بیٹھے بیٹھے ڈال دیا ہے آتش داں میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا ــــ جتنی آگ جلا لی ہے
کب سے بیٹھی وہ سامنے بے جان پڑے موبائل کو گھور رہی تھی۔ نہ تو اسے اٹھانے کہ ہمت تھی نہ ہی دوسری طرف سےبار بار آنےوالی کال کو پک کرنے کی ہمت تھی۔ ہاتھ سرد ہو رہے تھے اور جسم بےجان۔ یہ ابھی اس نے کیا سنا تھا۔ اس تڑپ میں کیا تھا ۔ ابھی جو اس نے سنا وہ کیا تھا۔ ایسا تو وہ سوچنا بھی نہ چاہتی تھی۔اس نےتھک کر کال ریسیو کی۔
“غنویٰ” اپنے نام کی صدا سن کر وہ چونکی اور ارد گرد دیکھنے لگی۔
بہت غور کرنے پر بھی اپنے ارد گرد خامشی کی دبیز تہہ کے علاوہ اسے کچھ نہ ملا۔ کوئی ذی روح ہوتا تو نظر آتا۔ وہ ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ بے چین سے آواز پھر سے گونجی۔وہ یوں اچھلی گویا کسی موذی چیز نے ڈنک مار دیا ہو۔
یہ ہونے کیا جا رہا تھا۔
ہر شب منم فتادہ بہ گرد سرای تو
تار روز آہ و نالہ کنم از برای تو
(ہر رات میں تیرے آستانے کے پاس پڑا رہتا ہوں۔ اور صبح تک تیرے غم میں آہ و زاری کرتا ہوں)
اس نے قدم نیچے ٹھنڈے فرش پر جمائے تو ٹھنڈک نے پاؤں منجمد کیے۔ اسے اپنی آواز بھی کہیں کنویں سے آتی سنائی دی۔سوچ سمجھ سے بیگانہ ہو جانے کو جی چاہا۔
روزے کہ ذرہ ذرہ شود استحوان من
باشد ہنوز در دل تنگم ہوای تو
(جس روز میری ہڈیاں ذرہ ذرہ ہو جائیں گی۔ تب بھی میرے چھوٹے سے دل میں تیری تمنا ہو گی)
اس کی آواز کانپنے لگی۔ یہ نہ تھا کہ اسےگھر میں کسی کے جاگ جانے کا خوف تھا۔ خوف تو اس چیز کا تھا کہ دل نےاسے مات دی تھی۔ ایسی مات جو سوچ سے بھی مبرا ہو۔ ایسی مات جو تڑپنے الجھنے پر مجبور کرے۔
ہرگز شبِ وصال تو روزے نہ شُد میرا
اے وای بر کسے کہ بود مبتلای تو
(کوئی بھی دن میرے لیے تیرے قرب کی رات نہ لایا۔ ہائے افسوس اس پر جو تیری محبت میں مبتلا ہوا)
جب جسم سردی سے بہت کانپنے لگا تو آواز گلے میں پھنسنے لگی۔ دل اکڑبیٹھا تھا اور دماغ کی تاویلیں الگ جاری تھیں۔ نہ تو دل کی سن سکتی تھی نہ دماغ کو جواب دینا لازم سمجھا۔ زبان اپنی جگہ منجمد ہوئی تو ایک اور پکار آئی۔
تڑپ اور پکار۔۔۔
پکار میں تڑپ۔۔۔
“غنویٰ! ۔۔۔”
اس نے سختی سے آنکھیں میچیں مگر بے سود۔ اب کیا فائدہ۔۔۔ دل خوب قہقہہے لگاتا تھا۔
جان ِرا روان برای تو خواہم نثار کرد
دستم نمی دہد کہ نہم سر بہ بپای تو
(میں اپنی جان تیرے لیے قربان کردوں ۔ بس نہیں چلتا کہ تیرے پاؤں پر سر رکھ دوں)
آنسو لڑیاں بناتے چہرہ بھگونے لگے تھے اور دل تھا کہ موم کی طرح پگھلنے لگا۔ یہ کیفیت اب کی تو نہ تھی۔ یہ کیفیت اس رات کی تھی جب اتناگا چکنے کے بعد آنکھیں کھولیں اور اسے اپنی طرف محو سا دیکھتے پایا۔ اسے اب بھی اپنا سمٹنا اور جھجھکنا یاد تھا۔
جانا بیا ببین تو شکستہ دلی من
عمرے گذشتہ است منم آشنای تو
(اے محبوب! آاورمیری شکستہ دلی دیکھ۔ تیری آشنائی میں میری اک عمر بیت گئی ہے)
آنکھیں پٹ سے کھولتے ہوئے اس نے اپنے چہرے کو چھوا۔ گیلا تر چہرہ اور یخ بستہ ہاتھ۔۔۔یہ غنویٰ اچانک کس کے لیے روئی تھی۔ یہ کیا ہونے جا رہا تھا۔خواہش زور پکڑنے لگی اور ضبط مشکل ہواتو لبوں سے سسکی برآمد ہوئی۔
بہر حال زار من نظرے کن ز روی لطف
تو پادشاۂ حسن و خسروؔ گدای تو
(میرے حالِ زار پر مہربانی فرما کر لطف کی نظر کر کہ تو حسن کا بادشاہ ہے اور خسرؔو تیرا گدا ہے)
شعر مکمل کرنے کی دیر تھی کہ اس نے کال کاٹ کر سسکیوں کو لبوں کی قید سے آزاد کیا۔ پیٹ میں گرہیں پڑنے لگی تھیں۔ یہ سب کیوں ہوا۔ ایسا تو ممکنات میں سے بھی نہ تھا۔ وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ایسا کیوں کر ممکن ہوا۔ کب نظریں بہکیں اور کب دل غافل ہوا ۔عشقِ حقیقی نے کب عشقِ مجازی میں پھینک ڈالا تھا۔ یہ دکھ کیا رونے کو کم تھا کہ اس سے رب کی یاد چھین کر اندھے کنویں میں دھکیل دیا گیا تھا۔
لے دیکھ!!
اب تیری رگیں نچوڑی جائیں گی۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح گیارہ بجے ان کا ہال میں پہنچ جانا طے تھا۔ رات جتنی کالی تھی اتنی ہی سرخی لیے اس رات کا سورج طلوع ہوا تھا۔ سجاول کو ہوش دلانے اور پھر اس کی صرف ایک ہی بات کی رٹ لگانے پر اس کو وہ آواز سنا دی گئی تھی۔ غنویٰ کی گائی گئی پوری فارسی نظم۔۔۔
یہ اور بات کہ سمجھ کسی کو بھی نہ آتی تھی مگر جہاں اس کے منہ سے لفظ ایک لے میں بہتے تھے وہیں دل بیٹھنے لگتا تھا۔ سجاول بے چینی سے پوری رات جاگتا رہا تھا۔ سب وہیں لاؤنج میں جمع رہے ، سو کر جاگ بھی گئے مگر سجاول ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا رہا تھا۔ اور اب فخر زمان کے اونچی آواز میں ‘اٹھ جاؤ سب’ کہنے پر سب الرٹ سے تیاریاں مکمل کر رہے تھے۔ لڑکیوں نے بھی ان کو زیادہ شکایت کا موقع نہ دیا تھا کہ رات سجاول کی حالت دیکھنے کے بعد کسی ایک کا بھی دل اس ہونے والے نکاح یا شادی کے لیےراضی نہ تھا ۔
“بھیا ! یہ توس کتم کر کے جوس پی لیں۔ رات بھی کچھ نہیں لیا تھا آپ نے” نمل نے سجاول کے سامنے سے پلیٹ اٹھا کر اس کی گود میں رکھی تو وہ چونک گیا۔
“دل نہیں کر رہا۔ تم ختم کر لو۔ میں جبل کے ساتھ بال سیٹ کروا آؤں اپنے” اس نے دقتاً مسکراتے ہوئے پلیٹ واپس اسے پکڑائی اور جبل کو آواز دیتا باہر کی طرف نکل گیا۔
“یار میں آج بول رہی ہوں تایا ابو کو کہ بس کریں۔ لازمی امتحان لینا ہے ایک بندے کا جب وہ حوصلہ ہی نہیں رکھتا ایسا” نمل چڑ کر بولی۔
“چپکی رہو تم۔ ڈرامے کر رہا ہے بس شادی روکنے کو۔ ابھی نکاح ہو جائیگا پھر دیکھنا کیسےچہرہ کھلے گا اس کا” اجر نے حجاب کرتے ہوئے اسے ڈپٹا۔
“آپی ایک آپ اور ایک سانول لالہ۔ تایا ابو کی پوری کی پوری کاپی ہیں” منال نے منہ بنایا اور جوتی پہننے لگی۔
“ہاں وہ زہرہ بی اکثر کہتی ہیں نا ‘ اللہ ملائی جوڑی۔ اک انّی اک کوڑی’۔۔” حبل جمائی لیتا ہوا بولاتو اجر اسے گھورنے لگی۔
“آپ سب تو تیار ہو رہی ہیں اور دلہا صاحب ابھی نہائے بھی نہیں ہیں ” حبل نے فورا! بات بدلی۔
“ابو تیار کر وا لیں گے فکر نہ کرو۔ تم تیار ہو جا کراور یہ بِد کے باکس بنانے ہیں ابھی۔ جلدی آؤ سب” اجر نے سب کو ہائی الرٹ کیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہم اپنے عہد کی ـــــ خوشیاں خریدتے کیسے
ہماری جیب میں پچھلی صدی کے سکے تھے
تین دن ہو چلے تھے اپنی اولاد کو اپنی نظروں سے دور بھیجے ہوئے۔ اب دل تھا کہ بے قرار ہوا جاتا تھا۔ کیسے ایک ماں اپنے بیٹے کے اتنے بڑے موقعے سے منہ پھیر سکتی ہے۔آنکھیں اسے دیکھنے کو بے چین تھیں مگر جبر کرنا لازمی تھا کہ انا آڑے آتی تھی۔
“تائی امی!” وہ کچن میں لسی کی جھاگ سے مکھن اکٹھا کر رہی تھیں جب انہیں اپنے پیچھے اس کی نرم گرم سی آواز سنائی دی۔مڑے بغیر بھی جانتی تھیں وہ کچھ خاص خبر ہی لائی ہو گی۔
“نکاح کے لیے سب انتظار کررہے ہیں۔ وہ آپ کی آواز سننا چاہتا ہے۔ جبل کو کہہ کر کال کی ہے اس نے۔” اس نے موبائل ان کی طرف بڑھانا چاہا تو وہ اٹھ کر برتن لیے سنک کی طرف چلی آئیں۔
“تائی امی! ایک ہی تو بیٹا ہے آپ کا۔ ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔ یہ لیں بات کریں” اس نے ان کے پیچھے سے انہیں پھر سے موبائل پکڑانا چاہا مگر انہوں نے کوئی حرکت نہ دکھائی تو غنویٰ نے موبائل اپنئے کان سے لگا کر انتظار کرنے کا بولا اور واپس ان کی طرف متوجہ ہوئی۔
“گھر میں جو بھی چل رہا ہے میرے کان میں بھی پڑ جاتا ہے تائی امی۔ میں اللہ کا شکر ہے کہ عقل سے نوازی گئی ہوں۔ مگر اس سب کا مجھے نہیں علم کہ آپ نے اپنی انا کا جھنڈا اتنا اونچا کیوں کر رکھا ہے۔ وہ شخص اگر اپنی خوشیوں کے لیے آپ کے سامنے آیا بھی تھا تو اس میں مضائقہ کیا تھا؟” ان کا رخ اپنی طرف موڑے وہ دھیمے لہجے میں بول رہی تھی جبکہ اس کی پشت پر کھڑیں کشور بیگم منجمد ہوئی جا رہی تھیں۔
‘سو طے ہوا غنویٰ کہ اس گھر میں بھی تمہیں میں دلی سکون نہ فراہم کر سکی’
“اس چیز پر دکھی ہونا ختم کر دیں کہ زندگی کس طرف جا رہی ہے۔ کسی کو بھی نہیں پتہ کس وقت کیا ہو جائے۔کوئی بھی نہیں جانتا۔صرف ایک وہ ذات ہے جو جانتی ہے کہ ابھی اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ صرف وہی ذا ت جانتی ہے کہ اگلے ہی لمحے میں آپ کو کتنی بلندی دی جائیگی اور کتنی گہرائی میں گرا دیا جائیگا۔ سو ایسے اس زندگی کو گزاریں کہ جیسے گزارنے کاحق ہے۔ اور دل کو اس ذات کے ساتھ جوڑ لیں جو جانتا ہے ہر ایک لمحے کی کہانی کو” اس کے لہجے میں جانے کونسے دکھ بولتے تھے۔
“غنویٰ اسے اپنی ماں کا احساس ہونا چاہیے تھا بیٹا۔ اس نے ذرا بھی نہیں دل بڑا کیا” وہ رونے لگی تھیں۔
“تو آپ بڑ ا کر لیں نا دل کو۔ وہ آپ کی اولاد ہے اور اولاد دکھ دے دیا کرتی ہے۔ ماں کا دامن تو بڑا وسیع ہوتا ہے ۔ آپ اسے معاف کر کے بات کرلیں۔ وہ بے چین ہوگا۔” ان کو ساتھ لگا کر وہ خود اپنے آنسوؤں کو ان کی پشت پر بہانے لگی تھی۔
‘ایک ہی تو چیز تھی میری اللہ جی!میرادل۔۔۔ آپ نے وہ بھی کسی اور کو دے دیا’ وہ کرلائی مگر ایک سسکی بھی آواز نہ نکال پائی تھی۔
“اب میں کال کر رہی ہوں جبل کو۔ آپ کی بات کروا دے گا اور آپ پورے دل سے اس کے لیے دعا کریں گی” اس نے خالی خشک آنکھوں سے ان کو الگ کیا اور نمبر ملا کر فو ن کو پکڑا دیا۔
“میں برتن دھوتی ہوں رانی کے ساتھ مل کر۔ آپ باہر جائیں اور تسلی سے بات کریں” اس نے سنک ہی کی طرف منہ کیے ان کو باہر کی طرف بھیجا۔
جانتی تھی۔۔۔ کشور بیگم پیچھے پتھر بنی کھڑی ہوں گی۔
ایک وہی تو اب اسے غور سے دیکھتی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایجاب و قبول کے بعدسجاول اور زوئنہ کو ساتھ ساتھ بٹھایا گیا تو وہ جو اتنے دن کی بے کلی تھی اسے چھٹتی سی محسوس ہوئی۔ جو ارادہ دل باندھ چکا تھا وہ مسمم ہوا اور جو مشورہ دماغ نے دیا اس پر سجاول نے پورے وثوق سے مہر ِ عشق ثبت کی۔
“کہاں گم ہو تم کل سے؟ میں نے اتنی کالز کیں رات تمہیں” اس کے پہلو میں بیٹھی زوئنہ دانت پیس کر بولی تو وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ بے شک بیوٹیشن کے ماہر ہاتھوں نے اس وقت اسے ایک دلکش روپ دیا ہوا تھا۔ ڈیپ ریڈ اور گولڈن رنگ اس پر ایک الگ ہی روپ لائے ہوئے تھا۔اس کے کالے بالوں کو ٹوئسٹ کیا گیا تھا اور ایک پھول کی طرح جوڑا سا بنا کر گردن پر ایک طرف سیٹ کیا گیا تھا۔آنکھوں کا میک اپ اس حد تک مکمل تھا کہ آنکھیں کم اور تیر کش زیادہ لگتیں۔ ہونٹوں کی بناوٹ بے شک بہت پیاری تھی مگر ڈیپ ریڈ لپ اسٹک نے ہونٹوں کو سجا دیا تھا۔ اس سب کے باوجود ایک کمی ابھی بھی تھی۔۔۔
اس کا دل۔۔۔
اگر اس کا دل پہلے جیسا ہوتا تو اس وقت وہ اس کے واری صدقے جا رہا ہوتا۔۔
“میں کچھ پوچھ رہی تھی سجی” بغیر شرمائے جھجکے زوئنہ نے ایک اور سوال جڑ دیا۔
اور یہی بات تو اس کو الجھاتی تھی۔ اس میں کیوں نہیں وہ جھجک جو غنویٰ میں ہے۔ وہ تو سب لڑکوں کے سامنے سمٹی سی بیٹھی ہوتی ہے۔ اس کو کیوں نہیں احساس کہ بھرے ہال میں سب کے سامنے بے جھجک مجھے دیکھ رہی ہے۔
“سجاول!!” اجر نے اس کو ٹہوکہ دیا تو وہ چونکا۔
“ہوں؟”
“کیا مسئلہ ہے کہاں گم ہو؟” اجراسے گھور رہی تھی۔
“کیا کروں میں؟ ” وہ چڑ کر بولا۔
“بد تمیز فوٹو سیشن تو کروا لو۔ ” اس نے سجاول کے کندھے پر چپت لگائی۔ وہ ڈیپ ریڈ شیروانی اور گولڈن کلاہ میں شیو بنائے گولڈن ہی کھسہ پہنے بیٹھا تھا۔ ماتھے پر شکنیں تھیں ۔
“ایک منٹ اجّی آپی! سجاول ذرا بات سن ” جبل اسے لے کر ایک طرف چلا آیا ۔
“تیرے اندر جو بھی چل رہا ہے اسے اگنور کر۔ ابھی جو تیرے نکاح میں آئی ہے اس کے جذبات کا خیال کر ۔ اس کی تھوڑی سی تعریف کر دے وہ بھی مسکرا دے ۔ کب سے منہ پھلا کر بیٹھی چڑیل لگ رہی ہے” وہ ہنستے ہوئے بولا۔
“بکواس کر رہا ہے یہ۔ آپ اس کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ بہت پیاری لگ رہی ہیں بھابی”فجر جو اپنے بھائی کی گم سم حالت سے پہلے ہی اداس تھی لپک کر جبل کی فضول گوئی سے بچانے آئی ۔جبل کا حلق تک کڑوا ہوا۔ ‘یہ کیوں ٹپک پڑی’
“پتہ نہیں کیا بول رہے ہو تم لوگ۔” سجاول سر جھٹکتا واپس اپنی جگہ پر جا بیٹھا۔
فوٹوسیش مکمل ہونے کے بعد جہاں فخر زمان نے جلدی جلدی کا شور مچایا تھا وہیں سجاول کا دل بیٹھنے لگا تھا۔
اصل گیم تو اب شروع ہونے جا رہا تھا۔
کیسے اتنے نازک معاملات کو سنبھال پائے گا۔ جبل ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ اندر جو بھی چل رہا ہے اسے اگنور کرنے میں ہی بہتری ہے۔
رخصتی کے وقت بھی اس کا ذہن زوئنہ اور ‘اس’ کا مقابلہ کرنے میں جتا ہوا تھا۔
سر جھٹک کر وہ آئیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورج غروب ہونے کو آیا تو سب پنچھی اپنے اپنے گھونسلو ں کی فکر میں اڑ گئے۔ رزق چونچوں میں چھپائے اپنے بچوں کو کوش کرنے چل پڑے۔ پرندے تو ایک طرف حضرت ِانسان بھی اسی چکر میں تھے۔ سارے دن کا کمایا جیب میں رکھا اور گھر کی جانب چل پڑے۔
وہ کب سے کپڑوں پر دھیان لگائے بیٹھی تھی کہ شادیوں کے دن تھے اور آج کل ریشمی کپڑا سلائی کے لیے زیادہ دیا جاتا تھا۔ اس ریشمی کپڑے کو سنبھالنا، پھر کاٹنا اور ایک ہی کریز پر کاٹنا ایک محنت طلب کام تھا۔صبح سے اب تک اس نے دو لہنگے سلائی کر لئے تھے اور اب ایک شرارے کی طرف دھیان لگائے بیٹھی تھی۔ سوچا تھا جب تک ابا گھر نہیں آتے تب تک یہ کپڑا کاٹ کر رکھ لیتی ہوں مگر ابا تو جانے کہاں جا بیٹھے تھے کہ اب آٹھ سے نو بجنے کو آئے ، وہ ابھی تک گھر نہ آئے تھے۔
کپڑا کاٹا، باندھ کر ایک طرف رکھ دیا اور باہر بنے باورچی خانے میں آ کر دال کا سالن گرم کیا ، ایک آدھ کھیرا جو اس نے آج سبزی میں خریدا تھا ــــ کاٹ کر پلیٹ میں سجایا ، دھنیا کاٹ کر اسے کوٹا اور چٹنی بنا کر ڈھانپی۔ ابا کا اب بھی کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اور دل گھبرانے لگا تھا۔ سوچا کیوں نہ جاکر بڑی حویلی میں سے کسی کو کہہ آؤں وہ دیکھ لے جا کر۔ پھر ذہن میں آیا کہ پیچھے سے ابا آگئے تو کیا کہیں گے۔ چپ چاپ جا کر اپنی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
‘یا اللہ خیر آج کہاں رہ گئے ہیں ابا’ دل وسوسوں کا شکار ہونے لگا تھا جب اچانک سے دروازے پر کھٹکا سا ہوا۔ وہ دوڑ کر گئی اور ابا کی آواز سننے پر دروازہ وا کر دیا۔ وہ انتہائی تھکے ہوئے لگتے تھے۔ صافہ کندھے سے اتار کر جھاڑتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئے تو اس نے ان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا شاپر فوراً سے لیا اور ان کی پیچھے چلتی ہوئی کمرے میں آئی۔
“آج دیر کر دی ابا۔۔۔” وہ پریشان سی بولی۔
“ہاں ۔۔۔ زہرہ بی کی طبیعت پوچھنے چلا گیا تھا۔ گھر کوئی مرد نہیں تھا ۔ بڑی بھابی کو کچھ سامان چاہیے تھا سوچا لے کر دیتا جاؤں۔ میں پیغام بھی نہیں بھیج سکتا تھا ۔ تو فکر کرتی رہی ہونی” آواز رندھی ہوئی لگتی تھی۔
“ابا وہ سب الگ بات ہے۔ آپ اتنے تھکے ہوئے کیوں لگ رہے ہیں کیا ہوا ہے؟ روئے ہیں نا؟” وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
“لے۔۔ میں نے کیوں رونا ہے دھی رانی! وہ بس تیرے بھائی کا فون آیا تھا۔ کہتا ہے پیسوں کی ضرورت ہے ذرا۔ میں نے کہا کر دیتا ہوں انتظام۔۔۔” وہ اٹکتے ہوئے بات بتا رہے تھے۔ جانتے تھے کہ وہ چڑ جائیگی۔
“ابا ۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی کمیٹی ختم ہو گئی ہے۔ کہاں سے لائیں پیسہ؟ سارا قرضہ تو ہم پر ہے نا۔ میں بتا رہی ہوں ابا اب آپ اگر ایک روپیہ بھی ادھر بھیجیں گے نا تو میں ناراض ہوجاؤں گی آپ سے” وہ اٹھ کر فوراً سے باہر نکل گئی۔
ناراضی کا اظہار۔۔۔
وہ مسکرا دیئے۔
“بات تو سن لیتی میری۔۔۔” وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئے مگر اس نے ہوں میں جواب نہ دیا بس برتنوں کے ساتھ کھٹر پٹر کرتی رہی۔
“بات تو سن لیے پتر!” وہ اس کے پیچھے چلے آئے۔ اس نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا تو وہ ہاتھ منہ دھونے صحن میں لگے سنک کی طرف بڑھ گئے۔کھانا چارپائی پر رکھنے کے بعد اس نے پانی کا گلاس نیچے چارپائی کے پاس فرش پر رکھا اور اپنی چارپائی پر منہ بسور کر بیٹھ گئی۔
“وہ کیا نام ہے اس کا۔۔ وہ جو لڑکی ہے زہرہ بی کی ۔۔ جو ابھی نئی آئی ہے” اسے بلانے کو انہوں نے جملہ ادھورا چھوڑا۔ اوروہ بھی فوراً سے بول پڑی۔
“غنویٰ آپی۔۔” نام لیتے ہوئے لہجہ انتہائی میٹھا ہوا تھا۔ ابا چہرہ نیچے کیے مسکا دیئے۔
“ہاں وہی۔۔ کہہ رہی تھی کہ جب سب گھر آجائیں گے تب وہ تیرے پاس کلاس لینے آیا کرے گی سلائی کی” لقمہ توڑتے منہ میں ڈالتے اور بات کرتے وہ کنکھیوں سے اس کا چہرہ ٹٹول رہے تھے۔
“اب آپ صرف میرا موڈ ٹھیک کرنے کو جو دل میں آئے گا گھڑتے جائیں گے ابا” وہ نروٹھے پن سے بولی۔
“لو جی۔۔ میں کیوں کہانیاں ڈالنے لگا تجھے۔ میری شیرنی ہے۔ سب سمجھتی ہے۔ وہ سچی میں آئیگی۔ بہت خوش ہوئی تھی مل کر مجھ سے۔ دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے اتنی اچھی بچی ہے وہ”
“اور آپ نے کیا کہا آگے سے؟” وہ اب ناراضی بھولے اشتیاق سے ان کو دیکھ رہی تھی۔ بلب کی ہلکی سی روشنی میں بھی اس کی سنہری رنگت دمک رہی تھی۔ کالی آنکھیوں میں اشتیاق بھرے وہ انہی کو دیکھ رہی تھے۔انہوں نے نظر لگ جانے کے خوف سے نظریں ہٹائیں۔
“میں نے کیا کہنا تھا۔ اسے پتہ ہے تو نے کون سا پہلے کسی کو سکھایا ہے جواب سکھائے گی۔ بتا دیا میں نے اسے۔ کہتی چلو ملنے ہی آجاؤں گی” وہ مسکراہٹ چھپائے بولے۔
“ابا۔۔۔ یہ کیا کیا۔ ان کے لیے تو کچھ بھی کرتی۔ اتنی تو اچھی ہیں وہ۔۔ میں سکھا دیتی ان کو۔۔ “وہ پریشان سی ہوئی۔
“کیسے سکھائے گی۔ پہلے تو سب کو نہ کر دیتی تھی تو” ابا مصنوعی غصے سے بولے۔
“ابا وہ کیا سوچ رہی ہوں گی۔۔ مجھ سے تو پوچھ لیتے آپ۔ ہائے اللہ وہ کیا سوچیں گی میں کتنی مغرور ہوں” اس کو نئی فکر لاحق ہوگئی تھی۔
“او کجھ نئیں سوچتی۔۔ دھیوں جیسی ہے وہ بھی۔ اس نے برا نئیں منایا ہوگا” کھانا ختم کرکے چنگیر ایک طرف رکھتے وہ مسکرائے۔
“اباکیوں تنگ کر رہے ہیں ٹھیک سے بتائیں نا کیا کہا ان سے آپ نے”وہ ان کی شرارت سمجھ چکی تھی۔ قہقہہ لگاتے ہوئے اسے پوری تفصیل سے آگاہ کرنے لگے کہ’ میں اسے ہاں کر ہی آیا ہوں اب تم پر ہے کہ کیسے اپنا ہنر اسے منتقل کرتی ہو’
وہ مسکراتی ہوئی ان کے لیے چائے بنانے چل دی تو ان کے چہرے سے مسکراہٹ بھی چل دی تھی۔ ابھی اور بھی بہت سی فکریں تھیں جو ان کو عبادت کی سوچوں سے پوشیدہ رکھنی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بھیگی ہوئی اک شام کی ـــــ دہلیز پر بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
سب خواتین زہرہ بی کے کمرے میں محفل جمائے بیٹھی تھیں۔ رانی اور ہاجرہ کو بھی آج کل مکمل فراغت تھی کہ گھر پر صرف خواتین ہی پائی جاتی تھیں باقی ملازمین تو شام ڈھلتے ہی گھروں کا رخ کر لیتے تھے۔ سب کے ساتھ وہ اندر بیٹھی تھی جب جانے دل کو کیا دھواں سا محسوس ہوا اور وہ اٹھی اور لان کی طرف چلی آئی۔ شام کا وقت تھا اور ٹھنڈی ہوائیں پودوں کے پاس سے خاموشی سے سرگوشیاں کرتی ہوئی اسے چھو کر گزر رہی تھیں۔ دل کو ایک دم جانے کیا ہوا تھا۔ کوئی وجہ بھی نہ تھی تو یہ خالی پن سا کیوں محسوس ہوتا تھا۔اسے اپنے اندر ایک الاؤ سا جلتا محسوس ہوا تو چپل اتار کر گھاس پر ننگے پاؤں چلنے لگی۔ ‘یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کوئی تُک بھی نہیں بنتی’وہ سوچوں میں گم بس چلتی ہی جا رہی تھی۔ نہ تو سردی کا احساس تھا نہ ہی اس ڈھلتی شام کا۔ کھانا چونکہ آج کل جلدی کھا لیا جاتا تھا سو کوئی اسے تلاشنے اس طرف آیا بھی نہ تھا۔ رانی جو آج کل اس کے ساتھ لگی رہتی تھی ۔ اس وقت وہ بھی کہیں مگن تھی تبھی اسے اس حالت میں گم ہوئے جانے کتنی ہی دیر ہوگئی۔ دل کیا کیوں نہ کچھ گنگنایا جائے۔دماغ کہتا تھا کیا ملے گا۔ زبان تالو سے جڑ گئی تھی کہ دل اور دماغ میں فیصلہ نہ ہو پاتا تھا۔
بہت بچپن سے اپنی دادی کو فارسی نظمیں گنگناتے اور ان پر جھومتے دیکھا تھا۔ اسے اب بھی یاد تھا وہ کیسے ایک ایک شعر ادا کرتے ہوئے آنکھوں کو برسنے سےبچاتی تھیں۔ اس کی دادی زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں۔ انہوں نے یہ سب اشعار اس کے دادا ہی کی زبانی سنے تھے۔ یونہی وہ بھی کبھی گنگناتے ہوں گے۔ جب تک دادی زندہ رہیں اسے اکثر ان کی آواز آتی رہی۔ کبھی رات میں جب آنکھ کھلتی تو وہ گا رہی ہوتیں۔ کبھی یوں ہی بیٹھے بیٹھے موڈ میں ہوتیں تو مسکرا دیتیں اور گانے لگتیں۔ اور کبھی موڈ میں ہوتیں تو ایک ایک لفظ کا معنی بتاتیں۔
ہاں تب کچی عمر تھی۔ ان سب باتوں کا علم بھی تو نہ تھا۔
دادی کے جانے کے بعد اب تک اسنے ان اشعار کو اتنی دفعہ دہرا لیا تھا کہ اب کچھ مشکل نہ رہی تھی۔ یہ اور بات کہ معنی تو اب خود پر گزرنے لگے تھے۔ اسے دادی کی حا لت یاد تھی۔ وہ سر مستی کی حالت۔ وہ خود کو رونے سے بچنے والی حالت اور اکثر اشعارگا چکنے کےبعد بالکل خاموش ہو جانے والی حالت۔ یہ سب اب اس پر گزر رہا تھا۔
شاد باش عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
(اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب ! اے عشق! خوش رہ)
وہ گھاس پر قدم قدم دھرتی ہلکی آواز میں گنگنانے لگی تھی۔ اب تو کوئی زور نہ رہا تھا۔اب تو بس جو ہو رہا تھا خود ہی ہو چلا جا رہا تھا۔
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے توافلاطون و جالینوس ما
(اے عشق ! تو میرے غرور اور تکبر کی دوا ہے ۔ میرے لیے تو افلاطون اور جالینوس کی طرح ہے)
شعر لبوں سے ریشمی دھاگے کی طرح پھسلتے جاتے تھے۔ جانے کیا تھا اس زبان میں کہ ہر درد کی دوا ملا کرتی تھی۔ چاہے گھر میں کوئی تکلیف دیا کرتا تھا یا سکول کالج میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا۔ اسے انہیں اشعار میں دادی ملتی تھیں۔ یہ اس کا لا شعور تھا۔
جسم خاک از عشق بر افلاک شد
کوہ در رقص آمد و چالاک شد
(یہ خاکی جسم عشق ہی کی وجہ سے افلاک(آسمانوں ) پر پہنچا ہے۔ پہاڑ بھی رقص میں آگیا ہے اور ہوشیار ہو گیاہے)
چہرے پر ہاتھ پھیرا تو تر ملا۔ لب مسکائے تو دل ٹھہرا۔ کیاہو گیا تھا ۔ نصیب میں پہلے کم ٹھوکریں تھیں جو کچھ ٹھیک ہونے ہی لگا تھا تو آسمانوں سے نیچے گراد ی گئی۔ کہاں غفلت ہوئی تھی۔ کہاں کوتاہی ہوئی تھی۔
عشق جان طور آمد عاشقا
طور مست و ختر موسیٰ صعقا
(اے عاشق! یہ عشق طور کی جان بن گیا۔ کوہِ طور مست ہوا تو موسیٰ بے ہوش ہو گیا)
یہ جلوہ اسے تو نہ ملا تھا۔ تو کیا اب طور کو جلنا تھا؟؟ یعنی اب تو جان ہی مست ہوئی چاہتی تھی۔ اب ہی تو اصل امتحان تھا۔ غمِ عاشقی میں کون بھلا۔۔۔۔ غمِ عاشقی میں جاں گھلی۔۔۔ اب سوال یہ نہ رہا تھا کہ یہ ‘ کیوں’ ہوا؟ سوال اب نئی شکل میں سامنے تھا۔
‘کیسے اس طور کو سر کرنا ہے۔ کیسے یہ طور جلے گا۔۔۔ اور کیسے یہ امتحان سر ہو گا؟’
عشق جو شد بحر را مانند دیگ
عشق سایہ کوہ را مانند ریگ
(عشق میں سمندر دیگ کی طرح کھولنے لگتا ہے۔ عشق پہاڑ کو بھی ریت کی طرح پیس دیتا ہے)
تو یہ تھا امتحان۔۔۔
“عشق”۔۔۔۔
اور
“غنویٰ صغیر احمد”۔۔۔
اسے دیگ کی طرح کھولنا تھا۔۔۔
اسے ریت کی طرح پسنا تھا۔۔
ایک آنسو پلکوں سے ٹوٹا ، چہر ےسے پھسلا اور ٹھوڑی کے تل سے گزرتا ٹپکتا شال کی تہہ میں گم ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...