ناشتے کا دور چل رہا تھا۔ سب مؤدب سے بیٹھے تھے ۔ لڑکیاں بھاگ بھاگ کر ناشتہ لاتیں اور ان کے سامنے رکھتی جاتی تھیں۔ بڑی بہو ان کی بائیں طرف کی کرسی پر براجمان تھیں اوربڑ ے بیٹے کو انہوں نے اپنے دائیں طرف بٹھایا ہوا تھا۔ باقی بہوویں بھی اسی طرح ترتیب سے ان کی بائیں طرف جبکہ بیٹے دائیں طرف بیٹھے تھے۔ سب سے آخر میں ایک طرف جبل بیٹھا تھا جبکہ میز کی دوسری طرف حبل براجمان تھا اور مسلسل آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کیے جا رہے تھے۔ جبل کے ساتھ والی کرسی پر منال بیٹھی تھی اور اس کے چہرے سے “نولفٹ” کا اشارہ صاف پڑھا جا سکتا تھا۔
نمل کچن میں پراٹھے بنانےمیں مصروف تھی جبکہ فجر وہی پراٹھے سرو کرنے میں مصروف تھی۔ اجرآملیٹ اور چائے بنانے اور سرو کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ ہر طرف ایک پھرتی سی تھی ۔
وہ کچن کے باہر ڈائیننگ ٹیبل سے ذرا دور بیٹھی ہمیشہ کی طرح اطراف کا جائزہ لے رہی تھی جب اچانک سے اسے زہرہ بی کی آواز سنائی دی۔
“میں نے تم سے رخسانہ کی بیٹی کے رشتے کا کہا تھا فخر زمان۔” ان کی آواز میں گرج سی تھی۔ جیسے وہ ناراض ہوں کسی بات پر۔
“جی زہرہ بی کہا تھا” فخر زمان تو یوں ہوئے گویا ابھی منظر سے غائب ہوجائیں گے۔
“تم میری بات سننے ، سمجھنے اور عمل کرنے کے درمیان کا عرصہ فراموش کرتے جا رہے ہوفخر زمان” وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ چکی تھیں۔ اب یقینی طورپر اپنے بیٹے کی کلاس لینے والی تھیں۔ سب کی نظریں مزید جھکی تھیں۔ بس ایک وہ تھی جو سب کو چپکے چپکے نوٹ کرنے میں مصروف تھی۔
“زہرہ بی آج کل لڑکے والے بہت ڈیمانڈز کرتے ہیں اور اپنی رخسانہ کی بچی تو پڑھی بھی نہیں ہوئی اتنا” وہ منمنائے۔
“مجھے مت بتاؤ کہ کیا ڈیمانڈز کرتے ہیں۔ مجھے اس بچی کوگھر والی کرنا ہے ۔ اس کی ماں سے وعدہ کیا ہوا ہے میں نےاور میری زبان کا وعدہ تم سب بہت اچھی طرح جانتے ہو” اب سامنے پڑی پلیٹ بھی سرکا دی تھی۔ غنویٰ کی نگاہ ان کے پرہیزی کھانے کی طرف اٹھی۔
ان کی پلیٹ میں ایک طرف زیتون کا چار رکھا تھا جبکہ ایک طرف خشک روٹی تھی ۔ پلیٹ کے ساتھ ہی ان کی کٹوری میں ایک پھیکا سا شوربہ پڑا تھا۔ اس کا دل عجیب سا ہوا۔
انسان کا مقام جو بھی ہو مگر بڑھاپا اسے ایک دم سے پاتال میں لے جاتا ہے۔ کیا رہ جاتا ہے انسان۔ زندگی کا ہر ذائقہ پھیکا پڑ جاتا ہے ۔
“میں دو دن کے بعد تم سے سب تفصیلات لوں گی۔ مجھے ایک اچھا رشتہ چاہیئےاس بچی کے لیے ۔ کمی نہیں آج کل کے زمانے میں بھی اچھے رشتوں کی ۔ اور غنویٰ کہاں ہے ؟” وہ اچانک سے بولی تھیں ۔ وہ جو چھپی بیٹھی تھی ایک دم سے اپنا نام سن کر ہڑبڑا گئی۔
کشور بیگم نے فجر کو اشارہ کیا تو اس نے ان کی بیک پر چھپی ہوئی غنویٰ کو اشارہ کیا کہ خود آ کر اپنے درشن کرواؤ۔
وہ مرتی کیا نہ کرتی اٹھی اور سر پر شال درست کرتی ان تک آئی ۔ قدسیہ بیگم اور زہرہ بی کے درمیان میں موجود جگہ میں کھڑی ہو گئی۔
“جی” زہرہ بی بولنے کی اس میں ہمت نہ تھی کہ رعب ہی کچھ ایسا تھا۔
“کڑئیے ناشتہ نہیں کرنا؟” ( لڑکی ناشتہ نہیں کرنا کیا؟)
“جی کرنا ہے ” وہ آہستہ سے بولی تو جبل اور حبل نے جھٹکے سے سر اٹھایا ۔ پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر زہرہ بی کے پاس کھڑی اس لڑکی کو ۔ اور پھر سے ایک نظر کا تبادلہ کیا “یہ اضافی مخلوق کب آئی ہمارے درمیان۔ ”
“کرو پھر آؤ۔ قدسیہ بچی کو بھی کھانا دو” زہرہ بی نے اسے بیٹھنے کا شارہ کیا۔
“زہرہ بی میں فجر اور نمل کے ساتھ ناشتہ کرونگی ۔ آپ سب کھائیں ” پتہ نہیں کس طرح یہ بات اس کے منہ سے نکلی تھی وہ خود حیران تھی۔
زہرہ بی مسکرائیں ۔ اس کی آواز میں ان کو وہی صفائی نظر آئی تھی جو وہ اپنی پوتیوں میں چاہتی تھیں۔
“ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹا اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھا لینا۔ میں تو ان سب میں باقاعدہ تعارف کے لیے بٹھانا چاہتی تھی تمہیں” ان کی مسکراہٹ انوکھی سی تھی کہ فخر زمان الجھ کر اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگے۔
قدسیہ بیگم نے مسکرا کر “سب ٹھیک ہے” کا اشارہ دیا۔
“حیدر زمان!” زہرہ بی نے چھوٹے بیٹے کو الرٹ کیا۔
“جی زہرہ بی” بیٹے نے بھی تابعداری نبھائی۔
“یہ کشور کی بیٹی ہے ” ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
“جی زہرہ بی” وہ ان کا اشارہ سمجھ چکے تھے۔
“شیر زمان!” انہوں نے منجھلے بیٹے کو دیکھا۔
“جی زہرہ بی” بیٹا مؤدب ہوا۔
“یہ تمہاری بیٹی ہے ” ان کا لہجہ مٹھاس سے پُر ہوا۔
“بے شک زہرہ بی” بیٹا بھی لہجے میں بیٹیوں کی مٹھاس لیے بولا۔
“فخر زمان!” اب کا لمحہ سب سے کٹھن لمحہ تھا ۔ یہ سب ہی جانتے تھے کہ وہ کیا کہنے والی ہیں ۔ جبل اور حبل کو جہاں ایک بہن کے اچانک مل جانے کی خوشی تھی وہیں ایک ذات کے مٹی ہونے کا خدشہ ستانے لگا۔
“جی زہرہ بی” فخر زمان بمشکل بولے تھےکہ بیٹے کی فطرت تو ان کے علم میں بہت اچھے سے تھی۔ اور اس کی فطرت سے اس گھر میں کون واقف نہیں تھا۔
“یہ میری پوتی ہے ” وہ لمحہ امر ہو گیا تھا۔
فضا میں بکھر گیا تھا ۔
ہوا کے دوش پے وہاں کوسوں دور بیٹھے سجاول زمان کے دل کو یوں چھو گیا تھا کہ وہ دل پہ ہاتھ رکھے کراہنے لگا کہ آخر اسے اتنی پیاری صبح میں آخر ہو کیا گیا ہے۔
“سر آنکھوں پر زہرہ بی” فخر زمان نے آنکھیں میچتے ہوئے اقرار کیا تھا۔
“نہیں فخر زمان۔ سر آنکھوں پر نہیں۔ میری پوتی کی یہ شان نہیں ہے کہ اسے سر آنکھوں پر رکھا جائے۔ ایک جہان جانتا ہے کہ زہرہ بی کی شان کیا ہے اور اس کی پوتی کی شان کیا ہونی چاہیئے” ان کی آنکھیں تک مسکرا رہی تھیں۔
وہ ابھی بھی خاموشی سے سب کے چہروں کا جائزہ لے رہی تھی۔
“جانتے ہو نا کہ کیا شان ہے؟”
سب خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ زبان تو سب کی جیسے چھن چکی تھی۔
“زہرہ بی کی پوتی کی شان یہ ہے کہ اسے دل میں جگہ دی جائے”
وہ ہونق بنی سب کے منہ تک رہی تھی۔
“اور جبل!آج اپنی جامعہ سے آکر سب بچیوں کو فیصل آباد کہیں گھمانے لے جانا دونوں بھائی” انہون نے جبل کو بھی تاک میں رکھا تھا جو عجیب سی شکلیں بناتا ان کی باتوں کو ہضم کر رہا تھا ۔ ان کی اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر سے بولیں۔
“جبل میں تم سے مخاطب ہوں لڑکے!”آواز میں کڑک تھی۔
“جی زہرہ بی لے جائیں گے” منہ تک کڑوا ہوا تھا۔ سر اٹھا کر سامنے پلیٹ میں پراٹھا رکھتی فجر کی طرف دیکھا۔ وہ اسے الگ ہی دنیا کی مخلوق لگی جو ایسی صورتِ حال میں بھی مسکرا رہی تھی۔ منہ مزید کڑوا ہونے لگا۔
“اور کومیل کو بھی لے لینا وہاں سے۔ آتے ہوئے سب اکٹھے گھر واپس آنا۔ یہاں کام سب سنبھال لیں گے ” یعنی اب کومیل کی جان کو بھی خطرہ تھا۔ فجر ٹھیک کہہ رہی تھی کہ زہرہ بی اپنے پوتوں کو انعام سے نواز رہی تھیں۔ ایک کا تو فیصلہ ہو چکا تھا باقی اپنے بارے میں ہونے والے فیصلے سے آگاہ تھے۔
“قدسیہ !بچی کو کچھ پیسے بھی پکڑا دینا۔ اپنے لیے کچھ خریداری کر لائے ۔ سردیاں آرہی ہیں گرم کپڑوں کی ضرورت پڑے گی۔” انہوں نے بہو کو بھی ساتھ شامل کیا جو ان کے کسی حکم کا انتظار کر رہی تھیں۔
“جیسا آپ کہیں زہرہ بی” وہ مسکرائی تھیں۔ جو بھی فیصلہ ان کی ساس نے سنایا تھا ان کے لیے سو فیصد اچھا ہی تھا کہ ان کی جو اولاد ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی اب زہرہ بی ہی اسے سدھا ر سکتی تھیں۔
مگر وہ بھول رہی تھیں کہ سدھارنے کے مراحل تو بہت پہلے سے گزر چکے تھے۔ ان کو اور ان کے خاندان کو کسی نے بہت پہلے سے ری پلیس کر دیا تھا۔ اب قسمت آگے جانے کیا کرنے والی تھی۔
جبل اور حبل کی سوچیں اس وقت کچھ اسی قسم کی تھیں۔ وہ بھی یہ کب جانتے تھے کہ قسمت ان کے ساتھ کیا کرنے والی تھی۔
اجر،فجر اور نمل ، منال کے خیال میں جو بھی فیصلہ ہوا تھا وہ ان کے حق میں ہی تھا کہ یہ پیاری سی لڑکی ان کے پاس رہنے والی تھی ۔ ان کا سب سے پیارا بھائی اس اچھی لڑکی کا نگہبان بننے والا تھا۔ مگر وہ بھی کہاں جانتی تھیں کہ ہر کہانی کے نگہبان ایک سے ہی نہیں ہوتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“یہ ہے کون ؟” جبل نے زہرہ بی اور ان کے ساتھ ہی اٹھتے اپنے باقی بڑوں کو ایک نظر دیکھا اور پاس بیٹھی منال کے کان میں سرگوشی کی۔
“ہاہ بھائی! میری تو حسرت رہ جائے گی یہی کہ کسی سوال کا جواب آپ کا خود بھی معلوم ہو”تیل سے لتھڑا دایاں ہاتھ ماتھے پر مارتے ہوئے منال بولی۔
“ڈرامے نہ کر بہن جواب دے” حبل نے چڑ کر کہا۔
“ابھی بتایا تو ہے زہرہ بی نے کہ آپ کی بہن ہے” اس کو بھی جیسے مرچی لگی۔ تنک کر جواب دیا۔
“او ہیلو ہماری کوئی بہن نہیں ہے یہ بات نادرا والے بھی پروف کر سکتے ہیں” جبل نے اس کے پراٹھے سے لقمہ توڑتے ہوئے کہا۔
“پہلی بات کہ اپنے پراٹھے تک محدود رہا کریں۔ ورک آؤٹ کرتے ہیں اس کا مجھے نہ تو کوئی فائدہ ہے نہ ہی نقصان سو میری پلیٹ سے نظریں دور ہی رکھا کریں۔ دوسری بات کہ نادرا کیا اب چاہے فارینزک رپورٹ بھی بنوا لائیں آپ تب بھی غنویٰ آپو آپکی بہن ہی کہلائیں گی۔ یہ زہرہ بی آپ سب کے سامنے کہہ گئی ہیں اور میں ان کے اس فیصلے کو سراہتی ہوں ” منال نے ناک پر اپنی عین درست کی، اپنی پلیٹ اٹھائی اور خود جاکر زہرہ بی کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ جبل اور حبل اس کی اس پھرتی کو غور سے دیکھ رہے تھے کہ ایک دن میں اس کے رنگ ڈھنگ کیسے بدلے ہیں۔ دل الگ خوف کھا رہا تھا کہ کومیل نے پول نہ کھول دیا ہو کیونکہ نہ تو اجر نے ان سے کوئی بات کی تھی نہ ہی ان کو نمل نظر آئی تھی۔ فجر بھی طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور منال کا تو آج جواب ہی الگ تھا۔
اطراف ا جائزہ لیتے ان کی نظر میز کے بائیں طرف بیٹھی اس لڑکی کی طرف گئی جسکے کان میں فجر جانے کیا کیا کہانیاں پھونک رہی تھی۔
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اٹھ کر اس کے اور اپنے درمیان کا فاصلہ کم کیا۔
“السلام علیکم!” ان سے مؤدب تو اس وقت کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
“وعلیکم السلام!” غنویٰ نے سٹپٹا کر جواب دیا۔
(ہے تو بھولی سی۔ آرام سے ہٹ جائے گی راستے سے)دونوں نے سوچا۔
“میں جبل ہوں ” نیوی بلیو ہائی نیک اور لائٹ بلیو پینٹ میں ملبوس جبل نے اپنا تعارف کروایا اور مسکراتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
اس کے ماتھے پرایک بھی لکیر نہ تھی۔ ہاں البتہ شہد آگیں آنکھوں میں کچھ جلا تھا کہ جبل نے ہاتھ پہلو میں گرا لیا تھا۔ اور سر شرم سے جھکا ہوا۔ سمجھ نہ آتا تھا کہ اگلی بات کیسے کرے گا۔
“میں حبل ہوں۔ اس سے آدھا گھنٹہ چھوٹا ہوں ” حبل کے لیے جبل والی نصیحت بہت تھی۔
“مگر آپ سے بڑا ہوں۔ ” حبل نے پھر سے کہا۔
وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے ان کا تعارف سن رہی تھی۔
نہ محسوس کی جانے والی مسکراہٹ۔
“تمکنت”
یہی لفظ ذہن میں آیا تھا ان دونوں کے۔
ایک لڑکی کا غیراور نامحرم لڑکوں سے ملنے کا اصول۔
ہاں یہی اصول تو بتایا ہے اسلام نے۔
دل اب جانے کیوں دھیما سا ہو چلا تھا۔ کیا کیا سوچ کر نہیں بیٹھے تھے تب سے۔ ہنسی آرہی تھی خود پر۔
“جبل بھائی” منال نے جبل کا کندھا ہلایا۔
“ہاں؟” وہ ہونق سے ہوا۔ فجر اسی کو دیکھ رہی تھی قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
“میں نے جانا ہے کالج۔ دیر ہو رہی ہے۔ چلنا نہیں کیا آج؟”
“اوہ آہو یاد ہی نہیں۔ چلو حبل نکلیں۔ اچھا آپی اجّی ! آج فائنل پریزینٹیشن ہے دعا کیجیے گا یار” اس نے ایک دم سے ہوش میں آتے ہی جلدی مچائی۔
“آپی آج سجاول بھی آرہا ہے شام میں کچھ اچھا اہتمام کر لیجیے گا۔ آج تھکا ہوا آئے گا تو باہر جانے کو رہنے دیتے ہیں کل چلے چلیں گےسب مل کر۔ آپ پلیز زہرہ بی کو ہینڈل کر لینا” حبل نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
“اچھا پیاری لڑکی! بھائیوں کو دعاؤں میں رخصت کرو ۔ اور کچھ اچھا کھانے کا موڈ ہو تو آپی سے کہہ کر میسج کروا دینا ۔ حاضر ہو جائیگا” جبل نے جاتے ہوئے غنویٰ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گیا۔
“آج بڑے گیانی بابا بن رہے ہیں ۔ میں کچھ مانگ لوں تو بھوکی ندیدی کہنا شروع ہو جاتے ہیں ” منال نے ان کے پیچھے دوڑ لگاتے ہوئے کہا۔
“ہاں ابھی نئی نئی بہن بنی ہے نا اسی لیے۔ دو تین دن بعد دیکھنا دونوں ایک ساتھ بیٹھ کرچغلیاں کیا کرو گی اپنے ‘بھائیوں’ کی” نمل نے پیچھے سے طنز کا تیر پھینکا تھا۔حبل کو لگا جیسے۔۔۔
“ہاں جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔ بس کر اب ۔ تب سے تو یاد نہیں تھا کہ جا کر اسے دیکھ بھی آتا اور اب دیکھ کیسے پھدک پھدک کر پیچھے دیکھ رہا ہے” جبل نے اس کے سر کے پیچھےزور کا تھپڑ لگایا اور اسے آگے کی طرف دھکیلا۔ وہ بھی ہنستا ہوا باہر کی جانب چل دیا۔
“ویسے ایک بات ہےلڑکی۔ کہ ہمارے گھر کے یہ دو افراد ایسے ہیں جنہیں کسی کی شرم نہیں ہے بس گھسے چلے آتے ہیں۔ مگر تم واحد بندی ہو جس کے سامنے اتنی تمیز سے بیٹھے رہے ہیں” ان کے جاتے ہی وہ سب ناشتہ کرنے بیٹھیں تو ان کا ذکر کرنا اجر نے بھی فرض جانا۔
اب بہت دیر تک ان کے درمیان کا موضوع یہی رہنا تھا جبکہ دل ہی دل میں وہ سوچ رہی تھیں کہ زہرہ بی کی باتوں کا اصل مقصد اس تک کیسے پہنچایا جائے جسے ان باتوں کی اندرونی پرت کا معلوم بھی نہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ بہت دیر سے اس کا انتظار کر رہے تھے مگر عبادت تھی کہ کمرے میں گھسی تو نکل کے ہی نہیں دے رہی تھی۔ وہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتے اور پھر ایک نگاہ کمرے کے دروازے کی جانب ٹکا دیتے۔
وہ اس وقت صحن میں بیٹھے تھے ۔ صحن کیا تھا چھوٹا سا حصہ جس میں ایک طرف چارپائی رکھی تھی اور ایک طرف چھوٹے چھوٹے گملے رکھے تھے۔ وہ اس وقت چارپائی پر براجمان تھے اور نظریں وہیں دروازے پر ٹکا رکھی تھیں۔ عبادت پرائیویٹ انٹر کا امتحان دینا چاہتی تھی سو اس لیے اب اسے اپنا داخلہ بھیجنا تھا۔ اسی سلسلے میں وہ اسےلے کر شہر جانے والے تھے ۔ اور اب وہ تھی کہ کمرے میں گئی تو آہی نہیں رہی تھی۔
“آبھی جا عبادت پتر دیر ہو رہی ہے میں نے رکشہ بھی لگانا ہے جا کے” وہ آخر بول ہی پڑے۔
“آگئی ابابس دو منٹ” اندر سے مصروف سی آواز آئی۔ وہ اب واقعتاً اکتا گئے تھے سو اٹھ کے کمرے کی جانب بڑھے۔
“کیا ڈھونڈ رہی ہے اس ٹرنک میں؟؟” اسے ایک ٹرنک میں گھسی دیکھ کر ہنستے ہوئے پوچھا۔
“ابا تین سو روپے تھے میرے ایک کتاب میں رکھے تھے۔ اب تو کتاب بھی نہیں مل رہی” وہ افسردہ سی گویا ہوئی۔
“کوئی گل نئیں پتر آکے لب لئیں ہن ٹُر پے سورج تپ گیا تے کم کرنا اوکھا ہو جاوے گا”
(کوئی بات نہیں بیٹاآکے ڈھونڈ لینا اب چل پڑو ۔ دھوپ تیز ہوگئی تو کام کرنا مشکل ہو جائیگا)
وہ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
“ابا سردیوں کا سورج ہے کہاں اتنا تپے گا۔ میں بس ایک منٹ میں ڈھونڈ لوں گی”
“پتر ابھی سردیاں نوی(نئی) ہیں ابھی سورج تپا ہی ہوتا ہے ۔چل شاباش اٹھ جا بعد میں پھر جمعہ کا ٹیم (ٹائم)بھی ہو جاناہے ” وہ کہتے ہوئے باہر چل دیے تو اسے بھی مجبوراً ٹرنک بند کرنا پڑا۔
“ابا مجھے پھر آج شام کو ہی لے لینا آپ۔ میں وہاں جمعہ بازار کا بھی ایک چکر لگا آؤں گی” اس نے خود کو کالی چادر میں ڈھانپتے ہوئے کہا۔
“اچھا میں بھی پھر تیرے ساتھ ہی رہتا ہوں آج۔ کل لگا لیں گے رکشہ” وہ اس کے آگے آگے چلتے گھر کا دروازہ عبور کر گئے۔
“نہیں ابا میں رہنے دیں پھر آج۔ میں اگلے جمعے چلی جاؤں گی صفیہ چاچی کی بیٹیوں کے ساتھ ۔ آپ آج رکشہ لگاؤ” اس نے کہا اور دروازے سے قدم باہر رکھ کر دروازے کو تالا لگانے لگی۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی جب بڑی حویلی کی طرف سے ایک لڑکی بھاگتی ہوئی آئی اور اس کا راستہ روکا۔
“عبادت کتھے چلّی ؟”
(عبادت کہاں جا رہی ہو؟)
پھولی ہوئی سانس سے وہ لڑکی بولی۔
“شہر جا رہی ہوں رانی۔ داخلہ بھیجنا تھا تجھے بتایا تھا نا میں نے” چادر کو ناک پر ٹھیک کرتی ہوئی وہ بولی۔
“اچھا خیریں جا ۔پر وہ زہرہ بی بلا رہی تھیں ان سے کیا کہوں؟” سانس اب بھی پھولی ہوئی تھی۔
“کتنی بار کہا ہے تجھے کہ اتنی بڑی ہو گئی ہے گلی میں بھاگتی نہ آیا کر اچھا نہیں لگتا اور اب دیکھ سانس کیسے چڑھا رکھا ہے” وہ اسے ڈانٹنے لگی۔
“دیکھ عبادت تو بھی گلی میں کھڑی ہو کے نہ علامہ بنا کر سمجھی نا۔ اب بتا کیا کہوں زہرہ بی سے؟” وہ چڑ کر بولی۔
“لو بتا یا تو ہے کہ شہر داخلہ دینے جا رہی ہوں۔ان کو بھی یہی بتانا ہے اور اب اب کو دیر ہو رہی ہے” اس نے ترنت جواب دیا اور آگے قدم بڑھا دیے۔
“کومیل پا جی بھی شہر ہی ہیں” رانی نے جاتے جاتے اس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ جو قدم آگے بڑھا رہی تھی ایک دم سے ٹھٹھک کر رک گئی۔
“یہ دیکھ ہاتھ جوڑتی ہوں اتنے اونچے خواب نہ دکھایا کر مجھے۔اب جا” اس نےمڑ کے اچانک سے ہاتھ جوڑتے ہوئے اسے کہا تو رانی کِل کِل ہنستی اپنی راہ لے گئی تھی جبکہ وہ جو پہلے ہی قدم ہولے سے اٹھاتی تھی ا ب تو ان قدموں میں جیسے تھکن اتر آئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭