کئی لوگ تھے جو بچھڑ گئے کئی نقش تھے جو بگڑ گئے
کئی شہر تھے جو اجڑ گئے ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے
وہ عجیب منظرِ خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا
کبھی یوں لگا کوئی اور ہے کبھی یوں لگا کوئی اور ہے
’’ میں نے کہیں بہت غلط تو نہیں کر دیا ۔‘‘ اس نے بیڈ کی کراوْن سے ٹیک لگا کر خود سے سوال کیا۔
’’کر کے پوچھ رہی ہو کہ ٹھیک کیا یا غلط؟ اگربہت غلط نہ ہوتا تو تمہیں اتنی بے سکونی نہ ہوتی۔ ‘‘ کوئی اس کے اندر پوری قوت سے چلایا تھا۔
کھڑکی سے آنے والی روشنی میں بھی اس کے نین نقش واضح نظر نہیں آ رہے تھے ۔
کچھ ایسا ویسا کرنے کے بعد اپنی شکل خود دیکھنے کا دل نہیں کرتا!
روشنی کہاں اس کے چہرے کا طواف کرنا پسند کرتی۔۔۔۔
’’اتنا بھی برا نہیں کیا ۔اس کی وجہ سے میں ریجیکٹ ہو جاتی ہوں۔ ‘‘ اس نے خود کو تسلی دی۔
خوبصورت نقوش پر سوچ کا عکس پڑ رہا تھا۔وہ بد صورت لگ رہی تھی۔
’’ کوئی کبھی کسی دوسرے کے لئیے ریجیکٹ نہیں ہوتا ۔ہمیشہ اپنی ہی کسی وجہ سے ریجیکٹ ہوتا ہے ۔وہ بے چاری تو تم سے ہمدردی کر رہی تھی۔ ‘‘ کوئی اس کے اندر ایک بار پھر چلایا۔
’’ہونہہ چیز کیا ہے وہ؟ وہ مجھے نصحیت کرے گی ؟مجھ سے ہمدردی کرے گی ؟کیوں؟ وہ تو میرے ہی جتنی ہے ۔۔۔وہ کون سا آسمان سے اتری ہے؟ سانولی سی اور اگر سفاک سچ بولا جائے تو کالی سی لڑکی کا مجھ سے کیا مقابلہ ؟میں اس کے اعتماد کے نیچے آ کر کیوں دب جاوْں ؟‘‘اس نے اڑیل پن سے اٹھ آنے والی آوازوں کا گلا گھونٹا تھا۔ وہ بے چینی سے اٹھ کر اپنے بال باندھنے لگی۔ روشنی کی کرنیں اس کی ہنسلی کی ہڈی پر پڑی اور اس کی خوبصورتی سہہ نہ سکیں تو شرما گئیں ۔
کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو بس حُسن کی شاہد بنتی ہیں۔کچھ انسان بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جن کے لئے حُسن سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔
’’ تم نے خود اس سے مشورہ لینا چاہا تھا۔۔۔ اگر تمہیں ٹیچرز نے اس مقابلے کے لئیے نہیں بھیجا تو اس میں اس کا کیا قصور ؟ تم نے اس کی خوشی کیوں خراب کی ؟‘‘ کوئی مسلسل سوال کر رہا تھا ۔اندر سے آنے والی آوازیں یقیناََ کمزور نہیں تھی۔
’’ افوہ ۔۔۔اب ایسا بھی کیا کر دیا۔۔۔ بس اس کی پھوپھو کو یہی کہا ہے نا کہ پاکیزہ آج حماد کے ساتھ ڈیٹ پر گئی ہے ۔ اگر اس کا کردار اتنا ہی مضبوط ہوا تو پھوپھو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ شیلڈ لے کر گھر گئی ہے ۔وہ سمجھ جائیں گی کسی کی شرارت ہے۔ اگر میں مقابلے میں نہیں جا سکی اور ابھی تک پر اعتماد نہیں ہو سکی تو کیا ہوا پوری جیت کا مزہ تو اسے بھی نہیں لینے دوں گی ‘‘
آخر کار اس نے اپنا دامن جھاڑ لیا تھا۔
وہ اٹھ کر باہر آئی اور چھپاک چھپاک ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے لگ گئی۔
ماہ روش نے اپنے گیلے خوبصورت ہاتھوں کو سراہا تھا لیکن آئینے کو وہ نہیں دیکھ سکی تھی۔وہ کیا ہے ناں کہ ۔۔۔۔ کچھ ایسا ویسا کرنے کے بعد اپنی شکل خود بھی دیکھنے کا دل نہیں کرتا !
۔۔۔۔۔۔۔
جب کشتی ثابت و سالم تھی ،ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستی کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
اس نے اپنا بستہ وہیں صحن میں چھوڑا جس میں بہترین پینٹنگ پر دی گئی شیلڈ اور انعام میں ملا چیک اس عجیب خوش آمدید پر افسردہ تھا۔ وہ خشک آنکھیں لئے اپنے کمرے میں آئی اور چٹخنی چڑھا دی ۔ بس ہوگئی تھی۔۔۔بس اتنا ہی انتظار ہو سکتا تھا۔۔۔ آنسووْں نے برداشت کے بندھن سے دامن آذاد کروایا ۔اب وہ اس کے چہرے پہ آئی سیاہ زلفوں کو نم کر رہے تھے اور اس کے گال بھگو رہے تھے ۔
’’ میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں ؟میں کس لئے ہوں؟ میں کچھ بھی کر لوں۔۔۔جو مرضی بن جاؤں ۔۔۔ میرا ماضی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا ! مجھے ان گناہوں کی سزا ملتی رہے گی جنہیں میں نے کیا ہی نہیں ۔ میں یتیم تھی یتیم ہی رہوں گی۔ مجھے لاوارث ہی کہا جائے گا، مجھے لاوارث ہی ٹریٹ کیا جائے گا۔ میری محبت کا کوئی اجر نہیں ہے ، میری محنت کا کوئی صلہ نہیں ہے !
مجھ سے ایک بار تو پوچھتی کہ میں کیوں لیٹ آئی ہوں ؟ مجھ پر الزام لگا دیا بغیر سوچے بغیر سمجھے۔۔۔اللہ جی مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس بھری دنیا میں جب کوئی میرا ہے ہی نہیں ۔۔۔۔ جب کسی کو میرا احساس ہی نہیںہے تو میں کیوں زندہ ہوں؟مجھے تو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ میرے لئیے مرنا جینے کی نسبت ہمیشہ آسان رہا ہے!
میں ہی ڈھیٹ تھی۔یہ میں ہی تھی کہ کبھی مرنے کو جینے پر ترجیح نہ دی۔ مجھے اس روز مر جانا چاہیے تھا جس روز میرے والدین مرے تھے ۔اگر میں اس دن بھی نہیں مری تو پھر تب مر جاتی جب میری سہیلیوں کو سرد گرم سے بچانے کے لئے ان کے بھائی ہوتے تھے اور میرا کوئی بھائی نہیں تھا!میرا کوئی بھائی نہیں تھا جو مجھے سکول چھوڑتا۔۔۔ میرا کوئی بھائی نہیں تھا جو دنیا کی اٹھتی نظریں روکتا ۔۔۔ لیکن نہیں میں تب بھی نہیں مری۔۔۔ میں نے جینے کو ترجیح دی! میں نے اپنے اندر اپنا بھائی خود پیدا کیا۔ اپنے آپ کو مضبوط کیا اور لوگوں سے اپنے حصے کی جگہ وصول کر زمین کے سینے پر مونگ دلتی رہی ۔
مجھے تو تب مر جانا چاہیے تھا جب میرے پاس گھر گھر کھیلنے کو کوئی ساتھی نہیں ہوتا تھا۔ میں اور میری گڑیا اکیلے رہ جاتے تھے۔ میری الجھنیں سلجھانے کو کوئی نہیں ہوتا تھا ۔میرے بال بنانے کے لئیے کسی بہن کا ہاتھ نہیں تھا لیکن میں نہیں مری ۔میں تب بھی نہیں مری !
میں نے سوچا مجھے دنیا میں کچھ ایسا کرنا ہے جو یاد رکھا جائے۔۔۔ میں کیسے بھول گئی کہ یہ دنیا فانی ہے۔۔۔یہاں کچھ بھی یاد نہیں رکھا جاتا! میں کیسے بھول گئی کہ یہ دنیا میرے ہوتے ہوئے مجھے کچھ نہیں سمجھتی ۔۔۔میرے بعد کیا خاک سمجھے گی؟ میں کیسے بھول گئی قسمت اور خوش قسمتی میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔ میرے پاس قسمت تو ہے لیکن خوش قسمتی نہیں؟ ‘‘
وہ خود کلامی کر رہی تھی۔ اس کے آنسو گال سے گردن تک بہتے چلے جا رہے تھے۔
وہ نیچے فرش پر بیٹھی تھی ۔اس کا سر بیڈ پہ ٹکا ہوا تھا۔نم بال اس کی گردن پر چپک رہے تھے۔اسے بالکل بھی برا نہیں لگ رہا تھا۔اس وقت تو وہ چاہتی تھی کہ اس کے لمبے بال کسی دھاری دار چاقو میں بدل جائیں اور اس کی گردن کو چیر کر رکھ دے۔
’’ مجھے اب مر جانا چاہئیے ‘‘ بس اسی سوچ کی باز گشت دماغ میں سنائی دے رہی تھی۔
عین اسی لمحے تکیے کے بیچے پڑا موبائل تھرتھرایا ۔ بائیں ہاتھ کی پشت سے گال صاف کرتے ہوئے اس نے اپنی سسکی دبائی ۔ موبائل کی سکرین کو دیکھا۔۔۔ انجان نمبر سے آنے والی کال منتظر پائی۔ وہ مکمل یقین اور ارادے سے مرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی تھی ۔
موبائل کو مٹھی میں دبائے اضطرابی انداز میں قدموں پہ پورا زورلگا کر کھڑی ہوئی تھی لیکن پھر بھی لگتا تھا کہ گر جائے گی۔ غصے سے اس کا وجود اس کے اپنے قابو میں نہیں تھا ۔ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔ بیڈ کی پائنتی تھام کر اس نے خود کو سہارا دیا۔ وہ لمبے لمبے سانس بھرنے لگی۔ ایک آتش تھی جو اسے جھلسا رہی تھی۔ شام کی خاموشی میں ماتم کا سا سماں تھا۔ اسے لگا بین دستک دیتے ہوئے اس گھر میں داخل ہو گئے ہیں ۔ ڈرے ہوئے انداز میں کمرے کے دروازے کو تکا۔ اس کی نظر درز سے آنے والی روشنی کی طرف نہیں تھی۔۔۔ وہ اندھیرا دیکھ رہی تھی صرف اندھیرا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موبائل تو اس نے کان سے لگا لیا۔
’’السلام علیکم !تسکین بہت بہت مبارک ہو آپ کو ‘‘ انجان نمبر سے آنے والی کال تھی۔ وہ تھوڑا حیران ہوئی۔ موبائل کان سے ہٹا کر سکرین پہ آنے والے نمبر کو پہچاننے کی خاطر دیکھا لیکن پھر بھی پہچان نہ پائی ۔
’’وعلیکم السلام۔ جی کون؟ میں نے پہچانا نہیں۔ ‘‘ اس نے حیران لہجے میں سوال کیا۔
’’ میں پاکیزہ کی ٹیچر کنیزبات کر رہی ہوں۔ اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اس کے ساتھ گھر آؤں آپ کے لیکن میرے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔اس لئے مجھے گھر آنا پڑا۔ قومی سطح کے مقابلے میں اول آنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں تو ماشاء اللہ پاکیزہ کی ذہانت پہ اس کی صلاحیت پہ حیران ہوں۔ بن ماں باپ کے بچی ہے لیکن ہیرا ہے۔ ‘‘ مس کنیز اپنا تعارف کروانے کے بعد بلا تکان بولنے لگ گئیں ۔
’’ جی جی! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ‘‘ تسکین تو بوکھلا ہی گئی ۔
’’آپ کو بھی کریڈٹ جاتا ہے آپ نے بچی پر بند نہیں باندھے بلکہ ہمیشہ اس کو ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے ۔ میں پھر کبھی آپ کے گھر آوْں گی۔ اپنا خیال رکھئیے گا۔ ‘‘ تسکین کی بوکھلاہٹ سے مس کنیز کو اور کچھ سوجھا نہیں تو انہوں نے فون رکھ دیا۔
اسے وہ سب پھول یاد آ رہے تھے جو اس نے کچھ دیر قبل پاکیزہ پر برسائے تھے ۔
’’مجھے بھی کریڈٹ جاتا ہے۔۔۔ میں نے بند نہیں باندھا! ‘‘ اس نے خود کلامی کی۔
’’ہا ں میں نے توڑنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘ خود کو خود ہی کہتے ہوئے اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھر گئی۔
’’لیکن میں نے جان بوجھ کر اسے نہیں توڑا۔مجھے اکسایا گیا تھا۔‘‘خود کلامی جاری تھی۔
اسے اب فورا پاکیزہ کے ٹوٹے دل کو جوڑنا تھا نظریں درز سے آتی ہوئی روشنی کے سنہرے پن سے الجھ گئی ۔
’’پھر وہ کال کس کی تھی ‘‘ اس نے خود سے پوچھے جانے کے قابل سوال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گلیوں میں گھومتی ہیں ہزاروں کہانیاں
چہروں پہ نقش وقت کی پہنائیوں کو دیکھ
’’ہیلو ۔السلام علیکم‘‘
’’وعلیکم السلام !کون بول رہا ہے؟ ‘‘
’’آپ کی خیر خواہ بات کر رہی ہوں۔ آپ کو پاکیزہ کے بارے میں کچھ بتانا تھا‘‘
’’پاکیزہ کے بارے میں۔۔۔ خیریت ؟ وہ ٹھیک تو ہے ؟‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن شاید آپ کو ٹھیک نہیں رہنے دے گی ‘‘
’’کیا مطلب ؟ آپ کون ہیں؟ کیا کہنا چاہتی ہیں ؟‘‘اس کے ہوش اڑے تھے۔
’’مطلب صاف ہے پاکیزہ کو آپ کی عزت کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں ہے ۔آپ کی تربیت کو چولہے میں جھونک کر وہ آج ڈیٹ پر گئی ہے۔‘‘
’’کون ہیں آپ ؟کیوں فضول باتیں کر رہی ہیں ؟‘‘وہ وقتی طورپر طیش میں آئی تھی۔
’’میں فضول باتیں نہیں کر رہی ۔سچ بول رہی ہوں۔ اپنے سکول کے دوست حمزہ کے ساتھ اس کا معاشقہ چل رہا ہے۔ آج محبت کو نذرانہ پیش کرنے گئی ہے ۔آپ کو یقین نہیں آتاتو دیکھ لیجئیے گا وہ آج کتنے بجے گھر آتی ہے ۔‘‘
’’ہیلو ۔۔۔ہیلو۔۔۔ کون ہیں آپ ؟‘‘
تسکین ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گئی تھی اور فون دوسری طرف سے بند کر دیا گیا تھا۔
ماہ روش نے اپنی معلومات کی آگ سے تیلی لگا دی تھی ۔اس فون سے بہت کچھ بدلنے والا تھا ۔کون جانتا تھا یہ ایک تیلی کہاں آگ لگانے والی تھی ۔کس کو معلوم تھا۔۔۔
تیزی سے بھسم کر دینے والی آگ کے رنگ کچھ اور گہرے ہو گئے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو آگ لگائی تھی تم نے ، اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی،ہم چھور نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے
’’مجھے اب مر ہی جانا چاہئیے کسی کو میری ضرورت نہیں ہے ۔کوئی میرا نہیں ہے ۔میرے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا ۔‘‘ اپنے خیالات کا خود کلامی کے انداز میں اظہار کرتے ہوئے وہ بیڈ کے ساتھ پڑے دراز کو کھولنے لگی۔
اس میں بلیڈ پڑا تھا ۔۔۔
بس کچھ لمحوں کی دوری پر تھا زندگی اور موت کا فاصلہ !
وہ ٹوٹ چکی تھی ۔۔۔ایک ایسا الزام جو اس نے کیا بھی نہیں تھا ۔اس کا دل چھلنی ہو گیا تھا ۔
چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے بہت بڑے خواب چکنا چور ہوئے تھے اور لہو رس رس کر اسے شکست خوردہ کر رہا تھا۔
ساتھ ہی موبائل فون کی گھنٹی بجی، وہ کسی خوفناک خواب سے جاگی اور فون کو کان سے لگا لیا ۔
’’ہیلو ۔۔پلیز پلیز ۔۔۔فون نہیں رکھنا۔ ‘‘ دوسری طرف آفتاب تھا۔
’’بولو کیا مسئلہ ہے؟ ‘‘پاکیزہ کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
’’میں مر رہا ہوں تمہارے بغیر ‘‘ وہ فریادی ہوا۔
’’ تو تم مر کیوں نہیں جاتے ایک ہی دفعہ۔ ‘‘ وہ اکتائی۔ آواز پرنمی غالب تھی۔
’’تمہیں کیا ہوا؟ تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے ۔۔۔آواز ٹھیک نہیں لگ رہی ۔‘‘ وہ بری طرح فکر مند ہوا۔
’’ مجھے کچھ ہو یا نہ ہو کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ اس دنیا میں میرا ہے ہی کون ؟‘‘ آنسو آنکھوں سے یوں ٹوٹ کر گرے یسے آسمان سے تارے ٹوٹ کر گرتے ہیں ۔انہیں تو بس سامع کی ہی ضرورت تھی۔
’’کیا ہوا ہے پاکیزہ؟ پلیز ایسے نہیں روتے۔کیا ہو گیا ہے ؟مجھے فرق پڑتا ہے ۔مجھے بہت فرق پڑتا ہے۔ مجھ سے پوچھو تمہارا ہونا یا نہ ہونا کیسا ہے ۔میں تمہاری آواز سن لیتا ہوں یا تمہاری موجودگی محسوس کر لیتا ہوں میرا دن سنور جاتا ہے، میں ہلکا پھلکا ہو جاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کسی بلیسنگ کی طرح اللہ نے مجھے تم سے نوازا ہے، میں اللہ کا گناہگار بندہ اور مجھے تم دے دی گئی ہو۔ ‘‘ وہ بے ربط جملے کہہ رہا تھا۔ اسے بولنے کا موقع ملا تھا۔
’’میں تمہاری نہیں ہوں۔یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی۔ بس اوٹ پٹانگ بولنے لگ جاتے ہو ‘۔‘ وہ چڑ گئی۔
’’تم میری ہو ورنہ ہم ابھی بات نہ کر رہے ہوتے ۔کوئی کنکشن تو میرے اور تمہارے درمیان ہے ورنہ تم روز کی طرح آج بھی انجان نمبر دیکھ کر فون ہی نہ اٹھاتی ۔مان لو کہ ہمیں ایک دوسرے کی تنہائی دور کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔اگر تمہارا اور میرا ملنا نصیب میں نہ لکھا ہوتا تو مجھے تمہارا نمبر بھی نہ ملتا۔ تقدیر میں ہمارا ملنا لکھا ہے اس لئے تو راستے بنتے جا رہے ہیں ‘‘
وہ لڑکی تھی اور اس وقت ویسے بھی دکھی ہوئی تھی۔دم بخود اس کے کھل جا سِم سِم کا ورد سننے لگی۔
؎’’تم ایک دفعہ میرا ہاتھ تھام لو تو راستے کو پھولوں سے بھر دوں گا۔ تم نہیں ہوتی تو مجھے لگتا ہے کوئی ادھورا پن سا ہے کوئی کمی سی ہے ۔میں اس ادھورے پن کو کوئی نام نہیں دے سکتا ۔سچ ہے تو یہ ہے کے تمہارے نہ ہونے سے میں نامکمل سا رہتا ہوں۔ ‘‘ وہ اس سے کہہ رہا تھا یا سحر پھونک رہا تھا ۔ہوا کو سمجھ نہیں آیا کہ کیسا فسوں اس کے کندھے پر لاددیا گیا ہے ۔
پاکیزہ کے بہتے آنسو تھم چکے تھے۔اسے اب رونانہیں آرہا تھا۔
’’ میرے نہ ہونے سے کوئی فر ق نہیں پڑتا۔ لفظوں کے جال نہ پھینکو مجھ پر ۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لفظوں کے جال سے۔ ‘‘ وہ تین سیکنڈ بعد بولی تھی لیکن اس کا لہجہ جھوٹ کی چغلی کھا رہا تھا۔
’’اب بتا بھی دو۔ کیا ہوا ہے ؟میں بھی تو تمہیں اپنی ساری پریشانیاں بتاتا ہوں۔ دوست نہ سمجھو۔۔۔ ڈسٹ بن سمجھو !اپنے اندر کا غبار نکال دو۔ ‘‘ وہ خود کو گرا کر اسے اٹھا رہا تھا۔
’’دوست ڈسٹ بن نہیں ہوتے وہ جیکٹ کی اندرونی طرف والی جیب ہوتے ہیں ۔جو چیزیں ہم دنیا میں کسی کو دکھا نا نہیں چاہتے۔ان کے حوالے کر کے بے فکر ہو جاتے ہیں۔خیر میں آج قومی سطح پر پینٹنگ کمپٹیشن جیت کر آئی ہوں لیکن پھوپھو نے اسکو کوئی weightage ہی نہیں دی۔ ‘‘ وہ پگھل گئی۔ حقیقت تو خود بھی نہیں بتا سکتی تھی ۔ابھی تک شاک میں تھی ۔
’’حق ہاہ! تم نے مجھے بتایا نہیں ۔مانو نہ مانو تمہیں میری آہ لگی ہے ۔یہاں یہ بندہ غریب تمہاری آواز سننے کو ترس رہا ہے اور تم اس چیز کا افسوس کر رہی ہو کہ کوئی تمہیں اہمیت نہیں دیتا۔ ضروری تو نہیں کہ آپ کو ہر جگہ سے بہت پیار ملے ، اگر کسی ایک جگہ سے پیار نہ ملے تو یہ مطلب نہیں کے آپ کے نصیب میں پیار نہیں ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اس جگہ سے آپ کو پیار نہیں ملتا ۔کہیں اور سے ہو سکتا ہے بہت زیادہ پیار آپ کا منتظر ہو ۔‘‘ بات کے اختتام تک لہجہ شرارتی ہو۔ا
’’ لیکن آفتاب میری زندگی میں تسکین پھوپھو کے علاوہ ہے ہی کون۔ میں نے ان کے علاوہ اپنی زندگی میں کوئی رشتہ نہیں دیکھا ۔وہ جیسی بھی ہیں ،میرا ہر رشتہ ہیں ۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی ہر بات سے ،ان کے رویے سے متاثر ہوتی ہوں ۔‘‘ آفتاب کی ساری باتیں اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی تھی۔
’’میں ہوں ناں تمہاری زندگی میں۔۔۔پاکیزہ! رشتے وہ نہیں جو ہمارے ساتھ دنیا میں آتے ہیں۔ وہ تو بس مجبوریاں ہوتی ہیں جن کے ساتھ بندہ بندھ کر رہ جاتا ہے، رشتے تو وہ ہوتے ہیں جو نبھائے جاتے ہیں ۔اگر تمہارے ساتھ پھوپھو پیار نہیں کر رہی، اظہار نہیں کر رہی تم ہضم کر لو ۔وہ کم از کم تمہارے ساتھ تو ہیں ۔اگر تم ان سے پیار کرتی ہوتو ان کا ہونا تمہارے لئے کافی ہونا چاہیے ۔جیسے مجھے تمہارا ہونا کافی لگتا ہے۔ہر جگہ سے سب کچھ تو نہیں ملتا ناں۔‘‘ اپنی ذات کی پیچیدگیوں میں الجھا ہوا وہ شخص اسے دھیمے لہجے میں سلجھا رہا تھا۔
شکریہ آفتاب تم سے بات کر کے بہت اچھا لگا ۔میں ریلیکس ہو گئی ۔ایک منٹ پہلے تک میں سوچ رہی تھی کہ خود کو نقصان پہنچا لوں۔ خود کو کچھ کر لوں ۔تم نے مجھے ایزی کر دیا ہے ۔ ‘‘ اس نے کھلے دل سے آفتاب کے کردار کو سراہا۔
’’شکریہ ادا کرنا ہے تو بس میرا نمبر ان بلاک کر دو ۔تمہاری آواز سن کر تمہیں نہیں پتا میں کتنا ریلیکس ہو گیا ہوں ۔اور خبردار ایسا سوچنا بھی مت کہ تم خود کو کچھ کر لو گی۔ تمہیں اپنا نہیں خیال میرا تو خیال کرو۔ میں تمہارے بغیر کیا کروں گا۔۔۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے ‘‘۔
بہت خا ص لہجے میں آفتاب عام سی باتیں کہہ رہا تھا۔ آنسو پاکیزہ کی پلکوں کا رستہ بھول چکے تھے ۔اب کسی طرف سے ملنے والی اہمیت نے سانولاہٹ کو تمتماہٹ میں بدل دیا تھا۔ وہ بستر پر بیٹھ گئی، ساری پریشانی ساری کلفت اڑن چھو ہو گئی تھی ۔آفتاب جتنا باہر سے خوبصورت ہے اس سے کہیں ذیادہ اندر سے پیارا ہے۔اسے ایسا محسوس ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شہر کسی آئینہ کردار بدن پر
الزام لگاتے ہوئے ڈرتا بھی نہیں ہے
تسکین کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیسے پاکیزہ کا سامنا کرے ۔اتنی سخت سست سنانے کے بعد کیسے معافی مانگے۔
سخت لفظ بولنا جتنا آسان ہے معافی مانگنا اتنا ہی مشکل ہے!
وال کلاک کی ٹک ٹک ہوتی ہی چلی جا رہی تھی مگر وہ کمرے میں جامد کھڑی تھی۔عمرِرواں کے سفر نے اس کے چہرے کی تازگی چرا لی تھی۔اب غازے کی مدد سے چہرے کو سنوار رکھا تھا۔اس وقت غازہ بھی مضحکہ خیز معلوم ہورہا تھا۔
’’چلو غلطی ہو گئی تو کیا ہوا ۔معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے پاکیزہ تو مجھ سے چھوٹی ہے۔ ‘‘ وہ خود سے ہم کلام ہوئی ۔
’’باہر روشنی کونے کھدروں سے نکل کر اندھیرے میں گم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ مشکل سے قدم اٹھاتی باہر آئی۔ معافی مانگنے کے خیال سے کسلمندی چھا گئی تھی ۔
’’بھائی نے بھی تو میرے ساتھ اچھا نہیں کیا، میری تنہائی کا خیال نہیں کیا ۔منوں مٹی تلے جا سوئے ۔انہوں نے تو مجھ سے معافی نہیں مانگی ۔‘‘ ہم کلامی جاری تھی ۔ہاتھ سویٹر میں ڈالے ہوئے وہ کمرے سے نکل آئی ۔کہنی میز پر پڑے پاکیزہ کے بیگ سے متصادم ہوئی ؎اور وہ شور کی آواز پیدا کرتا نیچے گر گیا ۔
’’کتابوں سے ایسا شور ‘‘۔۔۔ وہ تھوڑا حیران ہوئی۔
پنجوں کے بل نیچے زمین پر بیٹھ کر بیگ کھولا ۔نیم اندھیرے صحن میں اس کی آنکھیں چندھیا گئی ۔
یہ بہت خوبصورت سلور کی ٹرافی تھی جس کے حصوں کو الگ الگ کر کے زبردستی بیگ میں پورا کیا گیا تھا ۔
’’ بھائی اٹھ کر نہیں آیا تو کیا ہوا؟ میں تسکین تھی وہ پاکیزہ ہے۔ میں عام سی تھی وہ بہت خاص ہے۔میںنے زندگی کو جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پر قبول کر لیا۔اس نے پلکوں پر خواب ٹکا کر زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی ہیں۔اس کا جینے پر مجھ سے ذیادہ حق ہے‘ ‘۔
شہادت کی انگلی کا رخ ہتھیلی کی طرف موڑ کر اس نے پاکیزہ کے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔
دروازے کے پار نارمل سے تاثرات لئے سوچتی کالی آنکھیںاکتاگئی۔بہر حال وہ دروازہ کھول کرسامنے کھڑی ہو گئی ۔
’’سوری پاکیزہ ۔۔۔میں بہت پریشان تھی۔ بیٹا مجھے پتا ہی نہیں چلا ۔تم آئی تو پریشانی میں میرے منہ سے غلط سلط نکل گیا حالانکہ میں جانتی ہوں تم میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ تم تو بہت شاندار بیٹی ہو، ان فیکٹ میری بیٹی ہو ۔تم نہ ہوتی تو اید میرے پاس جینے کا جواز ہی نہیں تھا۔ ـ‘‘
سارا پیار ایک ہی دفعہ میں امڈ کر سامنے آیا تھا ۔
کسی صلاحیت کا سنہرا رنگ کیوں ضروری ہوتا ہے ؟ صرف اپنائیت کے اجلے پن سے گزارا کیوں نہیں کیا جا سکتا ۔ ہم انسانوں کو ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے قابل کیوں جانتے ہیں ؟ ہم ان کو انسان ہونے کے ناطے عزت کیوں نہیں دیتے ؟ ہم ان سے جرے اپنے تعلق کو اہمیت کیوں نہیں دیتے؟سوال اندھیرے میں سیاہ حاشیہ بناتے معدوم ہو رہے تھے ۔
’’اٹس اوکے ‘‘ پاکیزہ کے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ تھی ۔اس پر ان الفاظ کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا تھا۔ان الفاظ کی ضرورت اسے تھوڑی دیر پہلے تھیجسے کسی اور نے پورا کر دیا۔ضرورت پوری ہوگئی تھی اب میزبان سے فرق نہین پڑتا تھا۔سب سے پہلے جو مرہم لگاتا ہے وہی طبیب یاد رہتا ہے۔
تسکین پھوپھو نے اسے گلے سے لگایا ہوا تھا پاکیزہ کے ہاتھ البتہ بالکل سیدھے تھے ۔وہ تسکین کے وجود کے گرد لپٹے ہوئے نہیں تھے ۔ روشنی آہستہ آہستہ کرتے اب مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
انسان تنہا کچھ بھی نہیں جیسے جیسے شعور کی سیڑھی پہ قدم رکھتا ہے تو کچھ اختلافات اس کے اندر جنم لیتے ہیں ، کچھ لوگوں کے بارے میں رائے قائم ہو جاتی ہے ۔ بھری دنیا میں کس کو فکر ہے کہ کسی ایک کے خیالات سنے ۔ہم کسی رہنما کی بھی نہیںسنتے جب تک وہ سیاستدان نہیںبن جاتا۔ ایسے خیالات کون سنے جو خام ہیں۔۔۔ جب تک یہ خیالات اندر رہتے ہیں لاوا پکتا رہتا ہے ۔ ان خیالات کو بھی ایک مین ول چاہیے ۔ جس کا جب چاہے ڈھکن کھول لیا جائے اور اپنے خیالات کا ریلااس میں انڈیل دیا جائے ۔
گزرتے ماہ و سال میں وہ ایک دوسرے کے لئے مین ہول ہی بن گئے تھے ۔
’’میں کھانا کھانے لگا ہوں ‘‘
’’تم نے صبح سے پانی نہیں پیا ۔ چلو دو گلاس پانی پی کر میسج کرو ‘‘
’’یار ہوم ورک بعد میں کر لینا۔ پہلے میری بات سنو ‘‘
’’کس کلر کے کپڑے پہنے ہیں؟ ‘‘
’’ٹھنڈ میں آئس کریم نہ کھاو۔ْ‘‘
’’ابھی تم ساتھ ہوتی تو اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر دیتا ۔‘‘
’’تم سے بات کر کے نیند اچھی آتی ہے۔ ‘‘
’’میں اکیڈمی کے راستے میں ہوں لیکن تم ساتھ ساتھ بات کرو ‘‘
’’رات کے پہلے خواب کو سونے سے پہلے شب بخیر! ‘‘
’’صبح کے پہلے خیال کو میری طرف سے صبح بخیر! ‘‘
’’یہ موسم ہو ،تم ساتھ ہو اور کسی دریا کنارے میں تمہیں گانا سناوْں۔ ‘‘
’’موسم ہے بارش کا اور یاد تمہاری آتی ہے۔ ‘‘
’’مجھے تمہار ی بالکل یاد نہیں آ رہی۔ ‘‘
’’مجھ کو ہیں کام کچھ اور بھی کچھ تو میرا خیال کر ۔۔۔
آتے ہو جب خیال میں جاتے نہیں خیال سے‘‘
’’ میںہر لڑکی کو اس امید سے دیکھتا ہوں کہ شاید تم سے بہتر ہوں لیکن واللہ جو کشش تم میں ہے وہ کسی میں نہیں ۔‘‘
’’آج میں نے تمہیں خواب میں دیکھا تھا ۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم تم میرے لئے کیا ہو۔تمہارے آنے سے مجھے زندگی کا مقصد مل گیا ہے۔‘‘
’’اب خواب میں ملیں گے ‘۔‘
’’بن تیرے کیا ہے جینا! ‘‘
اس جیسے کئی میسجز پاکیزہ روز پڑھتی تھی اور ہنس دیتی تھی۔ یہ کیسا پاگل سا لڑکا ہے اس کا پاگل پن تو کم نہیں ہوتا ،روز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔ یہی بات جب اس سے کہتی تو وہ کہتا
’’میرا اسٹار سرطان ہے میرے اندر تمہارا پیار بھی سرطان کی طرح پھیل رہا ہے۔اپنی جڑیں مسلسل مضبوط کر رہا ہے اور یہی سرطان ایک دن تم دیکھنا تمہیں بھی ہو جائے گا ‘‘
’’ہونہہ خوش فہمیاں !‘‘ پاکیزہ زور سے سر جھٹکتی اور ایک ہی پل میں سارے ڈائیلاگ دماغ سے محو ہو جاتے ۔ یاد رہتا تو فقط اتنا کہ میں نے بہت اونچا اڑنا ہے ۔یہ اور بات کہ وہ وزن بھی اٹھائے رکھنا چاہتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں معتبر ہوں اپنے قبیلے میں اس لئے
منانؔ میرے تن پہ وفا کا لباس ہے
بہار کی آمد کی چاپ درختوں پر نئی کونپل بن کر دکھائی دے رہی تھی ۔زرد ہوتے پتے شاخوں سے گرتے جا رہے تھے اور زمین کو چوم رہے تھے ۔وہ ان پتوں کو اپنے قدموں سے چرمر اتی ہوئی فون کان سے لگائے کھڑی تھی ۔تیسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا ۔
یہ پہلی بار ہوا تھا۔اس نے آفتاب کو خود فون کیا تھا ۔پیپر کے دوران بھی اس کا دھیان آفتاب میں اٹکا رہا تھا۔پہلے پہل کوئی بات ہوتی ہے تو تھوڑا عجیب لگتا ہے اور پھت اسی عجیب بات کی عادت ہو جاتی ہے۔
’’آفتاب میرا پیپر ہو گیا ہے، بہت اچھا ہوا ہے۔ ‘‘ خوشی سے اس کے گال تمتما رہے تھے ۔
سورج کی سنہری کرنیں اس کے سرخ ہوتے گالوں کو چومنے لگیں ۔ قدموں تلے فگار ہوتے ہوئے پتے بھی ست رنگ بہار دکھانے لگے حالانکہ پاکیزہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی ۔پاکیزہ ابھی بھی اس سے محبت نہیں کرتی تھی۔
’’پاکیزہ وہ شمائلہ باجی کے بیٹے نومیر کو ہسپتال لے کر گئے ہیں۔ وہ چھت سے گرا ہے ۔ ‘‘ جب وہ بولا تو اس کی آواز لڑکھڑا ہٹ سچائی کی شاہد بنی۔
بس پل بھر کی بات تھی حالانکہ پاکیزہ آفتاب سے محبت نہیں کرتی تھی۔ ا س نے کبھی بھی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا ۔اس کے گالوں کی سرخی فوراََ سانولاہٹ میں بدلی۔ پتوں نے قدموں تلے شور سا برپا کر دیا۔ پیپر تیاری سب دماغ سے نکل گیا ۔ کچھ اس کے حلق میں آ کر اٹک گیا ۔
’’نمیر کو لے کر گئے ہیں ؟ زیادہ چوٹ لگی ہے ؟‘‘
اس نے بھی لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں دوسری منزل کی چھت سے سر کے بل گرا ہے ۔ابھی پانچ سال کا تو ہے۔ اتنا خون نکلا ہے ۔ڈاکٹرز بالکل بھی پُر امید نہیں ہیں ۔تم دعا کرو۔ مجھے اور کسی پہ یقین نہیں ہے ۔کسی کا پتا نہیں ہے لیکن تم تو بہت اچھی ہو ۔اگر تم دعا کرو گی تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ وہ تو اس سے محبت کرتا تھا ۔ہر بڑے چھوٹے موقع پر اظہار کرتا تھا۔ اپنے یقین کا کشکول اس کے آگے پھیلا کر کھڑا ہو گیا ۔
’’ہاں میں کروں گی دعا ۔تم پریشان نہ ہو ۔وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔اگر خون نہ نکلتا تو بات پریشانی کی تھی ۔خون بہہ جانا اچھا ہوتا ہے۔ ‘‘وہ پتا نہیں کہاں سے ہمت لائی تھی۔
’’لیکن پاکیزہ ڈاکٹرز نے ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔باجی اس نومیر کے سر پر ہی بس رہی ہیں۔ بھائی کو دونوں بچیوں سے تو کوئی ہمدردی نہیں۔‘‘ آفتاب کے لہجے میں پھر حساس بھائی بولا۔
پاکیزہ کو رشک آیا۔
’’خواہ مخواہ کے وسوسے نہ پالو۔ ڈاکٹرز نے ہاتھ اٹھا لیا تو کیا ہوا ؟اللہ جی تو کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے ،وہ کبھی تنہا نہیں چھوڑتے ۔دعائیں تقدیر بدل سکتی ہیں ۔دعا کرو ،صدقہ دو، صدقہ مصیبت کوٹالتا ہے ۔‘‘ اس نے ہمت بندھائی۔
’’ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہوَ تم دعا کرناَ ‘‘ اس نے پھر تلقین کرنا ضروری سمجھااورفون رکھ دیاگیا۔
موسم کی خنکی بڑھ گئی تھی ۔پاکیزہ نے بازو سینے پر باندھ کر سرد ہاتھ انہی میں چھپا لئے پھر ڈوبتے سورج کے رنگ دیکھنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بستی پر چاند کا پہرہ رہتا ہے
اس بستی میں کچھ دل والے بستے ہیں
آنکھیں کتنی سچی ہوتی ہیں۔۔۔ ایسے جیسے آئینہ !
ہم اپنے اندر جھانک کر جن سوالوں کے جواب نہیں ڈھونڈ سکتے ۔وہ ان آنکھوں میں خود اتر آتے ہیں پھر ہم لاکھ نظر سے نظر چرائیں، حقیقتیں ہمارے اردگرد قہقہے لگاتی رہتی ہیں ۔
اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر وہ خود ہی پریشان ہوئی ۔اس نے اپنی آنکھیں کھولی اور ہتھیلیوں میں پانی بھر کر آنکھوں میں ڈالا۔ حقیقتیں ابھی بھی ہنس رہی تھیں۔ تولیے سے اپنا منہ تھپتھپاتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوئی ۔گھر پہنچتے پہنچتے مغرب ہو چکی تھی ۔
اس نے تسکین پھوپھو کا سوا ل’’ کیا ہوا ‘‘ نظر انداز کیا اور فوری وضو کرنے گھس گئی ۔اب باہر نکل کر جائے نماز بچھا رہی تھی ۔
’’نماز پڑھ کر بس سو جاوْ ۔ریسٹ کرو کل بھی ساری رات جاگتی رہی ہو ۔‘‘تسکین پھوپھو کو اس کی سرخ آنکھوں سے فکر لاحق ہو رہی تھی ۔وہ کسی اور کی فکر میں غلطاں تھی۔
سر اثبات میں ہلاتے ہوئے جائے نماز پر کھڑی ہوگئی ۔پھوپھو باہر نکل گئی ۔اس نے فرض نماز پڑھی اور سلام پھیرا۔ دعا ہاتھ کے لئے اٹھانے لگی مگر آنکھوں میںنمی در آئی ۔وہ نوافل ادا کرنے لگی ۔
’’ میں نیت کرتی ہوں اس نماز کی۔۔۔ دو رکعت نفل حاجتِ شفاء ۔۔۔ خاص اللہ تعالی کے واسطے ۔۔۔ میرا منہ خانہ کعبہ شریف کی طرف ۔۔۔۔ اللہ اکبر! ‘‘
دو ، چار ، چھ آٹھ ، دس ۔۔۔ نفل پڑھ کر اس کے دل کو کچھ کچھ سکون ملا۔
اللہ جی بہت گناہ گار ہوں لیکن آج اپنے لئے کچھ نہیں ما نگ رہی ۔ میں تو ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جن کو سب کچھ بنا مانگے مل جاتا ہے ۔ اللہ جی میں اس بچے نومیر کی زندگی مانگتی ہوں۔ خون جتنا بھی بہہ نکلا ہو روح تب تک نہیں نکلتی، جب تک اللہ کا حکم نہ ہو۔ آپ اس کی روح کو اتنی جلدی واپس نہ بلائیں۔ اسے اپنی ماں کے دل کا چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک بننے دیں۔ اللہ جی اسے زندگی دیں جیسے آپ زمین کو زندہ کرتے ہیں اور اس میں پھل اگاتے ہیں۔اسے بھی اپنے والدین کے لئے باثمر کر دیں۔
اللہ جی ! آپ کوحضرت ایوب کے صبر کا واسطہ! اسے شفاء کاملہ عطا کریں ۔ایسی شفاء جس میں بیماری کی کوئی جھلک نہ ہو االلہ جی مانا میں بہت بری ہوں ۔۔۔میرا اس بچے سے کوئی تعلق بھی نہیں لیکن میرا تعلق آپ سے تو ہے آپ کے کلام سے تو ہے۔ اللہ جی آپ کواپنے بابرکت کلام کا واسطہ! جسے آپ نے اپنے پیارے نبی ﷺ پر اتارا ،جسے آپ نے حافظین کے حافظے میںشا مل کیا ،ہماری دعاوْں اور ہماری نماز کا حصہ بنایا ، جس کی حفاظت اپنے ذمہ لی، آپ کو اس شاندار کلام کا واسطہ! اس بچے کو زندگی عطا کریں۔ اس کی زندگی کی حفاظت کریں۔ اس وقت دنیا کے نجانے کتنے سرآپ کے آگے جھکے ہوں گے اور آپ کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہوں گے ۔۔۔اللہ جی لیکن آپ تو رب ہیں ناںَ سب کا پالنے والا۔۔۔ آپ کو معلوم ہے کہ کس دعا کا قبول ہونا کس کے حق میںکیسا ہے ۔میں اس دعا کوشمائلہ باجی کے حق میں بہترین سمجھ کر مانگ رہی ہوں۔ میں جانتی ہوں موسیؑ جب حضرت خضر کی رہنمائی میں ایک جگہ پہنچے تو چھوٹے بچے کو مار دیا تھا وجہ صرف یہ تھی کے ا س کے والدین صالح تھے ،ان کو اس اولاد سے بہتر اولاد سے نوازنا مقصود تھا ۔
اللہ جی !شمائلہ باجی کے حق میں نومیر کو ہی بہترین بنا دیں ،اسے نئی زندگی دے دیں۔ اللہ جی! معجزہ کر دیں ۔۔۔سارے معجزے آپ کے ’’کن ‘‘کے منتظر ہیں۔ اللہ جی !دعاوْں کو قبول کر لیں ۔ ‘‘
بہت آنسووْں کے ساتھ وہ رب کے حضور گڑگڑا کر اب درود شریف پڑھ رہی تھی ۔ اپنی دعاوْں کو پر بھی تو لگانے تھے۔ نام محمدﷺ آنے پر اس نے اپنی انگلیوں کو چوم کر آنکھوں سے لگایا۔
کمرے کے باہر سے گزرتی ہوئی تسکین نے اسے ابھی تک جائے نماز پر بیٹھا دیکھ کراندازہ لگایا۔
’’یقینا آج پیپر ٹھیک نہیں ہوا۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تری خوشبو نہیں ملتی،ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا
’’پاکیزہ نومیر اب خطرے سے باہر ہے ‘۔‘وہ ہاسپٹل سے ابھی باہر نکلا تھا اور پہلا فون پاکیزہ کو ہی کیا تھا ۔
شمائلہ باجی آفتاب کے لیے بھی پریشان ہو رہی تھیں۔ وہ رات سے ان کے ساتھ ہی تھا ۔جیسے ہی ڈاکٹر نے تسلی آمیز الفاظ کہے شمائلہ باجی نے اسے گھر جانے کو کہا ۔ ویسے بھی اب بڑے بھائی آنے والے تھے ۔
’’اللہ جی آپ کا شکر ہے ۔اللہ جی آپ کا شکریہ۔ ‘‘ وہ مزید اور کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی آواز میں شکر ہی نمایاں تھا۔ اللہ اسے ہمیشہ نوازتا تھا ۔
’’تھینک یو یار ۔۔۔تم میری گڈ لک ہو ۔تمہیں مسئلہ بتاوْں تو مسئلہ فوری حل ہو جاتا ہے۔ تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو یہ مشکل وقت کاٹنا کٹھن ہو جاتا۔ تمہاری دعاوْں کا بہت شکریہ۔‘‘ وہ فرطِ جذبات سے کپکپاتی آواز میں بولا ۔
اس نے پاکیزہ کی جذب میں کی گئی دعا نہیں سنی تھی لیکن اس کی صدق دلی کاہمیشہ کی طرح گرویدہ ہوا تھا۔
’’اوہو ۔۔۔کوئی بات نہیں شکریہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے ۔ اب تم گھر جا رہے ہو۔ گھر جا کر کھانا کھاؤ اور ریسٹ کرو۔ ‘‘
پاکیزہ نے اسے تسلی دی ۔
’’ہاں بس گھر ہی جا رہا ہوں ۔ڈاکٹر نے تسلی دی تو باجی نے مجھے گھر جانے کو کہہ دیا ‘‘ آفتاب اس سے بات کرتا بائیک کے قریب آ گیا ۔
تیز ہوائیں درختوں کو چھو رہی تھیںَ ایک درخت کے سائے میں آئس کریم والا کھڑا بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے موسیقی کا استعمال کر رہا تھا ۔
’’کیا باجی ادھر ہسپتال ہی ہیں؟ارے وہ بھی تو کل رات سے گھر نہیں گئی، تم انہیں بھی گھر لے کر جاو۔ْ‘‘ پاکیزہ آفتاب کی لاپرواہی پر حیران ہوئی۔
’’میں نے ان سے کہا تھا ۔وَہ مان ہی نہیں رہی۔‘‘
چھوٹی سی بچی اپنے والد کا ہاتھ کھینچتے آئس کریم والے کے پاس آئی ۔لڑکی کا والد اکتائے ہوئے انداز میں آئس کریم والے کو دیکھ رہا تھا۔ بچی کی مسکراہٹ مشروط تھی اور آنکھوں میں آئس کریم نہ لے پانے کا ڈر ہلکورے لے رہا تھا ۔
’’وہ تو ماں ہیں۔۔۔ وہ بھلا کیسے مان سکتی ہیں ۔تمہیں انہیں زبردستی ساتھ لے جانا پڑے گا ورنہ ایسے تو وہ اپنی طبیعت خراب کر لیں گی َجاوْ اور انہیں بھی گھرساتھ لے کر جانا۔ ‘‘ پاکیزہ نے اب اسے ڈپٹ کر کہا تھا ۔
آفتاب مسکرایا اور سر تسلیم خم کر کے فون رکھ دیا ۔
بچی اپنے والد کو آئس کریم لے کر دینے پر راضی کر چکی تھی ۔ آئس کریم ملی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے تھام لی اور باپ کا ہاتھ چھوڑ دیا !
ہوا نے بنتِ حوا کے سفر کے پڑاؤ دیکھے اور مسکرانے لگی۔یوں ہی تومرد کا نگہبان مقرر نہیں کیا گیا۔وہ بھی ریجھ جاتا ہے لیکن عورت سے کم۔
آفتاب نے میسج ٹائپ کیا اور پاکیزہ کو بھیج دیا۔
’’میں نے سکول کی تمام تصویریں سکین کر کے موبائل میں رکھی ہیں ۔ تمہاری ششم کلاس کی تصویر جس میں تم نے براوْن کلر کا فراک پہنا ہے اور دو پونیاں بنائی ہیں ۔۔۔۔وہ اتنی پیاری ہے کہ لگتا ہے براوْن کلر بنا ہی تمہارے لئے ہے ۔ اس کے سب شیڈز تم پر حسین لگیں گے۔ پچھلی رات میں نے تمہارا ہر شیڈ میں تصور کر کے ہی وقت گزاراہے ‘‘۔
پاکیزہ نے مسکراتے ہوئے پیغام پڑھا اور اپنی وارڈ روب کھول کر دیکھنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چند لمحے جو تمہیں یاد نہیں ہوں گے مگر
وہ ہمیں جان سے پیارے ہیں تمہیں کیا معلوم
وقت کا پرندہ گھونٹ گھونٹ زندگی کے سمندر سے پانی پیتا رہا اور عمر گھٹتی رہی ۔ نجانے کیسا پرندہ تھا اور کیسی پیاس تھی کہ روز بروز بڑھتی ہی جانے لگی ۔پہلے ایک گھونٹ میں ہفتہ آتا تھا پھر ایک گھونٹ میں مہینہ سمانے لگا ۔پریشانیاں تھی کہ بڑھتی ہی جاتی تھیں۔سلجھنیں آنے لگتی تھیںکہ الجھ ہی جاتی تھیں ۔
’’ میں الجھا ہوا ہوں۔مجھے نہ چھیڑو۔‘‘وہ واقعی پریشان تھا ۔
’’ تمہیں نہیں چھیڑوں گی تو کس کو چھیڑوں گی؟ ‘‘ اب دوستی ہو گئی تھی۔ وہ تقاضے نبھا رہی تھی۔اس کی پریشانی کی وجہ بھی جانتی تھی۔
’’تمہیں تو کوئی پریشانی نہیں ہے ۔خوب مزے لے سکتی ہو ،مذاق اڑا سکتی ہو۔حُسن کو اجازت ہے جو چاہے ستم کرے۔ ‘‘ آفتاب کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔
’’میں امتحان سے پہلے پریشانی لیتی ہوں۔ امتحان کے بعد بس نتیجے کا انتظار کرتی ہوں ۔پریشانی کا وقت پہلے تھا اب دعا کا وقت ہے ۔تم پہلے دعائیں کرتے رہے کہ خود ہی تمہیں سب آ جائے ،ساری کتابیں رٹ جائیںاور اب تم دعاوْں کے پریشانی لے رہے ہو۔ ‘‘ وہ ناک سے مکھی اڑا رہی تھی ۔
’’اچھا ایک کام کرو؟ ‘‘وہ ہمیشہ کی طرح فریادی بنا۔
’’سارے کام میں ہی کروں ۔تم خود کچھ کیوں نہیں کر لیتے ؟‘‘ اپنے رزلٹ کے لیے وہ ایکسائیٹڈ تھی۔ ا س کی باتوں سے سمجھ آ رہا تھا۔
’’میں تمہیں اپنا رولنمبر بھیجوں گا۔ میرا زرلٹ تم دیکھنا ۔‘‘ہمیشہ کی طرح عجیب سی خواہش!
’’اگر تم اس لئے اپنا رول نمبر بھیج رہے ہو کہ پھر میں تمہیں بتاوْں گی تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ میں اتنی بے وقوف نہیں ہوں کہ اپنا رول نمبر کسی کو دے دوں۔ ‘‘
’’تمہیں کس نے کہا تم کوئی اور ہو۔ ‘‘
’’کوئی ا ور تو ہوں لیکن بات صرف عقل کی ہے جو تمہاری کام نہیں کرتی ۔‘‘
’’دل تو کام کرتا ہے نا ں؟تمہیں پتا ہے پاکیزہ تم میری خو ش قسمتی ہو۔ اسی لیے میں چاہتا ہوں میرا زرلٹ تم دیکھو‘‘۔
اسے کسی نے کبھی قسمت نہیں سمجھا تھا اور وہ اسے خو ش قسمتی قرار دے رہا تھا۔ پاکیزہ کو لگا اس کے اَن دیکھے پر نکل آئے ہواور یہ پر اُسے ہوا کے دوش پر نیلے گگن کی سیر کروائے جا رہے ہیں ۔اس نے بے ساختگی سے اپنے کان کی لو کو چھوا۔ ہوش و حواس قائم تھے بھی اور نہیں بھی۔ ہمیشہ کی طرح بے یقینی نے سر اٹھایا ۔
’’اور اگر تم فیل ہو گئے؟ ‘‘
’’تمہارے منہ سے سنوں گا تو اتنا دکھ نہیں ہو گا۔ ‘‘
اتنی شدتوں کے جواب میں اپنے حواس پر قابو پانا مشکل تھا لیکن وہ پا چکی تھی ۔
’’پاکیزہ ‘‘
’’ہاں ‘‘
’’ایک بات کہوں ‘‘
’’اجازت تو مجھ سے ایسے لیتے ہو جیسے میں منع کر دوں گی تو واقعی نہیں بولو گے ‘‘
’’ہاں اگر تمہیں میرا بولنا پسند نہیں ہے تو میں ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاوْں گا ۔‘‘سارا زور ہمیشہ پر تھا۔
’’فضول مت بولو۔ کہو جو کہنا ہے ؟‘‘ پاکیزہ نے فورا ڈپٹا۔
اس کا اکلوتا دوست تھا اتنی پرواہ کا حق تو رکھتا تھا۔
’’کوئی اور تمہیں دیکھے تو مجھے اچھا نہیں لگتا ۔‘‘ وہ حق جتا رہا تھا۔
’’مطلب؟‘‘ وہ جانتے ہوئے بھی انجان بنی ۔
یہ سچ تھا اسے چار دیواری کی چاہ تھی لیکن بینائی چھن جائے ۔۔۔ یہ وہ کبھی نہیں چاہتی تھی !
’’ کیا ایسا ممکن ہے کہ پینٹنگز کے جو مقابلے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہو۔تم ان میں حصہ نہ لو ‘‘ بہت چھوٹی سی عمر میں وہ اسے ان دیکھی زنجیروں میں جکڑ رہا تھا ۔
’’ایک گھنٹہ مکمل ہو چکا ہے آفتاب ۔‘‘ وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔
’’اچھا اس بات کا جواب تو دو ۔تم کچھ ایسا نہیں کر سکتی کہ مخلوط مقابلوں میں حصہ نہ لو۔تمہاری پینٹنگ کو جب سراہا جاتا ہو گا تو نہ جانے کتنے لوگ تمہیں دیکھتے ہوں گے۔ کتنی نظریں تمہارے اندر تک اترتی ہوں گی مجھے یہ سوچ کر بھی وحشت ہوتی ہے ۔میں پاگل ہوتا ہوں۔‘‘ راستہ ملتے ہی پانی نے راستہ بنایا ۔
’’تم پاگل ہوتے نہیں ہو ۔۔۔تم پاگل ہو! اللہ حافظ۔ ‘‘ وہ فون رکھ چکی تھی ۔
پانی کے آگے بندھ باندھ کر اس نے آنکھیں موند لی۔ فیصلہ ہو گیا اسے فیصلہ ہی تو کرنا آتا تھا ۔ فیصلہ صحیح یا غلط ؟ اس کا انداز تو پرندہ لگاتا۔۔ وہی پیاسا پرندہ ۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کسی پرچھائیں کے پیچھے نکل جاؤں گا جب
تو گلی کوچوں میں مجھ کو ڈھونڈتا رہ جائے گا
بدگماں ہو کر بچھڑ جانے کا اس کے غم نہ کر
اب تو مل کر بھی دلوں کا فاصلہ رہ جائے گا
کمپیوٹر آن کیا تو ساتھ ساتھ درود شریف کا ورد کرتی رہی ۔
تھکا ہوا کمپیوٹر آن ہونے میں اتنا ہی وقت لگاتا ہے جتنا ناراض محبوب ماننے میں لگاتا ہے!
اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کمپیوٹر کو دیکھا ۔دل میں تھوڑا سا ڈر تھا اور بہت زیادہ اشتیاق ۔۔۔
وہ زندگی کے لیے ہمیشہ متجسس رہی تھی کہ زندگی اس کے لیے کیا لانے والی ہے۔ وہ کمرے سے باہر آئی۔ صرف اپنی ذمہ داری ہی نہیں تھی، کسی اور نے اپنا بوجھ بھی ڈالا تھا ۔ خود کو ہلکا کرنے کے لیے وضو کیا تھا۔
لمبی پلکوں پہ پانی کے قطرے ستاروں کی طرح اٹکے ہوئے تھے ۔ لب تجسس سے لرزنے لگے ۔ اپنے رزلٹ کی فکر بالکل نہیں تھی۔ اس نے اپنا بہترین دے دیا تھا۔ اب اسے صرف پھل کا انتظار تھا ۔دو نفل حاجت کی نیت باندھی نفل پڑھ کر سلام پھیرا تو نظریں مانیٹر کی سکرین پر چلی گئی ۔ کہیںمحبوب مان چکا تھا ۔ اپنے قیاس پہ ہلکی سی مسکراہٹ لبوں کے کونوں کو چھو گئی ۔ سانولی رنگت میں وقت کی لالی نے سرخیاں گھول دی تھیں ۔
اب وہ دعا مانگ رہی تھی۔سونی کلائیاں سونے کی طرح دمک رہی تھیں۔
اللہ جی! آفتاب پاس ہو جائے ۔۔۔آپ چاہیں تو کیا نہیں ہو سکتا ۔ یہ بھی ہو ہی سکتا ہے ۔مجھے نہیں پتا وہ نکما ہے یا قابل ہے ۔میں نہیں جانتی کہ مجھے اس کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ نہیں ۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کے پیپرز واقعی ایسے ہوئے ہیں کہ جیسے اس نے مجھے بتائے لیکن آپ تو رب تعالی ہے۔ آپ سے تو کچھ بھی مخفی نہیں ہے ۔آپ اسے اپنی رحمت کے دریا سے ایک بوند دے دیں۔ اس امتحان میں سرخرو کر دیں۔ آپ تقدیر بدل سکتے ہیں ، آپ چاہیں تو اس دنیا میں ہوئی چیزیں لوگوں کو بھول جائیں ۔رزلٹ ابھی بھی بدل سکتا ہے اگر وہ اس کے حق میں بہتر نہیں ہے تو اسے بہتر کر دیں۔آمین! ‘‘
دعا سے مطمئن ہو کر اس نے اپنے ہاتھ چہرے پر پھیرنے ہی تھے کہ ایسی بے وقوفی پر تاوْ آ گیا ۔ وہ پھر اپنے سچے دوست سے مخاطب ہوئی ۔
’’اے میرے اللہ ، اے سارے جہانوں کے پالنے والے میں آپ کی رحمت پر اتنا یقین رکھتی ہوں کہ مجھے لگتا ہے آپ مجھے مانگے بغیر بھی دے دیں گے حالانکہ میں بے وقوف جانتی ہوں کہ مانگنے سے انسان آپ کے اور بھی قریب ہو جاتا ہے ۔ اللہ جی! میرے دونوں ہاتھ آپ کے سامنے پھیلے ہوئے ہیں ۔ میں آپ کی بزرگی و برتری کو تسلیم کرتی ہوں۔ اللہ جی میں آپ سے اپنے لیے بھی خیر مانگتی ہوں ۔ میرے رزلٹ کو میرے حق میں بہترین کر دیں۔ جو آپ چاہتے ہیں میری تقدیر میں وہ لکھ دیں اور مجھے اپنے مقدر پر صابر و شاکر کر دیں۔ آمین !‘‘
تجسس کی مسلسل دستک وہ نظر انداز نہ کر پا رہی تھی۔ اپنے رول نمبر سے پہلے اس نے آفتاب کا رول نمبر درج کیا ۔ گول چکر گھومتا ہوا کمپیوٹرکی سکرین پہ ویب سائٹ کی مصروفیت کا اشارہ دے رہا تھا اور پاکیزہ کا دل اللہ کو یاد کر رہا تھا۔
رزلٹ دیکھ کر پہلے تو وہ حیران ہوئی اور پھر اس کے دل کو تاسف نے گھیر لیا ۔آفتاب سب مضامین میں پاس تھا سوائے ایک کے اور وہ ایک اسلامیات تھا ۔اس نے اب اپنا رول نمبر درج کیا ،دل یکبارگی زور سے دھڑکنے لگا ،ساری لاپرواہی اڑن چھو ہو گئی، ڈر لگنے لگا ، رزلٹ سکرین پہ کھل چکا تھا۔ پاکیزہ کے پانچ سو پچاس میں سے چار سو اٹھانوے نمبر تھے ۔ وہ ٹھیک جا رہی تھی اسے ایسا ہی جانا تھا ۔دل اس خوشی پر خوش نہ تھا ۔ایک دکھ کی لہر خوشی پر دبیز تہہ بیٹھا چکی تھی ۔
موبائل فون کی ٹون اسے خیالات کی رو سے واپس حقیقت میں لائی۔ آفتاب کا فون تھا ۔
’’ہیلو !پاکیزہ کیا بنا؟ ‘‘ آواز میں گھلا تجسس نتیجے سے لا علمی کا گواہ بنا ۔
’’اسلام وعلیکم! ‘‘ پاکیزہ نے پھر اپنے طریقے سے بات کا آغاز کیا۔ وہ پھر چاروں شانے چت ہوا ۔
’’وعلیکم السلام !رزلٹ دیکھا ۔‘‘ تجسس بہرحال برقرار تھا ۔
’’ہاں جی! باقی سب میں پاس ہولیکن وہ ۔۔۔ ‘‘
’’ہاں بتاؤ ناں ؟ کیا ہوا ؟‘‘
’’تمہاری اسلامیات میں سپلی ہے۔‘‘
’’مجھے پتا تھا یہی ہو گا۔ اسلامیات میں بھی بھلا کوئی فیل ہوتا ہے لیکن میں ہوا ۔ میں تو ہوں ہی۔۔۔ ‘‘ دلبرداشتگی اس کے انداز سے جھلک دکھانے لگی
’’میں نے کہا تھا مجھے مت کہو رزلٹ دیکھنے کو۔ اب آرام ہے ؟بہت خوش قسمتی خوش قسمتی کہہ رہے تھے۔ اب کیا خیال ہے ؟ ‘‘ پاکیزہ کو بہت طریقے سے اس کی ذہنی حالت کو سنوارنا تھا۔
’’خوش قسمتی تو ہو تم۔ میں خود دیکھتا رزلٹ تو سارے سبجیکٹس میں فیل ہوتا اور صرف اسلامیات میں پاس ہوتا ۔ تمہاری وجہ سے اکاوْنٹنگ میں بھی پاس ہو گیا ہوں۔‘‘ وہ شکریہ ادا کرنے لگا۔
’’اچھا اب میں پھوپھو کو فون کر کے رزلٹ بتا دوں۔ ‘‘پاکیزہ کو یاد آیا کہ وہ اکیلی نہیں رہتی ۔
’’انہیں میرا رزلٹ نہ بتانا۔ ‘‘ آفتاب ایک دم چوکنا ہو۔ا
’’تمہارارزلٹ کون بتا رہا ہے ؟میں اپنا بتاوْں گی۔‘‘
’’اوہ سوری! مجھے یاد نہیں رہا۔ تمہارے کتنے نمبر آئے ہیں ‘‘؟ آفتاب کو اپنی بے وقوفی پر تاوْ آیا۔
’’کوئی بات نہیں ۔۔۔چار سو اٹھانوے نمبر ہیں کاش پورے پانچ سو آ جاتے ۔‘‘ پاکیزہ نے لمبا سا کا ش کہتے ہوئے منہ بنایا
’’حق ہاہ! اے اللہ! تیری دنیا میں کیسے نا شکرے لوگ بستے ہیں ۔میں ایک پورے مضمون کو رو رہا ہوں اور اس بندی کو دو نمبروں کا افسوس ہے۔ ‘‘ آفتاب نے اسے چھیڑا ۔
’’اچھا لمبیاں نہ لگاو۔ْ یہ تمہارا وقت نہیں ہے۔ اللہ حافظ۔ ‘‘ پاکیزہ نے فون رکھ دیا۔
فون کاٹتے ہی وہ پھوپھو کا نمبر نکالنے لگی جتنی دیر میں وہ نمبر نکالتی، پھوپھو کا فون خود ہی آ گیا۔
’’ہیلو پاکیزہ! تمہارا نمبر بزی جا رہا تھا۔ کیا بنا رزلٹ کا؟ ‘‘
’’ دوست کی فون آئی تھی، رزلٹ کا ہی پوچھ رہی تھی ۔میرے چار سو اٹھانوے نمبر ہیں ۔‘‘
’’چلو شکر ہے! مبارک ہو !میں گھر آتی ہوں پھر بات ہو گی۔ ‘‘ فون رکھ دیا گیا تھا۔
پاکیزہ ا س رسمی سی مبارک کے جواب میں خیر مبارک بھی نہ کہہ سکی۔ اسے بہت افسوس ہوا ۔اس سے کئی بہتر تھا کہ وہ آفتاب سے ہی بات کر لیتی۔ کم از کم وہ اس کی خوشی کو سلیبریٹ تو کرتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سانسوں میں بسے ہو تم آنکھوں میں چھپا لوں گا
جب چاہوں تمہیں دیکھوں آئینہ بنا لوں گا
میں بہت پریشان ہوں۔ مجھ سے مت پوچھو ۔مجھے بس میرے حال پہ چھوڑ دو۔ ‘‘ آفتاب کی آواز سے واقعی پریشانی کی گونج سنائی دے رہی تھی ۔
’’ اس بات کو تم اپنے آپ سے لگا کر رکھو گے تو ایسے ہی پریشان ہو گے مجھ سے شئیر کر لو گے تو ایزی ہوجاؤ گے ۔‘‘ اس نے کریدا۔
’’کیا بتاوْں ؟ اس سے اچھے تو وہ دن تھے جب ہمارے گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔ کم ازکم سب ساتھ تو تھے، اب ساتھ رہ کر بھی ساتھ نہیں ہیں۔ بھائی بھائی نہیں رہے، بھابھیوں کے شوہر ہو گئے ہیں ۔داخلہ فیس بھیجنی ہے اسلامیات کے پیپر کی لیکن پیسے ہی نہیں ہیں ۔ مانگوں کا تو بھابھیاں بولنے لگ جائیں گی ۔ا س پہ لگانے کی کیا ضرورت ہے پڑھنا تو اس نے ویسے بھی نہیں۔‘‘وہ پھٹ پڑا۔
’’بات تو ان کی بھی ٹھیک ہے تمہیں دل لگا کر پڑھنا چاہیے تھا۔ یہ کوئی طریقہ تو ہے نہیں کہ بندہ اسلامیات میں فیل ہو جائے اور پیسے تم نے ؎ضروری بھائی سے مانگنے ہیں؟ اپنی امی سے مانگ لو۔ ‘‘پاکیزہ نے اپنی نظر میں اس کے گھر کے حالات دیکھتے ہوئے مشورہ دیا۔
’’ امی کے پیسے کہاں ہیں؟ سارے گھر پر تو بھابھیوں کا راج ہے ۔ سودا سلف لینے بھی وہ بھائیوں کے ساتھ خود جاتی ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں
کسی دکان پہ بیٹھنا شروع کر دوں۔ تھوڑے پیسے تو میرے ہاتھ میں آئیں گے۔ ‘‘ وہ روہانسے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
پاکیزہ کو لگا وقت کی گردش اسے دو سال پیچھے لے گئی ہے اور آفتاب اس کے سر پر کھڑا رو رہا ہے ۔
’’کیا مطلب تم پڑھائی چھوڑ دو گے پھر کیا کرو گے ؟کبھی سوچا ہے تمہارا لائف سٹائل کیا ہو گا ؟تمہارے بھائی کتنی اچھی پوسٹس پر کام کرر ہے ہیں اور تم دکان پر بیٹھنا چاہتے ہو؟ ‘‘ پاکیزہ کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
’’ ان کی اچھی پو سٹس میرے کس کام کی ہیں؟ مجھے وہ کیا دیتے ہیں؟ بائیک پیٹرول ۔۔۔ اپنی ضرورت ہو تو گاڑی ۔۔ بھابھی اور بچوں کا نوکر بنا کر رکھا ہوا ہے فیس تو دے نہیں سکتے ۔اس سے کہیں زیادہ بہتر یہی ہے کہ میں چھوڑ دوں۔ ‘‘ وہ قطعیت سے بولا ۔
پاکیزہ کو اس کے زاویہ نظر پہ افسوس ہو۔ا ’’ کتنے میں جائے گا ایڈمیشن ؟‘‘
’’بارہ سو میں ‘‘ وہ جواب دے کر پہلے خاموش ہوا پھر بولا ’’تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟‘‘
’’پیسے مجھ سے لے لینا ۔پڑھائی نہ چھوڑنا ۔بارہ سو کوئی اتنی بڑی رقم نہیں ہے کہ اس کے لیے پڑھائی چھوڑ دی جائے۔ ‘‘ اس نے اب یہ منوانا تھا۔
’’جس کے پاس پیسے ہوں اس کو کم یا زیادہ نہیں لگتے ۔ میرے پاس نہیں ہیں ۔مجھے بہت زیادہ لگ رہے ہیں۔ تم مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو۔تھوڑی دیر کے ٹینشن ہے،ا س کے بعد میں خود ٹھیک ہو جاؤں گا۔ میں انتظام کر لوں گا۔ ‘‘
’’ میرے دوست نہیں ہو ؟ جس کے پاس جو چیز زیادہ ہوتی ہے وہ وہی دوسرے کو دیتا ہے ۔تم مجھے وقت دیتے ہو ، فکر کرتے ہو، خیال رکھتے ہو ، اپنا کاندھا دیتے ہو ۔میں صرف مادی چیز دے سکتی ہوں یہ تو تمہیں لینے ہی پڑے گی۔ ‘‘ وہ اپنے دراز میں رکھے ہوئے تھوڑے تھوڑے کر کے جمع کیے ہوئے پیسوں کا حساب دماغ میں لگاتے ہوئے بولی ۔
’’ویسے کاندھا تو میں نے تمہیں بہت بار دینا چاہا ہے لیکن تم نے لیا نہیں حالانکہ میرا کاندھا تمہارے نازک وجود کے لئیے کافی سے زیادہ ہی ہے۔ ‘‘ وہ شرارت پر اتر آیا۔
’’اب فضول گوئی پر اترنے کی کو شش مت کرو۔ ‘‘
’’میں تو ہمیشہ سے فضول گو ہوں جیسے تم ہمیشہ سے خوبصورت ہو۔ ‘‘
’’یعنی تم جھوٹے بھی ہو۔ ‘‘
’’اپنی زندگی میں ایک یہی سچ تو جانا ہے میں نے
اک خوبصورت پری کو اپنا بنانا ہے میں نے ‘‘
’’بے تکے شاعر تمہارے مجموعہء کلام کا نام ہو گا’ پری دیو کے قبضے میں‘ ‘‘
’’تم مجھے دیو کہہ رہی ہو؟ دنیا مجھے حسین کہتی ہے۔۔۔۔ ابھی کل امی کہہ رہی تھی کہ آفتاب کے پاوْں لڑکیوں کے پاوْں جیسے ہیں۔ ‘‘
’’اب مجھے شک میں مبتلا نہ کرو لڑکیوں جیسے پاوْں ۔۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔
’’میں پاوْں کی رنگت کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ ‘‘
پاکیزہ کو چپ لگ گئی۔ رنگت کی بات پہ اسے آفتاب سے بات کرتے ہوئے ایسے ہی چپ لگتی تھی ۔
’’کیا ہوا پاکیزہ؟ ‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘ اس کے پاس واقعی جواب نہیں تھا ۔
’’تم بغیر نمک والے آٹے کی روٹی کھاتی ہو ؟‘‘ سوال عجیب تھا۔
’’نہیں ‘‘
’’کبھی کھا کر دیکھنا ۔تمہیں احساس ہو گا کہ بغیر نمک کا آٹا کیسا لگتا ہے۔تمہاری رنگت کو سنہرا بھی کہا جا سکتا ہے اور نمکین بھی۔سفید رنگ تو پھیکا شلجم ہی ہے۔‘‘
’’میں تمہاری سائنس سے متاثر نہیں ہوئی۔‘‘
’’سب باتوں کی ایک بات۔اگر میں آٹا ہوں توتم میرا نمک ہو ۔تمہاری نمکین رنگت میرے من کو بھاتی ہے ۔ تمہیں کیا معلوم ہے تم میرا ذائقہ ہو اور میں تمہارے بغیر بد ذائقہ ہوں۔ ‘‘
وہ بہت بے تکی باتیں کر رہا تھا لیکن چاند نے دیکھا لڑکی کان سے موبائل لگائے فسوں طاری ہونے دے رہی تھی ۔ لڑکی کی آنکھوں میں اترتے ستاروں کی چمک دیکھ کر چاند بھی مبہوت ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے
چاندنی جتنی بھی ممکن ہو چرا لی جائے
’’یہ دیکھیں یہ زیادہ پیارا لگ رہا ہے ‘‘ پاکیزہ اپنی پسند کا کپڑا سامنے پھیلا کر تسکین کی رائے جاننا چاہ رہی تھی۔
دکان میں موجود دکاندار اب ان کی مزید ہونے والی بحث سے پیشگی زچ ہونے لگا ۔وہ جانتا تھا جو لڑائی پہلے دو جوڑے خریدنے میں ہو چکی ہے وہی اب تیسرے میں بھی ہو گی ۔
’’پاکیزہ پاگل تو نہیں ہو گئی ہو ؟ یہ بھی براوْن شیڈ ہے۔ ‘‘ تسکین کی آنکھیں استعجاب لیے ہوئے ممکنہ حد تک پھیل گئیں ۔
’’ تو کیا ہوا پھوپھو؟ آپ نے مجھے فرسٹ ائیر کے رزلٹ کا گفٹ دینا ہے تو میری مرضی کا ہی دے دیں۔ میری کیا غلطی ہے؟ اگر ہر ڈیزائن اسی رنگ میں اچھا لگ رہا ہے تو۔ ‘‘ پاکیزہ کی ضد کی آنچ تسکین کو محسو س ہوئی ۔
’’یہ نیلا رنگ دیکھو کتنا کھلتا ہوا ہے ،سفید رنگ دیکھو کتنا خوبصورت ہے ، بلیک کلر بھی اچھی چوائس ہے، تم پنک بھی لے سکتی ہو۔ ‘‘ اپنی طرف سے وہ ایک بار پھر اپنے موقف کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگی۔
’’آپ نے نہیں لے کر دینا تو نہ لے کر دیں ۔‘‘ ضد سلگتی ہوئی چہرے کا رنگ اڑانے لگی ۔
پاکیزہ ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہو کر آرام سے بیٹھ گئی۔
’’ہونہہ میرا کیا جاتا ہے ۔اور کالی لگو گی۔ یہ بھی لے لو براوْن۔ ‘‘ تسکین نے ہنکارا بھرتے ہوئے باآواز بلند تبصرہ کیا۔
پاکیزہ کی عزت نفس مجروح ہوئی۔
’’ میں ہی کالی لگوں گی آپ تو نہیں لگیں گی نا ں؟اس سے اچھا ہے مجھے لے کر ہی نہ دیں۔ ‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
دکاندار نے دل ہی دل میں شکر کے کلمے پڑھے ۔ جو بھی تھا دو آپسی جھگڑوں کے شکار گا ہک اس کی دہلیز سے اپنے جھگڑے کی نحوست لے کر جا رہے تھے ۔
’’تمہاری مرضی کے کپڑے ہی لیے ہیں۔ اب ایسے منہ نہ بناو۔ْ ‘‘ تسکین کو پاکیزہ کے سپاٹ تاثرات دیکھ کر احساس ہوا کہ وہ بڑی ہو گئی ہے ۔ دکاندار کو پیسے پکڑا کر اس نے کپڑوں کے شاپر پاکیزہ کو تھمائے ۔ زبردستی کی مسکراہٹ نے پاکیزہ کے چہرے کو سجا دیا۔ دل ہی دل میں وہ کہہ رہی تھی۔
’’ آپ کو کیا پتا براوْن رنگ مجھ پہ کتنا سوٹ کرتا ہے ۔۔۔ا س سے اچھا کوئی اور رنگ لگ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘ وہ کسی کے یقین کی کشتی میں دونوں ہاتھ فضامیں بلند کیے سوار تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی مورت جیسی صورت پر اک سایہ نور اجالوں کا
کسی چال جمال خیال کی چھب پر واہمہ پڑے غزالوں کا
سیب کاٹتے ہوئے ا س کی انگلی پہ ہلکا سا زخم آیا۔ ’’سی ‘‘ کی آواز نکال کر اس نے اپنی انگلی کو منہ میں دبا لیا۔ تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے ۔زبان اپنے ہی خون کے ذائقے سے آشنا ہوئی۔
’ یہ جو لوگ مر رہے ہوتے ہیں پیاس سے۔۔۔ اپنا ہی خون نکال کر کیوں نہیں پی لیتے ۔‘
عجیب سا سوال دماغ کی چار دیواری میں ٹکرانے لگا ۔ اسے خود پہ ہنسی آئی ۔
’ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ بے مقصد باتیں سوچتی ہوں بے دھیانی سے کام کرتی ہوں ۔۔۔آدھی پاگل ہو گئی ہوں ۔۔۔ یا شاید پوری پاگل !‘
اگر اسے پتا چلے کہ میں بھی دن کے کئی پہر اسے سوچتے ہوئے بیتا دیتی ہوں تو کیا سوچے گا وہ۔۔۔ خوش ہو گا؟ نہیں !یقین ہی نہیں کرے گا۔۔۔‘ خود ہی سوال جواب کر کے وہ ہنسنے لگی ۔
اب سیب کی قاشوں پر ہلکا سا نمک چھڑک کر وہ کمرے میں لے آئی تھی ۔
’اس کی پسند کے کپڑے تو اکٹھے کر لیے لیکن پہننا اوڑھنا کس کام کا ؟‘
’سجنا سنورنا کس لئیے دیکھنے والی آنکھ تو ہے نہیں۔وہ ایک دفعہ مجھے دیکھے تو سہی ۔۔۔ مجھے بتائے اس رنگ میں اس کے تصور میں جتنی پیاری لگی تھی اتنی حقیقت میں بھی میری تصویر بھاتی ہے یا نہیں۔۔۔‘
موبائل اٹھا کر سیدھے ہاتھ میں پکڑا اور الٹے ہاتھوں سے کانوں کے پیچھے بالوں کی لٹ اڑسی۔ لمبے بال چٹیا کی شکل میں باندھ کر جوڑا بنایاہوا تھا ۔کچھ لمبی لٹیں پھر بھی شرارت پر آمادہ تھیں ۔
’’میری انگلی کٹ گئی ‘‘ ا س نے پیغام بھیجا ۔
موبائل رکھ کر سیب کی قاش منہ میں رکھی ہی تھی کہ جوابی پیغام آیا۔
’’اوہو کب ؟ کیسے ؟اب کیسی ہو ؟‘‘
پاکیزہ نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ اس کی بے چینی سے محظوظ ہو رہی تھی۔ ٹھیک دو منٹ بعد سکرین پر آفتاب کالنگ لکھا آ رہا تھا ۔ ثابت ہوا کہ اس کا محظوظ ہونا درست ہے ۔
’’ہیلو پاکیزہ! کیسی ہو ‘‘
’’اسلام علیکم !پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ، ہلکا سا کٹ لگا ہے ۔بس ذرا سا خون نکلا ہے۔ ‘‘
’’وعلیکم سلام! دھیان کیوں نہیں رکھتی ہو؟ اپنی خاطر نہیں رکھ سکتی تو میرے خاطر رکھ لیا کرو۔ ‘‘
’’تمہاری خاطر اپنا دھیان رکھا کروں۔۔۔واہ کیا سائنس ہے! ‘‘
’’اسے سائنس نہیں ۔۔۔’’محبت ‘‘کہتے ہیں۔ ‘‘
’’تم محبت کو اتنا آسان سمجھتے ہو؟ ‘‘
’’محبت اتنی آسان نہیں ہوتی لیکن محبت ہم سفر ہو تو زندگی سہل کر دیتی ہے۔ ‘‘
’’ کیسی عجیب اور بہکی بہکی باتیں کرتے ہو تم؟ ‘‘
’’تمہاری آواز سے ہی میرا دل پٹری سے اتر جاتا ہے۔ تسلی دو میرے دل کو ۔۔۔ بتاوْ کتنی لگی ہے انگلی پر؟ ‘‘
’’بس ہلکا سا کٹ ہے۔ ‘‘
’’ یہ سن کر ہلکا سا کٹ میرے دل پر بھی لگ گیا ہے اس کا کیا ؟‘‘
’’دل پٹری سے اترنے لگے تو زخم ہی کھائے گا ۔وہ تمہاری داخلہ فیس کے پیسے مجھ سے لے جاو۔ْ ‘‘
’’میں خود آکر لے جاؤں ؟واقعی؟‘‘
’’نہیں اور۔۔۔میں تمہیں دینے آؤں گی؟‘‘
’’ایک شرط پر تم سے پیسے لوں گا۔‘‘
’’ہاں بابا میں تم سے واپس بھی لوں گی پیسے۔۔۔‘‘
’’یہ شرط نہیں ہے میری۔شرط دراصل اجازت ہے۔مجھے یہ اجازت بھی دو کہ تمہیں ایک جھلک دیکھ سکوں۔جھلک ایسی ہونی چاہئے کہ بعد میں تم مجھ سے ناراض بھی نہ ہو۔‘‘
’’اچھا دیکھ لینا۔‘‘
’’ہیں تم مجھے دیکھنے کی اجازت دے رہی ہو ؟ اب کی بار ناراض تو نہیں ہو گی ؟‘‘
’’ میں پیسے دے رہی ہوں اور اپنی مرضی سے دے رہی ہوں ۔ اس لیے ناراض نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
’’چھوڑو سب ۔یہ بتاوْ کب آوْں؟ ‘‘
’’ عیشاء کی نماز کے ایک گھنٹے بعد آ جانا ۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا لیکن کہنے کے بعد اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا ۔
’’اذان ہو رہی ہے اب میں خاموشی سے سنتا ہوں اور اور نما زکے بعد کرانے کے دو نفل پڑھ کر نکلتا ہوں ۔ ‘‘ اس نے شرارت سے کہا۔
پاکیزہ نے فون رکھ کر چٹیا کھولی ۔ گھنی زلفوںمیں کنگھی پھیرنے لگی ۔ پہلے پونی ٹیل بنائی لیکن وہ اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔سامنے کے بالوں کا ٹوئسٹ بنایا لیکن وہ اوور لگ رہا تھا۔ درمیان سے مانگ نکالی لیکن وہ بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی پھر سٹپٹا کر بالوں کو لپیٹ کر جوڑا بنا لیا۔ فٹا فٹ نماز پڑھی ۔دوبارہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔
تسکین پھوپھو کے کمرے سے کھانسنے کی آواز آئی۔ فوراََ پیسے مٹھی میں پکڑے اور گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر سیڑھی پر پڑے پودوں کی جڑوں میں رکھ دئیے ۔ دروازے کو بند کیا اور اندر سے کنڈی لگالی ۔
’’پھوپھو دروازہ لاک کر دیا ہے۔ میں سونے جا رہی ہوں۔ ‘‘
آواز لگا کر اس نے بنا جواب سنے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا ۔مسڈ کال آئی تو فوراََ موبائل سائلنٹ کیا۔
آدھے بالوں کو کیچر میں جکڑا۔ ایک لٹ کو چہرے پر آوارگی کے لیے چھوڑ دیا، سانولی رنگت حیا کی سرخی سے تمتما رہی تھی ۔ آنکھوں میں چاند کی چاندنی نے اپنا روپ نچھاور کر رکھا تھا ۔
وہ کھڑکی کے قریب ہوئی پھر پیچھے ہو گئی ۔پھر پیغام بھیجا کہ
’’موتیے کے پودے کی جڑوں سے پیسے اٹھا لو ‘‘
اب کھڑکی سے چپک کر کھڑی ہو گئی۔ کھڑکی مکان کی پچھلی طرف تھی ۔ داخلی دروازہ اگلی جانب تھا ۔آفتاب پیسے اٹھانے گیا تھا وہ بائیک لے کر جب پچھلی طرف کی گلی میں داخل ہوا۔ پاکیزہ نے فورا اس کا نمبر ڈائل کیا۔ ایک ہاتھ سے بائیک سنبھالتے اس نے فوراََ کال پک کی تھی ۔
’’آفتاب ‘‘نچلے لب کو دانتوں میں دابتے ہوئے آج اس نے گفتگو کا آغاز اس کے نام سے کیا تھا۔
’’ہاں‘‘ وہ مخصوص جگہ پر کھڑا ہونے کے لیے بائیک کو آہستہ آہستہ لے جا رہا تھا۔
’’مجھے پیسے مل گئے شکریہ ‘‘ وہ اوپر نہیں دیکھ رہا تھا لیکن بول رہا تھا۔دودھیا رنگت شاید پیسے لینے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی۔
وہ پاکیزہ کو تنگ کرنے کے لئے کہتا تھا کہ میری طرف دیکھو۔خود کبھی ذیادہ دیر تک پاکیزہ کو نہ دیکھتا۔اسے خدشہ تھا کہ کانچ کی گڑیا کو نظر سے ہی نظر نہ لگ جائے۔
’’ آفتاب ‘‘ اس کی آواز میں سچی پکار تھی۔
’’ہاں ‘‘آفتاب اب کی بار بھی اوپر نہیںدیکھ سکا تھا ۔
جس ہاتھ سے وہ بائیک سنبھال رہا تھا غالبا اسی میں پیسے تھے ۔ ہتھیلی سرخ ہو رہی تھی، وہ بائیک کی چابی گھما رہا تھا۔ اب قدم قدم چلتے ہوئے وہ بائیک کو کھڑا کر کے اس سے اترنے لگا ۔
’’جو میں کہہ نہیں سکتی وہ میں فرض کرتی ہوں
چلو میں فرض کرتی ہوں مجھے تم سے محبت ہے ‘‘
بہت ہچکچاتے ہوئے پاکیزہ نے وہ کہہ دیا تھا جو اسے سمجھ میں آیا تھا۔
بائیک سے اترتا ہوا آفتاب سنبھل نہیں پایا تھا ۔لڑکھڑا گیا ۔بائیک اس کے اوپر آن گری تھی ۔ پاکیزہ پریشانی میں ایک قدم مزید آگے بڑھی۔ خوبصورت اپالو کا مجسمہ ،یونانی دیوتا مکمل ساکن ہوا کھڑکی میں اترے اپنے چاند کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں وہ اس اظہار پر ہزار دفعہ صدقے جا چکا ہے اور سو دفعہ دل و جان ہار چکا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ یادیں ،موسم تابندہ،کچھ عکس اور خواب سدا زندہ
دل عجب عجائب خانہ ہے کچھ تصویروں تمثالوں کا
صبح کا سورج رات بھر کے کورے کو پگھلانے کی نا کام کوشش کرتا بادلوں میں سے اپنی روشنی نچھاور کر رہا تھا ۔ کورے نے اپنی پوری آنکھیں سورج پر گاڑ دی۔ بھلا جو رات بھر ہوا تھا وہ کچھ لمحوں کے وجدان سے چھٹ جائے گا ؟ کئی گھنٹے لگیں گے اور ظاہری طور پر اشیاء اسے بھلا بیٹھیں گی لیکن دُور کوئی اس سب کو لکھ رہا ہو گا۔۔۔ محفوظ کر رہا ہو گا !
وہ سورج کے آنکھ کھولنے سے کچھ دیر پہلے ہی نیند کی آغوش میں لپٹی تھی ۔
وہ کون ساوعدہ تھا جو آفتاب نے نہیں کیا تھا سوائے ساتھ چھوڑنے کے ۔۔۔ !
وہ کون سی تعریف تھی جو پاکیزہ کی نہیں ہوئی تھی سوائے ستمِ صنم کے !
اس کی ہر خامی ا سکی خوبی بن گئی تھی ۔ کوئی تھا جو اسے اس سے زیادہ جانتا تھا، جو اسے اس سے زیادہ سمجھتا تھا ۔اس کو ایک کتاب کی مانند دیکھتا تھا ،پڑھتا تھا اور طالب کی طرح سینت سینت کر رکھتا تھا۔ وہ ا س جہاں میں کسی کو تو مطلوب تھی۔ اس احساس نے نیند کی طلب پر غلبہ پا لیا ۔
رات کا ایک پہر گزرنے کے بعد دونوںکو احساس ہوا تھا کہ دوری ہر محبت کا لازمی جز ہے ۔ وہ ایک دوسرے سے دور تھے اور ان کو جوڑنے والے موبائل کا بیلنس ختم ہو چکا تھا ۔ اسی وقت آفتاب اپنے کمرے کی کھڑکی سے لان میں کودا، دیوار پھلانگی اور دو کلو میٹر کے فاصلے پر کھلی دکان سے پاکیزہ سے جڑنے کی نوید لے کر آیا۔ اس کے پیچھے راستے میں کتے بھی لگے تھے ۔ حواس باختگی میں دو دفعہ گرا، گھٹنوں اور ٹانگوں پر خراشیں ٓئی لیکن پاکیزہ سے ساری رات بات کرنے کے لیے یہ تکلیف کچھ بھی نہیں تھی ۔ اس نے ہنستے ہوئے پاکیزہ کو بتایا تھا اور پاکیزہ کو اس دیوانگی پر ہنسی آئی تھی ۔ ساتھ ہی چھوٹے سے دل کو فکر مندی نے اپنے شکنجے میں لے لیا ۔
’’ٹیٹنس کا انجیکشن صبح اٹھتے ہی لگوا لینا۔‘‘ تاکید کی گئی ، دوسری طرف سر خم ہوا۔ وہ سر جھکانے کے لیے بے تاب ہی تو تھا ۔
’’ہم دوسروں کی طرح کبھی کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھائیں گے ۔‘‘
’’ جتنی جلدی ہو سکے گا شادی کر لیں گے۔‘‘
’’میں تمہارے ساتھ والی سیٹ پر گاڑی میں تب ہی بیٹھوں گی جب ہماری شادی ہو جائے گی۔‘‘
’’شادی سے اگلی صبح ہم سکول جائیں گے تاکہ ا س جگہ کو خراج عقیدت پیش کر سکیں جس نے آسمان پہ بچھڑی ہوئی روحوں کو ایک دوسرے سے ملایا ۔‘‘
’’تمہیں پتا ہے آج کل کی جنریشن بات یہاں سے شروع کرتی ہے ’آر یو گڈ اِن بیڈ؟‘ یہ تم ہو جس کی وجہ سے میں آج تک اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکا۔‘‘
’’تم ایسی لڑکی ہو جس کے ساتھ فلرٹ نہیں کیا جا سکتا،صرف شادی کی جاسکتی ہے۔‘‘
’’میں آج کے بعد تمہیں کبھی آپ نہیں کہہ سکوں گا کیوں کہ تم میرے دل کے بہت قریب ہو گئی ہو ۔‘‘
’’اور میں آپ کو آج کے بعدکبھی تم نہیں کہہ سکوں گی ۔۔۔‘‘
ایک لڑکی کا کسی لڑکے کے لیے جب تم سے سفر آپ پر ختم ہو جاتا ہے تو دراصل وہ اپنی ذات کی مٹی سے ایک مٹی نکال کر ایک بت تعمیر کرتی ہے اسے اپنے دل کی مسند پر بٹھاتی ہے اس کے صدقے واری جاتی ہے اس کی اتنی نظر اتارتی ہے کہ اپنا حسب نسب بھول جاتی ہے وہ لڑکی سے جوگن بن جاتی ہے تب ہی تم سے آپ پر آتی ہے ‘‘
آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر وہ مسکرائی۔ آنکھیں وہی تھیں لیکن ان میں سرخ ڈورے کسی اور کے روپ کو جگہ دئیے خوبصورت لگ رہے تھے۔ وہ واقعی یونانی دیوتا ہے یا اس نے مجھے محبت سے چھو کر قیمتی کر لیا ہے جسے نظر میں بسایا ہے وہ تو ہے ہی خوبصورت ۔۔۔ اتنا خوبصورت کے میں اسے سوچ کر خوبصورت ہو رہی ہوں اس کی سرگوشیاں میری سماعت میں رقص کر رہی ہیں اور میری روح اس کی آواز کے وجد میں مبتلا ہے اس کا لمس جس نے مجھے چھوا تک نہیں میرے دل کو مسلسل گدگدا رہا ہے میری مسکراہٹ اس کی بے ساختگی اور دیوانگی سے حسین ہو گئی ہے ۔وہ کیسے میرے اندر تک اتر گیا ہے میرے سارے رنگ ہیچ ہوئے اس کی محبت کا رنگ پکا نکلا وہ سچ کہتا ہے اس کی محبت کی صداقت پر میں نے لبئیک نہیں کہا میری رگوں میں دوڑتے خون نے جی حضوری کی ہے آج مجھے پتا چلا ہے کے مجھے دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے اسے مکمل کرنے کے لئیے آج مجھے پتا چلا کے اسے دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے مجھے مکمل کرنے کے لئیے ۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکیاں بیٹھی تھیں پاؤں میں ڈال کر
روشنی سی ہوگئی تالاب میں
جکڑے جانے کی تمناتیز تھی
آگئے پھرحلقہ ء گرداب میں
’’تمنا نہیں آئی ؟ ‘‘ایک نے دوسری سے استفسا کیا۔
’’اپنے بوائے فرینڈکے ساتھ ڈیٹ پر گئی ہو گی۔‘‘جواب دینے والی نے بڑے آرام سے تبصرہ کیا۔
’’لیکن وہ تو کہتی ہے کہ وہ اس کا کزن ہے۔‘‘ایک کو حیرانی ہوئی۔
’’کزن ہے تو کیا ہوا ؟ ہے تو بوائے فرینڈ ہی نا ں؟نکاح تو نہیں ہوا ناں ؟‘‘کسی اور نے قطعیت سے شانے اچکائے۔
آپس میں باتیں جاری تھیں۔سب کی نظریں پانی کی سطح پر پڑنے والی سورج کی کرنوں سے خیر ہ ہو رہی تھیں ۔ اشتیاق سے مسکراتی آنکھیں اور ہاتھوں کی حرکات اندرونی خوشی کا اظہار بن رہی تھیں۔
ایک وہ تھی جس کا دھیان بھٹکا ہوا تھا ۔ ایک وہی تھی جس کا دھیان ہونا چاہیے تھا۔ میڈم کنیزنے اس کو غور سے دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں سورج کی رقصاں کرنوں کا کوئی عکس نہیں تھا۔ وہ غائب دماغی سے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی ۔ اپنے دانتوں میں منہ کی اندرونی جانب سے تھوڑا سا ماس دبائے ہوئے وہ اپنی مسکراہٹ قابو کر رہی تھی ۔
آنکھوں میں کوئی عکس چھن جانے کا خوف تھا۔ لبوں پر کوئی راز افشاء ہو جانے کاڈر تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ موبائل کو د یکھتی پھر یہا ں وہاں دیکھتی ۔۔ یہ لڑکی وہ نہیں تھی جس کو کچھ عرصے سے وہ جانتی تھیں۔ واردات ہو چکی تھی ۱
’’کیا ہوا ہے پاکیزہ؟ ‘‘ انہوں نے پاکیزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
پاکیزہ چونک کر ان کی طرف مڑی کچی نیند سے جاگتے ہی خواب سامنے کے منظر پر حاوی ہو جاتے ہیں ۔ پاکیزہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا اسے لگا تھا شاید آفتاب کہیں سے آ جائے ۔
’’نہیں میڈم کچھ نہیں ‘‘ وہ واقعی وہاں نہیں تھی ورنہ ہمیشہ میم کہنے والی آج میڈم کیوں کہتی ۔
’’میرے ساتھ آوْ ‘‘وہ پاکیزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے قریبی ٹیلے پر لے آئی ۔
کالج کی طرف سے چھوٹا سا تفریحی دورہ اپنے اوج ِکمال پر پہنچ چکا تھا ۔لڑکیاں ٹولیوں کی صورت میں اساتذہ کی نگرانی میں یہاں وہاں گھوم رہی تھیں ۔میم کنیزنے اپنے گروپ کو نظروں میں لے کر پاکیزہ کو اپنے پاس بٹھا لیا اور وہ بیٹھ گئی ۔
’’کون ہے وہ ؟‘‘ انہوں نے کوئی پہیلی نہیں پوچھی تھی ۔سیدھا سادھا سا سوال تھا جو انہوں نے ایک بھی لمحے کی تاخیر کے بغیر پوچھ لیا ۔
’’جی ؟‘‘ پاکیزہ کے لیے جواب دینا مشکل ہو گیا ۔
’’کون ہے وہ؟ تم ایک دوست سمجھ کر بتا سکتی ہو مجھے۔ ‘‘ انہوں نے اپنی آواز میں شیرینی کو نمایاں رکھا۔ یہ سچ تھا کہ وہ کبھی بھی ڈانٹ کر سچ نہ جان پاتی ۔
’’آفتاب نام ہے اُن کا ۔‘‘ اس ایک ’’اُن ‘‘ میں ساری کہانی چھپی تھی۔
میم کنیزکے ہاتھوں میں لرزش اتر آئی بمشکل خودپہ قابو پایا۔اب جو دام میں آئی تھی وہ عام سی چڑیا نہیں تھی۔
’’کون ہے ؟کیا کرتا ہے؟ ‘‘
’’میرے ساتھ ہی پڑھتا تھا۔ میرے سکول سے ہی میٹرک کیا تھا۔ اب سیکنڈ ائیر کے پیپر دینے ہیں ۔‘‘وہ اسلامیات کی سپلی کی بات چھپا گئی ، اپنے ’’اُن ‘‘ کی خود بے عزتی کیسے کرواتی ۔
میڈم کنیز کو تھوڑی سی تسلی ہوئی ۔
آج کل کی لڑکیاں بغیر دیکھے موبائل فون پر بات کر کے بھی مسحور ہو جاتی ہیں اور کسی ٹرک ڈرائیور ،ریڑھی بان ، نان فروش سے ملنے چلی جاتی ہیں ۔
یہ دونوں تو کم عمر ہیں ،بس بے وقوفی کر رہے ہیں ۔اتنا کم عمر لڑکا ضرر رساں ثابت نہیں ہو سکتا۔انہیں یہی لگا ۔
’’کیا کہتا ہے؟ ‘‘ وہ ا س سے زیادہ مناسب سوال اس سے پوچھ نہیں سکتی تھی ۔
’ میم ایسی ویسی کوئی بات نہیںہے ۔وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔‘‘ اس نے ہڑبڑا کر وضاحت دی۔
’’تو کر کیوں نہیں لیتا ‘؟‘میم کنیزکا سوال بجا تھا ۔
’’اتنی جلدی میم ۔۔۔اتنی جلدی کیسے ممکن ہے ؟‘‘ پاکیزہ بوکھلا گئی۔
’’جب اتنی جلدی ممکن نہیں ہے تو اتنی جلدی رابطہ کیوں کر ممکن کر لیا ؟‘‘ میم کنیزدلائل دے رہی تھیں ۔
’’میم وہ فئیر ہے ۔وہ واقعی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ جیسے ہی ممکن ہوا وہ کر لے گا۔ ‘‘وہ ٹوٹی ہوئی وضاحتیں دینے لگی جس میں یقین کے بیش قیمت نگینے جڑے ہوئے تھے۔
’’بیٹا کل کس نے دیکھی ہے؟ تم اس سے کہو وہ کر لے ۔جو ممکن ہے وہ کر لے۔خاموشی سے صحیح وقت کا انتظار کرے یا پھر رشتہ بھیج دے۔ ‘‘ میم کنیزجانتی تھیں کہ وہ کتنا مانے گی۔
’’میم اس کے گھریلو حالات کا کچھ مسئلہ ہے۔ اس کی گھر میں کوئی پوزیشن نہیں ہے ۔ میرا نہیں خیال اس کے بھائی بھابھیاں مانیں گے ۔بعد میں شاید مان بھی جائیں لیکن ابھی جب اس کی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی وہ کیسے مان سکتے ہیں ؟‘‘ پاکیزہ بمشکل وکالت کر رہی تھی ۔
’’جو آج رشتے کے لیے راضی نہیں کر سکتا ،وہ کل شادی کے لئیے کیسے راضی کرے گا؟سوچنے کی بات ہے !‘‘
میم کنیزنے فیصلہ اس پہ چھوڑ دیا۔ ذہانت کے در پہ اتنی دستک کافی تھی۔
میم کنیزآہستگی سے اٹھی اورباقی لڑکیوں کی طرف چل پڑی ۔وہ ٹیلے پہ تنہا بیٹھی رہ گئی تھی۔
کیا میں اکیلی رہ جاوْں گی؟ کیا وہ کوئی اسٹیپ لے گا ؟ کیا اس کے گھر والے مان جائیں گے ؟ میم کنیز میرے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی ؟ وہ خود سے سوال پوچھ رہی تھی۔
وہ ڈرتی دوڑتی ہوئی میم کنیزکے پاس گئی۔
’’میم ۔۔۔میم! ‘‘
’’جی بیٹا ‘‘ان کے مشفق اندازپر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
’’آپ پتا نہیں میرے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی ؟‘‘اس کے لیے میم کنیز کی سوچ اہمیت رکھتی تھی۔
’’میرے سوچنے یا نہ سوچنے سے فرق نہیں پڑتا۔ اس کے سوچنے سے فرق پڑتا ہے ۔‘‘میم نے انگلی اٹھا کر آسمان کی طرف اشارہ کیا
’’سوچو اللہ تمہارے بارے میں کیا سوچتا ہے ؟‘‘
وہ کہہ کر چلی گئی اور پاکیزہ سُن کھڑی رہ گئی۔
ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے اس کو یخ کر رہے تھے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں مجھ پر یقین ہے؟ ‘‘ سارے سوالوں کے جواب میں وہ بس یہی پوچھ سکتا تھا۔
پاکیزہ نے تاروں بھرے آسمان کو ایک نظر دیکھا۔ اس کی زندگی میں اس روشن تھالی کی طرح بہت لوگ تھے ۔ بادلوں سے چاند نکل کر آیا اور پاکیزہ کی ساری توجہ چاندنی پر مرکوز ہو گئی جس نے رات کا پورا سماں ہی بدل دیا تھا۔ آفتاب کے آنے سے کیا ہوا تھا ۔۔۔یہی تو ہوا تھا۔
’تمہیں مجھ پر یقین ہے ؟‘‘ وہ دوبارہ سوال پوچھ رہا تھا۔
پاکیزہ گڑبڑا گئی ۔
کیا اس نے آفتاب سے محبت کی تھی؟ نہیں! اس نے آفتاب سے محبت نہیں کی تھی ۔۔۔ اگر اس نے آفتاب سے محبت کرنا ہوتی تو تب کرتی جب وہ اس کے سامنے کھڑا رو رہا تھا۔ اگر اس نے آفتاب سے محبت کرنا ہوتی تو تب کرتی جب وہ خود محبت کا اظہار کرتا پاگل ہو رہا تھا۔ مسئلہ سارا یہی تھا اس نے آفتاب سے محبت نہیں کی تھی۔ اسے محبت ہو گئی تھی۔۔۔ بغیر سوچے سمجھے محبت ہوئی تھی ۔۔۔ویسے ہی جیسے محبت حقیقت میں ہوتی ہے۔نہ موقع دیکھتی ہے نہ محل۔نہ ذات نظر آتی ہے نہ پات ۔بس ایک لمحہ لگتا ہے اور الہام کی طرح محبت کا نزول بھی ہوجاتا ہے۔ جب وہ اس کی کھڑکی کے نیچے کھڑا تھا، اس کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں ۔اسے شاید ان جھکی نظروں سے ہی محبت ہوئی تھی۔شاید سرخ سفید رنگت من کو بھائی تھی۔ نجانے کیوپڈ کا تیر کہاں سے چلا۔اس لمحے پاکیزہ نے جو بھی کہا تھا سوچ کر نہیں کہا تھا، ارادتاََ نہیں کہا تھا۔ اس کے منہ سے نکل گیا تھا۔۔۔ نہیں! منہ سے بھی نہیں نکلا تھا تھا۔ منہ سے نکلا ہوتا تو وہ لڑکی ہونے کا پاس رکھتی ۔۔۔ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی آواز دبا دیتی۔۔۔وہ لفظ تو دل سے نکلے تھے اور انہوں نے یونہی نکلنا تھا۔
اب وہ اس محبت کا کیا کرتی ؟ اسے کہاں لے جاتی ؟اس کا دل کسی آری سے کٹ رہا تھا ۔
میری خوشیوں کی عمر اتنی چھوٹی کیوں ہوتی ہے ۔۔۔!
’’پاکیزہ اس کا مطلب ہے تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے۔ ‘‘ آفتاب اس کی مسلسل خاموشی سے نتیجہ اخذ کر چکا تھا۔
’’نہیں! ایسی بات نہیں ۔‘‘پاکیزہ نے ایک دفعہ پھر بادلوں کی اوٹ میں جا چھپے چاند کو دیکھ کر کمزور سا احتجاج کیا ۔
’’ایسی بات نہیں ہے تو کیسی بات ہے ؟ میں تین چار سال سے مسلسل تمہیں اپنی محبت کا یقین دلا رہا ہوں۔ میری محبت کچی عمر کی محبت ہے کچی عمر کی محبت کچی نہیں ہوتی، بہت پکی ہوتی ہے۔ جس طرح وقت نین نقش پہ اپنے اثرات چھوڑتا ہے لیکن نین نقش نہیں بدل سکتا بالکل اسی طرح تمہاری محبت شدید تو ہو سکتی ہے لیکن میرے دل پر کندہ تمہارا نام نہیں بدل سکتا ۔ ‘‘ وہ وضاحتیں دیتا اب تھک رہا تھا۔
’’آفتاب بات محبت کی نہیں ہے عزت کی ہے ۔اگر ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہو گا تو میں دنیا کو کیسے بتاوْں گی کہ آپ میرے کیا لگتے ہیں۔ دنیا آپ کو میرا بوائے فرینڈ کہے گی اور میں نے یہ لفظ کسی کے منہ سے سنا تو میں مر جاوْں گی ۔ ‘‘ وہ رو رہی تھی۔
چھت کا ٹھنڈا فرش اسے بالکل بھی ٹھنڈا نہیں لگ رہا تھا ۔وہ فرش پہ اکڑوں بیٹھی تھی۔اس کے آنسو گردن تک پھسلتے جارہے تھے۔ ٰؓتحٰ ٹحٰ
’’ کوئی کیوں بوائے فرینڈ کہے گا ؟تم کہنا میں تمہارا دوست ہوں۔َ پلیز ایسے مت روَ۔لوگ ہمیشہ باتیں بناتے ہیں ۔تم تو بہت سٹرانگ تھی تم نے کب سے لوگوں کی پرواہ کرنا شروع کر دی ۔‘‘ وہ ناریل کا چھلکا اترنے پہ حیران تھا ۔پاکیزہ کبھی نہیں روئی تھی۔آج رو رہی تھی۔
’’لوگ میرے بارے میں غلط باتیں کہیں گے حالانکہ میں غلط لڑکی نہیں ہوں۔لڑکا اور لڑکی کبھی دوست نہیں ہوتے یہ آپ بھی جانتے ہیںاور میں بھی جانتی ہوں۔ جب تک میرے دل میں نرمی نہیں تھی تب تک میں نے تمہاری دوستی بھی قبول نہیں کی تھی ۔جہاں تک لوگوں کی بات ہے تو ان کی پرواہ کرنا میں چھوڑ سکتی ہوں۔اگرلوگوں کی پرواہ کرناچھوڑ بھی دوں تواللہ کی پرواہ کرنا کیسے چھوڑ وں ؟اس کے سامنے کس طرح کھڑی ہوں ؟اللہ جی پتا نہیں میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے ؟‘‘ اس نے دیوار سے ٹیک لگا کر ہتھیلی کو چھت کے فرش پر پھیلا کر اپنے ڈولتے وجود کو سہارا دیا ۔
وہ سسکیاں لے رہی تھی۔محبت نے اس کو گھٹنوں پر لایا تھا۔محبت ایسے ہی کرتی ہے۔۔۔گردن تڑوا بھی سکتی ہے، جھکا بھی سکتی ہے! جھکنے کی تکلیف ٹوٹنے سے کہیں ذیادہ ہوتی ہے۔
’’ کیا چاہتی ہو تم ؟‘‘وہ پوچھ رہا تھا وہ یہ بھی سن رہا تھا کے وہ واپس آپ سے تم ہو گیا ہے ۔
’’میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں۔ ‘‘تم کا صیغہ استعمال کر کے وہ بھی اپنی جگہ سے ہلی تھی۔صاف لفظوں پر اتر کر اسے خود بھی حیرت ہو رہی تھی۔
اپنے آپ کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنا اُٹھے سر کو کچل دیتا ہے !
’’ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ میرا بس چلے تو تمہارا ایک بال بھی کسی کو دیکھنے نہ دوں، تمہیں چھپا کر رکھ لوں لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ میرے
بس میں کیا ہے۔اگر تم میرے حالات نہیں جانتی تو کوئی نہیں جانتا۔اگرتم سب جانتے ہوئے بھی مجھ سے یہ فرمائش کر رہی ہو تو میں صرف حیران ہی ہو سکتا ہوں۔ میرے پیرنٹس پہلے ہی بھابھیاں گھر لا کر اکتائے ہوئے ہیں ۔میں ابھی پڑھ رہا ہوں۔ ساتھ کوئی کام کاج کر رہا ہوتا تو ضرور کوئی اسٹیپ اٹھا لیتا ۔میں ایسی کوئی بات جیسے ہی گھر میں کروں گا، سب میرے خلاف ہو جائیں گے ۔ بھائی تو اس حد تک بھابھی کی بات سنتے ہیں کہ مجھے گھر سے نکالنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ اگر میرے ہاتھ ہوتا تو میں سیدھا راستہ کیوں نہ اپناتا ۔ میں نے شادی تم سے ہی کرنی ہے ۔ بس تھوڑا سا انتظار کر لو۔ ‘‘وہ درخواست کر رہا تھا ۔
’’اگر انتظار ہی کرنا ہے تو پھر آفتاب تم خود کر لو۔ جب تک ہمارے رشتے کو جائز نام نہیں ملتا ۔مجھ سے رابطہ نہ کرو۔ میرا حال چال دریافت نہ کرو اگر میں واقعی تمہارے نصیب میں لکھی ہوئی تو اللہ خود سبب بنا دے گا۔ ‘‘ اس نے رات کی سیاہی کا کڑوا گھونٹ بھرا۔
’’تم مجھ سے وہ کیوں نہیں مانگتی ؟جو میرے بس میں ہے ۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ وہ گھٹنے ٹیک رہا تھا۔
’’ میں اللہ جی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس کے سامنے کیسے کھڑی ہوں ؟ میں جب یہ سوچتی ہوں کہ اللہ جی میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے تو مجھے خود سے گھن آتی ہے۔ ‘‘
وہ سسک اٹھی ۔
’’ہمارے درمیان میں کچھ بھی نا جائز نہیں ہے ۔‘‘ ایک بودی سی دلیل آئی۔
’’ہمارے درمیان کچھ جائز بھی تو نہیں ہے۔‘‘ایک ذہین ذہن نے جواب دیا۔
’’تم مجھے چھوڑ رہی ہو۔ ‘‘ وہ سسکا ۔
’’میں ذلت کو چھوڑ رہی ہوں۔ ‘‘وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن بات اچک لی گئی۔
’’ میں ذلت لگتاہوں تمہیں ؟‘‘ تین چار سال کی ریاضت بے کار گئی تھی۔
’’ نہیں میں یہ نہیں کہنا چاہتی تھی۔ ‘‘ اس نے سِرا پکڑنا چاہا۔
’’تم یہ کہہ چکی ہو۔ ‘‘وہ شکست خوردہ لہجے میں بولا۔
’’اگر تم یہی سمجھنا چاہتے ہو تو یہی سہی۔ ‘‘ اس کی نظریں اب روشن تھالی سے پرے جانے کی سعی کرنے لگیں ۔
وہ فون بند کر چکی تھی ۔نمبر ایک دفعہ پھر بلاک ہوچکا تھا۔آسمان روشن تھا ۔
زمین پر کچھ بھی ہو جائے آسمان کو فرق نہیں پڑتا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حُسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں !
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
کوئی موجہء شیریں چوم کر جگائے گی!
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دُکھ ہجر کا ،کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتی
سرما میں جتنے پتے درختوں سے گرے تھے وہ بہار میں پھر سے نکلنے لگے۔ مٹی کے تلے چھپے ہوئے حشرات کے رینگنے کی آوازیں بڑھنے لگیں۔ نئے پھول اپنی چھب دکھلانے لگے ۔کوئل کی کوک میں سریلا پن اتر آیا۔ زندگی ویسے ہی رواں دواں تھی۔ ایک موسم جا رہا تھا اور دوسرا آ رہا تھا ۔
’’پاکیزہ یہ کپڑے کیوں نہیں پہنتی ؟اتنے شوق سے لیے تھے ‘۔‘ تسکین نے بھوری دھاریوں والے فراک کے متعلق پوچھا ۔
’’اس کے گلے پہ جو کام ہوا ہے وہ چبھتا ہے۔ ‘‘ چھبتا تو واقعی تھا لیکن جو چبھتا ہے وہ کام نہیں تھا بلکہ خالی پن تھا ۔
’’آگے کا کیا سوچا ہے ؟ کون سے سبجیکٹس رکھنے ہیں ؟‘‘ تسکین نے کھوجتی نظروں سے اس کی مصروفیت کو پرکھا ۔
’ میں سوچ چکی ہوں انجینئرنگ یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہو گیا تو ٹھیک ورنہ بی بی اے کر لوں گی۔ ‘‘پاکیزہ نے ترتیب سے رکھی ہوئی ساری کتابوں کو از سر نو ترتیب دیتے ہوئے کہا ۔
’’انجینئرنگ یونیورسٹی کیوںنہیں ہو گا؟ فرسٹ ائیر کے اتنے اچھے مارکس ہیں مجھے پوری امید ہے تمہارا داخلہ ہو جائے گا۔ ‘‘تسکین نے سابقہ کارکردگی کو دماغ میں رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا حالانکہ وہ جانتی تھی کہ پاکیزہ کی پڑھائی میں دلچسپی ویسی نہیں رہی ۔
وہ بیٹھی اسکیچنگ کرتی رہتی ،کمرے کی ترتیب بدلتی رہتی ،کتابوں کو وقت کم دیتی۔ تسکین کو تنبیہہ کرنے کا موقع نہ ملتا کیونکہ کسی اور کام میں بھی پاکیزہ مگن نہ رہتی ۔وہ جو موبائل میں مگن رہنے کا دُور تھا وہ بہت اچانک آیا اور بہت جلدی گزر گیا ۔
’’ہو گیا تو ٹھیک نہیں تو نہ سہی ‘‘ وہ پہلے والی پر عزم پاکیزہ گم ہو گئی۔ اِس پاکیزہ کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا ۔
تسکین الجھ گئی لیکن کوئی سرا ہاتھ میں ہوتا تو ڈور کھینچتی۔۔۔ بے مطلب کی باتیں کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
منڈیر پر شام اتر آئی ۔کوکتی کوئل اپنے آشیانے میں لوٹ گئی تھیں۔بے تاثر چہرے کے ساتھ پاکیزہ نے سر تکیے پر رکھا تو ایک نا معلوم سی کسک آنکھوں میں نمی کی صورت در آئی ۔ خود پر قابو پانا خواہشوں کا گلہ گھونٹ دیتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ ہماری خواہشیں حسرتیں ہیں ۔اس کے باوجود خواہشوںکا گلہ گھونٹنے پر ہم بین کرنے لگ جاتے ہیں ۔
تکیے کے نیچے رکھا موبائل نکالا َگزشتہ تین ماہ کی طرح آج کی رات بھی ا س نے صبح سے آئے ہوئے پیغامات کو بلاکڈ کے فولڈر میں پڑھنا شروع کیا ۔
’’صبح کے پہلے خیال کو میرا سلام!‘‘
’’فون تم اٹھاتی نہیں ہو۔۔۔ کتنے ہی نمبروں سے کال کر چکا ہوں لیکن نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ میرا نمبر بلیک لسٹ میں ڈالنے کے باوجود بلاکڈ میسجز کے فولڈر میں جا کر میرے میسج پڑھتی ہو گی ۔ میرے جذبات اتنے ارزاں تو نہیں کہ انہیں یوں ٹھکرا دیا جائے ‘‘
’’تمہاری فکر ہو رہی ہے۔ معلوم نہیں تمہارا کیا حال ہو گا؟ ‘‘
’’کیا تمہیں سارے دن میں ایک بار بھی میرا خیال نہیں آتا؟ ‘‘
’’تم بے شک مجھے اگنور کرو لیکن اب بھی تم میری جیکٹ کی اندرونی جیب ہو،میرے دل کے بہت قریب!‘‘
میسجز پڑھ کر وہ ہلکی پھلکی ہو گئی ۔دنیا میں کوئی تو تھا جس کے لئیے وہ اہم تھی۔ جو اسے پیغام بھیجنا ضروری سمجھتا تھا ۔
اس بندے کی کتنی قدر دل میں پیدا ہو جاتی ہے جس کو آپ چھوڑ دیں لیکن تب بھی وہ آپ کو نہ چھوڑے، ایلفی کی طرح آپ سے چمٹ جائے ،آپ دامن چھڑوائیں تب بھی آپ کی پرواہ کرے ، بے لوث بے غرض فکر کرے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ قدر جب اپنا آپ منواتی ہے تب تک ایلفی ایکسپائر ہو جاتی ہے۔ وہ بندہ پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔نہ آزمانے والا پچھتاوے سے خالی رہتا ہے اور نہ ہی آزمایا جانے والا مکمل ہوتا ہے ۔
جب میں اسے آواز دوںگی وہ میرا جواب دینے کے لیے اسی طرح تیار ہو گا۔۔۔ جتنا اب بے قرار ہے ؟یہی سوال وہ روز خود سے پوچھتی تھی۔
بے یقینی کمرے کی چاردیواری پر اندھیرا بن کر رینگنے لگی ۔ اسے گھٹن کا احساس ہوا پھر ساری گھٹن نمی بن کر آنکھوں میں اتر آئی ۔ جو وہ چاہتی تھی وہ ہو نہیں سکتا تھا اور جو ہو سکتا تھا وہ اس کو چاہ نہیں سکتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کیوں اس کو فون کروں !
اُس کے بھی تو علم میں ہوگا
کل شب
موسم کی پہلی بارش تھی!
موذن نے اذان دی اور رحمتیں رونق بن کر گلیوں میں اتر آئیں ۔ دکانداروں نے اپنا اپنا کاروبار بند کیا۔ عورتیں گھر کے مردوںکے کپڑے تیار کر کے غسل خانے میں لٹکانے لگ گئیں ۔ لڑکیاں بالیاں بیری کے پتوں کی تلاش میں بھائیوں کو دوڑائے بیٹھی تھیں ۔جس گھر میں بیری کا درخت تھا وہاں الگ ہی سماں تھا۔ عید ہو جیسے عید کی رات ہو ۔۔۔!
لڑکوں کے سفید کڑکڑ کرتے کپڑے ،کھیڑیاں پاوْں میں سجی ہوئی اور سر پر سلامتی کی پیامبر بنی ٹوپیاں نورانی رات کا حصہ لگ رہی تھیں۔ آسمان پہ دھیمی سی روشنی کا ایسا اندھیر مچا ہوا تھا کہ رات ہو کر بھی نہ تھی۔ برقی قمقموں نے شہر کا شہر روشن کر رکھا تھا ۔مسجدوں میں اپنے اپنے والد صاحب کے ساتھ آئے نعت خواں اپنی آواز پر فرحاں و شاداں تھے۔ تھوڑا وقت اور بیتا ۔گھروں میں بھی نوافل کی محافل سج گئیں۔ لڑکیاں اپنی سکھیوں کے سنگ زور و شور سے عبادت میں مشغول ہو گئیں ۔ جو نماز نہیں پڑھ سکتی تھیں انہوں نے ہاتھ میں تسبیح اٹھا رکھی تھی۔ پاک زبان سے پاک رب کا نام با برکت لیا جا رہا تھا۔ برکتوں والی شب برات سے ہر کوئی اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹنے کا متمنی تھا ۔
سفید رنگ کی قمیض جس پر جامنی رنگ کے بٹن لگے تھے ۔جامنی ٹراوْزر اور جامنی دوپٹے کے ہمراہ پاکیزہ پر جچ رہی تھی ۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی لڑکیوں کو ہار سنگھار کی حاجت نہیں ہوتی ۔ان کے لبوں پر حیا کی لالی گالوں پر امید کا نمازہ اور آنکھوں میں اترے خوابوں کی دھنک انہیں منفرد اور پر کشش بناتی ہے۔
اپنی باطنی و ظاہری خوبصورتی سے بے نیاز وہ جائے نماز پہ بیٹھی شکوہ کناں تھی ۔
انسان کو ہمیشہ وہ یاد رہتا ہے جو اسے نہیں ملتا اور وہ ہمیشہ بھول جاتا ہے جو مل جاتا ہے ۔
دل کے اندر کہیں کھوٹ تھا اور وہ اس کھوٹ سے شرمندہ تھی ۔
گھڑیاں بیتتی گئیں ۔رات کو تقریبا گیارہ بجے محلے کے منتخب گھر سے واپسی ہوئی۔ تسکین پھوپھو بھی ساتھ ہی تھی ۔ گھر والوں کا حوصلہ تھا ۔ اجتماعی عبادت کے لیے نہ صرف اہل محلہ کی خواتین کو مدعو کیا بلکہ خاطر تواضع کا بھی سامان فراہم کیا۔ کچھ درس کے بعد فطری طور پر آ جانے والی شرمندگی تھی کہ وہ گھر آ کر بھی سو نہ سکی۔ اللہ سے راز و نیاز کرتے ہوئے رات کے دو بج گئے ۔
فون گھڑی کی ٹک ٹک کو چیرتے ہوئے شور کے ساتھ تھرتھرایا۔ رات کے اندھیرے اور پر اسرار خاموشی میں جیسے کسی نے صور پھونکا ہو ۔وہ جی جان سے کانپی اور لپک کر فون کو جا لیا۔ اگر فون کچھ ہی سیکنڈز اور اپنا شور رابا جاری رکھتا تو غالباََ گمان تھا کہ تسکین پھوپھو کی آنکھ کھل جاتی۔ فون ہاتھ میں لیتے ہی اس نے کال ریسیو کی اور فون کان سے لگا لیا ۔
رات کے اندھیرے اپنے جوبن پر تھے۔ آسمان کی سیاہی پر ایک تارا ٹوٹا اور اندھیر نگری میں گم ہو گیا ۔ تمام فلک اس کی گمشدگی کا رونا روتا رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش نے زمیں پر پاؤں دھرا
خوشبو کھنکی،گھنگرو چھنکا
لہرائی ہوا،بہکی برکھا
کیا جانیے کیا مٹی سے کہا
در آئی شریر میں ایک ندیا
کس اور چلی،دیّا دیّا!
کس گھاٹ لگوں رے پرُویا
ساراجگ جل اور میں نیّا!
’’پاکیزہ مجھ سے بات کرو تمہیں اللہ کا واسطہ ہے ‘‘ یہ آواز پچھلے پانچ ماہ سے اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔ وہ اس آواز کو کیسے بھول سکتی تھی! بس آواز سننے کی دیر تھی۔ ۔۔کانوں میں جیسے امرت رس گھل گیا ،سماعتیں فرحت کے احساس سے آشنا ہو گئیں، اس نے مِنت کو مان لیا ۔
’’پلیز اللہ کا واسطہ ہے تمہیں اللہ کے رسولﷺ کا واسطہ فون نہیں رکھنا ۔‘‘ کرب آواز میں گھلا ہوا تھا ۔ ابھی تو رب سے وہ ہزاروں باتیں کررہی تھی۔
’’ کیا وہ کسی کو ٹھکرائے گی تو رب اس کو اپنا لے گا ؟‘‘
ؑعجیب و غریب سوچیں دماغ پر دستک دینے لگیں ۔اس کا دل رو رو کر نرم ہو چکا تھا۔ پہلے سے مختص ہواگوشہ بڑی آسانی سے واضح ہوا ۔
’’بولو میںسن رہی ہوں۔ ‘‘ اس نے امید و یاس کے درمیان ڈولتے ہوئے کہا۔
تم جو چاہتی ہو میں نے اس کا انتظام کر لیا ہے۔میں اس وقت مسجدکی دہلیز پر بیٹھا ہوں۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں تمہیں پرسنلی گلٹ نہیں ہو گا ۔تمہیں نماز کے لئیے کھڑے ہوتے ہوئے شرمندگی بھی نہیں ہو گی۔ جو تم چاہتی ہو اب وہی ہو گا۔ ‘‘
وہ بول رہا تھا یا اذنِ سحر دے رہا تھا۔۔۔!
اس نے پیغام دیا تھا یا رب کا انعام ۔۔۔!
پاکیزہ بے یقین ہوئی ۔اس نے کان سے ریسیو اٹھایا اور موبائل کو آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھنے لگی ۔
دُور فلک میں ٹوٹ کر ڈوبتا تارا لمحے بھر کو روشن ہوا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...