زہرہ بی رات کے کھانے کے بعد عشاء کی نماز ادا کرتیں اور اس کے بعد کچھ دیر لان مین چہل قدمی کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔ آج بھی جب سب کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے اس وقت وہ باہر لان میں موجود تھیں ۔ سجاول کو ان کے اکیلے ہونے کا ہی انتظار تھا۔ وہ باہر نکلیں تو سجاول بھی انکے پیچھے پیچھے ہی باہر کی جانب چل دیا۔
“سجاول زمان تمہاری یہ چھپ چھپ کے پیچھا کرنے کی عادت گئی نہیں ” زہرہ بی بولین تو وہ جو پیچھے آرہا تھا قہقہہ لگا کے ہنس دیا۔
“اور آپکی بھی پہچان جانے والی عادت گئی نہیں” ان کے کندھوں پہ بازو پھیلاتا وہ ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
“میں قدموں کی چاپ سے جان جاتی ہوں کہ کون ہے۔ تم تو پھر میرے بچے ہو” ان کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا۔ صبح والی تلخی ختم ہو چکی تھی۔
“تببھی تو آپ میری زہرہ بی ہیں جانِ من” اس نے ان کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
“بیٹا جی سیدھے سبھاؤ کام کی بات پر آجائیے۔ اتنا پیار جتانے کی ضرورت نہیں ” انہوں نے طنز کیا تو ایک بار پھر سے اس کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
“میں سوچ رہا تھا کہ اجّی آپی کی شادی کر دینی چاہیے۔ نہیں؟”
“میں نے کہا تھا کہ سیدھے سبھاؤ کام کی بات پر آؤ۔ اجر کا یہاں کیا ذکر؟ کام تو تمہارا ہے نا؟” وہ اسکی چوری پکڑتی ہوئی بولیں۔ اس نے پہلے تو کان کھجائے پھر دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنساتا کھنکارا۔
“اتنی دیر لگا رہے ہو بہت اہم بات ہے کیا؟” سمجھ تو وہ اچھے سے رہی تھیں مگر آخر کو دوسری پیڑھی تھی وہ ۔ اور انہیں اولاد کو ہینڈل کرناآتا تھا۔
“زہر بی میں پچیس سال کا ہو چکا ہوں ” وہ جھجکتے ہوئے بولا۔
“ہاں جانتی ہوں۔ مگر ابھی اجر کا نکاح ہو گا پہلے” وہ اس کی گول بات میں سے بھی اصل نکتہ نکال لائی تھیں۔
“کمٹمنٹ تو ہو ہی سکتی ہے ۔ نہیں؟” آواز آہستہ تھی۔ ڈر تھا عصا کسی بھی وقت چھو جائیگا۔
“کر تو آئے ہو۔ مجھ سے کیا پو چھ رہے ہو اب؟”وہ تیکھی سی ہوئیں۔
“میرے کرنے اور آپ کے کرنے میں فرق ہے زہرہ بی”
“ہاں یہ فرق ہے کہ تم کر آئے ہو اور میں کبھی بھی اس کو نہیں مانوں گی” عصا پہ بوجھ بڑھا تھا اور لہجے میں سختی۔
” وہ اچھی ہے زہرہ بی” دلیل کمزور سی تھی۔
“بے شک ہو گی۔ میں نے برائی کب کی؟” قدم اب لان میں پڑی کرسیوں کی طرف بڑھنے لگے تھی۔
ہوا میں خنکی ہونے کے باوجود ماحول تپنے لگا تھا۔
“میں یہاں شفٹ ہو جاؤں گا زہرہ بی” لالچ دیا گیا۔
“بے شک وہیں رہنا ” خاطر میں نہیں لایا گیا۔ س
سجاول کا دل ڈوبنے کو ہوا۔
“زہرہ بی میں ایک عرصے سے جانتا ہوں ۔ خاندان بھی اچھا ہے” وہ ان کے پیچھے سے ہوتا ہوا آیا ۔ وہ کرسی پر بیٹھیں تو اس نے گھاس پر آلتی پالتی ماری۔
“میں کسی کے خاندان کو برا کبھی نہیں کہتی” آوازمیں سکتی تھی۔
“وہ خود بھی اچھی ہے۔ آپ خوش ہوں گی اس سے مل کر” ہاتھ ان کے گھٹنوں پر رکھے۔
“سجاول زمان! میں ہر معاملے میں تمہیں آزاد کرتی ہوں مگر ایک معاملہ جس میں آج تک میں نے اپنی اوالاد کو بھی نہیں بولنے دیا ۔ اس میں میں اب بھی کسی کو اختیار نہیں دوں گی” ایک ہاتھ کرسی کی ہتھی ہر جما تھا تو دوسرا عصا پر۔ آواز سخت سے سخت ہوئی جاتی تھی۔
“مگر زہرہ بی زندگی تو میں نے گزارنی ہے۔ اتنا تو حق ہے مجھے ” گھٹنوں پہ ہاتھوں کا بوجھ بڑھا تھا۔
“حق کی بات مت کرنا سجاول زمان ۔ ہار جاؤ گے اس بحث میں” انہوں نے اٹھنا چاہا مگر اس کے ہاتھ گھٹنوں پہ جمے ہوئے تھے۔
“میں اس کو چاہتا ہوں زہرہ بی” آواز میں آنسو گھلے ہوئے تھے اور لہجہ ضدی۔
“ہم تمہیں چاہتے ہیں سجاول زمان!” آواز میں دل کو پگھلا دینے والی تپش تھی مگر وہاں کوئی اور تپش دل کو پگھلائے ہوئی تھی۔
“زہرہ بی پلیز! ”
اس کے کہنے کی دیر تھی کہ انہوں نے اس کے ہاتھ جھٹکے اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“بھول کے بھی مت سوچنا۔ ہم تمہیں آزاد کر سکتے ہیں تو لگامیں کھینچ بھی سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اب وہاں کا سب کچھ بھلا دو تا کہ ہم جو بھی فیصلہ کریں تمہارے حق میں، وہ تمہیں دل سے قبول ہو” انہوں نے کہا اور اسے سُن اور گم سم سا وہیں چھوڑ گئیں۔
گویا فیصلہ ہو چکا تھا۔
اسے سمجھ نہ آیا کہاں سر مارے کہ فنا ہو جائے۔ اس کے پاس نہ تو ما باپ کا مان رکھنے کی گنجائش تھی نہ ہی وہ رکھنا چاہتا تھا۔ ان کا مان رکھتا تو اپنی زندگی کا سوال تھا۔
اور انسان تو ہے ہی خود غرض۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح ہوئی تو جیسے ہوا میں ماتم سا تھا۔ دل جانے کیوں ہولتا جاتا تھا۔
فجر ادا کی اور معمول کی تسبیحات کرنے میں جہاں وہ ایک گھنٹہ صرف کیا کرتی تھی اب پندرہ بیس منٹ میں دانے گراتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ فجر اور نمل اس وقت سو رہی تھیں سو وہ اٹھی اور باہر نکل آئی۔
دل کی بے چینی سوا ہورہی تھی۔ کوئی وجہ نہ ہونے کے باوجود بھی دل ہولے جا رہا تھا۔ جانے کیا بات تھی کہ سانس بھی اٹکتا جاتا تھا۔ اس نے رونا چاہا تو آنسو بھی نہ باہر کا راستہ دیکھتے تھے۔
وہ باہر لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئی ۔آمنہ بیگم زہرہ بی کے کمرے کی طرف سے آئیں اور اسے وہاں لاؤنج میں اسے بالکل سیدھی بیٹھی دیکھ کر اس کی طرف چلی آئیں ۔
“غنویٰ بیٹا یہ تولیہ باہر لان میں ڈال کر آنا میں نماز ادا کر لوں ” اسے تولیہ پکڑا کر وہ اپنی کمرے کی جانب چل دیں۔
وہ یوں اٹھ کر لان کی طرف بڑھی جیسے کوئی روبورٹ جا رہا ہو۔
اچھی خاصی تو صبح تھی۔ سویرا ابھی پھیلا بھی نہ تھا۔ دھند بھی نہ تھی اور نہ ہی بہت سردی محسوس ہو رہی تھی۔ معتدل سا موسم اور دل کی یہ حالت۔
“یا اللہ کیا ہو گیا ہے ۔ رونا بھی نہیں آرہا” اس نے تولیہ تار پر ڈالتے ہوئے اللہ سے باتیں شروع کیں۔
“کیوں نہیں آرہا بھئی ۔” اس کے دل نے اللہ ہی کا پیغام جیسے دل کو پہچایا۔
یہ لاشعور تھا اس کا۔ باتیں وہ خود سے ہی کرتی اور جواب دل دیتا تھا۔ مگر شعور میں اس کو یہ جوابات اللہ ہی دیا کرتا تھا۔
“دل خراب ہو رہا ہے نا اس لیے” اس نے جوتی اتاری اور ٹھنڈی گھاس پر پاؤں رکھے۔ طمانیت سی محسوس ہوئی۔
“اور دل کیوں خراب ہو رہا ہے؟ کل کوئی طبیعت کے خلاف کام سرزد کر گئی تھیں؟”
اس کا دل ڈوبا۔
“ہائے میں نے کیا کیا تھا کل سارا دن؟” وہ سوچنے لگی۔
ننگے پاؤں گھاس پر چلتی ہوئی وہ گھر کے دائیں حصے کی طرف نکل آئی تھی جہاں کچھ دن پہلے اس نے زہرہ بی کو عورتوں کی کلاس لیتے دیکھا تھا۔ایک دم سے مسکراہٹ نے ہونٹوں کو چھوا تھا۔
“میں نے کل زہرہ بی کو وعدہ دیا تھا جو میں شاید پورا نہ کر پاؤں” مسکراہٹ ایک دم سے سکڑی۔
“ارے کس نے کہا کہ نہیں پورا نہیں کر پاؤ گی؟”
“مجھے پتہ ہی ہے۔ میں ان جیسی دبنگ نہیں بن سکتی۔” اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
“بن سکتی ہو ۔ اگر تم اس بات پر قائم رہو تو”
“کس بات پر؟” وہ الجھی۔ پاؤں گھاس کو مسلنے سے بھی خوف زدہ تھے دل ہنسا۔ “دبو لڑکی”
“ارے اسی بات پر کہ ان کو کچھ بن کہ دکھاؤ گی”
“اللہ جی بس آپ ساتھ ساتھ رہیے گا میں اکیلی کچھ بھی نہیں کر سکتی” آنکھ سے آنسو ٹپکا۔
“میں ہمیشہ ساتھ ہوں ” دل ہلکا ہو چلا تھا اور آنسو چہرہ بھگونے لگے تھے۔
پو پھٹ چکی تھی۔ آسمان پر سنہری اور نارنجی سی روشنی نے آسمان پر دھاریاں بنائی ہوئی تھیں۔ دل ہلکا ہوا تو سماں بھی دلکش لگنے لگا تھا۔
سر پہ ہلکا نیلا دوپٹہ لیےگردن جھکائے وہ ٹھنڈی گھاس پر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس طرف آئی جہاں اس نے جوتا اتارا تھا۔
زہرہ بی عصا پہ بوجھ ڈالتی دھیرے دھیرے اسی طرف آرہی تھیں۔ انہوں نے بھوری شال اوڑھ رکھی تھی اور بائیں ہاتھ میں تسبیح پکڑ رکھی تھی۔
نظر اٹھا کہ اس طرف دیکھا جہاں وہ سر جھکائے جوتا پہن رہی تھی۔ ہلکا نیلا سوٹ اور ہم رنگ ہی دوپٹہ سر پر جما رکھا تھا۔ اتنا سکون تو اپنے سگے خون کو دیکھ کے نہیں ملتا تھا جتنا اسے دیکھ کے ملنے لگا تھا۔
” آج جلدی جاگ گئیں ؟”زہرہ بی اس کے پاس جاتے ہوئے بولیں۔
“میں تو روز ہی جاگتی ہوں ۔ ” وہ پہلے تو چونکی پھر ہلکا سا مسکراتی بولی۔
“بل سے تو آج ہی نکلی ہو نا ” وہ مسکائیں۔
“نیند نہیں پوری ہوئی کیا؟” غنویٰ ان کی طرف غور سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“ارے میں تو فجر کے لیے لیٹ ہونے والی تھی مجھے تو آمنہ نے جگایا نماز کے لیے” وہ نظریں چراتی ہوئی بولیں ۔ غنویٰ نے کوئی جواب نہ دیا بس ساتھ ساتھ قدم اٹھاتی چلنے لگی۔
“کیوں تمہیں کیوں لگا ؟”
“آواز کافی تھکی ہوئی لگ رہی ہے آپکی” وہ رک کر بولی۔
“ہاں تھک تو جاتا ہی نا انسان کبھی نہ کبھی۔ چلو وہاں بیٹھتے ہیں کچھ دیر پھر ناشتے کا وقت ہو جائیگا” انہوں نے کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔
“رات جاگتی رہ ی ہیں نا آپ؟” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔
“ارے نہیں بیٹا میں سوئی بھی ہوں” ایک بار پھر سے نطریں چرائی تھیں۔
“سوئی بھی ہوں یعنی جاگی بھی تھیں آپ” غنویٰ نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ اسے غور سے دیکھنے لگیں۔
” میں پوچھ نہیں رہی بتا رہی ہوں” اس نے بالکل دوستوں کی طرح ان کے اپنے درمیان کا فاصلہ ختم کرنا چاہا۔
“میں سوچ رہی تھی کہ اتنا تو غور سے کبھی میری اپنی اولاد نے بھی نہیں مجھے دیکھا” وہ ہلکا سا مسکائیں۔
“زہرہ بی بات گھما رہی ہیں آپ”
“ہاں تو تم بھی چھوڑ دو ابھی اس بات کو۔ میں خود بتا دوں گی نا ساری باتیں۔ ابھی کے لیے چلو اندر چلتے ہیں تمہاری ناک سرخ ہو رہی ہے ” عصا پہ بوجھ ڈالتی وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“ابھی تو بیٹھے ہیں ہم” وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
“ہاں مگر ناک دیکھو کتنا ٹھنڈا ہو رہا ہے تمہارا” انہوں نے اس کا ناک کھینچتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔
“آپ ہر لمحے میں ایک الگ ہی زہرہ بی ہوتی ہیں” وہ ابھی بھی کرسی پر جمی تھی جبکہ زہرہ بی کھڑی ہو چکی تھیں۔
“ہاہاہا! تم بھی ہر لمحے میں الگ ہی غنویٰ ہوتی ہو۔ ”
غنویٰ اٹھی تو دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اندر بڑھنے لگیں۔
“مجھے اپنی بڑی بیٹی سے بہت پیار ہے۔ سب کو ہی پہلی اولاد سے ہوتا ہے۔ ویسا ہی پیار مجھے تمہارے لیے محسوس ہوتا ہے” ان کی آواز میں مٹھاس سی گھلی ہوئی تھی۔ غنویٰ کو لگا گویا جنت عطا کر دی گئی ہے۔
“کسی دن چلیں گے اس کی طرف۔ ملواؤں گی تمہیں سب سے۔ آج شام تم لوگ باہر گھومنے جانا ۔میں تمہارے بھائیوں سے کہوں گی تمہیں کچھ سوٹ بھی دلوائیں۔ گہرے رنگوں کے لینا۔ جس دن سے آئی ہو ہلکے سے رنگ ہی پہنے دیکھا ہے”
“مجھے اچھے لگتے ہیں ایسے رنگ”
“بس اب دلیلیں مت دینا مجھے تم”انہوں نے بات ہی ختم کر دی۔
وہ یوں ہی ہلکی پھلکی باتیں کرتی اندر کی جانب بڑھ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دن کی گیارہ بج رہے تھے جب وہ سب باہر لان میں دھوپ انجوائے کر رہی تھیں۔ دھوپ برائے نام ہی تھی مگر پھر بھی وہ لوگ یہاں وہاں بکھری ہوئی تھیں۔ نمل غنویٰ کے ساتھ بیٹھی اسے اپنے رات والے غم کی داستان سنا رہی تھی۔ اجر زہرہ بی کے ساتھ بیٹھی ان کو کینو چھیل کر دے رہی تھی ۔ منال ہمیشہ کی طرح گھاس پر اوندھی لیٹی اپنی کتاب پڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ زہرہ بی کی ‘نظر کمزور ہوجائیگی یوں پڑھ کے ‘ صلواتیں بھی سن رہی تھی۔ فجر ابھی تک سو رہی تھی اسی وجہ سے وہ اس وقت اس محفل کا حصہ نہ تھی۔ لڑکے بھی سب ابھی تک بستروں میں تھے کہ اس دفعہ بھی ان کا سدھرنے کا کوئی ارادہ نہ لگتا تھا۔
“ہم کیوں کسی کاغم منائیں
آؤ دھوپ میں بیٹھ کر کنّو کھائیں” نمل اپنی داستانِ غم سنانے کے بعد بولی تو غنویٰ جو پہلے ہی بہت مشکل سے اس کی باتوں پہ اپنی ہنسی روکے ہوئی تھی ہنس ہی پڑی۔
“بد تمیز یہ اتنی باتیں نکلتی کہاں سے ہیں آخر تم لوگوں کی” اسے کینو مارتے ہوئے اس نے کہا۔
“منہ سے بے وقوف۔ باتیں کہاں سے نکلا کرتی ہیں گدھی؟” اس کا کینو کیچ کرنے کے بعد اسی کو مارتے ہوئے نمل نے کہا۔
“آپی یار آہستہ بول لیں گھنٹہ ہو گیا ہے باتیں ہی ختم نہیں ہوتیں آپکی تو۔ ” منال چڑ کے اٹھ ہی بیٹھی تھی۔
“زہرہ بی اسے دیکھیں کیسے ہمارے پاس بیٹھی باتیں سن رہی ہے۔ اس کے سینڈ اپس ہیں اور دیکھیں اس کی حرکتیں” نمل چیخ کر بولی تو بڑے سکون سے بیٹھیں زہرہ بی بھی اچھل پڑیں اور منال کےتو دل پر لگا تھا یہ الزام۔
“اے بے غیرت لڑکی! کیوں دادی کو بے موت مارنا چاہتی ہے” زہرہ بی نے کینوؤں کے چھلکے اٹھا کے نمل کو مارے کے اس وقت وہ ان کی پہنچ سے دور بیٹھی تھی۔ منال کھلکھلا کر ہنسی۔ ابھی کچھ دیر پہلے والا غصہ سیکنڈز میں رفع ہوا تھا۔ زہرہ بی نے ٹکا کے بدلہ لیا تھا۔
“کیا ہے زہرہ بی ! میں منال کی شکایت لگا رہی ہوں اور آپ الٹا مجھے ہی مار رہی ہیں۔” وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
اجر اور غنویٰ تب سے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں۔
“نہیں تو تیری شکایت کے پیچھے جان دے دوں میں اب؟” زہرہ بی جوش میں تھیں اور منال ناک پہ اپنی عینک ٹھیک کرتی ،پونی ہلاتی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ‘آگ ‘ لگانے میں مصروف تھی۔
“اٹھ تو بھی دفعہ ہو وہ دوسری نکر میں۔ وہیں مرنا ہوتا ہے جہاں پورا ٹبر اکٹھا ہو” اب کچھ چھلکے اٹھا کے منال کا نشانہ باندھا تھا۔ وہ فوراً سے پہلے کتابیں اٹھاتی وہاں سے غائب ہوئی تھی۔
اب ہر طرف راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ اجر زہرہ بی کے کان میں جانے کن جہانوں کی باتین ڈال رہی تھی جو وہ ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھے محو ہوئی سن رہی تھیں اور نمل غنویٰ کو جانے کیا کیا بتانے مین مگن تھی۔
“ہیلو بے بی!کیسی ہو پھر؟ ” وہ سب مگن تھے جب اچانک سے حبل نے اچانک آکر نمل اور غنویٰ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
غنویٰ نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا اور نمل نے تیوری چڑھائی تھی۔
“کیا چاہتے ہو؟”نمل چانت پیستی ہوئی گویا ہوئی۔
“تیرے ساتھ بیٹھ کر کینو کھانا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں” حبل نے جھوم جھوم کر شعر کا بیڑا غرق کیا تھا۔ جہاں نمل نے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا وہیں غنویٰ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنے کی سعی کی تھی۔
“کیا ہوا بے بی! سر میں درد ہے کیا؟ ” حبل نے پریشان ہونے کی شاندار ایکٹنگ کی۔
“زہرہ بی دیکھیں یہ مجھے تنگ کر رہا ہے ” نمل نے سب سےکارآمد حربہ آزمایہ۔
“ہاں وے اب تجھے کیا مسئلہ ہے؟ وے کوئی رب کو بھی منہ دکھانا ہے کہ مجھ پہ تم گندی ہڈیوں کا بوجھ آنا ہے؟ نماز بھی نہیں پرھتے بے غیرت ” انہوں نے اب کی بار چھلکے نہیں پھینکے تھے۔ جوتا سب سے بہترین علاج تھا۔
مگر افسوس۔۔۔
جوتا وہ کیچ کر چکا تھا۔
“زہرہ بی بغیر تحقیق کے ہی شروع ہو جاتی ہیں آپ یار۔ میں تو غنویٰ سے کہنے آیا تھا کہ آج شام میں تیار رہے ہم تینوں بہن بھائی شاپنگ پہ جائیں گے” اس نے جوتا ایک طرف گھاس پر دالا اور مناسب اور مؤثر بہانہ گوش گزار کیا۔
اور واقعی مؤثر بہانہ ہی تھا کہ زہرہ بی واری صدقے جانے لگیں۔
“اتنے تمیز دار کب سے ہوگئے تم دونوں بھائی؟” وہ حیران ہوئیں۔
” آپ ہی کبھی جان نہ پائیں جانِ من ” وہ اٹھا اور ان تک جا کر انہیں بانہوں میں بھرا۔ وہ’وے بغیرتا ‘ کرتی رہ گئیں۔
“اچھاغنویٰ تیاررہنا شام میں تم میں اور جبل جائیں گے۔ اور اگر کسی ایک کو بھی ساتھ لانے کا سوچا تو بھول جانا کہ کوئی حبل نامی بھائی بھی ہے” وہ وہیں بیٹھا بولا۔ غنویٰ جو نمل کے پاس بیٹھی اس کی صلواتیں سن رہی تھی کہ ‘ حبل اللہ تجھے تیرے جیسی گندی اولادسے بچائے ‘ کی گردان سن رہی تھی ، حبل کی بات سن کرسر ہلانے لگی۔
“حبل ایک کام کر دو بھائی میرے ” اجر بولی۔
“لو جی۔آپ کے سامنے تو آنا ہی نہیں چاہیے۔” وہ منہ بنا کو بولا۔
“کیا ہے کر دو تو۔ اچھا سا ناشتہ بنا کر دوں گی دیکھنا” اس نے لالچ دیا۔
“اچھا اچھا ۔ کتنے کا بیلنس کروانا ہے؟”
“وہ سپر کارڈ۔ ہی ہی” اجر دانت نکالتی بولی۔
“کبھی کبھی تو لگتا ہی نہیں کہ آپ ہم سے بڑی ہیں۔” وہ منہ بناتا ، نمل کی ٹوکری سے کینو اٹھاتا اسے منی چڑاتا وہاں سے نکل گیا۔
جبکہ نمل ایک بار پھر سے اس کی اولاد کو کوسنے لگی تھی۔
غنویٰ اٹھ کر اندرونی حصے کی جانب چل دی تا کہ فجر کو جگا سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عصر کا وقت اور ہمیشہ کی طرح سارے گھر کی لڑکیوں کا پسندیدہ وقت۔
وہ سب لاؤنج میں جمع ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف تھیں۔ نمل صوفے پر لیٹی میگزین پڑھ رہی تھی اور فجر نیچے قالین پر بیٹھی نئے آنے والے گانے ڈاؤن لوڈ کر رہی تھی۔
اجر کچن مین آمنہ بیگم کے ساتھ کام کروا رہی تھی ۔غنویٰ اور منال بیٹھیں رانی کی باتیں سن رہی تھیں ۔
زہرہ بی ہمیشہ کی طرح آج بھی باہر احاطے میں عورتوں کے ساتھ تھیں اور گھر کے مرد اور لڑکے گھر سےباہر تھے۔
قدسیہ بیگم سبزی بنا رہی تھیں اور کشور بیگم اس وقت زہرہ بی کے ساتھ باہر احاطے کی طرف تھیں۔
“کتنا بولتی ہو تم رانی” منال نے اس کی باتیں سن کر تبصرہ کیا ۔
“اور یہ ہاتھ نہ اتنے ہلاؤ میری آنکھیں گھوم گئی ہیں” یہ غنویٰ تھی۔
“باجی آپ لوگ ناسوچ لو کہ بات سننی ہے یا نہیں؟” اس نے ان کو یوں گھورا جیسے بات بہت نا گوار گزری ہو۔
“لو ۔ میں کہہ رہی کہ کتنی باتیں کرتی ہو اور تم ابھی بھی کہہ رہی کہ بات سننی ہے یا نہیں۔ بہن میرے نا کان اس وقت آرام کرنا چاہتے ہیں۔ تم جاؤ چائے بنا کر لا دو۔ بہت باتیں کر لیں بس اب اٹھو۔” منال اسے ہاتھ سے پکر کر کھڑا کرتے ہوئے بولی۔
رانی منہ بناتی کچن کی جانب چلی گئی تو منال اس کی نقل اتارنے لگی۔
“السلام علیکم!” وہ سب یہاں وہاں بکھری ہوئی تھیں جب عبادت لاؤنج میں داخل ہوئی۔ سب نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ منال بجلی کی طرح اس کی طرف گئی اور گلے لگ گئی۔
“کیا ہو گیا ہے” عبادت ہنسنے لگی۔
“گدھی اتنے دن بعد آئی ہو کہاں دفعہ تھی” اس نے چیختے ہوئے کہا۔
“ویلی نہیں ہوتی بیٹا جی کام ہوتا ہے مجھے” اس نے سر پہ موجود چادر ٹھیک کی جو منال کے ساتھ لگنے سے سرک گئی تھی۔
“ہاں بس یہ ایک ہی طعنہ ہے تمہارا ہمیشہ کا” منال نے منہ بنایا۔
نمل بھی دوڑتی اس کے پاس آئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈبا لیا اور کھولنے لگی۔ عبادت نے فوراً اس سے وہ ڈبہ واپس کھینچا۔
“یہ زہرہ بی کے لیے ہیں” وہ تیز تیز چلتی کچن کی طرف چلی گئی تو نمل منہ بنا کر واپس صوفے کی طرف آئی۔ باقی سب اس طرح کراری سی ہونے پر ہنس دیں۔
“ویسے جتنی اب ہو گئی ہے نا تیری۔ میرا خیال ہے مر جانا چاہیے تجھے ڈوب کے” یہ فجر تھی جس سے اپنی ہنسی کنٹرول ہی نہ ہوتی تھی۔
“میں کیوں مروں؟ مریں میرے تم جیسے دشمن۔ میں نے تو ابھی اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں” اس نے میگزین کھینچ کر فجر کو مارا۔
“دیکھو ذرا اسے۔ بچوں کا اتنا شوق ہے اور بچوں کے ابا کی ہر بات اسے کھلتی ہے” فجر قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔
“بد تمیز ابھی کچھ دن پہلے زہرہ بی نے کہا بھی تھا کہ قہقہہ مت لگایا کرو۔” غنویٰ نے نیچے قالین پہ پڑا کشن اٹھا کہ فجر کو مارا۔
“لو ایک عبادت کم تھی تم بھی زہرہ بی کی چمچی بن گئی ہو۔”یہ نمل تھی جو جل کر بولی۔
” اور ایک میں ہی ملی ہوں ہر چیز پھینکنے کو تم لوگوں کو؟” فجر غصے سے اٹھی اور واک آؤٹ کر گئی۔ پیچھے نمل منال اور غنویٰ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنس دی تھیں۔
“زہرہ بی کی چمچی !سنا ہے داخلہ دینے گئیں تھیں تم” منال نے کچن سے نکلتی عبادت کو بازو سے پکڑا اور کمرے کی جانب جانے لگی جب نمل نے وہی میگزین جو فجر کو مارا تھا ، اٹھ کر منال کی طرف اچھالا۔
“کیا مسئلہ ہے یار آپی” وہ چڑ کر مڑی تھی۔
“کہاں لے کر جارہی ہواسے۔ دن بدن بہت مشکوک ہوتی جا رہی ہو تم دونوں۔ ادھر بیٹھ کر ہمارے سامنے باتیں کرو۔”
“شرم کریں۔ ہم ابھی آپ کی طرح منگنی شدہ نہیں ہوئے کہ ایسی ویسی باتیں کریں گے۔ ” منال نے کہا تو عبادت اور غنویٰ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی۔
“دفعہ ہو جا” نمل نے منہ بنا کر اس کی طرف پشت کر لی۔
منال اور عبادت کمرے کی طرف چلی گئیں تو غنویٰ بھی کچن کی طرف چلی گئی جبکہ نمل کا اب لمبی ناراضگی رکھنے کا رادہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“تیار ہیں؟”
وہ کچن میں تھی جب جبل ہاتھ پہ گھڑی باندھتا اسکے پاس چلا آیا۔
“جی؟” غنویٰ حیرانگی سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔
“جانا تھا آج شہر۔ حبل نے کہا کہ آپ کو بتا چکا ہے”
“مجھے لگا مذاق میں کہا ہے” وہ حیران کھڑی تھی۔
“ارے یہ بھی بھلا مذاق والی بات ہے؟ چلیں چادر لے آئیں ہم باہر ویٹ کر رہے ہیں” وہ بولا اور باہر کی جانب چل دیا۔
وہ باہر گیا تو غنویٰ پریشان سی جا کر آمنہ بیگم کے پاس کھڑی ہو گئی۔
“کیا ہوا؟ بھائی ویت کر رہا ہے بھئی باہر” وہ ہنڈیا میں چمچ ہلاتی اس کی طرف مڑیں۔
“اکیلی جاؤں گی؟” اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔
“ہاں تو کیا ہوا؟” انہوں نے اس کے ہاتھ تھامے جو ہمیشہ کی طرح ٹھنڈے تھے۔
“میں اکیلی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔” اسے سمجھ نہ آیا ان تک اپنا خوف کیسے پہنچائے۔
“ارے بیٹا! وہ بہت بدتمیز ہین پر بہنون کی عزت جان سے برھ کر کرنے والے بچے ہیں ۔ میرے ہاتھوں میں جوان ہوئے ہین مجھے پتہ ہے ان کا۔ میں گارنتی دیتی ہوں سنبھلے ہوئے بچے ہیں” انہوں نے اس کے ہاتھ تھپکے۔ وہ ابھی بھی سہمی ہوئی ہی لگ رہی تھی۔
“اچھا چلو میں منال کو ساتھ بھیج دیتی ہوں۔ تم چادر لو جا کر” انہوں نے کہا اور آنچ دھیمی کر کے باہر کو ہو لیں۔ وہ بھی اب کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی تبھی خود بھی باہر نکل آئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دونوں ایک دوسرے کے کان میں گھسی جانے کیا کیا باتیں کر رہی تھیں جب آمنہ بیگم نے آکر منال کو غنویٰ کے ساتھ جانے کا کہا اور عبادت کو لیےلاؤنج میں آگئیں ۔ غنویٰ اور نمل بھی بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں۔
“عبادت بیٹا یہ جبل اور حبل کی بہن ہےغنویٰ” انہوں نے اسکا تعارف کروایا۔
“اور غنویٰ بیٹا ! جو بھائی صاحب تمہیں رکشے میں چھوڑ کے گئے تھے اس دن۔ یہ ان کی بیٹی ہے عبادت”
غنویٰ بیٹھی بیٹھی یوں اٹھی جیسے جانے کیا ہو گیا ہو۔
“چاچا کیسے ہیں؟” وہ حیران ہوتی اس کا بالکل سامنے جا کھڑی ہوئی۔
“جی اچھے ہیں ” عبادت پریشان ہی ہو بیٹھی تھی اسے یوں اپنے سامنے منہ کھولی کھڑی دیکھ کر۔
“ارے بدھو! وہ تو اسے بھی پتہ ہو گا کہ اچھے ہیں۔ حال پوچھ رہی ہے وہ” نمل وہیں صوفے پر بیٹھی ہوئی بولی۔ عبادت کو ایک اگر کسی کا ڈر ہوتا تھا تواجر کا اور نمل کا۔ یہ دو بندیاں اسے نند کے روپ میں ہی نظر آتی تھیں۔ ہر وقت طنز کرتی ہوئیں حالانکہ ان کے خاندان کا یک بھی فرد ایسا نہ تھا جو طنز کرنے میں ماہر نہ ہو۔
“جی ٹھیک ہیں” وہ گھبرا کر بولی تو پاس کھڑیں آمنہ بیگم اور غنویٰ ہنس دیں۔
“آپی چلیں ؟” منال بیگی شرٹ اور پینٹ پہنے اسکارف لیے وہاں چلی آئی اور غنویٰ کی طرف دیکھ کر بولی۔
“ہرگز نہیں۔ یہ پینٹ کے ساتھ اسکارف والا کیا تُک ہے؟ سر بھی ننگا کر لیتیں ” جواب غنویٰ کی بجائے آمنہ بیگم کی طرف سے آیا تھا۔
“امی آپ بھی یار۔ میں اتنی بھی فضول نہیں لگ رہی” منال نے منہ بنایا۔
“ہاں اتنی نہیں ۔ بہت ہی فضول لگ رہی ہو۔ اس حالت میں تو سوچنا بھی مت کہ میں لے جاؤں گا ساتھ۔ جا کر کپڑے چینج کرو اور چادر لے کر آؤ” حبل جو باہر نکلنے لگا تھا ، وہ بھی اسی طرف چلا آیا۔
“حبل ساگو دانہ لیتے آنا زہرہ بی کے لیے” یہ آمنہ بیگم تھیں۔
“چچی کبھی کچھ اور بھی بول دیا کریں لانے کو۔ ” وہ ہنستا ہوا نمل کے قریب ہی صوفے پر جا بیٹھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھی اور کچن کی طرف چل پڑی۔
“دیکھ لیں آپکی بیٹی کو میرا کوئی لحاظ نہیں ہے”
“تمہیں جیسے میرا بہت لحاظ ہے نا۔ ساس کے سامنے اس کی بیٹی کے پاس جا کر بیٹھ گئے ہوشرم ہے یا نہیں؟” انہوں نے اس کے کان کھینچے اور اسی کے پاس بیٹھ گئیں۔
“زہرہ بی کے مطابق شرم تو بیچ کھائی میں نے ” وہ ہنستے ہوئے بولا۔
“اچھا تم لوگ جا کر بیٹھو گاڑی میں۔ میں منال کو بھیجتی ہوں ۔ اور عبادت بیٹا جا کر زہرہ بی سے مل آؤ۔ ” وہ اٹھیں اور کچن کی جانب چل دیں۔ جبکہ حبل، عبادت اور غنویٰ بھی باہر کو چل پڑے۔
“آپ کسی دن ہماری طرف آئیے گا ۔ ” عبادت غنویٰ کے ساتھ چلتی ہوئی بولی۔
“ہاں میں آؤں گی۔ تم ایک کام کرنا۔ چاچا سے میرا سلام کہہ دینا۔ ان کو میرا بتا بھی دینا ”
“میں زہرہ بی کے پاس جا رہی ۔” عبادت جھجکتی ہوئی بولی۔
“ہاں میں بھی چلتی اب۔ اللہ حافظ”
“کہاں جا رہی ہیں آپ؟” یہ کومیل تھا جو جانے کہاں سے ٹپکا تھا اور غنویٰ سے یوں مخاطب تھا گویا بہت بے تکلفی ہو۔ جہاں غنویٰ حیران ہوئی تھی وہیں عبادت ایک دم اس کی حاضری سے کنفیوژ ہوتی احاطے کی طرف مڑ گئی ۔
کومیل جی بھر کے بد مزہ ہوا تھا۔
“آپ نے بھی چلنا ہے؟” غنویٰ بولی۔
“میں چھوٹا ہوں آپ سے۔ مجھے تو آپ مت کہیں یار آپی۔ ” وہ منہ بناتا بولا۔ موڈ بری طرح خراب ہوا تھا۔
“چلنا ہے؟” وہ گڑبڑا کر بولی۔
“نہیں آپ جائیں۔ میں تو گھر واپس ہی کسی اور وجہ سے آیا تھا” وہ منہ بناتا اندر کی جانب چل دیا تو وہ بھی گیراج کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...