“جیوے سندھ جیوے، سندھ والا جیوے
جیوے اجرک ٹوپی والا جیوے
زہرہ بی کے کمرے میں سفیدشلوار قمیص میں ایک کندھے پر میرون اجرک ڈالے کھڑا کمیل اپنے سر پر رکھی شیشوں سے سجی ٹوپی کو سیٹ کر رہا تھا۔ کٹی سے بال ایک طرف کرتا وہ ساتھ ساتھ گنگنا بھی رہا تھا جبکہ غنویٰ وہاں زہرہ بی کو اخبار پڑھ کر سنا رہی تھی۔اس کے اس طرح گنگناے پر جہاں غنویٰ متوجہ ہوئی تھی وہیں زہرہ بی بھی اپنی آنکھیں اسکی طرف کیے اسے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ اس کے تو رنگ ڈھنگ ہی الگ لگتے تھے۔
“غلط گا رہے ہو تم ۔ ” غنویٰ اس کی مصروفیت دیکھ کر مسکاتے ہوئے بولی۔
“ہیں؟” وہ مڑ کر حیرانی سے دیکھنے لگا۔
“ہیں کے بچے۔۔ غلط گا رہے ہو۔ ایسے ہی مت گا نے لگ جانا۔ ”
“کیا مطلب ؟” وہ الجھا ۔
“اف!!! کمیل یہ شعر ایسے نہیں ہیں ۔ تم غلط شعر پڑھ رہےہو۔ یہ اس کا ترجمہ ہے جو تم گا رہے ہو۔ کسی نے اب تک غلطی درست نہیں کروائی کیا؟” وہ آلتی پالتی مارے زہرہ بی کی بائیں طرف بیٹھی تھی جبکہ زہرہ بی نیم دراز تھیں۔ کمیل زہرہ بی کی دائیں طرف ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تھا۔
“آپی پلیز یار اب ایسا کہہ کر دل نہ توڑیں بہت محنت سے یہ یاد کیے ہیں۔ اب جیسے بھی ہیں میں نے اسی طرح سنا دینے ہیں۔ انعام ویسے بھی نہیں ملنا مجھے۔ اب ذرا ٹشن سے کہہ پاؤں گا کہ بھی ہاں میں حق دار تھا بھی نہیں انعام کا” وہ بڑے مزے سے کرسی کھینچتا بیٹھ گیا تھا۔
“ارے ارے۔۔ تمہیں تو کوئی پرواہ ہی نہیں۔ میں ایسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ اور کبھی بھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ انعام نہیں ملے گا۔ بس اپنی محنت پوری رکھتی تھی۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے انعام نہ ملا ہو” وہ اسے جانے کب کی باتیں سنا رہی تھی۔ مگر بالمشافہ اس کی کمیل سے یہ پہلی تفصیلی گفتگو تھی۔ سو کمیل کو اچھا لگ رہا تھا۔
“اور وہ انعام کہاں گئے اب”
“پتہ نہیں اب تو۔ جب تک میری دادی اماں زندہ تھیں وہ سنبھال کر رکھتی تھیں۔ ان کے بعد نہ میں نے خود سنبھالے نہ ہی کسی اور نے تکلف کیا” وہ ہنستی ہوئی اچھی لگی تھی یہ بات بھی کمیل کو ابھی ابھی پتہ چلی تھی۔’سجاول بھیا کے ساتھ ناانصافی ہوگئی ہے’
“آپی۔۔!! “وہ بڑے مزے سے بول رہی تھی جب کمیل نے اسے مخاطب کیا۔
“جی؟” وہ مسکرا رہی تھی ۔
“آپ کو نہیں لگتا۔۔ بھیا کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے” کمیل نے دیکھا اس کی آنکھوں کی چمک ایک دم سے کہیں کھو گئی تھی۔
“نہیں۔۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ جو بھی جیسا بھی معاملہ تھا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی لکھے گئے تھے۔ یہ تو سب تقدیر نے تھوڑی سی شرارت کر دی ورنہ سب کچھ پرفیکٹ چل رہا تھا” وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھی ۔ یہ اور بات کہ اس کی مسکراہٹ سے کمیل کو بہت کچھ غلط ہوتا محسوس ہوتا تھا۔
“اگر تایا ابو ایگو نہیں دکھاتے تو سب ٹھیک ہو سکتا تھا” کمیل نے لقمہ دیا۔
“بچوں والی بات کر رہے ہو ۔ بچے ہو نا ۔۔۔اسی لیے۔ تایا ابو کچھ بھی کر لیتے۔ ہم تم کچھ بھی کر لیتے۔۔ جو ہو اہے یہ سب پہلے سے درج تھا۔ اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی تو اتنا کرتے تھے” اس نے پلکیں جھکائیں اخبار اٹھا کر سائڈ ٹیبل پر رکھا اور چہرے پر پھسلتی لمبی سی لٹ کو واپس کان کے پیچھے اڑستے ہوئے چادر ٹھیک کی۔ اس دوران میں بات تو اپنے اختتا م کو پہنچی تھی مگر لبوں سے مسکراہٹ جدا نہیں ہوئی تھی۔
اور کمیل ۔۔۔ اس میں اور زہرہ بی میں ایک ہی بات تو مشترک تھی ۔۔ وہ غنویٰ کی طرح سب کو’پڑھنے’ کے عادی تھے۔
تمام جذبوں سے معتبر ہے
اداس آنکھوں سے مسکرانا
کمیل اسے غور سے دیکھتا ہواا یک دم اٹھ کر باہر کی طرف بڑھ گیا تو وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
“اسے کیا ہوا؟” زہرہ بی کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولی تو انہوں نے بھی خاموشی سے آنکھیں موندیں۔ اشارہ تھا کہ ابھی اکیلا چھوڑدیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زوئنہ کے والد رات میں اسے لے گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تب سے اب تک سجاول اپنے کمرے سے نہ نکلا تھا۔ اگر وہ اس وقت ہوتی تو اڑی پھر رہی ہوتی۔ نہ خود چین سے بیٹھتی نہ اسے بیٹھنے دیتی۔ اور چین تو اب ویسے بھی رہا ہی نہ تھا زندگی میں۔ رات سے اب تک جانے وہ سگریٹ کی کتنی ڈبیاں پھونک چکا تھا۔ زوئنہ بے شک اپنی جگہ بہت پیاری سہی۔۔۔
دل تو کم بخت وہاں آیا تھا جہاں حسنِ صورت تو ایک طرف۔۔ حسنِ سیرت بھی اپنا آپ منواتا تھا۔
ادائیں حشر جگائیں وہ اتنا دلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں وہ اتنا دلکش ہے
وہ مزید ایک سگریت سلگاتا اپارٹمنٹ کے لاؤنج میں آ بیٹھا۔ وہی جگہ جہاں کچھ دن پہلے ایک آواز گونجی تھی۔ وہ آواز جو خود تو ؐجبوطی لیے ہوئی تھی مگر اشعار سسکیوں میں ڈھلے ہوئے تھے۔ کہاں تو وہ ایک آئیڈیل رکھتا تھا کہ اس معیار سے نیچے نہ آئے گا۔ اور کہاں وہ زوئنہ کو پسند کر بیٹھا تھا۔ اور تو اور۔۔۔ زہرہ بی سے ضد بھی کر چکا تو دل بھی کہاں مات دے گیا تھا۔ تلخ سی مسکراہٹ اس کے لہجے پر آ رکی تھی۔
قدم ارم میں دھرے خوش قدم ، تو حوروغلام
چراغ گھی کے جلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
غزال قسمیں ستاروں کی دے کر عرض کریں
حضور! چل کے دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
سیلینگ میں لگے پنکھے کو گھورتا وہ ان باتوں کو سوچ رہا تھا جو ابھی نکاح کے دن سوچ چکا تھا کہ کبھی زوئنہ کے پاس بھی نہ پھٹکے گا۔ ہائے رے یہ نفس۔۔۔۔
کہاں لا کر پٹخا تھا اسے قسمت نے۔ اب اتنا بھی کیا غلط کیا تھا اس نے۔ ایک ضد ہی تو تھی۔ نہ کرتے پوری۔ سب حبل کی غلطی تھی ۔ اگر زہرہ بی میری مان چکی تھیں تو ابھی سےا پنی کیوں منوا رہا تھا۔ وہ بھی کتنی کھلی رہتی تھی ان دنوں ۔
یہ شوخ تتلیاں بارش میں اس کو دیکھیں تو
اکھاڑ پھینکیں قبائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ پنکھڑی پہ اگر چلتے چلتے تھک جائے
تو پریاں پیر دبائیں ، وہ اتنا دلکش ہے
وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔ کیوں بھئی؟ کس خوشی میں؟ کہاں تیرے اتنے نصیب ۔۔۔ ابھی کل تک تو اسی کے لیے مر رہا تھا نا جس کو تیرے نکاح میں دیا گیا ہے۔اور لو۔۔ اب تو قدم بھی بڑھا چکے ہو اس رشتے میں۔ اب کاہے کو اسے سوچتے ہو جسے علم بھی نہیں ہو گا ان بے چینیوں کا۔۔
ارے بھاڑ میں گیا سب کچھ۔۔ میں کیوں نہ سوچوں۔ میرے لیے سوچنا بھی ممنوع کرو گے تو کیا سانس چھیننا چاہتے ہو؟
وہ چاند عید کا اترے جو دل کے آنگن میں
ہم عید روز منائیں وہ اتنا دلکش ہے
زمیں پر خرمنِ جاں رکھ کے ہوشمند کہیں
بس آپ بجلی گرائیں، وہ اتنا دلکش ہے
آنکھیں بند کیے وہ مسرور سا بیٹھا تھا۔ جانے کیوں آج اسے لفظ لفظ حرف حرف سوچنا اچھا لگا تھا۔ دل کے پاس تو تھی نا۔۔ اب اگر وہ نہیں بھی ملی تو کیا ہوا۔ کبھی کبھار ہی سہی نظر تو آہی جایا کرے گی نا۔ ۔۔ یہ الگ بات کہ دل کی ان باتوں پر دماغ زور کے قہقہے لگاتا تھا۔ اب کیا کروں؟ مر جاؤں؟ اتنا سوچنا بھی منع کرو گے؟
وہ چڑ ا تو دماغ نے جھنجوڑا۔۔ ہدایت پکڑو بھائی۔ جو عطا کی گئی ہے اسے تو کل سے اب تک پوچھا بھی نہیں۔
وہ عطا نہیں کی گئی ۔ سزا دی گئی ہے۔
جنہوں نے سایہ کا سایا بھی خواب میں دیکھا
وہ گھر کبھی نہ بسائیں، وہ اتنا دلکش ہے
دل نے قہقہہ لگایا تھا۔ لو بھئی آج توچودھری سجاول زمان صاحب کو اشعار بھی اپنے مطلب کے ہی ملے تھے۔ ارے بس بھی کرو۔ گوٹیوں کی طرح سمجھا ہوا کیا لڑکیوں کو؟ کبھی ایک کبھی دوسری۔۔ آخر اس لڑکی کے بھی جذبات ہیں جس کو زبان دی ہونے کہ وجہ سے ماں تک سے لڑ پڑے تھے۔
سراسر غلطی تھی یار۔۔۔ عقل جو نہ تھی۔ اب تم دماغ والی تاویلیں تو مت دو۔ مجھے تو پہلے ہی میرے گھر والوں نے نکڑ پر لگا دیا۔اور جہاں یہ تم گوٹیوں کی بات کر رہے ہو تو ہاں۔۔ غلطی میری ہی ہے۔ مگر اب دیکھو تو سہی۔میں خود کو سمجھابھی نہیں پاتایار۔۔۔ وہ آنکھیں موندے صوفے پر نیم دراز ساہوا تو کوئی شبیہ آٹھہری۔وہ رات اور چادرمیں سمٹی ہوئی سب لڑکیوں کے درمیان موجود وہ۔۔ وہی جس کا ذکر اب شب و روز ہی ہوا کرتا تھا۔
حلال ہوتی ہے ‘پہلی نظر’ تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں ، وہ اتنا دلکش ہے
جو کام سوچ رہے ہیں جناب دل میں ابھی
وہ کام بھول ہی جائیں ، وہ اتنا دلکش ہے
بس بھی کر دو۔۔۔ اتنا بھی کیا اب ڈوب ہی جانا۔۔
ارے تم کیا جانو ۔ تم تو بس دیکھ ہی سکتے ہو۔ سوچنے کی بھی کہاں تم میں ہمت۔۔ مجھے تو وہ لاعلاج مرض آچمٹا ہے کہ مداواہو ہی نہ پائے۔
اور مدواو چاہیے بھی کسے۔۔۔وہ یوں ہی آنکھیں موندے مسکرا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کچن میں تھیں جس وقت ہاجرہ ان کے پیچھے چلی آئی۔ ایسے ہانپتی کانپتی ہاجرہ کو آتے دیکھ کر آمنہ بیگم بھی مسکرادی تھیں۔
“باجی کشور!! او کوئی عورت آئی بیٹھی اے۔ تہاڈا پچھ رہی سی میں کیا تسی کون کہیندی کشور دی بہن ”
(باجی کشور وہ کوئی عورت آئی بیٹھی ہے ۔ آ پ کا پوچھ رہی تھی میں نے کہا آپ کون تو کہتی میں کشور کی بہن ہوں)
اس نے اطلاع بہم پہنچائی تو کشور بیگم حیران سے مڑیں۔
“میری بہن؟” وہ الجھی ہوئی نظروں سے آؐنہ بیگم اور سبزی کاٹتی قدسیہ بیگم کی طرف دیکھنے لگیں۔
“تمہاری کون سی بہن آگئی بھئی کشور۔ اب تک تو کوئی نہیں تھی” قدسیہ بیگم بولیں تو آمنہ بھی انہیں دیکھنے لگیں۔
“وہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں بھابی۔ اب تک تو مجھے خود بھی نہیں علم میری کسی بہن کا” وہ الجھی ہوئی اسی جگہ کھڑی تھیں جبکہ ہاجرہ کبھی ان کی طرف دیکھتی کبھی قدسیہ اور کبھی آمنہ بیگم کی طرف دیکھتی۔
“فر میں کی جواب دیاں ؟ کہ دینی آں ایتھے کوئی کشور بیگم نئیں ریہندی”
(پھر میں کیا جواب دوں؟ بھیج دوں ؟ کہہ دیتی ہوں یہاں تو کوئی کشور بیگم نہیں رہتیں) وہ خود ہی بول کر آگے چل پڑی تو کشور بیگم نے اسے روکا۔
“ہاجرہ ! رکو تو سہی ۔ ایک تو تم ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہو۔ بھابی! مجھے لگتا ہے ہو نہ ہو غنویٰ کی پھوپھو آئی ہیں” ہاجرہ کو روک کر وہ قدسیہ بیگم کی طرف مڑیں ۔
“یہ تو اچھی بات ہے ان کو یاد ہے اپنی بھتیجی۔ تم ملو جا کر۔ میں کچھ بھجواتی ہوں ان کے لیے۔ پھر بس یہ ہنڈیا چڑھا کر میں اور آمنہ بھی آتے ہیں”
“ارے نہیں بھابی۔۔ وہ ایسی تو ہر گز نہیں ہیں۔ جب وہاں تھی غنویٰ تب کونسا پوچھ ہی لیتی تھیں اسے۔ اب کس مقصد کو لیے آئی ہیں وہ”وہ پریشان دکھنے لگی تھیں۔
“کشور! آج کل تم ہر بات کو دل پر لینے لگی ہو بس تنی سی بات ہے۔ جاؤ جا کر ملو” قدسیہ بیگم ان کو گھورتے ہوئے بولیں۔اپنی دیورانیوں کے ساتھ وہ بالکل بڑی بہنوں کی طرح رہتی تھیں۔ ان کو سکھانا، ڈھالنا، سمجھانا۔۔ زہرہ بی نے ان کو اس چیز کے لیے کمانڈ دے رکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گھر میں امن ہی امن ہوا کرتا تھا۔ اب بھی ان کے کہنے کی دیر تھی اور کشور بیگم سر ہلاتیں سر پر چادر درست کرتیں چل پڑی تھیں۔
“کشور بھابی نے غنویٰ کی بہت زیادہ ٹینشن لینی شروع کر دی ہے۔ اب تو جبل اور حبل بھی جاب جوائن کر چکے ہیں ورنہ دل لگا رہتا تھا۔ مجھے صبح شیر بھائی بھی ان کا خیال رکھنے کو کہہ گئے ہیں۔ ” آمنہ بیگم نے پیاز ہنڈیا میں ڈال کر فرائی کرتے ہوئے کہا۔
“ظاہر ہے۔۔ بیٹی ہے۔ایسے ہی تو نہیں بیٹیوں کی پیدائش سے خوف کھاتے ہیں لوگ ۔ بیٹی کے نصیب ہی تو ڈرا دیا کرتے ہیں۔ ورنہ کون چاہتا ہے کہ رب کی رحمت سے منہ موڑے۔ اور اس کی بیٹی کے تو نہ پہلے نصیب میں کچھ اچھا چل رہا تھا نہ ہی اب کسی نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔ فکر تو بنتی ہے نا آمنہ زمان۔!!!” وہ جانے کس سوچ میں گم یہ سب کہہ رہی تھیں کہ آمنہ بیگم بس چپکے سے انہیں دیکھتی رہ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں
وہ کب سے اس کے پیچھے چلتا اپنے بازؤں پر بس شاپرزلٹکائے چلے جا رہا تھا۔ جبکہ وہ تھی کہ تھکنے میں نہیں آ رہی تھی۔ اور ہمیشہ کی طرح اب بھی اسے کوئی سروکار نہیں تھا کہ سجاول زمان ساتھ چل بھی رہا ہے یا نہیں۔ فرق یہ آیا تھا کہ پہلے سجاول خوشی سے جایا کرتا تھا اب اسے اکتاہٹ گھیرے ہوئے تھی۔
“بس کردو زوئنہ یہ سب آل ریڈی ہے تمہارے پاس”
“چچ۔۔ کیا ہے اگر تھوڑا مجھے خوش ہو لینے دو تو۔ بہت ہی بورنگ ہو گئے ہو تم” وہ الجھی۔
“اچھا بابا میں نہیں کچھ بولوں گا اب۔ لیکن مجھے بھوک لگ رہی ہے کچھ کھا تو لینے دو پھر شروع کر لینا یار” وہ واقعی چل چل کر پیٹ سے محرومیت اختیار کرنے کے درجے پر پہنچ چکا تھا۔
“تم وہاں چلو میں بس یہ آئیٹم لے کر آتی ہوں” اس نے منہ بناتے ہوئے مال میں ہی بنی کافی شاپ کی طرف اشارہ کیا۔
“کافی پیوں گا میں ؟ ” وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگا۔
“ہاں تو؟”
“بھوووووک لگ رہی ہے میڈم مجھے” وہ اسے گھورتے ہوئے بولا تو زوئنہ نے کندھے اچکا دئیے۔
“جاؤ تم۔ میں آجاؤں گی خود ہی واپس۔” اس کے ہاتھ سے شاپرز پکڑ کر وہ آگے کو چل دی۔ جبکہ سجاول اسے دیکھتا رہ گیا۔
“رکو تو سہی۔ ناراض ہو جاؤ گی اب تم” اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ بولا۔
جو بھی تھا۔۔ تعلق تو نبھانا ہی تھا نا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں تو ایک لحیم شحیم عورت کو ساتھ بیٹھے کمزور سے مرد کے کان میں کھسر پھسر کرتے پایا۔
“السلام علیکم!!” کشور بیگم نے سلا کیا تو وہ دونوں چونکے۔ مرد تو کھڑا ہو گیا البتہ عورت بیٹھی رہی تھی۔کشور بیگم نے اچانک آنے والی مسکراہت کو روکا۔
“کیسی ہو کشور؟” وہ صوفے پر بیٹھیں تو عورت نے کرخت سی آواز کو نرم لہجے میں ڈھالتے ہوئے پوچھا۔
“جی الحمداللہ۔معاف کیجیے گا میں پہچان نہیں پائی ” انہوں نے ایک نظر ہاجرہ پر ڈالی جو ان کے صوفے کے پاس ہی کھڑی سامنے بیٹھے مہمانوں کا جائزہ لے رہی تھی۔
“ہو ہائے کشور بھول بھی گئیں۔ میں تنا کھلایا تمہیں بچپن میں۔ بھلا دیا سب؟ ارے میں تمہاری خالہ کی بیٹی ہوں ریاض۔ ” وہ ایسے اپنا برا سر ہلاتے ہوئے افسوس کر ہی تھیں کہ کشور بیگم واقعی میں ڈر گئیں۔
“ارے باجی ریاض۔۔ میں واقعی نہین پہچان پائی۔ اصل میں جب آخری بار دیکھا تھا تب تو بہت سمارٹ سی تھیں آپ۔ بالکل ہی بدل گئی ہیں۔” وہ وضاحت دینے لگیں۔
“اصل میں اب بہو آگئی ہے نا تو کام سارا وہی کرتی ہے۔ بس اسی لیے” جواب اس عورت کی بجائے نحیف سے آدمی نے دیا تھا۔ ہاجرہ جو اس عورت کے نام سے ہی اپنی ہنسی کو قابو میں رکھے ہوئے تھی اس مرد کی بات پر کھلکھلا کر ہنس دی۔ جہاں اس عورت نے اسے گھورا تھا وہیں کشور بیگم نے بھی اس کی طرف پلٹ کر تنبیہی نظر ڈالی۔
“ہاجرہ کچھ لے کر آئیں مہمان پہلی بار آئے ہیں” دانت پیستے ہوئے انہوں نے کہا تو ہاجرہ اپنی خیر مناتی وہان س نکلی۔ چالیس پچاس سالہ عورت اور اس خاندان کی پرانی ملازمہ ہانے کے باوجود بھی ہاجرہ اکثر الہڑ لڑکیوں والی حرکتیں کر جایاکرتی تھی۔
کشور بیگم نے واپس اپنے مہمانوں کی طرف نظر کی تو عورت کو مرد کی طرف گھورتے ہوئے پایا۔
“اور سنائیں باجی ریاض۔ کیسی ہیں” زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ بولیں۔
“بس کیا سناؤں تمہیں میں۔ میرا تو دیکھو جوان بھائی مرا تھا ۔ پھر بھابی بھی پیچھے ہی چلی گئی۔ ماں نے بھی دیکھو تو کیسے وقت پر وچھوڑا دیا مجھے۔ اب تو بس ایک بھتیجی تھی اسی کو دیکھ کر جیتی تھی میں۔ وہ بھی وہاں سے یہاں اتنی دور بلوا لیا تم نے اسے۔ سچ مانو تو دل ہی نہیں لگتا میرا تو” وہ منہ کے عجیب عجیب زاویے بناتے ہوئے بول رہی تھیں اور کشور بیگم تھیں کہ ان کی باتوں سے الرٹ ہو چکی تھیں۔ جبکہ ڈرائینگ روم کی کھلی کھڑکی سے چھپ کر نظر ڈالتیں نمل اور فجر بہ مشکل اپنی ہنسی روکے ہوئے تھیں۔
“باجی مجھے تو اللہ نے غنویٰ کی صورت میں بیٹی عطا کر دی ہے۔ میں تو جتنا شکر کروں کم ہے” کشور نے بات بڑھانے کو کہا۔ وہ ان کے یہاں آنے کا موقف ہی تو جاننا چاہتی تھیں۔
“وہ تو سب ٹھیک ہے مگر میں کیسے بتاؤں تمہیں۔ میرے لئے تو بہت ہی مشکل ہے سوچنا کہ میری بھتیجی اب اتنی دور ہے مجھ سے۔ ویسے ہے کہاں؟ نظر نہیں آرہی” وہ کہتے ساتھ ہی کمرے می یوں نظریں دوڑانے لگیں جیسے وہ سہیں کہیں چھپی بیٹھی تھی۔
“ابھی تو وہ گھر پر نہیں ہے باجی” کشور بیگم نے انہیں ٹالنا چاہا۔
“کیں کہاں گئی ہے؟ ارے بھئی وہ تو ادھر ادھر ہوا ہی نہیں کرتی تھی۔ کہاں ہے ابھی؟” وہ مشکوک سی ہوئیں۔
“سلائی سیکھنا چاہتی تھی وہ۔ آج ہی سے جانا شروع کیا ہے۔ پاس ہی میں ایک گھر ہے وہاں ایک بچی سکھاتی ہے۔ اسی کے پاس بس۔۔۔”
“لو۔۔یہ کیا بات ہوئی۔ جب پھوپھی اتنی امیر ہے تو کپڑے سینے سیکھ کر کیا کرے گی۔ ہیں۔۔ سہی نہیں کہہ رہی میں؟” ابرو اچکا کر وہ انہیں دیکھتی ہوئی ساتھ میں اپنے شوہر سے بھی اپنی بات کی تصدیق چاہتی تھیں اور ظاہر ہے وہ آخر ان کے نمانے سے شوہر تھے ان کو بھی تصدیق کرتے ہی بنی۔
“اس کی اپنی خواہش تھی ۔ میں بلوا دیتی ہوں” انہوں نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔
“ہاں وہ پانی بھی بھیجنا گلا خشک ہو رہا ہے پتہ نہیں کیوں” ان کے اٹھتے ہی ریاض صاحبہ نے اگلا مطالبہ کیا تو باہر چھپی نمل اور فجر بھی حیران ہوئیں۔’اتنی دیدہ دلیر۔۔ اب ایسا بھی کیا گلا خشک ہو رہا تھا۔ غنویٰ پتہ نہیں کیوے گزارہ کرتی تھی’
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پایا ہے سب نے دل مگر اس دل کے باوجود
اک شے ملی ہے دل میں ،کھٹکتی ہوئی مجھے
وہ سوچوں میں ڈوبی تھی اور ہاتھ تھے کہ سلائی پر سلائی لگائے جاتے تھے۔
“غنویٰ آپی!” کسی نے کندھا ہلایا تو وہ چونکی۔
“جی؟”
“یہ سلائی ٹیڑھی لے کر جا رہی ہیں آپ۔ میں کر لوں گی سلائی۔ آپ یہ کپڑے کٹوا دیں میرے ساتھ” اس کو باتوں میں لگانے کو عبادت نے اپنے کام کی طرف متوجہ کیا۔ شیر زمان کے اجازت دیتے ہی اس نے کشور بیگم سے بھی بات کر لی تھی ۔ تبھی آج وہ یہاں بیٹھی تھی۔ کوشش تو بہت کی کہ نمل اور فجر کو بھی ساتھ لیتی آئے مگر ان دونوں میں سےایک بھی راضی نہ ہوئی تھی۔
“یہ تو ریشمی کپڑا ہے عبادت” وہ معصومیت سے منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی ۔ عبادت ہنس دی۔ اس لڑکی سے ایسی چھوٹی سی باتوں پر پریشان ہونے کی امید کم از کم عبادت نہیں کر سکتی تھی۔
“تو کیا ہوا۔ میں بھی تو کرتی ہوں۔ اور جہاں آپ پیزا بنا لیتی ہیں اس کے سامنے تو یہ کچھ بھی مشکل نہیں” کپڑا کھول کر پھیلاتے ہوئے وہ بولی۔
“پیزا بنانا کب مشکل ہے عبادت۔۔ بس ڈو پر ہی تو دھیان دینا پڑتا ہے” اس نے منہ بنایا۔
“بس اسے بھی پھر آپ پیزا کی ڈو ہی سمجھ لیں ۔ ذرا دھیان دینا پڑے گا بس” وہ مسکرائی اور ایک قمیص کو پھیلایا ۔ غنویٰ کو فیتہ دیا اور ماپنے کو کہا۔
“یہ ناپ ہے۔ آپ مجھے پیمائش بتائیں ۔ پھر کپڑا کاٹیں گے ہم” غنویٰ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
“یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے آپی۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں”
“سچ بتاؤں تمہیں؟” غنویٰ فیتہ پکڑے کپڑے کا خم ماپنے لگی۔عبادت نے سر ہلایا۔
“سکول میں جب کیمسٹری کے پریکٹیکلز ہوا کرتے تھے نا۔ میں تب بھی اس ماپ تول سے بھاگا کرتی تھی۔ میرے سب ٹیچرز میری اس عادت سے واقف تھے اور ہر بار مجھے ہی آگے کرتے تھے۔ ” وہ مسکراتی ہوئی اسے بتارہی تھی اور عبادت ایک نوٹ بک پر پیمائش لکھتی جا رہی تھی۔
“آپ نے گریجویشن کر لی ہے کیا؟” عبادت نے قینچی پکڑی اور کپڑا کاٹنے لگی۔
“ارے میں تو ماسٹرز بھی کر چکی ہوں۔ ”
“اب میں آپ سے ٹیوشن لیا کروں گی۔” عبادت نے کپڑا سائڈ پر کیا اور اسے باندھتے ہوئے ایک اور کپڑا پھیلایا۔
“وہ تو بعد کی بات ہے پہلے مجھے تم اس ماپ اور ناپ کا فرق تو سمجھاؤ۔”
“ارے یہ تو میری اماں بولا کرتی تھیں۔ مجھے بھی انہی سے عادت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ماپ اور ناپ میں کوئی فرق نہیں ہیں۔ اور ایک دفعہ میں نے کشور چچی سے پوچھا تھا ۔ انہوں نے بھی اتنا ہی جواب دیا تھا کہ دونوں ہی اردو کے الفاظ ہیں اور ان کا مطلب ایک ہی ہے۔۔۔” اس سے پہلے کہ غنویٰ کوئی جواب دیتی باہر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
“میں دیکھتی ہوں آپ اسے ماپیں۔” دروازے کی طرف مڑی تو غنویٰ نے دھیان کپڑے کی طرف کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...