تھا۔ جب حبل اس کے کیبن میں آیا اور اسے گھورنے لگا۔
“کیا ہوا ہے آج بڑے دانت نکل رہے ہیں۔ کل تک تو بڑا سڑا ہوا تھا توُ” اس کی فائلز ایک طرف کر کے وہ کہنیاں میز پر جما کر بولا۔
“تیری باتوں پر غور کر رہا ہوں” موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔
“مثلاً کون سی باتیں” ایک ابرو اچکا کر پوچھا۔
“سوچ رہا ہوں حبل زمان کہ اب اجی آپی کے نکاح کے بعد ابو کو اپنے بارے میں بھی کھٹکا لگاتے ہیں۔ پھر ُآی کی رخصتی کے ساتھ نہ سہی تو پہلے سہی۔ شادی تو کروائیں گے نا۔ وہ بھی اپنی من پسند لڑکیوں سے ۔ اور ہمیں کیا چاہیے۔ ” وہ بڑے مزے سے بولا۔
“نہ کر ۔ یہ انتہائی الٹی ترکیب ہے۔ سجاول والاحال ہو گیا تو برا پھنسیں گے۔ اس کا تو چلو پیار شیار کا معاملہ بھی تھا ہم کہاں سے لڑکیاں لائیں گے” حبل منہ بناتا اٹھ کھڑا ہوا۔
“ہے نا آخر پھر مجھ سے آدھا گھنٹہ چھوٹا۔ سوچ کیسے میرے جیسی بلند ہو سکتی ہے پھر تیری۔ چل نکل موڈ خراب کر دیا دفع ہو یہاں سے” وہ منہ بناتا دوبارہ سے فائلوں میں گم ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“خیریت کمیل؟ امی نے کیوں بلوایا؟ ” غنویٰ جو کہ اب کشور بیگم کو اس دن کی ڈانٹ کے بعد امی کہنے لگی تھی چادر کو ناک پر ٹھیک کرتے ہوئے فکر مندی سے بولی۔
“آپ کی کوئی پھوپھو آئی ہیں۔ مردوں والا نام ہے کوئی” کمیل جو اب بھی صبح والی اجرک کندھے پر ڈالے ہوا تھا ، مسکرا کر بولا۔
“اوہ پھوپھو ریاض۔۔ ” وہ عجیب سے انداز میں بولی۔
“ہاں ہاں یہی نام تھا۔ آپی فجر اور نمل تو ان کی نقلیں اتار اتار کر ہنس رہی تھیں۔ وہ تو بول بھی بہت اونچا رہی تھیں” کمیل مسکراتے ہوئے اسے تفصیل سے آگاہ کر رہا تھا۔
“بری بات کمیل! کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہیں کرتے ۔ ” غنویٰ نے سرزنش کی۔
“اوہ۔۔ آپ کی تو پھو پھو بھی ہیں نا۔۔” وہ اب بھی زیادہ شرمندہ نہ لگتا تھا۔
“نہیں ۔ لازمی نہیں کہ آ پ سے کسی کا رشتہ ہوتبھی بس اس کا لحاظ کرو۔ یہ ہمیں شبہ نہیں دیتا کہ ہم مسلمان ہو کر بھی اس طرح کسی کے پیچھے اس کی بری باتیں بیان کریں۔ یہ تو ہمارے نبی ؐ کو بھی کبھی پسند نہیں رہا تھا۔ وہ تو خود بھی کہا کرتے تھے کہ کسی کی برائی جو اس کے سامنے بیان کیے جانے پر اسے بری لگے ، تو وہ اس کے پیچھے بھی بیان نہ کرو۔ ” غنویٰ اس کے ساتھ چلتے ہوئے اسے سمجھا رہی تھی۔
“سوری۔۔”
“کوئی بات نہیں۔ آئندہ احتیاط کرنا” وہ بس سر ہلا گیا تو غنویٰ اگلی بات پر غور کرنے لگی۔
“وہ مجھے لینے آئی ہیں کیا؟” وہ پریشان سی لگتی تھی۔
“ایویں لینے آئی ہیں۔ ہم نہیں جانے دیں گے” کمیل اچھل ہی گیا تھا۔
“میں بتا نہیں رہی پوچھ رہی ہوں کمیل” اسے لگا کہوہ ابھی رو دے گی۔
“ارے آپی ! کیوں لینے آئیں گی وہ۔ اتنے ماہ میں اب ہی یاد آنا تھا ان کو۔ اور آئی بھی ہیں تو میں ہوں نا۔ فکر ہی نہیں کریں جانے ہی نہیں دوں گا” حویلی کا دروازہ عبور کرتے ہوئے وہ بولا۔
“اگر انہوں نے زبردستی کی تو؟” اس کی آنکھوں میں خوف چمکا۔
“تو بھی نہیں جانے دوں گا۔ ” وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر مسکرا یا تو غنویٰ اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔
سو طے تھا کہ امتحان اب رگوں میں رسیاں ڈالنے کو تیار تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ساہ وی کہیڑا سوکھا آندا
اک موڑاں تے دوجا آندا
وہ جانے کب سے یوں ہی سوچوں میں گم تھیں جب شہناز بیگم نے اندر آکر انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔لقوہ اب بہت حد تک ٹھیک تھا البتہ بایاں حصہ اب بھی مفلوج تھا۔
“زہرہ بی ہم سوچ رہے ہیں اجی کو نکاح رکھ لیں۔ آپ کی اجازت چاہیے تھی۔ ” انہوں نے ان کو سہارا دے کے نیم دراز سا کروایا اور خود ان کے پاس بیٹھ گئیں۔
“ہاں ۔۔ رکھ لو۔۔ بہتر ۔۔۔۔۔ہے” وہ بہ مشکل اتنے ہی الفاظ ادا کر پائی تھیں۔
“وہ اجر نہیں مان رہی۔ کہتی ہے جب تک آپ نہیں ٹھیک ہوتیں تب تک وہ کسی بھی قسم کا کوئی فنکشن نہیں چاہتی”
“میرے پاس ۔۔ بھیجنا اسے۔۔ میرے پاس” وہ اب بھی ہکلا کر بولیں۔
“پھوپھو! ہم زہرہ بی کی مالش کرنے لگی ہیں آپ اپنی بہن کی باتیں سنیں جا کر” فجر شور سا مچاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور ان کو باہر نکال کر ہی دم لیا۔پھر زہرہ بی کے پاس بیٹھ کر بولی
“تنگ بہت کرتی ہیں آپ کو” زہرہ بی ہلکا سا مسکا دیں۔
“آ پ کی میڈیسنز ختم ہونے والی ہیں۔ جبل اور حبل اتوار کو واپس آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ چیک اپ کروانے جائیں گے۔ ابھی سے اس لیے بتا رہی ہوں کہ تیار رہیے گا۔ آپ گھبراتی بہت ہیں نا ہسپتال سے تو سوچا ابھی بتا دوں” فجر ان کے بازو کی مالش کرتی ہوئی ان سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھی تبھی نمل بھی سوپ لیے وہاں چلی آئی۔ وہ لوگ ان کے پاس بیٹھیں ان کو سارے دن کی داستان سنا رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انگڑائی لیتے اور جمائی روکتے ہوئے ،الارم کو ہاتھ مارکر بند کرتے ہوئے وہ کمبل ہی میں سیدھا ہو بیٹھا۔ نظر اپنی دائیں طرف لیٹی زوئنہ کی طرف کی تو اس کی بے خبری پہ رشک سا آیا۔ ایک وہ زمانہ تھا جب وہ بھی یوں ہی سویا کرتا تھا۔ رات میں دیر تک اسی کی باتوں میں گزارنا اور پھر بھرپور نیند لے کر فریش اٹھنا۔ اب نیند پوری ہوتی تھی نہ ہی اب وہ ترو تازگی رہی تھی۔ لاکھ کوشش کرنے پر وہ بالآخر زوئنہ کی طرف متوجہ ہو ہی جایا کرتا تھا۔ اب تو حال یہ تھا کہ رات میں پاس لیٹا وجود بھی تبھی توجہ مبذول کرواتا جب نفس غلبہ پا جاتا۔۔ آخر کو مرد تھا۔۔ کیوں نہ اپنا حق وصول کرتا۔۔۔
لیکن دل۔۔۔
دل کے بھی کیا کہنے۔ کہاں کہاں نہیں اس نے ذلیل کروایا۔ اور کون کون نہیں ذلیل ہوا اس دل کے ہاتھوں ۔ مگر دل ایک طرف۔ یہ وہ کیسی گری ہوئی حرکت کر رہا تھا۔ سوچنا کسی کو اور دیکھنا کسی کو؟؟؟؟
نکاح میں کوئی اور ذہن میں کوئی؟؟
جب تعلق حلال ہی نہیں تھا تو یہ سوچ بھی کیوں آتی تھی۔ جس کے ساتھ حلال تعلق تھا وہ تو اب کہیں نظر ہی نہ آتی تھی۔ اسے خود سے گھن آنے لگی۔
“زوئنہ!!” اس کے ڈائی کیے ہوئے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اسے جگانے لگا۔
“تنگ نہیں کرو سجی “اس نے کروٹ بدلی اور ایک بار پھر گہری نیند میں ڈوب گئی۔
“بات تو سن لو لڑکی” اس کا رخ اپنی طرف کیے وہ بولا۔
“میری بات سنو تم۔۔بہت ہو گیا تمہارا یہ ڈرامہ۔ اب تم روٹین پر آؤ۔ آفس جایا کرو تاکہ دماغ ٹھیک ہو تمہارا۔ میں ہرگز بھی تمہیں یہاں ایک ہی کمرے میں بند نہیں دیکھ سکتی۔ اب ہٹو مجھے سونے دو” آنکھیں کھولے ایک ہی سانس میں سب بول کر کمبل سر تک تانا اور پھر سے سو گئی۔ سجاول جو حیران سا اسے دیکھ رہا تھا قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ بہت دنوں بعد وہ پہلے والی زوئنہ لگی تھی۔
‘بے شرم تم بہت دن بعد اس پر غور فرما رہے ہو’ دماغ نے کھینچ کر چماٹ ماری تھی جو خاصی نشانے پر لگی تھی۔
“میں ناشتہ لا رہا ہوں تم بس اتنی فیور کرو کہ برتن تیار رکھو میں یوں گیا اور بس گھنٹے میں واپس آیا” واش روم میں گیا منہ پر کچھ چھینٹے مارے اور اسے کہتا وہ باہر نکل گیا البتہ زوئنہ اب بھی کمبل میں چھپی سو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“یہ کیا بات ہوئی۔ غنویٰ نے تو کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔ اور یہ ہیں کہ رشتہ سنا رہی ہیں۔” آمنہ بیگم جو کہ کب سے لاؤنج میں بیٹھی کشور بیگم کی باتیں سن رہی تھین آخر بول ہی پڑیں۔
“یہی تو بات ہے آمنہ۔۔ غنویٰ کی شکل سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ریاض باجی نے جھوٹ بولا ہے۔ میں نہیں جانتی ان کوا س جھوٹ کی کیا ضرورت پیش آئی ہوگی” کشور بیگم سر میں درد کے باعث ایک پٹی سی باندھے بیٹھی تھیں۔ نمل ان کے پاس بیٹھی جبکہ فجر ان کے لیے چائے بنانے کچن میں گئی تھی۔ غنویٰ اور کمیل ، زہرہ بی کو وہیل چئیر پر بٹھائے باہر احاطے میں جمع عورتوں سے ملوانے لے گئے تھے۔ یہ مجمع بھی بہت دنوں بعد آج اکٹھا ہوا تھا۔
“آپ نے غنویٰ سے پوچھا کچھ؟ کیا کہتی ہے وہ؟” آمنہ بیگم نے آہستہ آواز میں پوچھا مبادہ ساتھ سے گزرتی رانی ہی نہ سن لے۔ وہ تو بات کو لمحوں میں منال تک پہنچاتی تھی اور منال تو’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے’ والا کام سر انجام دیا کرتی تھی۔
“اس معصوم نے کیا کہنا ہے بس چپ سی رہی ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی اتنا برداشت کیسے کرتی رہی ہےان لوگوں کو۔ میری خالہ والی تو ایک بات بھی نہیں رہی ریاض باجی میں” وہ بھی جلی ہی تو بیٹھی تھیں۔
“میری بات سنو۔۔ کوئی اور اچھا سا رشتہ دیکھو اور غنویٰ کا کم از کم ٹانکا بھر دو۔ کوئی کہہ تو نہ سکے گا کچھ بھی ” شہناز بیگم ان کے پاس بیٹھتی ہوئی بولیں۔
“لیکن آپا اتنی جلدی کہاں سے آئیگا رشتہ ۔” کشور پریشان سی ہوئیں۔
“میرے کچھ جاننے والے ہیں لاہور میں۔ بہت ہی اچھے لڑکے ہیں ۔ کہو تو میں بات کیے دیتی ہوں” شہناز بیگم رازدارانہ انداز میں بولیں۔
“ابھی تو میں آج آپ کے بھائی سے بات کرتی ہوں۔ دیکھتی ہوں وہ کیا کہتے ہیں ۔ ” انہوں نے فجر کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے پر سوچ انداز میں کہا۔
” ابھی تو سجاول کی شادی کو دو ماہ ہونے کو آئے ہیں اس کا ہی کیا نہیں بھلا رہا کوئی۔ اب یہ نئی مصیبت منہ کھولے کھڑی ہے۔ بندہ پوچھے ساری زندگی آپ کے در پر رہی ہے میری بچی۔ تب تو آپ کو خیال نہیں آیا کہ اگر رشتہ تھا ہی آپ ہی کے گھر آنا تھا تو مستقل اپنی طرف رکھ لیتیں۔ اسے در در کی خاک تو نہ چھاننی پڑتی” کشور ایک بار پھر شروع ہوگئیں جبکہ نمل اور فجر ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرا ذکر پڑھنے والے میرا راستہ نہ چن لیں
سرِورق یہ بھی لکھنا ــــ مجھے مات ہو گئی تھی
وہ لاؤنج میں صوفے پر لیپ ٹاپ لیے بیٹھا کام کر رہا تھا جب اچانک سے کمرے کا دروازہ زور سے کھلنے اور بند ہونے کی آواز۔ اس نے پرواہ نہ کی کہ اکثر غصے میں زوئنہ یوں کر دیا کرتی تھی۔ اور اس کا غصہ بہت ہی عام سی بات تھی نئی بات ہرگز نہ رہی تھی اب یہ۔
“یہ کیا بے ہودگی ہے سجاول؟؟” وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ گرے ٹائٹس اور سجاول کی کالی شرٹ پہنے ، بالوں کا بن بنائے وہ سامنے کھڑی تھی۔ آج کل چہرہ کچھ زیادہ ہی پر نور ہوتا جا رہا تھا ۔ جانے کیوں ۔۔ کسی خیال کے تحت وہ مسکرا دیا۔
“مجھے تو کوئی بے ہودگی نظر نہیں آ رہی ۔ یو لک نائس ان مائی شرٹ بے بی” اسے پچکارنے کے انداز میں وہ گویا ہوااور پھر سے لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگا۔
“میں یہ اس بارے میں پوچھ رہی ہوں تم سے” اس نے ایک باریک سی پتری اس کی گود میں پھینکی ۔ وہ اسے پکڑ کر دیکھنے لگا۔
“کیا ہے یہ؟ ” وہ ابرو اچکا کر دیکھنے لگا۔
“پریگننسی ٹیسٹ سٹرپ۔۔” وہ چیخی۔ سجاول کو لگا اس کے کان پھٹ جائیں گے۔
“سو؟ ”
“سو ؟ تم اتنا نارملی کیسے بی ہیو کر سکتے ہوسجاول زمان۔۔” وہ یوں اچھل رہی تھی جیسے جانے کیا ہو گیا تھا۔ وہ ابھی بھی الجھا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔
“کیا کہنا چاہ رہی ہو مجھے سیریسلی ایک بھی لفظ نہیں سمجھ آرہا۔ ” اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔
“رزلٹ پازیٹو آیا ہے ۔ میں نے تم سے کہا بھی تھا ۔۔۔”
“رئیلی؟؟؟؟” وہ اس حد تک خوش تھا کہ زوئنہ کو الجھن ہوئی۔ وہ اس کے قریب آیا تو وہ فوراً سے پیچھے ہٹی تھی۔
“میرے پاس مت آنا تم وحشی جانور ۔۔ میں نے کہا بھی تھا میں کنسیو نہیں کرنا چاہتی۔ تم نے میری بات ایک بھی بار سنی؟ ” وہ چٹخی۔
“تو اس میں برائی کیا ہے؟ اتنا بڑا ایشو کیوں بنا رہی ہو اس بات کو تم” وہ حیران کھڑا تھا۔ یہ وقت ایسا رویہ دکھانے کا تو ہرگز نہیں تھا۔
” کہنا کیا چاہتے ہو تم ؟ میں خود کو کب ٹائم دوں گی؟ یہ سب بکھیڑا پالنا لازمی تھا کیا؟” وہ حد سے زیادہ اونچا بول رہی تھی۔
“زوئنہ باز رہو۔ اایسی باتیں نہیں کرتے ۔ خوشخبری ہے یہ تو۔ اور تم ہو کہ اتنے پیارے۔۔۔”
“پیارے؟؟ کیا پیارے؟؟؟ اور کیا خوشخبری؟ تم ہمیشہ مجھ سے یہی چاہتے تھے۔ اتنا ہی شوق تھا کچھ عرصہ صبر کر لیتے۔ مجھ سے میری آزادی کیوں چھین رہے ہو”
“کون سی آزادی چھین لی ہے میں نے؟ اب بھی ویسے ہی گھومنا جیسے پہلے گھومتی ہو۔ میں نے کب منع کیا ہے تمہیں کسی کام سے؟ ایک اگر میری خوشی پوری ہو جانے دو گی تو کیا ہو جائیگا” وہ بہت ہی آرام سے اسے سمجھا رہا تھا اور وہ تھی کہ چٹختی جا رہی تھی۔
“سجاول زمان تم چاہتے ہی یہ تھے۔ تم پہلے بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مجھے گھرمیں رکھو گے۔ ایک طرف وہ تمہارے جاہل گھر والے اور ایک طرف اب تم ۔ مجھے بتاؤ کیا قصور ہے میرا کہ میری ایک نہیں مانی تم نے۔ میں اسے ایک لمحہ نہیں برداشت کر سکتی ۔ میں اسے ابارٹ کرواوں گی۔ میں نہیں رکھ سکتی اس مصیبت کو”
“شٹ اپ زوئنہ جسٹ شٹ اپ ۔۔ تم حد سے بڑھ رہی ہو۔ اب اگر ایک بھی لفظ فضول بولی تم تو میں بہت برا پیش آؤں گا” اس کندھوں سے پڑ کر جھنجوڑتے ہوئے وہ غصے سے بولا۔
“میں نے کہا مجھ سے دور رہو تم جانور کہیں کے۔ اور اب مجھے بلانا بھی مت تم” زوئنہ اسکے بازو جھٹک کر کمرے میں گئی اور درازہ زور سے بند کر لیا۔ ایک آواز تھی جو پورے اپارٹمنٹ میں گونجی تھی۔ سجاول سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
یہ کیسی مات ہوئی تھی اسے۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ جو رنگیں تبسم کی ادا ہے مجھ میں
مجھ کو لگتا ہے کوئی میرے سوا ہے مجھ میں
نکاح کا فرض ادا ہوا تو کمیل اور منال فوراً سے اپنے اپنے حصے کا نیگ وصول کرنے اجر اور سانول کے گھٹنوں کے ساتھ جڑ گئے تھے۔
“بھئی یہ لڑکے تو گھٹنوں کے ساتھ لگیں کہ بھئی دیور ہونے کا ‘کرایہ’ دو۔ تم کاہے کو ساتھ جڑ گئی ہو” شہناز بیگم کرسی پر بیٹھتی ہوئیں بولیں۔
“لو تو میں بھی لالہ کی سالی ہوں میرا بھی تو حق بنتا ہے نا” منال نے منہ بنایا۔
” یہ رسم بنتی بھی نہیں ہے ابھی ۔ یہ کس تُک سے کرر ہے ہیں ۔ اس طرح تو ہماری بھی بن جائیگی یار۔ کیوں حبل ؟” جبل بھی ؎فوراً اجر کے گھٹنے کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔
“پھوپھو ان کو ہٹائیں ورنہ میں اندر چلی جاؤں گی پھر” اجر نے چڑ کر کہا۔
” دید نہ لحاظ۔ شرم کروشرم۔ اس طرح کون بولتا ہے ۔” قدسیہ بیگم دور کھڑی گھوری سے نواز رہی تھیں۔
“امی پلیز۔۔” اس نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے نظروں ہی نظروں میں التجا کی تو انہوں نے غنویٰ اور نمل سے اسے اندر لے جانے کو کہا۔ وہ اسے لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں تو سانول بھی وہاں سے اٹھنے کو پر تولنے لگا۔
“لالے کدھر؟؟ ” جبل نے پکڑ کر اسے بٹھایا۔
“یار نیا نیا شوہر بنا ہوں شرم آ رہی ہے” سانول نے مصنوعی شرماہٹ دکھاتے ہوئے کہا تو پاس بیٹھے سبھی لوگ ہنسنے لگے تھے۔
“اوئے کھوتیو!اٹھو امام صاحب کے لیے پیکٹ لواپنی تائی سے اور انہیں چھوڑ کر آؤ۔ ” وہ بیٹھے باتیں کر ہے تھے جب فخر زمان کی آواز گونجی۔
“آیا تایا ابو۔۔ ” کمیل فوراً سے پہلے اٹھا تھا۔
“کیوں بھئی آج تو عبادت ادھر ہی ہے تو کدھر بھاگ رہا ہے”حبل نے اسے روکا۔
“بھائی قسم لے لیں جو تب سے اب تک دیکھا بھی ہو میں نے۔ اسی لیے اٹھ کر جا رہا ہوں چلو اسی بہانے سہی ایک آد نظر ڈال لوں گا جاتے جاتے” وہ مسکین سا بن کر بولا۔
“ایک بات تو پکی ہے۔ حد سے زیادہ میسنا ہے تو” حبل نے اس کی گردن پر چماٹ لگائی اور اسے جانے کا راستہ دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...