صاعقے اک تو میرے اس گھر کو جلانے آگئے
لوگ بچا کھچا یہ سامان اٹھانے آگئے
شب و روز یونہی گزرنے لگے تھے اور جونہی گھڑی کی سوئیاں آٹھ بجاتی فون بجنے لگتا پاکیزہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پاگل پن میں مسکرا اٹھتی فون ریسیو کرتی سلام دعا کا تبادلہ ہوتا اس کے بعد خاموشی گہری خاموشی ۔۔۔۔
وہ خاموشی جو خاموش رہتے ہوئے بھی وہ سب کہہ دیتی ہے ۔آفتاب لاکھ چاہتا کہ باتوں کو لٹکائے، بات سے بات نکالے لیکن جو فن قدرت نے دیا ہی نہ ہو اس پہ عبور حاصل کیا بھی نہیں جا سکتا۔ مختصر سی باتوں سے ہی اسکی لگن اور جستجو کی آنچ اپنے پورے جوبن پر محسوس ہوتی۔ پاکیزہ لب کاٹتے ہوئے موبائل اپنے قریب رکھ دیتی اور اپنے کام میں مصروف ہو جاتی۔ آفتاب وہی کرتا رہتا جسکا اس نے کہا تھا ۔ پاکیزہ کی موجودگی کو محسوس کرتے وقت بیت جاتا۔ ان دونوں کے درمیان تعلق خاموشی سے خاموشی تک کا تھا لیکن جتنی پراہ آفتاب ظاہر کرتا اتنی پاکیزہ کے لئیے کبھی کسی نے نہیں کی تھی۔ اس پرواہ اور فکر نے پاکیزہ کو خود سے محبت کرنا سکھا دیا۔ آفتاب کئی بار اصرا ر کرتا کہ بات کرو کوئی بات کرو لیکن پاکیزہ کی ازلی اختیاط پسندی آڑے آ جاتی۔ سلام دعا سے آگے وہ بات ہی نہ کرتی ۔ آفتاب کچھ پوچھ لیتا تو جواب دے دیتی لیکن جواب بھی ایسا ہوتا کے بات وہی ختم ہو جاتی ۔ یہ وہ دور تھا کے موبائل پیکجز ابھی ریوڑیوں کی طرح بٹنا شروع نہیں ہوئے تھے پھر بھی روزانہ ایک گھنٹے کی کال ۔۔۔ پاکیزہ کو حیرت ہوتی کہ آفتا ب روزانہ اتنے پیسے کیسے ضائع کر لیتا ہے۔ سو روپے کا کارڈ لوڈ کروا کے ۰۶ منٹ کی کال کرتا جس میں کسی خوش قسمت دن دس منٹ پاکیزہ اس سے بات کرتی پھر خاموشی راج کرتی۔ دو مہینے خاموشی اپنا کھیل کھیلتی رہی ۔دو مہینے میں ایک بھی دن ایسا نہیں آیا کہ آٹھ بج کر پانچ منٹ پر یا سات بج کر پچپن منٹ پر کال ہوتی۔ پورے آٹھ بجے ہی فون بجا کرتا۔ جب کوئی چیز آپ کو مسلسل ملنے لگے تو آپکو اس چیز کی عادت ہو جاتی ہے اور عادت ضرورت سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے ۔
رات کا پنچھی اپنے پر پھیلا کر روشنی کو اپنے پنجوں میں دبوچ چکا تھا ۔ پاکیزہ موبائل اپنے پاس رکھے کیمسٹری کی کتاب پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی نا کام کوشش کر رہی تھی ۔ سر اٹھا کر دیوار پر لگے گھڑیال کو دیکھا تو سر نیچے جھکا لیا ۔ ابھی آٹھ بجنے میں پانچ منٹ رہتے تھے۔ کچھ دیر بعد دوبارہ گھڑیال کی طرف نظر کی تو معلوم ہوا آٹھ بجنے میں دو منٹ رہتے ہیں۔جب انتظارکیا جائے تو وقت طویل ہو جاتا ہے۔ ایک ایک لمحہ رینگنے لگ جاتا ہے ۔وقت کے پروں کی سرسراہٹ پاکیزہ کو اپنے وجود پہ محسوس ہوئی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا وہ آفتاب کا یوں انتظار کرے گی ۔
کیمسٹری کا ایک بھی لفظ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ تنگ آ کر اس نے اپنی کتاب بند کی اور اسکیچ بک نکال لی ۔ وقت گزارنے کے لئیے اسکیچ بک اس کی بہترین دوست تھی۔ اس کے ہلکے سانولے ہاتھ کی مخروطی انگلیاں پینسل تھام کر جب تصویر بناتی تو تصویر بولتی نظر آتی۔ یہ اس کا ایسا ہنر تھا جس کو ذرا سا نکھار ملتا تو پاکیزہ کی شخصیت کو چار چاند لگ جاتے ۔ اسکیچنگ کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔گھڑیال اب ساڑھے آٹھ بجا رہا تھا ۔ پاکیزہ نے پریشانی سے موبائل اٹھا کر سبز بٹن دبایا کے کہیں اس میں ہی تو خرابی نہیں لیکن خرابی تو کہیں اور تھی ۔ پاکیزہ کا دل چاہا کہ وہ خود فون کر لے لیکن پھر ارادہ ملتوی کر دیا ۔ نئے پیغام کو لکھنے کے لئیے موبائل کو ہدایت دی ۔ سکرین پر ہیلو لکھا پھر انگلیاں رک گئی ۔ چمکتی آنکھوں میں اضطراب نمایاں تھا۔ اس نے یہ پانچ حرف پھر خود ہی مٹا دئیے۔ کال لاگ میں موصول ہوئی کالز کا ریکارڈ نکالا ۔ آفتاب کا نمبر ڈائل کرنے ہی لگی تھی کہ موبائل سکرین روشن ہو گئی ۔ ساتھ ہی اسکے ہاتھ بھی موبائل کی اتعاش سے مرتعش ہوئے۔ ایک لمحے کو پاکیزہ نے سوچا کہ میں بھی اب آدھا گھنٹہ انتظار کرواتی ہوں لیکن کروا نہ سکی۔ فون کانوں سے لگا لیا ۔
’’ السلام علیکم ‘‘ پاکیزہ نے روٹھے لہجے میں مخاطب کیا۔
جواب میں کوئی آواز نہ آئی ’’ہیلو ‘‘ پاکیزہ کو دوبارہ کہنا پڑا۔
پھر بھی جواب نہ ملا
’’ہیلو آفتاب۔ ‘‘ اب پاکیزہ نے اسے پکارا۔
جواب میں سپیکر سے سسکی ابھری ۔ پاکیزہ کو حیرت ہوئی، وہ دوسری طرف رو رہا تھا۔
’’ہیلو۔۔۔ آفتاب کیا ہوا تمہیں؟ ‘‘ پریشانی پاکیزہ کی آواز میں در آئی ۔
’’ میں تھک گیا ہوں۔ پاکیزہ میں بہت تھک گیا ہوں۔ ‘‘ آفتاب ہچکیوں کے درمیان بولا۔
پاکیزہ اس کو روتے ہوئے تصور ہی نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ لڑکا جو سب کو ہنستا ہنساتا رہتا تھا ۔ اس کو خاموشی سے آنسو بہاتے دیکھ چکی تھی لیکن یوں بچون کی طرح سسکنا واقعی حیران کرنے کو کافی تھا۔
’’ کس چیز سے تھک گئے ہو؟ کیا ہوا ہے؟ ‘‘ پاکیزہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’ میں خوش رہنے کا ڈرامہ کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔ میں سب پہ یہ ظاہر کرتے کرتے تھک گیا ہو ں کہ میرے پیسے والے گھر کا پیسہ میری خوشیوں کے لئیے کافی ہے۔ میں گھر کے روز کے جھگڑوں سے تنگ آ گیا ہوں۔ آج پھر بھابھی نے امی سے بد تمیزی کی اور بھائی بجائے بھابھی کو ڈانٹنے کے امی کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ بھابھی کو کہہ دیا کہ سامان پیک کرو ۔جس گھر میں تمہاری عزت نہیں ہے۔ ہمیں اس گھر میں رہنا ہی نہیں ہے ۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ بیویاں کیا ایسا گھول کر پلاتی ہیں کہ سگی مائیں چبھنے لگ جاتی ہیں۔ امی کا رو رو کر برا حال ہے ۔انہوں نے تو وہ دن اتنی مشکل سے کاٹے تھے جب بھائی دوسرے شہر پڑھنے گئے تھے۔ اب بھلا وہ بھائی کی جدائی کیسے برداشت کریں گی۔ ‘‘ آفتاب روتے ہوئے اسے اپنے گھر کے حالات بتانے لگا۔
’’ تم پریشان نہ ہو۔ آفتاب سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بھائی نے غصے میں کہا ہو گا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک معمولی سی لڑائی پر وہ گھر ہی چھوڑ جائیں۔ ‘‘ پاکیزہ نے اسے تسلی دی ۔اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔
’’ سوری پاکیزہ میں نے تمہیں ڈسٹرب کیا ۔میں تم سے اپنی پریشانی شئیر کرنے لگ گیا۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ تم تنہا ہو۔ تمہیں دوست کی ضرورت ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں میں خود تنہا ہوں۔ میں اکیلا ہوں۔ مجھے کسی ایسے کی ضرورت ہے جس کے سامنے میں رو سکوں ۔ اپنا غم جس کے ساتھ بانٹ سکوں۔ ‘‘ اس کی آواز میں آنسووْں کی نمی شامل تھی ۔
’’آفتاب تم مجھ سے اپنی پریشانی شئیر کر سکتے ہو۔ مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے سننے میں ۔‘‘ پاکیزہ کا دل پسیجا ۔
’’ نہیں مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ میں تمہیں اپنی پریشانی بتاوْں ۔سوری میں نے تمہیں ڈسٹرب کیا۔ اپنا خیال رکھنا۔ اللہ حافظ ‘‘۔
آفتاب اپنی بات مکمل کر کے فون رکھ چکا تھا ۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کال ایک گھنٹہ نہیں چلی تھی۔ گھنٹے کی کال میں چاہے پانچ منٹ ہی بات ہوتی لیکن پاکیزہ موبائل کو اٹھا کر اسکی سکرین کو دیکھتی رہتی ۔ آج روٹین میں فرق پڑا تھا پاکیزہ کا دل افسردہ ہوا ۔ اس نے موبائل کی تاریک سکرین کو تاسف سے دیکھا ۔
لوگ جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں ہیں ۔جن کے قہقہے محفل میں سب سے اونچے ہوتے ہیں ان کے دل میں اتنی ہی آہ و بکا بھی جاری رہتی ہے۔ جن کی پیشانی پر شکن نہیں ابھرتی، ان کی نازک مزاجی کو سل پر رکھ کر پیسا گیا ہوتا ہے۔ جن کے چہرے سے مسکان جدا نہیں ہوتی وہ آپ اپنے آپ سے ملنا چھوڑ چکے ہوتے ہیں ۔ لوگوںکے چہروں پر مت جائیں چہرے سے بڑا کوئی نقاب نہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمِ قضا میں اک شور جو بپا سا ہے
مجھ کو اپنے ہونے کا یار واہمہ سا ہے
کالج میں اسپورٹس ویک چل رہا تھا۔ سائنس کی طالبات کو ان کی ٹیچرز کی طرف سے اجازت نہیں تھی کہ وہ ہم نصابی سر گرمیوں میں حصہ لیں۔ ان کے خیال میں ہم نصابی سر گرمیوں میں حصہ لینے والی طالبات نصابی سرگرمیوں میں بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر سکتی ۔ اس کی نسبت بزم ادب اور فنون لطیفہ کی انچارج ڈھونڈ ڈھونڈ کر سائنس کی طالبات کو حصہ دلوا رہی تھی۔ ان کے مطابق سائنس کی طالبات کی ذہنی استعداد باقی بچیوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے لہذا انکو حصہ دلوا کر نہ صرف طالبات کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لایا جا سکتا ہے بلکہ کالج کا نام بھی روشن کیا جا سکتا ہے ۔
پورے کالج میں واحد کیمیا جیسے خشک مضمون کی ٹیچر میم کنیز ایسی تھیں کہ سائنسی مضامین پڑھنے والے طالبات کو ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا مشورہ دے رہی تھیں۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اور بھی بہت سے سرٹیفیکیٹ تھے جو ان کی صلاحیتوں کا ثبوت تھے۔ ان سب ہی سرگرمیوں سے میم کنیز کی شخصیت میں بھی ایک مخصوص رکھ رکھاوْ اور طلسم پیدا ہو گیا تھا جو طالبات کو ان کا گرویدہ کئیے رکھتا ۔
’’ پاکیزہ آپ کس سرگرمی میں حصہ لے رہی ہیں؟ ‘‘ انہوں نے اپنی ہونہار طالبہ کی دلچسپی جاننا چاہی ۔
’’ میم کچھ سوچا نہیں پڑھائی کے علاوہ اور کسی سرگرمی میں حصہ لینے کا شوق تو ہے لیکن اپنی capacity کا اندازہ نہیں ہے۔ ‘‘ کچھ لوگوں سے صرف سچ بولنے کا دل کرتا ہے۔ پاکیزہ نے ان سے صرف سچ ہی کہا ۔
جن لوگوں سے سچ بولنے کا دل کرتا ہے وہ بھی ہمیشہ سچا مشورہ ہی دیتے ہیں۔ جیسی آپکی نیت ہوتی ہے ویسا آپکو پھل مل جاتا ہے۔
کچھ توقف کے بعد میم کنیز گویا ہوئی ’’ جہان تک میرا خیال ہے آپ کی ڈرائنگ بہت خوبصورت ہے۔ آپ کی ڈایاگرامز اپنی موجودگی کا احساس خود دلاتی ہیں ۔ آپ فائن آرٹس کی ٹیچر سے پتہ کرو، کوئی مصوری کا مقابلہ ہے تو آپ ضرور حصہ لو ۔‘‘
’’ میم میں نے دیکھا تھا مصوری کا مقابلہ تو ہے لیکن ایبسٹریکٹ آرٹ جیسا وسیع موضوع چنا گیا ہے۔ ہمیں تو اردو کی کتاب میں ضمیر جعفری کی مزاحیہ نظم پڑھا دی گئی ہے ایبسٹریکٹ آرٹ دیکھتے ہی فنون لطیفہ کی حس نہیں جاگتی بلکہ الٹا ہنسی آ جاتی ہے۔ ‘‘ پاکیزہ نے مسکراتے ہوئے اپنی پریشانی کا اظہار کیا ۔
’’ بچے ایبسٹریکٹ آرٹ ہٹ کر کوئی الگ ناقابل فہم شے نہیں ہے۔ یہ جدید آرٹ ہے۔ روایتی آرٹ میں مخصوص اشیاء کی اشکال بنائی جاتی ہیں جب کہ ایبسٹریکٹ آرٹ میں رنگوں اور ان کی ا قسام کا امتزاج ہوتا ہے۔ رنگ تو ہر شخص کو اچھے لگتے ہیں اور میں یہ مان ہی نہیں سکتی کہ میری ذہین بچی جسے عام سی شے پسند نہیں آتی ، جس کی پسند کا ایک اپنا معیار ہے ، وہ رنگوں کا بہتر امتزاج نہیں کر سکتی ۔‘‘ میم کنیز نے پاکیزہ کی ہمت بندھائی ۔
پاکیزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
یہ میم کنیز کا دیا گیا حوصلہ تھا یا پھر پاکیزہ کے اپنے اندر کچھ کرنے کا جنون مصوری کے مقابلے میں اس نے اول انعام حاصل کیا ۔میم کنیز اس کی پینٹنگ دیکھ کر خود حیران رہ گئی
۔ گرے اور بلیک کلر کے نشانوں کے اردگرد سے پھوٹتی بالکل سفید روشنی ۔۔۔ امید ، مشکلات اور آسانیوں کو بہت آسانی سے واضح کرتی زندگی کی تصویر ۔۔۔۔کسی بھی دائرے کا احاطہ نمایاں نہیں تھا۔
سب ایک دوسرے کے اوپر بالکل ایسے جیسے مشکلات زندگی میں آتی ہیں ۔ انسان اپنی روزمرہ زندگی کو دیکھتے ہوئے کسی اور شے کا منتظر ہوتا ہے لیکن کوئی اور آزمائش سامنے آ جاتی ہے ۔اس آزمائش سے نبردآزما ہوتے ہوئے روشنی کی امید جس روزن سے ہوتی ہے نجانے اس سے حبس اور گھٹن میں اضافہ کیوں ہونے لگتا ہے ۔ عین اسی سمے پاوْں میں چبھتا کانٹا آزمائش سے نکال بھی دیتا ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک کانٹا کیسے آزمائش سے نکال سکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ زندگی اتنی ہی نا قابل بیان ہے۔۔۔ اتنی ہی متحیر کر دینے والی کہ ا سکے ہر ہر داوْ سے کمر اکھاڑے سے جا لگتی ہے۔ اس وقت اوپر آسمان نظر آتا ہے نیچے زمین دکھائی دیتی ہے۔ اور یاد صرف اللہ آتا ہے صرف اللہ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ پاکیزہ تم نے ٹھیک کہا تھا بھائی گھر چھوڑ کر نہیں گئے۔ ‘‘ آفتاب کی آواز کی چہکار کو پاکیزہ نے محسوس کیا ۔
وہ خوش ہوئی ۔روز بات کرتے کرتے اس کا مزاج بھی پاکیزہ کے مزاج پر اثر ڈالا کرتا تھا۔ اس نے سچ میں دعا کی تھی کہ آفتاب کا بھائی گھر چھوڑ کر نہ جائے ۔
’’ چلو شکر ہے یہ تو بہت اچھا ہوا ۔ لیکن آفتاب جانے والوں کو روکا تو نہیں جا سکتا اگر تمہارے بھائی نے ایک دفعہ بات کی ہے تو ضرور انہوں نے کچھ سوچ کر ہی کہا ہو گا۔ میرا خیال ہے تم صرف شکر کرنے پہ اکتفا نہ کرو بلکہ اپنی امی کو بھی اس بات کے لئیے تیار کرو ۔ اگر بھائی چلے جائیں تو وہ اس صدمے کو دل سے نہ لگائیں۔ ‘‘ پاکیزہ نے اپنی عقل میں سمائی بات اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔
آفتاب نے جوابا ہنکارا بھرا اور پھر بولا ’’ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ امی اتنے پیار سے سحرش آپی کو دلہن بنا کر لائی تھی لیکن وہ یہاں آتے ہی بدل گئی۔ ویسے وہ میرے ماموں کی بیٹی ہیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ امی کا مائنڈ سیٹ چینج کروں۔ ‘‘
پاکیزہ نے بے دھیانی سے سر ہلایا پھر کچھ سوچ کر آفتاب سے پوچھا ۔
’’ یہ تو مجھے یاد ہے کہ تمہارے تین بھائی اور ایک بہن ہیں ،باجی کا نام شاید شمائلہ ہے ۔بھائیوں کے نام مجھے پتا نہیں۔کیا نام ہیں بھائیوں کے؟ کیسا لگتا ہے ویسے بہن بھائیوں کا ہونا۔۔۔۔ بہت مزا آتا ہو گا ؟‘‘
’’ مزہ ؟ جب بچپن کے دن تھے تب اتنے پیسے نہیں تھے کہ مزہ کر سکتے پھر جب بھائی پڑھ لکھ گئے تو پیسہ کماتے کماتے اتنے دور ہو گئے کہ گھر میں پیسہ پیسہ تو آگیا لیکن مزہ کہیں بہت دور رہ گیا ۔‘‘
آفتاب نے یاسیت بھرے لہجے میں اپنا خاندانی منظر نامہ کھینچا ۔
پاکیزہ تنہا رہتے رہتے فیملی کو بہت مس کرتی تھی۔ اسے آفتاب کا گھر اپیل کرتا، ایسا گھر جس میں باپ بھی تھا ، جس میں بھائی لڑتا بھی تھا اور بہن فرمائشیں بھی کرتی ہو گی ۔ جب جب آفتاب اس سے گھر کی پریشانی شئیر کرتا ۔ پاکیزہ سوچتی تنہائی سے اکیلے لڑنے سے تو کہیں بہتر کسی اپنے کی پریشانی میں پریشان ہونا ہے ۔
’’ تمہیں پتا ہے آفتاب میں کمپٹیشن میں فرسٹ آئی ہوں۔ ‘‘ پاکیزہ کو شگفتہ جواب نہ ملا تو اس نے گفتگو کا رخ ایک مرتبہ پھر بدلا۔
’’ اچھا بہت بہت مبارک ہو ۔جیتنا تو تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔تم تو بنی ہی جیتنے کے لئے ہو۔ایک میں ہوں ایورج سا۔مجھ جیسے بہت ہوں گے لیکن تمہارے جیسی کبھی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملنی۔ اچھا تمہیں پتا ہے میرے سب سے بڑے بھائی کا نام ہے ماہتاب اور ان کی بیوی سحرش آپی۔ میرے دوسرے بھائی کا نام ہے وسیم انکی بیوی سونیا بھابھی ۔ مجھ سے بڑا نسیم ہے اس کی شادی نہیں ہوئی۔ ابھی تم نے ابھی پوچھا تو مجھے یاد آیا کہ میں نے تمہیں کبھی انکا نام ہی نہیں بتایا۔ ‘‘
آفتاب نے اپنے بھائی بھابھیوں کے نام خفیف سی ہنسی کے ساتھ بتائے۔
’’ اچھا چلو آج بہت باتیں ہو گئی۔ اب فون رکھو ۔‘‘ پاکیزہ کو فورا احساس ہوا کہ وہ بغیر کسی پلاننگ کے کافی دیر بات کر چکی ہے ۔
’’ کہاں بہت دیر بات ہوئی ہے؟ ابھی صرف پچیس منٹ گزرے ہیں تم نے بات نہیں کرنی تو بس فون سائیڈ پہ رکھ دو۔ کاٹنا مت ۔‘‘ آفتاب کی آواز میں وہی ضد تھی۔
’’ تم واقعی پاگل ہو۔ ‘‘ روز کا دیا جانے والا لقب ایک بار پھردہرا دیا گیا ۔
’’ہاں ہوں پاگل۔۔۔ تمہارے لئیے! ‘‘ اعتراف کیا گیا۔
پاکیزہ نے اللہ حافظ کہہ کر فون اپنے پاس رکھ دیا ۔ کال چل رہی تھی اور مسکراہٹ پاکیزہ کے لبوں پر چٹختی ہوئی کلی کی طرح خوشبو بکھیر رہی تھی۔ تسکین نے کھڑکی کے ادھ کھلے پٹ سے پاکیزہ کو دیکھا اور اپنی نظریں اپنے ہاتھوں پر لگی کیوٹیکس پہ مرکوز کر لیں ۔پچھلے کچھ دنوں سے وہ سجی سجی رہنے لگی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال اول کے امتحانات قریب آ رہے تھے۔ ہم نصابی سرگرمیاں کم ہونے کے بجائے زور پکڑتی جا رہی تھی۔ ملک کے صدر اور وزیر اعظم کیا تبدیل ہوئے فنون لطیفہ کی اہمیت ہی بدل گئے ۔نئے وزیراعظم کی بیگم شاعرہ اور صدر کی بیگم ناول نگار تھیں ۔سو ایک برقی رو تمام تعلیمی اداروں میں دوڑ گئی۔ٹیچرز نے سر تھام رکھے تھے۔
’’کیا خیال ہے آپ کا کہ کس کو بھیجا جائے؟‘‘ میم آرزو نے میم تقویم کی رائے جاننی چاہی۔
’’ایسی بچی ہو جس کی پڑھائی کا حرج بھی نہ ہو۔‘‘ میم تقویم نے بھی پر سوچ انداز میں کہا ۔
’’ایسی افلاطون بچی کہاں سے لائی جائے۔ ایک طرف اچھا رزلٹ دینے کا بھی دباوْ ہے اور دوسری طرف ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بچیوں کو بھجوانے پہ زور ہے۔‘‘میم آرزو نے اپنی فکر کا اظہار کیا۔
’’اگر کوئی تقریر کے لئیے بچی تیار کرنی ہو تو وہ مشکل نہیں ہے۔ آج کے دور میں میڈیا نے بچوں کے دماغ کمپیوٹر کر دئیے ہیں اور زبانیں قینچیاں۔ اب انہیں مصورہ بچی چاہئیے جو کسی بھی تھیم پر ایٹ دی اسپاٹ کام کر سکے، تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہو ‘‘۔
میم تقویم نے بھی تنگ آئے لہجے میں پریشانی کا اظہار کیا ۔
’’اب بندہ کیا کرے میں تو کہتی ہوں صاف انکار کر دیتے ہیں کے متعلقہ Requirement پہ پوری اترنے والی کوئی اسٹوڈنٹ نہیں ہے ‘‘۔ میم تقویم نے چٹکی بجاتے ہوئے مسئلے کا حل نکالا ۔
میم آرزو نے بھی پرسوچ انداز میں سر ہلا دیا۔ اسی اثناء میں میم کنیز میٹنگ روم میں داخل ہوئی ۔ آخر کار ایک گھنٹے کی بحث کے بعد قرعہ فال پاکیزہ کے نام نکلا ۔ وہ واحد ایسی بچی تھی کہ اس کی سر گرمی سے اس کی نصابی سرگرمیوں پر رتی برابر بھی فرق نہ پڑتا ۔ پتہ نہیں وہ میم کنیز کے اعتماد پر پوری اترنے والی تھی یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم تو اس پاگل دیوانے سے منہ مت موڑو
تیرے نام کی مالا جپتا رہتا ہے اک شخص
گزرتے چند ماہ میں آفتاب کے اعتماد میں کافی فرق پڑا تھا۔ پاکیزہ کو وہ اکثر معصوم چھوٹا سا بچہ لگتا جس کے اندر احساس کمتری کی اتنی مضبوط جڑیں تھی جن کے کٹتے کٹتے شاید عمر تما م ہو جاتی لیکن اثرات ختم نہ ہو پاتے۔ پاکیزہ اپنے طور پر اسکی الجھنیں دور کرنے کی کوشش کرتی اور کافی حد تک کامیاب بھی رہتی لیکن جب وہ خواہشوں کا کشکول لے کر در کھٹکھٹاتا تو اسے نا مراد ہی لوٹنا پڑتا۔ ایک عجیب سی کھینچا تانی جو ان دونوں کے درمیان تھی ۔ پاکیزہ کا گریز تھا، جو ان دونوں کو قریب لاتے لاتے پھر دور لے جاتا ۔ اس مدوجزر میں ایک کام تھا جو مسلسل تھا ،ایک چیز تھی جو مستقل تھی، آفتاب روز آٹھ بجے اسے فون کرتا۔ چاہے پھرپاکیزہ کے مزاج کے موسم کیسے ہی کیوں نہ ہوتے گھنٹے بھر بعد ہی فون بند کرتا ۔ وہ خوشی سے اس کو جھیلتا، اس کو برداشت کرتا لیکن اسے برداشت کہاں کیا جا سکتا تھا۔۔۔ وہ تو خوشبو تھی اس کی تعریف کی جا سکتی تھی۔ اس سے مسحور ہوا جا سکتا تھا۔ ایک اور چیز جو مستقل تھی وہ آفتاب کی مستقل مزاجی تھی ۔اس کے لہجے میں روز اول سے لے کر اب تک ایک آنے کی بھی تبدیلی نہیں آئی تھی ۔
’’کیسی ہو ؟‘‘ اس نے پوچھا
’’ اللہ پاک شکر ہے ۔ٹھیک ہوں۔ ‘‘ پاکیزہ نے ہشاش بشاش لہجے میں جواب دیا ۔
’’ تمہیں پتا ہے ا س چیز کا ثواب تمہیں ضرور ملتا ہو گا۔ ‘‘ وہ متعرف لہجے میں بولا ۔
’’ کس چیز کا ثواب؟ ‘‘ پاکیزہ کو اچنبھا ہوا۔
اللہ کا شکر ادا کرنے کا۔سب سے بڑی بات کہ تمہاری یہ عادت تم سے مجھے بھی لگ گئی ہے۔ کوئی بھی مجھ سے حال پوچھے اور میرا حال کیسا بھی ہو تمہاری عادت کی وجہ سے عادتا میرے منہ سے یہی نکلتا ہے کہ اللہ کا شکر ہے۔ ‘‘ تشکر آمیز آواز میں جواب دیا گیا ۔
پاکیزہ کی مدھر سی ہنسی مائیک پہ بکھری اور اسپیکر کے دوسری طرف سماعتوں کی معطر کر گئی ۔وہ بے چینی سے بولا ’’پاکیزہ ‘‘
’’ہاں جی ‘‘ آفتاب کے لہجے میں کچھ تو تھا جو پاکیزہ کے لہجے کی جھجک بن بیٹھا۔
’’ کتنا عرصہ ہو گیا ہے میں نے تمہیں دیکھا نہیں ۔۔۔‘‘اب آواز میں پیاس سی محسوس ہوئی۔
’’تو کیا ہوا میں نے بھی تو تمہیں نہیں دیکھا ۔‘‘ پاکیزہ کے لہجے میں اٹھلانے کی سی خوشی گھل گئی۔
یہ خوشی ترشی بن کر آفتاب کے حلق میں جا لگی ۔
’’ تمہیں تو کچھ نہیں ہوتا۔ تمہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے فرق پڑتا ہے۔ مجھے تمہیں دیکھنے یا نہ دیکھنے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ میں کتنی دفعہ تمہارے گھر کے باہر سے گزرا ہوں لیکن اس خیال سے نہیں بتایا کہ تم خفا نہ ہو جاو۔ْ تمہارے کالج کے باہر بھی آ سکتا تھا لیکن نہیں تم تو مجھے قتل ہی کر دیتی ۔ مجھے آج یہ اعتراف کرنے دو کہ تم عام لڑکیوں جیسی نہیں ہو ۔ تمہیں امپریس نہیں کیا جا سکتا تمہیں صرف اور صرف اون کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمہاری ثابت قدمی ہی ہے جو مجھے متزلزل نہیں ہونے دیتی۔ میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ میرا کردار جو بھی ہے تمہاری وجہ سے ہے۔ ‘‘
اس کی آواز نم ہو گئی تھی پاکیزہ کو چند لمحوں کے لئیے اپنے اوپر فخر محسوس ہوا پھر وہ اپنے سامنے پڑی نوٹ بک کو ناخن سے کریدتے ہوئے بولی ۔
’’تم بتاوْ تمہاری طبعیت کیسی ہے؟ ‘‘
’’ اوہو آج دن میں چاند تو نہیں نکل آیا تھا ۔ یہ معجزہ کیسے ہوا کہ آپکو بھی میری طبعیت پوچھنے کا خیال آ گیا۔ ‘‘ وہ شرارتی ہوا ۔
’’اگر تم ایسے مسخرے بازی کرو گے تو یہ خیال آخری دفعہ پوچھا جائے گا۔ ‘‘ اس نے نروٹھے لہجے میں دھمکایا۔
’’ سوری سوری طبعیت ٹھیک نہیں ہے لیکن ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ اگر ان ترسی ہوئی آنکھوں کو آپ کی ایک جھلک نصیب ہو جائے !‘‘ فرمائش کی گئی۔
’’ دن میں کون سی گھٹیا فلم دیکھی تھی جس کے اثرات ابھی تک نہیں گئے۔ ‘‘ پاکیزہ نے ہنستے ہوئے ٹالا۔
’’ میں سنجیدہ ہوں۔ ‘‘ پھر اصرار کیا گیا۔
’’ یہ کون سی فلم ہے؟‘‘ وہ مسلسل شرارت کرنے کے موڈ میں تھی ۔
’’پاکیزہ ‘‘ پھر سے پیاسی آواز کی بازگشت اس کی سماعتوں کی نذر ہوئی ۔
اس پر جیسے کوئی فسوںسا طاری ہوا ۔
’’جی ‘‘ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔
’’میں تمہیں واقعی دیکھنا چاہتا ہوں بس ایک نظر ‘‘فرمائش دہرائی گئی۔
’’کیسے ممکن ہے ؟‘‘ پاکیزہ نے جیسے ہتھیار پھینک دئیے ۔
’’جیسے تم چاہو۔ ‘‘ آفتاب پہلے سے ہی سر جھکائے کھڑا تھا۔
’’کالج کے باہر تو نا ممکن ہے۔ میں نہیں چاہتی میرے اوپر انگلیاں اٹھیں ۔ اگر تقدیر میں ایک دوسرے کو دیکھنا لکھا ہوا تو یوں ہی راہ چلتے مل جائیں گے۔ ‘‘ پاکزیہ نے خاموشی سے قدم پیچھے کئیے ۔
’’ ایک وقت اور ایک راستہ ہے جب کوئی بھی نہیں دیکھے گا ۔ صبح فجر کی اذانوں کے وقت میں تمہارے گھر کے سامنے آ جاوْں گا۔ تم کھڑکی میں آ جانا ‘‘ آفتاب کئی قدم آگے بڑھا چکا تھا ۔
’’پاگل ہو؟ سردیاں ہیں۔ صبح اتنا اندھیرا ہوتا ہے ۔تم آوْ گے کیسے ؟‘‘ پاکیزہ پریشان ہوئی۔
’’آنا میرا مسئلہ ہے پلیز تم مان جاو۔ْ ‘‘ وہ قطعیت سے بولا ۔
’’ اگر میں مان بھی گئی تو ۔۔۔‘‘
ابھی بات آدھی اس کے منہ میں ہی تھی کہ وہ بولا
’’بس پھر میں آوْں گا ۔‘‘
تھوڑی دیر خاموشی رہی۔
’’پاکیزہ ایک کام کرو گی ‘‘ آفتاب نے پھر پوچھا۔
’’کیا ؟‘‘ وہ سوچ چکی تھی کہ مزید کوئی فرمائش کی گئی تو ساری لگامیں کھینچ ڈالے گی۔
’’وہ آج رات موبائل اپنے پاس رکھنا تاکہ میں آوْں تو تم سے رابطہ کر سکوں۔ ‘‘
بے ضرر سی خواہش تھی لہذا وہ مان گئی اور مزید بات کئیے بغیر فون سرہانے کے نیچے رکھ دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اوٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنجِ گل میں اتار دو
پاکیزہ دروازے سے ا ندر ہوئی تو ٹھٹھک کر رہ گئی ۔ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی مدھر سروں سے گنگناتی اپنے بالوں کو ایک طرف ڈالے ہاتھوں پہ موئسچرائزنگ لوشن لگاتی وہ کوئی اور نہیں تسکین پھوپھو ہی تھی ۔ ان کی آنکھوں کے نیچے پڑے حلقوں میں کمی آئی تھی اور رنگ کچھ اور نکھر گیا تھا۔ یہ شاید مسکراہٹ کا اذن تھا جس نے ان کی پیشانی کو وسیع کر دیا تھا۔ پاکیزہ سچ میں حیران ہوئی۔ یہ وہ خفا خفا اکھڑی اکھڑی سی پھوپھو تو نہیں تھی ۔
بعض اوقات ہم موبائل کی مدد سے اپنے سے دور لوگوں کے ساتھ فاصلے کم کرتے کرتے اپنے خونی رشتوں کے درمیان اتنے فاصلے لے آتے ہیں کہ وقت کے ہاتھوں آئی تبدیلیاں ہمیں حیران کر دیتی ہیں۔ ہم یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کے فلاں بدل گیا حالانکہ بدلا وہ نہیں ہوتا۔ بدلنے کا عمل ہماری طرف سے شروع ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو نوٹ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر جب وہ مکمل بدل جاتے ہیں تو شکایت کرتے ہیں ۔
پاکیزہ نے مشکل سے اپنے لبوں پر آنے والے شکوے کوروکا ۔
’’ پھوپھو پیاری لگ رہی ہیں آپ۔ ‘‘ وہ تعریف کرنے سے خود کو روک نہ سکی۔
’’ محبت انسان کو حسین بنا دیتی ہے۔ ‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
اتنی میٹھی ہنسی کہ پاکیزہ مبہوت رہ گئی۔
’’ میری محبت سچی نہیں تھی اس لئیے اس نے آپ کو پریشان کیا۔ نئی محبت کہاں سے ملی جس نے آپ کو حسین بنا دیا۔ ‘‘ وہ دونوں ہاتھ ان کے شانوں پہ رکھتے ہوئے گال سے گال مس کرتے ہوئے آئینے میں دیکھ کر پوچھنے لگی ۔
تسکین نے پاکیزہ کی پیشانی چومی اور اس کے دونوں ہاتھوں کو ہاتھ میں لیکر بولی
’’محبت نئی پرانی سچی یا جھوٹی نہیں ہوتی۔ محبت محبت ہوتی ہے۔ محبت کا اثر بھی محبت ہوتا ہے اور محبت کی تاثیر بھی محبت ہوتی ہے ۔آپ اس کو قبول کرنے میں دیر لگا سکتے ہیں ۔ یہ اثر کرنے میں دیر نہیں لگاتی ۔ بس قبول کرنے کی دیر ہے یہ دعا بن کر بادلوں سے اٹکھیلیاں کرتی عرش کو چھوتی ہے پھر باران بنتی ہے، باران برستی ہے تو سب دھل جاتا ہے، سارے گلے شکوے دم توڑ دیتے ہیں اندر باہر بس ایک چیز رہ جاتی ہے اور وہ محبت ہے !‘‘
’’ تعلق ختم ہو جائے تو محبت ختم تو نہیں ہو جاتی پھوپھو؟ ‘‘ پاکیزہ نے کچھ کریدنے کے لئیے سوال پوچھا۔
’’ ہاہاہا پاگل لڑکی محبت محبت ہے۔ محبت کوئی مذاق نہیں ہے کہ ختم ہو جائے۔ محبت روگ بن جائے یا سنجوگ بن جائے محبت ساتھ رہتی ہے۔ دل کی آخری دھڑکن کے ساتھ کسی نا کسی صورت دھڑکتی رہتی ہے۔ محبت تو مہندی کے پسے ہوئے پتوں کی طرح ہے اس نے تو رنگ چھوڑنا ہی ہے ۔ محبت تو پھولوں میں بسی ہوئی خوشبو جیسی ہے اس کے مقدر میں چہار سو مہکنا ہی ہے۔ محبت کسی درخت پہ کندے نام جیسی ہے اسے ہر موسم میں وہی رہنا ہی ہے۔ محبت پرندوں کی چہچہاہٹ جیسی ہے کچھ بھی ہو ان کی تقدیر میں چہکنا ہی ہے ۔ محبت تمہارے میرے جیسے ہر انسان جیسی ہے ہم زندہ رہیں یا مر جائیں اسے کسی نا کسی صورت زندہ رہنا ہی ہے ‘‘۔
تسکین نے بہت تسلی سے جواب دیا ۔
کمرے میں مدھم سی روشنی میں بھی پاکیزہ کا ہیولہ کپکپاتا ہوا صاف محسوس ہو رہا تھا۔ تسکین جو اتنی دیر سے اس کے اضطراب کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ سوالیہ نظروںسے دیکھنے لگی ۔
’’موبائل اپنے پاس رکھ لوں۔ بعض اوقات دوستوںسے کچھ پوچھنا پڑ جاتا ہے۔ کل ٹیسٹ ہے نا میرا۔‘‘ پاکیزہ نے دانتوں سے لب کاٹتے ہوئے بہانہ تراشا ۔
تسکین نے ہاتھ اپنی پیشانی پہ مارا۔ نظریں اٹھا کر پاکیزہ کو دیکھا۔
’’اوہو میں تو بھول ہی گئی۔ ‘‘
پاکیزہ کو لگا کہ تسکین کو ضرور کوئی اہم کام ہے اور خود موبائل کی ضرورت ہو گی۔ اب وہ ضرور منع کر دے گی۔میں کیسے رابطے میں رہوں گی۔سوال دماغ میں بازگشت کرنے لگ گئے۔
تسکین نے اٹھ کر بستر کے ساتھ پڑی الماری سے ایک ڈبہ نکالا اور پاکیزہ کی طرف بڑھایا۔
’’یہ لو۔ ‘‘
’’یہ کیا ہے ؟‘‘ پاکیزہ حیرت سے بولی۔
اتنی کم روشنی میں وہ ڈبے کو زیادہ دھیان سے دیکھ نہیں سکی تھی۔
’’تمہارے میڑک کے رزلٹ کا گفٹ ہے۔ میں دفتر سے لیٹ آتی ہوں۔ تم گھر آ کر مجھے انفارم کر دیا کرو۔ دوستوں سے بھی رابطے میں رہنے کے لئیے تمہیں چاہئیے ہو گا ۔ بس اتنا دھیان رکھنا کہ موبائل کے ساتھ میں تمہیں اپنا بھروسہ بھی دے رہی ہوں۔ ‘‘ تسکین نے ڈبہ اب باقاعدہ پاکیزہ کے ہاتھ میں تھما دیا ۔
’’تھینک یو پھوپھو ۔۔ تھینک یو سو مچ ۔۔۔‘‘ پاکیزہ تسکین کے گلے لگ گئی ۔
اچھا اب مکھن نہیں لگاوْ۔ وہ والی سم اس موبائل میں ڈال کر استعمال کرو اور میرا موبائل مجھے واپس کر دو۔ ‘‘ تسکین نے نرمی سے اسے خود سے علیحدہ کیا اور اپنی توجہ سنگھار میز کی جانب کر لی جیسے اس سے اہم کوئی کام نہیں ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مجھ سے ان آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتے
ٓآنکھوں سے نکلتے ہو مگر دھیان میں رکھنا
تم ایسے کبھی دل سے نکالے نہیں جاتے
رات کے دس بجے پاکیزہ نے اپنے سارے کام ختم کر کے موبائل اٹھایا۔
’’مجھے پھوپھو نے موبائل گفٹ کیا ہے‘‘ میسج لکھا اورآ فتاب کے نمبر پہ بھیج دیا۔
پہلے وہ آفتاب کا نمبر محفوظ کرنے لگی تھی لیکن اسے لگا شاید اس سے رابطے اور گفتگو میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس نے نمبر محفوظ نہیں کیا۔
فورا موبائل تھرتھرایا۔ ایک نیا پیغام سکرین پہ لکھا نظر آ رہا تھا۔ پاکیزہ نے فورا پڑھنے کرنے کے لئیے بٹن دبایا۔
’’واہ اس کا مطلب اب میں ہر وقت تم سے رابطے میں رہ سکتا ہوں۔ ساری رات تم سے باتیں کر سکتا ہوں۔‘‘ ٹھک کر کے جواب موصول ہوا۔ پیغام میں بے چینی عیاں تھی۔
’’نہیں ہم مخصوص وقت پر ہی بات کریں گے بس صرف آج رات ہی رابطہ رہے گا۔ ‘‘ پاکیزہ نے مخصوص اکھڑ انداز میں جواب دیا۔
’’مجھے تو آج رات نیند ہی نہیں آئے گی۔ ‘‘وہ پر جوش تھا۔
’’ٹھیک ہے تم جاگتے رہو۔ میں موبائل سائلنٹ کر کے سو رہی ہوں۔ ‘‘ پاکیزہ نے اسے ہری جھنڈی دکھائی اور الارم لگا کر سو گئی۔
الارم فجر سے پندرہ منٹ پہلے کا لگا تھا۔ مخصوص وقت پر موبائل بجا تو پاکیزہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی ۔ اس نے فورا الارم بند کیا۔ دیکھا تو پندرہ مسڈ کالز اور پینتس میسج آئے ہوئے تھے۔ ابھی موبائل ہاتھ ہی میں تھا کہ پھر فون کال آئی۔ پاکیزہ نے کال ریسیو کر کے موبائل کان سے لگایا۔
’’ہیلو۔ ‘‘
’’اف ‘‘ آفتاب کی آواز آئی ۔
’’ کیا ہوا؟ ‘‘ پاکیزہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
اسے پورا یقین تھا کہ آفتاب آج نہیں آئے گا۔ اب اتنی بھی کیا دیوانگی کہ سردیوں کی صبح گھر کی چوکھٹ پر آ جائے ضرور وہ ۔۔’’اف ‘‘کے بعد کوئی بہانہ گھڑنے والا تھا ۔
’’تمہاری آواز کتنی خوبصورت لگتی ہے سو کر اٹھنے کے بعد ۔۔۔۔مجھے آج پتا چلا ‘‘ وہ جذب کے عالم میں بولا ۔
اس کے پاس گھڑنے کو کوئی بہانہ نہیں تھا۔
پاکیزہ نے غیر ارادی طور پر گلا کھنکارا ۔
’’پاکیزہ جلدی سے کھڑکی میں آوْ۔‘ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ اگر تمہاری آنکھ ہی نہ کھلی۔‘ آفتاب نے اسے بلایا ۔
’’سیریسلی ؟ تم آ گئے ہو ؟‘‘ پاکیزہ حیران ہوئی ۔
’’میڈم میں پچھلے آدھے گھنٹے سے باہر کھڑا ہوں۔ اب تو میری قلفی جمنے والی ہے ۔ اپنے روپ کی حدت دو تاکہ مجھے زندگی کا احساس ہو ۔‘‘ آفتاب کی آواز میں کپکپی نمایاں تھی۔
پاکیزہ اس کی بات سنتے ہوئے بے یقینی سے کھڑکی کے قریب گئی۔ کھڑکی کے پٹ وا کئیے تو وہ وہیں تھا۔ وہ واقعی نیچے کھڑا ہوا تھا ۔
سٹریٹ بلب کی روشنی میں اس کی سفید ناک سرخ ہو تی دکھائی دے رہی تھی ۔ وہ ہاتھوں کو آپس میں رگڑ رہا تھا۔ کھڑکی کے کھلتے ہی اس کی آنکھیں خوشی سے چمکی ۔ایک برقی رو جیسے اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی ۔ اس کی مسکراہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔
شوخ نگاہوں نے پاکیزہ کو جھجھکنے پہ مجبور کر دیا ۔ پاکیزہ فورا دو قدم پیچھے ہٹی ۔ وہ اس کی نگاہوں کے دائرے سے دور نکل آئی تھی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کمرے کا دروازہ ہمیشہ کی طرح کھلا تھا ۔ اس نے کمرے کا دروازہ بند کیا ہاتھ میں پکڑا موبائل تھرتھرایا ۔
’’سامنے آوْ نا۔ ‘‘گزارش سکرین پر سرگوشی بکھیرتی دکھائی دی۔
وہ مسکرائی اور پل دو پل کو سامنے آئی۔پاکیزہ کی فطری جھجھک تھی۔
اس میں نگاہیں اٹھانے کی ہمت نہیں تھی ۔موبائل پھر تھرتھرایا۔
’’بہت پیاری لگ رہی ہو۔ ‘‘
سانولے رنگ میں گلابیاں گھل گئی ، حیا سے ہاتھ لرزنے لگے۔
اس نے فوری جواب لکھا۔
’’اب چلے جاوْ پلیز۔ ‘‘
’’چلا جاوْں گا۔ میری طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرا دو ۔‘‘ اصرار کیا گیا۔
’’نہیں ناں۔ ‘‘ وہ گھبرائی ۔
’’بس پھر میں نہیں جاوْں گا۔ ‘‘ وہ بضد ہوا۔
’’میں نے نماز بھی پڑھنی ہے ‘‘ وہ جیسے ہولے سے کسمسائی۔
آج تو میں بھی پڑھوں گا۔نفل فجر کے ساتھ نہیں پڑھے جاسکتے ۔ظہر تک یہ شکرانے کے نفل ادھار رہے‘‘وہ کچھ اور شوخ ہوا۔
’’اب جاؤ بھی۔‘‘ وہ زچ ہوئی۔
نہیں پہلے تم سامنے آؤ‘‘وہ کچا سا لڑکا اسے دیکھنے کی دھن کا پکا تھا۔
’’اچھا میں دیکھتی ہوں۔ ‘‘ وہ مجبور ہوئی ۔
نظریں اٹھا کر نظروں سے ملائی تو بس پل بھر کا تصادم ہوا بجانے کتنے بند ٹوٹ گئے اور ایک ریلا سا بہہ نکلا۔ اسے لگا وہ خود بھی اس میں ڈوب جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان کہنے سے کبھی جان نہیں ہوتی ہیں
لڑکیاں اتنی بھی نادان نہیں ہوتی ہیں
ہال میں خاموشی تھی۔ اتنی خاموشی کہ اردگرد موجود لوگوں کے سانس تک کو محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ تیز روشنی میں چہروں پہ تناوْ نمایاں نظر آرہا تھا۔ مقابلے کی فضا نے ماحول کو بوجھل کر رکھا تھا ۔
پورے ملک سے آئے پچاس کے قریب طالب علم اپنے اپنے کینوس کے قریب کھڑے تھے ۔ پردہ ہٹنے کی دیر تھی، تھیم ملنے والی تھی ۔ موقع پر ان کو پینٹنگز بنانی تھی جو اس تین لفظی تھیم پر پوری اترتی ہو۔ وقت صرف آدھا گھنٹہ تھا۔ رنگ موجود تھے لیکن برش کوئی نہیں تھا ۔ بڑی سی سکرین پر پہلے تین کا ہندسہ آیا پھر دو کا اور پھر ایک کا ۔۔۔ساتھ ہی پردہ سرکا دیا گیا۔ تھیم کے لئیے دئیے گئے الفاط نے سب کی دھڑکنیں منجمند کر دی تھیں۔ صرف ایک دل تھا تو جو نارمل انداز میں دھڑک رہا تھا۔
’’روشنی کے پر ‘‘ سب سوچ رہے تھے کہ کیا بنائیں ۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے کیا بنانا ہے۔ وہ بہت پر سکون تھی۔ اس کی سانولی خوبصورت انگلیاں رنگوں سے کھیلنے لگیں۔ ہال میں بہت سی مخروطی انگلیاں رنگوں میں ڈوبی ہوئی تھی اور چابک دستی سے کینوس پر رنگ بکھیر رہی تھیں۔ گھڑیال نے پورے بارہ بجنے کا سندیسہ دیا اور وقت تمام ہو گیا ۔ سب پینٹنگز کی پشت سامعین کی طرف تھی۔ مقابلے کے شرکاء کو نشستیں سنبھالنے کا کہہ دیا گیا ۔
ججز یکے بعد دیگرے سب پینٹنگز کے قریب جا رہے تھے اور انہیں بغور دیکھ رہے تھے ۔ کچھ پینٹنگز کے پاس جا کر ان کے تاثرات میں حیرت نمایاں نظر آتی اور کچھ کے پاس جانے پر ستائش ۔اللہ اللہ کر کے انتظار کے لمحات ختم ہوئے ۔ نتائج کا اعلان ہونے لگا ۔
معزز مہمان گرامی کو اسٹیج پر بلایا گیا ۔وہ مخاطب ہوئے
’’اللہ نے ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہے ۔ کوئی ایسا نہیں ہے جس کے اندر کوئی خوبی نہ ہو ۔ آپ خوش نصیب ہیں اگر آپ کو پتہ ہے کہ اللہ تعالی آپ سے کیا کام لینا چاہتا ہے ۔ہر عطا کا حساب ہو گا۔ اگر بالفرض آپ خوش نصیب نہیں ہیں یعنی اپنی خوبی سے واقف نہیں ہیں۔ تب بھی اللہ نے آپ کو دیکھنے سننے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت دی ہے ۔ کل کو آپ سے اسی کے متعلق سوال ہو گا کہ آیا آپ نے کیا دیکھا ، کیا سمجھا ، کیا سنا اور کیا بول۔ا اپنی خوبیوں کو استعمال کریں تاکہ جواب دے سکیں۔
جب آپ ان خوبیوں کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے تو سب چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہو گی ۔بہت سی چیزیں مخالف بھی ہوں گی ۔ انعام کی صورتط میں آپ کو آسانی ملنی ہے تو آپ کو پہلے مشکل بھی تو دیکھنی پڑے گی۔
سب سے بڑا حربہ جس سے ہمارے نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے استعمال میں ناکارہ بنا دیا جاتا ہے ، وہ ان کے کردار پر وار ہے۔ آپ کے گھروں میں ٹی وی سکرینز سے عجیب و غریب کردار آپ کے گھر میں گھس رہے ہیں۔ وہ ان قدروں کو پامال کر رہے ہیں جو بحثیت مسلمان آپ کا خاصہ ہیں۔ ۔موبائل کے سگنلز کے ذریعے ہزاروں دلدلیں آپ کے قدموں سے لپٹتی جا رہی ہیں۔ یہ آپ کے پیروں میں زنجیر کی طرح پڑ جائیں گی اور ان کے شکنجے میں آپ کا کردار مسخ ہو کر رہ جائے گا۔ جس کا کردار مسخ ہو جائے وہ تخلیق نہیں کر سکتا۔ یہاں موجود سارے نو عمر اذہان تخلیق کار ہیں۔ اپنے کردار کی حفاظت کریں تاکہ تخلیق کر سکیں۔ ‘‘ہال میں دیر تک تالیاں گونجتی رہیں۔
کردار اور تخلیق کا سبق کسی نے دل سے سنا ،اس کے دل میں اتر گیا تھا ۔
نتائج کا اعلان کیا گیا ۔ تیسرا انعام ایسی پینٹنگ کو ملا جس میں قلم اور دوات بنی تھی ساتھ الفظ اقراء لکھا تھا۔ تخلیق کار کو خوب سراہا گیا وہ پینٹنگ جسے دوسرا انعام ملا اس میں کتاب کے سرورق پر ننھا فرشتہ پشت کئیے فاختہ کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا اس کے پروں پر صرف سفید رنگ تھا پہلا انعام جس پینٹنگ کو ملا اس کو دیکھنے والوں نے کھڑا ہو کر دیکھا پہلی نظر میں وہ قوس قزح لگتی تھی، ذرا غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا کہ قوس قزح میں ماں کا چہرہ بنا ہوا تھا اور اس کی گود میں چھوٹا سا بچہ سو رہا ہے۔ سب سے خوبصورت چیز ماں اور بچے کی مسکراہٹ سے ان کے گال پر پڑنے والا ایک جیسا چھوٹا سا ڈمپل تھا۔ مزید غور کرنے پر بچہ کسی کتاب کا سر ورق معلوم ہوتا ۔ یہ ایک پینٹنگ نہیں انکشاف در انکشاف تھا ۔
ہال میں مصورہ کے لئیے دیر تک تالیاں بجائی گئیں۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر انعام وصول کرتے ہوئے پاکیزہ کی آنکھوں میں نمی در آئی ۔ اس نے صرف ماں کی محرومی کو کینوس پر بکھیرا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں،تم چڑھتی رات کی چندرما
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو،پھر میل کی صورت کیونکر ہو
بارش کے قطرے بہت نرمی سے پتوں کو چوم رہے تھے۔ مٹی سے اٹھنے والی خوشبو نے فضا میں عجیب سی طمانیت پھیلا دی تھی۔ ایسا اطمینان جس میں اسرار بھی ہو اور پرت در پرت ہو۔ وہ خود کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
کیا وہ وہ کر رہی تھی جو وہ کرنا چاہتی تھی ؟ نہیں یہ تو اس کا راستہ نہیں تھا۔ اس راستے کی منزل کا تو اسے خود پتہ نہیں تھا ۔ کیا وہ وہی سب کرنا چاہتی ہے جو اس کے اردگرد ہو رہا ہے؟ اس نے خود سے سوال پوچھا ۔جواب نفی میں ملا۔ اپنے آپ سے لڑتے وہ آخر کار ایک نتیجے پر پہنچ گئی ۔ وہ سمجھ گئی تھی اس نے کیا کرنا ہے۔ اب فضا میں صرف طمانیت تھی۔ کچھ عجب نہیں رہا تھا ۔سارے اسرار پرت در پرت اس پر وا ہو چکے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی بند کر دی ۔
نمکین سے چہرے پہ بارش کی چند شریر سی بوندیں اپنی چھب دکھلانے لگیں۔ چمکتی سڈول کلائی میں پہنے ہوئے بریسلٹ کو اس نے ہاتھ سے تھوڑا اور پیچھے کیا۔ وہ ٹشو پیپر نکالنے کے لئیے دراز کھولنے ہی لگی تھی کہ موبائل پہ میسج ٹون بجی ۔اس کی تنہائی میں ایک دفعہ پھر مخل ہونے کی کوشش کی گئی تھی ۔
’’ اسلام علیکم کیسی ہو ؟‘‘ پیغام سکرین پر جھلملا رہا تھا۔
پاکیزہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر کوئی میسج آیا۔ اب پاکیزہ نے پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ آدھے گھنٹے میں پندرہ سے بیس میسجز آ چکے تھے ۔ وہ ایک نوٹفکیشن کی صورت میں نظر آ رہے تھے ۔پاکیزہ نے موبائل سائلنٹ کیا اور وضو کرنے چلی گئی ۔ لوٹی تو آنکھوں میں سرخ ڈورے اور ہلکی سی نمی تھی ۔ دو نفل برائے حاجت پڑھے اور اللہ کے سامنے جھولی پھیلا کر بیٹھ گئی ۔
’’ اللہ جی وہ میرا راستہ بھی نہیں ہے، میری منزل بھی نہیں ہے۔ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں سوچتی اور اگر میں نے زندگی میں کبھی کچھ سوچا بھی تو مجھے لگتا ہے آفتاب کے بارے میں نہیں ہو گا ۔ میں جانتی ہوں کہ میں رشتوں کو ترسی ہوئی ہوں لیکن میرا کاسہ اس کی نگاہ سے نہ بھر ۔۔ مجھے اس کے ذریعے سے نہ عطا کر ۔۔۔وہ جو بھی ہے جیسا بھی ہے جتنا بھی اچھا ہے میری دعاوْں سے اچھا نہیں ہے، تیری آیتوں سے اچھا نہیں ہے ، تیرے وعدوں سے اچھا نہیں ہے ۔ وہ نا محرم میرے راستے میں آنے لگا ہے۔ پتا نہیں میری بصارت اور بصیرت پہ اس دن کیسی پٹی بندھ گئی کہ میں نے اسے گھر کے نیچے تک بلا لیا ۔ میرے آس پاس بے شمار لڑکیاں ہیں جن کو میں نے ا س ر استے پر چلتے دیکھا ہے ۔ محبت کے نام پر رسوائی ایسا راستہ ہے جس پر آگے بڑھنے پر بہت سے راستے کھلے ملتے ہیں لیکن واپسی کا کوئی ایک بھی راستہ نہیں ہوتا۔ اللہ جی میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہونا چاہتی۔ اللہ جی میں صم بکم عمی نہیں ہونا چاہتی ۔ میں اس سے فاصلہ رکھنا چاہتی ہوں ۔ میں اس سے فاصلے پہ رہنا چاہتی ہوں۔ میرے Instincts مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں اس سے بات کرنے کی عادت میں مبتلا ہونے والی ہوں ۔ اللہ جی میں گناہگار ہوں۔ میں جو بھی ہوں، تیری بندی ہوں ۔ مجھ پہ آزمائش نہ ڈالنا۔ مجھے اس بندے کے قریب نہ کرنا۔ مجھے پتہ ہے کہ آج کل کی ان چیزوں میں اتنی کشش ہے کہ ہاتھ پاوْں بندھے محسوس ہوتے ہیں لیکن اللہ جی آپ میرے دل پر مہر لگا دیں ۔ مجھے ایک انسان کا کر کے نشان عبرت نہ بنانا ۔ مجھے کسی عظیم کام کے لئیے مختص کر لیں۔ مجھ سے اپنی مخلوق کے لئیے کوئی بڑا کام کروا لیں۔ مجھے اشتہار نہ بننے دینا ‘‘
روتے اور گڑگڑاتے ہوئے اس نے اپنی دعا مکمل کی۔ آمین کہا تو چہرے پر پھیرے گئے۔ دونوں ہاتھ آنسووْں سے تر ہو گئے ۔
وہ مطمئن ہو گئی تھی اس نے اپنے اللہ سے بات کر لی تھی۔ اب اسے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ دل بہت ہلکا سا محسوس ہوا۔اس نے اسے چھوڑ دیا تھا۔چھوڑنے کے لئے بتانا ضروری نہیں ہوتا۔چھوڑنے کے لئے صرف چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ آگے بڑھ کر اس نے کھڑکی کھولی تو ٹھنڈی ہواوْں نے اس کی صبیح پیشانی کو چوم لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے تن برہنہ دشمن اسی غم میں گھل رہے ہیں
کہ مرے بدن پہ سالم یہ لباس ہے تو کیوں ہے
’’ ہاں میں نے کو ایجوکیشن سے پڑھا ہے لیکن اب تو مجھے نام بھی نہیں یاد لڑکوں کے ‘‘ پاکیزہ سے اس کے اعتماد کا پس منظر جاننے کے لئیے لڑکیاں مختلف سوالات کرتی تھیں ایسے ہی ایک سوال کے جواب پہ پاکیزہ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
’’ پھر تو تم ان سے بات بھی کرتی ہو گی۔ ‘‘ کہنے والی کی آواز میں حسرت نا تمام گونجتی سنائی دی۔
پاکیزہ زچ ہوئی۔
’’ہاں ظاہر ہے ۔ سو کام پڑتے ہیں بات تو کرنی پڑتی ہے۔ بات کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حماد مجھے پینسل دے دو، حمزہ تم اپنی کاپی لے لو ۔ اس طرح کے دو چار جملوں سے کون سا کوئی مجھے اٹھا کر لے جائے گا ۔ ضرورتا بولنے پڑتے ہیں۔ ‘‘
’’ لیکن میں نے کبھی کسی لڑکے سے رسمی سی بات نہیں کی۔ کسی سے بات کرنی پڑ جائے اگر تو میں تو شاید بے ہوش ہی ہو جاوْں۔ میرے ہاتھوں میں ٹھنڈے پسینے آنے لگتے ہیں۔ ‘‘ ماہ روش اپنی ازلی اعتماد کی کمی کا رونا رونے لگی۔
’’ تم کبھی دکاندار سے کوئی چیز لینے نہیں گئی ؟‘‘ پاکیزہ نے سنجیدگی سے سوال پوچھا ۔
’’ ہاں بچپن میں اکثر سکول جاتے کوئی چیز لینی پڑ جاتی تھی تو لے لیتی تھی۔ ابھی بھی اگر بھائی گھر نہ ہو تو ضروری کتاب وغیرہ چاہئیے ہو تو چلی جاتی ہوں۔ ‘‘ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
پاکیزہ کے انداز میں سکون سمٹ کر آ گیا۔
’’ دیکھو تم اس دکاندار کو انکل سمجھتی ہو۔ اس لئیے ریلیکس رہتی ہو ۔تمہیں چاہئیے کہ اب جب کسی لڑکے سے واسطہ پڑے تو اپنا اور اس کا رشتہ سامنے رکھو۔ یہ نہ سوچو کہ وہ لڑکا ہے ،مرد ہے۔ یاد رکھو کہ وہ ماموں کا بیٹا ہے، پھوپھی کا بیٹا ہے ، بس کنڈیکٹر ہے ، دکان والا ہے، پکوڑے بیچتا ہے، کپڑے سیتا ہے۔ اس سے ٹو دا پوائنٹ بات کرو۔ اس کی صنف کو ہوا نہ بناو۔ْ رشتے کو سمجھو پھر تمہیں ڈر نہیں لگے گا ۔ ٹھنڈے پسینے بھی نہیں آئیں گے۔ ‘‘
ماہ روش نے شکر گزار نظروں سے پاکیزہ کو دیکھا ۔ طیبہ اور ریحانہ ان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔
وہ تھوڑا بور ہوئیں ریحانہ نے طیبہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔
’’ ہم ذرا سموسے لے کر آتے ہیں۔ تم لوگوں نے مزید جتنی گھسی پٹی باتیں کرنی ہیں ۔کر لو۔ ‘‘
پاکیزہ اور ماہ روش کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔ وہ کینٹین کے ایک خالی بینچ پر بیٹھ گئی۔
’’ایک بات اور کہوں ماہ روش ‘‘ پاکیزہ نے جھجک کر پوچھا ۔
’’ہاں کہو۔‘‘ ماہ روش ٹشو سے بینچ کے سامنے پڑا میز صاف کرتے ہوئے بولی۔
’’کبھی کسی کو غلط چیز پر بھی پوائنٹ آوْٹ نہ کیا کرو۔ بعض اوقات ہم خود بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن اللہ کے نزدیک وہ شخص زیادہ پیارا ہوتا ہے جسے ہم پوائنٹ آوْٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس پوائنٹ آوْٹ کرنے سے ہوتا بس یہی ہے کہ ہمیں آخری سانس تب تک نہیں آتا جب تک ہم بھی وہی غلطی نہ کر لیں۔ ہم مکمل تو ہیں نہیں کسی کی تصویر کے اڑتے رنگوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمیشہ ہمارے رنگ دھندلے پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘
ماہ روز پاکیزہ کے لہجے پر غور کر رہی تھی۔ ریحانہ اور طیبہ اتنے میں سموسے لے کر وارد ہوئیں۔ ماہ روش کی آنکھوں میں اب تشکر کا شائبہ تک نہ تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھونچال کوئی زیرِ زمیں کس نے چھپایا
ذی روح ،سبھی کوہ و بحر کانپ رہے ہیں
مغرب کے بعد عشاء ہونے کو آئی تھی لیکن پھوپھو ابھی تک نہیں لوٹی تھی۔ پاکیزہ جلے پیروں والی بلی کی طرح مسلسل چکر کاٹ رہی تھی۔ تسکین پھوپھو کا نمبر بھی نہیں مل رہا تھا۔ اس نے فقط اتنا بتانا تھا کہ کل مصوری کے دوسرے اور حتمی راوْنڈ کے لئیے آرٹ کونسل جانا ہے۔ شاید آنے میں دیر ہو جائے لیکن پھوپھو تھی اور گھر ہی نہیں آ رہی تھی۔ اس نے موبائل کا بٹن دبا کر وقت دیکھنے کی کوشش کی تو پھوپھو کالنگ دیکھ کر جان میں جان آئی ۔
’’ پاکیزہ مجھے ایک ضروری کام ہے، میں تھوڑا لیٹ آوْں گی۔ تم کھانا کھا کر سو جانا۔ چابیاں میرے پاس ہیں۔ میں خود ہی ان لاک کر لوں گی۔ ‘‘ پھوپھو نے اپنی بات تیزی سے کی۔
’’پھوپھو میری بات تو سنیں۔ ‘‘ پاکیزہ فورا بولی، اس نے اپنی بات کہنی چاہی۔
’’ بیتا کل بات کر لینا، ابھی مجھے بہت کام ہے۔ ‘‘ پھوپھو کو شاید واقعی بہت کام تھا ،ان کے پیچھے لوگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھی ۔ انہوں نے فون رکھ دیا ۔
پاکیزہ روہانسی ہو گئی۔ ا س نے دودھ گرم کر کے عشاء کی نماز پڑھی۔ دروازہ اچھی طرح لاکڈ کر کے سونے کے لئیے بستر پر آ گئی ۔ بلیک لسٹ میں ستاون مسڈ کالز پڑی ہوئی تھیں اور میسجز تو اس نے مکمل بلاک کر رکھے تھے۔ آفتاب کا نام اس کے ذہن کے دریچے پر دستک دے کر معدوم ہو گیا۔ وہ آنے والے کل کے بارے میں سوچنے لگی ۔
’’ اب میں پھوپھو کو سرپرائز دوں گی ۔ میں بھی انہیں نہیں بتاوْں گی ۔میرا کل مقابلہ ہے۔ کل جب انعام لے کر گھر آوْں گی تو وہ خوش ہو جائیں گی۔ ‘‘
اپنی سمجھ کے مطابق ایک اور فیصلہ لے کر وہ مطمئن ہو گئی۔ سر خروئی کے خوابوں نے اس کی آنکھوں میں نیند کی لوریاں پرو دیں ۔وہ غفلت کے مزے لینے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبِ غم کی سحر نے روند ڈالا ہے اسے گویا
زمیں سے اپنی کرچیاں اٹھاتا شخص دیکھو تو
’’ آگئی ؟تم نے یہی کرنا تھا۔تم واقعی عذاب ہو جسے مجھ پہ مسلط کر دیا گیا۔میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں تمہیں موبائل تو دے رہی ہوں لیکن ساتھ اپنا بھروسہ بھی۔۔۔تمہیں میرے بھروسے کا مان رکھنا تھا۔تمہیں میرے اعتماد کا مان رکھنا تھا۔تم نے وہی کیا جو تم کر سکتی تھی۔بڑی بڑی باتیں کرنے والے اندر سے کتنے چھوٹے ہوتے ہیں ۔آج تم نے یہ ثابت کر دیا۔دل کرتا ہے تمہارا منہ توڑ دوں۔میں نے کیسے سوچ لیا کہ یہ لڑکی میرے لئے پریشانی کا باعث نہیں بنے گی۔۔۔میں اچھی طرح جانتی تھی کہ تمہارے والدین کبھی میرے بارے میں نہ سوچ سکے۔تم نے بھی کیوں سوچنا تھا۔نہیں سوچنا تھا۔تم نے نہیں سوچا۔‘‘
وہ دھاڑتی ہوئی اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ایک تھپڑ اس کے چہرے پہ رسید کیا۔وہ ہکا بکا آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہیں کھڑی رہی۔
’’اب دیدہ دلیری تو دیکھو کیسے آنکھوں میں جھانک رہی ہو۔دیدوں کی شرم تو مر گئی ہے۔تمہارے ماں باپ اگر زندہ ہوتے تو تمہیں اپنے ہاتھوں سے مار دیتے۔تم کبھی کسی کا سر فخر سے بلند نہیں کر سکتی۔تم اذیت ہو۔تم بد نامی ہو۔تمہاری جیسی لڑکیاں ہوتی ہوں جو گھر والوں کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑتی۔تم جیسی لڑکیوں کے چہرے تیزاب پھینک کر مسخ کردینے چائیے۔‘‘
وہ وہیں کھڑی تھی۔پھوپھو نے اسے اب کی بار اتنے زور کا تھپڑ مارا کہ وہ زمین پہ گر گئی۔اس کی ناک سے خون نکل رہا تھا۔
’’ کس سے ملنے گئی تھی؟ میں نے تمہیں کسی چیز سے نہیں روکا ۔تم مجھے اعتماد میں لیتی۔مجھے ایک دفعہ بتاتی کہ کہاں جانا ہے لیکن نہیں ۔۔۔تمہارے ماں باپ نے جینے نہیں دیا اور اب تم سکون سے مرنے بھی نہیں دینا چاہتی۔گھٹیا لڑکی۔اتنی ہی آگ لگی ہے تو مجھے بتاتی میں تمہیں رخصت کر دیتی۔مجھے کیا پتہ جو مشورے مجھے دینے کی کوشش کر رہی تھی وہ تم اپنے لئے دے رہی تھی‘‘
پنجوں کے بل گری ہوئی پاکیزہ کے پاس بیٹھ کر انہوں نے اس کی کمر پہ دو تھپڑ مزید جڑ دئیے۔وہ اس وقت جاہل لگ رہی تھیں ۔
خیر تمہیں کیا فرق پڑنا ؟ تمہیں فرق پڑتا ہوتا تو تم اس گھر سے قدم باہر نکالنے سے پہلے کم از کم ایک دفعہ رو سوچتی۔مر جاؤ۔تمہیں مر جانا چائیے۔تمہیں اپنے نام کی لاج بھی نہیں آئی۔تمہیں واقعی مر جانا چائیے۔
وہ اسے کہہ کر اپنے کمے میں جاچکی تھی۔پاکیزہ کی آنکھیں خشک تھیں،مکمل خشک۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...