زہرہ بی کے کمرے تک تو پہنچ چکی تھی مگر اندر جانے کی ہمت نہیں تھی۔ دروازے کے سامنے کھڑی وہ بہت دیر تک دروازے ہی کو گھورتی رہی تھی جب آمنہ بیگم وہاں سے گزریں ۔
“کیا بات ہے بیٹا کوئی کام تھا؟” انہوں نے اس کی طرف آتے ہوئے اس سے پوچھا۔
“جی آنٹی! زہرہ بی نے بلایا تھا۔” وہ مسکراتے ہوئے بولی تو آمنہ بیگم ہنس دیں۔
“بیٹا جی یہاں آنٹی کوئی بھی نہیں ہے آپکی۔ پھوپھو، تائی چچی ہیں ہم آپکی۔ اور میں چچی ۔ ٹھیک ہے نا؟” انہوں نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تو وہ بے اختیار مسکرا دی۔
“اپنوں میں تکلف نہیں ہوا کرتے ۔ اور ہاتھ کتنے ٹھنڈے ہیں ۔ ابھی تو سردی ٹھیک سے آئی بھی نہیں”
“میرے ہاتھ ٹھنڈے ہی رہتے ہیں چچی۔ گرمیوں میں بھی بہت کم ہی گرم ہوتے ہیں” ان کی پریشانی پہ ان کا ہاتھ تھپکتے ہوئے وہ بولی۔
“اچھا اچھا۔ اندر جاؤ تو یہ کپڑے زہرہ بی کی الماری میں رکھ دینا وہ بتا دیں گی کہاں رکھنے ہیں۔ اور تمہیں اندر جانے کا بہانہ بھی مل جائیگا” وہ اسے زہرہ بی کے کچھ تہہ شدہ کپڑے پکڑاتے ہوئے شرارت سے گویا ہوئیں۔
“آپ کو کیسے پتہ مجھے بہانہ چاہیے تھا؟” وہ ہلکا سا ہنستی ہوئی بولی۔
“ماؤں کو سب پتہ ہوتا ہے” آنکھ مارتی ہوئیں وہ اسے اپنی ہی عمر کی کوئی الہڑ لڑکی لگی تھیں ۔ وہ ہنس دی تو انہوں نے اس کے کندھے پہ تھپکی دی اور آگے بڑھ گئیں۔ انہیں جاتا دیکھتی ہوئی وہ دوبارہ کمرے کی طرف مڑی تھی۔
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو زہرہ بی کو بیڈ پر نیم دراز دیکھا۔ وہ سر بیڈ کی پشت سے ٹکائے کمبل میں پاؤں کیے آنکھیں بند کیے لیٹی تھیں۔ اسے شرمندگی نے آن گھیرا۔ وہ چلتی ہوئی ان تک آئی اور ایک ہاتھ سے کمبل کو ان کے سینے تک کر دیا تا کہ ٹھنڈ نہ لگے کہ سوئے ہوئے انسان کو سردی زیادہ محسوس ہوا کرتی ہے۔
“آجاؤ آجاؤ بیٹھو بیٹے” زہرہ بی نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں اور سیدھی ہوتی ہوئیں اس سے بہت پیار سے مخاطب ہوئیں۔
“سوری زہرہ بی میں نے ڈسٹرب کر دیا” وہ جی بھر کے شرمندہ تھی۔
” ارے نہیں پتری! میں اس وقت سوتی نہیں ہوں۔ جاگ رہی تھی ۔ بس تمہارے آنے کا پتہ نہیں چلا۔” وہ بہت آرام سے اس سے مخاطب تھیں۔
“یہ کپڑے الماری میں رکھ دو ۔ وہ سامنے والی۔ دائیں طرف کا پٹ کھولو ” انہوں نے اسے شرمندہ کھڑی دیکھا تو بولیں ۔ وہ چلتی ہوئی الماری تک گئی اس کا وہی پٹ کھولا۔اندر کئی خانے بنے ہوئے تھے۔ کچھ میں کچھ شالیں تھیں کچھ میں کچھ کتابچے رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی زمانے میں ہماری دادیاں نانیاں اپنے صندوق میں سو طرح کی چیزیں بہت سلیقے سے سجا کے رکھا کرتی تھیں۔ اس کو اپنی دادی یاد آئیں۔ انہوں نے بھی ایک ہی صندوق میں اس کی اور اپنی چیزوں کے ساتھ اس کے بچپن کےکھلونے اور اس وقت کی اس کی کہانیوں کی کتابیں سنبھالی ہوتی تھیں۔
“اس میں وہ نیچے جو خانہ بنا ہے اس میں میرے کپڑے پڑے ہیں۔ ان میں ہی رکھ دو” پیچھے سے زہرہ بی کی آواز آئی تھی۔ اس نے سلیقے سے ایک طرف ان کپڑوں کے لیے جگہ بنائی اور کپڑے رکھ کے الماری کو بند کر دیا۔
“آجاؤ میرے ساتھ کمبل میں ۔ ” انہوں نے اس کے لیے جگہ بنائی۔ وہ مسکراتی ہوئی جی اچھا کہہ کے ان کے پاؤں کی طرف بیٹھ گئی اور کمبل ان کے پاؤں پہ ٹھیک کر دیا۔
“ہوا تو نہیں آ رہی یہاں کہیں سے؟” اس نے ان سے پوچھا۔
“نہیں نہیں ٹھیک ہوں بالکل۔ تم آرام سے بیٹھو” وہ مسکراتی ہوئی بولیں ۔
اب اسے سمجھ نہ آتا تھا اگلی بات کیا کرے سو کمبل پہ بنے ڈیزائن پہ غور کرنا شروع کر دیا۔
“اچھا تمہارے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ ہوتی نا میری گندی نسل تو کجا کبھی انہوں نے تمیز سے پاؤں اٹھائے ہوں۔ بس گھسے چلے آتے ہیں سبھی بنا شرم کے ” وہ بولیں تو اس نے بمشکل مسکراہٹ ضبط کی ۔
“ہاں نا میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔ اب تم نے بھی تو غور کر لیا ہو گا کیا تمیز ہے ان میں۔ جاہل ہیں ایک دم سب کے سب” وہ بولیں تو لگا جیسے جلی ہی بیٹھی ہیں۔ اس وقت ٹھیک دادی ہی لگ رہی تھیں۔
“اچھا کتنا پڑھ رکھا ہے تم نے بیٹا؟” انہوں نے موضوع بدلا۔
“میں نے پچھلے سال ایم اے مکمل کیاہے۔ ” وہ آہستہ سے بولی۔
“ارے ماشااللہ! کشور تو یوں ہی کہتی تھی۔ پڑھا لکھا دیا تمیز دے دی اٹھنے بیٹھنے کی تمہارے گھر والوں نے یہ بہت ہی اچھا کیا۔ سو برائیوں پر یہ ایک نیکی بھاری ہے ان کی۔ ” وہ بہت ہی خوش ہوتی ہوئی بولیں تو اس نے بھی مسکرا کے سر ہلا دیا۔ وہ ان سے سو فیصد متفق تھی۔ بے شک یہ ان کا احسان ہی تھا کہ چاہے غیر نصابی ہوتی یا نصابی ہر سرگرمی میں وہ حصہ لیا کرتی تھی اور گھر والوں نے کبھی منع نہیں کیا تھا۔ ان کو کام چاہیے ہوتا تھا اور وہ کام ان کو وقت پر ہی ملا کرتا تھا سو انہوں نے کبھی اس معاملے میں اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔
“موبائل ہے بیٹا تمہارے پاس؟”
“نہیں زہرہ بی ۔ کبھی استعمال نہیں کیا”
“ارےاب تو بہت عام سی چیز ہے۔ میری نواسی کا بیٹا ہے۔ یہ اتنا سا۔ڈوئی جتنا۔ ایسے چلاتا ہے موبائل جیسےجانے ماں کے پیٹ میں اسے اس کی تعلیم دی جاتی رہی ہو” انہوں نے اپنی کہنی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اس کا سائز بتانا چاہاتو اس نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔ (زہرہ بی بھی ہر بات میں کیا مثالیں دیا کرتی تھیں)
“میں شیر زمان سے کہوں گی اپنی بیٹی کو موبائل لا کر دو۔ ضرورت پڑ جایا کرتی ہے۔ گھر کے سبھی لوگوں کے پاس ہےتمہارے پاس بھی ہونا چاہیے”
“نہیں زہرہ بی مجھے کیا ضرورت ہو گی میں نے کونسا کہیں آنا جانا ہوتا ہے ۔ رہنے دیجیے گا” اس نے توجیہہ پیش کی ۔
“لو ایسے ہی رہنے دوں۔ وقت کی ضرورت ہے تمہاری ضرورت ہو یانا ہو” انہوں نے سختی سے اسے ٹوکا۔ وہ بس سر ہلا کر رہ گئی۔
وہ دونوں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں جب دروازہ کھلا اور سجاول اندر داخل ہوا۔
“زہر ہ بی ! فارغ ہیں؟ کچھ بات کرنی تھی آپ سے میں نے۔ ” وہ ابھی پورا داخل بھی نہ ہوا تھا اور بولنے لگا۔ زہرہ بی کےماتھے پر شکنیں بڑھیں۔ اور غنویٰ نے اپنا دوپٹہ سر پر ٹھیک کیا تھا جو پہلے بھی ٹھیک ہی تھا۔ زہرہ بی نے کن اکھیوں سے اسے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے دیکھا ۔
“کبھی اجازت لے کر بھی داخل ہو جائے کوئی تم لوگوں کے ٹبر سے” وہ سیدھا طنز مارتے ہوئے بولی تھیں۔
“سوری زہرہ بی آپ سے بھی اب پردے کریں گے کیا ہم؟”اسے شاید اس کا چہرہ نہیں دکھا تھا تبھی بس چلتا چلا آرہا تھا ۔ شاید اسے گھر کی کسی دوسری لڑکی کا گمان ہوا ہوگا۔
“او جا پراوا میں نہیں لڑ سکدی تاڈے نال۔ ”
(او جا ؤ بھائی میں نہیں لڑ سکتی تم لوگوں کے ساتھ) وہ چڑ کے بولی تھیں۔ غنویٰ نے پھر سے مسکراہٹ ضبط کی۔
“تو کس نے کہا ہے لڑیں؟ میں تو کہتا ہوں جپھی ڈالیں اتنے عرصے بعد دیکھا ہے آپ کو یار اتنا تو حق ہے پوتے کہ نہیں” وہ ان کو بانہوں میں بھرتے ہوئے بولا تو وہ ‘ہائے ہائے’ کرنے لگیں۔ اسے اب بھی غنویٰ کے وہاں ہونے کا کوئی گمان نہ تھا تبھی وہ یہ سب کر رہا تھا۔
“وے بغیرتا! دادی دی جان کڈ دے میں لتاں پن دینیاں نے تیریاں” وہ اپنے عصا کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگیں۔
(اوئے بے غیرت ! دادی کی جان نکال دے۔ ٹانگیں توڑ دینی ہیں تمہاری میں نے)
“ہٹ دفعہ ہو جان چھوڑ میری۔ حیا کر لڑکی بیٹھی ہے اس کا ہی لحاط کر لے میری گندی نسل” وہ ان کے ساتھ چمٹا ہوا تھا جیسے وہ کہیں بھاگنے لگی ہوں۔ غنویٰ سے اپنی مسکراہٹ ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ انہوں نے ساتھ چمٹے ہوئے سجاول کی کمر پر دو ہتھڑ مارتے ہوئےکہا۔
“لے اب میں اجّی آپی کابھی لحاظ کروں۔ کیا زمانہ آگیا ہے زہرہ بی” وہ ہنستے ہوئے ان سے دور ہوا اور چھلانگ لگا کر ان کی بائیں طرف آ یا اور کمبل کھینچ کر اپنی بھی ٹانگوں پر کیا اوربڑے مزے سے بیٹھ گیا۔
“وے بے غیرت اکھاں کھول کے ویکھ”
(اوئے بے غیرت آنکھیں کھول کے دیکھو)
وہ غصے سے اسے دیکھتی ہوئی اس کی ٹانگ پر ہاتھ مار کر بولیں تو اس نے اس طرف دیکھا جہاں غنویٰ یوں بیٹھی تھی جیسے موجود ہی نہ ہو۔ آنکھیں کمبل پر جمائے وہ یوں بیٹھی تھی گویا اس کو اسے گھورنے کی مہم ملی تھی۔ سجاول جی بھر کے شرمندہ ہوا۔ اسے بالکل بھی اس کے یہاں ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔
“زہرہ بی میں چلتی ہوں پھر” اس نے بمشکل آنکھیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت مانگی۔
“ایویں چلتی ہوں۔ میں نے جس کام کے لیے بلایا تھا وہ تو ہوا نہیں۔ بیٹھی رہو تم۔ ” وہ اسے ڈپٹتی ہوئی گویا ہوئیں اور سجاول کو گھوری سے نوازا جو منہ کھولے کبھی ان کو دیکھتا تھا کبھی غنویٰ کو ۔ اور کبھی اپنے کمرے میں آنے سے اب تک کی حرکتوں کو سوچتا۔
“میں چلتا ہوں پھر۔ رات کو بات کر لوں گا” وہ بیڈ کی دوسری سائڈ سے بہت تمیز سے اترتا ہوا بولا۔ غنویٰ کو اس کی حالت پر بہت ہنسی آئی ۔ پہلے کیسے اسی کی سائڈ سے چھلانگ لگا کر چڑھا تھا اور اب کتنا تمیز دار بن کے دوسرے طرف سے اترا تھا۔
“اگلی دفعہ دروازہ ناک کر لینا میرے کمرے میں آتے ہوئے” اس کے جاتے جاتے زہرہ بی بہت ہی سخت لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔ اسے آج ڈائیننگ ٹیبل پر رعب سے بیٹھی ہوئی زہرہ بی یاد آئیں۔ اب بھی ان کا وہی انداز تھا۔
سجاول کے جانے کے بعد وہ دوبارہ اسکی طرف متوجہ ہوئیں ۔
“دیکھا کہا تھا نا میں نے۔ اللہ ہی ہدایت دے ان کو” وہ گہراسانس لے کر بولیں۔
“زہرہ بی لاڈ سے کرتے ہیں ۔ آپ اتنی ٹینشن نہ لیا کریں”وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
“ایسے لاڈ تب اچھے لگتے ہیں جب آپ ‘گِو اینڈ ٹیک’ کے اصول پر چلو۔ جانتی ہو گی ناتم بھی گواینڈ ٹیک کا اصول؟” اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“کیا اصول ہے؟” انہوں نے پوچھا۔
“بہت ہی سادہ سا ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول” اس نے اپنی سمجھ کے مطابق بتا دیا۔
“ہاہا ہا! نہیں بچے۔ یہ تو ترجمہ کر رہی ہو تم۔ ” وہ ہنستے ہوئے گویا ہوئیں تو وہ خجالت سے اپنے ہونٹ دبا گئی۔
“کچھ لو اوردو کے اصول میں ہوتا یہ ہے بیٹا جی کہ اگر ایک انسان آپ کو اپنا کچھ اچھا حصہ دے رہا ہے تو اسے یوں اس کا بدلہ دو کہ اسے اپنے دیے ہوئے پہ افسوس نہ ہو۔ اور میرے نزدیک اس کا سب سے سادہ نکتہ یہی ہے” انہوں نے کمبل اس کی طرف سے تھوڑا اپنی طرف کھینچا۔
“ایک انسان آپ کو کچھ دے چکا ہے تو وہ چاہے تھوڑا بھی ہے تب بھی لیتے ہوئے وہ زیادہ کی توقع کرے گا۔ آخر انسان ہے اور انسان کی فطرت میں زیادتی ہی بہت ہے۔ ہر چیز کی زیادتی۔ اور میرے نزدیک یہ اس اصول کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ کسی کی توقع پر پورا اترنا۔جتنا اہم ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے”
ایک ان کی شخصیت کا رعب و دبدبہ دوسرا ان کی باتیں۔ وہ بالکل خاموشی سے باتیں سن رہی تھی۔
“اور میری نسل میں یہ اولادیں ایسی پیدا ہوئی ہیں کہ ان کو نہ بڑے کا لحاظ ہے نہ چھوٹے کا۔ میں ان کو اپنی عمر دان کر چکی ہوں۔ مجھے ان سے اچھے کی نہیں ، بہت اچھے کی توقعات وابستہ ہیں ۔ میں نہیں چاہتی کہ جب میں مروں تو میرا ایک بھی نام لیوا نہ ہو۔ ” وہ ا فسردہ ہو چلی تھیں۔
“ہر انسان کی ایک خواہش ہوتی ہے۔ میری بھی یہ ایک بہت ہی پیچیدہ سی خواہش ہے کہ میرے بعد میرے اس گھر کو آباد رکھنے والا کوئی ہو۔ اس گھر میں کبھی بھی خاموشی نہ ہو۔ میری اولاد میری نسل یہیں اس گھر میں رہے ” اداسی نے کمرے میں پنجے گاڑ لیے تھے۔
“میں ان کی ترقی کے راستے میں کبھی بھی نہیں آئی۔ خود حوصلہ بڑھاتی ہوں کہ آگے بڑھو۔ مگر اس میں ایک شان ہو کہ دیکھنے والا دیکھ کر اور سننے والا سن کر آپ کے خاندان آپ کے منسب کا اندازہ لگا لے ۔ آپ کو خود اپنے ہونے پر فخر ہو۔ ”
غنویٰ کو لگا اب وہ رو دیں گی۔ وہ تھوڑا سا آگے کو ان کی طرف کھسکی۔
“میں نہیں کہتی کہ زندگی سے منہ موڑ کے بیٹھ جاؤ مگر یہ بھی نہیں کہتی کہ ایسی حرکتیں کرو کہ لوگ آپ کہ حسب نسب پہ انگلی اٹھائیں۔ بھئ آخر میری ہی تربیت پر بولیں گے نا لوگ”
اس نے ان کا کمبل کے اوپر رکھا ہاتھ تھاما تو وہ جو گم سم سی صرف باتیں کیے جا رہی تھیں چونکیں۔
“زہرہ بی ان کی عمر ایسی ہے۔ ایسی باتوں کو اگنور کر دیا کریں۔ تھوڑاعرصہ گزر جانے دیں سب سیٹ ہو جائے گا۔ ان باتوں کو دل پہ نہیں لیا کریں” ان کا ہاتھ تھپکتے ہوئے وہ بولی۔
“یہی کشور بھی کہتی ہے مجھے۔ میں بوڑھی جان ہوں کس حد تک انتظار کر سکتی ہوں ؟ کوئی لمحے گھڑی کی خبر نہیں ہے میری۔ اتنی تو بے صبری میرا حق بنتی ہے نا کہ نہیں؟” بوڑھےی آنکھوں سے آنسو چھلکے تھے۔
“ارے زہرہ بی آپ بھی یوں کریں گی تو مجھ جیسی بندی کو آگے کون بڑھائے گا۔ میں ہوں نا میں بن کے دکھاؤں گی آپ کو سب کچھ جو بھی آپ چاہتی ہیں۔ روئیں نہیں” اس نے آگے بڑھ کے انہیں گلے سے لگایا تھا۔ اسے یوں لگا ایک عرصے بعد وہ اپنی دادی کے گلے لگی ہو۔ اس کی آنکھیں بھی نم ہو چلی تھیں۔
آج کا دن زہرہ بی اور اس کے درمیان کی جھجھک ختم کر گیا تھا ۔ جہاں زہرہ بی اس کے ساتھ لگی سکون محسوس کر رہی تھیں وہیں غنویٰ کو بھی ایک عرصے بعد ایک ایسا وجود ملا تھا جس سے وہ اپنے دل کو ڈھارس دے سکتی تھی۔ زندگی سے ایک ہی گلہ تھا کہ اس کے سب سے پیارے رشتے کو چھین لیا تھا۔ اب وہ گلہ بھی ختم ہو چکا تھا۔
اور اللہ کی تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کب کسے کہاں اور کس طرف کی راہ پہ لگانا ہے۔
بے شک یہ تو اللہ ہی کی ڈائری میں درج ہے کہ کون کیا ہونے والا ہے۔
بلا شبہ یہ وہ اللہ ہی ہے جو مقدر کا فیصلہ کیاکرتا ہے۔
اور اس کے فیصلے ہر شک سے پاک ہوا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“یار یہ ہے کون سی چیز ؟” سجاول زہرہ بی کے کمرے سے نکلا تو جبل لوگوں کے کمرے میں چلا گیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ لوگ ڈیرے سے واپس آئے تھے ۔ حبل واش روم میں تھا اور جبل بیڈ پہ اوندھا لیٹا ہوا تھا۔
“کون سی چیز؟” اس نے سیدھے ہوتے ہوئے سجاول سے پوچھا۔
“یہی تم لوگوں کی سو کالڈ بہن۔ ہے کون یہ؟” وہ منہ بناتا ہوا دھپ سے بیڈ پر بیٹھا تھا جبکہ جبل نے پاس پڑا تکیہ اٹھا کےٹھاہ اسے مارا تھا کہ وہ اپنا بچاؤ بھی نہ کر پایا تھا۔
“ابھی گھنٹہ پہلے کیا بکواس کی تھی ہم نے کہ اس کے بارے میں تمیز سے بات کرنی ہے جو بھی بات کرو۔ تجھے سمجھ نہیں آئی تھی کیا؟” وہ مکمل غصے میں بیٹھا تھا۔
“کیا ہو گیا ہے ناک کان سے دھواں کیوں نکل رہا ہے؟عام سی بات کی ہے۔ تو نہیں میری بہن کے بارے میں کچھ بھی بول جاتا؟ اتنا سیریس لینے والی کیا بات ہے اس میں” اس نے تکیہ واپس اسی کو مارتے ہوئے کہا۔
“میری بہن اور تیری بہن میں بہت فرق ہے بھائی۔ اچھلتی نہیں پھرتی وہ فجر کی طرح۔ ” وہ اسی غصے سے بولا ۔
“کیا ہو گیا ہے اتنا شاؤٹ کیوں کر رہے ہو تم دونوں؟” حبل باہر آیا تو ان دونوں کو آمنے سامنے بیٹھے تکیہ اچھالتے پا کر بولا۔
“غنویٰ کےبارے میں کچھ بھی فضول بولتا ہے یہ” جبل نے سجاول کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“بیٹا نئی نئی بہن ہے نا اسی لیے اتنا پوزیسو ہو رہا ہے۔ کچھ دن میں ہی تارے دکھائے گی تب لگ پتہ جائے گا۔” سجاول مذاق بناتے ہوئے بولا۔
“تُو بھی ادھر ہی ہے اور ہم بھی اادھر ہیں سجاول زمان۔ یہ بات کسی اور وقت پہ اٹھا رکھ” اب کی بار جبل کی بجائے حبل نے بہت تحمل سے بات کرتے ہوئے گویا ایک جنگ کو روکا تھا ۔ جبل ہنہ کہہ کر منہ موڑ گیا تھا جبکہ سجاول بیڈ سے اٹھا اور تکیہ بیڈ پر زور سے پھینک کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جاتے جاتے وہ دروازہ بہت زور سے بند کر کے گیا تھا۔
“یہ اگر ایک بھی بار اور بولا اسے جان سے مار دوں گا میں۔ ہزارلڑکیاں دیکھی ہیں ہم نے۔ ایک نظر میں جان جاتے ہیں” جبل نے وہی تکیہ جو سجاول پھینک کے گیا تھا اٹھایا اور زور سے دروازے پر مارا تھا۔ دور سے جاتا ہوا تکیہ ایک دھمک ساتھ دروازے پہ لگا تھا۔
“دماغ خراب ہوا ہے اس کا آج کل۔ اور ہی ہواؤں میں ہے۔ تو فکر نہ کر بیٹا تجھے زہرہ بی بہت اچھی لگام ڈالیں گی” یہ حبل تھا جو دروازے کی طرف گیا تکیہ اٹھایا اور واپس جبل کی طرف اچھال کر باہر نکل گیا تھا۔ جبکہ جبل نے وہ تکیہ کیچ کیا اور بیڈ پر اوندھا لیٹ کر تکیہ سر پر رکھا اور آنکھیں موندھ لیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شام گہری ہو چکی تھی جب وہ گھر لوٹے تھے۔ محمد اکرم نے رکشہ احاطے مین لگایا اور بیٹی کے ساتھ گھر کی طرف ہولیے۔
ان کے دروازے پر اس وقت کوئی کھڑا تھا۔ وہ تھوڑا آگے چلتے ہوئے اسکی طرف چلے گئے جبکہ عبادت نے دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی۔ اندرجا کر اس نے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور آنے والے مہمان کے لیے چائے کا انتظام کرنے لگی۔
کیتلی میں تھوڑا سا پانی لے کر اس نے پتی ڈالی اور ابلنے تک خود کمرے میں چلی گئی۔ اپنی چادر اتار کر اس نے کمرے میں موجود چارپائیوں پر بستر درست کیا کہ شام کا وقت تھا اور ابا تھکے ہوئے تھے۔
“عبادت پتر! چودھری صاحب آئے ہیں چائے گاڑھی بنانا ۔ وہ جو تو بسکُٹ بنا لیتی ہوتی ہے نا وہ اگر ہیں تو وہ بھی ساتھ رکھ دینا۔ کمیٹی کی بات کرنے آئے ہیں” انہوں نے بہت جوش سے اس کو بتاتے ہوئے کہا اور واپس ہو لیے۔ وہ بھی کچن کی طرف چلی آئی تھی ۔
اس کی آنکھیں کمیٹی کا نام سن کے ہی چمکنے لگی تھیں ۔ کیا کیا لینا ہے سبھی کی لسٹ دماغ میں بننے لگی۔ ابا کا رکشہ پہلے نمبر پر آتا تھا۔ باقی سب کی باری بعد کی۔
چائے ابلنے تک اس نے بسکٹ پلیٹ میں ترتیب سے سجائے اور ساتھ لائی ہوئی مونگ پھلی بھی ایک پلیٹ میں ڈال دی۔
ٹرے اٹھا کر وہ بیٹھک کی جانب چلی گئی۔ اندر داخل ہوئی تو ابا بہت خوش نظر آئے۔ مگر کمرے میں موجود نفوس پر نظر ڈالتے ہوئےدل بلیوں اچھلنے لگا ۔
دو چارپائیوں کے درمیان میں ایک میز رکھا گیا تھا جس پر ہلکے سرمئی رنگ کا کپڑا بچھا تھا۔ درمیان میں ایک گلدان رکھا گیا تھا۔ “السلام علیکم چاچا جی” عبادت نے ٹرے اس میز پر رکھی اور سر ان کے سامنے کیا جس پر انہوں نے بہت شفقت سے پیار دیا تھا۔
“کیسا ہے میرا پتر؟” لہجے میں مٹھاس محسوس کی جاے والی تھی۔
“آپ کی دعائیں ہیں ” اس نے کہا اور ابا کے ساتھ جا کر ٹک گئی۔
“سنا ہے آج ہمارا پتر داخلہ دینے گیا تھا” انہوں نے بہت دلچسپی سے اس سوال کیا۔
“جی چاچا جی۔ سوچا فارغ وقت میں کچھ پڑھائی بھی کرلوں گی ” وہ آہستہ آواز میں ان کے سوالوں کے جوابات دے رہی تھی جب کہ نظریں سامنے پڑے گلدان پر جمی تھیں۔
“لو دیکھو۔ ایک ہماری فجر ہے جو کہتی ہے فارغ وقت نہیں ہوتا اور ایک ہماری عبادت ہے کہ اتنا کام کر کے بھی فارغ وقت مل جاتا ہے” وہ ہنستے ہوئے گویا ہوئے تو اس نے مسکرا کر سر اٹھایا تھا۔ نظر کمبخت بھٹک کر اس طرف گئی جہاں وہ حیدر زمان صاحب کے ساتھ جڑا بیٹھا اسے شرارتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اس نے ایک گھوری ے نوازا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
“کہاں جا رہی ہے ہماری شیرنی؟” حیدر زمان اسکے یوں اچانک اٹھنے پر بولے۔
“وہ چولہے پر چائے رکھی ہوئی ہے یاد ہی نہیں رہا بند کرنا۔ میں آتی ہوں ” اس نے کہا اور جلدی سے باہر نکل گئی۔
کومیل اب منہ بنائے وہاں بیٹھا محمد اکرم اور حیدر زمان کی گفتگو سن رہا تھا ۔ اسے اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں تھی سو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
“ہاں اب تو کدھر پتر؟” حیدر زمان اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔ آنکھ شیر کی تھی اور لہجہ شیرینی۔
“سجاول بھایا کا میسج آیا ہے کہ آجاؤ سب بیٹھے مووی دیکھنے لگے ہیں۔ آپ بعد میں آجانا میں چلتا ہوں ” اس نے بہانہ بنایا۔
ظاہر ہے اندر تو جا نہیں سکتا تھا کہ اخلاقیات کے بھی خلاف تھا اور عشق کے آداب کے بھی۔
“اچھا اچھا جا ۔ ” انہوں نے جیسے اس کی جان خلاصی کی۔ وہ جلدی سے باہر نکلنے لگا جب وہ بولے” اچھا سن!” ان کی آواز پیچھے سے آئی تھی سو وہ ڈرتے ڈرتے مُڑا ۔
“جی ابا؟” آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں جیسے جان ہی قبض ہونے والی ہو۔
“زہرہ بی کے لیے یہ بسکٹ لیتا جا ان کو عبادت کے ہاتھ کے پسند ہیں ” انہوں نے کہا اور پلیٹ اٹھا کر اس کی طرف بڑھائی۔ اس نے بھی یوں تھامی جیسے متاعِ حیات ہو۔
“میں صبح عبادت پتر کو بھیجوں گا آج رانی بھی آئی تھی ان کا پیغام لے کر ۔ بس وقت ہی بہت ہو گیا آتے آتے ” کومیل نے بس اتنی بات سنی اور باہر نکل گیا تھا۔
اس کے لیے تو گویا عید کا دن تھا کہ آج دو بار دیدارِیار ہوا تھا اور اگلے دن کی بھی نوید سنائی گئی تھی۔ بڑا مگن سا وہ بڑی حویلی کی طرف چل دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“سنو !”
وہ رات کے کھانے کے بعد بہت اطمینان سے اجر کے کمرے میں بیٹھی آج سارے دن کی کاروائی سوچ رہی تھی ۔ سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے ۔ اجرکو آج منال کے ساتھ شفٹ کیا گیا تھا کہ ایک کو جاگ کے پڑھنا ہوتا تھا اور ایک کو موبائل پر ٹک ٹک کرنا ہوتا تھا ۔ وہ ایک ساتھ رہ سکتی تھیں۔ فجر اور غنویٰ اس وقت کچن میں کافی بنا رہی تھیں۔ آج غنویٰ نے اپنے ہاتھ کی کافی پلانے کا وعدہ کیا تھا سو اسی لیے فجر اسے ساتھ لیے کچن میں گھس گئی تھی۔ جبکہ وہ اس وقت اکیلی کمرے میں بیٹھی ہاتھ کی پشت رگڑ رگڑ کر نادیدہ میل اتارنے کی سعی کر رہی تھی جب اس کے کبھی نہ بولنے والا موبائل بول ہی پڑا تھا۔ اس نے دیکھا وہاں حبل کا میسج آیا ہوا تھا۔ دل ایک دم دھڑکنا بھول گیا تھا۔ ڈرتے ڈرتےاس نےمیسج ٹائپ کیا۔
“جی؟”
“بہت خاص ہو تم میرے لیے!” ایک دل والے ایموجی کے ساتھ اس نے یہ میسج بھیجا تھا۔ نمل ایک دم سے بلش کر گئی۔ اسے سمجھ نہ آیا کیا رپلائی کرے۔
“ہمم۔۔۔” بلآخر اس نے یہ لکھا اور بھیج دیا۔
اب اسے اگے میسج کا انتظار تھا۔
“مگر جب سے تم بدلی ہو نا!” میسج آ چکا تھا۔
“جی؟” نمل نے فوراً رپلائی بھیجا۔
“کتے چھوڑنے کا دل کرتا ہے تم پہ” اس نے بہت ساری غصے والی ایموجی بنا کر یہ میسج بھیجا تھا۔
اسے شدید ترین ہتک کا احساس ہوا۔ فوراً سے پیشتر اس نے حبل کا نمبر نکالا اور اسے بلاک کر دیا۔
چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
وہ بیٹھی یہی باتیں سوچ رہی تھی جب ایک اور میسج آیا۔ اب میسج جبل کے موبائل سے آیا تھا۔ چونکہ اس کا نمبر بلاک ہو چکا تھا اور وہ بے شک جانتا تھا کہ وہ یوں ہی کرے گی تبھی اس نے اب جبل کے نمبر سے اسے میسج بھیجا تھا۔
“یہ بدلہ اس بدلے کا بدلہ ہے جو میں نے لیا ؟”
کیا عجیب میسج تھا۔
اس نے غصےسے موبائل آف کیا اور کمبل سر تک تان کر لیٹ گئی۔ جذبات کی دھجیاں اڑ چکی تھیں۔
کتنا میسنا اور کمینا انسان ہے میسج کرنے پر اکسایا مجھے۔ اللہ کرے گنجے ہو جاؤ تم۔
پر نہیں میری کیا عزت رہ جائیگی کہ گنجے کی بیوی ہے۔
اللہ کرے پیٹ خراب ہوجائے شدید قسم کا اور وہ بھی تب جب واش روم پاس پاس بھی کہیں نہ ملے اسے۔
یہ اس کے خیال میں سب سے مؤثر بددعا تھی۔
اسے دروازے کے باہر شور سنائی دیا تو فوراًسے خود کو نارمل کرتی اٹھ بیٹھی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...