گھر آکر ماما بابا نے وجدان کو یہ خوشخبری سنائی تو اسے یقین ہی نہ آیا وہ سن کھڑا تھا کہ وانیہ بولی
” کہاں کھو گئے بھائی یقین نہیں آ رہا کیا” وانیہ نے اس کے چہرے کے آگے ہاتھ لہرایا
” کیا سچ میں روشانے نے ہاں۔۔۔”
” ہاں جی بھائی ہم سچ کہہ رہے ہیں اب بتائیں کیسے یقین دلاؤں ”
اس نے خوشی سے وانیہ اور ماما کو گلے لگایا ” تھینک یو تھینک یو آپ دونوں کا ” اور پھر بابا کے گلے لگا
” ارے تھینک یو ہمارا نہیں اس کا کرنا جس نے اتنی غلطیوں پہ بھی تم سے صلاح کرنے کا سوچا ”
” جی ماما کل جاتا ہوں میں ”
” ارے کہا تھا نا میں نے تم نہیں جاؤ گے ”
” پر ماما آپ ٹیپیکل ماما تو نا بنیں ”
” نہیں ” ماما نے منع کیا تو اس نے منہ بنا لیا وہ تینوں ہنس دیے۔
اور پھر سب بہت جلدی جلدی ہوگیا آج اس کا اور ولید کا مایوں تھا روشانے پیلے جوڑے میں بیٹھی پھولوں کے زیور پہنے سادگی میں بھی بہت حسین لگ رہی تھی ماما نے نظر لگنے کی ڈر سے اس کے چہرے پہ گھونگھٹ ڈال دیا تھا تھوڑی دیر میں اسے وجدان کے ساتھ لا کر بٹھایا گیا وہ بہت کنفیوز ہو رہی تھی دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا وجدان آج بہت ہی خوش تھا وجدان کا دل چاہ رہا تھا اسے دیکھنے کو اس لیے جیسے ہی رش کم ہوا اس نے ہاتھ بڑھا کے اس نے اس کا گھونگھٹ اوپر کرنا چاہا تو روشانے نے اس کے گھونگھٹ اوپر کرتے ہاتھ پہ ایک تھپڑ مارا اس نے فوراً سے ہاتھ پیچھے کیا
” ناراض ہو” وجدان نے آہستہ سے پوچھا
روشانے کچھ نہ بولی پر دل ہی دل میں مزے سے بولی ” اب تو بولتے رہیں آپ تھوڑا تنگ کرنا تو بنتا ہے نا وجدان”
” بتاؤ روشانے ” وہ پھر بولا روشانے اسے معاف کر چکی تھی پر تھوڑا نخرا دکھانے میں کیا جاتا تھا
اتنے میں سب لوگ آگئے رسمیں کرنے تو وہ خاموش ہوگیا پر اسے یقین ہو گیا تھا کہ روشانے اس سے سخت ناراض ہے۔
************
مایوں خیر خیریت سے ہو گیا تھا وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی
” کیا وجدان اس سے ناراض نہیں ہے؟؟؟” اس نے خود سے پوچھا کیا اتنی محبت کرتا ہے وہ مجھ سے اور اس خیال کے آتے ہی وہ مسکرائی اتنے میں ماما چلی آئیں اسے مسکراتے دیکھ کے وہ بھی مسکرائیں ” کیا سوچا جا رہا ہے ”
” کچھ مہیں ماما بس ویسے ہی ” وہ جھینپی انہوں نے اس کا ماتھا چوما ” اللٰہ تمہیں ایکسے ہی ہمیچہ خوش رکھے آمین ” انہوں نے اس دعا دی
” ماما آپ مجھے بلا لیتیں ”
” ارے نہیں بیٹا میں نے سوچا کہ آج اپنی بیٹی کے پاس جا کے اس سے باتیں کروں پھر یہ موقع پتا نہیں کب آئے ” انہوں نے نم لہجے میں کہا تو روشانے ان کے گلے لگ کے رونے لگی۔
*************
آج ولید کی بارات تھی روشانے نے اسی پیلے جوڑے میں بھائی کی شادی اٹینڈ کی وجدان پھر اسے دیکھ نا پایا تھا ماما اور وانیہ اس کی حالت دیکھ دیکھ کے ہنس رہی تھیں خیر وجدان کو جس دن کا انتظار تھا وہ دن بھی آ پہنچا وجدان آج بلیک کلر کی شیروانی میں کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا بارات پہنچ چکی تھی روشانے روم میں بیٹھی تھی بلڈ ریڈ کلر کے لہنگے میں جس پہ گولڈن سے نگوں کا کام ہوا تھا زیب تن کیے شرمائی لجائی سی دلہن بنی آج غضب ڈھا رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد اسے اسٹیج پہ لایا گیا تو وجدان اسے دیکھ کے مبہوت رہ گیا
” بس کر دے اب کیا ہونقوں کی طرح دیکھ رہا ہے باقی گھر جا کے دیکھ لینا بد حواس نہ ہو” شہیر اس کے کان میں بولا تو ایک دم وہ ہوش میں آیا روشانے کو وجدان کے برابر میں لا کے بٹھایا ان کی جوڑی چاند سورج کو شرما رہی تھی دلہن تو دلہن دلہا پہ بھی رج کے روپ آیا تھا اور پھر رخصتی کاـوقت بھی آپہنچا خیر خیریت سے رخصتی ہوئی اور اب وہ وجدان کے روم میں سیج پہ بیٹھی تھی وجدان نے روم کو بہت خوبصورت طریقے سے ڈیکوریٹ کیا تھا پورا کمرہ گلاب اور موتیا کی خوشبو سے مہک رہا تھا
دروازے پہ دستک ہوئی تو وہ سیدھی ہو بیٹھی نظریں اور جھک گئیں وجدان دروازہ لاک کر کے اندر آیا اور سلام کیا روشانے نے جان بوجھ کے جواب نہ دیا
” روشانے ناراض ہو مجھ سے” وہ اس کے پاس آبیٹھا روشانے دل ہی دل میں مسکرائی
” کچھ تو بولو یار” وہ کچھ نہ بولی تو وجدان نے اس کا ہاتھ تھاما
” روشانے آئم سوری مجھے معاف کردو پلیز ” وہ یوں بولا کہ روشانے کے دل۔کو ایک دم کچھ ہوا اس نے تو سوچا تھا وہ اسے تنگ کرے گی بٹ یہ تو نہیں چاہا تھا کہ وہ یوں اس سے معافی مانگے گا روشانے تڑپ اٹھی اور اپنے ہاتھ پیچھے کیے وجدان نے اس کی طرف دیکھا
” نہیں وجدان آپ معافی نہ مانگیں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے میں نے آپ سے جھوٹ بولا آئم سوری” روشانے بولی تو وجدان نے اس کا چہرہ اوپر کیا
” میں تو تمہیں کب کا معاف کر چکا ہوں روشانے کیونکہ بہت محبت کرتا ہوں تم سے بہت” روشانے مسکرائی وجدان نے اس کے ہاتھ تھامیں اور ڈائمنڈ کے کنگن اس کے ہاتھ میں پہنا دیے
” یہ تمہاری رونمائی کیسی لگی”
” بہت خوبصورت ہیں ”
“پر آپ نے تو کہا تھا کہ آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور میں آپ سے دور چلی جاؤں ” روشانے کو ایک دم یاد آیا تو وہ بولتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی اور ونڈو کے پاس جا کے کھڑی ہوگئی وجدان اس کے پاس چلا آیا اور اس کندھوں سے تھام کے خود سے قریب کیا روشانے کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ اس کے کان کے قریب آکے بولا
” میں نہیں چاہتا کہ تم کسی سنسان جزیرے پہ اکیلے جاؤ اور اگر جاؤ بھی تو میں تمہارا ہم قدم ہونا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ جب میں کچھ دیکھنا چاہوں تو تم اپنی آنکھیں میری آنکھوں پہ رکھ دو اور جب میں اپنی دھڑکن محسوس کرنا چاہوں تو وہ دھڑکن صرف اورصرف تمہاری ہو ” وہ اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا اور وہ مبہوت ہوئے اسے سن رہی تھی “اتنی محبت” “روشانے بولی تو وجدان نے اس کی آنکھوں میں دیکھا
” نہ تم سے پہلے کوئی تھی نہ ہے اور نہ ہوگی ویسے تو میں کوشش کروں گا لیکن اگر کوئی آگئی تو گارنٹی نہیں دیتا ” وجدان نے پہلے سریس اور پھر مذاق میں بات اڑائی تو روشانے نے ایک مکا اس کے سینے پہ مارا
” اگر میرے علاوہ اس میں کوئی آئی نا تو توڑ پھوڑ کے رکھ دینا ہے میں نے اس دل کو”
” ہاااااہ۔۔۔۔ روشانے آج کی رات اپنے شیلٹر کو توڑنے کی بات کر رہی ہو بہت ظالم ہو تم ”
” ہاں تو میرے علاوہ یہاں کوئی آنا بھی نہیں چاہئے ” اس نے اسے وارن کیا تو وہ ہنسا اور اس کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کے بولا
” آئی لو یو سو سو مچ مائے بیوٹی فل وائف ”
روشانے کو اپنے گال کا تھپڑ یاد آیا اس نے وجدان کے ہاتھ ہٹائیے
” مجھے تھپڑ کیوں مارا تھا پتا ہے مجھے کتنا درد ہوا تھا ” روشانے نروٹھے پن سے بولی تو وجدان نے اس کی کمر میں بازو حمائل کیا اور پھر سے اسے اپنے بے حد قریب کیا روشانے ایک دم بوکھلائی اور شرما کے نظریں جھکا لیں وجدان نے اس کا چہرہ اوپر کیا اور اور اس کے گال کو چوما روشانے کے تو ہوش ہی اڑ گئے دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگا
” اب تو درد نہیں ہوا نا اور کوئی شکایت ” وجدان نے شرارت سے کہا تو روشانے نے شرما کے چہرہ اس کے سینے میں چھپا لیا وہ زور سے ہنسا۔
اب انہیں پتا تھا کہ ان کی زندگی ہمیشہ ایسے ہی خوش و خرم گذرنی تھی محبت ان کے دلوں میں دھڑکتی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...