ہوا سرسراتی ہوئی ہوئی اُسکے کندھے سے چادر کو سِرکا گئی تھی۔اُسکے ماتھے پر بل پڑ چُکے تھے۔ اُس نے اُلجھ کر اپنی چادر پھر سے سنبھالی۔
وہ فیصل آباد کا ایک بس اسٹاپ تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ اور بھانت بھانت کی بولیاں۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی اُس طرف چلی آئی جہاں لوگ ویگن کا انتظار کر رہے تھے۔ رش بہت تھا اور ویگنوں کی حسبِ معمول ہڑتال تھی۔ وہ ایک طرف سمٹ کر کھڑی ہو گئی۔
موسم نارمل تھا مگر ایسا بھی خوشگوار نہ تھا کہ گھنٹوں کھڑا ہوا جا سکتا۔ اُس نے ہاتھ میں اُٹھایا ہوا بیگــــــ جس میں کُچھ کپڑوں اور کاغذات کے علاوہ کچھ نہ تھا ــــ اپنے دائیں طرف نیچے رکھ دیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ ویگن کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ سڑک پر گاڑیاں رواں دواں تھیں ۔ لوگ اپنے اپنے معمول کے کام نپٹانے گھروں سے نکلے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے انداز میں پُھرتی تھی۔ ایک اگر سکون سے کھڑی تھی تو وہی تھی۔ وہ فُرصت سے سب کا جائزہ لے رہی تھی۔ بہت بُہادر تو نہ تھی مگر اکیلی سفر کرنے کی عادت ہوچُکی تھی۔ یہاں سفر سے مراد صرف اُردو والا سفر ہی نہیں بلکہ انگلش والا سفر (suffer ( بھی ہے۔ اُس کا بچپن تھا یا نو جوانی سب اِسی سفر میں گزرا تھا ۔ اب جوانی تھی تو وہ بھی ایک گھر سے دوسرے گھر تک کے ‘سفر’ میں تھی۔ یہی ایک بیگ ـــجسے اُس نے کئی دفعہ بدل جانے والے محلے کے کسی موچی سے ٹھیک کروایا تھا ــــ میں وہی ضرورت کے چند کپڑے اور ہر دفعہ کے چکر میں بڑھ جانے والا ضروری و غیر ضروری کاغذات کا بوجھ ہوتا تھا ۔
اُس نے ہلکے گُلابی رنگ کا لمبا قمیض پہن رکھا تھا جو ٹخنوں کو چھوتا تھا۔ ایک سفید ، بہت کھلا ٹراؤزر کہ جو چلتے ہوئے اُسے کئی بار گرانے کا باعث بنتا تھا۔ سر پر ایک ہلکے بھورے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی جو ہوا کے چلنے سے بار بار سرک کر اُسکے سر اور کندھوں سے ڈھلک جاتی تھی۔
وہ یوں ہی ہمیشہ کی طرح خاموش مگر جانچتی نظروں سے اطراف کا جائزہ لیتی رہی ۔ کوئی ماں اپنے ڈھیر بچوں کو اِکٹھا کر تے ہوئے سمجھا رہی تھی کہ ویگن میں جلدی سے گُھس کر جگہ کیسے بنانی ہے تو کوئی باپ اپنی شادی شدہ بیٹی کو نواسوں سمیت بِٹھانے آیا ہوا تھا۔کہیں نو بیاہتا جوڑا باتوں میں مگن تھا تو کہیں جاب پر جانے اور واپس آنے والوں کا رش لگا تھا۔ ایک شور سا تھا جو پورے ماحول پر طاری تھا۔
معاً ایک کھچا کھچ بھری ہوئی ویگن آئی اور اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کے باہر آنے کا انتظار کیے بغیرسب اندر گھسنے کو بیتاب ہوئے ۔ وہ سب کے بیٹھ جانے اور جھگڑے کے شور کو خاموش سی اپنی جگہ پر کھڑی دیکھ رہی تھی۔ ایک آدمی آگے بڑھا اور اُس تک آیا۔
“بی بی ساہیوال جانا ہے؟” وہ اُس کا بیگ اُٹھاتے ہوئے بولا۔ خدا جانے وہ پوچھ رہا تھا یا بتا رہا تھا۔ مگر اُسے ایک سواری کے کم ہونے کا اتنا ‘دُکھ’ تھا کہ وہ جلد از جلد ایک سواری کی سیٹ بھی پُر کرنا چاہتا تھا۔
“نہیں ” اُس نے غصے سے اپنا بیگ اُس کے ہاتھ سے کھینچا اور ذرا پرے ہو کر کھڑی ہو گئی۔
“بی بی کہاں جانا ہے جلدی چلو پھر نہیں آنی ویگن ۔ یہ آخری پھیرا ہے بس” وہ کندھے پہ اپنا صافہ ٹھیک کرتا ہوا بولا۔ ایک طرح سے اپنا پتا پھینکا کہ سواری راضی ہو جائے۔ اور سواری واقعی راضی ہو بھی گئی۔ آخر کو اکیلی تھی کب تک کھڑی رہتی۔
“مجھے 547 جانا ہے وہ فیصل آباد سے ذرا آگے” اُس نے اپنا بیگ ایک ہاتھ سے دوسرے میں شفٹ کرتے ہوئے ایک گاؤں کا نام بتایا۔
” اچھا اچھا سمجھ گیا میں ۔بیٹھو بی بی جلدی” وہ پھر سے اُسکا بیگ لینے لگا تو وہ غصے سے بولی” بیگ میں اُٹھا لوں گی” اور آگے کو چل دی۔
اُس کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی چلا دی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُس کا باپ ،صغیر احمد فوج میں بھرتی تھا۔ کوئی بہت بڑا افسر نہیں تھا وہ۔ایک حوالدار تھا اور ایک آپریشن کے دوران مارا گیا۔ ماں ، رخسانہ ایک گھریلو عورت تھی جو کہ شوہر کے دم سے ہی زندہ تھی۔ اُسے ماں بننے کی خوشخبری بھی شوہر کی شہادت کے دو دن بعد ملی۔ وہ بھی شاید بچے کے دنیا میں آنے کے انتظار میں ہی دن گُزارتی رہی کہ یہاں بچہ آئے وہاں وہ بھی شوہر کے پاس چلی جائے۔ ہوا بھی یوں ہی۔ جہاں ‘اس’ نے دنیا میں اپنی پہلی سانس لی وہاں اُس کی ماں نے آخری ۔
اس کی ذمہ داری اب نانی اور دادی پر تھی۔ مرتے کیا نہ کرتے اُن کو یہ نبھانی ہی تھی۔ نانی بھی بیٹی کے سال بعد ہی اُس کے پیچھے چل دی تھیں ۔ اب دادی تھیں اور اُن کی یہ پوتی ۔ دادی ایک ایک پائی سنبھال کر رکھتیں کہ اُنہیں اس کو پڑھانا تھا تا کہ اُن کے بعد کم از کم وہ کوئی نوکری کر کے ہی اپنا گزارہ کر سکتی۔ دادی جب تک زندہ رہیں وہ اُس کے ناز پوری طرح اُٹھاتی رہیں کہ اُس کے تایا چاچا یا ماموں یہ لاڈ کبھی بھی نہ اُٹھانے والے تھے۔ ہرکلاس میں وہ ایک نمایاں پوزیشن پر آتی رہی کہ دادی کی ہر طرح سے پُشت پناہی تھی۔ وہ اسے کام کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی تھیں۔ وہ ہمیشہ اسکول اور کالج میں اُبھرنے والے بچوں میں ہوتی تھی۔ کوئی بھی نصابی یا غیر نصابی سرگرمی ایسی نہ تھی جس میں وہ حصہ نہ لیتی تھی۔ اور ہر جگہ سے میڈل اور شیلڈ جیتنا تو اُس کے معمولات میں تھا۔ بے شک وہ ایک ذہین لڑکی تھی۔ یہ سب دادی کی وجہ سے تھا جو کبھی کسی کو اُس کے لیے کچھ بولنے نہیں دیتی تھیں ۔ وہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہی تھیں ۔ اُن کے ہوتے اُسےایک شہر سے دوسرے شہر تک کا سفر نہیں کرنا پڑتا تھا بس گھر سے گھر تک کے سفر میں وہ زمانہ گزر گیا۔ دادی کی وفات کے بعد وہ سب پر بوجھ بن چُکی تھی کہ آخر وہ تایا چچا ماموں یا خالہ پھپھو کی ذمہ داری نہ تھی۔ وہ اُن پر بوجھ تھی۔ سو اس بوجھ کا حل یہ نکالا گیا کہ جیسے دادی اُسے لے کر کبھی ایک بیٹے کے دروازے پر ہوتی تھیں تو کبھی دوسرے کے، اِسی طرح اب اس کا بوجھ بھی کبھی ننھیال کے کسی فرد کے سر تھا تو کبھی ددھیال کے ۔ اب بھی وہ چھوٹے چاچو کی طرف تھی جب اس کی دادی کی دور کی بھانجی کی کال آئی تھی کہ اسے انکی طرف بھیج دیا جائے ۔ سارا گھر خوش تھا کہ اب کم از کم وہ انکا بوجھ نہ رہی تھی کیونکہ دادی کی وہ بھانجی بہت امیر تھی اور یقیناً وہ دل کی بھی اچھی ہی تھی کہ جس نے اسے مستقل اپنے پاس رکھنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ کوئی اسے بس اسٹاپ تک بھی نہ چھوڑنے آیا تھا ۔ بس راستہ سمجھا دیا گیا تھا اور ایک نمبر پکڑا دیا گیا تھا ۔ موبائل آج تک نہیں دیا گیا تھا کہ زمانہ خراب ہے لڑکی خراب ہو گئی تو ہم اپنے مرے ہوئے بہن بھائی کو کیا منہ دکھائیں گے۔
“اے بیٹی یہ کھڑکی تو کھول دے سانس اٹکی جاتی ہے میری” وہ سوچوں میں گم تھی جب ساتھ بیٹھی ایک بوڑھی عورت نے اس کا کندھا ہلایا ۔ اس نے سر ہلایا اور کھڑکی کا شیشہ تھوڑا سا سرکا دیا۔
“اللہ تجھے خوش رکھے ۔ بھاگوں والی کرے۔ ماں کے پاس جا رہی ہے؟” عورت بولی تو اس کا دل ایک دم سے دھڑکا تھا ۔
” نہیں وہ پھوپھو کی طرف ۔۔۔”
“اچھا اچھا چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ ورنہ آج کل کی پھوپھیاں بھی کہاں امان ہیں۔ ہماری پھوپھی ہوتی تھی جب بھی گھر جاتے تھے گھی کے ڈبے دیتی تھی ۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی سوغات دے کے بھیجتی تھی۔” اسکی بات کاٹ کر وہ اپنی رام کہانی شروع کر چکی تھیں ۔ وہ خاموشی سے انکی بات سننے لگی تھی۔
“بی بی آگیا تہاڈا اسٹاپ ” وہ مگن سی ساتھ بیٹھی عورت کی باتیں سن رہی تھی جب کنڈکٹر نے آواز دی تھی۔
گاڑی روک دی گئی تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر ایک سیٹ پھلانگتی باہر نکل آئی تھی۔ اس کے اترتے ہی گاڑی ہوا سے باتیں کرتی ہوئی بہت دور نکل گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“رنگ دیا تیرے عشق نے یوں
ہو گئی میں تو ہی تو
رنگ تو نے کیسا ہے چڑھایا
سن یارا۔۔ سن یا۔۔۔۔”
“اے کم گلا پھاڑ اپنا ۔ کیوں اپنے پرکھوں کو میراثی کہلوانے کا ٹھیکہ اٹھا لیا ہے تونے” وہ لہک لہک کر آنکھیں بند کیے ا ور پورے جوش سے صوفے پے کھڑی ہاتھ کا مائیک بنائے گانا گا رہی تھی جب زہرہ بی نے اندر قدم رکھا اور اس کے گانے کو بریک لگایا ۔
“زہرہ بی اتنا برا بھی نہیں گاتی میں ” وہ منمنائی۔
“چپ کر کمبخت! اگلی بار خود نہیں بولوں گی بلکہ یہ سوٹا (ڈنڈا)ہی گلے تک پہنچا دوں گی” انہوں نے اپنے شوہر مرحوم کا عصا لہراتے ہوئے کہا تو وہ فوراً صوفے سے نیچے تشریف لے آئی۔
“چل اب جا کے اپنی ماں کے ساتھ کام کروا اور یہ پٹہ جو گلے میں ڈالا ہے اسے بھی پھیلا آگے” انہوں نے اسی عصا کے ساتھ اس کو پیچھے سے ٹہوکا دیا۔
” زہرہ بی ماریں تو نہیں ” دوپٹہ ٹھیک سے پھیلایا اور باہر کی جانب چل دی جہاں یقینی طور پر سب کزنز منہ بنائے کام کر رہے تھے۔
زہرہ بی اس حویلی کی کرتا دھرتا تھیں۔ انہیں اپنے لیے ماں ، اماں یا دادی نانی کہلوانا پسند نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سب انہیں ‘زہرہ بی’ ہی بلاتے تھے۔ شوہر چودھری محمد رمضان جب تک زندہ رہے اِن کی ہی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے عصا کو ہر وقت سامنے رکھتی تھیں جس سے سب کو ضرورت کے تحت ٹہوکے دیتی رہتی تھیں ۔ دو بیٹیاں تھیں اور انہوں نے بیٹیوں کو کبھی کچھ بولنے کی جرات نہ دی تھی ۔ تین بیٹے تھے اور باپ کی ہی طرح ماں کے رعب میں تھے۔ ہاں البتہ بہوؤں کا اس حویلی میں پورا راج تھا۔
بڑی بیٹی شہناز کی دو ہی اولادیں تھیں ۔ ایک بیٹی تانیہ جو بیاہ کر بحرین جا بسی تھی۔ اور بیٹا تیمور جو ایک پروفیسر تھا اور ایک عدد بیوی اور بیٹے سمیت ماں باپ کےفرمانبردار بیٹے کا فرض نبھا رہا تھا۔
ان کے بعد بڑے بیٹے ،فخر زمان کی تین اولادیں تھیں ۔ اجر ، سجاول، فجر۔ اجر اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھی ۔ اسے زہرہ بی نے اپنی چھوٹی بیٹی مہناز کے اکلوتے بیٹےسانول سے منسوب کیا تھا ۔ سجاول اپنی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد زندگی آرام و سکون اور عیش و عشرت سے گزارنا چاہتا تھا مگر زہرہ بی نے جب اس کے لیے بھی ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو اس نے ماں کی سفارش سے زہرہ بی کا دھیان بزنس کی طرف کروا دیا اور پھر لاہور میں آفس سیٹ کر کے اسی کی طرف کوچ کر گیا۔ اب اس کا یہ حال تھا کہ زہرہ بی ہی سال میں ایک آدھ بار اسے بلوا لیتیں تو منہ دکھا جاتا ورنہ اب وہ اپنی سفارشی ماں کے ہاتھ بھی نا آتا تھا۔ آخری نمبر تھا فجر کا۔ وہ تھی گانوں اور ڈراموں کی رسیا۔ ہر وقت کوئی نا کوئی ڈائیلاگ بولتی پائی جاتی یا یونہی ہاتھ کا مائیک بنائے لہک لہک کر گاتی جاتی۔ بی اے بائے چانس مکمل کر چکی تھی اور آگے پڑھائی کا نہ تو اس کا اپنا ارادہ تھا نہ ہی زہرہ بی اس پر مزید اپنا حلال پیسہ خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں ۔
منجھلے بیٹے ، شیر زمان کی دو ہی اولادیں تھیں ۔ جبل اور حبل ۔جڑواں تھے اور دونوں سے سارا زمانہ تنگ تھا۔ ان کو ان کی ماں بھی رام نہ کر سکتی تھی۔ صرف دو ہستیاں ایسی تھیں جو ان دو کو سیدھا کر سکتی تھیں ۔ ایک زہرہ بی اور ایک سجاول ۔ زہرہ بی کی تو ایک گھوری بھی کافی ہوتی تھی ۔ ہاں البتہ سجاول کو ہاتھ جوڑنے پڑتے تھے۔ وہ دونوں فیصل آباد میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے مکینکل انجینئرنگ کر رہے تھے۔ آ جکل ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھا ۔
چھوٹے بیٹے اور سب کے چھوٹے چاچو ، حیدر زمان کی تین اولادیں تھیں ۔ بڑی نمل جو کہ فجر کی ہم عمر تھی ۔ اس نے اپنی زہرہ بی کا بھی ایک ایک قول یاد کر رکھا تھا اور گھر کی ‘شریف شرارتی بچی’ بھی وہی تھی۔ اس کے بعد کومیل تھا جو بی بی اے کے لیے فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں تھا سجاول کی کاپی تھا اور کم ہی گھر میں پایا جاتا تھا۔ اس نے گھر میں رہنے سے بہتر ہاسٹل میں رہنا پسند کیا تھا۔ سیر سپاٹوں کا شوقین تھا سو گھر میں تو کیا ہاسٹل میں بھی کم ہی دکھتا تھا۔ اس کے بعد خاندان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی منال ۔ سب کی جاسوسی کرنے والی اور بدلے میں اپنے مطلب کی چیزیں حاصل کرنے والی ۔ انٹر کر رہی تھی اور خاندان میں سب سے محنتی بچی بھی وہی تھی۔ بڑوں میں ‘فتنی’ کے نام سے مشہور تھی اور یہ نام زہرہ بی کا دیا ہوا تھا۔ جبکہ باقی پلٹون میں وہ ‘آر ٹی’ یعنی ریڈ تھیٹاکے نام سے مشہور تھی۔
بڑی بہو قدسیہ، ان کی رائٹ ہینڈ تھیں۔ منجھلی بہوکشور،ان کی لاڈلی تھیں۔ جبکہ چھوٹی بہو آمنہ ، ان کی باڈی گارڈ اور کئیر ٹیکر تھیں ۔ انہوں نے کھانا کب کھانا ہے کیسا کھانا ہے دوائی کب لینی ہے سب ان کے ذمے تھا۔ زہرہ بی نے اپنا یہ خاندان بہت طریقے اور سلیقے سے سنبھال رکھا تھا۔ جہاں وہ بہوؤں کی سنتی تھیں وہاں بہووئیں بھی ان کے آگے پیچھے پھرتیں اور ہر کام میں انکا مشورہ لیتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ کشور بیگم نے جب اپنے دور کی خالہ کےمتعلق کسی سے سنا تھا تو فوراً ان کے بیٹوں سے رابطہ کیا تھا ۔ ان سے رابطے کے بعد ان کو معلوم ہوا تھا کہ ان کے بھائی کی بیٹی ان کے پاس بوجھ کی طرح پڑی ہے۔ کشور کو وہ لوگ اس کے تو کیا حالات بتاتے ۔ الٹا اپنا رونا رو دھو کر فون رکھ دیا تھا۔ اپنے وسیلے استعمال کرتے ہوئے کشور بیگم نے اس کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ اسے بہت برے حالات کا سامنا ہے۔ انہوں نے ساس سے مشورہ کر کے اسے اپنے پاس بلوا نا چاہا ۔ مگر ان سے رابطے کے بعد خاصی مایوسی کا سامنا ہوا کہ وہ لوگ نا تو خود اس لڑکی کو چھوڑ کر جانے پر تیار تھے نا اس سے بات کروا رہے تھے۔ سو انہوں نے اپنا پتہ لکھوایا اور بھاری دل سے فون رکھ دیا تھا کہ نا جانے وہ اسے بھیجنے بھی والے تھے کہ نہیں کیونکہ ان کے لیے تو وہ ایک بے دام کی غلام تھی جس نے جتنا کہا اتنے میں سے بھی کانٹ چھانٹ کر فراہم کر دیا۔ زہرہ بی خود جانا چاہتی تھیں مگر کشور بیگم نے منع کر دیا کیونکہ وہ اپنی سا س کے سامنے اپنے خاندان کی گراوٹ نہیں لانا چاہتی تھیں ۔ سو صبر شکر سے وہ اپنے گھر کے معاملات میں مگن ہو گئیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی کے دور جاتے ہی وہ مڑی اور اطراف کا جائزہ لینے لگی۔ دو تین خوانچہ فروش ایک رو میں کچھ پھل کی ریڑھیاں لگائے کھڑے تھے۔ دوسری طرف کچھ تانگے والے اور رکشے والے بھی کھڑے تھے جو اس کو ویگن سے اترتا دیکھ کر آگے بڑھے تھے۔ عادتاً اس نے اپنے بیگ پر گرفت مضبوط کی ۔
“بی بی جی کدھر جانا ہے؟”
“بی بی میں چھوڑ آتا ہوں”
“باجی اس کے تانگے پر کیسے جاؤ گی میرے رکشے پر آجاؤ”
“کیوں وے شریف میرے تانگے کو کیا ہوا ہے؟ اب تو اچھی خاصی کارپٹ روڈ ہے تانگا دوڑتا جائیگا” وہ دونوں اب آپس کا جھگڑا لے کر بیٹھ گئے تھے۔
حتیٰ کہ ہر طرف اپنی بولی بولتے ہوئے لوگ تھے۔ اس کی نظر ادھر ادھر گھومتی ایک طرف ٹھہر گئی جہاں ایک بوڑھا شخص اپنے رکشے سے ٹیک لگائے کھڑا خاموش نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ سب کے درمیان سے گزرتی اس بوڑھے کی طرف بڑھ گئی۔ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ سیدھا ہوا تھا۔
“چاچا بڑی حویلی چلیں گے؟”
“بیٹی وہ تو کافی آگے ہے ۔ تم کسی اور رکشے پر چلی جاؤ میرے رکشے کی حالت تمہارے سامنے ہی ہے” وہ آدمی عاجزی سے بولا تھا۔
“کتنا آگے ہے؟” وہ گھبرا کر بولی تھی۔
“ایک گاؤں پڑتا ہے درمیان میں بیٹی۔ اتنا دور بھی نہیں ہے۔ اچھی سواری پر جاؤ گی تو جلدی پہنچ جاؤ گی” وہ بولا۔
“نہیں چاچا میں آپ کے ساتھ جاؤنگی۔ اور ابھی تو میں نے سنا ہے کہ کارپٹ روڈ ہے۔ تو ایسا رکشا بھی ساتھ دے ہی جائیگا ۔ آپ چلیں بس ” اس نے کہا اور پیچھے کی سیٹ پر آ کر پہلے اپنا بیگ رکھا پھر خود بھی چادر سنبھالتی ہوئی بیٹھ گئی۔ جبکہ وہ بوڑھا آدمی حیران نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔ حیران تو وہاں کھڑا ہر شخص تھا۔ کہ آج بوڑھے اکرم کی قسمت کیسے جاگ گئی تھی۔ آج تک بہت سے لوگ اس کا ٹوٹا پھوٹا رکشہ چھوڑ کر تانگے کو ترجیح دیتے تھے مگر آج قسمت نے واقعی اکرم پر مہربانی کی تھی۔
وہ جلدی سے اپنا صافہ ٹھیک کرتا ہوا آکر بیٹھا اور رکشہ اسٹارٹ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر انجن چلا رہنے دیا پھر کِک لگائی اور سڑک پر آگے ہی آگے بڑھنے لگا۔
” بیٹی پڑھی لکھی لگتی ہو” جب کچھ راستہ طے ہو چکا تو وہ بولا۔
“جی چاچا میں نے ایم اے انگلش کر رکھا ہے” اس نے جواب دیا۔
“اچھا اچھا ۔ بہت ہی اچھی بات ہے ۔ میں نے بھی میٹرک کیا تھا بیٹی۔ میرے بیٹے نے بھی بہت پڑھا تھا۔ واپڈامیں بڑا افسر لگ گیا تھا”وہ بات کرتے کرتے افسردہ ہوئے تھے۔ وہ کچھ نہ بولی بس گردن موڑے خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔
“میری بیوی کی بڑی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کی دھوم دھام سے شادی کرے اور بہو بھی پڑھی لکھی لائے ۔ پڑھی لکھی بہو بھی آگئی۔ مگر ہمارے بیٹے کو یہاں کے ماحول سے دور لے گئی۔ کہتی تھی بچے ایسے ماحول میں بیمار پڑجائیں گے۔ سال بعد آنے کا وعدہ کیا تھا بیٹے نے۔ آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہو گیا” ان کی آواز بھرا چکی تھی۔ اسکی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے تھے۔
“بیٹی ! دکھ یہ ہے کہ بیٹا تو دور گیا ہی۔ اپنی ماں کو بھی روگ لگا گیا۔وہ دنوں میں گھل گھل کر مر گئی۔ میں قرضے میں ڈوب گیا اس کے لیے ۔ میں نے آج تک جتنا کمایا ایک ایک پائی حلال کمائی۔ حلال ہی لگائی ۔ میرے رکشہ تو دیکھ ہی رہی ہو نا ۔ یہ بڑا چمکتا تھا کسی زمانے میں ۔ اب دیکھو میں تو اسے بھی نہیں ٹھیک کروا سکتا۔ میری ایک ہی بیٹی ہے ۔ میٹرک کر لیا ہے اس نے۔ انٹر میں ہے اب۔ کچھ میں کما لیتا ہوں کچھ وہ کما لیتی ہے ۔ وہ سلائی کرتی ہے ۔ کپڑا ایک دفعہ دیکھتی ہے اور ویسا ہی ایک اوربنا لیتی ہے” بات کرتے ہوئے جہاں پہلے آواز بھرا گئی تھی اب وہاں محبت ہی محبت تھی۔ اُس کے دل سے ہوک نکلی تھی۔
” ادھر بڑی حویلی کے پاس جو بڑ ی مسجد ہے اس کے پاس ہے میرا گھر” وہ اب بھی خاموش رہی تھی۔
بڑی حویلی کے گیٹ کے پاس جا کر رکشہ رک گیا تھا۔ وہ نیچے اتری اور اپنے بیگ کی چھوٹی زپ سے پیسے نکال کر چاچا کے حوالے کیے۔
“چاچا میں یہاں بالکل نئی ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے یہاں کتنے دن رکنا ہے۔ لیکن میں جب بھی موقع ملا آپ کی طرف چکر لگاؤں گی۔ میں آپ کی بیٹی سے ملنا چاہوں گی ” وہ بہت نرم انداز میں بولی اور گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی جو کہ کھلا تھا اور لوگ آجا رہے تھے ۔ جبکہ رکشہ بہت دیر تک وہاں گیٹ کے پاس کھڑا رہا تھا کہ بوڑھا اکرم آج پھر سے اداس ہو چلا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گیٹ پار کرتے ہوئے کئی ایک لوگوں نے اسے دیکھا مگر اپنے معمول کے مطابق باتیں کرتے ہوئے آتے جاتے رہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔
وہ جدید طرز پر بنائی گئی ایک وسیع حویلی تھی۔ باہر سے دیکھنے پر وہ شہر کا ایک پر تعیش کھلا سا گھر ہی لگتا تھا مگر جیسے ہی گیٹ میں داخل ہو تو سامنے ایک وسیع ہرا بھرا لان تھا جس میں دیواروں کی طرف درخت لگے تھے۔ کیاریوں میں انواع و اقسام کے پھول تھے جنہیں وہ پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی سو گلاب یا چنبیلی کے علاوہ وہ کسی بھی پھول کو پہچان نہ پائی۔ لان کے درمیان کھلی سی روش بنائی گئی تھی ۔ جس پر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی جا رہی تھی ۔سامنے موجود حویلی اس رُخ پر بنائی گئی تھی کہ ارد گرد دو دیواریں تھیں جن میں ہر ایک دیوار پر ایک کھلی سی بالکنی تھی جس سے ایک کھلے ہوئے سبز رنگ کی بیل نیچے تک پوری دیوار کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ یوں لگتا تھا کہ دیوار اس بیل کی ہی بنائی گئی ہو ۔ اسے ان دیواروں کو دیکھ کر ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا تھا۔
حویلی کا سامنے کا دروازہ گولائی میں تھا اور بہت ہی عمدہ لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے سے مشابہ جالی دار ۔ اس وقت وہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔
“بی بی جی کس سے ملنا ہے جی آپ کو؟” وہ جو اندر کی جانب بڑھنے لگی تھی اس آواز پر گردن موڑ کر اس عورت کو دیکھنے لگی جس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے اس کا کندھا ہلایا تھا۔ چادر جو بار بار ڈھلکتی تھی اب پھر ڈھلکنے کو ہوئی۔
“مجھے کشور پھوپھو سے ملنا ہے۔ ادھر ہی ہوتی ہیں نا وہ؟” وہ اپنی چادر کندھے پر ٹھیک کرتی ہوئی بولی۔
“ہاں جی ۔آپ میرے ساتھ آؤ جی ” وہ عورت اسے لیے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
دروازے کی دائیں جانب ایک بڑا سا کمرہ تھا جہاں وہ عورت اسے لے کر آئی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس عورت نے ساری لائٹس آن کر دی تھیں جس کی وجہ سے سارا کمرہ ایک دم جگمگا گیا تھا۔کمرے کی دیواروں پر آف وہائٹ پینٹ کیا ہوا تھا جبکہ ایک دیوار پر دیوار گیر مگر بہت خوبصورت سادہ سے ٹی پنک کلرکے پردے تھے جو اس وقت بندھے ہوئے تھے یہ پردے ایک سنہرے جالی دار بہت دلکش سے گولڈن فریم میں سیٹ تھے۔ ان کے پیچھے آف وہائٹ انتہائی نفیس جالی دار پردے تھے جنہوں نے گلاس ونڈوز سے نظر آتے لان کے خوبصورت منظر کو دھندلایا ہوا تھا ۔ جبکہ چھت پر ایک بڑا اور بہت ہی خوبصورت فانوس لٹک رہا تھا جس میں سے نکلتی سفید و سنہری شعائیں سارے کمرے کو روشن کیے ہوئے تھیں۔
“بی بی جی ! آپ بیٹھو میں باجی کو بلاکر لاتی ہوں” وہ جو ارد گرد کا جائزہ لینے میں مگن تھی بس سر ہلا گئی۔
جب وہ عورت باہر کی جانب چلی گئی تو وہ سامنے مو جود ایک صوفے پربیٹھ گئی۔ صوفہ بہت آرام دہ اور نرم تھا۔ بیٹھنے پر محسوس ہو تا جیسے ہوا میں ہی بیٹھے ہوں۔اس نے بیگ نیچے فرش پررکھ دیا۔
کمرے کے ایک طرف صوفے پڑے تھے اور دوسرے طرف ایک میز تھا جس کے گرد کچھ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ ان دو حصوں کے درمیان میں شیشے کی لڑیاں لگائی گئی تھیں جو ان کو الگ حصہ بناتی تھیں ۔ صوفے آف وہائٹ رنگ کے تھے جب کہ ان پر پڑے کشن ٹی پنک تھے۔ ان صوفوں کے درمیان میں ایک چو کو ر ا ور بہت ہی نرم سا قالین تھا ۔ قالین کےبالکل درمیان میں میز پرا تھا جس کا ڈیزائن پردوں پر لگے جالی دار فریم کے ڈیزائن سا تھا۔ اس پر ایک بہت ہی نفیس قسم کا گلدان پرا تھا۔ ہر دو صوفوں کے درمیان میں ایک چھوٹا میز رکھا گیا تھا جس پر چھوٹی چھوٹی آف وہائٹ لالٹینیں رکھی گئی تھیں جن سے ہلکی سفید روشنی پھوٹتی تھی۔ اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے اسے ایک بات کا تو اندازہ ہو گیا تھا کہ مکین بہت اعلیٰ ذوق کے مالک تھے۔ یہ حویلی اور اس کا یہ ڈرائنگ روم ان کے اس ذوق کامنہ بولتا ثبوت تھے۔ اور اسے یہ بات مانتے بنی تھی کہ ایک بار پھر وہ ‘مس فٹ’ ہونے جا رہی تھی۔
ماحول میں گرماہٹ ہونے کے باوجود اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ایک گہری اور پُر سوچ سانس اندر کھینچ کر وہ دل کی گھبراہٹ کم کرنے کی سعی کرنے لگی۔
“نی رانی! باجی کشور کدھرہیں؟” وہ عورت تیز تیز قدم اٹھاتی ایک لڑکی کی طرف آئی تھی جو لاؤنج میں پڑے اخروٹ کاڈھیر اکٹھا کر رہی تھی۔
“لے مجھے کیا پتا ماسی میں تو کام سے نظر بھی نہیں اٹھاتی” رانی نامی لڑکی نے برا سا منہ بناتے ہوئے جواب دیا تھا۔
“نی بس نی ۔ معاف کر دے اب نئیں پوچھتی تجھ سے” وہ عورت اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ جبکہ رانی دوبارہ مگن ہو چکی تھی۔
وہ کھلا سا ٹی وی لاؤنج تھا ۔جس میں بائیں طرف صوفے ایک دائرے میں سیٹ کیے گئے تھے ۔ ان کے سامنے ہی ٹی وی ٹرالی پڑی تھی اور نیچے قالین بچھا تھا۔ جبکہ دائیں طرف اخروٹ کاوہ ڈھیر پڑا تھا جسے رانی اکٹھا کرنے میں مگن تھی۔ اس لاؤنج سے کئی ایک دروازے نکلتے تھے۔ دائیں طرف ایک دروازہ تھا جو کہ زہرہ بی کے کمرے کاتھا ۔ اسی دروازے کے ساتھ ایک کھلی سی گلی بنی تھی جسے سب ‘کوریڈور’ کہتے تھے۔اس کوریڈور میں بھی مختلف کمرے بنے تھے۔ صوفوں کے ایک طرف دروازہ اس حویلی کے پچھلے حصے کی طرف کھلتا تھا ۔ جبکہ اس دروازے کے بالکل شمال میں جو دروازہ تھا وہ حویلی کے باہر کے حصے میں کھلتا تھا۔ شمالی حصے میں ایک دروازہ ڈرائنگ روم میں کھلتا تھا۔ لاؤنج میں صوفوں کے بالکل بائیں طرف کچن بنا تھا۔جہاں وہ عورت بڑبڑاتی ہوئی مڑ گئی تھی۔
” باجی کشور او تہاڈے نال کوئی بی بی ملنے آئی اے” وہ عورت گہراسانس لیتی ہوئے جلدی سے بولی۔ جبکہ چولہے کے سامنے کھڑی کشور بیگم ماتھے پہ پر سوچ لکیریں لیے مڑی تھیں۔
“مجھ سے کون ملنے آ سکتا ہے ۔تم نے نام پوچھا کیا ہاجرہ”
“نام نہیں جی پوچھا۔پر میں نے بٹھا دیاہے ادھر مہمان خانے میں ” وہ آہستہ سے بولی۔
“حد کرتی ہوہاجرہ تم بھی۔ زہرہ بی کو پتا چلاتو جانتی ہو نا کتنا بولیں گی تمہیں کہ کل کو کوئی بھی چور ڈاکو لا سکتی ہو اندر”آمنہ بیگم جو کہ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھی پالک کے پتے چن رہی تھیں اچانک گھورتے ہوئے بولیں۔
“نئیں چھوٹی باجی میں تے۔۔۔”
” اچھا اب یہ پالک چنو اور ہنڈیا بھی دیکھتی رہنا ۔ میں دیکھ کر آتی ہوں کون ہے ۔آمنہ آؤ تم بھی ساتھ” کشور بیگم نے ہاجرہ کی بات کاٹی کام پرلگایا اور آمنہ بیگم کے ساتھ باہرکی طرف بڑھ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک کھلاسا احاطہ تھا جہاں ایک طرف ایک آرام دہ تخت پڑا تھا جس پر زہرہ بی بیٹھی سامنے چارپائیوں پر بیٹھی گاؤں کی مختلف عورتوں کے مسائل سن رہی تھیں اور حتی الوسع مشورے سے نواز رہی تھی۔ان میں سے کچھ خواتین اپنے مسائل کا حل مانگنے آتی تھیں تو کچھ صرف اپنے دکھڑے سنانے۔ زہرہ بی اس گاؤں کی کرتا دھرتا تو نہ تھیں مگر گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں جگہ کیے ہوئے تھیں۔تھے تو اور بھی بہت سے لوگ جو اونچی چھت اور اونچا شملہ رکھتے تھے مگر ان کے دروازوں پرکھڑے شیفرڈز( خاص نسل کے کتے) ان کو آگے بڑھنے سے روک دیتے تھے۔ ان اونچے شملے کے لوگوں اور گاؤں کے ان لوگوں میں یہی پیسہ تھاجس سے وہ لوگ ایک کتا تو پال سکتے تھے مگر کسی غریب کا پیٹ پالنا ان کے لیے وبال جان تھا۔
“فضیلہ !تیرا مرد گیا اللہ رکھے کے پاس یا میں ہی بات کروں پھر؟” زہرہ بی نے ایک عورت کو مخاطب کیا جو بڑی سی چادر میں خود کو ڈھانپے ہوئے تھی جبکہ چادر کا کونہ منہ میں دبا تھا ۔
“کتھے زہرہ بی۔میں تے لنگھ جانا انج ای” ( کہاں زہرہ بی! میں نے تو گزر جانا ہے ایسے ہی) عورت نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا تھا۔
“ہاں تیرا بنتا بھی ہے ایسے ہی گزرنا۔ تیری اس عادت کی وجہ سے ہی تو ماں گزر گئی تیری۔اب تو بھی گزر جا کوئی دکھ نہیں ہونا کسی کوبھی۔نا میں کہتی ہوں کوئی شرم تیرے میں بھی ہے یا گروی رکھ آئی ہے تو بھی؟ وہ تو جاہل انسان ہے تو کون سا کم ہے ۔ خود منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھی رہتی ہے ۔ میں کہتی ہوں تو بھی کوئی شرم پکڑ لے اب۔ پانچ بیٹیاں ہیں تیری۔ ان کو بیاہنا بھی ہے ۔ کام نہیں کرے گا تیرا مرد تو بیاہنا کیسے ان پانچ لڑکیوں کو؟ ” وہ جو گہرا سانس لیے بولی تھی اب دم سادھے زہرہ بی کی ڈانٹ سن رہی تھی۔
“نہیں میں کہتی ہوں اب کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟ یہ ممتاز بھی کیہڑا(کونسا) کم ہے۔عادت اس کی بھی تیرے والی ہے۔نا بیٹا ہاتھ میں ہے نا مرد۔ پر وقت پر نہیں بولنا ۔ آ کر دوجیوں (دوسری عورتوں ) کے کان میں اپنا راز ڈالی جانا ہے پر نکمیوں نے کرنا کچھ نہیں ہے”زہرہ بی اس وقت پوری گرج چمک سے سب پر حاوی تھیں۔اور مجال تھی جو کوئی آگے سے کچھ بولنے کی ہمت کر جاتا۔ سب کو ڈانٹ بھی پوری سننی ہوتی تھی اور آ کر مسائل بھی ان کے پاس ہی بیان کرنے ہوتے تھے۔ان کی ڈانٹ میں بھی سب کا بھلا تھا یہی وجہ تھی کہ سب دم سادھے بیٹھے تھے۔
زہرہ بی نے ان سب کو دیکھتے ہوئے پاس پڑا پانی کا گلاس اٹھا یا اور گھونٹ گھونٹ کر کے پینے لگیں۔
“میں آج تیرے بھرا(بھائی) سے بات کروں گی۔ جس دن وقت ملا وہ تیرے مرد سے بات کرے گا آکر ۔ اور ممتاز! تیرے بیٹے کے لیے میں نے بات کی تھی ۔ کچھ دن تک کام کاحساب لگا کر فخر پتر اسے وہاں لگا دے گا”انہوں نے گلاس ایک طرف رکھتے ہوئے کہا تو دونوں عورتیں سر جھکائے ہوئے ہوں ہاں کرنے لگیں۔
زہرہ بی نے اپنا عصا اٹھایا اور تخت سے نیچے پاؤں رکھے۔
“چلو مڑو اب گھروں کو۔ کام کاج بھی کر لیا کرو۔ ہر وقت رونا ہی روتی رہتی ہو۔عورت ہو نسلوں کی ماں ہو کم از کم یہ سوچ کر ہی مضبوط بنو۔ نہیں تو نسلیں بھی سست ہی پیدا ہوں گی۔اور دوسروں سے زیادہ خود پر بھروسہ کیا کرو ۔ سورج ڈوبنے والا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم میں آدھی سے زیادہ عوام بے نمازی ہے۔ او اللہ کی بندیو! او کدی اس رب کو بھی یاد کر لیا کرو ۔ اک ہی وجہ نا امید ہونے کی کہ رب کو بھلا بیٹھی ہو تم سب ۔ چلو چلو شاباش مڑو روٹی ٹکر کرو جا کے ” اتنا کہہ کر زہرہ بی عصا کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اندر کے حصے کی طرف بڑھیں جبکہ عورتیں بھی ایک ایک کر کے گھروں کو جانے لگیں۔
وہ گلاس ونڈو سے یہ سارا منظر دیکھتی مسکرا دی تھی۔ اسے اب حویلی میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ وہ جو پہلے پہلوں کی گھبراہٹ تھی اب غائب ہو رہی تھی۔ وہ یوں ہی مسکراتی ہوئی مڑی تھی جب دو عورتیں اندر داخل ہوئیں۔
“السلام علیکم بیٹا!” ان عورتوں میں سے ایک نے کہا اور اسکی طرف بڑھی اور گلے سے لگایا ۔
“وعلیکم السلام!” وہ آہستہ آواز میں بس اتنا ہی کہہ سکی تھی۔ دوسری عورت بھی مسکرا کر یوں ہی گلے ملی تھی۔ ابھی کچھ لمحہ پہلے کااعتماد ہوا ہونے لگا تھا۔
“آؤ بیٹا بیٹھتے ہیں “پہلی عورت مسکراتی ہوئی اسے لیے صوفوں کی طرف آئی تھی۔
صوفے پر بیٹھ کر وہ دونوں اب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہی تھیں جبکہ وہ خاموشی سےسر جھکائے ان کے بات شروع کرنے کی منتظر تھی۔
“بیٹا معاف کرنا ۔ پہچان نہیں پائے ہم”
اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا ۔ اسے اس بات کی تو امید نہیں تھی۔ حیران نظروں سے وہ ان کو دیکھنے لگی تھی۔
“آنٹی میں ۔۔ مجھے ۔۔۔ آنٹی مجھے چاچو مبشر نے بھیجا ہے۔۔ میں غنویٰ ہوں۔ غنویٰ صغیر احمد” وہ اٹکتے ہوئے بتانے لگی۔
“اوہ بیٹا۔ میں سمجھ گئی ” ان میں سے ایک عورت جوش سے بولتے ہوئے اٹھ کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔
“میں کشور ہوں بیٹا ۔ آپ کی پھو پھو ” وہ اس کو بہت نرم نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں ۔ اس کو سمجھ نہ آیا اس وقت وہ خوش ہو یا خاموش رہے۔ جبکہ کشور بیگم بہت جوش میں سامنے بیٹھی آمنہ بیگم کو اس کا بتا رہی تھیں۔
“یہ میری بھتیجی ہے آمنہ! میں نے زہرہ بی سے جس کے متعلق بات کی تھی نا۔ یہ وہی بچی ہے۔ ماشااللہ دیکھو تو کتنی بڑی ہو گئی۔ مجھے تو اب بھی وہی غنویٰ یاد ہے چھوٹی سی” وہ بس خاموش نظروں سے انہیں باتیں کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
“بیٹا مجھے بتایا ہی نہیں آتے ہوئے ۔ میں خود لینے آ جاتی یا کسی کو بھیج ہی دیتی۔ کیسے آئی ہو گی تم۔ اتنا راستہ ہے تانگے پر آئی ہو کیا؟”
“نہیں ۔ رکشے پر ” وہ بس اتنا بول پائی۔
” بھابی میں کھانا لگواتی ہوں اور کمرہ سیٹ کرواتی ہوں ۔ آپ بچی کو زہرہ بی سے ملوائیں تب تک” آمنہ بیگم اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسکی طرف جھکیں ،اس کا ماتھا چوما اور آگے بڑھ گئیں ۔
“بیٹا آؤ میں سب سے تعارف کرواتی ہوں پھر تم چینج کر لینا ۔ بھوک بھی تو لگی ہو گی نا۔ آجاؤ” کشور بیگم اسکا ہاتھ تھامے اٹھیں اور دوسرے ہاتھ سے اسکا بیگ اٹھا کر باہر کی طرف چل دیں جبکہ وہ ان کے ساتھ کھنچتی چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ بہت دیر سے وہاں بیٹھی اسکا انتظار کر ر ہی تھی۔ آج بہت دن بعد اسے فرصت ملی تھی۔ مگر وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی لیٹ تھا۔ بار بار وہ موبائل اسکرین آن کر کے ٹائم دیکھتی اور غصے سے موبائل کو میز پر تقریباً پٹخ ہی دیتی۔
اردگرد ہر طرف شور مچا ہوا تھا۔ کہیں کوئی پوری فیملی لیے آیا ہوا تھا تو کہیں کوئی بزنس پارٹی ارینج تھی۔ کہیں کوئی اپنی روٹھی ‘محبوبہ’ کو منا رہا تھا تو کہیں کسی یونیورسٹی کا گروپ کسی برتھ ڈے پارٹی میں مگن تھا۔ اگر کوئی منہ اٹھائے بیٹھا تھا توا یک وہی تھی۔ ویٹر کئی ایک بار آ کر اس سے پوچھ چکا تھا جس پروہ چڑ چکی تھی۔
وہ لاہور کا ایک پیزا سٹور تھا۔ ہر کچھ فاصلے پر میز کرسیاں سجائی گئی تھیں ۔ دیواروں کے ساتھ کچھ فیملی کیبنز بنائے گئے تھے جنہیں ‘ضرورت’ کے تحت ‘سو کالڈ’ کپلز بھی استعمال کرتے تھے۔ ویٹرز پھرتی سے اپنا کام نمٹانے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ بے زار سی بیٹھی اطراف کا جائزہ لے رہی تھی۔
“سوری سوری سوری یار ٹریفک جام تھا ۔ ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا کسی بائیک کا ۔ پوری روڈ پر گاڑیاں جمع ہوگئی تھیں بس اسی لیے دیر ہوگئی” وہ اچانک اس کے سامنے آیا اور آتے ہی اپنی صفائی پیش کرنے لگا ۔
“ہنہ ! ہر بار نیا بہانہ گھڑ لیا کرو بس تم ” وہ منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے سیدھی ہوئی تھی۔
“ایکسٹریملی سوری یار ۔ میں ٹائم پر ہی نکلا تھا۔ یہ بالکل قدرتی ہی تھا میرا کوئی فالٹ نہیں زوئنہ!” اس نے اپنے کوٹ کا بٹن کھولا اور پینٹ کی جیب سے کچھ تلاشتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
“اب کیا رہ گیا ہے تمہارا؟” وہ اکتاتے ہوئے بولی ۔
“آ۔۔۔ کچھ نہیں ” وہ اس کی طرف مڑا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
“بیٹھو گے یا یونہی بھاگ جانا ہے آج بھی؟” بالوں کو سمیٹ کر دائیں کندھےپر رکھتے ہوئے وہ طنزیہ بولی۔
“ہاں ہاں بیٹھ رہا ہوں یار غصہ کیوں کیے جا رہی ہو ” وہ فوراً بیٹھتے ہوئے بولا۔
وہ اس کی طرف بالکل بے تاثر آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ اسے عجیب سا احساس ہوا۔
“کیا بات ہے زوئنہ؟ آر یو اوکے؟” میز پر رکھے اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے وہ بولا ۔ جواب میں وہ بس ہلکا سا سر ہلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
“کچھ آرڈر کیا؟” وہ بات بنانے کو بولا تو وہ ہاتھ چھڑاتی ہوئی اسے ابرو اچکا کر دیکھنے لگی۔
“اوکے اوکے ریلیکس! میں آئیندہ احتیاط کرو ں گا” وہ دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے بولا ۔
“اوہ پلیز سجی! مجھے اب یہ نہیں کہا کرو۔ چڑ ہونے لگی ہے اب اس سب سے” وہ ماتھے پر آئے بالوں کو جھٹکتے ہوئے تڑخ کر بولی اور کمر کرسی کی پشت سے ٹِکا لی۔
“اچھا بابا سوری۔ اور ابھی بہت بھوک لگ رہی ہے سو پلیز موڈ ٹھیک کرو اور کچھ آرڈر کرو۔ پھر کہیں گھومنے چلتے ہیں ” وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
“ڈرامےجتنے بھی کروا لو خوشی سے کرو گےتم” ناگواری سے بولتے ہوئے اس نے ویٹر کو اشارہ کیا تھا۔
اپنا آرڈر لکھواتے ہوئے وہ اسے بھی نظروں میں لیے ہوئے تھی۔ وہ جو اس سے بات کرتے ہوئے بہت مطمئن لگ رہا تھا اب پھر سے جیبیں ٹٹولنے لگا تھا۔ ماتھے پر سلوٹیں تھیں جبکہ ایک ٹانگ مسلسل ہلا رہا تھا۔ اس کی بے چینی صاف ظاہر تھی۔
“مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟” آرڈر لکھواکر ایک بار پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
“کچھ نہیں یار میرا والٹ ۔۔۔” وہ بے بس سا ہو کر منہ بناتے ہوئے بس اتنا ہی بولا۔
“اُف سجی فار گاڈ سیک” وہ میز پر غصے سے ہاتھ مارتے ہوئے بولی تو وہ جو ڈھیلا سا بیٹھ گیا تھا فوراًً سیدھا ہوا۔
“جسٹ ریلیکس زوئنہ !یار تم بھی کتنی جلدی موڈ خراب کرتی ہو اپنا ۔ آئی ول فکس اٹ تم موڈ ٹھیک کرو اپنا” اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے نارمل کرنے لگا تھا۔
“تم گھر کب جا رہے ہو؟” زوئنہ سختی سے بولی تو وہ جو اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے اسے نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا نا سمجھی میں اسے دیکھنے لگا۔
“ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟ مجھے بس صرف ٹائم پاس کرنے کے لیے رکھا ہوا ہے تم نے؟ ” وہ غصے سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے گویا ہوئی۔
“دیکھو زوئنہ۔۔۔”
“میں جو پوچھ رہی ہوں اس کا جواب دو مجھے تم۔ دو سال ہو گئے ہیں ہم ساتھ ہیں اور دو سال سے میں تمہاری ہر عادت برداشت کر رہی ہوں صرف اس لیے کہ تم مجھ سے پیار کا دعویٰ کرتے ہو ۔لیکن مجھے اگر ٹائم پاس کے لیے ہی رکھا ہوا ہے تو سوری ٹو سے میں آج ہی یہ سب ڈرامہ ختم کرنا چاہتی ہوں” وہ جیسے بھری بیٹھی تھی ۔
“زوئنہ انف! میں اگر خاموش ہوں اور کچھ بول نہیں رہا ہوں تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ تم کچھ بھی بنا سوچے سمجھے بولو گی” وہ دھیمی مگر سخت آواز میں بولا ۔
“تم مجھے میری بات کا جواب دو بس” وہ چبا چبا کر بولی تھی۔
“میں تمہیں ساری سچوئیشن بتا چکا ہوں اور ایک بار نہیں بہت بار بتا چکا ہوں ۔ لیکن تم اگر میری کسی بات کو سمجھ جا ؤ تو سب کچھ سدھر ہی نہ جائے۔ ابھی نہ تو تمہارے گھر میں شادی کی بہت جلدی ہے کسی کو اور نہ ہی میری گھر میں اب بات ہوتی ہے۔ کوئی زمانہ تھا جب زہرہ بی کو میرے رشتے کی بہت فکر ہوا کرتی تھی ۔ مگر اب جب تک وہ اجر کی شادی نہیں کر دیتیں تب تک میرا نام بھی نہیں لیں گی” ویٹر آرڈر سرو کرنے آیا تو وہ خاموش ہوا تھا ۔
زوئنہ کے سامنے پلیٹ سیدھی کرتے ہوئے اس نے پیزا کا ایک سلائس اس میں رکھا اور اپنے سامنے کی پلیٹ سیدھی کرکے اس میں کیچپ ڈالنے لگا ۔ ویٹر جا چکا تھا۔
“دیکھو زوئنہ ! میں گھر میں ابھی بات نہیں کر سکتا ۔ زہرہ بی تو ایک طرف ، اب امی بھی صاف کہتی ہیں کہ اب اجر، فجر دونوں کے بعد میرا سوچیں گی ۔ میں کم از کم اجر کی شادی تک انتظار کرنا چاہتا ہوں ۔ اور فار گاڈ سیک مجھے پریشرائز مت کرو کہ میں تمہیں چھوڑ ہی جاؤں ” چھری کانٹے سے ایک ٹکڑا الگ کرتے ہوئے اس نے کیچپ میں’ ڈبویا ‘اور اس کے منہ تک لایا ۔ جانتا تھا وہ کیچپ سے کتنا چڑتی ہے مگر پھر بھی یہ کام کرنا ضروری تھا تا کہ پچھلی بات کو وہ بھول جاتی ۔
اس نے برا سا منہ بنا کر اسے گھورا تھا۔
“یار اب منہ تو سیدھا کرلو اپنا ۔ میں کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا ۔ اور تمہاری طرف تو کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ مجھ سے زیادہ تو تمہاری طرف آسانی ہے کہ گھر میں سب ہی جانتے ہیں ” اس نے وہی ٹکڑا جو اس کی طرف کیا تھا اب اپنے منہ میں رکھا اور چبانے لگا۔
“کھا تو بہت مزے سے رہے ہو بل کون دے گا ؟ میں نہیں لائی اپنا کریڈٹ کارڈ” وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔
“میں نے کہا تھا آئی ‘ول’ فکس اٹ۔ اس کا اردو تر جمہ کیا جائے تو یہ بنتا ہے کہ میں ‘یقینی طور پر’ اس معاملے کو ٹھیک کر لوں گا” اس نے ایک اور ٹکڑا اپنے منہ میں رکھتے ہوئے کہا اور ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
“کیا؟” زوئنہ نے پوچھا۔
“اگر ڈائیٹنگ پر ہو تو میں کھا لیتا ہوں تمہارا حصہ بھی۔ ڈونٹ وری میں پیسے پورے کرونگا” اس نے کہا اور پِیل(پیزا سلائس اٹھانے والا چمچ) اٹھا کر ایک اور سلائس اپنی پلیٹ میں منتقل کیا ۔
“مجھے ڈائیٹنگ کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر اپنا سوچ لو کہیں پھٹ نا جانا کسی دن” اس نے اپنی پلیٹ کی سائیڈ میں پڑا چمچ اور کانٹا اٹھا یا ، چمچ سجاول کے ہاتھ پر مارا اور کانٹے سے اسکی پلیٹ میں پڑا سلائس اٹھا کر اپنی پلیٹ میں منتقل کیا۔ جواباً وہ ہنس دیا تھا ۔
” اب بات یہ ہے کہ میں ذرا گاڑی سے اپنا والٹ لینے جا رہا ہوں” وہ اٹھتے ہوئے بولا تو وہ جو بہت مزے سے منہ چلا رہی تھی اب ا سے گھورنے لگی۔پاس پڑی چِلی ساس کی بوتل اٹھائی اور سجاول کو دے ماری جو اس نے بہت مہارت سے کیچ کی تھی۔
“ایک بات تو مان جاؤ کہ میں بہت وقت پر کیچ پکڑتا ہوں ” بوتل واپس میز پر رکھتے ہوئے وہ دانت نکالتے ہوئے بولا اور باہر کی طرف چل پڑا ۔
“پاگل” وہ بھی اسے ہمیشہ والے خطاب سے نواز کر کولڈ ڈرنک کے گھونٹ بھرنے لگی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“آپی یار وائی فائی آن کروا دیں پلیز ” وہ منتوں پر اتری ہوئی تھی۔ بس پاؤں پکڑنے کی کسر باقی تھی۔
“کیا مسئلہ ہے فجر کام کرنے دو مجھے ” اجر نے غصے سے اس کو سامنے سے ہٹایا ۔
“کام ہو تو گیا ہے آپکا ۔ اس سڑے ہوئے بینگن کے کپڑے اتنے پیار سے تہہ لگاتی ہیں جیسے بیٹا ہو ۔ میرے لیے تو کبھی اتنا پیار نہیں امڈا آپ کا۔ ابھی بھی کب سے منتیں کر رہی ہوں مان کے نہیں دے رہیں آپ۔ ابھی وہ گلا پھاڑتا سب کا سکون برباد کرتا آ کے کہہ دے آپ نے تو صدقے واری جاتے ہوئے آن کر دینا ہے” وہ ایک دم سے چڑ کے تقریباًً روتی ہوئی بولی۔
اجر جو شرٹ کو سیدھا کر کے تہہ لگا رہی تھی اب اسکے ‘ڈرامے’ کو دیکھ رہی تھی۔
“اب کر بھی دیں آن ۔ میں بس ایک دو کام کر کے آف کر دوں گی پکا” اجر کو سکون سے بیٹھا دیکھ کر وہ پھر سے پہلی جون میں واپس آئی۔
“فجر! تم بہت فارغ رہنے لگی ہو۔ نمل اور منال کو دیکھا ہے کیسے بھاگ بھاگ کر کام کرتی ہیں ۔ میں آج زہرہ بی سے کہہ کر تمہیں کچن کا کام شفٹ کرنے والی ہوں ۔ویسے بھی منال کو پڑھائی بھی کرنی ہوتی ہے اور تمہیں فارغ رہنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے ” وہ پھر سے کپڑے تہہ لگانے لگی تھی۔ اشارہ صاف تھا کہ پاؤں بھی پکڑ لو تب بھی کان نہیں دھروں گی تمہاری بات پر۔
“بس آج میں کمرہ الگ کر رہی ہوں ۔ میں نہیں رہنے والی آپ کے ساتھ۔ ساس والا سلوک کرتی ہیں آپ میرے ساتھ” وہ غصے سے اٹھی اور پاؤں میں جوتا اڑس کر باہر کی جانب چل دی ۔
اجر بھی کپڑے ایک طرف رکھتے ہوئے زہرہ بی کے کمرے کی طرف چل دی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اسے لیے لاؤنج سے ہوتی ہوئی زہرہ بی کے کمرے میں لے گئی تھیں جہاں زہرہ بی وضو کیے نماز کی تیاری کر رہی تھیں اور قدسیہ بیگم ان کی مدد کروا رہی تھیں ۔
زہرہ بی اپنا دوپٹہ لیے شال ٹھیک کرتے ہوئے جب مڑیں تو کشور بیگم کو اس کے ساتھ کھڑے پایا۔
“آجاؤ کشور وہیں کھڑی رہ گئی ہو ۔ بچی کو بھی لے آؤ بٹھاؤ اسے بھی یہاں۔ ” زہرہ بی مسکراتی ہوئی بولی تھیں ۔ قدسیہ بیگم جو بائیں طرف بنی الماری میں شاید کچھ ڈھونڈ رہی تھیں وہ بھی مڑیں۔
“زہرہ بی یہ میری بھتیجی ہے ” کشور بیگم نے کہا اور اس کا بیگ ایک طرف رکھ کر زہرہ بی کی طرف آئیں جو بیڈ پر بیٹھ چکی تھیں۔
“ہاں ابھی آمنہ بتا گئی ہے مجھے۔ آؤ آؤ بھئی بیٹھو سکون سے۔ وہاں سزا میں کھڑی ہوکیا” زہرہ بی نے اس کی جھجھک دور کرنے کو مذاق میں کہا تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی آگے آئی اور زہرہ بی کے سامنے اپنا سر جھکایا جس پر انہوں نے بہت پیار سے اپنا ہاتھ رکھا تھا ۔ اس کا سر اپنے ہاتھوں میں تھاما ۔اٹھایا اور اس کے ماتھے پر ایک پر شفقت بوسہ دیا تھا۔
“کشور !” کشور جو قدسیہ بیگم کو اس کے بارے میں بتا رہی تھیں مڑیں۔
“جی زہرہ بی!” قدسیہ بیگم بڑھ کر اس کی طرف آئیں تو اس نے ان کے سامنے بھی سر جھکا دیا ۔ انہوں پیار دیتے ہوئے اسکا ماتھا چوما اور کمر تھپکی تھی۔
“بچی سفر سے آئی ہے ۔ اس کا سامان کسی بچی کے کمرے میں رکھوا دواور باقی بچیوں کو بھی ملواؤ ان کی بہن سے ۔ ” زہرہ بی نے کہا۔
“جی زہرہ بی میں وہی کرنے جا رہی تھی۔” وہ نرمی سے بولیں ۔
“اور سنو کچھ کھانے کو بھی لیتی آنا”
“جی آمنہ کھانا بنا رہی ہے”
“نہیں نہیں کھانا نہیں۔ کھانا سب کے ساتھ ہی کھائیگی بچی بھی۔ ابھی تم پھل وغیرہ بھجواؤ۔ اوربچی کو بھی کمرے میں لے جاؤ تا کہ تھکن دور کرلے ۔ ” انہوں نے کہا ۔
“جی اچھا ۔ آؤ بیٹا فریش ہولو ” کشور بیگم نے اسے مخاطب کیا تو وہ جو زہرہ بی کے پاس بیٹھی تھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
“کشور! میں اسے بچوں سے ملواتی ہوں تم فروٹس لے آؤ وہیں کمرے میں ۔ ہم نماز بھی ادا کر لیں گے تب تک اور بچی کو بھی کمپنی مل جائیگی” قدسیہ بیگم آگے بڑھیں تو کشور مسکرا کر باہر کی جانب چل دی تھیں۔
اسے لیےقدسیہ بیگم بھی باہر نکلیں تو اجر سامنے سے چلتی آرہی تھی۔
“امی !فجر کو آپ سمجھائیں گی یا میں زہرہ بی سے کہوں؟” وہ ایک دم سے بولی تھی۔ قدسیہ ناگواری سے اسے دیکھنے لگیں ۔
“کوئی تمیز نامی چیز خو دمیں بھی دریافت کرلو یا تمہارے لیے ‘میں ‘زہرہ بی سے بات کروں پھر؟” وہ یونہی سخت لہجے میں گویا ہوئیں تو اجر جو آتے ہی فوراً بنا دیکھے بولی تھی اب ان کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹھکی۔
“سوری امی! غصے میں تھی ۔ ” وہ شرمندہ سی بولی ۔ کسی غیر کے سامنے اس طرح بولنے اور ماں سے ہونے والی تازہ تازہ عزت افزائی نے اسے حد درجہ شرمندہ کیا تھا۔
” یہ تمہاری بہن ہے ۔ اسے کمرے میں لے کر جاؤ ۔ فریش ہوجائے تو کچھ کھلاؤ پلاؤ اسے اور کمپنی دو ۔کوئی نرم شال بھی نکال کر دو اسے۔ ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے ہیں بچی کے۔” انہوں نے اسے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اپنی کہ سنائی تھی۔ اجر منہ اٹھائے انہیں نا سمجھی سے دیکھنے لگی۔
“کشور کی بھتیجی ہے بیٹا یہ۔ بہن ہے تم سب کی۔ “انہوں نے وضاحت دی۔
“اوہ! آؤ کمرے میں چلتے ہیں ” اجر نے اس کا بیگ پکڑا او ر اسے لیے کمرے کی جانب چل دی جبکہ قدسیہ بیگم کچن کی طرف مڑ گئیں کہ انہیں بھی کام میں اپنی دیورانیوں کا ہاتھ بٹانا تھا کیونکہ باقی عوام اس وقت اپنے اپنے کمروں میں گم تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...