کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اس کو
میرے مولا کاوصی جونہی اشارہ ہو گا
ـ’’سر اس نے میری ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔اس سے لے کر دیں۔میں نے باز کے ساتھ تصویر بنوا نی ہے۔‘‘ احمر ماجد کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
دہم جماعت میں آتے ہی ایک تفریحی پروگرام کے انتظامات مکمل ہوئے۔اسی لیے آج یہ سب مری کی خنک ہواؤں میں مال روڈ کے اوپن ائیرچائے خانہ میں چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔احمر کی تیزی اور ماجد کی چالاکی کی وجہ سے اردگرد کے لوگ متوجہ ہوکر ادھر ہی دیکھنے لگے۔احمر کی لاکھ کوششوں کے باوجود ماجد اس کے ہاتھ آکر ہی نہیں دے رہا تھا۔سر اسد ان دونوں کو تنبیہہ کرنے کی چاہ میں اٹھ کھڑے ہوئے لیکن اس سے پہلے ہی بھاگم بھاگ میں ماجد کا بازو میم نگین کی کہنی سے ٹکرایا۔اور ان کے ہاتھ میں موجود کپ سے بھاپ اڑاتی چائے کپ سمیت سیدھی پاکیزہ کے اوپر چھلکنے ہی والی تھی۔بس لمحے کی دیر تھی۔آفتاب نے آناََ فاناََ اپنا ہاتھ آگے کر کے میم نگین کے کپ کو مخالف سمت میں اچھالا۔ا یسا کرنے سے پاکیزہ کے اوپر صرف چائے کی چند چھینٹیں ہی آئیں لیکن آفتاب کا ہاتھ سرخ ہوگیا۔
سر اسد،احمر اور ماجد کو ایک طرف لے گئے۔ان کو ڈانٹ اب یقیناََ شدید پڑنے والی تھی۔پاکیزہ حیران بیٹھی آنکھیں کھولے اس لڑکے کی دیوانگی کو دیکھ رہی تھی۔ٹوٹا ہوئے کپ کے ٹکڑے فرش پہ اپنی بے وقعتی کا رونا رو رہے تھے۔دوسری طرف پاکیزہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وقعت واقعی اسے دی گئی ہے۔میم نگین نے فوراََ اپنا پرس کھول کر برنال نکالی اور آفتاب کے سرخ ہوتے ہاتھ پہ لگانے لگ گئی۔پاکیزہ وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں نہیں تھی۔آفتاب اس کے جذبات کو سمجھتے ہوئے بھی لا پرواہی برت رہا تھا۔اس کے رویے میں احسان کی کوئی جھلک نہیں تھی۔وہ پہلی دفعہ تب نہیں جتا رہا تھاجب وہ پہلی بار زیرِبار آ رہی تھی۔ دو تین منٹ بعد ماحول واپس پرسکون ہوگیا۔
’’ آفتاب تمہاری بھی چائے گر گئی۔‘‘میم نگین نے اس کے خالی کپ کو دیکھ کر پوچھا۔
ــ’’وہ میں اچانک سے آگے ہوا تھا۔اس لیے پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘اس نے بڑے آرام سے جواب دیا۔
’’لیکن گری کہاں؟‘‘انمول پریشانی سے فرش پہ دیکھنے لگی جہاں چائے کا کوئی دھبہ نہ تھا۔
’’ یہ نہ پوچھیں کہ کہاںگری اور کہاں تک گئی۔‘‘ آفتاب نے ہنستے ہوئے اپنی کالی پینٹ کی طرف اشارہ کیا۔سب ہی ہنسنے لگ گئے۔
’’پاکیزہ چائے بنا دو۔‘‘ آفتاب نے اس کے مسکراتے چہرے سے کچھ نمکین لمحے چرا کر کہابالکل ایسے جیسے روز کا معمول ہو۔
پاکیزہ نے خالی ذہن سے اپنا ہاتھ چائے کی کیتلی کی طرف بڑھادیا۔
اس میں آج منع کرنے کی سکت نہ تھی۔دودھ دو چمچ ڈال کر وہ آفتاب کی طرف دیکھنے لگی۔شاید چینی کے لیے پوچھنا تھا لیکن اسے بھول گیا کہ بس چینی کے لیے ہی پوچھنا تھا۔
کچھ چہرے بند گلیوں جیسے ہوتے ہیں ان میں جھانکنے لگو تو کسی اور طرف نکلنے کے سارے راستے مسدود ہو جاتے ہیں!
اس نے واپس نظریں چائے کے برتنوں پہ گاڑ دیں۔جو سچائیاں اس کے دماغ کو سمجھ میں آرہی تھی وہ اس کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی۔
’’پاکیزہ بیٹا مجھے بھی چائے بنا دو۔‘‘میم نگین اسے واپس سب کے درمیان لائی۔
اس نے ادھوری چائے کی پیالی ادھوری ہی چھوڑ دی۔دو چائے کی پیالیاں اور بنائی۔ایک آفتاب کی طرف بڑھائی جسے اس نے مسکرا کر قبول کر لیا۔ دوسرا کپ میم نگین کو پکڑایا۔سر اٹھا کر آفتاب کو دیکھا تو وہ ہاتھ میں پیالی پکڑے بازو اسی کی جانب بڑھائے بیٹھا تھا۔پاکیزہ کی آنکھوں میں حیرت در آئی ۔اس نے چائے مکمل ہوش و حواس میں بنائی تھی۔اتنی بری تو تھی نہیں کہ اسے یوں چکھ کر چھوڑ دیا جائے۔
’’پی لی ہے‘‘ آفتاب نے پاکیزہ کے سوالیہ نظروں کا جواب دیا۔
پاکیزہ کی حیرت دو چند ہوگئی۔اتنی گرم چائے بھلا کوئی کیسے پی سکتا ہے۔سوال اس کے دماغ میں کلبلایا۔اس نے خاموشی سے کپ تھاما اور ٹیبل پر رکھا۔
آفتاب اب عین اس کی پشت پہ کھڑا تھا۔
’’ تم اگر زہر بھی دو تو اتنی ہی تیزی سے پی لوں گا۔‘‘
پاکیزہ نے اس دیوانے کی دیوانگی کو ان سنا کیا لیکن پتھر کی مورتی تو تھی نہیں ،دل کی ایک دھڑکن نے دھڑکنے سے انکار کر دیا۔وہ اپنے اختیا ر کے معاملے میں بے اختیار ہونے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی آنکھیں بھی خوب آنکھیں ہیں
وہ دکھاتی ہیں جو نہیں ہوتا
وہ دونوں اب اچھے دوست تھے۔چار مہینے کا ساتھ باقی تھا۔بدمزگی کوئی خاص تھی نہیں تو پھر احتیاط کاہے کو باقی رہتی۔پاکیزہ نے اپنے خول کو اتار پھینکا۔وہ زندگی کے یخ بستہ موسم کے لیے اس عمر کی دھوپ کی تمازت لینا چاہتی تھی۔ایسی یادیں جن کو سینک کر وہ اپنے ماضی پر خوش ہو سکے ۔ وہ اکھٹی کر رہی تھی۔۔۔۔یادیں بہت سی یادیں!
آہستہ آہستہ اس کا رویہ سب کے ساتھ ہی نارمل ہوتا چلا گیا۔وہ ہنسنے لگ جاتی۔اپنے اوپر کے دائرے چٹخ چٹخ کر اترتے دیکھتی تو ہوا کے مست جھونکوں کو بانہیں کھول کر خوش آمدید کہتی۔اس سر مستی میں بھی اسے اپنی حد نہیں بھولی تھی۔جو بھی تھا فاصلہ قائم تھا۔حد باقی تھی۔
’’بات سنو۔‘‘ آفتاب نے اس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
وہ اپنی کالی آنکھوں کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس پر مرکوز کرنے میںکامیاب ہوگئی۔جب دل کے جذبات پر قابو ہو تو آنکھوں میں جھانکنا مشکل نہیں لگتا۔جب تک کوئی مرد خاص مقام حاصل نہیں کر لیتا لڑکی اس کی آنکھوں میں سکون سے جھانک سکتی ہے۔وہ منفرد ضرور تھا لیکن خاص کے درجے پہ فائز نہیں ہو سکا تھا۔
’’تم مجھ سے بعد میں بھی رابطہ رکھو گی ناں؟‘‘ آفتاب کی آنکھوں میں خوش گمانی کے ستارے جھلملاتے نظر آئے۔شاید اسے اپنے درجے کا اندازہ نہیں تھا۔وہ روز دوستی کی ہزار سیڑھیاں پھلانگتا تھا۔
’’بعد میں کب؟‘‘ پاکیزہ کے سوال میں اتنی وضاحت تھی کہ آفتاب کو اگلا سوال کرنا مشکل لگا۔
’’سکول ختم ہونے کے بعد‘‘ اس نے اب تائید چاہی۔
’’تم میرے کیا لگتے ہو؟‘‘ پاکیزہ نے سوال پوچھا۔
’’دوست‘‘ آفتاب نے تتلی کو تھام لینا چاہا۔
’’وہ تو سب ہی دوست ہیں۔ میری تمہاری دوستی کسی سے الگ نہیں ہے۔سب سے جدا نہیں ہے۔میں تم سے ویسے ہی بات کرتی ہوں جیسے باسط،معید،ماجد وغیرہ سے بات کرتی ہوں۔کیا میں نے تمہیں کبھی کوئی غلط امید دلائی۔تمہاری کسی فضول بات پہ پوزیٹو رسپانس دیا؟‘‘پاکیزہ نے اس کی بند مٹھی اچانک کھولی تھی۔ستاروں کی چمک یکایک مدھم ہوئی۔اسے آخری سیڑھی سے نیچے دھکا دیا گیا۔
’’ نہیں۔۔۔ایسا میں نے کب کہا؟‘‘ آفتاب کو اس شیرنی کے غصے کا بہت اچھے سے اندازہ تھا وہ فوراَ باگڑ بلا بن گیا۔چاہے ان ہی سیڑھیوں
پہ ہی سہی اس جادوگر سی لڑکی سے وہ رابطے میں رہنا چاہتا تھا۔
’’اب سیدھی طرح بتاؤ تم میرے کیا لگتے ہو؟‘‘ کالی آنکھیں اس کے حسین چہرے پہ رعب ڈال کر کچھ اور چمکی ۔
’’کلاس فیلو۔‘‘آفتاب کی مدھم سی آواز نکلی۔
’’بالکل ٹھیک۔ابھی تم کلاس فیلو ہو میں تم سب سے بات کرتی ہوں کیونکہ تم سب ہی میرے کلاس فیلو ہولیکن بعد میں یہ رشتہ باقی نہیں رہنا پھر میں کیوں تم سے رابطہ رکھوں گی۔میں کیوں تم سے بات کروں گی۔میں اپنی زندگی کے انمول لمحے اپنی یاداشت پہ محفوظ کرنا چاہتی ہوں۔لیکن اپنے حافظے کے لیے کوئی عذاب نہیں اکھٹا کرنا چاہتی۔میں کسی بے عزت کر کے رکھ دینے والے تعلق کو ساتھ لے کر نہیں جینا چاہتی۔اگر تمہیں مجھ سے ایسی کسی بے وقوفی کی امید ہے تو تم ہمیشہ کی طرح غلط ہو۔تمہیں اب سے ہی مجھ سے بات کرناچھوڑ دینی چاہیے۔‘‘
وہ اپنی بات کہہ کر اس کی بات سننے کے لیے رکی نہیں تھی۔
اس نے اپنے سارے مہرے سوچ سمجھ کر کھیلے تھے۔زندگی اس کی سمجھداری کو قطرہ قطرہ اپنے اندر اتار رہی تھی۔
’’بھئی اچھا ناراض تو نہ ہو۔فی الحال تو منہ نہ بناؤ۔پاکیزہ ویسے سوچنے کی بات ہے اگر میں ابھی کلاس فیلو ہوں اور تم اس رشتے سے مجھ سے رابطہ رکھے ہوئے ہو تو بعد کے لیے بھی ایک رشتہ موجود ہے۔کوئی پوچھے کون ہے یہ؟ تو تم کہہ دینا سابقہ کلاس فیلو۔رشتے بننا مشکل ہوتے ہیں لیکن اگر ایک دفعہ بن جائیں تو پھر ہمیشہ سابقہ کا کارڈ گلے میں لٹکا کر ہمارے سامنے کھڑے ملتے ہیں۔تم بے شک مجھے سامنے کھڑا مت کرنا لیکن کہیں اپنی بڑی سی زندگی میں تھوڑی سی گنجائش میرے لیے بھی نکال لینا۔میں کبھی تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ آفتاب مسلسل اس کاسر کھاتا اس کے پیچھے جا رہا تھا۔
پاکیزہ کے کالے بال پونی ٹیل کی قید میں سے نکل کر اس کے سانولے سلونے چہرے کو چوم رہے تھے۔لیکن اس کی تیز رفتاری پر ذرہ برابر بھی اثر نہ پڑا۔اس نے اپنا مزاج واپس درست نہیں کرنا تھا تاوقتیکہ آفتاب کا دماغ درست ہو جائے۔
وہ سانپ سیڑھی کا کھیل جاری رکھے ہوئے تھے۔بس فرق صرف اتنا تھا کہ سانپ کے زہر اور سو کا ہندسہ دونوں پاکیزہ کی مٹھی میں قید تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمال تشنہ لبی جس نے عمر بھر جھیلی
اسے اب ساتھ بھی دریا کا ہے گوارا کب
بچپن میٹھے آموں کی ترشی جیسا ہوتا ہے۔ یہاں کھلونا توڑتے ہیں ،وہاں گھر جوڑتے ہیں۔ایک گھڑی چونچیں لڑاتے ملتے ہیںاور دوسری گھڑی سر جوڑے نظر آتے ہیں۔دل کا آئینہ ہیرے سے زیادہ شفاف ہوتا ہے۔غصہ ناراضگی ،رنجش،چپقلش،عداوت،حسد،رشک ۔۔۔۔کچھ بھی زیادہ عرصے تک ٹھہر ہی نہیں سکتا۔زندہ لمحے کے لیے تلخی ہوتی ہے اور پل بھر بعدبیتے لمحے کی تلخی پر پچھتاوا ہونے لگتا ہے۔
ان دونوں کا تعلق بھی ایسا ہی بن گیا ۔دھوپ چھاؤں سا،نرم گرم سا،گرمیوں کی فجرکی اذان سے پہلے کی ہوا جیسا،سردیوں کی آنگن میں اترتی دھوپ جیسا،کبوتر کے غٹر غوں میں دبی ہوئی ہولی سی شرارت لئے،چہچہاٹوں میں دل آویز سی کھنک لئے۔۔۔ دل میں اترنے والا!
سب کچھ مٹھی سے پھسلتی ریت پہ ذرہ ذرہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ تلخی پھر سے درمیان آئی۔
پاکیزہ بپھری ہوئی کلاس میں یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی۔آفتاب جونہی اندر داخل ہوا وہ اس کے پاس گئی اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا۔
’’پٹاخ‘‘
اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔جو جہاں تھا وہیں رک گیا۔آفتاب کی غلطی جو بھی ہوپاکیزہ کا رد عمل بہت شدید تھا۔سب ملامتی نظروں سے پاکیزہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔
صرف ایک وہ تھا جس کی نظروں میں ملامت نہیں تھی ۔صرف حیرت تھی۔ہمیشہ کی طرح اس کی آنکھوں میں وہی ازلوں سی نرمی تھی کہ جسے دیکھ کر کسی پہاڑی پر ہوتی خوبصورت برفباری کی یاد آجائے۔
پاکیزہ کو اس یاد نے بھی غصے میں جلنے بھننے سے نہیں روکا۔
وہ آتشی نگاہیں آفتاب پر مرکوز کیے ہوئے دھاڑی۔’’کون تھے وہ؟‘‘
’’کون؟‘‘آفتاب نے جواباََ سوال پوچھا۔
’’وہی جو تین سکول کے دروازے تک آئے تھے۔‘‘ پاکیزہ بہت واضح لفظوں میں اس سے سوال پوچھ رہی تھی۔
’’دو میرے کزنز تھے اور ایک دوست۔‘‘ آفتاب نے جیسے اقبال ِجرم کیا۔
’’کیا کرنے آئے تھے؟‘‘ تسلی پاکیزہ کو اتنی آسانی سے کہاں ہونی تھی۔
’’سچ بتاؤ یا جھوٹ؟‘‘ آفتاب کے چہرے پر نازک سی انگلیوں کے نشان ثبت تھے لیکن پھر بھی اس کے انداز میں عجیب سا جھکاؤ تھا۔ایسا جھکاؤجس پہ شاید اس کا اپنا بھی اختیار نہیں تھا۔
’’سچ بولو آفتاب نور۔۔۔۔ صرف سچ!‘‘ پاکیزہ اس کی نرمی کے جھانسے میں نہ آئی۔
’’تمہیں دیکھنے آئے تھے۔‘‘ آفتاب نے بڑے آرام سے جواب دیا۔
پاکیزہ کے سارے بند ٹوٹ گئے۔ وہ چیخ چیخ کر بولنے لگی۔اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
’’آفتاب لڑکی عزت کرنے کی چیز ہوتی ہے دیکھنے کی نہیں۔میں کسی چڑیا گھر کا بندر نہیں ہوں کہ تمہارے رشتہ دار اور تمہارے دوست مجھے آ آکر دیکھیں۔میں تمہاری پراپرٹی نہیں ہوں کہ تم مجھ پر ٹکٹ لگا کر رکھو۔ میں لڑکی ہوں۔مجھ پر نظریں پڑنے سے میں میلی ہوتی ہوں۔جو نظر ارادتاََ نہیں پڑتی اس کو میں ہضم کر لیتی ہوں لیکن تمہاری یہ ہمت کیسے ہوئی کہ تم انہیں مجھے دکھانے کے لیے لاؤ۔تم ارادتا مجھ پہ نظریں ڈلواؤ۔۔۔میں تمہاری خریدی ہوئی ارمانی کی شرٹ نہیں ہوں۔ میں تمہارے باپ کی کمائی کی لائی ہوئی گیئرز والی سائیکل نہیں ہوں۔میں پاکیزہ ہوں ۔پاکیزہ سمجھتے ہو تم؟ پاک۔۔۔۔صاف دامن۔۔۔۔۔تم مجھ پہ ٹکٹ نہیں لگا سکتے۔تم لوگوں کو اس لیے نہیں پکڑ کر لا سکتے کہ وہ آئیں اور مجھے دیکھیں۔ تمہارے گھر میں بھی بہن ہے پھر بھی تم انہیں لائے کہ وہ مجھے دیکھیں۔تمہیں یہ حق کس نے دیا‘‘
وہ چیختی جا رہی تھی اور رو رہی تھی۔اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح ان چھبتی ہوئی نظروں کا اثر اپنے اوپر سے اتارے۔
’’پاکیزہ پاکیزہ پلیز ہولڈ آن۔۔۔میری بات تو سنو ۔وہ صرف تمہیں دیکھنے آئے تھے۔میں نے تمہاری بہت تعریف کی تھی۔وہ بس ایسے ہی دیکھنے آگئے۔جب 9th کلاس کا رزلٹ آیا تھا وہ تب سے تمہیں دیکھنا چاہ رہے تھے میں انہیں روکتا رہا۔آج انہیں پتہ چلا کہ تم ہیڈگرل ہو تو وہ بس گیٹ تک دیکھنے آئے تھے۔تمہاری تعریفیں سن کر تمہیں دیکھنے کا شوق پیدا ہوا تھا اور تو کچھ بھی نہیں تھا۔تم کیوں غلط سمجھ رہی ہو؟‘‘آفتاب اس کو سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا اس کے آگے پیچھے ہوتا رہا۔
پاکیزہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔اس کی آنکھوں میں بے یقین آنسو چمک رہے تھے ۔وہ کسی کے سامنے رو کر خود کو کمزور ثابت نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ اٹھی اور کلاس کے دروازے کی طرف بڑھی۔آفتاب اس کو روکنے اس کے پیچھے آیا۔وہ مڑی اوراس کی آنکھوں میں جھانک کر انتہائی درشتگی سے بولی۔
’’بس آفتاب نور۔۔۔بہت ہو گیا۔تم نے اپنی دوستی کا گلا اپنے ہاتھ سے گھونٹا ہے ۔ اب میرے پیچھے نہ آنا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ دروازے سے نکل گئی اور وہ واقعی رک گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظوں کی جستجو میں سب کچھ گنوا دیا
وہ چل دیا میں طرزِ ادا ڈھونڈتا رہا
’’سکول میں آخری دن‘‘ اس موضوع پر مضمون تو سب نے بہت لکھے تھے لیکن اس دن کے حقیقی جذبات مختلف تھے۔ایسے ان کہے سے احساسات جن کو لفظوں کی اوڑھنی پہنائی ہی نہیں جا سکتی۔دس سے زائد سالوں کی سنگت چھوٹنے والی تھی۔روز عبور کرنے والی دہلیز آج روٹھنے والی تھی۔عجیب سی بے چینی،میٹھی میٹھی سی کسک اور بہت خوش نہ کرنے والی خوشی سب کے چہروں اور رویوں سے جھلک رہی تھی۔رنگین کپڑوں میں معصوم بچیاں ننھی پریاں لگ رہی تھیں۔ان کے چہروں پر کچھ کر لینے کا عزم نمایاں تھا۔لڑکوں کی بھاری ہوتی آوازیں سماعتوں کو بوجھ نہیں لگ رہی تھیں۔اساتذہ کے لیے یہ نسل ان کے ہاتھ سے لگائی فصل تھی جوپک کر آج سامنے تیار کھڑی تھی۔سب کے بازوؤں پر سکول یونیفارم پڑا ہوا تھا۔ایک دوسرے سے آٹو گراف لینے کے چکر میں یہاں وہاں گہما گہمی سی طاری تھی۔
’’پاکیزہ مجھے آٹوگراف دو‘‘ آفتاب نے اپنی سفید شرٹ اس کے سامنے پھیلائی۔
پاکیزہ نے کینہ توز نظروں سے اسے گھورا۔
اس دن کے بعد نہ پاکیزہ نے منہ پھیرا تھا نہ منہ پھیرنے کی نوبت آئی تھی۔کیونکہ آفتاب ڈر کے مارے پیچھے آیا ہی نہیں تھا۔لیکن آج پھر وہ اس کے سامنے اپنی قسمت کو آزمانے کھڑا تھا۔
’’نہیں دینا۔‘‘ پاکیزہ نے انکار کر کے منہ موڑ لیا۔
’’سوچ لو۔‘‘ آفتاب پہلی دفعہ اسے اس کے انداز میں چیلنج کر رہا تھا۔
’’سوچ لیا۔‘‘چیلنج غلط لڑکی کو کیا گیا تھا۔
کوریڈور میں کھڑے ہوئے ان دونوں کے قریب کوئی نہیں تھا۔پاکیزہ نے اس کے ساتھ سے نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ راستے میں آگیا۔
’’یہیں رکو۔‘‘ آفتاب کی سرخ ہوتی آنکھیوں کا ضبط اپنی آخری حد کو چھو رہا تھا۔
پاکیزہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی جرات کو دیکھا۔بس پلک جھپکنے کی دیر تھی۔آفتاب نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک دوائی کی شیشی نکالی اور ساری گولیاں فی الفور نگل لیں۔پاکیزہ ششدر کھڑی رہ گئی ۔اگلے کچھ پل میں جیسے پاکیزہ بے ہوشی سے جاگی ہو۔آفتاب اس کے راستے سے ہٹ کر دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔اس کی آنکھوں میں ضبط تھا اورچہرے پہ عجیب سی طمانیت ۔پاکیزہ کا دماغ جیسے کسی نے الٹی پھرکی پہ رکھ کر گھما دیا ہو۔
اس نے سر پھرے کو بازو سے تھاما اور واش روم کی طرف گھسیٹنے لگی۔’’چلو میرے ساتھ۔‘‘
وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلتا گیا۔
سنک کے پاس کھڑے ہوکر اس نے آفتاب کو جھکا دیا’’الٹی کرو۔‘‘
وہ ہنس پڑا۔
پاکیزہ چڑ سی گئی۔’’ میں نے کہا ہے کہ الٹی کرو۔دانت نکالنے کو نہیں کہا۔‘‘
’’ایسے بھلا کیسے vomit آتی ہے۔‘‘ وہ سچ ہی کہہ رہا تھا۔
’’پھر کیسے آتی ہے۔‘‘پاکیزہ نے اس سے جواباََ سوال پوچھا ۔اس کا دل کپکپا رہا تھا۔جانے آج کون سا تماشہ بننے والا تھا۔
’’vomit آجائے گی۔۔۔ پہلے تم مجھے آٹوگراف دو‘‘ اس نے پھر اپنی شرٹ آگے کر دی۔اس کے لہجے میں یقین بولا۔
یقین تو سب کچھ کر سکتا ہے ۔اس یقین نے پاکیزہ کو تذبذب میں ڈال دیا۔وہ سوچ میں پڑ گئی۔
’’اگر تم نے آٹوگراف نہیں دینا تو چلو ہال میں چلتے ہیں۔یہاں وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟‘‘ آفتاب اسے بلیک میل کر رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔کٹھ پتلی کی ڈوری آفتاب کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔
’’اگر میں آٹوگراف دوںگی تو تم یہیں میرے سامنے vomit کرو گے۔ وعدہ کرو!‘‘پاکیزہ بلیک میل ہو رہی تھی،پہلی دفعہ وہ اس سے پیمان لے رہی تھی۔
’’ہاں کروں گا۔‘‘آفتاب نے حامی بھری ۔
پاکیزہ نے اس کی بازو پر رکھی اس کی شرٹ پہ اپنے دستخط کیئے اور اوپرلکھا۔
“catch the time or time will catch you.”
آفتاب کے سرخ چہرے پر خوشی سرخی بن کر جھلکنے لگی۔
خوشی خوبصورت انسان کو مزید خوبصورت بنا دیتی ہے۔پاکیزہ پر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ انکشاف ہوا۔
’’vomit کرو اب۔‘‘اس نے واپس اپنا مطالبہ آفتاب کے سامنے رکھا۔
آفتاب نے پانی کے کولر سے ایک گلاس پانی کا بھرا اور جیب سے ایک پڑیا نکال کر پانی میں ڈال کر گھول لی۔پاکیزہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’ نمک ہے۔نمک والا پانی پینے سے قے ہوجاتی ہے۔‘‘ آفتاب نے اس کے حیرت سے وا لبوں سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
پاکیزہ yeakh کہتی ہوئی دور کھڑی ہو گئی۔آفتاب واقعی تھوڑی دیر میں قے کر رہا تھا۔غیر متوقع طور پر وہ وہیں کھڑی رہی۔بعد میں اس کے ساتھ ہی ہال میں چلی گئی۔
اس دن پاکیزہ کے ساتھ بہت کچھ ہوا تھا۔اساتذہ کی طرف سے اسے بہت سا پیار ملا تھا۔پرنسپل نے اپنی بہت ساری امیدوں کو اس سے وابستہ کیا۔اس کی آنکھوں میں زندگی کو ایک مقصد کی طرح واضح کر دیا گیا اور اس نے خود سے وعدہ کرلیاکہ اتنی بڑی دنیا میں اپنی چھوٹی سی پہچان ضرور بنائے گی۔کچھ تو ایسا لازمی کرے گی کہ اس کا نام کہیں لیا جائے تو سو میں سے بیس لوگ اسے پہلے سے جانتے ہوں۔سکول کی چار دیواری کو چھوڑنا اس کے لیے تھوڑا نہیں بہت مشکل تھا۔
اس نے گردن موڑ کر لڑکوں میں بیٹھے اس وجیہ لڑکے کو دیکھا۔میٹھی میٹھی سی کسک میں ایک بے نام سی خلش شامل ہوگئی تھی۔ایسی خلش جس نے شاید اب کبھی نہیں مٹنا تھا۔وہ اس شخص کو شاید آخری بار دیکھ رہی تھی جس نے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا،وعدوں کی ڈور تھمانے کی کوشش کی تھی۔بے شک وہ ڈھلی کبھی نہیں تھی لیکن آنچ پر تو رہی تھی۔آج اسے احساس ہو رہا تھا جو جل نہیں سکتے وہ پگھل جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے در پہ ہی میرا سر جھکے مجھے اور کچھ نہیں چائیے
مجھے سب سے جو کر دے بے نیاز مجھے اس انا کی تلاش ہے
’’میں چاہتی ہوں میرے سامنے ایک بڑا سا آسمان ہو اور اس پہ میرے نام کا چاند چمکے،صرف میرے نام کا چاند‘‘
وہ تسکین پھوپھو کے ساتھ آج پہلی مرتبہ چھت پر واک کر رہی تھی۔یہ شرف بھی شایددسویں کے نتیجے کی وجہ سے ملا تھا۔وہ اس معصوم سی لڑکی کی معصوم سی خواہش پہ مسکرا دیں ۔زندگی میں رہنمائی کرنے والا ستارہ نہیں ملتا اور اس پاگل کو پورا چاند چائیے تھا۔
’’تمہیں نہیں لگتا تمہاری خواہش بہت چھوٹی ہے۔کچھ بڑا مانگو۔‘‘ انہوں نے چھیڑا ۔
پھوپھو آسمان سے مراد یہ دور تک پھیلا ہوا نیلا سفید سایہ نہیں ہے ۔آسمان سے مراد مجھے بلند معیاراور وسیع ہدف چاہیے۔ایک ایسا میدان جس میں میرا exposure منفرد اور مختلف لوگوں کے سامنے ہوسکے۔میں ان کے سامنے خود کو منوا سکوں۔سکول تک بات ٹھیک تھی۔
میں نے ایک نارمل سے سکول میں پڑھ لیا۔لیکن مجھے کسی بھی عام سے کالج میں داخلہ نہیں لینا۔مجھے سب سے معیاری اور مشہور کالج چاہیے۔جس کا تعلیمی میدان میرے جھنڈوں کو اپنے سینے پہ گاڑ سکے، جس کے پرنسپل کے دفتر میں میری ہم نصابی سرگرمیوں کی کامیابیاں شیلڈ کی صورت میں بطور سند پڑی ہو۔میں اپنے آپ کو سنوارنا چاہتی ہوں۔نکھارناچاہتی ہوں۔دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ اس اتنی بڑی دنیا میں میں بھی ہوں۔‘‘ اس کی گہری ذہین آنکھوں میں دنیا کو تسخیر کرنے کی خواہش لہروں کی طرح سرمست دکھائی دی۔
تسکین اسی سر مستی کے ٹرانس میں قید ہوگئی۔
ـ’’اللہ تمہیں کامیاب کرے ۔تمہاری ساری خواہشیں پوری ہوجائیں۔آمین۔ویسے ایک بات بتاؤ نکھر کر سنور کر کیا کرو گی؟‘‘ انہوں نے اس کی نمکین سی رنگت میں چمکتے ہوئے سرشاری کے ذائقے کو ہوا کے دوش پہ محسوس کرکے سوال پوچھا۔
’’پتہ ہے پھوپھو۔میری سوچ تھوڑی مختلف ہے۔میں سوچتی ہوں اگر ایک انسان ا بھی کسی ایک حال میں ہے اور دو سال بعد بھی وہ اسی حال میں رہتا ہے تو وہ انسان نہیں بلکہ بدبو دار پانی ہے ٹھہر جو گیا ہے۔ایسا پانی جسے پینا تو دور کی بات اس کو سونگھا بھی نہیں جا سکتا۔میں کھڑی نہیں ہونا چاہتی۔میں رکنا بھی نہیں چاہتی ۔میں چاہتی ہوں کہ آج اگر میں اس حال میں ہوں تو دو سال بعد اس سے بہتر حالت میں ہوں۔مجھے اس مقولے سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر کوئی غریب پیدا ہوا ہے تو یہ اس کی غلطی نہیں ہے لیکن اگر وہ غریب ہی مرتا ہے تو یہ ضرور اس کی غلطی ہے۔غربت کسی بھی طرح کی ہو سکتی ہے۔خواہش کے اظہار کے لیے لفظ کا نہ ہونا بھی غربت ہے ،کسی کو مشکل میں دیکھ کر بھی اس کی مدد نہ کرسکنا بھی غربت ہے۔مشکل حالات میں شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا لینا بھی سب سے بڑی غربت ہے۔میںزندگی میںکسی بھی طرح سے غریب نہیں رہنا چاہتی۔میرا اپنا ایک نام ہو،میری پہچان ہو۔میرے پاس کسی بھی دوسرے کو دینے کے لئے کچھ ہو۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی اور اس کی آواز کی کھنک کو ہوا کی ارتعاش کے چھونے سے محسوس کیا جا سکتا تھا۔
’’کوئی انسان کچھ بھی کر لے دنیا میں لیکن یہ مٹی سے بنا پتلا آخر مٹی میں مل جاتا ہے۔تم نام بناؤ یا نہ بناؤ ملنا تو مٹی میں ہی ہے پھر کیا فائدہ زندگی کی طنابیں اپنی مرضی سے کھینچنے کا؟‘‘ تسکین پھوپھو کا سوال اپنی جگہ ٹھیک تھا۔
’’پھوپھو ذرا آسمان کو غور سے دیکھیں۔‘‘وہ ان کے ساتھ چلتی ان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ــ’’یہ اتنا بڑا آسمان ہے وہ دیکھیں وہاں تک‘‘اس نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔’’اور یہ دیکھیں اس طرف بھی۔۔۔۔ کتنا بڑا ہے۔۔۔ وہ وہاں تک!‘‘ تاحد نگاہ پھیلے مغرب کی طرف پھیلے آسمان کی طرف اس نے اپنے ساتھ تسکین کی نظریں بھی دوڑائیں۔’’اس اتنے بڑے آسمان میں میرے اللہ جی کی اتنی زیادہ مخلوق رہتی ہے۔اتنے ڈھیر سارے انسان۔۔۔۔۔۔روز ہزاروں جی اٹھتے ہیں اور روز ہزاروں مر جاتے ہیں۔جو عام انسان ہوتے ہیں نہ ان کے جینے کی خبر ہوتی ہے اور نہ ان کے مرنے کی خبر ہوتی ہے۔لیکن وہ انسان جو اس دنیا میں اپنے ہونے کا ثبوت اپنی زندگی میں دے جاتے ہیں لوگ ان کی زندگی میں بھی ان کا تعاقب کرتے ہیں اور موت کے بعد بھی ان کے نقش پا ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ دیکھیں البرٹ آئن سٹائن کتنا ذہین تھا۔اس نے سائنسی ایجادات میں اپنا ایک نام پیدا کیا۔اس کی موت پر 1955ء ہی میں اس کا دماغ نکال کر محفوظ کر دیا گیا۔لیکن عام انسان نہیں تھا تو یہ راز افشاء بھی 1978 ء تک نہیں کیا گیا۔پھر اس کے دماغ پر تحقیق کر کے یہ mythپھیلائی گئی کہ اس نے اپنے دماغ کا صرف10فیصد حصہ استعمال کیاتھا۔وہ بھی تو انسان تھا اس کے پر تو نہیں لگے تھے۔یہ اگر myth ہے تو بھی مجھے بہت fasinateکرتی ہے۔میں نے اپنے دماغ کو اپنے آپ کو اتنا ضرور پالش کرنا ہے کہ جب میں مروں تو عام لوگوں کی طرح چار بندے دفن کر کے نہ آجائیں بلکہ مجھے یاد رکھا جائے،حوالہ دیا جائے کہ ہاں پاکیزہ نام کی بھی کوئی لڑکی تھی۔میرا ایک سپیسی فائیڈ حوالہ ہو کہ ہاں وہی پاکیزہ ۔۔جو۔۔۔۔جو سے آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔لیکن کچھ نہ کچھ تو ہو۔ ‘‘ تیزی سے بولتے بولتے اس کی ہتھیلیوں پہ پسینے کے قطرے چمکنے لگ گئے۔
اس کی آواز کہیں بھی نہیں لڑکھڑائی تھی۔اسے ہمیشہ سے الگ ڈگر پر چلنے کا شوق تھا۔مختلف کر دکھانے کا شوق تھا۔اور یہ شوق اس کے اندر جڑ پکڑ کراس کی ساری شخصیت کو مسحورکن بنا رہا تھا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ۔۔۔۔۔۔تسکین کو اس کا نکلتا قد دیکھ کر بڑی شدت سے احساس ہوا۔
’’اگر ہوائی قلعے بنا لیے ہوتوچلو نیچے چل کر پکوڑے بناتے ہیں۔موسم کافی ٹھنڈا ہورہا ہے۔میرا دل چاہ رہا ہے پکوڑے کھانے کا۔‘‘ تسکین پھوپھو نے اسے بڑی خاموشی سے ٹریک پر لائیں۔
ان سے بہتر کون جانتا تھا کہ جو خواہشیں سماعتوں میں محفوظ ہوجاتی ہیںاگر وہ ادھوری رہ جائیں تو دل کے اندر ناسور بن جاتی ہیں۔جسم کے ناسور کاٹ کر علیحدہ کیے جاسکتے ہیں لیکن دل کے ناسور رستے رہتے ہیں اور ہمیشہ رہتے ہیں۔پاکیزہ ہنستی ہوئی ان کے ساتھ نیچے آگئی۔
آسمان نے اس چھوٹی سی لڑکی کی بڑی بڑی باتوں کو ہوا کے دوش پہ کاتب تقدیر تک پہنچایا۔کوئی تو ہے صفحہ جس پر زندگی کا ہر آنے والا لمحہ ہمارے حال پر،ہماری خواہشوں پہ مسکرا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب جا رہے تھے اپنے خداؤں کو پوجنے
تب میں تیرے خیال کی گہرائیوں میں تھا
ــ’’ پاکیزہ حنا کا فون ہے۔‘‘ پھوپھو نے موبائل اس کی طرف بڑھایااور کمرے سے باہر چلی گئی۔ پاکیزہ نوٹس بنانے میں بے انتہا مگن تھی۔
حنا کا نام سنتے ہی ذہن میں جھماکا ہوا۔سکول میں اس کی کلاس فیلو کا نام حنا تھا لیکن اس سے اتنی دوستی تو نہ تھی کہ وہ یوں اتنے دن بعد فون کرتی۔خیر پاکیزہ نے فون پکڑ کر کان سے لگا لیا۔
’’ہیلو‘‘ اسپیکر میں غیر شناسا آواز ابھری۔
’’ اسلام و علیکم حنا کیسی ہو؟‘‘ پاکیزہ نے چار ماہ کے آئے ہوئے فاصلے کو پاٹنے کی کوشش کی۔
’’ وعلیکم اسلام میں ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو؟ مجھے بھول ہی گئی۔‘‘ اب جو آوازاسپیکر سے ابھری تھی وہ باریک ضرور تھی لیکن حنا کی نہیں تھی۔
حنا کی آواز کو باریک ہونے کی وجہ سے اکثر سکول میں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
’’ کون بات کر رہا ہے؟‘‘ پاکیزہ نے ذرا سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ میں حنا بات کر رہی ہوں۔‘‘ آگے سے اصرار کیا گیا۔
’’ محترمہ آپ جو بھی بات کر رہی ہیں۔ صاف صاف بتائیں۔ مجھے حنا کی آواز کا اچھے سے اندازہ ہے۔آپ حنا کے علاوہ کوئی بھی ہو سکتی ہیں۔ آپ خود بتائیں ورنہ میں فون رکھ دوں گی۔‘‘ پاکیزہ نے خاصے اکھڑ لہجے میں دوسری طرف موجود ڈھیٹ وجود کی کلاس لی۔
’’ نہیں نہیں فون نہ رکھنا۔ـمیں ہوں ۔میں بات کر رہا ہوں۔‘‘ اب کسی لڑکے کی آواز اسپیکر سے ابھری ۔ پاکیزہ نے گڑبڑا کر فون رکھ دیا۔موبائل پھوپھو کے کمرے میں لوٹانے آئی تو آواز سماعتوں سے ذہن کے دریچوں پہ انکشاف کرنے نکل پڑی۔۔۔ یہ تو آفتاب کی آواز تھی۔۔۔۔!
ابھی فون پھوپھو کے ہاتھ میں پکڑایا ہی تھا کہ فون پھر سے بجنے لگا۔
’’ پاکیزہ تمہاری دوست کا فون پھر سے آ رہا ہے۔‘‘ پھوپھو نے فون واپس اس کی طرف بڑھایا۔
’’ نہیں پھوپھو مجھے حنا کی آواز نہیں لگ رہی۔پتہ نہیں کس کا فون ہے۔‘‘ حنا کی آواز نہیں لگ رہی لیکن آفتاب کی آواز لگ رہی ہے پتہ نہیں یہ اعتراف وہ اپنے منہ سے کیوں نہ کر سکی۔
’’ حنا ہی ہو گی۔تم نے اتنے عرصے سے اس کی آواز نہیں سنی ناں؟ اس لئے تمہیں ایسا لگ رہا ہو گا۔ یہ لو تم بات کرو ۔میں ذرا گوشت کی دکان والے سے حساب کتاب کر آئوں۔‘‘ پھوپھو اس کے ہاتھ میں زبردستی فون پکڑا کر باہر چلی گئی۔
اتنی دیر میں فون بج بج کر خاموش ہو چکا تھا۔ پاکیزہ نے سکھ کا سانس لیا۔
ایک منٹ گزرنے کی دیر تھی ۔ فون کی روشنی پاکیزہ کی آنکھوں میں چبھی اور فون پھر تھر تھرانے لگا۔ اب فون کی گھنٹی بھی سنائی دے رہی تھی ۔ پاکیزہ نے کال ریسیو کر کے فون کان سے لگا لیا۔
’’ ہیلو‘‘ پاکیزہ نے بہت واضح آواز میں کہا ۔
’’ ہیلو ۔ پاکیزہ میں آفتاب بول رہا ہوں۔ شکر ہے تم نے فون اٹھایا تمہیں پتہ ہے میں نے کتنی مشکل سے تمہارا نمبر لیا ہے۔ ‘‘ آفتاب کی آواز میںوہی آنچ تھی جو اسکی جذبے لٹاتی آنکھوں میں محسوس ہوا کرتی تھی۔
’’ کہاں سے لیا ہے میرا نمبر۔‘‘ پاکیزہ نے اس سے آرام سے سوال کیا۔
وہ کافی حد تک ریلیکس ہو گئی تھی۔ اسے یاد آ گیا تھا کہ فون سے نکل کر وہ باہر نہیں آ سکتا اور نہ ہی اسے کھینچ کر اپنی طرف نکال سکتا تھا۔
’’ تمہیں یاد ہے تم نے مجھے کال کی تھی ایک دفعہ۔ تمہارا نمبر میرے فون کے بل میں تھا ۔ لیکن پھر ہم نے گھر تبدیل کر دیا ۔ پچھلے تین ماہ سے بل ہی نہیں مل رہے تھے ۔ بل مل جاتا تو تمہارا نمبر بھی مل جاتا۔ آج دن میں ہی ردی کے کاغذوں میں دیکھا تو بل نظر آگئے ۔میں نے بڑی مشکل سے تمہارا نمبر ڈھونڈا ۔‘‘ وہ ایک سانس میں ساری داستان سنا نے لگا۔
’’ آفتاب کم از کم جھوٹ تو نہ بولو۔ فون کے بل میں وہ نمبر آتے ہیں جن کو کال کی گئی ہوتی ہے وہ نمبر نہیں آتے جن سے کال آئی ہوتی ہے۔‘‘
پاکیزہ کی آواز میں سمجھداری کی گونج تھی۔’’ اوہو۔ تم اب بھی مجھے جھوٹا سمجھتی ہو۔ تم نے کبھی میرا اعتبار نہیں کیا لیکن ٹھیک کہا۔تم ہو ہی ایسی کہ تمہارے پیچھے بھاگا جائے بے شک سراب ہو ، سایہ ہو لیکن تمہارا تعاقب مجھے احساس دلاتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔‘‘ آفتاب کے لہجے میں افسوس اور محبت نے پرانے سے انداز میں دستک دی۔
’’ نمبر کہاں سے لیا ہے میرا۔‘‘ پاکیزہ کا سوال وہیں کا وہیں تھا۔
’’ اتنی بے اعتباری بھی اچھی نہیں پاکیزہ۔ تم مجھے جانتی ہو۔ میں شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہوںاور تم ایسے ٹریٹ کر رہی ہو جیسے میں پولیس کو مطلوب دہشت گرد ہوں۔بی بی جب تم نے مجھے کال کی تھی میں نے اسی دن تمہیں رنگ بیک کی تھی اپنے پی ٹی سی ایل فون سے نمبر نکال کر تاکہ تمہیں بتا سکوں کہ میں کل سکول آئوں گا۔ اس وقت فون تمہاری پھوپھو نے اٹھایا تھا پھر میری ڈر کے مارے آواز ہی نہیں نکلی ۔ میں نے فون رکھ دیا لیکن دیکھو کتنا فائدہ ہوا میرے پاس تمہارا نمبر محفوظ رہ گیا۔‘‘ وہ بچوں کی طرح پر جوش ہونے لگا۔
’’ فون کیوں کیا ہے؟‘‘ پاکیزہ کا اگلا سوال تیار ملا۔
’’ کیا ہو گیا ہے یار پاگل تو نہیں ہو تم؟‘‘ آفتاب اچانک بول پڑا لیکن ساتھ ہی اس نے اپنی زبان دانتوں میں دے دی۔ اس کے منہ سے غلط لفظ نکل چکا تھا۔اب وہ جانتا تھا کہ پاکیزہ نے کیا کہنا ہے ۔
یہ کئی دفعہ سکول میں بھی ہو چکا تھا ۔اب بھی وہی ہونا تھا۔پاکیزہ نے وہی کیا۔
’’ خبردار جو مجھے دوبارہ یار کہا۔ تم خود ہو گے اپنے یار ۔کم از کم یہ لفظ تو استعمال نہ کرو ۔میں پاگل ہوں جو اتنی دیر سے تمہاری باتیں سن رہی ہوں ۔ دوبارہ فون نہ کرنا۔ اللہ حافظ۔‘‘ وہ فون رکھ چکی تھی۔ اس لفظ یار سے اسے شروع سے چڑ تھی۔ خاص طور پر جب وہ یہ لفظ آج کی نسل کو بلا دریغ استعمال کرتے دیکھتی تو اپنے غصے کو قابو نہ کر پاتی۔
فون اس کے ہاتھ میں ہی تھا کہ میسج کی گھنٹی بجی۔ پیغام آفتاب کی طرف سے تھا ۔
’’ میں کل شام آٹھ بجے فون کروں گا۔ موبائل اپنے پاس رکھنا۔‘‘
پاکیزہ نے ایک گہری سانس لی ۔ پیغام مٹایا اور اپنے کمرے میں آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اگر بے نقاب ہو جائے
جستجو کامیاب ہو جائے
شام کسی سہمی ہوئی چڑیا کی طرح پھڑپُھڑاتی ہوئی رات کے گھونسلے کی پر سکون آغوش میں داخل ہونے لگی۔ سرمئی آسمان اپنے گہرے رنگ پر خود ہی ماتم کدہ ہوا تو ستارے اس کو دلاسہ دینے ٹمٹمانے لگے۔ پاکیزہ نے سرسری سی نظر کمرے کی کھڑکی سے باہر ڈالی۔ بے ارادہ نظریں گھڑی پہ جا پڑی۔ آٹھ ہونے میں بیس منٹ باقی تھے۔
وہ اپنے کمرے سے اٹھی اور پھوپھو کے کمرے میں آ گئی۔ وہ کوئی دفتری کاغذات کھولے بیٹھی تھیں۔پاکیزہ انگلیاں مروڑتی پاس آئی۔تسکین نے نظریں اٹھا کر اس کی بے چینی کو جانچا۔
’’ کچھ چاہئیے پاکیزہ؟‘‘ انہیں پوچھنا پڑا۔
’’ نہیں ۔‘‘ پاکیزہ نے جواب نفی میں دیالیکن اپنے چہرے کی بے چینی نہ چھپا سکی۔
’’پیسے چاہیے تو بتاؤ۔۔میرے پاس ہیں میں دے دیتی ہوں۔‘‘پاکیزہ کو ہمیشہ پیسے مانگنے میں یوں ہی جھجک ہوتی تھی ۔تسکین نے اس کی ہچکچاہٹ دور کرنے کی کوشش کی ۔
’’نہیں پھپو پیسے نہیں چاہیے۔‘‘پاکیزہ تسکین کو کہہ کر بیڈ کے کونے میں سمٹ کر بیٹھ گئی ۔
تسکین کو اپنے اندازے کے غلط ہونے کا احساس ہوا تو سر جھٹک کر اپنے کاغذات میں منہمک ہو گئیں۔
کوئی تین منٹ گزرے ہوں گے جب پاکیزہ دوبارہ گویا ہوئی۔
’’پھپو اگر آپ موبائل استعمال نہیں کر رہی تو میں لے جاؤں؟ وہ حنا کہہ رہی تھی اس نے فون کرنا ہے۔‘‘
’’ہاں لے جاؤ‘‘ تسکین نے بیڈ کے ساتھ پڑے میز سے فون اُٹھا پاکیزہ کو دیا۔وہ ابھی تک دفتری کاغذات میں الجھی نظر آرہی تھیں۔
پاکیزہ فون لے کر کمرے سے باہر جانے لگی ۔تسکین نے اسکی پشت کو پرسوچ نظروں سے دیکھا۔
کمرے میں آتے ہی موبائل مرتعش ہوا۔پہلی گھنٹی پہ ہی کال اٹھا لی گئی ۔
’’ہیلو۔‘‘ پاکیزہ نے بہت آہستگی سے سلام کیا کہ کہیں ردِ عمل میں اونچی آواز موبائل سے باہر نہ گونج پڑے۔
’’اسلام علیکم! کیسی ہو؟‘‘ مشتاق آواز سنائی دی۔
’’وعلیکم سلام۔۔کیا مسئلہ ہے؟ کیوں فون کیا ہے؟‘‘ آہستہ آواز میں ناراضگی چھن کر نکلی۔
’’شکر ہے فون تمہارے پاس ہے ورنہ آج بھی مجھے گلے کے آخری کونے سے آواز نکالنی پڑتی۔‘‘دوسری طرف اس ناراضگی کا کوئی اثر نہ ہوا۔
’’مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟‘‘اب تنک کر پوچھا گیا۔
’’مسئلہ میرے ساتھ نہیں مگر تمہارے ساتھ ضرور ہے۔ تم ایسے کیوں ڈیل کر رہی ہو۔اجنبی تو نہیں ہوں میں۔ مجھے جانتی تو ہو تم۔‘‘وہ شکوہ کناں ہوا۔
’’تو جاننے کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے باتیں کرنے لگ جاؤں.جانتی تو میں موچی ،درزی اور دودھ والے کوبھی ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سب سے بھی بات کروں۔‘‘ پاکیزہ نے استہزائیہ انداز میں پوچھا۔
’’ میں سب کی نہیں صرف اپنی بات کر رہا ہوں۔‘‘ فوری طور پہ بات کو رد کیا گیا۔
“آفتاب میرے لیے تم میں اور باقی سب میں کوئی فرق نہیں۔تم یہ کب سمجھو گے ؟‘‘آفتاب کی حساس آواز نے ایک بار پھر پاکیزہ کی ہمدردی سمیٹی۔
“اورپاکیزہ میرے لیے اس دنیا میں تم سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں ۔ یہ بات تمہیں کب سمجھ آئے گی؟‘‘ اس کی آواز نے بے چارگی کی بیساکھیاں تھام لی۔
’’فضول باتیں مت کرو۔‘‘اسے ٹوکا گیا۔
’’یہ فضول باتیں نہیں ہیں .میں صرف اتنا چاہتا ہوں ۔تم تھوڑی دیر مجھ سے بات کر لیا کرو۔‘‘اصرار اپنی جگہ مصر رہا۔
’’میں تم سے بات نہیں کر سکتی آفتاب… انفیکٹ میں تم سے بات کرنا ہی نہیں چاہتی۔‘‘اس نے اپنے ارادوں کو واضح کیا۔
’’اچھا بات نہ کرو صرف فون اْٹھا لیا کرو۔‘‘آفتاب نے عجیب سی فرمائش کی۔
’’بات نہیں کروں گی تو فون کس لیے اْٹھاؤں؟‘‘آفتاب کے پاگل پن پہ وہ اتنے دن بعد پھر متحیر ہوئی۔
’’تم کچھ نہ کرنا.میں تمہاری موجودگی محسوس کر لوں گا۔‘‘بہت جذب سے کہا گیا۔
“تمہارا دماغ خراب ہے۔”بے رخی سے تبصرہ کیا گیا۔
’’ہاں میں پورا ہی خراب ہوں ..تم بس فون اٹھا لینا اور ریسیو کر کے فون اپنے پاس رکھ دینا۔‘‘اس نے بے ساختہ التجا کی۔
’’میں نہیں اْٹھاؤں گی فون۔‘‘دوٹوک لفظوں میں انکار کیا گیا۔
’’میں کل پھر آٹھ بجے فون کروں گا۔‘‘اس نے جیسے انکار کو ان سنا کر کے بتایا۔
’’تم غلطی کرو گے۔‘‘اس نے تنبیہہ کی۔
’’میں ساری عمر یہ غلطیاں کرنے کو تیار ہوں..جو مجھے تم سے رابطے میں رکھیں۔‘‘ وہ مدہوشی سے اگلے مقام پہ کھڑا نظر آیا۔
’’میں واقعی فون نہیں اْٹھاؤں گی..میں پھپو کو بتا دوں گی۔‘‘اس نے اب دھمکی دی۔
’’یہ تو مجھے بھی پتہ ہے تم نہیں بتاؤ گی۔‘‘وہ ہولا سا ہنسا۔
’’تم مجھے چیلنج کر رہے ہو؟‘‘انا کے بت پہ وار ہوا۔
’’نہیں نہیں..اوہو پاکیزہ تیس سیکنڈ رہتے ہیں کال اینڈ ہونے میں..اپنا بہت سا خیال رکھنا..کھانا وقت پر کھانا اور جلدی سو جانا اللہ حافظ..‘‘اس نے بے تابی سے ہدایات دیں۔
اس سے پہلے پاکیزہ جواباً اللہ حافظ کہتی فون بند ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہ اندھیرے ہی مجھے راہ دکھائیں
اب چاند ستاروں سے میرا ذکر نہ کرنا
آج تسکین آفس سے جلدی واپس آگئی تھی۔ موڈ بھی نارمل کی نسبت بہتر تھا..پاکیزہ نے پھپو کی بے شکن پیشانی کو دیکھا اور کچن میں ان کے لیے چائے بنانے چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ چائے لے کر ان کے کمرے میں آئی۔
’’شکریہ شکریہ یہ چائے نہ ہو تو دن آدھے راستے میں اٹک سا جاتا ہے ،گزرتا ہی نہیں۔‘‘تسکین نے والہانہ انداز میں چائے کا کپ تھاما۔
’’پتہ نہیں کیسے پی لیتی ہیں آپ اتنی چائے۔‘‘پاکیزہ نے پھپو کو دیکھتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا۔
’’جو نشہ کرتا ہے وہی جانتا ہے ہوش والو کو کیا خبر…‘‘چائے کے کپ کو اپنے سر سے اونچا کرتے انہوں نے مسکرا کر کہا۔
آج موڈ بہتر نہیں بہترین ہے ۔پاکیزہ کو اندازہ ہوا۔
’’پھپو مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ اس نے آخر ہمت کر ہی لی۔
’’ہاں جی کہو کیا بتانا ہے؟‘‘ وہ چائے کی چسکیاں لیتی اسی اطمینان سے بولیں جو نجانے کیسے ان کی بے شکن پیشانی پر سر نیہواڑے بیٹھا تھا۔
’’مجھے حنا کا فون نہیں آتا ،آفتاب فون کرتا ہے اور وہ دو دن سے کر رہا ہے۔‘‘بتاتے ہوئے پاکیزہ کے چہرے پر ناگواری در آئی۔
’’آفتاب نور..تمہارا کلاس فیلو..‘‘انہوں نے پوچھتے ہوئے تائید چاہی۔پاکیزہ کے سب ہی کلاس فیلوز کو وہ نام کی حد تک جانتی تھی۔آفتاب کے بارے میں بھی اتنا معلوم تھا کہ وہ پاکیزہ کا بہت پیچھا کرتا ہے اور پاکیزہ اتنا ہی چڑتی ہے۔
’’جی وہی۔۔‘‘پاکیزہ نے جیسے اعتراف گناہ کیا۔
’’اس میں بتانے والی کون سی بات ہے ؟‘‘ان کے اطمینان میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا۔
پاکیزہ کو اس جواب سے حیرت ہوئی۔وہ آنکھیں کھول کر پھپو کو دیکھنے لگی ۔
’’پڑھائی میں کیسا ہے ؟ ‘‘انہوں نے یوں پوچھا جیسے اس کا رشتہ آیا ہو۔
’’ٹھیک ہے ۔بہت اچھے نمبرز نہیں لیتا مگر پاس ہو جاتا ہے۔‘‘ اس نے صفا چٹ جواب دیا جس میں اس کی بے زاری نمایاں تھی۔
’’خاندانی پسِ منظر کیا ہے اس کا‘‘ ٹاک شو میں بیٹھے تجزیہ نگار کی طرح پرسوچ انداز میں اگلا سوال داغا گیا۔
’’امیر کبیر گھرانے سے لگتا ہے ۔تین بھائی اور ایک بہن ہے ۔سب سے چھوٹا ہے ۔تھوڑا بگڑا سا لگتا ہے ۔‘‘پاکیزہ نے اپنی زیرک رائے دی۔
“تم سے کیا چاہتا ہے؟” تیر کی طرح ایک اور سوال ہوا۔
’’سچ بتاؤں تو بکواس کرتا ہے شادی کرنی ہے جبکہ یہ عمر ایسا سوچنے کی بھی نہیں ہے جیسی باتیں وہ کرتا ہے ۔‘‘جواب سچادیا گیا۔
’’میری مانو تواس سے رابطے میں رہو‘‘ تسکین نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے ایسا مشورہ دیا جس کی امید پاکیزہ کو نہیں تھی۔
’’کیا؟‘‘ پاکیزہ اپنی حیرانی چھپا نہ سکی۔
’’ہاں! فضول کوئی بات نہ کرومگر کوئی درز نہ ہونے سے بہتر کسی روزن کا کھلا ہونا ہے۔ہزاروں لوگوں سے رابطہ تو انسان رکھتا ہی ہے۔ہو سکتا ہے کل کو یہی رابطہ تمہارے حق میں بہتر ثابت ہو جائے۔ویسے بھی آنے والی زندگی میں تمہیں بہت سے لوگ ملنے ہیں ۔تم ان پہ یقین کروگی اور وہ جانے تمہارا بھرم قائم بھی رکھ سکیں گے یا نہیں۔جبکہ بچپن کے دوست کبھی دھوکہ نہیں دیتے۔سکول کے ساتھی کبھی ہاتھ نہٰن چھوڑتے۔کیا پتہ واقعی سچا ہو..کل کو جب تم تنہا رہ جاؤ تو تنہائی تمہیں نچوڑ کرتمھارا سارا خون چوس لے گی۔ پھر بھربھری ہڈیوں کو چٹخاتی اپنا سر اپنے ہی آپ سے مارتی پھرو گی۔ آج کی دنیا بہت رنگین ہے۔ سات پردوں میں بیٹھا نہیں جاتا۔ تھوڑی سی ہوا زندہ رھنے کے لئے ضروری ہے۔ میں نہیں چاہتی تم دوسری تسکین بنو۔ فون سے نکل کر وہ تمھارے پاس آ سکتا ھے نہ تم اس کے پاس جا سکتی ہو۔ اپنی حدود کو قائم رکھ کر رابطے میں رہو، سلام دعا سے کچھ نہیں جاتا۔” وہ پاکیزہ کو اس زاویے سے دیکھنے پہ مجبور کر بیٹھی جس زاویے سے انہوںنے دنیا کو دیکھا تھا۔
دل میں اٹھے ہزار سوالوں کو دل میں لئے وہ ہی واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔ شاید دل کو جو بہانہ چائیے تھا وہ مل گیا تھا۔اب اور کوئی حرف تسلی کو نہیں چائیے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حادثہ ہوا کہ ذہانت عطا ہوئی
یہ سانحہ الگ کہ محبت نہیں ملی
’’آج تو آپ کو احساس نہیں ہے۔ کل آپ کو احساس ہو گا۔ کل آپ کو سمجھ آئے گا کہ آپ کے ساتھ ہوا کیاتھا۔اس سے کہیں ذیادہ آپ کو یہ سمجھ میں آئے گا کہ آپ کے ساتھ جو ہوا وہ تو کچھ بھی نہیں اس سے کہیں ذیادہ آپ نے خود اپنے ساتھ برا کیا ہے۔ اس وقت آپ کو اپنا یہ آج، یہ وقت، یہ لمحہ اور یہ آنسو زہر لگیں گے۔ آپ کو سمجھ آ جائے گا کہ آپ نے بنجر زمین پر اپنے موتی رول دئیے ہیں۔۔۔ زمین بھی ایسی بنجر کہ نہ موتیوں کو نگلے گی نہ ان کو اگلے گی۔ آپ کا دل چاہے گا کہ آپ واپس اپنے ماضی میں جائیں اور ان روتے لمحوں کو اپنی زندگی سے نوچ پھینکیں ۔تب آپ واپس پیچھے نہیں آسکیں گے ،ان لمحوں کو نوچ نہیں سکیں گے پھر آپ کو اپنی اس بے بسی پہ رونا آئے گا۔یوں زندگی کے آٹھ دنوں میں سے پہلے دو دن غلطی کرنے میں ،دوسرے دو دن اس غلطی پہ رونے میں اور اگلے دو دن اس رونے پہ روتے ہوئے گزر جائیں گے۔آپ ابھی کہہ رہی ہیں کہ وہ مجھے مل جاتا تو خدا کی خدائی میں بھلا کیا فرق آجاتا۔کل جب آپ کی آنکھوں سے اس نام نہاد رسوا کر دینے والی محبت کی پٹی اترے گی تو آپ خود کہیں گی۔وہ میری دعا کے د کی دھڑکنوں کو نہ سمجھ سکا۔ میری دعا کے عین سے میرے لئے ایک دھیلے کی عزت نہ تلاش کر سکا۔ اسے میری دعا کے الف سے اعتبار کی کوئی ایک ہری شاخ نہ مل سکی، اور میں اس پر اپنی دعائیں ضائع کرتی رھی۔ میں اس پر اپنی مناجات لٹاتی رہی۔ میں اس پر تہجد کی آہ و فغاں وارتی رہی۔ میں پاگل تھی۔ میں واقعی پاگل تھی۔‘‘
اس نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا۔ پندرہ سے اٹھارہ سال کی نو عمر لڑکیاں اپنے خوبصورت چہروں پر پریشانی سجائے اس کودیکھ رہی تھیں۔ کتنی تھیں جن کے چہرے پر اس ڈر کی دبیز تہہ بیٹھی تھی جیسے ان کا کوئی راز افشاں ہو گیا ہو۔ یہ بولنے والی ان ہی کی کہانی دہرا رہی تھی۔ ان سب کی وہی ایک کہانی جس میں کرداروں کے نام مختلف تھے لیکن فطرت ازل سے مقرر تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کو آئینہ دکھانے والی روسٹر روم کے پیچھے اپنے بائیں ہاتھ کو مٹھی کی شکل دے کر اپنی ذاتی بے چینی اور بے بسی پر قابو پارہی ہے۔
وہ دوبارہ گویا ہوئی۔
’’یہ کیا کہ محبت اور وفا کے نام پر آزمائشیں آپ سے لی جائیں۔ آپ کے اندر اپنی محبت زندہ کر کے ان سب رشتوں کی محبت آپ کے دل سے نکال دی جائے جو آپ سے سچ میں محبت کرتے ہیں۔ جب آپ اندھوں کی طرح اس نئی محبت کی تقلید کرنے لگیں تو یہ انہی محبتوں کے مجسموں کے سامنے آپ کو باغی بنا کر کھڑا کر دیں جن سے آپ نے محبت کے معنی سیکھے تھے۔ بھلا یہ کہاں کی محبت ہے؟ یہ کیسی محبت ہے؟ محبت تو قربانی سیکھاتی ہے۔ سر جھکانا بتاتی ہے۔ یہ کیسی محبت ہے جو پہلے آپ کو بے مول کرتی ہے پھر آپ سے ثبوت مانگتی ہے؟ آپ سے کہتی ہے کہ واقعی میری ہو تو یہ کر کے دکھاؤ۔ اور آپ اندھوں کی طرح بستر سے اٹھ کر جادوئی انگلیوں پر ناچنے تھرکنے لگ جاتی ہیں۔ یہ محبت تو نہ ہوئی، یہ تو فریب ہوا،یہ تو دھوکا ہوا۔ محبت کو کبھی بھی ثبوت کی ضرورت نہیں پڑتی، محبت آپ ثابت ہے۔” اس نے اپنے تھوک کو نگلا۔۔ لفظ محبت ، محبت کہتے اس کے حلق سے لے کر دل تک کتنے آبلے پڑتے تھے اور کیسا ناسور درد چھڑ جاتا تھا۔۔یہ صرف وہی جانتی تھی یہاں اسے ہمت نہیں ہارنی تھی۔ وہ ہمت ہارنے کے لیے کھڑی نہیں ہوئی تھی۔
’’یہ زندگی آپ کو کسی انسان نے نہیں دی جس کے لئے آپ اس زندگی کو ضائع کر دیں۔ یہ زندگی اللہ نے دی ہے۔اللہ سے ڈر نہیں لگتا آپ کو؟ اس کی دی ہوئی زندگی کسی انسان کے لئے کیسے ضائع کر سکتے ہیں آپ؟ اللہ نے اپنی عبادات اپنی محبت کے لیے ہمیں تخلیق کیا ہے لیکن ہم اپنے جیسے کاٹھ کے الوؤں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ دنیا سامنے رہ جاتی ہے اور دین کہیں پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہماری سیڑھیاں ہی عجیب ہیں، ابھی چڑھنا شروع نہیں کرتے کہ سیڑھیاں خود اتارنا شروع کر دیتی ہیں۔ پاگل لڑکی جسے تم محبت سمجھتی ہو وہ سانپ سیڑھی کا کھیل ہے۔ جیسے ہی جیتنے کا یقین ہونا ہمارے سر سے آسمان چھین لیا جاتا ہے۔ہم سر اٹھا کر اوپر دیکھتے ہیں اور پیروں کے نیچے سے زمین بھی نکال لی جاتی ہے۔ہم پھر کہاں رہ جاتے ہیں ؟ وہیں۔۔۔فضا میں معلق! لیکن فضاء میں معلق رہ کر اگر میں کہوں کہ اب میں مر جاؤں۔۔۔ تو یہ غلطی نہیں بہت بڑی غلطی ہے۔
میں محبت اور وفا کے نام پر قربانیاں دینے والی، اپنے آپ کو بدلنے والی۔۔ اتنی ارازں اتنی عام ہوں کہ بس اب مر جاؤں؟میں کیوں مروں ؟ اس مرنے کی خواہش سے نکل کر دیکھیں۔ وہ جو آپ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکالتے ہیں ان کے گریبان پکڑیں۔ دنیا کے سامنے اپنے سر کا آسمان چھیننے والے کو للکار کر کہیں کہ محبت کے مجرم تم ہو تو تم مرو۔۔ میں کیوں مروں؟؟؟ بھلا میں ہی کیوں مروں۔وہ کیوں نہ مرے جس نے میرے لئے محبت کی میم کو ماتم، ح کو حزن، ب کو بے بسی اور ت کو تہمت بنا دیا۔ یہ ماتم ہے کہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔یہ حزن ہے جو مجھے توڑتارہتاہے۔ یہ بے بسی ہے جو مجھے جینے نہیں دیتی اور مرنے بھی نہیں دیتی۔یہ تہمت ہے جو کالک کی طرح میرے ماتھے پر ایک بے وفا سے وفا نبھانے کے جرم میں تھوپ دی گئی ہے۔ میں کیوں مروں؟؟؟ وہ بے وفا ہے تو وہ مرے۔ محبت کی تعریف بدلنے والا وہ ہے تو سولی پر بھی اسی کو چڑھنا ہو گا۔ میں جو بھی ہوں اتنی ارازاں نہیں کہ ایک انسان کے لئے رول دی جاؤں۔وہ انسان جو کہ میرا محرم بھی نہیںہے۔” اس نے اپنے ہاتھ کو اسی سختی سے بھینچا تھا۔ اس کی آواز میں بالکل بھی لڑکھڑاہٹ نہیں تھی۔
آنکھوں میں کچھ پل کو نمی چمکتی مگر ساتھ ہی غصہ اس نمی کو پی لیتا۔ اس نے کمزور نہیں بننا تھا۔ اپنی نمی کو اپنی طاقت بنانا تھا۔ وہ یہی کر رہی تھی اسی لیے آج یہاں کھڑی تھی۔ اتنی زیادہ لڑکیوں کے لئے وہ آئیڈیل تھی، حالانکہ صرف وہی جانتی تھی کہ وہ ایک عام سی لڑکی ہے۔ اتنی عام کی ایک انسان کے لئے رل گئی۔ وہ انسان جو اس کا محرم بھی نہیں تھا۔ اس کی دنیا سامنے رہ گئی اور دین کہیں پیچھے۔۔ وہ لڑکی ہے نا۔۔ اسی لئے جانتی ہے کہ ہرعام سے لڑکی میں بہت خاص لڑکی چھپی ہوتی ہے اور ہر خاص لڑکی میں کوئی نہ کوئی عام سی لڑکی دبکی بیٹھی ہوتی ہے۔ آگے کھڑی دنیا کے سامنے اس نے سر اٹھا کر جینا تھا۔ اس لیے عام سی لڑکی کو اپنے اند رکہیں دبکا ہی رہنے دیا اور دنیا نے ہمیشہ اسے ایسے دیکھا جیسے کسی خاص لڑکی کو دیکھتے ہیں۔
اپنی بات مکمل کر کے جب وہ ا سٹیج سے اتری تو ان بکھری ہوئی لڑکیوں نے اس نکھری ہوئی لڑکی کے لئے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔
جس کو جتنی شدید ٹھوکر لگتی ہے وہ اتنا ہی ذیادہ نکھرتا ہے!
ہال کے دروازے پر پہنچتے ہی اس کی آنکھ سے نمکین قطرہ نکلا جسے اس نے سب کی نظروں سے بچا کرفورا شہادت کی انگلی سے فضا میں اچھال دیا۔ الٹے ہاتھوں سے بالوں میں ٹکے چشمے کو آنکھوں پہ لگایا۔ حسین مسکراہٹ کے ساتھ وہ دنیا کو ایسی ہی نظر آ رہی تھی جیسا وہ دکھانا چاہتی تھی۔ ایک بہت خوش قسمت۔۔۔ ایک بہت خاص لڑکی۔۔۔!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...