وہ اسے لیے کمرے میں داخل ہوئی تو کمرہ انتہائی بھیانک منظر پیش کر رہا تھا۔ فجر نے اپنی ساری توانائی کمرے کی چیزیں تہس نہس کرنے میں صرف کر دی تھی اور اب اجر کا پارہ ہائی ہو چکا تھا۔ پیچھے کھڑی مہمان کا خیال نہ ہو تا تو اب تک فجر کو اس کے بالوں سے محروم کر چکی ہوتی۔ دانت پیستی وہ مڑی اور زبردستی کی مسکراہٹ سامنے کھڑی لڑکی کی طرف اچھالی۔
“دراصل ہم تفصیلی صفائی کرنے والے تھے اسی لیے اتنا سامان بکھرا پڑا ہے۔ تم آؤ بیٹھو۔” اجر نے بات کرنے کے دوران اس کے لیے ایک کاؤچ خالی کیا تھا جس پر ا س کی چھوٹی فتنی نے کتابیں بکھیری ہوئی تھیں۔
اس نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔
“یوں کرو تم فریش ہولو تب تک میں باقی لڑکیوں کو لے کر آتی ہوں ” اجر نے خجالت مٹانے کو اسے فی الحال منظر سے غائب کرنا چاہا۔ وہ بھی فوراً اٹھی اور بیگ سے اپنا سوٹ نکال کر ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگی جب اجر نے اسے باتھ روم تک رہنمائی دی ۔
باتھ روم جا کر اسے حقیقی طور پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اب تک جن باتھ رومز میں جاتی رہی تھی وہ بہت ہی عام سے تھے۔ نہ تو ان میں شاور تھے اور نہ ہی ان میں اس قسم کی ٹوٹیاں تھیں جیسی اس باتھ روم کی تھیں۔ ان باتھ رومز میں ایک ٹب پڑا ہوتا تھا جس میں ایک مگ رکھا گیا ہوتا تھا۔ جبکہ یہاں ایک تو شاور فکس تھا ۔ دوسری اور بہت ہی گھٹیا بات یہ تھی کہ شاور کے ساتھ لیور لگایا گیا تھا جسے دائیں بائیں یا اوپر نیچے کرکے پانی کی مقدار کو زیادہ کم اور گرم ٹھنڈا کرنے کا حساب رکھا جاتا تھا ۔ ایک عجیب ہی قسم کا نل اس شاور کے ساتھ لگایا گیا تھا جس کی شکل اسے اس وقت آئس ایج اینیمیٹڈ سیریز کے سکریٹ(scrat) جیسی ہی لگی تھی۔ اس نل کا مقصد اسے سمجھ نہ آسکا تھا اور نہ ہی اس نے سمجھنے کا تردد کیا تھا۔
شاور کے اس لیور کو کنٹرول کرنا وہ کسی حد تک سمجھ چکی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے خوب دل لگا کر میل مٹی سے چھٹکارا حاصل کیا تھا۔ جانے کتنے عرصے بعد آج وہ ٹھیک سے نہا پائی تھی کہ پہلے تو جب بھی وہ اپنے کپڑے پکڑے باتھ روم میں جاتی تھی باہر سے آوازیں دی جاتی تھیں کہ بہت کام باقی ہے سو جلدی سے باہر آکر درشن کروائے جائیں۔
نہا کر وہ اپنے دوپٹے ہی سے بال خشک کرتی جب باہر آئی تو کمرے کی حالت پہلے سے کافی بہتر تھی مگر اس وقت کمرہ خالی تھا ۔ سو اس نے ایک صوفہ پر بیٹھ کر سامنے پڑے کاؤچ پر اپنا دوپٹہ پھیلایا اور انگلیوں سے بال سلجھانے لگی۔ بال سلجھاتے ہوئے عادت کے مطابق وہ اطراف کا بھی جائزہ لے رہی تھی۔
کمرہ بہت بڑا تو نہ تھا لیکن اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا۔ پورے کمرے میں اسکن کلر کا پینٹ کیا گیا تھاجبکہ چھت کا رنگ گلابی تھا۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے دو بیڈ نظر آتےتھے ۔ ان کی ترتیب بہت مہارت سے سیٹ کی گئی تھی۔ دونوں بیڈز کے درمیان ایک چھوٹے چھوٹے ریکس والی الماری بنائی گئی تھی۔ اور دونوں بیڈز کی پچھلی دیوار پر ایک سپرنگ لیمپ لگایا گیا تھا۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ بیڈ پر بیٹھ کر بھی مطالعہ کیا جا سکتا تھا۔ دائیں طرف والے بیڈ کی دائیں طرف ایک کھڑکی تھی جس پر اس وقت ہلکے سکن کلر کے پردے پڑے تھے۔ کھڑکی کے ساتھ ایک الماری بنائی گئی تھی۔ بائیں طرف والے بیڈ کی بائیں طرف والی دیوار کے ساتھ ایک اسٹڈی ٹیبل بنایا گیا تھا۔ اسی دیوار پر دو شیلف بنائے گئے تھے۔ ہر شیلف پر کچھ کتابیں رکھی گئی تھیں۔ ان کے نیچے ایک کیلینڈر لگایا گیا تھا۔ جبکہ ارد گرد والی دیوار پر کچھ فریم شدہ تصاویر لگائی گئی تھیں ۔ کمرے کے بالکل درمیان میں ایک چوکور قالین بچھاتھا جس پر دو کاؤچ پڑے تھے جن میں سے ایک پر اس نے اپنا دوپٹہ پھیلایا تھا اور ایک گول مگر چھوٹا سا صوفہ پڑا تھا جس پر وہ اس وقت براجمان تھی۔ ایک کونے میں وہ باتھ روم تھا جہاں سے وہ ابھی آئی تھی۔ جبکہ ایک دیوار وہ تھی جس پر ایک آدمی کے قد جتنا شیشہ لگا تھا۔ اور اس شیشے کے ارد گرد کچھ اسٹکی نوٹس چسپاں تھے۔ چھت پر بالکل درمیان میں ایک چھوٹا سافانوس لگا تھا جو اس وقت روشن تھا اور سنہری شعاعیں اس فانوس پر لگی چھوٹی چھوٹی تتلیوں سے نکلتی ہوئی چھت کو بہت پیارا سا تاثر دے رہی تھیں۔
وہ پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی جب اسے دروازے کے باہر سے شور سنائی دیا۔ اس نے جلدی سے دوپٹہ سر پر لیا اور اس شور کی طرف دھیان لگایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کم ازکم بھی دو گھنٹے تو بوریت میں وہ لوگ گزار ہی چکے تھے مگر وہ بندر تھا کہ آ کر نہیں دے رہا تھا۔ اگر انہیں اس سے کام نہ ہوتا تو اب تک اس کی پشتوں کو بھی بھاڑ میں بھیج چکے ہوتے مگر اب ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس کی پشتیں بلا شک و شبہ ان کی اپنی بھی پشتیں تھیں سو ایسا کرنا سرا سر گستاخی کے زمرے میں آتا تھا۔
وہ زرعی یونیورسٹی کا ایک گراؤنڈ تھا جہاں وہ دونوں اس وقت موجود تھے۔ آس پاس سے آتے جاتے لوگ ان کی حالت سے حظ اٹھاتے کیونکہ ان میں سے ایک کی حالت خراب لگتی تھی جب کہ دوسرا کھا جانے کے موڈ میں دکھتا تھا۔
“میں بس دم دینے والا ہوں اسے کہہ آجا میری شکل دیکھ جا” اس نے ہارے ہوئے انداز میں بینچ کی پشت سے کمر ٹکاتے ہوئے سامنے ادھر سے ادھر چکر کاٹنے والے سے کہا۔
“او بکواس نہ کر میں نے ادھر سے رکھ کے مارنی ہے۔ ایک میرا دماغ نہیں کام کر رہا اوپر سے عورتوں والی دہا ئیاں شروع تیری” وہ غصے سے بولا اور اس کے ساتھ بینچ پر آکر ٹک گیا۔
“نہیں تو کہنا کیا چاہ رہا ہے؟ بچی نے ‘مجھے’ چھوڑا ہےاور دماغ ‘تیرا ‘کام نہیں کر رہا؟”
“یہ لنگور جیسا منہ سنبھال کے بات کیا کر ” وہ جیسے ایک دم ہی اچھلا تھا۔
“میں ہر قسم کا مذاق برداشت کر سکتا ہوں مگر یہ لنگور والا مذاق ؟ ہائے دل گیا میرا۔۔۔” اس نے ایک بار پھر سے دہائی دی تو دوسرے نے ناگواری سے اسے دیکھا تھا ۔
“کیا ہے اب؟ روؤں بھی نہ کیا؟” وہ چڑ کر بولا۔
“انہی حرکتوں کی وجہ سے اس نے تجھے چھوڑا ہو گا لکھوا لے مجھ سے”
“ہاں بس اب مجھے لڑکی بول دے ۔ تیرا نام ہی نہیں تو خود بھی پتھر ہی ہے میں جا رہا ہوں اب اور اگر میرے پیچھے آیا تو میں مار لوں گا خود کو” وہ بھی اٹھ کر اس کے پیچھے چل پڑا جانتا تھا کہ پیچھے آنے کا صاف اشارہ دیا گیا ہے۔
وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے جا رہے تھے جب انہیں ‘ اس ‘ کی شکل نظر آئی جسکے انتظار میں وہ یہاں ذلیل ہو رہے تھے۔ وہ بھاگتا ہوا انہی کی طرف آرہا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے ‘ہاں’ میں سر ہلایا اور دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔ وہ اب ان کے قریب پہنچ چکا تھا۔
“قسم لے لیں بھائی کلاس میں تھا” وہ اُڑی ہوئی رنگت کے ساتھ وضاحت دینے لگا۔ اور بس اس وضاحت کی دیر تھی۔ دونوں نے اسے پکڑ کر گھاس پر گرا لیا ۔ لاتوں اور گھونسوں سے جس حد تک پیٹ سکتے تھے پیٹتے رہے۔ مخالف کی ہڈی بھی ڈھیٹ تھی کہ مار بھی کھا رہا تھا مگر ‘کلاس میں تھا سر نہیں آنے دے رہے تھے’ کی رٹ نہیں چھوڑ رہا تھا۔
“حبل بھائی میرا کیا قصور ہے میں نے نہیں بریک اپ کروایا آپکا” اس کی اس لائن نے دھاوا بولتے ایک لڑکے کے ہاتھ روک دیے تھے۔ وہ اب غصے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں دوسرے لڑکے کو بھی کچھ عجیب سا احساس ہوا تو وہ بھی ہاتھ روکے اسے دیکھنے لگا۔ مار کھانے والے نے حیرت سے دونوں کو دیکھا۔
“تو نے میرا بریک اپ نہیں کروایا؟” مار سے پہلے ہاتھ اٹھانے والا بولا۔
“نہیں” مار کھانے والے نے کندھے اچکائے تو وہ دونوں پھر سے اس پر پل پڑے ۔
“بے غیرت آدمی تو نے بریک اپ نہیں کروایا تو تجھےالہام ہوا کہ کوئی لڑکی تھی بھی کبھی ؟” وہ حد درجہ دکھی تھا۔ جبکہ مار کھانے والا اب سکتے میں تھا کہ جلدی میں منہ سے کیا بات نکالی تھی ۔ اب ساری زندگی اس بات کا طعنہ دیا جانے والا تھا۔
“بھائی کے ساتھ دغا کمینے۔ آج تو اس کے ساتھ کر رہا ہے کل میری بھی تڑوائے گا ” دوسرا لڑکا بھی اسے پوری طرح جھنجھوڑ رہا تھا۔
” وہ خود ملی تھی مجھے۔ باتوں باتوں میں ذکر چھڑ گیا تھا بس تو میں نے بتا دیا کہ یہ تو میرا بہنوئی ہے۔ آخر مجھے اپنی بہن کی خوشیاں بھی عزیز ہیں” وہ پھر سے ڈٹ گیا تھا۔ دونوں نے ایک دم اسے چھوڑا تھا اور خاموشی سے کھڑے ہوگئے۔ یہ بات تو وہ بالکل بھول چکے تھے اس وقت۔
“میں چاہتا تو جا کر نمل کو بھی بتا سکتا تھا مگر دیکھ لیں میں نے نمل تو کیا سجاول بھیا کو بھی نہیں بتایا ” اس نےا ب سجاول کا نام لے کر انہیں ڈرایا تھا۔ اور پہلی بار انہیں خود سےنظریں چراتا دیکھ کر اس کا سر تنا تھا دل میں ہنسی پھوٹ رہی تھی مگر چہرہ سنجیدہ تھا۔
“اچھا بس بس اب کچھ کھلا دو اس کا مجھے دکھ نہیں ہے ۔ اسے کل میں نے شاپنگ کروائی اور آج ہی وہ مجھے چھوڑ گئی۔میرے خون پسینے سے جمع کیے پیسے گئے سب۔ یعنی حد ہے”حبل دکھی سا ہو کر بینچ پر بیٹھا تو جبل بھی ریلیکس سا ہوا ۔
“چلیں پھر آپ لوگ کینٹین کی طرف۔ میں آتا ہوں ذرا وہ لڑکے سے اپنی کٹ لے آؤں “کومیل نے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہا اور اس طرف بھاگ گیا۔ اب وہ ہاتھ نہیں آنے والا تھا سو وہ لوگ خود ہی پیٹ پوجا کرنے چل پڑے۔
“تو جتنا ریلیکس ہے مجھے غصہ آرہا تجھ پہ۔ یہی بات وہ چچی یا صرف نمل کے سامنے بول گیا ناتو تُو جانتا ہے کہ زہرہ بی نے فوراً سے پہلے تجھے لٹکا دینا ہے۔ چلو وہ بھی نہ ہو تب بھی۔ ابھی آج ہوا ہے بریک اپ رو لے تھوڑا یار” جبل نے کہا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
” پہلی بات وہ کہے گا نہیں کسی کے سامنے بھی ۔ دوسری بات ۔ تجھے اپنا اصول نہیں یاد کیا” وہ اس کے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے بولا تو جبل بھی ہنس دیا ۔
“پنڈی نئیں تے لہور سئی
اک محبت ہور سئی”
دونوں نے اونچی آواز میں ایک ساتھ نعرہ لگایا تھا۔ اردگرد جاتے لڑکوں اور لڑکیوں کے گروپس مڑ کے انہیں دیکھنے لگے تو وہ سیدھے ہوتے اپنی راہ کو چل دیے۔ یہ اور بات کہ مسکراہٹ ابھی بھی ایک جیسے دکھنے والے ان ‘معصوم’ شیطانوں کے ہونٹوں پر براجمان تھی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“عبادت باجی بات تو سن لو ” وہ بچی کب سے اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی تھی مگر اس کا دھیان جانے کس طرف تھا۔
“باجی ! اماں جان نکال دیں گی اگر دیر ہوئی تو” بچی نے اب اس کا کندھا ہلایا تھا۔
“ہاں ؟ کیا ہوا؟” وہ یوں چونکی جیسے جانے کتنی دور سے لوٹی ہو۔
“اوہو عبادت باجی مجھے یہ اس کپڑے سے نلکی ملا کر دو پھر نہ گواچ (گم ہو)جانا ۔ میری اماں پہلے ہی ڈانگ (چھڑی)لے کے بیٹھی ہوگی دروازے پے” وہ بچی اکتائی ہوئی لگ رہی تھی۔ عبادت نے بھی اسے زیادہ انتطار کروانا مناسب نہ سمجھا اور اس سے کپڑا پکڑ کے کمرے کی جانب چلی گئی ۔
بچی کی مطلوبہ نلکی لا کر اس نے بچی کو پکڑائی ۔ بچی بھی جلدی میں تھی بس پکڑ کر بھاگنے کی کی۔ عبادت نے پیچھے سے اسے آواز دی ۔
“پیسے تو دیتی جاؤ فاخرہ میں نے سبزی منگوانی ہے ابھی” اس کی آواز تک میں تھکاوٹ تھی۔
“باجی چھ روپے میں سبزی کب آتی ہے؟ اورکبھی تو مفت میں بھی دے دیا کرو ” بچی اکتائی ہوئی مڑی تھی۔
“زیادہ پٹاخو نہ بنا کرو ۔ مجھے بھی مفت میں نہیں آتیں پیسے لگتے ہیں میرے بھی۔” اس کے سنہری ماتھے پر سلوٹیں پڑی تھیں۔
“میں تمہاری جگہ ہوتی نا باجی تو کبھی بھی پیسے نا مانگتی” بچی نے دو سکے اس کی ہتھیلی پہ رکھے اور بھاگ کر دروازہ پا رکر گئی۔ جبکہ وہ بس گم سم سی اپنی ہتھیلی پر رکھے ان گول گول سکوں کو دیکھنے لگی۔
“اللہ نہ کرے فاخرہ کہ تم کبھی بھی میری جگہ پر ہو” آنسو اس کے سنہری گال سے پھسلتا دوپٹے کی تہہ میں گم ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنا دوپٹہ درست کر رہی تھی جب تین لڑکیاں شور مچاتی اندر داخل ہوئی تھیں ۔
“میں تو سانول بھایا کو کہنے والی ہوں اپنی مصیبت اپنے گھر لے جا کر ہماری جان اب آسان کر دیں ” فجر مسلسل ہاتھ نچاتی بولتی ہوئی ان کو اپنے ارادے بتا رہی تھی جب کہ باقی دونوں اشتیاق سے سامنے کھڑی کالے دوپٹے کے حالے میں ‘روح افزاء’ سی لڑکی کو دیکھ رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر ان دونوں کے ذہن میں یہی ایک لفظ آیا تھا۔ ان کو اپنی طرف متوجہ نہ پا کر فجر بھی اس کی طرف دیکھنے لگی تھی جبکہ سامنے موجود وہ روح افزاء سی لڑکی مزید سرخ ہوئی تھی۔ ہاں مگر چہرے پر ایک مسکان آٹھہری تھی۔
سب سے پہلے منال آگے بڑھی تھی اور اسے گلے لگایا تھا۔ پھر فجر اور نمل نے بھی قدم آگے بڑھائے۔
“ویلکم ہوم بےبی!” نمل نے اس کے گال پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا ۔
“کہاں تھیں آپ اتنے عرصے سے؟ آپکے وہ جڑواں شیطان ۔۔۔ اُف ناک میں دم کر رکھا ہے انہوں نے ” فجر اب بھی کلسی بیٹھی تھی۔ منال اور نمل ہنس دیں ۔
“آپو میں۔۔۔”
“شیطانوں کی چیلی ہوں” منال کی بات ابھی منہ میں ہی تھی جب فجر نے لقمہ دیا۔ منال نے برا منائے بغیر گردن اکڑائی تھی۔
“جی ویسے تو میرا نام منال ہے ،مگر سب مجھے بہت ہی ‘پیار’ سے ریڈتھیٹا’ کہتے ہیں۔” اس نے پیار پر زور دیتے ہوئے بتایا۔
“اچھا بس بولتی ہوئی اقوام ۔ بیٹھ جاؤ سکون سے۔اور کھانے میں تو ابھی بہت وقت ہے اس لیے فی الحال یہ میں سینڈوچز بنا لائی ہوں بیٹا۔ اور نمل ذرا کنٹرول میں رہنا” وہ اس سے اپنا تعارف کروا رہی تھیں جب آمنہ بیگم ٹرے اٹھائے چلی آئیں اور اسکے سامنے بیڈ ٹیبل رکھ کر اس پر ٹرے رکھی۔ ساتھ ہی وہ نمل کو نصیحت کرتی باہر کو چل دی تھیں۔ ان کی اس نصیحت پر فجر اور منال کا قہقہہ بلند ہوا تھا جبکہ نمل منہ بنائے ان کو دیکھنے لگی تھی۔
“یہ کھاتی بہت ہے یار اس لیے چچی اسے کنٹرول کرنے کا کہہ گئی ہیں” فجر قہقہہ روکتی اسے بتانے لگی تھی۔ اس کی اس بات پر غنویٰ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔
” خود کا بھی بتاناتھا نا ساتھ میں ۔” نمل جل کر بولی تو فجر کی ہنسی کو بریک لگا تھا البتہ اب منال نے ایک اور قہقہہ لگایا تھا۔
ان کے درمیان بیٹھے اسے چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے مگر یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ہمیشہ یہیں رہی تھی۔ مسکراہٹ نے اس کی آنکھوں تک کو روشن کیا ہوا تھا۔ نمل جو فجر کی حالت انجوائے کر رہی تھی اب اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
“بھئی آپ نے تعارف نہیں کروایا اپنا” اس کے کہنے کی دیر تھی کہ فجر اور منال بھی سیدھی ہوئیں اور اس کی طرف دیکھنے لگیں۔
” تم لوگ اسے کچھ کھانے بھی دو۔ یہیں ہے وہ اب۔ بہت مواقع آئیں گے سر اور کان کھانے کے” وہ لوگ اسے کے گرد بیٹھی تھیں جب اجر بھی چلی آئی اور آتے ہی ہمیشہ کی طرح کلاس لینی شروع کر دی۔ سب نے منہ بنایا تھا جبکہ غنویٰ نے اپنی مسکان کو ایک بار پھر بکھرنے سے روکا۔
“کبھی کوئلے منہ سے نکال کر بھی بات کر کے دیکھئے گا۔ اچھا محسوس کریں گی” فجر جو پہلے ہی اجر سے ناراض تھی اب مزید منہ کے زاویے بگاڑنے لگی۔ اس کی اس بات پر اجر مسکرائی اور اس کی طرف آکر اس کا کان مروڑا ۔
“تم بندی بن جاؤ سمجھی”
” یااللہ کیا گناہ کر دیا ہے میں نے جو ایسی بہن دے دی اور اوپر سے اسے بڑی بہن بنا دیا۔ کان تو چھوڑ دیں میرا ۔ ” فجر چلائی تو اس نے اس کا کان چھوڑ دیا۔
“یہ شال اوڑھو اور یہ جو سامنے ٹرے پڑا ہے اس میں جو کچھ رکھا ہے سب ختم کرو کیونکہ ابھی چچی فروٹس لے کر یہیں آرہی ہیں ۔ یہ ٹرے بھری دیکھیں گی تو ڈانٹیں گی” اجر نے شال غنویٰ کی طرف بڑھائی اور بولتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی باقی کی تین نے گہری سانس لی تھی جب کہ غنویٰ شال اوڑھنے لگی تھی۔
“اپنا نام بتا دیں آپو میں اب بہت کیوریئس(پرتجسس) ہو رہی ہوں ” منال دونوں ہاتھ رگڑتی آنکھوں میں اشتیاق لیے آگے کو ہوئی۔
وہ چاروں ایک دائرے میں بیٹھی تھی۔ غنویٰ صوفے پر جبکہ نمل اور فجر اس کےسا منے پڑے کاؤچوں پر بیٹھی تھیں۔ منال غنویٰ کے صوفے کے پاس نیچے قالین پر بیٹھی تھی۔
“میرا نام غنویٰ ہے۔ کشور پھوپھو کی بھتیجی ہوں ۔ میں اکلوتی اولاد ہوں اپنے والدین کی اور اتفاقاً میرے والدین بھی حیات نہیں ہیں۔ یہ سینڈوچز تو بہت زیادہ ہیں ۔ آپ لوگ بھی لو نا ” اس نے بات بدلنے کو ٹرے سے ایک سینڈوچ اٹھا کر پہلے نمل ہی کی طرف بڑھایا تھا۔ نمل نے فوراً ہاتھ بڑھایا مگر فجر نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا تھا۔
“کیا تکلیف ہے؟” نمل چڑ کر بولی۔
“موٹی عورت ! ابھی چچی کیا بول کر گئی ہیں ؟”
” تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ میں کبھی بولی ہوں کہ گلا پھاڑ پھاڑ کر گایا مت کرو آنسوؤں کا چشمہ جاری ہو جاتا ہے ہماری آنکھوں سے ؟ حالانکہ زہرہ بی سے روز ہی عزت افزائی کرواتی ہو” وہ کھا جانے والے انداز میں اسے گھورتی ہوئی بولی تھی۔ غنویٰ کبھی ان کو دیکھتی اور کبھی دانت نکالتی منال کو۔
“یہ مجھے دیں اور آپ بھی کھائیں۔ بس اب سین دیکھنے والا ہے۔ کچھ دیر میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے بال کھینچنے ہیں۔ انجوائے کریں” منال نے اس کے ہاتھ سے سینڈوچ لیا اور اسے حوصلہ دیتی ہوئی سینڈوچ کترنے لگی۔ لیکن وہ مزید حیران ہوتی انہیں دیکھنے لگی تھی۔
” اگر تم اب ایک لفظ بھی بولی نا تو سر پھاڑ دونگی میں تمہارا ۔ ” فجر بپھر چکی تھی۔
“تو پھر تم بھی میرا منہ نہ کھلوایا کرو” نمل نے بہت آرام سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا اور سینڈوچ کے لیے غنویٰ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس نے فوراً سے پہلے پوری ٹرے سامنے کر دی۔ نمل نے دو سینڈوچ اٹھائے ایک فجر کی طرف بڑھایا اور دوسرا خود کھانے لگی۔ فجر ابھی بھی غصے میں تھی مگر سینڈوچ کترنے لگی تھی۔
“کلائمکس بہت خراب تھا آج” منال ہاتھ جھاڑتی کھڑی ہوئی اور تبصرہ کرنے لگی۔
“تم اپنی بولتی بند رکھنا اب مجھ سے اپنی بہن کے حصے کی بھی مار مت کھا لینا ” فجر نے اسے ڈپٹا۔
“میں جا رہی ہوں ویسے بھی پڑھنے۔ اور آپی! اگر کوئی قتل ہو جائے تو پریشان نہیں ہونا ہے۔ اس علاقے کے تھانوں میں بھی یہ بات درج ہے کہ اگر ان دونوں میں سے کوئی قتل ہوتا ہے تو ان کے علاوہ اور کوئی ذمے دار نہیں ہو گا” اس نے غنویٰ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور فجر کے غصے سے اٹھتے ہی باہر کی طرف دوڑ لگائی تھی۔ جبکہ نمل اور غنویٰ مسکراتی ہوئی ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔
“آئے تو اب میرے سامنے یہ” فجر دھمکی دیتی واپس ان کی طرف آئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...