میں نیل کرائیاں نیلکاں میرا تن من نیلوں نیل
مینوں ہجر دی سولی چاڑھیا میری اک نہ سنی دلیل
کمرے کی مدہم روشنی میں وہ لڑکی اپنی ذات سے بے گانی ہو کر ناچ رہی تھی۔نجانے یہ کیسا ناچ تھا جس کے ہر ردھم سے خود اذیتی جھانک رہی تھی۔موسیقی کی چیرتی ہوئی آواز کمرے کی سماعت پہ گراں گزر رہی تھی۔موسیقی کے دیواروں سے کلام کی طرح جیسے تان اور سروں کو سرور مل رہا تھا اسی طرح ایک در د اس کے اندر بھی موجود تھا جسے وہ ہر صورت باہر لانا چاہتی تھی۔اندھیرے کو روشنی کی ایک رمق چائیے تھی لیکن یہ رمق ڈھونڈنے کا نجانے کون سا راستہ تھا۔اس کے پاؤں فرش پہ یوں تھرک رہے تھے جیسے وہ پانی پہ چل رہی ہو۔
اسی جے رل کے بیندے نظارا عشق دا لیندے
وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ایک دوسرے میں پیوست کر کے سینے کے قریب لے آئی۔کسی کھوئی ہوئی شے کو اپنے پاس واپس لانے کی ناکام سے کوشش پہ اس کے دماغ کا ایک کونا اس کی بے بسی پہ ہنس رہا تھا۔
تو میرا ساتھ نبھاندو گلے نہ دل وچ رہندے
کھلے بال گلے میں جھول رہے تھے۔یہاں وہاں سر کو گھماتے ہوئے اس نے آئینے میں اپنی خالی آنکھوں کو دیکھا۔بالوں کی کئی لٹیں اس کے لبوں سے لپٹ رہی تھیں لیکن اس کو غیر متوقع طور پہ کوئی الجھن نہ محسوس ہوئی۔اس کی وحشت کو مغنیہ کی آواز ہوا دے رہی تھی۔اور وہ اپنی جان کو اذیت دے کر ماضی کو بھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
تو ہتھی آپ اجاڑے۔۔۔
اس نے سنگھار میز پہ پڑی پرفیوم کی شیشیاں نیچے گرا دیں۔وہ ٹوٹ چکی تھیں بالکل اس کے دل کی طرح چور چور ہو گئی تھیں۔وہ انہی کے پاس بیٹھ گئی۔
دو دل ہسدے وسدے۔۔۔
ٹوٹے ہوئے کانچ کے ٹکڑوں پہ اس نے اپنے دونوں ہاتھ زور سے رکھے۔لبوں سے درد کو برداشت کرنے پہ کوئی آہ نہ نکلی۔اس کی بند آنکھوں کے پپوٹوں پہ اتنا سکون تھا جیسے وہ مرگ الموت میں مبتلا ہواور ابھی بڑی ہی مشکل اسے سجدہ کرنے کی جازت ملی۔تیمم کرنے کے لئے اس کے پاس مٹی کی جگہ کانچ ہو۔
او کیہڑی سوکن میری۔۔۔
اس کے ہاتھوں سے خون رس رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔اگر آنکھیں بھی خون بہا سکتی تو کم از کم اس وقت اس کی آنکھیں تو ضرور ہی بہاتی۔
تو او دا ناں تے دس دے۔۔۔
اس نے اپنے دونوں ہاتھ اب اپنے چہرے پہ پھیرے ۔چہرہ بھی خون آلود ہو چکا تھا۔
میں تیری کملی ہوئی۔۔۔۔
وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔اس کے ہاتھ کندھوں پہ جارہے تھے اور پھر ہوا میں دور تک جارہے تھے۔جیسے وہ خود سے کچھ جھٹکنا چاہتی ہو۔
وے تینوں خبر نہ کوئی۔۔۔
اب اس کا رقص فرش کی جگہ کانچ کے ٹکڑوں پہ تھا۔رستے ہوئے پیروں سے اسے رتی برابر بھی تکلیف نہیں پہنچ رہی تھی۔میٹھا میٹھا سا چین تھا جو اس کے اندر اتر رہا تھا۔وہ جھومتی رہی اور جھومتے ہی جھومتے میز پہ پڑے موبائل کے پاس آن رکی۔ایک لمحے میں اسے اپنی مٹھی میں دبوچا اور دوسرے لمحے دیوار پہ دے مارا۔موبا ئل سے نکلتی آواز کی لہریں معدوم ہوگئی تھی۔اب کمرے میں خاموشی تھی۔چند ہی ثانیے میں خاموشی بھی نہ رہی۔اس کی سسکیاں گونجنے لگی۔وہ سر گھٹنوں میں دئیے بآواز بلند خود کلامی کر رہی تھی۔
ـ’’لوگ تکلیف تکلیف کرتے ہیں ۔تکلیف یہ نہیں ہوتی کہ آپ یک طرفہ محبت کریں اور دوسرے کے دل میں آپ کے لئے محبت نہ جاگے۔تکلیف یہ بھی نہیں ہوتی کہ آپ کسی کو پسند کریں ،ہمت اکھٹی کریں ،اس سے اظہار کردیں اور وہ آپ کو ٹھکرا دے۔تکلیف تو یہ ہوتی ہے کہ آپ محبت اور اس کے وجود سے بے خبر اپنی زندگی کو اپنے طریقے اور اپنے اصولوں سے گزار رہے ہوں اور کوئی اچانک سے آپ کی زندگی میں آجائے۔آپ اسے روکنے کی کوشش کریں لیکن وہ آپ کی زندگی میں گھستا ہی چلا جائے۔آپ کے ہاتھ کو اتنی نرمی اور اتنی محبت سے تھام لے کہ آپ اس سے اپنا ہاتھ چھڑا ہی نہ سکیں۔آپ کو خوابوں کے راستے پہ لے کر چلے،آپ کے راستے میں کہکشاں بٹھائے،آپ پہ اپنی جان لٹائے،پھر جب آپ کو اس کی عادت ہوجائے،آپ کے دل کی بنجر زمین پہ محبت کی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔آپ کو اس کی ضرورت محسوس ہونے لگے،آپ کو اس کی عادت پڑ جائے تو وہ شخص منہ موڑلے۔اس شخص کے منہ موڑتے ہی وہ کونپلیں یکدم سے درخت بن جائیں اور آپ کی ساری ذات پہ حاوی ہو جائیں ۔پھر وہ درخت آکٹوپس بن جائے اور آپ کی ہڈیوں کو دبوچنا شروع کر دے۔آپ اس شخص کی طرف دیکھیں اور وہ آپ کے منہ پر تھوک دے۔۔۔۔
یہ ہوتی ہے تکلیف!
یہ ہوتی ہے اذیت!
اسے کہتے ہیں ٹھکرانا!
اسے کہتے ہیں مرنا!‘‘
اس نے اپنا سر اٹھایا تھا ۔آنسوؤں کی لکیریں چہرے پہ نقش تھیں۔اس نے اپنے ہاتھ پھر کانچ پہ رکھے اور دبانے لگی۔خود کلامی جاری تھی۔
’’کانچ کیا تکلیف دیتا ہے ؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔انسان کیا تکلیف دیتا ہے؟ وہی تو تکلیف دیتا ہے۔۔۔۔سب کچھ چھین لیتا ہے آنکھ سے خواب ،سانس سے امید اور اذیت سے اس کے ہونے کا احساس بھی۔اللہ جی آپ سے ٹھیک پوچھا تھا فرشتوں نے کہ کیوں بنا رہے ہیں انسان کو۔اس نے واقعی فساد ہی کرنا تھا۔یہ فساد ہی کر رہا ہے۔‘‘
اس نے نیچے فرش سے اپنا دوپٹہ اٹھایا ۔سر کے گرد لپیٹا۔کونے میں بچھی جائے نماز پہ جا بیٹھی۔اس کے راز و نیاز شروع ہوگئے۔
’’اللہ جی آپ کے لئے کیا ناممکن ہے ؟ کچھ بھی تو نہیں۔پھر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔آپ کی ساری خدائی سے مجھے ایک وہ شخص کیوں نہیں مل سکتا۔میں نے اتنی دعائیں مانگی ہیں۔میں نے اتنے وظیفے کئے ہیں کہ مجھے لگتا ہے میری انگلیوں کے پپوٹے بھی گِھس گئے ہیں۔تیری اتنی ثناء بیان کرنے کے بعد بھی مجھے وہ کیوں نہیں مل سکتا۔ایک مشرک صنم صنم کرتا رہے اس کے منہ سے غلطی سے احد نکل جائے تو اس کو تو فورا جواب دیتا ہے اور ایک میں ہوں اللہ اللہ کر رہی ہوں۔تجھے میرے اس مانگنے سے کیوں کوئی سروکار نہیں ہے۔اگر وہ شخص میرے حق میں بہتر نہیں ہے اچھا نہیں تو یا اللہ تو توخالقِ کائنات ہے ناں ؟ ہر شے تیرے ایک کن کی محتاج ہے۔تو اسی کو میرے حق میں بہترین بنا کر مجھے عطا کر دے۔اللہ جی کیا میرے نو سال ضائع چلے گئے ہیں؟ میں اسے ایک سمجھ کر،واحد جان کر اپنی زندگی کا مرکز مان کر اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتی رہی ہوں۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے احساس نہ ہو۔اگر اس کا احساس مر بھی گیا ہے تو اللہ جی تو تو حی القیوم ہے ناں ؟اس کا احساس زندہ کر دے۔اللہ جی آپ تو مردوں کو زندہ کر سکتے ہیں اس کے دل میں میری محبت کو یوں زندہ کر دیں کہ وہ سر کے بل چلتا میرے پاس آئے۔کچھ اور نہیں تو بس وہ مجھے اپنا لے۔مجھے خود سے کاٹ کر نہ پھینکے۔مجھے اپنے جوتوں کی جگہ پہ رکھ لے لیکن مجھے خود سے دور نہ کرے۔اللہ جی میرے پاس تو مانگنے کے لئے دعا میں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔اللہ جی میں کیا مانگوں گی ؟ ‘‘
وہ مسلسل رو رہی تھی۔’’اللہ جی مجھے تکلیف ہورہی ہے‘‘وہ اونچی آواز میں پکار رہی تھی،خود اذیتی کا درد اس کی آواز میں شامل تھا۔’’اللہ جی اس سے دور ہونے کا سوچ کر مجھے تکلیف ہورہی ہے۔مجھے لگ رہا ہے کہ میرا جسم کسی گاڑی کے نیچے کچلا جارہا ہے اور اس گاڑی کے ہر پہیے پہ ہزاروں نوکیلے کیل ہیں۔وہ سب میری بوٹیوں میں گھستے چلے جارہے ہیں۔اللہ جی مجھے اس سے دور نہ کر۔اللہ جی مجھے یہ تکلیف نہ دکھا۔‘‘
وہ سجدے میں گر گئی۔’’اللہ جی آپ تو اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے زیادہ چاہتے ہیں ۔ میں بھی آپ کی بندی ہوں ۔آپ کو مجھ پہ رحم کیوں نہیں آرہا؟ آپ جانتے ہیں میرے آنسوؤں میں کھوٹ نہیں ہے ۔میرے جذبے پاکیزہ ہیں ۔میں نے کبھی اس کا یا کسی بھی اور کا برا نہیں چاہا ۔مجھے اس تکلیف سے نکال دیں ۔مجھے اس ڈر سے نکال لیں کہ وہ مجھ سے چھین لیا جائے گا۔ اللہ جی وہی تو میرا جینے کا مقصد ہے ۔میں تو اس کی پسند کے رنگوں کے علاوہ رنگ نہیں پہنتی۔‘‘اس نے اپنا سر سجدے سے اٹھایا۔آنسوؤں سے تر چہرہ وحشت زدہ لگ رہا تھا ۔کچھ چھن جانے کے خوف سے اس کی آنکھیں خالی سی لگ رہی تھیں ۔اس نے اپنی گردن بائیں طرف موڑی ۔دیوار کے ساتھ پڑے قد آدم شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا ۔ایک اور آنسو اس کی آنکھ سے بہہ نکلا ۔’’اللہ جی میں نے خوبصورتی بھی اسی کے لیے تجھے سے مانگی کہ میں اس کو خوبصورت لگوں ۔میں اس کو اچھی لگوں۔میں نے ایک ایک قدم ناپ تول کر اٹھایا ۔مجھے وہ صرف اس دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی چاہیے ۔میری انگلیوں کی پوروں میں ہے وہ شخص ۔‘‘وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں اپنی آنکھوں کے سامنے کیے زاروقطار روئے چلی جا رہی تھی ۔
’’میں اسے دیکھے بغیر تصویر کر سکتی ہوں ، مجھے اس کی پلکوں کی لمبائی معلوم ہے ،اس کے لبوں کا کٹاو مجھے ازبر ہے ،میں اس کی کشادہ پیشانی پر پڑنے والے بل گنے بغیر بتا سکتی ہوں ۔ مجھے تو اس کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا ۔مجھے نو سال کے لیے وہ دے کر کیسے مجھ سے تو وہ لے سکتا ہے اللہ جی ابھی تو وہ میرے ہاتھ میں تھا،ابھی کل تک وہ میرے ساتھ تھا۔وہ میراسب کچھ ہے ۔ وہ میرا اس دنیا میں جینے کے لیے سہارا ہے ۔ وہ میری آرزو ہے ‘ وہ میری پہلی محبت ہے ۔ پہلی محبت کے حوالے سے آزمائش نہ ڈال۔مجھے وہ دے دے۔میں وہ سب کروں گی جو تو چاہتا ہے۔اللہ جی میں نے آج تک کوئی چیز اتنی شدت سے نہیں مانگی ‘کسی بھی چیز پہ آ کہ میں اٹک نہیں گئی ‘لیکن اس شخص کو میں مسلسل مانگ رہی ہوں’ اللہ جی وہ شخص میری آنکھوں میں آن بیٹھاہے ‘ میں اس کے سوا کچھ بھی دیکھ نہیں سکتی ۔اللہ جی وہ میرے ہاتھوں میں ہے ،میں اس کے علاوہ کسی کو چھو نہیں سکتی ۔ اللہ جی وہ میرے قدموں میں ہے ،میں کسی اور راستے پر جا ہی نہیں سکتی ۔ اللہ جی وہ میری آواز میں ہے، اس کے علاوہ میں کسی اور کے سامنے بیان نہیں ہو سکتی ۔‘‘
وہ مسلسل رو رہی تھی۔َ اس نے اپنے ہاتھ زمین پر گرا دئیے تھے اور ہاتھوں پر اپنا سر گرا کر اسی شدت سے رونا جاری رکھا ہوا تھا ۔اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی ۔ ہچکی باندھ چکی تھی، وہ مسلسل ہچکیوں میں اللہ جی اللہ جی کی گردان کیے جا رہی تھی۔
کمرے کے درودیوار دیر تک سنتے رہے کہ وہ اللہ سے سوال پوچھتی رہی اور یقین دہانیاں لیتی رہی کہ اللہ جی وہ مجھے نہیں چھوڑ سکتا ناں ؟ اللہ جی وہ میرا ہے ناں؟ اللہ جی وہ پہلے جیسا ہو جائے گا ناں ؟ اللہ جی اس معاملے میں آپ مجھ پر آزمائش نہیں ڈالیں گے ناں؟
کمرے کی کھڑکی سے چاند نے اس لڑکی کو دیکھا ۔وہ پچھلے کئی سالوں سے اس کے ہونے پہ بھی انہی مناجات میں کھوئی ہوئی تھی اور آج اسے کھونے کے بعد بھی دعائیں ہی مانگ رہی تھی ۔ ہوا کی رتھ پر کمرے میں جائے نماز پر جذب ہوئے آنسو فضاؤں میں شامل ہو گئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے کن من کن من بارش شروع ہو گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں تھا زور اس کی ستم نوازیوں کا مگر
مجھے بھی حوصلے میرے خدا سے ملے
کالے سیاہ بالوں کی پونی ٹیل بنائے وہ تیز تیز چلتی جارہی تھی۔ پیچھے آتا لڑکا اس کی سبک رفتاری کا ہمنوا بننے کی ناکام کوشش کر تا ہلکان ہوا ۔
” پاکیزہ پاکیزہ میری بات تو سنو ‘‘وہ اسے یوں پکار رہا تھا کہ آواز حلق سے نہیں دل سے نکلتی محسوس ہوئی۔
” بولو اب کیا تکلیف ہے؟ ” اس نے رکے بغیر مڑے بغیر آفتاب نور کو جواب دیا ۔
’’ میں تمہارے حوالے سے واقعی سریس ہو ” وہ یقین دہانی کروا نے لگا۔
“عمر دیکھی ہے اپنی اور میری ‘ یہی باتیں تم ذیادہ نہیں بس دو سال بعد سوچنا اور تم خود ہنسو گے۔ ‘‘ پاکیزہ ابھی بھی نہیں مڑی ۔ اس کی فولڈ آستین سے جھانکتی سانولی سلونی نازک کلائیاں سورج کی چمک میں پر کشش معلوم ہو رہی تھیں۔
” تم مجھے آزما لو۔ دو سال چھوڑ و،چار سال آزما لو ۔ میں تمہیں ہمیشہ تمہارے پیچھے ہی ملوں گا ۔میں ہمیشہ تمہیں تمہارے ساتھ ہی ملوں گا۔میرا تمہارا ساتھ آج کا تو ہے نہیں ہم نرسری سے ساتھ پڑھ رہے ہیں۔تمہیں مجھ پہ یقین کیوں نہیں آجاتا ۔‘‘آفتاب کے لہجے میں اصرار کی لو ٹمٹمائی۔
ایک لمحے کو پاکیزہ کا دل بھی جذبات کی شدت محسوس کرنے کی خاطر بے تاب ہوا۔ذہن کے نہاں خانوں پہ اچانک سے بچپن کی بنیادوں نے دستک دی۔وہ پھسلتے پھسلتے سنبھلی۔آفتاب نور نے اسی کمزور لمحے میں اپنے قدم پاکیزہ کے قدموں کے ساتھ ملا ہی لیے ۔پاکیزہ کی منزل آ چکی تھی ۔سانولی سی لڑکی چھلاوے کی طرح تیزی سے چلتی ہوئی اس کے پہلو سے اپنا آپ بچا کر نکل گئی۔
’’سنو ناں؟‘‘ وہ پھر گویا ہوا۔
’’سننے کے لئے رکھا ہی کیا ہے۔‘‘وہ تیز قدم اٹھا تے ہوئے ہوئے اونچی آواز میں بولی۔
’’ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں۔‘‘کتنی ان کہی باتوں نے اس کے اندر سر اٹھایا اور وہ گہرے کالے بالوں کی پونی ٹیل بنائے لڑکی کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ تم کچھ کہو بھی تو فرق نہیں پڑتا۔‘‘جواب بالکل صاف اور سپاٹ ملا۔
’’فرق کیوں نہیں پڑتا۔میں اپنے منہ سے اعتراف کر کر تھک چکا ہوں ۔اور تم کہتی ہو کہ فرق ہی نہیں پڑتا؟ میں کہہ رہا ہوں میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘آفتاب اس کے کھرے جواب سے بے قرار ہوا۔
وہ سکول کی گھنٹی کے قریب تھی ۔دروازے کے پیچھے پڑے ہتھوڑے کو دھان پان سی لڑکی نے اٹھا کر زور سے گھنٹی پر دے مارا ۔ٹن کی بازگشت سے پورا سکول لرز اٹھا ۔
” میں تمہارا بہت خیال رکھوں گا۔ہر اتوار کو کپڑے میں دھوؤں گا۔ جو تم چاہو گی ہمیشہ وہی ہو گا۔میں ایسے کپڑے لوں گا جن کو استری کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔تم ایک دفعہ مان جاؤ میں باقی ساری دنیا کو منا لوں گا۔صبح نوکری پہ جاؤ ں گاِ ،واپس آکر برتن بھی دھو دوں گا۔تمہاری پیاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دوں گا۔تم لیٹے لیٹے تھک جاؤ گی تو تمہارے پاؤں بھی دباؤں گا۔پلیز پاکیزہ مجھے سیریس لو ۔میں واقعی تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ آفتاب کی بڑبڑاہٹ مسلسل جاری تھی۔وہ ایک ذہین لڑکی کو لالچ دے رہا تھا،
پاکیزہ کو ہنسی آ گئی ۔ اس نے مڑ کر آفتاب کو دیکھا ۔
” تم اگر میرے ساتھ کلاس میں میرے ساتھ داخل ہوئے اور سب کی سوالیہ نظریں ہم پر اٹھی تو میں تمہارا خون پی جاؤں گی ۔‘‘بے ساختہ مسکراتے لبوں کے ساتھ آنکھوں میں بلا کی سختی امڈآئی۔اب آفتاب کو وہیں رکے رہنا تھا اور پاکیزہ کو اکیلے ہی کلاس ہشتم میں داخل ہونا تھا۔
فلک اپنی تمازت کے سندیسے زمین پہ بھیجتا اس پریت کے انوکھے ڈھنگ دیکھتے حیرت ذدہ ہوا۔
ٓآٹھویں جماعت میں پڑھتے یہ بچے دنیا کی سرد و گرم سے انجان اپنے اپنے دائرے میں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔دونوں انجام نہیں جانتے تھے۔
ایک تعلق کو تڑپ رہا تھا اور دوسری لاتعلقی چاہتی تھی۔
ایک کو مثبت جواب چائیے تھا اور دوسری سوال سننے کی خواہش بھی نہیں رکھتی تھی۔
ایک کے اندر احساسِ محرومی سر کھولے بیٹھی تھی اور دوسری کو احساسِ محرومی کا شکار ہونے سے ڈر لگتا تھا۔
وہ دونوں بھاگ رہے تھے اور جس چیز سے بھاگ رہے تھے ۔۔۔وہی ان کے سامنے آنے والی تھی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ہر لفظ کتابوں میں تیرا عکس لئے ہے
اک پھول سا چہرہ مجھے سونے نہیں دیتا
پاکیزہ اپنے نام کے جیسی ہی تھی ‘صاف شفاف سی، اجلی سوچ والی ،مستحکم سی ،ذہین اور بلا کی پر اعتماد ۔۔۔اس کی سانولی رنگت میں نمک سی کشش تھی ۔دیکھنے والے ایک دفعہ اس کے دائرے میں داخل ہو جاتے تو اس کی چمکتی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس ہلکے ترش سے ذائقے کو چکھ لینا چاہتے لیکن وہ حسین نہیں تھی کہ کوئی اسے دیکھ کر اس کا ہو جائے۔وہ ذہین تھی،فطین تھی،خوش اخلاق تھی اور خوش گفتار بھی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بس نمک تھی ،نمک جیسی تھی۔اس کا ہونے کے لئے اسے پسند کرنے کے لئے ذائقے کی بہترین حس کا ہونا بھی ضروری تھا۔ ویسے بھی کون تھا ایسا جو اس کوچکھنے کی جسارت کر سکے؟یہاں توکوئی ایسا بھی نہیں تھا جو سکون سے اس کے نمکین روپ سے اپنی آنکھیں سینک سکے۔وہ فورا اپنے اوپر پڑنے والی نظروں کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی ۔اور مقابل کو پھر ایسا جواب دیتی تھی کہ دوبارہ وہ سوال اٹھنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ۔
وہ ذہین تھی اور خوش اخلاق بھی لیکن اس کی سب سے بڑی طاقت اس کا تنہا ہونا تھا۔وہ اکیلی تھی ‘ بہت شروع سے اکیلی ۔۔۔ اس نے اپنی ذات کے اندر اپنا سارا جہاں بسا رکھا تھا _ اسے کسی دوسرے کی ضرورت نہ پڑتی۔اکیلے رہتے رہتے اسے چودہ سال کی عمر میں ہی تنہا رہنا آ گیا ۔گھر میں ایک ہی پھوپھو تھی اور پوری دنیا میں ان کے علاوہ اور کوئی بھی رشتے دار نہ تھا ۔والدین کی وفات کے بعد اس نے ایک پھوپھو کا ہی چہرہ دیکھا تھا ۔ ایک مسکین سا تنہا سا چہرہ جو سامنے کھل کر نہیں آتا تھا اور صاف چھپتا بھی نہیں تھا ۔اس نے سوچ رکھا تھا وہ کچھ بھی بن جائے گی لیکن اپنے چہرے پہ ا س چہرے کے رنگ نہیں چڑھنے دے گی۔حقیقیت میں تو وہ خود بھی اس چہرے کے اصل رنگوں سے واقف نہیں تھی۔اسی چھپن چھپائی میں یہ دونوں ساتھ رہتے ہوئے بھی اکیلی اور اکیلے رہتے ہوئے بھی ساتھ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری کج ادائیاں کوئی اور سہہ کر دکھائے تو مانو
یہ جو ہم میں تم میں نباہ ہے میرے حوصلے کا کمال ہے
” پاکیزہ بیٹا آپ اٹھو اور اپنے پیچھے کی سب rows کے سٹوڈنٹس سے سبق سن لو ۔ “سر اسد نے پاکیزہ کو اٹھایا ۔
” انمول بیٹا آپ اس طرف سے سبق سن لو ‘‘دوسری طرف کے لیے کلاس کی دوسری بہترین لڑکی کو اٹھایا گیا ۔
پاکیزہ اٹھی اور یکے بعد دیگرے اپنے ہم جماعتوں سے سبق سننے لگی ۔آگے کی نشستیں لڑکیوں اور پیچھے کی نشستیں لڑکوں کے لئے مختص تھیں۔
ابھی سبق سنتے وہ کلاس کے درمیان میںہی پہنچی کہ اسے شناسا آواز سنائی دی ۔ ” پاکیزہ ”
پاکیزہ نے آواز کے تعا قب میں مڑ کر اس کا چہرہ دیکھا ۔سفیدرنگت میں سرخیاں گھلی ہوئی دکھائی دی ۔آنکھوں کے ڈورے بھی کچھ کچھ سرخ سے لگے۔
“ہاں بولو ” اس نے رسما جواب دیا۔
” مجھ سے سبق تم سن لو ‘‘وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ پاکیزہ سے فیور مانگنے لگا۔
ایک لمحے کو پاکیزہ کا دل نرم پڑاپھر اس نے اپنا چہرہ موڑ لیا۔’’تمہاری لائن سے انمول سن رہی ہے ، اسی کو سناؤ۔‘‘
وہ چاہتی تو آفتاب سے سبق سن لیتی ۔اسے سر اسد اور انمول دونوں نے کچھ نہیں کہنا تھالیکن وہ اپنے گرد کھنچے گئے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہتی تھی ۔اس نے اس جملے کو بھی نظر انداز کردیا۔
’’ سبق تو میں تمہیں ہی سناؤں گا ورنہ نہیں سناؤں گا۔‘‘وہ سبق سنتی رہی ‘ اسکی پشت آفتاب کی طرف تھی لیکن وہ بغیر دیکھے بھی بتا سکتی تھی کہ انمول سبق سننے آفتاب کے سر پہ پہنچ گئی ہے۔
” آفتاب تم سناؤ۔‘‘انمول نے آفتاب کو پکارا۔وہ لاشعوری طور پر پیٹھ کیے کان کھولے کھڑی رہی۔
” میں نے نہیں سنانا۔‘‘ آفتاب نے دو ٹوک جواب دیا ۔
” کیوں نہیں سنانا؟؟ ” انمول نے حیرت سے پوچھا _
” نہیں مجھے نہیں سنانا ۔‘‘آفتاب نے کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیتے ہوئے کہا ۔
سزا کے لئے وہ خود کو خود ہی نامزد کر رہا تھا لہذا انمول اگلے ہم جماعت کی طرف متوجہ ہو گئی ۔پاکیزہ کو معلوم تھا کہ وہ کھڑا ہے ۔وہ جو شہر کی مہنگی ترین اکیڈمی hawksمیں پڑھتا تھا اور بات بات پہ میری اکیڈمی کا نام تو سنا ہو گا جیسا شوخا جملہ بولتا تھا۔کلاس میں کھڑا ہو تھا۔۔۔۔بمشکل اسے نظر انداز کر کے پاکیزہ اپنی سیٹ پر واپس آئی ۔کلاس میں چار پانچ لوگ کھڑے تھے جن کو سبق نہیں یاد تھا۔
آج سراسد کوان بچوں کی لا پرواہی پہ غصہ ہی آ گیا ۔انہوں نے پتلی سی چھڑی اٹھائی اور پیچھے کھڑے لڑکوں کے پاس چلے گئے۔اوپرسے سخت اور اندر سے حلوہ سی لڑکی کا دل کانپا ۔اس کے تصور میں بڑی بڑی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے آگئے۔اس نے پیچھے مڑ کر پھر بھی نہ دیکھا۔ چھڑی مارنے کی آواز آ رہی تھی۔ہر لڑکے کو تین یا چار چھڑیاں پڑی تھیں۔پاکیزہ نے آواز سے ہی اندازہ لگایا ۔
’’کبھی پڑھ کر نہیں آتے ،کبھی سناتے نہیں ہیں۔‘‘ انمول نے تبصرہ کیا۔وہ بھی جانتی تھی کہ آفتاب نے جان بوجھ کر سبق نہیں سنایا۔
پاکیزہ نے کوئی جواب نہیںدیا۔ ساتھ ہی تفریح کی گھنٹی بجی۔
پاکیزہ لنچ لینے کلاس سے باہر نکل آئی نجانے کیوں اس نے ایک کی جگہ دو جوس لئے۔ کلاس کے دروازے کے ہینڈل کو تھامے اس نے اسی سوال کو خود سے پوچھا تو اسے جواب مل گیا۔وہ آفتاب سے معافی مانگنے والی تھی۔ کلاس کے اندر دا خل ہوئی تو وہ اسے نظر نہ آیا۔اس کی نشست پہ نظر خود ہی بھٹک گئی لیکن اس کا تو بستہ بھی موجود نہیں تھا ۔وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نہ کر سکے
اب کے تجھے سپردِخدا بھی نہ کر سکے
صبح کے پرندے رزق کی تلاش میں چہچہاتے اڑتے فلک کو حسین بناتے نظر آئے۔ان کے نغموں سے کانوں میں رس سا گھلنے لگا۔ کلاس کے عقب میں لگی کھڑکیاں مسلسل کھل رہی تھیں اور بند ہو رہی تھیں۔ ان کے شور نے ایک بے سروپا ہنگامہ برپا کیا ہوا تھا ۔وہ آسانی سے ان دو مختلف آوازوں کے درمیان کے فرق کو اپنے مزاج پہ اثر انداز ہوتا محسوس کرتی رہی۔ ابھی تک کوئی اور ہم جماعت آیا بھی نہیں تھا۔سکول لگنے میں پندرہ منٹ رہتے تھے۔ پاکیزہ جو کہ ہشتم جماعت میں ہونے کے باوجود ہیڈ گرل تھی پہلے ہی آچکی تھی۔اس کے آنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ہیڈ گرل تھی۔وجہ وہ معافی تھی جسے مانگنے کا ارادہ وہ باندھ چکی تھی لیکن موقع مکھن لگے بال کی طرح ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر کھڑکیوں کے پٹ بند کر دیئے ۔
وہ لاشعوری طور پر کبھی کلاس کی دیوار پہ سجی گھڑی کو دیکھتی اور کبھی کوریڈورمیں آویزاں گھڑیال پر نظریں جا ٹہر تیں۔ آج اسے انتظار تھا۔سو ہواؤں نے بھی مدہم رفتار تھام لیا اور وقت بھی ہلکے ہلکے پانیوں پہ بہتا چلا گیا۔کتنا ہی آہستہ کیوں نہ بہتا اس کو آخر بیت جانا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے کلاس کھچا کھچ بھر گئی۔کوریڈور میں بھی مختلف قدموں کی دھمک ابھرتی اور معدوم ہوتی رہی۔سب آگئے بس ایک وہ ہی نہیں آیا تھا۔ پاکیزہ نے سارا دن اپنے جذبات پہ قابو پائے رکھا۔ آخری پیریڈ میں بطور خاص کسی ٹیچر نے آفتاب کے دوست حمزہ سے آفتاب کے متعلق پوچھا تو اس کے کان کھڑے ہو گئے” سر اس کو بخار ہے۔ اسی لیے وہ کل بھی ہاف لیو لے کر گیا تھا۔ ”
پاکیزہ دل ہی دل میں خود کو ملامت کرنے لگی۔ ’’وہ تو ہے ہی بے وقوف،کہہ رہا تھا تو میں سن ہی لیتی سبق۔ ‘‘اس کے اندر ندامت نے سر اٹھایا تھا۔ ’’ہے تو میرا ہم جماعت ہی۔ اگر میں خود اس کو راستہ نہیں دوں گی تو وہ بھلا کیسے گزرے گا لیکن تھوڑی بہت انسانیت مجھ میں بھی ہونی چاہئے ۔انسانی ہمدردی کے تحت ہی اس کے کانپتے ہاتھ دیکھ لیتی۔سبق سن لیتی تو بخار میں بے چارے کی سینکائی تو نہ ہوتی۔‘‘
اگلے دو دن مزید وہ نہ آیا تو مجبورا پاکیزہ نے حمزہ سے آفتاب کے گھر کا نمبر لے لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان خاموش آنکھوں میں نمی ہوگی
یہی بس اک داستانِ زندگی ہوگی
چولہے پر پڑی چائے کی دیگچی میں سے بھاپ نکل کر مختلف شکلیں بدلنے لگیں۔ہلکی سی آنچ پہ مسلسل پڑی ہوئی چائے آدھی رہ چکی تھی۔پاس کھڑی بندی اپنے ہوش و حواس میں ہوتی تو شاید دیگچی کو اس دہکتے رہنے کے عذاب سے نجات دے دیتی۔ پاکیزہ اچانک سے باورچی خانے میں داخل ہوئی اور معمول کا منظر دیکھ کر چونکی۔
” پھوپھو” پاکیزہ نے پکار سے ان کو حال میں واپس لایا اور چولہا بند کر دیا۔
” تمہیں پتہ ہے پاکیزہ زندگی میں ہم کبھی کبھی اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اسی دائرے کے ہوکر رہ جاتے ہیں – ہم لاکھ سر پٹختے ہیں، آہ و بکاہ کرتے ہیں ،تڑپتے ہیں لیکن دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے – پہلے پہل ہمارے خواب بھاپ بن کر دائرے سے باہر نکلتے ہیں ،اس سمے ہمیں لگتا ہے کہ آذادی بس ملنے ہی والی ہے۔ہمارے پر نکل آئیں گے اور ہم اڑنے لگ جائیں گے لیکن جو ں جوں وقت بیتتا ہے ہماری خواہشیں اسی بھاپ کی طرح اڑ جاتی ہے،ایک دن ہماری زندگی ہمارے بے خواہش جسم سے بھی نکل جاتی ہیں لیکن دائرہ وہی رہتا ہے وہیں کا وہیں ۔ ” تسکین طبعی طور پہ اسی باورچی خانے میںموجود تھی لیکن ان کا ذہن کسی اور ماحول میں سانس لیتا محسوس ہوا۔
پینتا لیس کے ہندسے کو عبور کرکے اب اکثر ہی وہ ایسی لایعنی باتیں کرنے لگ جاتی اور پاکیزہ خاموشی سے سنتی رہتی ۔ اس کی تنہائی میں اجنبی آوازیں اکثر نعمت معلوم ہوا کرتیں۔
” خالہ دائرہ آتا کہاں سے ہے ؟” پاکیزہ نے چولہے کو بند کر کے دیگچی سے چائے کو کپ میں انڈیلتے ہوئے پوچھا ۔
” دائرہ ہمارے باہر سے ہمارے ماحول سے آتا ہے ۔ تم نے سرکس میںرنگ ماسٹر دیکھا ہے ۔لوگوں کو ہنسانے کیلئے ایک رنگ کے اندروہ جوکربنا کیسے کیسے کرتب دیکھاتا ہے ۔اس کا رنگ ،اس کا دائرہ کہاں سے آتا ہے ۔یہ لوگوں کا رویہ لوگوں کی طلب ہوتی ہے جو اسے دائرے کے اندر قید کر دیتی ہے – پھر اس سے پوچھا جائے کہ تم یہ کام کیوں کرتے ہو ؟اسی دائرے میںکیوں رہتے ہو؟ وہ کوئی سچا مجبوری کا رونا روتا ہے یا اپنی عزت رکھنے کے لئے اس دائرے میں رہنے کو اپنا جنون بتاتا ہے۔سچ تلخ ہے لیکن ہے تو یہی کہ وہ دائرے میں نہ رہے تو اس معاشرے میں جی بھی نہ سکے۔ ہمارے دائرے بھی ویسے ہی ہیں۔ہم سب اپنی اپنی زندگی کے سرکس کے رنگ ماسٹر ہیں۔ ہمارے گرد دائرے لوگوں کے ڈر سے بنتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں ہم بڑے تہذیب والے ہیں ۔ہم نے اپنی حدود خود قائم کی ہیں۔ جوذیادہ ستے ساوترے بنتے ہیں ان کے مطابق یہ دائرے وہ اللہ جی کی خوشی کے لئے اپنے گرد قائم کر لیتے ہیں۔ ” تسکین کا دھیان پاکیزہ پہ نہیں تھا اور نہ ہی چائے پہ۔اس کا دماغ کسی کو دکھائی نہ دینے والے دائروں پہ تھا۔
” کیا کوئی دائرے سے باہر نہیں آسکتا ؟” پاکیزہ بات سے بات نکال رہی تھی کہ شاید اسی طرح کوئی سرا پکڑائی دے ۔
” ہر دائرے میں کسی ایک جگہ کوئی تو کمزور جوڑ ہوتا ہے – باہر آنے والے اسی دائرے سے باہر آتے ہیں۔ جو لوگ دائرہ نہیں توڑتے دائرہ ان کو توڑ دیتا ہے لیکن ایک بات پھر بھی طے ہے دائرہ کوئی بھی توڑو دکھ تو ہوتا ہے۔کبھی لوگوں کے لئے بنے دائرے توڑتے توڑتے اپنے اندر کوئی نیا دائرہ بن جاتا ہے۔کبھی اپنے لئے کوئی دائرہ توڑتے کو اپنے اوپر کوئی نیا خول چڑھ جاتا ہے۔‘‘ تسکین شہادت کی انگلی پیالی کے کناروں پہ پھیرنے لگی۔
دروازے کی گھنٹی بجی – پاکیزہ دروازہ کھولنے باہر گئی۔اس کے جاتے ہی تسکین نے چائے کی پیالی سنک میں الٹ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک حسرت ہے انہیں منانے کی ہمیں
پر وہ اتنے اچھے کہ کبھی خفا نہیں ہوتے
’’ ہیلو … اسلام علیکم ” موبائل فون کان سے لگائے وہ ہولے ہولے کپکپا رہی تھی۔کسی لڑکے کے گھر پہلی دفعہ فون کر رہی تھی۔نجانے کون فون اٹھاتا اور اسے کیا کیا تاویلیں سنانی پڑتیں۔
” وعلیکم السلام ” نسوانی آواز نے مصروف انداز میں جواب دیا ۔
” میں پاکیزہ بات کر رہی ہوں – مجھے آفتاب سے بات کرنی ہے ۔ وہ دو تین دن سے سکول نہیں آرہا ۔اس کا پتہ کرنا تھا۔ ” پاکیزہ نے کال کرنے کا رٹا ہوا سبب ایک سانس میں بتا دیا لیکن دوسری طرف سے اسے کوئی جواب نہ ملا ۔شاید انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ آفتاب کو دو تین آوازیںدے دی گئیں – وہ کھانستا ہوا فون کے پاس آیا ۔
” ہیلو ” آفتاب کی بھیگی سی آواز اسپیکر میں ابھری۔
” ہیلو میں پاکیزہ بات کر رہی ہوں ۔ تم سکول نہیں آرہے تھے سوچا پوچھ لوں ۔‘‘وہ معافی مانگنا بھول گئی۔اس کے خیال میں کال کرنا ہی بہت بڑی بات تھی۔
’’اب تو میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تم نے واقعی مجھے فون کیا ہے ۔تم کیسی ہو ؟ ” آفتاب کی بھیگی آواز میں بشاشت جھلکنے لگی۔اس کے لئے پاکیزہ کا فون کرنا اتنا ہی اہمیت رکھتا تھا۔
” ٹھیک ہوں۔” پاکیزہ نے مروتا یک لفظی جواب دیا۔
” تم نے حمزہ سے نمبر لیا اس نے مجھے بتایا تھا لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ تم کال کروگی ۔ میرا دل خوش ہوگیا ہے ۔کاش میں تمہیں بات کرتے ہوئے دیکھ سکتا ۔ تمہارے ایکسپریشنز نوٹ کر سکتا۔‘‘” وہ چپک نے کی کوشش کرنے لگا۔پاکیزہ کو ڈر سا لگا کہ اگر اس کے گھر میں کسی نے اسے یہ سب بولتے سن لیا تو۔۔۔یہی سوچ کراس نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
” سکول آؤگے تو بات ہوگی اللہ حافظ ” آفتاب کے اللہ حافظ کہنے سے پہلے وہ فون رکھ چکی تھی۔ وہ مزید اس لڑکے کو چپکنے کی اجازت انہیں دے سکتی تھی –
یہ بھی اکیسویں صدی کا معجزہ ہی ہے کہ میڈیا کی یلغار نے چودہ سال کے بچوں کو لڑکا اور لڑکی میں فرق بتا دیا ہے ۔بچوں اور بچیوں کو لڑکا اور لڑکی بنا دیا ہے ۔ آج کل کے ہرلڑکے کو لگتا ہے کہ آنچل میرے لئے لہرا رہا ہے،لڑکی مجھے دیکھ کر دوپٹہ ٹھیک کر رہی ہے،مجھ سے بات کرنے کے لئے آہستہ چل رہی ہے،مجھ سے بات کرنے میں دلچسپی ظاہر کرنے کے لئے مجھے مسکرا مسکرا کر دیکھ رہی ہے۔ لڑکیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ہر سیٹی میرے لئے بج رہی ہے ،گلی کے کونے میں لڑکوں کا جھمگٹا میری ایک جھلک دیکھنے کے لئے کھڑا ہے، صرف مجھے ہی یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جا رہا ہے۔
دور کہیں بہت سی سیٹیاں ایک ساتھ بج رہی ہیں اور آواز قریب آتی جا رہی ہے ۔۔۔ پتہ نہیں یہ آوازیں ہمیں سنائی کیوں نہیں دیتی !
————
اس کے سبب ان سے بھی ملنا پڑا مجھے
وہ لوگ مجھ کو جن سے کوئی واسطہ نہ تھا
وہ سکول آیا تھا۔ مکمل ٹھیک نہیں تھا لیکن اس کا ایک ایک انداز بتا رہا تھا کہ وہ پاکیزہ کے لئے سکول آیا ہے ۔ پاکیزہ کتراتی پھر رہی تھی ۔ روزِ اول سے اس کی عادت رہی تھی کہ کلاس میں داخل ہو کر پاکیزہ کے بینچ کے پاس رکتا اور اسے سلام کرتا پھر آگے چلا جاتا ۔ اس سلام کا جواب پاکیزہ نے کبھی نہیں دیا لیکن وہ برابر سلامتی پہنچاتا رہا ۔
آفتاب نور خود کیا تھا ۔۔۔ اپنے نام کی طرح روشن ،چمکتا ہوا! سفید رنگت ،حسین آنکھیں ،لمبی بھنوئیں ، کھڑی ناک، متناسب لب ،کوئی ایک چیز بھی اس کے نقش و نگار میں ایسی نہیں تھی جسے صفر اعشاریہ ایک فیصد بھی تبدیلی کی ضرورت ہو ۔ظاہری طور پہ وہ مکمل تھا۔ مکمل سے کہیں ذیادہ سحر انگیز۔۔۔۔! قد کاٹھ ایسا نمایاں کہ اس کی سائے میں پناہ لینے کا دل کرتا۔ مضبوط ہاتھوں کی رگیں ابھری دکھائی دیتی اس طرح گردن پر بھی رگوں کا جال تنا ہوا نظر آتا ۔ خاص طور پر جب وہ ہنستا تویہ رگیں اور بھی نمایاں ہو جاتیں ایسے میں وہ عادتا اپنے ہاتھوں کی انگلیاں اپنے گالوں پر رکھ لیتا ۔ یوں معلوم ہوتا کہ روئے ارض پہ اگر کوئی معصوم ہے تو بس یہی ہے۔
اس عام سے سکول میں وہ یونہی پڑھ رہا تھاورنہ بہترین سے بہترین افورڈ کرسکتا تھا ۔مالی آسودگی نے اس کی شخصیت میں مقناطیسی ہیرے جڑ دئیے تھے۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ اس سکول میں رہنے کی وجہ پاکیزہ ہے ۔
اسی کے متعلق سوچتی اور سر کو مسلسل جھٹکتی وہ سٹاف روم میں جا پہنچی ۔ اس نے اپنی کلاس کے لئے رجسٹر لینا تھا۔
” بات سنو پاکیزہ۔ ” اسے بلانے والی میڈم نزہت تھی۔
” جی میم ۔” ان کا شمار سکول کی ان استانیوں میں ہوتا جن سے وہ کتراتی پھرتی کیونکہ ان کو اپنے لب و لہجے پہ قابو نہ رہتا اور اکثر کوئی نہ کوئی متنازعہ بات ان کے نام سے گردش کر رہی ہوتی۔
” آؤ بیٹھو میرے پاس ” انہوں نے اسے اشارہ کیا ۔ وہ ناچار بیٹھ گئی۔
” آفتاب ہفتہ پہلے میرے پاس آیا تھا ۔جانتی ہو کیا کہہ رہا تھا ؟ “انہوں نے جانچتی نظروں سے اس لڑکی کا جائزہ لیا ۔
” نہیں۔۔۔کیوں؟ کیا ہوا ؟ ” اس حوالے سے پاکیزہ کی کبھی کسی ٹیچر سے بات نہیں ہوئی تھی ۔ وہ ہچکچائی، بات اب کوٹھے پہ چڑھ رہی تھی ۔
” وہ کہتا ہے میں جب بھی زندگی میں شادی کروں گا ،پاکیزہ سے کروں گا۔ پھر پتہ ہے میں نے اسے آگے سے کیا کہا ۔ میں نے کہا اگر پاکیزہ نہ مل سکی تو … اس نے کہا اگر پاکیزہ نہ ملی تو میں پاکیزہ جیسی پہ اکتفا کرلوں گا – لیکن ہو بالکل ویسی ہی ” وہ طنزیہ لہجے میں بتاتے ہوئے اس کے تاثرات ازبر کرنے لگی۔ایک ثانیے کو پاکیزہ کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی پھر وہ خود کو سنبھال کر بولی۔
” میم بیوقوف سا لڑکا ہے ۔اس کو بہت شوق ہوگا ، اس عمر میں شادی کے بارے میں سوچنے کا ۔میرا ایسا کوئی پلان نہیں ہے۔ آپ جانتی ہیں میرے ایمز اور گولز ڈفرنٹ ہیں ۔‘‘ قطعی انداز میں کہتے وہ نپے تلے قدم اٹھاتی ہوئی سٹاف روم سے رجسٹر لے کر باہر نکل آئی ۔
جونہی یہ لڑکا دوستی کے دائرے میں بھی آتا محسوس ہوتا تھا کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ ضرور ہو جاتا کہ وہ اس کو repel کرنے پہ مجبور ہو جاتی ورنہ فطرتا حساس سا عمر میں دو سال بڑا لڑکا اسے کم از کم ضرر رساں تو نہ لگا کرتا۔
————
کبھی جو درد کی آتش سلگانے مجھ کو لگتی تھی
وہ اپنے سانس کی مہکتی ہوائیں مجھ کو دیتا تھا
دن پر لگا کر اڑ رہے تھے وہ ہشتم سے نہم میں آگئی تھی ۔ کب اور کیسے اسے خود بھی پتہ نہیں چلا تھا -۔گلی محلے کے پرائیویٹ سکول کی اکھڑی دیواروں پہ بہت سے نام کندے ہوئے تھے ۔اس نے خود اپنی کلاس کے تقریبا ہر ڈیسک پہ A loves Pلکھا دیکھا تھا ،وہ اگنور کر رہی تھی، اسے یہی کرنا تھا ۔وہ گھر جا کر پھوپھو کو بتا تو دیتی لیکن ساتھ کیا سمجھاتی ۔۔۔انہیں تو اب اپنی سمجھ بھی نہیں آتی تھی۔جو کچھ اسے زمانے سے مل رہا تھا وہ پی رہی تھی اور پیتے پیتے اس کے اندر کے ذائقے بھی بدل رہے تھے جس کا ادراک اسے بھی نہ ہو سکا۔
نہم کے بورڈ کے پیپرز کی تیاری زور و شور سے جاری تھی ۔ سب ہی بچے اچھی سے اچھی جگہ ٹیوشن پڑھنے جا رہے تھے ۔ وہ کسی بھی ٹیوشن کے بغیر بلا کی پراعتماد تھی لیکن ٹیچرز کا بار بار کا ڈرانا اس کے لئے وبال ِجان بن گیا ۔ آٹھویں میں بھی بورڈ کے پیپرز نہیں ہوئے تھے ورنہ وہ تسلی میں ہوتی اور ان کو ہوا نہ سمجھتی ۔ اب ہوا سمجھ کر بوکھلائی بوکھلائی سی رہنے لگی۔
” پاکیزہ آپ کس کے پاس پڑھتی ہو ؟” سر اسد نے اس سے کلاس میں پوچھا ۔
” سر خود ہی پڑھ لیتی ہوں۔ ” اس نے آرام سے جواب دیا ۔
” حیرت انگیز بات ہے ۔ادھر تو بچے اتنی مہنگی اکیڈمیز میں پڑھ کر بھی یاد کر کے نہیں آ پاتے اور آپ کو تو ماشاء اللہ بہت اچھا یاد ہوتا ہے ۔ کتنا وقت دیتی ہو پڑھائی کو؟ ” انہوں نے دلچسپی ظاہر کی۔
پاکیزہ کو ہنسی آگئی ۔اسے کبھی پڑھائی کو وقت دینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہ صرف ذہین نہیں تھی بلکہ غیرمعمولی طور پر ذہین تھی ۔سکول میں تفریح کے دوران ہی وہ اپنا سبق یاد کر لیا کرتی ۔ اپنی ہوم ورک والی کاپیاں کھول کر بینچ کے اندر رکھا کرتی ، جونہی وقت ملتا اپنا لکھنے والا کام سکول میں ہی مکمل کر لیتی ۔ ایسا بہت ہی کام ہوتا کہ وہ سکول سے گھر جا کر بیگ کھولے ۔ جس وقت اگلے دن بچے سکول میں سبق کی دہرائی کر رہے ہوتے وہ ٹیچر کے پاس کھڑی ہو کر انہیں سنا رہی ہوتی کیونکہ اسے تو اسی وقت یاد ہو جایا کرتا جب اساتذہ کلاس میں پڑھا یا کرتے۔
وہ پینٹنگ کیلئے تیار خالی صفحے کے جیسی تھی اس پہ جو رنگ بکھیرا جاتا ،وہ اسی کو منعکس کر دیتی ۔ اگلے دن پھر دھلا دھلایا صفحہ لے کر اور رنگ جذب کرنے آجاتی۔ پرانے رنگ نظر تو نہ آتے لیکن وہ معدوم بھی نہ ہوتے ۔اس پہ رنگ یونہی رہ جاتے رویوں کے رنگ،لٖفظوں کے رنگ اور لوگوں کے رنگ!
” سر ایک گھنٹہ ” مروتا کوئی جواب تو دینا تھا اس نے ذرا سوچ کر یہی جواب دیا۔
” ایک ہم ہیں دو گھنٹے اکیڈمی میں دیتے ہیں، تین گھنٹے گھر میں لگاتے ہیں پھر بھی دو صفحے یاد نہیں ہوتے ۔ایک یہ ہیں۔اللہ اس کا ذہن تھوڑا سا ہمیں بھی دے دیتا ۔‘‘ اس کی تعریف کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والا آفتاب ہی ہو سکتا تھا ۔
سر ذرا سا مسکرائے پھر پاکیزہ کے قریب آکر بولے ” بیٹا خود پڑھنا اچھی بات ہے لیکن نہم کے امتحانات کوئی مذاق نہیں ہیں – آپ ٹیوشن پڑھنے مت جاؤ ۔ کسی سے صرف رہنمائی ہی لے لو ۔ سب مضامین کے اہم سوالات ہی پوچھ لو ۔اپنی کلاس کے کسی بچے سے کسی اکیڈمی کے نوٹس پکڑ لو تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے۔ ضروری نہیں کہ ہر پراعتماد بچہ نمبر بھی اچھے لے ۔ میں نے اعتماد کی سیڑھی پہ چڑھے اکثر بچوں کو منہ کے بل گرتے ہوئے دیکھا ہے ۔”
پاکیزہ کا سانولا رنگ ایک لمحے کے لئے تاریک ہوا ۔وہ اپنے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرنا بھی بھول گئی ۔سر کے علاوہ ساری کلاس جانتی تھی کہ کچھ بھی ہوجائے وہ کسی سے نوٹس نہیں مانگے گی۔مانگنا ہی تو نہیں آتا تھا۔ ایک شرمندگی تھی جس کا سامنا وہ کبھی نہیں کرنا چاہتی تھی – ایک ہار تھی جس کی شکل وہ کبھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی ۔ایک مقدر تھا جس سے وہ آخری وقت تک لڑنا چاہتی تھی ۔
اسی مقدر نے اس کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔جب اس نے گھر جا کر اپنا بیگ کھولا تو اس میں سب سے اوپر hawks اکیڈمی کے نوٹس پڑے ہوئے ملے – اسے مانگنا نہیں پڑا تھا،وہ شرمندہ نہیں ہوئی تھی۔اس نے فقط اسکاچ ٹیپ لگا کر اور اتار کر نوٹس کے پہلے صفحے پہ لگی مہر کو مٹایا َ۔وہی مہر جو کلاس کے ہر بینچ پہ کندہ تھی۔ میٹھی سی ہنسی اس کے پنکھڑی سے لبوں سے پھسل کر آنکھوں میں آن بسی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کے دروازے پہ دستک دیتا ہے وہ
اور دروازہ کھل جانے کا انتظار بھی نہیں کرتا
” اور کچھ نہیں تو مجھ سے صرف دوستی ہی کر لو ” وہ ایک دفعہ پھر اس کے سر ہوا۔
ـ’’میں نہیں کر سکتی۔اصل میں میں کرنا ہی نہیں چاہتی ‘‘ پاکیزہ نے صاف جواب دیا۔
” کوئی وجہ بھی تو ہو انکار کی ؟ ” آفتاب نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔
” ہاں یہی سوال میرا بھی ہے کہ کوئی وجہ بھی تو ہو کہ میں تم سے دوستی کروں ۔ تم بتاؤ کیا ہے وجہ ؟ ” پاکیزہ نے اس سے ذیادہ بیباکی سے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
” وجہ تو ہے کہ تم تنہا ہو ، تمہیں دوست کی ضرورت ہے ” وہ اچانک دھیمے سے لہجے میں بولا۔
بیباک نظریں گھبرا گئیں َ وہ اپنے راز کے آشکار ہو جانے پہ شرمندہ ہوئی۔ شرمندگی میں ہی اسے غصہ آگیا – ” میں دنیا میں کسی سے بھی دوستی کرلوں گی لیکن آفتاب تم سے نہیں ، ہر رشتہ ضد سے نہیں جیتا جاسکتا ۔”
” میں ضد نہیں کر رہا، میں درخواست کر رہا ہوں۔ ” آفتاب کا لہجہ بھیگنے لگا –
” مجھے منمناتے ہوئے لڑکے ذرا اچھے نہیں لگتے۔ ” پاکیزہ نے نخوت سے اپنی ناک چڑائی جس کی چمک سے آفتاب کی آنکھیں بار بار پھسل رہی تھی ۔
وہ اس کے پاس خاموش کھڑا تھا۔ ” جاؤ اب یہاں سے میرے سر پہ کیوں کھڑے ہوگئے ہو؟ ” اسے کہہ کر وہ دھپ سے کرسی پر بیٹھی ۔
” ٹپ ” پاکیزہ کی آنکھ میں پانی کا قطرہ پڑا۔ وہ کمرے کی جگہ سکول کے گراؤنڈ میں ہوتی تو کہیں سے بھی اس قطرے کی امید کر سکتی تھی ۔ حیرت انگیز تاثرات لئے نظریں اٹھائیں تو معلوم ہوا وہ پانی کا قطرہ نہیں آنسو تھاجو آفتاب کی آنکھ سے نکل کر پاکیزہ کی پلکوں میں اٹک گیا۔
ہر شے کا ساکت ہو جانا کسے کہتے ہیں ۔۔پاکیزہ کو اسی لمحے سمجھ آیا ۔
اپنی دونوں مٹھیاں سختی سے بھینچے ، آستینوں کو موڑے ہوئے وہ یونانی حسن کا مجسمہ اس کے سر پر کھڑا اس کے لئے اس جیسی عام سی سانولی سی لڑکی کے لئے آنسو بہا رہا تھا -یہ ایسا نا قابلِ یقین منظر تھا کہ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی وہ اس پہ یقین نہیں کر پارہی تھی۔ وہ جس کے مطابق وہ خود کچھ بھی نہیں تھی، جسے تب تک کوئی نہیں دیکھتا تھا جب تک وہ بولتی نہیں تھی۔اس پہ وہ لڑکا فدا ہو گیا تھا جو حسین تھا صرف حسین تھا۔وہ سوچتی تھی بھلا سانولے رنگ پہ بھی کسی کی نظر جاتی ہے ؟ اس سانولے رنگ کی دھان پان سی لڑکی کے لئے اپنی جسامت اور صحت سے دو سال بڑا دکھائی دیتا لڑکا اپنا ضبط کھو بیٹھا تھا ۔پاکیزہ چاہتی تھی کہ کوئی آکر اسے یقین دلائے کہ یہ سچ ہے۔اس کے لئے بھی کوئی رو سکتا ہے۔رونے والا بھی کو ئی تو نہیں تھا۔۔۔وہ وہ تھا جس کی تعریف اساتذہ ہر وقت کرتے۔جس کی گہری بڑی آنکھوں سے لے کر اس کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز کو بھی سٹاف روم میں ڈسکس کیا جاتا۔
وہی پیکرِ حُسن اپنا ایک آنسو اپنے گال پہ سجائے اور دوسرا پاکیزہ کی آنکھ میں ٹپکائے نمک کو گھلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ پاکیزہ نے لب حیرت سے وا کئے رکھے ، اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی ۔ وہ مٹھیاں بھینچے بھینچے ہی مڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔
نہم کلاس میں وہ اکیلی بیٹھی رہ گئی – کلاس کے سب سٹوڈنٹ کمپیوٹر لیب میں تھے – اس کا رجسٹر کلاس میں تھا جس کو وہ لینے آئی تھی ۔ اس کے پیچھے ہمیشہ کی طرح آفتاب نور بھی آیا تھا۔ اسکے جانے کے بعد پاکیزہ کو لگ رہا تھا آج اس نے آفتاب کو پہلی بار دیکھا ہے ۔
———
سلگ رہا ہوں دھیرے دھیرے مگر کسی پہ عیاں نہیں
وہ آگ دل میں لگی ہے جس میں تپش ہے لیکن دھواں نہیں
پھر یوں ہوا کہ موسم کے بدلنے پہ اعتبار آگیا۔آفتاب کی آنکھوں میں پاکیزہ کے لئے شناسائی نے جھانکنا بند کر دیا۔وہ پہلے کی طرح بات کرنے کے بہانے نہ ڈھونڈتا۔البتہ سلام کرنے کا معمول نہ بدلا۔اگر کچھ بدلا تھا تو آفتاب کا جھکاؤ،اب وہ ہر چھوٹی بڑی بات کے لئے انمول کے پاس کھڑا نظر آتا۔انمول کے چہرے پہ آفتاب کو دیکھتے ہی ہنسی آجاتی۔پاکیزہ نے اوپر اوپر سے اس سارے منظر کو سرسری لیا لیکن اندر ہی اندر اس کے دل میں بھی اس بے توجہی نے اثر ڈالا تھا۔وہ خاموشی سے بہتے تیل کی دھار دیکھنے لگی۔
کچھ دن مزید گزرے وہ رنگ جو آفتاب کے چہرے پہ آکر ٹہرے تھے اب انمول کے چہرے پہ نقش ہو گئے تھے۔وہ اسی طرح مرجھائی تھی جیسے اس دن آنکھوں میں آنسو لئے آفتاب کی چمک ماند پڑی تھی۔انمول کو کشش کا محور بنا کر بری طرح نظر انداز کیا گیا تھا ۔اس کے رجسٹر کے آخری صفحات پہ اداس شاعری میں اضاٖٖفہ ہونے لگا کہ آفتاب تواب ا س کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔
دو ہفتے بعد کی بات ہے کہ آفتاب کومل کے ساتھ تفریح کے دوران بیڈ منٹن کھیلنے لگا۔وہ دونوں ہنستے ہوئے گراؤنڈ کی طرف جاتے۔یوں لگتا برسوں پرانی دوستی ہے۔کلاس کی بہت عام سی لڑکی آفتاب نور کے ساتھ گراؤنڈ میں بیڈ منٹن کھیلتے پورے سکول کی توجہ کا منظر بن گئی۔
کوئی اور کچھ سمجھ رہا تھا یا نہیں سمجھ رہا تھا لیکن پاکیزہ کو سب سمجھ میں آرہا تھا۔آفتاب واقعی وقت گزار رہا تھا۔پاکیزہ کے خیال پہ تصدیق کی مہر تب لگی جب مزید تین ہفتوں بعد بسمہ آفتاب کے ساتھ ہر جگہ نظر آنے لگی اور کومل بھی انمول کی صف میں شامل ہوگئی۔
آفتاب پاکیزہ کی طرف دیکھتا تو نہیں تھا لیکن اس کا ایک ایک انداز کچھ جتاتا ہوا محسوس ہوتا۔کوئی ایسا رویہ اس کے اٹھنے بیٹھنے سے جھانکتا کہ پاکیزہ اس کو دیکھ بھی نہ پاتی اور نظر انداز بھی نہ کر سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...