شہر پہنچنے میں انہیں پندرہ منٹ لگے تھےمگر چونکہ شام کا وقت قریب تھا سو سڑکیں ٹریفک سے بھری پڑی تھیں۔ ٹریفک جام اور ہر طرف ہارن کی آوازیں۔
ڈرائیونگ کرتا جبل غصے سے بار بار اسٹیئرنگ وہیل پر مکے برسائے جا رہا تھا۔ منال اور حبل بھی اکتائے بیٹھے تھے۔ ایک بس غنویٰ ہی تھی جو بہت شوق سے سائڈ ویو ونڈو سے باہر لگے رش کو بہت ہی اشتیاق سے دیکھ رہی تھی۔
“پہلی بار دیکھ رہی ہیں اتنا رش؟” جبل نے بیک ویو مرر سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ چونکہ مگن تھی سو اسے پتہ نہ چل سکا ۔
“آپ سے پوچھ رہے ہیں بھائی” منال نے اس کی چادر کا کونہ کھینچتے ہوئے کہا تو وہ چونکی اور مرر سے جبل کو دیکھا۔
“پہلی بار دیکھ رہی ہیں؟” جبل نے پھر سے پوچھا۔
“نہیں۔ پہلی بار کار میں بیٹھی دیکھ رہی ہوں” اسکے لب فقرہ ادا کر کے آپس میں پیوست ہو گئے تھے جبکہ آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔
“آپکو پتہ ہے آپکی کونسی بات سب میں ممتاز کرتی ہے آپکو؟” یہ حبل تھا جو رخ موڑے اس کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا تو وہ مسکرانے لگا۔
“آپ بہت مبہم بندی ہیں۔ یہ اتنے سارے دنوں میں ہماری دوسری باقاعدہ بات ہے۔ لیکن آپ کو اتنی بار دیکھا ہے۔ ان کی طرح منہ پھاڑ کے کیوں نہیں ہنستیں آپ؟” اس نے منال کی طرف اشارہ کیا۔
“نہیں کہنا کیا چاہ رہے ہیں آپ آخر” منال نے ناک پر عینک درست کرتے ہوئے کہا۔
“وہی جو بہت ہی اچھے سے سمجھ آگیا ہے تمہیں” حبل نے زبان دکھائی اور آگے کی طرف منہ کر لیا۔
“میں بتا رہی ہوں کہ اس دن والی ساری باتیں بتاؤں گی زہرہ بی کو” اس نے بھی فوراً سے دھمکی دی۔ مگر دھمکی رائیگاں گئی تھی کہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دئیے تھے۔
“پہلے ہم ریکس سٹی جائیں گے۔ وہاں سے میرا لیپ ٹاپ اٹھا نا ہے پھر ہم غنویٰ کا سیل فون لینے چلیں گے۔ اس کے بعد جہاں کہو وہیں۔ ” جبل نے رینگتی ہوئی گاڑیوں کے پیچھے سے بمشکل گاڑی نکالتے ہوئے کہا۔
“مطلب مجھے بھی آج سیل ملے گا؟” منال نے جوش سے آگے کو ہوئی۔
“پہلے ہی اندھی ہوئی پڑی ہو مزید کیا کسر رہ گئی جو پوری کرنی ہے؟” حبل نے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے اس کے سر پر چپت لگائی تو وہ منہ بنا کر سیٹ کی بیک سے ٹیک لگا گئی۔
کل تھے آباد پہلو میں میرے
اب ہیں غیروں کی محفل میں ڈیرے
میری محفل میں کر کے اندھیرے
اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں
اپنے ہاتھوں سے خنجر چلا کر
کتنا معصوم چہرہ بنا کر
اپنے کاندھوں پہ اب میرے قاتل
میری میت اٹھائے ہوئے ہیں۔۔
ٹریفک آگے بڑھتا نہ بڑھتا مگر حبل نے گانے کا والیوم اونچا کر دیا تھا اور بس۔۔۔
جبل شروع ہو چکا تھا۔ گلا پھاڑے وہ گا رہا تھااور باقی کے تین عجیب عجیب شکلیں بنائے اس کی طرف دیکھ رہے تھے، حبل نے والیوم کم کرنے کی کوشش کی تو جبل نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر اسے روکا۔
“کس کا غم لگ گیا ہے تجھے میرے جان سے بھائی؟” حبل نے دکھی ہوتے ہوئے اس کا سر اپنے سینے سے لگانا چاہا ۔ تو جبل نے اس کی گردن پر زور کا ہاتھ مارا اور سیدھا ہو گیا۔
“مجھے نہیں لگتا آج مغرب تک ہم نے ریکس سٹی تک پہنچ پانا ہے۔ شارٹ کٹ لے اور پہلے غنویٰ کا سیل فون ہی لیتے ہیں۔ لیپ ٹاپ کمیل لیتا آئیگا کل”حبل نے مشورہ دیا ۔
“میری نماز” غنویٰ منال کی طرف دیکھتی ہوئی پریشانی سے بولی۔
“کہیں رک کے پڑھ لیں گے بہن فکر ہی نہ کرو۔ بھائی ہیں نا۔ سب فکریں بھول کے بیٹھو” یہ جبل تھا ۔
“ہاں اور میری آئس کریم بھی” منال نے اپنی فرمائش سامنے رکھی۔
“ہاں پتہ ہے۔ ورنہ تو ہر بات جا کر بتاؤ گی نا زہرہ بی کو۔ بتا دینا آج سب۔ نہیں کھلوانی آج بس” دونوں ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنس دئیے تھے۔
“بس لکھ لیں آج کے بعد جو کبھی آپ کو کوئی بات بتائی مین نے تو میرا نام منال نہیں”
“ہاہاہاہا۔۔۔ پہلے کون منال کہتا ہے تجھے تھیٹے؟” حبل زور سے ہنسا۔ غنویٰ ہنستی ہوئی ان کی نوک جھونک سن رہی تھی۔
رش کچھ کم ہونے لگا تھا سو جبل نے سپیڈ بڑھائی اور مارکیٹ کی طرف گاڑی موڑ دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
یہ تیری نظر کا قصور ہے
کہ شراب پینا سکھا دیا۔۔۔
تیرے پیار نے تیری چاہ نے
تیری بہکی بہکی نگاہ نے
مجھے اک شرابی بنا دیا
کہ شراب پینا سکھا دیا۔۔۔
وہ زہرہ بی سے مل کے واپس جا رہی تھی۔ لان کےآخری سے گزرتے ہوئے اسے اپنے پیچھے کمیل گنگناتا ہوا ملا۔
اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اس نے چادر کو منہ میں دبایا اور ہولے ہولے قدم اٹھاتی ہوئی چلنے لگی۔
شراب کیسی خمار کیسا
یہ سب تمہاری نوازشیں ہیں
پلائی ہے کس نظر سے تُو نے
کہ مجھ کو اپنی خبر نہیں ہے۔۔۔
وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا تھا۔ عبادت کا دل کانپنے لگا۔ ‘یہ اب سب کے سامنے بھی یوں کرے گا کیا’ غصہ الگ آرہا تھا۔
تیرے پیار نے تیری چاہ نے
تیری بہکی بہکی نگاہ نے
مجھے اک شرابی بنا دیا
کہ شراب پینا سکھا دیا۔۔۔
وہ گنگناتا ہوا اس کے پیچھے بہت آہستہ قدم اٹھا رہا تھا کہ دیکھنے والے کو کوئی شک نہ گزرتا۔ مگر عبادت کا دل پتے کی طرح کانپنے لگا تھا۔ اگر زہرہ بی دیکھ لیتیں تو جو اتنا پیار دیتی ہیں ، اٹھا کر باہر پھینک دیتیں۔ یہی سوچیں اسے بے چین کر رہی تھیں۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چلنے لگی۔
میرے بعد کس کو ستاؤ گے
مجھے کس طرح سے مٹاؤ گے
مجھ کو برباد کیا ہے
اور کسے برباد کرو گے
رو رو کے فریاد کرو گے۔۔۔
‘لو جی۔۔ پہلے زہرہ بی کا ڈر تھوڑا تھا جو اس نے بھی طعنے مارنے شروع کر دئیے۔ ‘ اس نے سوچا اور ایک دم سے مڑی۔
وہ جو گنگناتا سرجھکائے اس کے کالی چپل میں مقید پیروں کو فوکس میں لیے ہوئے چل رہا تھا ،چونک کر رکا اور اسے دیکھنے لگا۔
عبادت نے غصے سے ابرو اچکائے۔
تیری یہ ادا یہ بے رخی
کہہ رہی ہے ہم سے کہ اور پی
کیوں شراب پینا سکھا دیا؟
مجھے اک شرابی بنا دیا۔۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شرارت سے گنگنایا تو وہ جو غصے سے اسے دیکھ رہی تھی پھر سے واپس مڑ گئی اور قدم بڑھاتی گیٹ کی طرف جانے لگی۔ وہ وہیں کھڑا مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا تھا۔
تب تک نظر نے پیچھا کیا تھا جب تک وہ گیٹ پار نہ کر گئی۔
موڈ ایک دم اچھا ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ذرا سی بات نہیں ہے کہ بھول جاؤں اسے
ہوا ہے عشقِ کبیرہ ـــــخدا معاف کرے
دوسراد ن تھا اور سجاول کا زہرہ بی سے اب تک سامنا نہ ہوا تھا۔ نہ ہی وہ خود ان کے سامنے جانا چاہتا تھا۔ اسکے لیے یہ کم نہ تھا کہ اسے اس چیز سے روکا جا رہا تھا جو اس کے رگوں میں خون کی طرح رچ بس گیا تھا۔
“کب آرہے ہو؟” اس کا میسج آیا تو جو وہ ہفتہ یہیں رہنے کا سوچ کر آیا تھا، دل کیا بھاگ کر واپس چلا جائے اور کبھی یہاں کا رخ نہ کرے جہاں اسے وہاں کی ہر بات بھلانے کا واضع ‘حکم’ دیا گیا تھا۔
“جب کہو” اس نے مرے دل کے ساتھ لکھا اور بھیج دیا۔
“بات کی تم نے ؟” وہ جانتا تھا اگلی بات اس کی یہی ہونے والی تھی۔
“نہیں۔ وقت نہیں ملا۔ آنے سے پہلے کر کے ہی آؤں گا۔ فکر نہیں کرو” اس نے دلاسہ دیا اور خود تھک کر سر بیڈ کی پشت سے لگا دیا۔
وہ اس وقت سے اب تک اپنےکمرے میں ہی قید تھا۔ جب قمید ہوتی کہ اب تک زہرہ بی حویلی کے اندرونی حصے میں نہیں ہونگی تب نکلتا اور جب ان کی آواز قریب قریب بھی سنائی دیتی تو کمرے میں گھس جاتا تھا۔
“مجھے پتہ تھا کہ کر ہی نہیں پاؤ گے تم۔ ” اس کا طنزیہ میسج موبائل کی سکرین پر چمکا تو ایک دم سے اس کا پارہ ہائی ہوا تھا۔
“میں کچھ دیر میں بات کرتا ہوں” اس نے بمشکل اپنا غصہ قابو کیا اور ٹائپ کر کے بھیج دیا۔ سیل فون آف کر کے لیٹ گیا۔
اس کے کمرے کی کھڑکی باہر احاطے کی طرف کھلتی تھی جہاں زہرہ بی اس وقت عورتوں کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوتی تھیں۔
یہ محفل تب بھی جمتی تھی جب ابھی اس نے ہوش بھی نہ سنبھالا تھا۔
زہرہ بی کی ایک بھی عادت ایسی نہ تھی جس میں اس نے رتی برابر فرق دیکھا ہو۔ آج بھی ویسا ہی رعب و دبدبہ اور ویسا ہی نرم دل۔ وہ جانتا تھا کہ آج بھی اگر وہ اسے کسی بات سے روک رہی تھیں تو یقیناً انہیں اس میں کچھ غلط دکھا تھا۔ مگر اندر ہی اندر اسے زوئنہ سے کیے گئے وعدے شرمندہ کرتے تھے۔
یہ نہیں تھا کہ اسے پیار نہیں تھا۔ اسے اس کی ذراسی دوری بھی برداشت نہیں ہوا کرتی تھی۔ وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اور زہرہ بی یہ بات سمجھ ہی نہیں پا رہی تھیں۔
“میں تو تجھے پہلے ہی کہہ رہی تھی ہاجرہ۔ جو مرد آج اپنے گھر والوں سے چھپ کر اس سے ملتا ہے کل کو وہی شخص اسے کہیں دکھے گا بھی نہیں” یہ زہرہ بی کی آواز تھی۔
دل میں درد سا اٹھا۔ وہ بھی تو زوئنہ سے اپنے گھر والوں سے چھپ کر ہی ملتا رہا تھا ۔ دو سال کا عرصہ کم تو نہیں ہوا کرتا نا۔ اور اس دوران میں کیے گئےوعدے بھی کوئی ایک آدھ نہ تھے۔ مستقبل کے کئی خواب تھے جو اس نے زوئنہ کے سپرد کیے تھے۔
“میری بات سن ہاجرہ! میں شیر زمان سے کہوں گی کہ اکبر سے بات کرے، اب جب لڑکی ضد پر آہی گئی ہے تو مان جائے۔ تو اکبر کی گھر والی کو پیغام دے دینا جا کر کہ لڑکی کو اب گھر بٹھائے۔ میں اکبر کو منانے کی گارنٹی دیتی ہوں مگر لڑکی کو گھر میں ٹکانےکی ذمہ داری اسکی ماں پر ہے”
وہ بے چین سا ہو اٹھ دیا۔ دوسروں کو ملا رہی ہیں اور اپنے پوتے کاخیال تک نہیں ہے” دل پہ لکیر سی پھری۔
کمرے میں یہاں وہاں چلنے لے بعد اس نے شاور لی ۔ دماغ فریش ہوا تو کچھ سوچنے کے قابل ہوا۔ شال اٹھا کر اوڑھی اور کسی کو بھی بتائے بغیر باہر نکل گیا۔
اب جانے گیا کہاں تھا اور آنے والا کب تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“دفع کرو محبت کو۔ آؤ بیٹھ کر پیزا کھاتے ہیں” ان کو شاپنگ کروانے، غنویٰ کو سیل دلوانے کے بعد جبل انہیں نہیں لیے سٹون اوو پیزاویلی لے آیا تھا۔ اور ٹیبل پر بیٹھتے ہی یہ بات اس نے حبل کو سنائی تھی جو کب سے غنویٰ کو نمل کی برائیاں سنا رہا تھا۔
“چل دفعہ ہو۔ تو ہر طرف سے گھی میں ڈوبا ہوا ہے۔ میرا جس پہ شرعی حق ہونا کبھی، میں تو اس سے بھی بات نہیں کرتا”
“ظاہر ہے وہ تجھے بھاؤ جو نہیں دیتی” جبل نے بولا تھا اور قہقہہ منال کا بلند ہوا تھا۔
“گدھی سامنے بہن بیٹھی ہے اسی سے سیکھ لوکچھ ۔ بے عقل عورت۔” دونوں اسے گھورنے لگے۔
“ہاں یہی ان کی گرل فرینڈ نے قہقہہ لگایا ہوتو انہوں نے کہنا تھا کہ بس دل میں چھپا لیں کیا حسین ہنسی ہے اس کی” منال بھی کہاں حساب میں کمزور تھی کہ برابر کا جواب نہ دے پاتی ۔
“کس دشمن نے ہوائی اڑائی ہے میری گرل فرینڈ کی” جبل نے اسے گھورا۔
“ابھی حبل بھیا بولے تو ہیں کہ آپ گھی میں ڈوبے ہوئے ہیں” میز بجاتی وہ آنکھیں مٹکاتی بولی تھی۔
“بکواس کر رہا ہے۔ اچھے بچے بکواس پر دھیان نہیں دیتے ہوتے” جبل نے مینو بک کھولتے ہوئے کہا۔
“میں فجیتا کھاؤں گی” منال نے پہلے ہی فرمائش سنی۔
“بیٹا آپ سے پوچھ کون رہا ہے؟”
“آپی آپ بھی فجیتا کھائیں گی نا؟” اس نے غنویٰ کو ااٹ اپنی طرف کرنا چاہا تو اس نے بھی سر ہلا دیا۔
پہلے پیزا کا آرڈر دیا اورپھر دونوں اٹھےاور رشین سیلیڈ لینے چلے گئے۔
وہ دونوں یہاں وہاں دیکھ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ منال کا وہاں بیٹھے ہر کپل پر تبصرہ جاری تھا۔
“ہاں بھئی منال اب بتاؤ جو پوچھا تھا صبح” وہ واپس آکر بیٹھے تو جبل نے منال کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا۔
“سانول بھایا جرمنی جا رہے ہیں” منال نے سیلیڈمیں سے سیب کا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے اطلاع دی جو جبل اور حبل کے لیے بہت اہم تھی۔ جبکہ غنویٰ کو اس بندے کا علم بھی نہیں تھا سو وہ خاموشی سے ان تینوں کی طرف دیکھتی رہی۔
جبل نے غنویٰ کے لیے پلیٹ میں سیلیڈ ڈالا۔
“اس کا مطلب یہ ہے کہ اجّی آپی کے دن تھوڑے ہیں” حبل نے چمچ منال کو پکڑایا اور سلاد کا باؤل اسکی طرف بھی کھسکایا۔
“نہیں جی۔ بھایا کا ویزا تو بنا ہوا ہے آل ریڈی۔ آپی کا تو بننے میں بہت وقت لگے گا” اس نے چمچ بھر کھاتے ہوئے دونوں بھائیوں کا اندازہ ہوا کے سپرد کیا۔
“ہاں یہ بھی ٹھیک کہہ رہی ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی نکاح ہو گا صرف” جبل نے چمچ میں ٹکڑے بھر ے اور ایک ہاتھ سے چنا اٹھا کر چمچ کے عین اوپر رکھتے ہوئے کہا اور چمچ منہ میں ڈال لیا۔
“جی بالکل۔ اور امی رات ابو سے باتیں کر رہی تھیں کہ۔۔۔”
“کیا؟” حبل نے اس کا ہاتھ ہٹا کر اپنا چمچ بھرتےہوئے کہا۔
“بولنے ہی لگی تھی میں۔ نہیں مگر آپ کا دھیان بات سے زیادہ میرے چمچ پر ہوتا ہے” اس نے غصے سے حبل کے چمچ کے ٹکڑے باؤل میں گرا دئیے۔
“اچھا مہربانی لڑنے مت بیٹھ جانا بات پوری ہونے دو پہلے”جبل نے اپنے چمچ سے ٹکڑے اٹھا کر منال کے چمچ میں رکھے ۔
“سجاول بھایا کا بھی نکاح ساتھ ہی ہوگا۔ زہرہ بی کہہ رہی تھیں کہ تیاریاں کر رکھو جس نے بھی تنگ کیا میں نے اسے ٹھکانے لگا دینا ہے” اس نے چمچ منہ میں ڈالتے بہت مزے سے کہا تھا۔
“وہ بات بتاؤ جو چچی نے بولی تھی۔ یہ بات تو زہرہ بی کہتی ہی رہتی ہیں” جبل نے کان سے مکھی اڑائی۔
“یہ بات امی ہی کر رہی تھیں ۔ اور آپ دونوں بھی جیبیں بھرنا شروع کر دیں میں دودھ پلائی میں معاف نہیں کرنے والی آپ کو۔ اور اس بار غنویٰ آپی بھی تو ہوں گی۔ مل کے کنگلا کریں گے ہم آپکو” اس نے باؤل اپنی طرف کھسکا لیا تھا کیونکہ وہ دونوں تو ہاتھ روکے اس کی بات پر غور کر رہے تھے۔
“اب کی بار پھر زہرہ بی کو زیادہ تنگ کرنا پڑے گا” یہ حبل تھا جو اب بڑے مزے سے خالی چمچ منہ میں ڈالے چاٹ رہا تھا۔
“نہیں میں نہیں مرنا چاہتا اتنی جلدی۔ ” جبل رونے کو ہوا۔
“میرا ویر (بھائی) نہیں؟ اتنا بھی نہیں کر سکتا بھائی کے لیے؟” حبل نے منت کرتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولا ۔
“اتنی بھی بری نہیں ہے فجر ویسے” یہ غنویٰ تھی ۔ وہ اتنا دھیما بولی تھی مگر آواز ان تک پہنچ چکی تھی۔
“ہاں اتنی بری نہیں ہے۔ کبھی زبان کے جوہر دیکھے اس کے؟” جبل غصے سے اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
“تو خود بھی آپ کونسا بہت آرام سے بات کرتے ہیں اس سے” غنویٰ اب دوبدو بولی ۔
“بہن! یہ ایک کم تھی کیا جو اب تم بھی ان کی پارٹی میں شامل ہو گئی ہو؟” جبل چڑ کر بولا۔
“دیکھا۔ مجھے تو پہلے ہی شک تھا ” منال ہاتھ نچاتی بولی۔
“کیا شک تھا؟” جبل نے گھورا۔ حبل اس وقت خاموش تماشائی تھا۔
“کہ آپ کی گرل فرینڈ ہو گی” کیچپ کی بوتل میز پر مارتی وہ بولی تو اس نے وہی بوتل اس کے ہاتھ سے لے کر مارنے والے انداز میں اوپر کی۔
“ایک بھی لفظ اور فضول کہا نا تو چھوڑ کر چلا جاؤں گا یہیں ۔ آتے رہنا بسوں پر دھکے کھاتے”
“اچھا بس کرو اب ” حبل نے اس کے ہاتھ سے بوتل لے کر واپس میز پر رکھی کیونکہ ویٹر ان کا آرڈر لے کر آ چکا تھا۔
“نمل سے پوچھ لو کھانا ہے کچھ تو لے جاتے ہیں” حبل نے پیزا کا سلائس اپنی پلیٹ میں منتقل کرتے ہوئے کہا تو جبل اور منال ہنس دئیے۔
“آپ اپنے حصے کا لے جانا کیونکہ میں نے امی سے جوتے نہیں کھانے ان کے لیے لے جا کر” منال ہنستے ہوئے بولی ۔
“اتنا بھی نہیں کھاتی وہ جتنا سب اسے بولتے ہیں”غنویٰ سے اس کی بھی چغلی نہیں سنی گئی تھی۔
“آئیندہ میں بتا رہا ہوں غنویٰ کو اپنے ساتھ نہیں لانا یہ ان کی چمچی ہے” جبل جل کر بولا تو وہ تینوں ہنس دئیے تھے۔
“کافی ٹائم ہو گیا ہے جلدی کھاؤ پھر نکلتے ہیں”
منال اور حبل پیزا کے سب سے بڑے سلائس کے لیے ایک بار پھر سے لڑنے لگے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کشور میں تہجد کے لیے نہیں جاگ پا رہی “زہرہ بی پلنگ پر نیم دراز ہوتی ہوئی بولیں۔
“کوئی ٹینشن ہے کیا؟” کشور بیگم نے کمبل ان کے ٹانگوں پر درست کرتے ہوئے کہا۔
“نہیں۔ ٹینشن کیا ہو گی۔ بوڑھی جان ہوں۔ یا تو نیند آتی ہی نہیں اور آجائے تو جا گنا مشکل ہو جاتا ہے”
“زہرہ بی! مجھ سے بھی شئیر نہیں کریں گی تو بتائیے کس کو آپ کے پاس بھیجوں جسے آپ اس طرح کی طفل تسلیاں دینا چاہیں گی”وہ چلتی ہوئی آئیں اور زہرہ بی کی بائیں طرف پلنگ پر بیٹھ گئیں۔
“میں سوچ رہی تھی کہ اجر کے ساتھ سجاول کا بھی ٹانکا بھر دوں” زہرہ بی نے سر تھوڑا سا اونچا کیا تو کشور بیگم نے تکیہ درست کر دیا۔ اب وہ بآسانی کشور بیگم کو دیکھ کر بات کر سکتی تھیں۔
“جی بتا رہی تھی آمنہ” انہوں نے کمبل اپنے اوپر بھی لیا ۔
“پھر تم نے شیر زمان سے بات کی کوئی؟”
“نہیں زہرہ بی۔ میں آج کروں گی بات۔ آپ نے قدسیہ بھابی سے بات کی؟”
“ابھی میں بات نہیں کروں گی۔ ابھی سجاول اس کے پاس لے کر جائیگا یہی بات۔ اگر قدسیہ نے اسے ہاں کہہ دی تو یہ معاملہ میں شیر زمان کے سامنے رکھوں گی۔ پھر آگے جو وہ کہے وہی ہو گا۔ تم لوگ ابھی بچوں کے درمیان یہ بات مت ہونے دینا”
“میں سوچ رہی تھی کہ غنویٰ سے بھی ایک بار پوچھ لیا جاتا” کشور بیگم بولیں۔
“نہیں کشور۔ ابھی اس بچی کے سامنے بات نہیں کھلنی چاہیئے۔سلجھی ہوئی بچی ہے۔ الجھ جائیگی۔ ابھی سب مشورہ کر لیں تو بچوں سے بھی بات کر لیں گے”
“زہرہ بی مجھے جبل اور حبل سے زیادہ یہ پیاری ہوگئی ہے۔ جس دن سے آئی ہے میں ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پائی مگر پھر بھی میں ہر وقت نظروں میں رکھتی ہوں۔ اب تک ایک بھی عادت ایسی نہیں ملی کہ جس کی بناء پر میں کہوں کہ اسے واپس بھجوا دینا چاہیئے۔ اور لڑکے ہیں گھر میں مگر مجال ہے جو ان کے ہوتے ہوئے چوں چراں بھی کرتی ہو ہماری لڑکیوں کی طرح”
“یہی عادت تو اچھی ہے اسکی۔ مگر وہ سیدھی بھی بہت ہے کشور۔ آج کل سیدھے لوگوں کا گزارہ مشکل ہے۔ میں چاہتی ہوں اسی گھر میں رہے تو بہتر ہے۔ باقی اب اللہ کی مرضی جیسے وہ چاہے” وہ گہری سانس لیتی ہوئی بولیں۔
“زہرہ بی میں اس سے بات کروں گی ۔ وہ خود کو سیٹ بھی کر کے رکھا کرے۔ بہت ہی سادی لڑکی ہے”
“سادی ہی رہنے دو اسے۔ بس اس کو کسی دن اپنے ساتھ لے جانا گہرے رنگ لے دینا” وہ ہنستی ہوئی بولیں۔
“جی میں نے رات جبل سے کہا تھا کہ حبل اور وہ لے جائیں اسے۔ ان کو تو پتہ ہی ہے رنگوں کا۔ اور اب تو منال بھی ساتھ ہی گئی ہے۔ اگر لے آتے ہیں کچھ اچھا تو ٹھیک ورنہ میں قدسیہ بھابی اور آمنہ کےساتھ اسے بھی لے جاؤں گی کسی دن” وہ بھی مسکرا رہی تھیں۔
“کشور آج شیرزمان سے لازمی بات کر لینا” انہوں نے گویا بات ختم کرنی چاہی۔
“ابھی چائے پیئیں گی یا دودھ ہی گرم کر لاؤں؟” کشور بیگم نے پوچھا۔
“رہنے دو۔ ابھی دل نہیں چاہ رہا۔ تم دیکھو بچوں کو کیا لائے ہیں۔ میں سوتی ہوں اب۔” باہر سے جبل اور حبل کاشور سنائی دیا تو زہرہ بی نے آخری بات کر کے انہیں باہر جانے کا اشارہ دیا۔
کشور بیگم نے کمبل درست کیا اور باہر کی جانب چل دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب دل اداس ہو تو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ کسی سے بات کرنا ،نہ ہی کسی کے پاس بیٹھنا۔
وہ بھی بھٹکتا پھر رہا تھا۔ گھر میں قدم ہی تب رکھا تھا جب سب کے سو جانے کی امید بندھ گئی تھی۔
لاؤنج میں داخل ہوا تو خاموشی نے استقبال کیا تھا۔ جا کر صوفے پر گر سا گیا۔ اس وقت اسے جس کی ضرورت تھی وہ یہاں کہیں نہیں تھی۔ اور اگر اس سے رابطہ کرتا بھی تو اسے جواب کیا دیتا۔ دل سرکشی پر اترا ہوا تھا اور وحشت اتنی تھی کہ سب کچھ اجاڑ دینے کھا دل کر رہا تھا۔
از سرِ بالین ِمَن بر خیز اے ناداں طبیب
دردمندِعشق را، دارُو ــ بجُز دیدار نیست
(اے ناداں طبیب ! میرے سرہانے سے اٹھ جا کہ عشق کے بیمار کے لیے دیدار کے علاوہ کوئی علاج نہیں)
وہ صوفے پر سر گرائے ٹانگیں میز پر رکھے بیٹھا تھا جب کسی کے ہلکی مگر پر سوز آواز میں گنگنانے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ الفاظ چونکہ اردو میں نہیں تھے سو سمجھ نہ پایا مگر دل اچانک سے ہمکنے لگا تھا۔
جانے تھا کیا آواز میں۔۔۔
پھر سے خاموشی طاری ہوئی تو اس نے وہم جان کر آنکھیں بند کیں اور سر پھر سے گرا لیا۔ دل کی حالت بگڑی پڑی تھی۔
شاد باش اے دل کہ فردا ،بر سرِ بازارِعشق
مژدۂقتل است ،گرچہ وعدۂ دیدار نیست
(اے دل خوش ہو جا کہ عشق کے بازار میں قتل کی خوش خبری ہےاگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے)
آواز یوں تھی گویا ہوا کو خوشبو سے معطر کر دیا ہو۔ بے شک گانے والی کو اچھی آوازوں میں سے ایک سے نوازا گیا تھا اور دل کھول کر نوازا گیا تھا۔
سر جھٹکے سے صوفے سے اٹھایا ، پاؤں قالین پر جمائے اور ارد گرد دیکھنے لگا ۔ آواز کہیں پاس سے ہی آرہی تھی۔ مگر اس وقت گھر میں کوئی جاگ رہا تھا اور نہ ہی اتنی اچھی آواز اسکے گھر میں کسی کی تھی۔ فجر بھی اسکی غیر موجودگی میں اتنا اچھا گانا نہیں سیکھ سکتی تھی۔
وہ اٹھا اور آواز کی سمت میں چل پڑا۔ زہرہ بی کے ساتھ والے کمرے سے یہ آواز آ رہی تھی ۔
اسے شک گزرا کہ فجر ہی نہ گا رہی ہو کیونکہ کمرہ اسی کا تھا۔
خلق می گوید ـــ کہ خُسرو بُت پرستی می کنند
آرے آرے می کُنم، با خلق ماراکار نیست
(خلق مجھے کہتی ہے کہ خسروبت پرستی کرتا ہے ۔ ہاں ہاں میں کرتا ہوں۔ مجھے خلق سے کوئی کام نہیں)
اس نے دروازہ کھولا تو وہ لڑکی اجر کے بیڈ پر بیٹھی ،میرون شال میں خود کو اچھی طرح کور کیے، آنکھیں بند کیے مدھم مگر پر سوز آواز میں گاتی ہوئی نظر آئی۔ چاہے زبان سمجھ میں نہ آتی تھی مگر آواز ایسی تھی کہ سننے والا ٹھٹھک جاتا تھا۔ جیسے اس وقت وہ گم سم سا دروازے کے درمیان اسی کی طرف نظریں جمائےاستادہ تھا۔
وہاں سبھی لڑکیاں جمع تھیں اور یوں خاموش تھیں گویا بول کر گستاخی کی مرتکب ہوں گی۔ اس کی نظر اب بھی اسے پہچان نہ پائی تھی مگر آنکھوں کی پتلیاں جم چکی تھیں۔ اسے سمجھ نہ آیا وہ وہاں کھڑا ہے تو کیوں۔
“کیا ہوا سجاول؟ کچھ چاہیے تھا کیا؟” اجر کی اس پر نظر پڑی تو پوچھ بیٹھی۔ اس کے اس طرح بولنے پر جہاں باقی لڑکیوں نے دروازے کی جانب دیکھا تھا وہیں غنویٰ بھی پٹ سے آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی۔
اس کے چپ ہونے کی دیر تھی کہ سجاول کا جمود ایک دم ٹوٹا۔
“ہوں؟” وہ منہ کھولے اجر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی حالت یوں تھی گویا ابھی ہوش میں آیا ہو۔
“کچھ چاہیے تھا؟”
“ہاں وہ کافی۔۔” وہ بس اتنا ہی بولا اور دوبارہ اس طرف دیکھنے لگا جہاں غنویٰ شرمندہ سی سر جھکائے بیٹھی تھی گویا بہت بڑا گناہ سرزد کر بیٹھی ہو۔
“اچھا میں بھجواتی ہوں ۔ اندر آنا ہے تو آجاؤ۔ ”
“نہیں میں چلتا ہوں بس۔ ” اس نے کہا اور مڑ گیا۔ دل خالی سا لگ رہا تھا سو اندر جانا کیا وہ تو کمرے میں جانے کا بھی روادار نہ تھا۔
“فجر جاؤ کافی بنا کر دے آؤ اسے۔ تھکا ہوا لگ رہا ہے”اسے اپنے پیچھے اجر کی آواز سنائی دی تو وہ تیز تیز قدم بڑھاتا رہائشی حصے سے نکل گیا اور لان کی طرف مڑ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“سیریسلی؟” فجر منہ بنا کر بولی۔ کام کرنے سے تو اسے موت پڑتی تھی۔
“جی بالکل۔ اٹھو اور کافی دے کر آؤ اسے” اجر نے گھورتے ہوئے اسے کہا۔
“میرے لیے چائے لے آنا پیاری بہن” یہ نمل تھی جو کھانے پینے میں کہیں بھی کبھی بھی فرمائش نکال لیا کرتی تھی۔
“بالکل بھی نہیں۔ اٹھو خود بناؤ جا کر۔ ایک ہی کام کر کے آؤں گی میں بس۔” وہ منہ بناتی اٹھی اور پاؤں میں چپل پھنسانے لگی۔
“فجر کیا مسئلہ ہے کر دیا کرو کبھی تو میرا کام بھی” نمل کو غصہ آچکا تھا۔
“آپی یار سبھی لیے نا میں بھی تو اتنے کام کرتی ہوں آپ کے” منال نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
“جاؤ خود ہی بنا لو۔ میں ہیں جا رہی اب بس” فجر غصے سے دوبارہ بیٹھ گئی تھی۔
“میں بنا لاتی ہوں ۔ میرے ساتھ آجاؤ بس کوئی ایک آدھ بندی” غنویٰ نے فوراً سےکمبل سائڈ پر کیا شال درست کی اور بیڈ سے نیچے اتر کر چپل پہنی اور کھڑی ہو گئی۔
“میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ”منال بھی شال ٹھیک کرتی نیچے اتری ۔
“عبادت والے بسکٹس لازمی لیتی آنا” نمل نے ایک اور فرمائش گھڑی ۔
“جی نہیں وہ زہرہ بی کے لیے ہیں۔ انہوں نے ابھی چکھے بھی نہیں ہیں” غنویٰ تنک کر بولی۔
“دیکھا۔ یہ بھی عبادت کی طرح ان کی چمچی بن چکی ہے” فجر کا منہ اب تک بنا ہوا تھا۔
“چمچی نہیں ہوں۔ ٹھیک بات کر رہی ہوں۔ تم لوگوں کے لیے میں بنادوں گی بسکٹس” غنویٰ نے کہا اور دروازے سے باہر نکل گئی۔
“یار اسے بسکٹس بنانے آتے ہیں” نمل منہ کھولے شاک میں بولی۔
“تو کیا ہوا۔ عبادت بھی بنا لیتی ہے” فجر نے ناک سے مکھی اڑائی۔
“بدھو! عبادت بنا لیتی ہے تم خود تو نہیں بناتیں نا۔ شوخی کس بات کی مار رہی ہو” نمل نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
“ایک تو اپنے ہاتھ قابو میں رکھا کرو مجھ سے بات کرتے ہوئے دوسرا یہ کہ ہماری امیاں اتنے تجربے کرواتی نہیں ہیں ہم سے۔ ان کو تو کام ہی سارا خود کرنا پڑتا ہے تو آنا ہی تھا اس طرح بسکٹس بنانا۔”وہ غصے سے بولی۔
“فجر بیٹا ہماری امیاں ہمیں کہیں بھی نا تو ہم ، خصوصاً’آپ’ کچن میں گھس کر بھی نہ دیکھیں اور دیکھیں بھی تو ستیاناس کر کے آئیں ہر چیز کا۔”اجر نے آپ پر زور دیتے ہوئے اس کی بات کو بہت اچھے سے لوٹایا تھا۔ فجر کو اس وقت وہ اپنی سب سے بڑ ی دشمن لگ رہی تھی۔
“آپ کے چمچے بھی تو ہر چیز کا ستیاناس کرتے ہیں کبھی ان کو تو کچھ نہیں بولا آپ نے” فجر ناک پھلاتے ہوئے گویا ہوئی۔
“ایک تو تم ہر بات میں ان کو لے آتی ہو پتہ نہیں کیا بگاڑا ہے انہوں نے تمہارا” اجر تنگ آکر دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی اٹھی اورکمرے سے باہر نکل گئی ۔ پیچھے وہ دو ہی رہ گئی تھیں ۔ اب ان کے پاس سلوک سے بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...