“اُٹھو تمھارے کپڑے آئے ہیں تیار ہوجاو ۔”
وہ بستر کے پاس بیٹھی ٹانگیں سینے پہ لاکر کسی غیر نقطے کو غور کررہی تھی جب شاپر پکڑے معید اندر آیا
اس نے ایک نظر اُٹھا کر اسے دیکھا پھر دوبارہ سوچ میں چلی گئی
“یہ تم جس کو بھی سوچ رہی ہونا اس کی سوچ سے واپس آجاو ورنہ بہت مارو گا ۔”
وہ گھورتے ہوئے بولا
“تو کیا تمھیں سوچو !۔”
وہ چڑ کر بولی وہ ایسے ایکیٹ کیوں کررہا ہے جیسے وہ اس رشتے سے خوش ہے وہ مسکرایا اور دھڑم کر کے بستر پہ لیٹ کر کہنی سے اونچا ہوکر دیکھنے لگا
“میرے علاوہ آپ کی ساری سوچے حرام ہے ۔”
“زرا بھی نہیں اچھے لگ رہے ڈائیلوگ مارتے ہوئے یہ چیز فواد کو سوٹ کرتی ہے ۔”
وہ جیسے بگڑ گیا وہ کیا فواد سے تھوڑی کم تھا بلکہ زیادہ خوبصورت تھا
“تمھیں اس چالیس سال کے لڑکے میں ایسا کیا نظر آیا جو دو بچوں کا باپ ہے ۔”
“خبردار جو اسے چالیس سال کا کہا تم جاو اپنی جولیٹ کے پاس ۔”
“کیوں تم جیسی ماسی کے ساتھ ڈیٹ نہیں مار سکتا ۔”
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچنے لگا
“معید بند کریں یہ ڈرامہ ۔”
وہ ہاتھ چھڑوانے لگی جب معید نے اسے کھینچ کر اپنے سینے پہ گرا دیا زارا بھوکلا گئی
“ہاں اب بتاوں مجھے دور سے سُنائی نہیں دیں رہا تھا ۔”
وہ ہٹی
“بہروں کو ویسے بھی سُنائی نہیں دیتا ۔”
وہ مسکرایا وہ اس کا گریز سمجھ رہا تھا لیکن اب وہ حق رکھتا تھا تو کیوں گھبڑا رہی ہے
“خیر تیار ہوجائیں سب ڈنر کے لیے ویٹ کررہے ہیں ۔”
“آپ کا دماغ تو نہیں خراب میری جان خطرے میں ہے اور آپ مجھے باہر ڈنر پر لیکر جارہے ہیں آپ سوچ بھی سکتے ہیں میرے ساتھ کیا ہوگا ۔”
وہ ایک دم رونے والی ہوگئی اور معید چُپ کر کے اسے دیکھنے لگا پھر جھک کر اس نے اپنا پہلا حق استمعال کیا
زارا ایک دم جھٹکے سے پیچھے ہوئی سانس تو جیسے لگتا تھا رُک گئی تھی
“تمھاری جان اب میری جان ہے تمھاری عزت میری عزت ہے بس پھر بات ختم چلو شاباش اُٹھ جاو ۔”
وہ مڑ گیا اور زارا بُت بن گئی
وہ باہر کار کے قریب کھڑا سیگرٹ پی رہا تھا اور ٹہر ٹہرا دینی والی سردی نے اس کو جما دیا تھا گو ابھی برف باری نہیں شروع ہوئی تھی لیکن پھر بھی ٹھنڈ ایسی تھی جس سے خون جم جائے
وہ دروازہ بند ہونے پہ مڑا تو دیکھا تو بس رُک گیا
زارا نے بالوں کو کیچر میں مقید کیا تھا وائٹ شرٹ کے نیچے بلیک پینٹ کے ساتھ بلیک ہاف سلیوز جیکٹ کی زپ کو وہ اوپر کررہی تھی بنا میک آپ کے باوجود وہ بہت پیاری لگ رہی تھی معید کو اپنی کیفیت سمجھ نہیں آئی کے اس لڑکی کو دیکھ کر اس کے دل کو پہلا بار کچھ کیوں ہوا تھا حالانکہ ایک ہی دن ہوا تھا اور ایک ہی دن میں جزبات کی تبدیلی شاہد دو بولوں میں طاقت ہی ایسی تھی ۔
وہ ڈر کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی پھر معید کو دیکھا جو اپنی آسٹن مارٹن کا دروازہ کھول چکا تھا اور اس کے بیٹھنے کا انتظار کررہا تھا وہ جلدی سے بڑھ کر بھاگ کر اندر گھس گئی اور خود ہی کھینچ کر دروازہ بند کردیا معید کو ہنسی آئی اور دوسری طرف چلتا ہوا وہ کار کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا اور زارا کو دیکھا جو شیشے کو دیکھ رہی تھی اس نے زارا کا کیچر کھول دیا جس سے اس کے بال آدھے کھل چکے تھے وہ مڑی تو سارے بال اب منہ پہ آگئے
“یہ کیا تم نے اِدھر دو کیچڑ ۔”
“سوری گُلّی ! مجھے اپنی بیوی کے کھلے بال پسند ہے ۔”
وہ اب کار سٹارٹ کر نے لگا تو زارا نے اس سے کیچر لینے چاہا وہ ہاتھ پیچھے کر چکا تھا
“میرا کیچر واپس کرو ۔”
وہ گھور کر آگئے ہوئی تو معید مزید پیچھے ہوا
“نہیں دوں گا ۔”
“معید میں تمھارے بال خراب کردوں گی ۔”
معید نے اپنے جیل سے سیٹ کیے ہوئے بالوں کو دیکھا اور گھبڑا گیا یہ نہ ہو پارٹی میں جانے سے پہلے چڑیا کا گھونسلہ بنا ہو
“ہاتھ مت لگانا ورنہ مجھے جانتی نہیں ہو میں کیا کروں گا ۔”
“یا بے شرموں والی حرکتوں کے علاوہ کیا کرسکتے ہو مائینڈ اٹ معید اب میرا کیچر واپس دوں ۔”
معید نے کار تیزی سے سٹارٹ کی اور ونڈو کھول کر زارا کا کیچر پھینک دیا تھا زارا کا منہ کھل گیا اور معید نے کار کی سپیڈ تیز کردیں
“شوق سے لے لے اب کیچر گل بیگم !۔”
زارا اس کو دیکھتی رہی پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر اس ک بال بگار دیں معید ایک دم پیچھے ہوکر اس کا بازو پکڑا اور زارا نے کھینچا
“ہاں اب حساب برابر ۔”
وہ اب مطمن ہوگئی معید کے بال اوپر یو ہوگے جیسے سنگ بن گئے ہو وہ اب بڑھ کر آڈیو آن کر چکی تھی لیکن وہ آڈیو سسٹم نہیں تھا بلکہ اے سی آن ہوچکا تھا
“پاگل لڑکی کچھ پتا بھی نہیں ہے ہر چیز کو ہاتھ لگانا ضروری ہے ۔”
“اچھا میاں بن کر خود چھوئے یا کچھ کرو تو حق ہے میں گاڑی کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی ۔”
وہ اب ڈھیٹ بن کر دوبارہ آڈیو سسٹم کھول چکی تھی
Camila Cambello کا Havana لگ چکا تھا عجیب سئ آواز والی لڑکی گا رہی تھی
Havana oh nana
Open my heart is
In Havana
“یہ کیا بکواس ہے دل کھول کر بھی بندہ ہوانہ جا سکتا ہے بھئی یہ وہاں جانے کو کہہ رہی ہے جہاں حیوان رہتے ہیں دیکھو زرا ۔”
معید نے اپنی نئی نویلی بھولی سی بیوی کو دیکھا جو کہی سے بھی پڑھی لکھی لڑکی نہیں لگ رہی تھی
اس نے دوسرا گانا لگایا zaya malik کا Dusk till Dawn
“یہ لڑکا گا رہا یا لڑکی اور لگتا ہے سو کر اُٹھ کر زبردستی سُنا رہا ڈونٹ ٹرائی ٹو بی انڈر توبہ آپ کے پاس انڈین سونگ نہیں ہے
“نہیں !۔”
وہ اب اس کو دیکھ رہا تھا جو بار بار اپنے مزاج تبدیل کرجاتئ تھی عجیب لڑکی تھی مگر ڈفرنٹ اور یونیق
“توبہ بند کرو اسے ۔”
وہ اب بیزار ہوچکی تھی اب کھڑکھی کو دیکھنے لگی ایک دم میں اتنا سب کچھ ہوگیا وہ گل زارا فرقان سے گل زارا معید بن گئی اور وہ بالکل نارمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کشمکش میں پڑی رہی جب وہ لوگ کیفے پہنچ گئے معید نے نکل گیا اور اسے بھی بولا نکلنے کو زارا گھبڑا رہی تھی اگر وہ اس کو دیکھ لے گے آگے اس سے سوچا نہیں گیا کیونکہ معید دوسری طرف آکر دروازہ کھول چکا تھا
چابی ویلٹ پارکر کو دیں اور زارا کا ہاتھ پکڑ کر بنا کچھ کہے اسے کھینچ کر نکال چکا تھا زارا نے اپنے لمبے بال سنبھالے جو اس کے منہ پہ آگئے تھے
“جلدی سے بال ٹھیک کرو ورنہ لوگ سمجھے گے ڈائن کو ڈیٹ پہ لایا ہے ۔”
وہ اس کے کانوں کے قریب بولا اور زارا اپنا ہاتھ کھینچ کر اپنے بالوں کو سیٹ کرنے لگی
“تم نے میرا کیچر نہ پھینکا ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا اُف اللّٰلہ ! ۔”
اس کے بال آدھے معید کے زپر میں الجھ چکے تھے معید نے اس کے کندھے پہ بازو ڈال کر سائڈ پہ کیا کیونکہ آس پاس لوگ بہت آرہی تھے زارا نے اپنے بال زور سے کھینچے اس کا سر چکرا بیٹھا زور سے کھینچنے کی باعث اس کا سر دکھ گیا تھا غصےسے معید کو گھورتی جو مسکراہٹ دباتا اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا جب وہ بال ٹھیک کر چکی تو بولا
“چلے !۔”
وہ اس کے ساتھ چلنے لگی دروازہ کھلا وہ آگئے بڑھتی جب اس کی نظر سامنے سے آتی ان دو بندوں پہ پڑی جن سے وہ بھاگی تھی وہ تیزی سے مڑ کر سیدھا معید کے کندھے سے جا لگی اور اس کی جیکٹ سے اپنا منہ چھپا لیا معید ایک دم جھٹکے سے پیچھے ہوا اور اس کے اس ایکشن سے حیران تھا
“خیرت پہلے تو دور بھاگ رہی تھی چپکنے کے لیے ریسٹورانٹ ملا آپ کو ۔”
وہ مسکرایا اسے ہٹانے لگا وہ پھر چپک گئی اور اس کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا
“زارا کیا ہوا ؟۔”
اسے اپنی شرٹ گیلی محسوس ہوئی تو اسے پتا چلا وہ رورہی ہے معید اسے سائڈ پہ لیکر گیا اندھیری سے جگہ جہاں عموماً سیگرٹ سپاٹ ہوتا ہے وہاں لیے گیا جو اس وقت خالی تھا اس نے الگ گیا تو زارا کا چہرہ آنسو سے بڑھ گیا
“مجھے یہاں سے لیے جاوں ۔”
وہ بھرائی آواز میں بولی
“ہوا کیا ہے بتاو تو صحیح ابھی تک تو بالکل ٹھیک ٹھاک تھی اچانک ۔”
وہ اس کا چہرہ اونچا کرتے ہوئے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا
“پلیز معید وہ لوگ یہاں ہے وہ مجھے لیے جائے گے وہ ماردیں گے ۔”
وہ دبی آواز میں چلائی
“چُپ کرو خوامخواہ بچوں جیسا رونے شروع ہوگئی ہو میں بھی کہو پتا نہیں کیا ہوگیا چلو آو وہ انتظار کررہے ہوگے ۔”
وہ اسے کھینچنے لگا تو زارا پیچھے ہوئی
“میں نہیں جاو گی تمھارا دماغ خراب ہوگیا ۔”
“زارا چلو ۔”
وہ جھٹکے سے اس کے ساتھ لگی
“میرا ہاتھ چھوڑو معید ورنہ تمھارا منہ نوچ لو گی ۔”
“سٹاپ اٹ !۔”
وہ اس کے سینے پہ مکا مارتی پیچھے ہوئی
“تم نے شادی میرے سے تحفظ کے ناطے نہیں کی بلکہ اپنی ہوس مٹانے کے لیے ۔”
معید نے اس کا ہاتھ چھوڑا اور ایک دم خونخوار نظروں سے دیکھا اور پھر اس نے زارا کا ہاتھ پکڑا اور سیدھا واش روم کے اندر لیکر گیا اور دروازہ لاکڈ کیا اور زارا کا جبڑا پکڑا
“ہاں کیا کہہ رہی تھی تم ! ہوس میں اس آزاد ملک میں رہنے والا اگر اپنی ہوس مٹانے کے لیے اگر شادی کریں گا تو تم دُنیا کے سب سے بیوقوف ترین لڑکی ہو چار گرل فرینڈ کے ساتھ میں نے گھومنے پھرنے کے علاوہ اور گپ شپ کے علاوہ آگئے سے کوئی حد پار نہیں کی چاہتا تو کرسکتا تھا روکنے والا کون تھا مجھے نہ ماں نہ باپ لیکن جانتی ہو کیا کہی میں نے یہ پڑھا تھا اگر آپ خود جیسے ہوتے ہو تو آپ کو آپ کی پارٹنر بھی ایسے ملے گی اسی وجہ سے خود کو سنبھال کر رکھا اگر میں ایسا ہو تو تم پھر کیسی اگر میں گھٹیا ہو تو تم پھر گھٹیا ہو اگر اتنا نفس کا غلام ہوتا نا تو تم رات کے تین بجے پہلی والی زارا نہ رہتئ ۔”
سرد آواز نے زارا کو ساکت کردیا اور پتھریلے تاثرات دیکھ کر تو وہ کانپ اُٹھی تھی معید نے اس کا جبڑا چھوڑ دیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا زارا نے گردن موڑ کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو سفید چہرہ سُرخ آنکھیں بال الجھے ہوئے اسے معید کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن شُکر ہے اس نے اعتراف تو کیا کے وہ ایسا لڑکا نہیں جیسا اس نے تھوڑا بہت دل میں سوچا تھا وہ غلط فہمی دور ہوئی اب کیا کریں باہر جائے یا یہی رہے
اس نے بڑھ کر اپنے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے اور اپنے بال سیٹ کیے کلپ تو معید نے پھینک دیا تھا اب ایک بالوں کا کونا آگئے پھینک کر وہ باہر آگئی ڈرتے ڈرتے اس نے اس طرف دیکھا وہاں وہ اب نہیں تھے اسے یاد پڑتا تھا کے وہ بل کے لیے اُٹھ پڑے تھے ابھی وئ آگئے ہی گئی تھی جب سارے لوگ کھڑے تھے اور وہاں رش تھا پھر اس نے دیکھا معید ان میں سے ایک کو پیٹ رہا تھا یہ سب کب ہوا اسے کیسے پتا چلا یہ وہی لوگ تھے معید نے کیسے پہچان لیے وہ بھاگی معید ویسا لگ ہی نہیں رہا تھا اتنا والینٹ
“دوبارہ تم نے کسی بھی لڑکی کو ٹریپ کرنے کی کوشش کی نا میں تم لوگوں کا وہ حشر کرو گا کے ساری دُنیا یاد کریں گی ۔”‘
وہ غرایا تھا پھر مڑا تو زارا کو دیکھا زارا نے ایک دم روئی ہوئی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھا اور پھر غور سے دیکھنے پر وہ پہچان گئی یہ تو اس کی کولیگ نینا تھی وہ بھی پاکستان سے آئی تھی اور وہ زارا سے ایک مہینہ پہلے یہاں کام کررہی تھی اس کی کام کئ نوعیت پتا نہیں تھی لیکن معید نے اس بندے کی جو حالت کی تھی وہ سب سمجھ گئی وہ بھی اس کی طرح شکار تھی لیکن سب سے عجیب بات معید کو پتا کیسے لگا معید نے اس لڑکی کو اشارہ کیا اور میسن کو بلوایا اس کچھ کہتا ہوا جیب سے اپنا کارڈ نکال کردیا نینا نے لیکر مشکور نظروں سے معید کو دیکھا معید ہولے سے مسکرایا اور مڑا تو چلتا ہوا زارا کی طرف آیا
“آنا ہے تو آو نہیں تو جدھر مرضی جانا ہے چلی جاو اب تمھارے یہ پیچھے نہیں پڑے گے کیونکہ میسن پولیس آفسر ہے وہ میری وجہ سے سب سنبھال لیے گا ۔”
وہ کہتے ہوئے اجنبی دکھاتا ہوا چل پڑا
“چوبیس گھنٹے میں ہر قسم کے جزبات بدلے تھے اجنبی ، مدد ، ہمدردی ، کھٹی میٹھی لڑائی ، نکاح ،محبت ، اور پھر وہی پہ سائیکل آگئی اجنبی یہ والی اجنبیت پہلی والی سے زیادہ تکلیف دے تھی اس نے اتنے اچھے شخص جو اب اس کا شوہر تھا شوہر بھی صرف ہوئے وے چھ گھنٹے ہوئے تھے اور چھ گھنٹے میں ہی اس لڑ پڑئ زارا مڑی اور پیچھے آئی معید ریسٹورانٹ کے باہر کھڑا شاہد اپنی کار کا انتظار کررہا تھا زارا نے سر اُٹھا کر اسے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی معید نے گردن موڑنے کی زحمت کی ۔
گاڑی تو دونوں بالکل چُپ چاپ خاموشی سے بیٹھ گئی
********************