ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو
مجھے پاگل کیا اُس نے تماشا دیکھنے کو
جس محبت پر یقین ہو کہ وہ ہر لمحہ پھول برسائے گی ، وہ کانٹے اُگلتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔
جس محبت پر بھرم ہو کہ وہ سائباں کے جیسے گھنا سایہ عطا کرے گی ، وہ تپتپاتی دھوپ میں لاکھڑا کرتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔
جس محبت پر اعتبار ہو کہ وہ چادر کی طرح پورے تن کو ڈھانپے رکھے گی ، وہ بھری محفل میں برہنہ کرتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔
جس محبت پر اعتماد ہو کہ وہ محافظ بن کر ساتھ چلے گی، وہ رہزن بنتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔
جس محبت سے امید ہو ہر وعدے کی پاس داری کی ، وہ ہر وعدے کو جھٹلاتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔
جس محبت سے خوش گمانی ہو بس خوشیوں کی بشارت کی، وہ غم کا سندیسا لاتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔
جس محبت پر فخر ہو اپنے آپ سے زیادہ مان ہو ،وہ جب سر کو جھکاتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔
فریب کی دنیا میں آنکھوں کا بند ہونا ہر شئے کو کتنا خوبصورت دیکھاتا ہے اور جب یہی آنکھیں کھلتی ہیں تو ہر طرف بد صورتی کا نظارہ زندگی سے بھی خوفزدہ کر دیتا ہے۔زندگی کی بدصورتیاں دیکھنے کی گھڑی آن پہنچی تھی ،زندگی سے خوفزدہ ہونے کا وقت آگیا تھا۔اِرد گرد لگے سارے پھول خار بن کر اُسے نیچا دیکھانے لگے تھے تو حویلی کی بلند و بالا رنگین دیواریں اُس کی بے قدری پر ہنس پڑی تھیں۔چاروں اُور کھڑے لوگوں نے تمسخرانہ انداز میں تالیاں بجائی تھیں تو ماتھے کے جھومر ،گلے کے ہار اور ہاتھوں کی چوڑیوں نے اُس کے وجود کو کاٹنا شروع کردیا تھا ۔ہر چیز کہہ رہی تھی ہر شئے بول رہی تھی۔
’’دیکھ جیون!
یہ ہے جازم ۔۔۔
یہ ہے اعتبار۔۔۔۔۔
اور یہ ہے عشق۔۔۔
ہائے عشق۔۔۔‘‘
اِس عشق کی لذتوں کے لیے اُس نے اپنی آبرو کو مٹی کیا تھا کہ ایک دن اُس کا یہ عشق اُسے سونا بنا دے گا ،مگر وہ تو پیتل سے بھی کم قیمت کی رہ گئی تھی۔جس جنت کا خیال اُسے عشق کے محشر تک لے آیا تھا اُس عشق نے ہی اُسے بتا دیا، دیکھا دیا کہ یہ عشق نہیں۔۔۔غلطی ہے۔۔۔جرم ہے ۔۔۔پاپ ہے ،اور گناہوں کے عوض جنت نہیں دوزخ ملا کرتی ہے۔
وہ صدمے سے کانپتی کچھ قدم پیچھے ہٹی ۔محبت میں دو لمحے بڑے ہی نازک ہوتے ہیں اعتبار اور بے اعتباری کے۔جب اِس محبت پر اعتبار ہوتا ہے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے اور جب یہ محبت بے اعتباری ہوجائے تو زمین پاؤں کے نیچے نہیں سماتی ۔اُڑتا اُڑتا انسان شدت سے پٹخ دیا جاتا ہے اور وہ نیچے نہیں گرتا ایک گڑھے میں گرتا ہے، ایک ایسا گڑھا جو عاشق خود کھودتے ہیں جہاں اُن سمیت اُن کی عزت، وعدے ، وفائیں دفن ہوجاتی ہیں۔اُس کے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہوا تھا ۔کچھ دیر پہلے وہ گیت گاتی ہوا میں اُڑ رہی تھی اور پھر چند ہی لمحوں میں زندگی اور خوشی کا سُر بگڑ گیا تھا ، ہر تار ٹوٹ چکی تھی۔وہ صرف زمین پر گری نہیں تھی زمین کے اند ر دھنس گئی تھی۔اُسے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔اُس نے شدت سے خواہش کی کہ ذلت کی ساری مٹی ایک ہی بار اُنڈیل دی جائے اور وہ ہر سانس ہار دے ۔اُسے اُس لمحے زندگی سے نفرت محسوس ہوئی کیونکہ زندگی سے پیارے شخص نے اُس کا تماشا بنا دیا تھا۔اُس نے خالی خالی نظروں سے جازم کو دیکھا یہی وہ انسان تھا جس کے سنگ وہ زندگی گزارنا چاہتی تھی اور اُسی نے ہی اُسے جیتے جی مار ڈالا تھا۔
’’جازم تم ہوش میں تو ہو؟ یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔آج تمھارا نکاح ہے جیون سے ،سیف کا نہیں۔‘‘ ذکیہ بیگم معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور آہستہ آواز میں جازم کو ڈانٹنے لگیں۔
’’میں ہوش میں ہوں امّی جان۔۔۔اِس بیچارے نوکر نے بہت مار کھائی ہے اِسے کوئی انعام ملنا ہی چاہیے ، اِس بد بخت کے لیے جیون سے اچھا کیا انعام ہوگا، اور ویسے بھی جیون کی خواہش تھی کہ اُس کی جلد سے جلد شادی ہو۔میں اُس کی خواہش ہی پوری کر رہا ہوں۔‘‘ جازم نے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بلند آواز میں قہقہہ لگا کر کہا تھا۔جیون نے آنسوؤں سے بھری آنکھیں جھکا لیں۔وہ سر تا پیر شرمندگی کے سمندر میں ڈوب چکی تھی ۔اُس کی محبت اور خواہش کا اِتنا بیہودہ مذاق بنایا جائے گا اُس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
’’شراب پی کر تم میرا اور اپنی عزت کا تماشا بنا رہے ہو ۔سب لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔حویلی کی آن بان کا کچھ لحاظ کرو۔چھوڑو اِس نوکر کا گریبان اور جاکر جیون کا ہاتھ پکڑو۔‘‘ ذکیہ بیگم کی آواز دھیمی مگر لہجہ تحکم بھرا تھا۔
’’گستاخی معاف امّی جان! چاہے تماشا لگے یا آن بان سولی پر لٹک جائے ، آج نکاح تو سیف اور جیون کا ہی ہوگا۔‘‘ جازم نے ذکیہ بیگم کا حکم رد کرتے ہوئے اُنھی کے انداز میں گرد ن اکڑا کر جواب دیا تھا۔
’’تم اِس وقت نشے میں اپنی سمجھ بوجھ کھو چکے ہو ،اگر تم یہ شادی نہیں کرنا چاہتے تو چلے جاؤ یہاں سے ۔میں سب سنبھال لونگی۔‘‘ ذکیہ بیگم اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سرگوشی میں بولیں۔اُن کا انداز تنبیہہ کرنے والا تھا۔
’’شش۔۔۔شش۔۔۔کوئی سن لے گا کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں۔‘‘ وہ شیطانیت سے ہنسا اور متواتر ہنستا چلا گیا۔ذکیہ بیگم نے اُسے بے بسی اور افسوس سے دیکھا وہ سمجھ گئی تھیں کہ اِس حالت میں اُسے کچھ بھی سمجھانا ناممکن ہے۔ایک طرف بے عزتی کی خفت تھی تو دوسری طرف اُلجھن کا عالم کہ جازم کیوں اور کس لیے یہ کر رہا ہے۔
’’جاؤ سیف بیٹھ جاؤ اُس بڑی کرسی پر اور تم جیون۔۔۔۔۔‘‘ جازم نے سیف کا گریبان چھوڑ کر مڑ کے دیکھا تو اُس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔جیون اپنی جگہ پر نہیں تھی ،وہ اُسے دور سے ہی حویلی کے داخلی دروازے کی طرف بھاگتی ہوئی نظر آئی۔
’’جیون۔۔۔جیون۔۔۔رک جاؤ جیون۔۔۔میں کہتا ہوں رک جاؤ۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح چلاتا ہوا اُس کے پیچھے دوڑ پڑا ۔
’’جیون۔۔۔جیون۔۔۔جیون۔۔۔۔‘‘نشے کی حالت میں وہ اُس کا نام پکارتا کئی چیزوں سے ٹکرا کر گرا تھا۔
جیون ننگے پیر روتی ہوئی پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی ۔اُس نے ناصرف راستے میں آئے سب گلدانوں کو غم کی شدت سے ٹھوکر ماری بلکہ اپنے سارے گہنے بھی اتار اتار کر اِدھر اُدھر فرش پر پھینکے ۔وہ جازم کے خود تک پہنچنے سے پہلے اپنے کمرے تک پہنچ چکی تھی ۔اُس نے سرعت سے دروازہ بند کیا اور بیڈ پر ڈھے سی گئی۔
’’کھولو دروازہ۔۔۔
آج تمھاری شادی ہے۔۔۔
جاہل لڑکی ۔۔۔
نافرمان لڑکی۔۔۔
تمھارا دلہا انتظار کر رہا ہے
کھولو دروازہ۔۔۔کھولو دروازہ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
جیون نے سختی سے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے ۔وہ کتنی ہی دیر اناب شناب بکتا وہی لڑکھڑا کر گر گیا تھا۔
حویلی کے سارے مہمان اپنی آنکھوں میں کئی سوال لیے حویلی سے رخصت ہوئے تھے۔۔۔جگمگاتی ساری بتیاں اُتار لی گئی تھیں۔۔۔اور مہکتے سارے گلدستوں کو کوڑا دانوں میں پھینکا جا چکا تھا۔یہ رات صرف جیون کے لیے ہی نہیں حویلی کے ہر فرد کے لیے سوگ کی رات تھی جو ہوش میں تھا۔
*****
’’رات جو کچھ ہوا ٹھیک نہیں ہوا ۔جیون بی بی کے ساتھ بڑا ہی ظالم ہوا ہے ۔شادی کا سماں پل پھر میں ماتم میں بدل گیا۔ اِن گنہگار آنکھوں کو یہ دن بھی دیکھنا تھا ، توبہ۔۔۔ توبہ۔‘‘مالی بابا نے اپنے میلے کچیلے رومال سے بوڑھی آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا۔
’’جیون بی بی کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے ،مگر چاچا ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔ یہ مالک لوگ کب کونسی چال چل دیں پتا ہی کہاں چلتا ہے ۔اِن کی زندگی فلموں اور ڈراموں سے کم نہیں ہے ۔‘‘ ذکیہ بیگم کے خاص ڈرائیور شکور نے بھی رنج اور طنز کی سی کیفیت میں اظہارِ افسوس کیا تھا ۔
’’پر شکورے جیون بی بی کا کیا دوش تھا جو جازم بیٹا نے کسی کا لحاظ نہ کیا۔حویلی کی بیٹی کی اتنی تذلیل ۔ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہوئے ہیں یہ بچے ۔اِن کے دکھ اور زیادتیاں برداشت نہیں ہوتیں۔‘‘ مالی بابا بہت ہی دلگرفتہ تھے ایک بار پھر رونے لگے۔
’’سارا قصور چھوٹے بابا کا ہے ۔دیکھا نہیں تھا چاچا کیسی عجیب عجیب باتیں کر رہے تھے ۔اُنھوں نے اِتنی شراب پی رکھی تھی کہ ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہے تھے۔تو فکر نہ کر بس دعا کر کہ حویلی کے مالکوں کو عقل آجائے۔‘‘ شکور نے ٹیڑھا منہ کر کے کہا اور مالی بابا کے کندھے پر تسلی سے ہاتھ رکھ کر اپنا کام سنبھالنے چل دیا۔
جیون نے صبح صبح راہداری سے گزرتے ہوئے دو ملازموں کی اپنے بابت گفتگو سنی تو ایک بار پھر رات کی اذیت سے تڑپ اُٹھی۔اُس نے سوچا تھا وہ اپنے کمرے سے کبھی نہیں نکلے گی،اِس بھیانک حقیقت کا سامنا نہیں کرے گی، جازم کی شکل نہیں دیکھے گی،اُس سے بات نہیں کرے گی ،گم نامی کی زندگی گزار کر اُس سے نفرت کرے گی ،مگر اِتنی بزدلی جیون حیات کے ضمیر کو گوارا نہ تھی۔اُسے اپنی بے عزتی کا جواب لینا تھا۔اُسے اِس توہین کی وجہ جاننی تھی ۔اُسے اِس بیوفائی کا حساب مانگنا تھا۔اُسے جازم کو عدالت میں کھڑا کرنا تھا ایک ایک ناانصافی،جھوٹ اور دھوکے کی جواب طلبی کے لیے۔وہ کمزور نہیں تھی، اُسے لڑنا تھا ، بہت لڑنا تھا۔
وہ صدمے سے بت بنی چہرے پر بنا کوئی تاثر لیے جازم خان کے کمرے داخل ہوئی تو وہ بیڈ پر بے سدھ آڑھا ترچھا سویا ہوا تھا۔پورے کمرے میں شراب اور پرفیوم کی ملی جلی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔اُس کے چہرے کا اطمینان جیون کی تکلیف کو مزید بڑھا گیا تھا۔وہ لب کاٹتی بھیگی پلکوں سے اُسے کچھ دیر دیکھتی رہی ۔
’’کسی کا مان خاک میں ملا کر ،کسی کا دل توڑ کر ،کسی کا خواب جلا کر کوئی اتنی پرسکون نیند کیسے سو سکتا ہے ؟‘‘ جیون نے آنکھیں بند کر کے تکلیف سے سوچا۔
’’تم ایسے مجھے برباد کر کے ،بدنام کر کے اتنے سکون سے نہیں سو سکتے ۔۔۔جازم۔۔۔جازم۔۔۔جازم۔‘‘وہ کچھ دیر اپنی کیفیت سے لڑنے کے بعد سارے پردے ہٹاتے ہوئے پوری قوت سے چلائی تھی۔
ایک بلند غصیلی آواز پر جازم ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا تھا۔اُس نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کو مسلا اور مکمل ہوش میں آتے ہوئے سامنے دیکھنے لگا۔جیون دروازہ بند کیے دروازے کے سامنے کھڑی تھی ۔وہ اُس وقت ایسا طوفان لگ رہی تھی جو سب کچھ تہس نہس کرنے کے لیے تیار تھا۔اُس کے چہرے کے تاثرات اُس کی اذیت کے ترجماں تھے تو اُس کی گہری خاموشی اُس کی ناراضگی کی گواہ۔
’’اچھا ! تو تم آئی ہو ۔اب بل سے کیوں نکلی ہو جب میلہ ہی ختم ہوگیا۔اپنی شادی خود ہی برباد کردی تم نے۔‘‘ وہ جمائی لیتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں بولا تھا۔
’’کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا؟‘‘جیون کا لہجہ سپاٹ تھا۔
’’کیوں کیا میں نے ایسا؟ اچھا سوال ہے۔‘‘ جازم کے لہجے میں کوئی ملال نہیں تھا۔
’’کیوں کیا تم نے ایسا؟‘‘ جیون نے اُسی سرد انداز میں دوبارہ پوچھا۔
’’تمھیں ایک ماہ کے اندر شادی کرنی تھی ناں۔۔۔اتنی جلدی تو سیف جیسا شخص ہی مل سکتا تھا۔‘‘اب کی بار جازم طنزیہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’کیوں کیا تم نے ایسا جازم ؟ کیوں؟‘‘ کانپتی آواز میں سوال بار بار دھرایا گیا۔ دھوکے کا صدمہ ایسا تھاکہ جیون اُس جمود کو توڑ نہیں پا رہی تھی۔
’’مجھے تمھارے حق میں جو ٹھیک لگا میں نے وہی کرنا چاہا،مگر تم نے میرے منصوبے کو تباہ کردیا بیوقوف لڑکی۔اگر میں تمھیں اپنے ارادے سے پہلے آگاہ کر دیتا تو تم طوفان کھڑا کر دیتی ۔میرا گمان تھا کہ تم اپنی عزت کی خاطر عین وقت پر سر جھکا دو گی ،مگر تم تو میرے گمان سے بھی زیادہ نافرمان نکلی۔‘‘جازم نے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے نہایت کڑوی باتیں بڑی ہی آسانی سے اُگل دیں۔
’’میرے حق میں ٹھیک ؟ اور وہ جو تم نے مجھ پر حق جتایا تھا مجھے خود پر حق دیا تھا۔اُس کا کیا ہوا؟‘‘ جیون پھٹی پھٹی آنکھوں سے بے یقینی کی کیفیت میں پوچھ رہی تھی۔
’’ایک چیز دل لگی ہوتی ہے جو اِس عمر میں کی جاتی ہے۔تمھاری میری دل لگی ختم جیون۔اُس نوکر نے مار تو کھائی مگر وہ پاگل سچّا تھا۔‘‘وہ اُس کے قریب آتے ہوئے ہر نقاب اُتارنے لگا۔
’’دل لگی ۔۔۔۔‘‘جیون کو اپنی سماعتوں پر شک ہوا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔دل لگی ۔۔۔‘‘وہ اپنے لفظ بار بار دہرا کر سفاکی سے ہنسا ۔
’’وہ محبت ،وہ وعدے ،وہ قربتیں۔۔۔۔وہ سب کیا تھا۔۔۔گھٹیا آدمی وہ سب کیا تھا۔۔۔۔جواب دو مجھے۔‘‘جیون اب زخمی شیرنی کی طرح اُس پر جھپٹی تھی ۔
’’حد میں رہو جیون ۔۔۔ورنہ زبان کھینچ لونگا تمھاری ۔۔۔تم میرے پاس خود چل کر آئی تھی اعتراف محبت کرنے۔۔۔مگر مجھے تم سے محبت نہیں ہوئی ۔۔۔میں تم جیسی عام لڑکی سے محبت کر ہی نہیں سکتا۔‘‘وہ اُس کے نازک ہاتھوں سے اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے ایک ایک لفظ چپا کر بولا۔
’’مجھ جیسی لڑکی ؟تم نے بھی محبت کا جواب محبت سے دیا تھا،اب کہتے ہو محبت نہیں ۔وہ تمھارا دیوانہ پن ، وہ تمھاری پرواہ، وہ تمھاری باتیں ۔کیا سب جھوٹ تھا ؟ کیا سب ڈھونگ تھا؟ کیا سب کھیل تھا؟ ‘‘جیون جنونی انداز میں روتے ہوئے اُس کے قدموں میں ڈھے گئی تھی۔
’’ہاں ڈھونگ تھا ۔۔۔کھیل تھا۔۔۔ جھوٹ تھا۔۔۔اور میں چاہتا تھا یہ کھیل مزید چلے ،مگر اُس نوکر نے یہ کھیل بگاڑ دیا۔تمھاری شادی شادی کی رٹ سے میں عاجز آچکا تھا۔‘‘ جازم نے بڑے ہی دھڑلے سے اپنے دل کا کھوٹ ظاہر کیا ۔
’’کس بات کا بدلہ لیا مجھ سے ؟ کس محرومی کی سزا دی مجھے ؟ٹھکرا دیتے ،دھتکار دیتے ،مار دیتے جازم ۔سچّے جذبوں کو پامال نہ کرتے ۔مجھے یوں تباہ تو نہ کرتے۔‘‘وہ پوری طرح سے ٹوٹ کر بکھر چکی تھی ۔اُس نے اپنا سر فرش پر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’اپنی حالت کی ذمہ دار تم خود ہو۔تم کوئی چھوٹی بچی نہیں تھی جسے ٹھیک اور غلط کا فرق سمجھایا جاتا۔ محبت میں بھی حدیں مقرر کی جاتی ہیں اور اِس کی پہل بھی ایک عورت کرتی ہے۔عورت خود برباد ہونا چاہے تو مرد سے پارسائی کی کیسی توقع؟‘‘ جازم نے جھک کر اُسے اُس کی نظروں میں مزید گرایا۔
’’ہاں ہے میری غلطی کہ میں نے آنکھیں بند کر کے تم پر اعتبار کیا ،تمھیں اپنا سمجھا ۔نہیں جانتی تھی کہ تم انسان کے روپ میں بھڑیے ہو، درندے ہو ،شیطان ہو۔‘‘ وہ سر اُٹھا کر تنفّر سے بولی تھی ۔
’’ہوں میں شیطان،اِس شیطان سے مت الجھو۔اور تباہی کو دعوت مت دو۔ اب سب ختم ہو چکا ہے۔میں تمھارا یہ جذباتی ڈرامہ مزید نہیں جھیل سکتا ۔دفع ہو جاو یہاں سے ۔‘‘ جازم نے کچھ قدم پیچھے ہٹتے ہوئے بیزار کن انداز میں حکم دیا تھا ۔
’’تم نے مجھے برباد کیا ہے،مجھے دھوکہ دیا ہے، اپنے اِس دھوکے کا حساب بھی تم ہی چکاو گے۔اپنی اِس دل لگی کو عزت سے نام بھی تم ہی دو گے۔ تمھیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی جازم،کرنی ہی ہوگی ۔‘‘ وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلہ کن انداز میں غرّائی تھی۔
’’جس لڑکی کو اپنی عزت کی پرواہ نہ ہو اُسے کوئی بھی عزت نہیں دیتا۔تم میرے بالکل بھی قابل نہیں ہو ۔میں تم سے کبھی شادی نہیں کرونگا۔۔۔کبھی بھی نہیں۔‘‘جازم کے تیور کڑے اور لہجہ ٹھوس تھا۔
بے حرمتی اور بے وقعتی کے تیز دانتوں نے جیون کے جسم کیا روح تک کو کاٹ لیا ۔۔۔اُسے لگا ہزاروں سوئیاں اُس کے وجود میں پیوست ہو گئی ہیں۔۔۔ اُسے لگا سینکڑوں پتھر اُس کے اوپر برسائے گئے ہیں۔۔۔اُسے لگا اُسے ننگے سر سرِ بازار لٹکا دیا گیا ہے ۔۔۔اُسے سب کچھ لگا بس اِک سامنے کھڑا شخص کہیں سے بھی جازم نہ لگا۔
’’میں تمھیں اتنی آسانی سے یہ کھیل ختم کرنے نہیں دونگی۔تم اپنے وعدوں سے نہیں مکر سکتے ۔خوشی یا زبردستی تمھیں اپنا ہر وعدہ نبھانا ہوگا ۔ورنہ میں تمھارے سب کرتوتوں کا پردہ چاک کر دونگی ۔ میں سب کو بتا دونگی۔ سنا تم نے! میں سب کو بتادونگی۔‘‘وہ اپنے آپ کو نوچتے ہوئے سکتے کی حالت میں پیچھے دیوار سے جا لگی تھی۔
’’ہا ہا ہا ۔۔۔تمھاری دھمکیاں بھی تمھاری طرح کمزور ہیں۔جاؤ بتا دو سب کو۔ جازم خان کسی سے نہیں ڈرتا۔تم عورت ہو پہلی انگلی تم پر ہی اُٹھے گی۔یہ میرا گھر ہے ، یہاں میری حکومت ہے، یہاں میرا حکم چلتا ہے ،یہاں میری طاقت کا راج ہے، میرے مقابل آتے ہی کوئی تمھیں منہ نہیں لگائے گا ،کوئی تمھاری مدد نہیں کر ے گا ،کوئی تمھارا ساتھ نہیں دے گا جیون حیات ۔‘‘وہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے اپنی طاقت کے زعم میں اترایا تھا۔
جیون نے کچھ پل اُسے نفرت سے دیکھا اور بے جان قدموں سے بنا کچھ کہے واپس چلی آئی ۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے لیے دنیا ختم ہوچکی ہے۔
*****
اِس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہے یوں جیسے اُترنا ہی نہیں
اُسے اپنے کیے پر رتی برابر بھی ندامت نہیں تھی وہ نادم ہوتا بھی تو کیوں ،شرمندہ ہونے کے لیے پچھتانے کے لیے احساس کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور جازم خان نے اپنی زندگی میں احساس کا سبق پڑھا ہی کب تھا ۔اُس کے نزدیک تو احساس بس اپنے مفاد کے بارے میں سوچنا ،اپنی ذات کو ترجیح دینا تھا۔جیون کے جانے کے بعد بھی وہ اپنے ہی سکون کے بارے میں سوچتا رہا۔اُسے نہ اِس بات کی فکر تھی کہ جیون کے ذہن میں کیا انتقام جنم لے گا نہ اِس بات کی پرواہ کہ رشتے داروں اور گھر کے مکینوں کے دل میں کیا سوال پیدا ہونگے۔اُس کے مطابق اُس کے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔یہ اُس کی مغرور خودسر طبیعت تھی کہ وہ اپنے آگے ہر وجود کو چیونٹی کے برابر سمجھتا تھا۔
’’تم اُس چیونٹی کی طرح ہو جیون جو بس کاٹ سکتی ہے تمھارے اندر وہ زہر نہیں جو جازم خان پر اثر کرے۔‘‘ وہ اپنی ہی سوچ سے بدمزہ ہو کر سگریٹ سلگانے لگا۔اُس نے لمبے لمبے کش لیے تاکہ ہر سوچ سے فرار حاصل کر سکے ،مگر وہ چاہ کر بھی ذکیہ بیگم کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ ایک وہی تھیں جن کے سامنے اُسے جواب دہ ہونا تھا۔
’’مجھے کچھ دنوں کے لیے اِس حویلی سے دور چلے جانا چاہیے۔‘‘بے چینی سے ٹہلتے ہوئے اچانک وہ رک سا گیا ۔اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اُس نے الماری کی طرف قدم بڑھا ئے اور پھرتی سے ضروری ضروری چیزیں نکال کر بیڈ پر پھینکنا شروع کر دیں۔
’’کہاں جانے کی تیاری ہورہی ہے جازم؟ ‘‘ذکیہ بیگم کی آواز پر جازم کے پیکنگ کرتے ہاتھ رک گئے تھے۔اُس نے نظر اُٹھا کر اوپر دیکھا تو وہ دروازے میں کھڑی اُسے سوالیہ نگاہوں سے گھور رہی تھیں۔
’’امّی جان آپ یہاں؟آپ نے کیوں زحمت کی مجھے بلالیتیں۔‘‘جازم نے سیگریٹ بجھاتے ہوئے گھبرا کر کہا۔اُس کے چہرے پر کچھ شرمندگی تھی جسے اُس نے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
’’کیا تم اِس قابل تھے کہ خود چل کر میرے پاس آتے۔‘‘ذکیہ بیگم نے منقش لکڑی کے صوفے پر بیٹھتے ہوئے طنزیہ جواب دیا تھا۔
’’میں جانتا ہوں کہ آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہیں۔‘‘وہ نظریں چراتے ہوئے آہستگی سے بولا۔
’’میں کہنا نہیں،پوچھنا چاہتی ہوں۔بتاؤ جازم ایسی کیا آفت آپڑی تھی کہ تم نے یہ سب کرنے سے پہلے ایک بار بھی حویلی اور میری عزت کے بارے میں نہیں سوچا۔شادی نہیں کرنی تھی تو شادی کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی آخر؟‘‘ذکیہ بیگم کا انداز نہایت درشت تھا۔
’’جیون شادی کے لیے بضد تھی۔چند دن ہنس کر بات کیا کرلی وہ تو محبت سمجھ بیٹھی۔ہر وقت شادی شادی کی رٹ۔اُس لڑکی نے مجھے پاگل کردیا تھا۔‘‘اُس نے غصّے سے کھولتے ہوئے سارا الزام جیون پر لگا دیا ۔
’’اگر تم مجھے بر وقت اِس حقیقت سے آگاہ کر دیتے تو میں اُس کا رشتہ کہیں اور کر دیتی یا اُسے سمجھا دیتی۔‘‘ذکیہ بیگم نے بھنویں سکیڑ کر حل سامنے رکھا تھا۔
’’وہ اِتنی بے قابو ہو چکی تھی کہ اُسے سمجھانا بے سود تھا۔میں نے سوچا سیف کو قائل کرکے دھوکے سے اُن کا نکاح کرادونگا،مگر نشے کی حالت نے میرا سارا منصوبہ تباہ کردیا۔‘‘جازم افسوسناک لہجے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے لگا۔
’’تم اتنے سمجھدار ہو کر ایسی بیوقوفی کیسے کر سکتے ہو ؟سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔جیون بھی ایک دن سنبھل جائے گی،لیکن اِس حویلی کے ماتھے پر جو دھبّہ لگا ہے وہ کیسے مٹے گا؟‘‘ ذکیہ بیگم نے کاٹ دار لہجے میں سوال کیا۔اُنھیں ہر شئے سے زیادہ اپنی شا ن و شوکت کی پرواہ تھی۔
’’بڑی حویلی میں جب ماموں ندیم کی بیٹی عین نکاح کے وقت بھاگی تھی تو کتنے دن تک لوگوں نے یاد رکھا؟ انجم خالہ کے بیٹے نے جب اپنی منگنی کے موقع پر سب کے سامنے صاف انکار کردیا تو کتنے سوال اُٹھے تھے؟یہ کہانیاں یہ داستانیں نسل در نسل چلی آرہی ہیں۔ہر نئی کہانی کے بعد دنیا پرانی کہانی فراموش کر دیتی ہے۔‘‘جازم نے ایسی مثالیں پیش کیں کہ ذکیہ بیگم کچھ پل کے لیے خاموش ہو گئیں۔
’’یہ سب بھولنا اِتنا آسان نہیں ہوتا جازم۔‘‘کچھ توقف کے بعد وہ فکرمندی سے بولی تھیں۔
’’اگر اِس وقت پریشانی کی کوئی وجہ ہے تو وہ بس جیون ہے۔اُس کا کوئی بندوبست کرنا ہوگا ،ورنہ وہ میرے اور آپ کے لیے کوئی مشکل کھڑی کردے گی۔‘‘جازم نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر متفکرانہ انداز میں اپنی پریشانی ظاہر کی ۔
’’میری اب بھی یہی رائے ہے کہ تم اُس سے شادی کرلو۔اِس بدنامی کے بعد کون اُسے اپنائے گا۔‘‘ذکیہ بیگم نے سنجیدگی سے اپنی تجویز دی تھی۔
’’امّی جان شادی دل سے کی جاتی ہے ۔میں نے کئی بار اُسے پرکھا ہے وہ میرے معیار پر پوری نہیں اُترسکی۔وہ ایک ضدی ،نافرمان اور کمزور کردار کی لڑکی ہے۔وہ جازم خان کی بیوی اور اِس حویلی کی رانی بننے کے بالکل بھی لائق نہیں۔‘‘وہ ناپسندیدہ تاثرات دیتے ہوئے جیون کی بھرپور کردار کشی کر گیا تھا۔
’’تو پھر کیا چاہتے ہو تم؟‘‘ذکیہ بیگم گہری سانس لے کر اُس کی طرف دیکھنے لگیں ۔
’’آپ اُسے سیف سے شادی کرنے کے لیے راضی کریں۔‘‘جازم نے نظریں جھکا کر مدد طلب انداز میں کہا تھا۔
’’اُن دونوں کا کوئی جوڑ نہیں۔سیف ایک معمولی شکل و صورت کا نوکر اور جیون ایک خوبصورت لڑکی۔‘‘ذکیہ بیگم سخت اُلجھن میں مبتلا نظر آئیں۔
’’عورت بدنام ہوجائے تو خوبصورت نہیں رہتی۔‘‘جازم کی آخری بات ایسی تھی کہ ذکیہ بیگم کی ساری اُلجھن دور ہو گئی۔
*****
غم دے گیا نشاط شناسائی لے گیا
وہ اپنے ساتھ اپنی مسیحائی لے گیا
جازم کے کمرے سے اُس کے کمرے تک کا فاصلہ کئی میلوں تک پھیل گیا تھا ۔ اذیت کے پچھلے پندرہ منٹ بچپن تک کے خوابوں کو جلا آئے تھے ۔وہ اپنے خوابوں کی اتنی بھیانک تعبیر پر بے تحاشہ روتی چلی جارہی تھی۔محبت اور احترام کے بیچ کا بند ٹوٹ جائے تو بس آنسوؤں کے سیلاب ہی آتے ہیں۔اُسے بھی یہ سیلاب قدم جما کر چلنے نہیں دے رہا تھا۔بار بار کوئی اُس کا ہاتھ پکڑ کر ہتک سے ذلت کے گڑھے میں گرا دیتا،وہ اُٹھتی ،پھر گرتی اور چہرے پر لگنے والی گندگی سامنے کا راستہ اور میلا کردیتی۔ اُس نے سختی سے اپنی آنکھیں رگڑ کر دھندلا منظر صاف کیا تو سامنے سیف آتا ہوا دیکھائی دیا۔
’’کیوں آئے ہو یہاں؟ ‘‘ جیون کی آواز اتنی مدھم تھی جیسے وہ بولنے کی ساری طاقت کھو چکی ہو۔
’’مرہم رکھنے۔‘‘ سیف نے تڑپ کر کہا تھا۔
’’مسیحا جب درد دینے لگے تو ہر دوا بے اثر ہوتی ہے ،ہر مرہم بیکار جاتا ہے۔‘‘ وہ شکست خوردہ انداز میں بولی۔
ـ’’مجھے بتاو اُس نے تمھیں کیا کہا ہے ؟‘‘ سیف اپنی زندگی کو یوں بے بسی سے جھونجتا دیکھ کر فکرمندی سے پوچھنے لگا ۔
’’چلے جاؤ یہاں سے۔‘‘ جیون نے اب آنسو پیتے ہوئے بلند آواز میں کہا تھا۔
’’میں تمھیں اِس حالت میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔‘‘سیف کی آواز میں پرواہ تھی محبت تھی۔
’’منحوس ہو تم ۔کالی زبان ہے تمھاری ۔جیسے تم نے کہا تھا ویسے ہی تو ہوا ہے ۔اب تم میرا تماشا دیکھنے آئے ہو؟ مجھے تمھاری سڑی ہوئی صورت نہیں دیکھنی اور نہ ہی مجھے تمھاری جھوٹی ہمدردی چاہیے۔‘‘ جیون نے اپنی ذات پر ملی جانے والی کیچڑ میں سیف کو بھی دھکیلا اور تیز تیز چلنے لگی۔
’’جیون۔۔۔جیون۔۔۔بات سنو میری ۔‘‘ وہ اُس کے پیچھے چلتے ہوئے اُسے پکارنے لگا۔ جیون بغیر کوئی جواب دیئے آگے بڑھ چکی تھی۔
وہ تو سب جانتا تھا ،وہ سب سمجھ چکا تھا کہ اُن دونوں کے بیچ کیا بات ہوئی ہے،مگر وہ جیون کو ہار مانتے ہوئے نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔۔۔وہ ہر صورت اِ س ختم ہوتے ہوئے راستے میں سے کوئی نہ کوئی راہ نکالنے کا خواہشمند تھا۔۔۔وہ ہر قیمت پر اِس کیچڑ میں پھول کھلانے کی تگ و دو میں تھا۔
’’مت آؤ میرے پیچھے۔کیوں اتنے ڈھیٹ ہو تم ؟ کیا تمھاری کوئی عزت ِ نفس نہیں ہے؟ تم انسان ہو کہ جانور جو کچھ بھی محسوس نہیں کرتے۔‘‘ جیون مسلسل اپنا نام پکارنے پر پلٹ کر چلائی ۔وہ اُسے کیسے سمجھاتا کہ اُس کے آنسوؤں کے آگے سیف کو کچھ نظر نہیں آتا،اُس کے کرب کے بدلے سیف کا درد کوئی معنی نہیں رکھتا ، اُس کے احترام کے سامنے سیف کی ساری عزت نفس گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
’’اُس نے مجھے قید کیا ۔۔۔تکلیف پہنچا ئی ۔۔۔ یہ بھی کہا کہ وہ تم سے کبھی شادی نہیں کرے گا۔۔۔میں بارہا تمھیں اُس کی اصلیت کا یقین دلاتا رہا ،پر تم نہیں مانی۔۔۔میں نے تمھیں شادی پر بھی اِس لیے اکسایا تھا کہ جلد تمھاری آنکھیں کھل جائیں۔۔۔پل بھر کے لیے تو اُس کا کھیل دیکھ کر میں بھی دھوکہ کھا گیا کہ وہ تم سے شادی کرنے والا ہے ،مگر اُس نے اپنی اصلیت ثابت کردی ۔۔۔مجھے اب تو اپنا خیر خواہ مان لو۔۔۔میں کبھی تمھارا برا نہیں چاہ سکتا ۔‘‘ سیف نے چلتے چلتے جیون کے سامنے آکر ہاتھ جوڑ کر درخوست کی۔
’’دور ہو جائو میری نظروں سے ۔دفع ہو جاؤ مطلبی انسان۔ایک انسان کی زندگی داؤ پر لگی ہے اور تم یہاں خود کو ٹھیک ثابت کرنے آگئے ہو۔‘‘ اِس وقت سیف کا خود کو دفاع کرنا جلتی میں تیل کا کام کر گیا تھا۔
’’ہاں میں ہوں مطلبی اور مجھے تمھاری خوشیوں سے مطلب ہے ۔‘‘
’’ختم ہوچکی ہیں میری خوشیاں۔سنا تم نے! ختم ہو چکی ہیں میری خوشیاں۔‘‘ سیف نے درد بھری آواز میں کہا تو وہ بھی اُسی کے لہجے میں بولی۔
’’تو اُس انسان کو بھی خوش رہنے کا کوئی حق نہیں۔اُس کی خوشیاں بھی ختم کردو۔‘‘ سیف کے الفاظ ایسا تجسس لیے ہوئے تھے کہ جیون رک کر اُس کے چہرے کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوگئی۔
’’جازم لالہ کی زندگی میں کوئی اور لڑکی آچکی ہے۔عنقریب اُن دونوں کی شادی ہے۔ اپنے ساتھ ہوئی ناانصافی پر آواز اُٹھاؤ۔‘‘سیف نے بہت ہمت جمع کرکے اُس کے ٹوٹے دل کو ایک اور چوٹ پہنچائی تھی۔پہلے تو جیون کے دل کے آئینے میں شگاف پڑا تھا،مگر اِس انکشاف کے بعد یہ آبگینہ چکنا چور ہو چکا تھا ۔وہ اپنی جگہ پر کھڑی بت بن چکی تھی۔ہر چیز اُس کے سامنے بے بسی کے سیلاب میں ڈوب رہی تھی ،ختم ہو رہی تھی ،اور اب یہ پانی اُس کی گردن تک پہنچ چکا تھا۔اُس کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں اور آنسوؤں سے بھیگا چہرہ زرد پڑ گیا۔سیف کچھ قدم پیچھے ہٹا اور پھر اُس نے اپنی گردن جھکا لی تھی۔ وہ جیون کے چہرے پر وہ رنگ نہیں دیکھ سکتا تھا، جو محبت میں ڈاکہ پڑنے پر اُبھرتے ہیں۔
ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا
اب تو آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
’’تم اِتنا کیسے گر سکتے ہو کہ مجھے خاک میں ملا کر اپنے خوابوں کا محل تعمیر کر لو ۔۔۔
تم اِتنا کیسے گر سکتے ہو کہ مجھے وعدوں میں باندھ کر وہی وعدے کسی اور سے نبھاو۔۔۔
تم اِتنا کیسے گر سکتے ہو کہ میری ہستی کو مٹا کر اپنی ذات پر کسی اور کو اختیار دے دو۔۔۔
تم اِتنا کیسے گر سکتے ہو کہ میرے حصّے کی خوشیاں،میرے حصّے کی محبت کسی اور لڑکی کے نام کردو۔۔ ۔
کتنے جھوٹے ،دھوکے باز اور سنگدل ہو تم جازم۔ ۔۔‘‘
وہ چکراتے ہوئے پیچھے ستون سے جا لگی تھی ۔سیف نے اُسے سہارا نہیں دیا وہ اِس وقت اُس کی کمزوری نہیں بننا چاہتا تھا۔اُس نے ماربل کے ستون کو سختی سے پکڑ لیا اور گردن پیچھے جھکا کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔دل زور زور سے دھڑک کر اُکسا رہا تھا جیون ! یہ دل زمین میں گاڑ کر اُس کی محبت کا گلا گھونٹ دے یا جازم کے سینے میں چھید کرکے اُس کا کالا دل سب کے سامنے رکھ دے۔ذہن چیخ چیخ کر صلاح دے رہا تھا جیون ! اِن ستونوں سے ٹکرا ٹکرا کر اُسے ذہن سے نکال دے یا حویلی میں رکھے بڑے بڑے پتھر اُس کے سر پر برسا کر اُسے اُس کی ناپاک سوچ کی سزا دے ۔وہ اپنے اندر ایک جنگ لڑنے لگی ۔پہلے اُسے لگتا تھا کہ یہ جنگ اُس کی اور جازم کی ہے ،مگر اب اِس حقیقت نے کہ اِس لڑائی میں کوئی تیسرا بھی تھا اُس کی ساری طاقت ختم کردی تھی۔یکدم اُس نے آنکھیں کھولیں ۔اُس کی کالی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔آہستہ آہستہ یہ سُرخ آندھی اُس کے پورے وجود کو لپیٹ میں لینے لگی کیونکہ چوٹ دل کے کسی ایک حصّے پر نہ لگی تھی آج پورا دل قتل ہوا تھا۔وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے ہلی اور اپنے کمرے کی طرف جانے کی بجائے دوبارہ اُسی راستے پر مڑی جہاں سے وہ ابھی آرہی تھی۔سیف نے ترس بھری نگاہوں سے اُسے دیکھا اور آہستہ آہستہ اُس کے پیچھے چل دیا۔
’’تم۔۔۔تم ۔۔۔تم پھر آگئی ہو۔‘‘ جازم اُسے تیزی سے اندر داخل ہوتا دیکھ کر بوکھلایا تھا۔
’’سنا ہے تم نیا عشق فرما رہے ہو۔کون ہے تمھارا اگلا شکار؟ ‘‘ جیون نے پاٹ دار آواز میں کرب سے پوچھا۔
’’بڑے جاسوس ہیں تمھارے ۔‘‘ جازم اُس کی اِس معلومات پر اچھا خاصا حیران ہوا تھا۔
’’ہاں کی ہے جاسوسی میرے دل نے ، جو تمھارے اندر چھوڑا تھا میں نے ۔۔۔میری روح نے ،جو تمھیں ہر جگہ محسوس کرتی رہی۔۔۔میرے دماغ نے ،جو تمھارے خواب میں راتوں کو سویا نہیں ۔۔۔صد افسوس کہ میں پھر بھی تمھارے دھوکے کو جان نہ سکی تمھارے کھیل کو سمجھ نہیں پائی۔‘‘ جیون پشیمانی سے تر آنکھیں اُس کی آنکھوں میں ڈال کر خود کو کوس رہی تھی۔ ضبط کے باوجود اُس کے آنسو بے اختیار ہونے لگے۔
’’دل کو اِتنا خیال ہو کہ اپنی حد یاد رکھے،روح میں اِتنا احساس ہو کہ میلی ہونے سے ڈرے اور دماغ کو اِتنی سمجھ ہو کہ اوقات میں رہ کر خواب دیکھے۔ مجھے الزام دینے سے پہلے سوچو جیون ! کہ تمھیں کیوں اور کس لیے ٹھکرا دیا گیا۔‘‘ جازم نے اُس کے مقابل آکر اُسے پستی میں گرا یا تھا۔
’’مجھ سے گناہ ہوا، سنگین غلطی ہوئی ۔مجھے جتنا بدنام ہونا تھا میں ہو چکی ۔اب میں اِس غلطی کو ٹھیک کرونگی۔ میں تمھیں کسی اور سے شادی نہیں کرنے دونگی۔‘‘وہ بے دھڑک انداز میں بولی۔اُس کے لہجے میں پختہ عزم تھا تو چہرہ ہر خوف سے عاری۔
’’ایسی جنگ کا اعلان نہیں کرتے جس میں ہارنا ہی مقدر ہو۔میں کسی اور سے شادی کا وعدہ کر چکا ہوں جیون ۔مجھے کسی اور سے محبت ہو چکی ہے ۔وہ تم سے کہیں زیادہ حسین اور فرمانبردار ہے ۔مجھے میرے دل پر اختیار نہیں رہا۔زبردستی کی تکرار میں اپنا اور میرا وقت برباد نہ کرو۔ ‘‘ جازم اُس کے دل پر پیر رکھ کر بے پروائی سے ہر بات کہہ گیا تھا۔
’’مجھ سے کیا وعدہ تم نے کسی اور سے کرلیا۔۔۔مجھ سے کی محبت کسی اور کی ہوگئی۔۔۔مجھ سے بڑھ کر تمھیں کوئی اور خوبصورت اور فرمانبردار نظر آگیا۔۔۔یہ میری فرمانبرداری ہی تو تھی جو مجھے اِس موڑ پر لے آئی ہے۔۔۔دیکھو ! مجھے غور سے دیکھو تم نے میرا کیا حال کردیا ہے ۔۔۔تم نے کسی اور کے لیے مجھے بے آسرا چھوڑ دیا ہے ۔‘‘جیون طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے اُس کے قریب چلی آئی۔اُس کی پلکوں سے خواب ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے ۔وہ زخمی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اُسے ایک ٹک دیکھنے لگی۔
’’بند کرو یہ موازنہ کرنا۔ہر انسان بہتر سے بہتر کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ میرا جائز حق ہے ۔میں نے تمھارے لیے بھی ایک فیصلہ کیا ہے ۔جس دن میری شادی ہوگی اُس دن تمھاری اور سیف کی بھی شادی کردی جائے گی۔دیکھو! میں تمھیں بے سہارا نہیں چھوڑ رہا۔‘‘ جازم کی آواز اب کی بار دھیمی تھی۔وہ صلاح صفائی سے یہ معاملہ نبٹانا چاہتا تھا۔
’’احسان کر رہے ہو میرا نام اُس بدصورت نوکر کے ساتھ جوڑ کر،وہ نوکر جو اِس قابل بھی نہیں کہ اُس سے کچھ پل بات کی جائے۔کیسے تم میری پوری زندگی کا فیصلہ کر سکتے ہو ؟ کس نے دیا ہے تمھیں یہ اختیار؟‘‘ جیون نے غصے کی شدت سے کانپتے ہوئے کہا۔ ایک بار پھر اپنی توہین پر دروازے کے باہر کھڑے سیف کا ضبط جواب دے گیا تو وہ وہاں ایک پل نہ رکا۔
’’ہوش میں آئو لڑکی ۔۔۔سمجھداری سے کام لو ۔۔۔تم اِس شادی سے انکار کرو گی تو اپنی چادر اپنے ہی ہاتھوں سے تار تار کرو گی۔۔۔تمھارا یہ جنون تمھیں سرِ عام برہنہ کر دے گا۔۔۔شکر کرو میں تمھیں ڈھانپ ر ہا ہوں۔۔۔وہ نوکر تمھارے قدموں میں بیٹھا رہے گا۔۔۔اور تم جب چاہو گی ہم چوری چوری مل بھی لیں گے۔‘‘ جازم اُسے قریب کرتے ہوئے آنکھ مار کر خباثت سے ہنسا۔
’’بس کرو جازم ۔‘‘ جیون نے اُسے پیچھے دھککّا دیا اور اپنی پانچوں اُنگلیاں پوری قوت سے اُس کے گال پر چھاپ دیں۔
’’تمھاری ہمت کیسے ہوئی جازم خان پر ہاتھ اُٹھانے کی ۔دو ٹکے کی حیثیت رہ گئی ہے تمھاری ۔ٹھیک ہو رہا ہے تمھارے ساتھ بالکل ٹھیک ۔نکل جاؤ یہاں سے ۔آئیندہ اپنی منحوس صورت لے کر یہاں مت آنا۔‘‘جازم اُس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے کمرے کے دروازے تک لایا۔
’’میں دیکھتی ہوں کیسے شادی رچاتے ہو تم ۔میں تمھیں بھی خوش نہیں رہنے دونگی ۔میں تمھیں اپنے ساتھ یہ ناانصافی نہیں کرنے دو نگی۔‘‘ اُس نے جازم کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے دھمکی دی ۔ وہ کسی صورت ہار ماننے والی نہ تھی۔
’’تو ٹھیک ہے لڑتی رہو۔۔۔جلتی رہو۔۔۔اور بھسم ہو جاؤ۔‘‘جازم نے رعونت سے کہا اور اپنا ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا۔ جیون دھڑام سے نیچے گری تھی ۔اُسے لگا واقعی نیچے آگ ہے۔
*****
ہماری سادگی یا غلطی کہیے صاحب
ہم تلوار کی دھار پر سر رکھنے کے بعد
ہم کانٹوں کی نوک سے کھیل کھیل کر
ہم رسوائیوں کے شہر کے مکین جب بنے
ہم درد کے ہر دریا میں ڈوب کر آئے تب
سچ ڈھونڈتے ہیں ہم
خود سے پوچھتے ہیں ہم
وہ محبت جسے جرم زمانے نے کہا
اُس جرم پر ندامت ہے کہ نہیں ہے ؟
اپنا آپ مٹا کر
ہر کشتی جلا کر
دل سے کر بیٹھے ہیں سوال
محبت ہے کہ نہیں ہے ؟
اِس نئے انکشاف نے اُسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔محبت خود سوال بن کر اُس کے سامنے آکھڑی تھی۔ محبت تھی ؟ محبت ہے ؟ محبت رہے گی ؟ دن رات یہی کشمش تھی جو اُسے اُلجھانے لگی۔اُس نے ایک ایک کرکے گزرے سارے دنوں کا حساب لگانا شروع کردیا۔کوئی بھی دن ایسا نہیں تھا جس دن اُس کی دل کی زمین پر محبت کا سورج پوری طرح سے چمکا ہو،کوئی بھی رات ایسی نہیں تھی جب محبت کا چاند اُس کی کھڑکی سے اُترا ہو، کوئی بھی موسم ایسا نہیں تھا جو محبت کی بہار یا برسات لایا ہو۔اُس شخص نے شادی کے پہلے دن رنگ بدلا تو اُس کی محبت بھی پھیکی پڑ گئی تھی۔جو زبان محبت کی دعویدار تھی دل کے اِک اشارے پر محبت سے منکر ہو چکی تھی۔وہ اُسے اِتنا برا لگنے لگا تھا کہ وہ اُس کی اچھی یادوں سے بھی فرار ہونا چاہتی تھی۔اُسے محبت سے زیادہ آزادی کی طلب تھی ۔جو محبت اُس کے مطابق نہیں تھی ،اُسے نبھانا اُس کے نزدیک بیوقوفی کے مترادف تھا۔وہ ناسمجھ تھی اُس نے محبت میں جڑے چار حروف کو غور سے دیکھا ،لیکن وہ اِن چار حروف کی گہرائی میں اُترنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔محبت کے چار دن ہوتے ہیں تو اذیت کے سولہ ،مگر اِس حساب کتاب میں کوئی بے صبر کہاں پڑ سکتا ہے۔لوگ کہتے ہیں محبت تب تک زندہ رہتی ہے جب دونوں طرف سے برابری کی ہو،لیکن محبت کی عمر تب بڑھتی ہے جب ایک انسان دوسرے انسان سے آگے نکلنے کی کوشش کرے۔وہ بھی اُس سے آگے نکلی تھی ،محبت میں نہیں ضد میں۔جس محبت کی صورت پر مر کر وہ ہر رشتے کا دل توڑ آئی تھی اُس محبت سے اُس کا سامنا ہوا ہی کب تھا۔
’’ٹھیک ہی تو کہتی ہیں چاچی شگو! محبت من مارنے۔۔۔مرضی کو مٹانے یا پھر خود کو بھی مٹانے کا نام ہے۔۔۔جس میں برابری کے تقاضے ہوں۔۔۔نفع نقصان کے اندیشے ہوں۔۔۔ تو تو ہو۔۔۔میں میں ہو۔۔۔وہ محبت نہیں ہو سکتی۔۔۔یہ جو میرے سامنے ہے یہ محبت کا روشن راستہ نہیں یہ گمراہی کا سیاہ دائرہ ہے ۔‘‘صاحبہ نے بیڈ شیٹ پر بنے سیاہ پھولوں کو عجیب نظروں سے دیکھ کر سوچا۔
’’اِس کا مطلب نہ اُسے محبت تھی نہ مجھے محبت ہے۔وہ صرف مجھے اچھا لگا تھا۔ کسی کو پسند کرنا پوری محبت کہاں ہوتی ہے ،یہ تو بس محبت کی پہلی سیڑھی تھی جس پر قدم رکھ کر میں نے اُڑنا چاہا۔ یہ جو بھی تھا پسندید گی، کشش ، یا قسمت کا لکھا میں نے اِس تعلق کو نبھانے کی پوری کوشش کی ،مگر اُس کے ظلم اور انا کے پیروں نے میری برداشت کو کچل دیا ہے۔اچھا ہے مجھے سچّی ، جنونی،بے غرض محبت نہیں ہوئی ۔یہ شخص ایسی محبت کے قابل ہی کہاں ہے۔‘‘ وہ کالے پھولوں کو مسلتے ہوئے اپنے آپ کو جیسے تسلی دینے لگی۔اُس نے ایک جھٹکے سے بیڈ شیٹ اُتاری اور نفرت سے قالین پر پٹخ دی ،اپنی دانست میں اُس نے ان چاہی محبت کی چادر اُتار پھینکی تھی۔
’’مجھ جیسی کتنی ہی لڑکیاں محبت کی ا صل روح کو جانے بغیر،سمجھے بنا، محبت کی دعویدار ہوجاتی ہیں ،طرف دار ہوجاتی ہیں۔کسی اجنبی سے متاثر ہو کر انمول رشتوں کی بازی لگا دیتی ہیں۔ میں سمجھتی تھی میں انسانوں کو پرکھنا سیکھ گئی ہوں،مگر میں تو اِس دل کو نہیں پرکھ سکی جو میرا اپنا تھا ۔میں نے کتنی آسانی سے اِس راہ کا انتخاب کر لیا ، ایک بار بھی نہیں سوچا کہ یہ راستہ اُس دنیا کی طرف جاتا ہے جہاں غلطیاں ،گناہ انسانوں کی طرح آس پاس گھومتے ہیں۔میری زندہ غلطیوں نے میری سانسیں دوبھر کردی ہیں۔میں نے اپنی راہوں کے دیپ خود بجھائے ہیں میں کیسے روشنیوں کو مناؤں؟میں نے اپنے قدموں تلے خود کانٹے اگائے ہیں میں کیسے پھولوں سے شکوہ کروں؟میں نے اِس زندگی کی کتاب میں خود بے سکونی لکھی ہے میں کس پر اپنے سکون کو لوٹنے کا الزام لگاؤں؟ ہاں میں نے ہی اپنی نیند کی آنکھیں نوچ لیں اپنی خوشیوں کی نبض کاٹ دی میں کہاں اپنا قاتل ڈھونڈوں؟ تمھارا جرم تو بعد میں ثابت ہوتا ہے پہلے میں خود اپنی مجرم ہوں۔میں بیوقوف نہیں باغی ہوں۔ناسمجھ لوگوں کو اُن کے رشتے سمجھا سکتے ہیں ،مگر باغیوں کو صرف زمین کی دھول سمجھاتی ہے وہ تب سمجھتے ہیں جب وہ سزا اور ملامت کی مٹی میں مٹی مٹی ہوتے ہیں۔مجھ سے بھلی وہ جاہل عورت ہے جس نے مجھے خود شناسی عطا کی ۔پڑھا لکھا بھی تب کام آتا ہے جب دماغ میں جذب کرنے کی صلاحیت ہو ، جب دل میں محسوس کرنے کا احساس ہو ۔میری سار ی ڈگریاں کس کام کی ہیں جو میں محبت، عزت اور رشتوں کے تقدس کا فلسفہ نہ سمجھ پائی۔ میرے جیسے لوگوں کو سچّی محبت نہیں ملتی اور شاید ملنی بھی نہیں چاہیے ،کیونکہ ہم جیسے لوگ جھوٹے جذبوں کا ہاتھ پکڑ کر سیدھے رستوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہماری منزل انا اور ضد ہوتی ہے اور ہمارا حاصل نفس کی پرستش ۔یہ درد کی آگ میری خود کی لگائی گئی ہے وہ تو بس اِسے بجھنے نہیں دے رہا۔‘‘آج صاحبہ کا کمرہ اُس کے لیے عدالت تھا اور وہ صرف سچ بولنا چاہتی تھی۔
*****
’’آپ نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا ، مجھے اُس سے محبت نہیں ہوئی۔‘‘ صاحبہ کی بات پر دیواروں پر لگی قدیم پینٹنگز کو صاف کرتے چاچی شگو کے ہاتھ رک گئے تھے،مگر وہ کچھ بولی نہیں۔
’’پنجرہ چاہے جتنا بھی خوبصورت ہو ہوتا تو پنجرہ ہی ہے ناں۔میں سمجھ گئی ہوں کہ وہ کچّا گھر جہاں انسان اپنی مرضی سے سانس لے سکے ،اُس سونے جیسے محل سے سو گنا بہتر ہے جہاں کے دروازے اور کھڑکیاں کسی اور کے حکم سے کھلنے کی پابند ہوں ۔‘‘اُس کا لہجہ رنج سے بھرپور تھا۔چاچی شگو نے اُسے غور سے دیکھا وہ کسی سنہری چڑیا سے کم نہ تھی جس کے پر کاٹ دیے گئے تھے۔چاچی شگو قالین پر آکر بیٹھ گئیں اور اِرد گرد بکھرے کپڑوں کو سمیٹنے لگیں۔
’’شکاری تب تک شکار کر سکتا ہے جب تک اُس میں دم خم رہے ۔شکاری اپنا جال لے کر سامنے دیکھتا ہے اور وقت اپنا جال لے کر پیچھے چلتا ہے ۔شکاری کی ایک لغزش ،اُس کی ایک بھول چوک اُسے شکاری سے شکار بنا دیتی ہے۔تب وقت اپنا جال پھنکتا ہے اور وقت کے جال سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘کپڑوں کو تہہ لگاتی چاچی شگو کی باتوں میں امید کی جھلک تھی۔
’’یہ کوئی عام شکاری نہیں ہے۔وہ اپنے ہنر میں ماہر ہے۔جب تک وقت اُسے پکڑے گا اتنا لمبا انتظار کرنے تک میں اپنی زندگی ہار جاؤنگی۔‘‘صاحبہ مایوس کن انداز میں بولی اور تہہ لگے کپڑے اُٹھا کر الماری میں رکھنے لگی۔
’’ہر ظلم چاہے جتنا بپھرا ہوا دریا کیوں نہ ہو بی بی ،کہیں نہ کہیں تو اُس کے بھی بند ہوتا ہے۔اپنی خاموشی سے اِس دریا کو بہنے دیجیے ۔آپ کی ضد اِس میں طوفان لا سکتی ہے ۔‘‘چاچی شگو نے اُسے مخلصانہ مشورہ دیا اور کمرے سے باہر جانے کے لیے پلٹیں۔
’’رکیے۔۔۔آپ بتائیے مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘‘صاحبہ نے التجائیہ آواز میں کہا۔اِس وقت چاچی شگو ہی اُسے غمگسار نظر آرہی تھیں۔
’’آپ اُن سے التجا کریں رو کر گڑ گڑا کر ۔کچھ با تیں محبت اور حکمت سے منوائی جا سکتی ہیں۔‘‘چاچی شگو نے پلٹ کر سرگوشی میں کہا تھا۔
’’میں سب کچھ کر چکی ہوں۔ سارے ہتھیار اُٹھا چکی ہوں،مگر میرے حصے میں ہار ہے ۔نہ اُس پر منت ترلوں کا اثر ہے ، نہ محبت اور نہ پروا ہ کا۔اپنے آپ کو بہت بدلا ہے میں نے ،اُس کی مرضی سے ہنسی ہوں بولی ہوں، اُس کی خوشی کے لیے سجی ہوں سنوری ہوں ، اُس کے حکم پر سوئی ہوں جاگی ہوں، مگر وہ ویسا ہی رہا۔وہ تکبر کے خول سے کبھی باہر نہیں نکلے گا اور نہ مجھے آزاد کرے گا۔‘‘ صاحبہ کے الفاظ اور چہرہ دونوں بھیگنے لگے تو چاچی شگو نے اُسے بے چارگی سے دیکھا۔
’’کچھ لوگ فطرت سے مجبور ہوتے ہیں بی بی یا اُن کے ظلم کے پس پردہ کوئی اور کہانی ہوتی ہے۔‘‘ چاچی شگو نے مختصر کہا۔اُنھیں لگا اب کوئی بھی دلاسا دینا بے سود ہے ۔
’’کیا آپ جانتی ہیں وہ اِتنا ظالم کیوں ہے ؟ کیا آپ وہ کہانی جانتی ہیں جو میں نہیں جانتی۔‘‘صاحبہ کا انداز کریدنے والا تھا۔اُس کے لہجے میں حقیقت کو جاننے کی تڑپ تھی۔
’’شاید د ولت کی و جہ سے۔‘‘ چاچی شگو کو یہی وجہ نظر آئی۔
’’نہیں صرف دولت وجہ نہیں ہو سکتی۔وہ ایک جنونی انسان ہے۔حویلی میں دیکھیے کو ئی بھی چیز یا شئے موافق یا مناسب لگتی ہے آپ کو ؟ ‘‘ صاحبہ نے جان بوجھ کر اُنھیں اکسایا تھا ۔
’’آپ کی نظر میں مناسب اور موافق سے مراد ہم عام سے لوگ ہیں ناں ؟۔حیرت تو ہمیں بھی ہوئی تھی جب اعلان کراے گئے کہ حُکم کو بد صورت ، بونے اور مسخ شدہ چہروں والے نوکر چاہیے۔ ہمیں تو اپنا چولہا جلانا تھا ہمیں کیا لینا دینا کہ کسی کے دل میں انتقام کی آگ کیوں لگی ہے؟ یہاں اچھا کھانے پہننے کو ملتا ہے، اچھی تنخواہ ملتی ہے۔ احسان ہے اُن کا ،اُن کی وجہ سے کچھ تسلی ہے کہ ایک ہم ہی اِس دنیا میں عام نہیں، ہمارے ساتھ ہمارے جیسے اور بھی ہیں۔‘‘چاچی شگو نے اداس لہجے میں کہا اور بنا کوئی جواب سنے کمرے سے چلی گئیں۔ چاچی شگو کو رنجیدہ کر دینے پر صاحبہ کو تھوڑا افسوس ہوا تھا ۔ساری باتوں کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پائی تھی۔وہ راز جو وہ جاننا چاہتی تھی ابھی تک گپت تھا۔
*****
خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے
کھلی فضا کی تمنا تھی اور قفس میں رہے
قید پرندوں کے لیے آزادی کا خواب کبھی پرانا نہیں ہوتا یہ خواب تو پنجرے کے دروزے سے بندھا رہتا ہے ،وہ روز اِس بند دروازے کو حسرت سے دیکھتے ہیں،وہ روز اِس ناممکن خواب سے نظر ملاتے ہیں۔قیدی پرندوں کو بھی بس ایک عنایت کی طلب ہوتی ہے ،بس ایک موقعے کی تلاش رہتی ہے اور جب اُنھیں یہ موقع مل جائے وہ اُڑ جاتے ہیں ،جب اُنھیں آسمان دیکھائی دے تو وہ زمین کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں،جب اُنھیں ہوائیں گلے لگا لیں تو وہ مڑ کر پنجرے کی طرف نہیں دیکھتے۔پچھلی سزاؤں کے زخم ابھی ہرے تھے ۔اُس نے پکا عہد کر لیا تھا کہ وہ اب آزادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچے گی،مگر چاچی شگو کی شکل میں امید کی ایک اور کرن نظر آنے لگی تھی۔صرف یہی عورت تھی جو حویلی کے بڑے دروازے تک پہنچ سکتی تھی ،اور اُسے دروازے کے پار پررونق دنیا کا راستہ دیکھا سکتی تھی ۔صرف یہی عورت تھی جس کے پاس پنجرے کے تالے کی چابی تھی ،جسے اُس کے ٹوٹے پروں کے نشاں معلوم تھے ۔کئی دن اِس کشمکش کی نذر ہو گئے کہ کیا اُسے چاچی سے بات کرنی چاہیے ؟کیا اُسے چاچی شگو پر بھروسہ کرنا چاہیے؟ سوچ سوچ کر دماغ تھک گیا تو آخر ایک دن اُس نے فیصلہ کر ہی لیا۔
’’چاچی صرف آپ ہی میری مدد کر سکتی ہیں۔صرف آپ ہی مجھے اِس قفس سے رہائی دلا سکتی ہیں۔صرف آپ ہی مجھے میرے گھر والوں سے ملا سکتی ہیں ۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ کب حویلی میں ہوتا ہے کب نہیں۔ میرے راستے آپ ہی بنا سکتی ہیں،یہ پنجرہ آپ ہی کھول سکتی ہیں ۔‘‘ ایک دن اُس سے رہا نہ گیا تو وہ چاچی شگو کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی۔ایک نوکر سے بھیک مانگنے میں اُس کی انا تو مجروح ہوئی ،مگر یہاں سے نکلنے کے کیے وہ ہر حد پار کرنے کو تیار تھی۔
’’یہ کیا کہہ رہی ہیں بی بی ؟ یہ نا ممکن ہے ۔میں ایسا کبھی نہیں کرسکتی۔ہماری شکلوں پر نہ جا نا، ہم د ل کے کالے ا ور فریبی نہیں کہ مالکوں سے غداری کریں۔ہمیشہ حلال کما کر کھایا ہے ۔یہ نمک حرامی نہ ہوگی مجھ سے۔‘‘چاچی شگو نے وفاداری کے راگ الاپتے ہوئے اُس کے جڑے ہوئے ہاتھ کھول کر درشتی سے انکار کیا تھا۔
’’آپ کو مجھ پر ترس نہیں آتا ،میری شکل دیکھیے میری عمر کی بیٹی ہوگی آپ کی۔کسی کو زبردستی باندھ کر رکھنا گناہ ہے۔قیامت کے دن وہ تو حساب دے گا ،مگر اُس کا ساتھ دینے والے بھی دیں گے۔‘‘ چاچی شگو کے شدید ردعمل کے جواب میں صاحبہ نے اُنھیں ڈرانے کے لیے ایک اور چال چلی۔
’’بس کرو لڑکی ! ہمیں اِتنا آگے نہ گھسیٹو۔میں آپ کو یہاں نہیں لائی نہ میں نے آپ کو قید میں ڈالا۔میں نے تو آپ کی ساری سزاؤں کے باوجود آپ سے رعایت برتی ہے۔آپ ساری بھلائیاں بھول کر مجھے ہی بد دعا دے رہی ہیں۔‘‘ چاچی شگو نے تپتے ہوئے اپنے احسانات گنوائے ۔اُنھیں صاحبہ کی باتوں پر شدید تاؤ آ گیا تھا۔
’’ناراض نہ ہوں چاچی۔۔۔ناراض نہ ہوں ۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا جو آپ سمجھیں۔۔۔میں ما نتی ہوں آپ نے میرے ساتھ بہت نیکیاں کی ہیں۔۔۔آپ کے بہت احسانات ہیں مجھ پر ۔۔۔میں بھی جاتے جاتے آپ کے لیے کچھ کر کے جانا چاہتی ہوں۔۔۔میرے پاس بہت قیمتی زیوارات ہیں جن سے آپ کی اور آپ کے بچوں کی زندگی سنور جائے گی۔۔۔آپ کو اِس طرح کسی کی غلامی نہیں کرنی پڑے گی۔‘‘ صاحبہ نے چاچی شگو کے پیر چھوتے ہوئے اُن کی کمزوری کو پکڑا۔
’’مجھے گنہگار نہ کریں بی بی۔آپ کی بات مان بھی لوں تو بہت خطرہ ہے۔اِس حویلی کی حدود سے نکلنا آسان نہیں ہے ۔آپ پکڑی گئیں تو حْکم ہم دونوں کو جان سے مار دیں گے۔‘‘ وہ صاحبہ کو قدموں سے اُٹھاتے ہوئے درد ناک انجام سے لرزی تھیں۔
’’ فائدے کے لیے بڑے بڑے خطرات مول لینے پڑتے ہیں چاچی،اور اِس کام میں تو ہم دونوں کا فائدہ ہے ۔میں ایک بار یہاں سے نکل گئی تو وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا ۔میں ایک خط لکھ کر جاؤنگی جس میں صاف صاف درج ہو گا کہ میں کسی اور ملازمہ کی مدد سے بھاگی ہوں۔آپ بھی کہہ دیجیے گا کہ آپ اُس رات بیمار تھیں اور پہرہ دیتے دیتے آنکھ لگ گئی۔میں پکڑی بھی گئی تو آپ کا نام کبھی نہیں لونگی،یہ میرا وعدہ ہے آپ سے ۔ ‘‘صاحبہ نے اُن کی ہمت بندھاتے ہوئے اُنھیں سارے منصوبے سے آگاہ کیا تھا ۔
چاچی شگو کا دل زیورات کا سن کر لالچ میں آگیا تھا۔اُن کی غریبی اُنھیں اِس شاندار موقعے سے فائدہ اُٹھانے کے لیے اُکسانے لگی ۔وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ صاحبہ سچ بول رہی ہے۔ یہ حویلی کا اُصول تھا کہ مالک لوگ چاہے جتنی زیادتی کرلیں،کبھی بیویوں کا زیور نہیں چھینتے تھے۔
’’بولیں چاچی ۔۔۔بولیں۔۔۔ میری مدد کرے گی ناں آپ ؟‘‘ صاحبہ اُن کے چہرے کے تاثرات پڑھتے ہوئے بے صبری سے پوچھنے لگی۔
’’سوچتی ہوں بی بی۔۔۔سوچتی ہوں۔۔۔مجھے کچھ وقت دو۔‘‘چاچی شگو نے اُس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے نیم رضامندی سے سر ہلایا تھا۔صاحبہ کے وجود میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔اُسے اپنی آزادی یقینی نظر آنے لگی، کیونکہ اُس نے چاچی شگو کی نظروں سے ٹپکتا لالچ دیکھ لیا تھا۔
*****
’’میں نے یہاں آکر زندگی کو پرکھا ہے میں واپس جاکر زندگی کو مایوس نہیں کرونگی۔۔۔
میں نے یہاں خوشیوں کو،آسائشوں کو غلامی کرتے دیکھا ہے،میں واپس جاکر اپنی نعمتوں کی ہمیشہ قدر کرونگی۔۔۔
زندگی کا یہ باب ختم ہونے والا ہے اور میں نئے باب کے پہلے صفحے پر کوئی بے لگام خواہش درج نہیں کرونگی۔۔۔
میں نے پستیوں کی اذیت سہی ہے ،میں بلندیوں پر سنبھل کر چلوں گی۔۔۔
میں نے اپنی برتری کی سزا بھگتی ہے ،میں کسی کو کمتری کی نگاہ سے نہیں دیکھوں گی۔۔۔
میں نے جس جس کا دل توڑا ہے اپنے ٹوٹے دل سے اُن دلوں کی کرچیاں سمیٹوں گی۔۔۔
اپنے غرور اپنی انا کو اُن قدموں میں رکھ دونگی ،جن قدموں تلے میں نے عزت کی زمین کھینچ لی تھی ۔۔۔
میں اُن رشتوں کے آگے کبھی سر نہیں اُٹھاؤ نگی ، جو میری وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جھک گئے تھے۔۔۔
میں اپنوں کا مان اعتبار پھر سے جیتنے کے لیے ہزار بار ہار قبول کرونگی۔۔۔
میں جانتی ہوں کوئی مجھے معاف نہیں کرے گا ،میں رؤنگی گی،گڑگڑاؤنگی تب تک جب تک میرے ضمیر کو اِس بوجھ سے آزاد نہیں کردیا جاتا۔۔۔
میں نے پنجرے کی سب سلاخوں کو کئی بار گنا ہے ،میں آزادی کی ہر سانس پر شکر ادا کرونگی۔۔۔
میں اور مجھ جیسی کتنی لڑکیاں جو حد توڑتی ہیں،میں اُن کو بتاؤنگی اِس حد کے دائرے میں گھٹن نہیں ، تحافظ ہے۔۔۔
میں اپنی حقیقت سے ملتے ہی اِس بھیانک خواب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول جاؤنگی۔۔۔
میں تمھیں ہمیشہ کے لیے بھول جاؤنگی۔۔۔
سن لو تم !میں تمھاری جھوٹی محبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول جاؤنگی۔۔۔‘‘
چاچی شگو کے جانے کے بعد اُس نے خود سے کئی عہد لیے تھے۔کچھ دیر رونے کے بعد وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔امتحانوں کی بھٹی میں جلنے کے بعد اُس کے اندر ایک نئے اِنسان نے جنم لیا تھا،وہ انسان جو اپنے کیے پر پشیمان تھا ، اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہتا تھا،زندگی سے ایک موقع لے کر زندگی کو سنوارنا چاہتا تھا۔وہ مطمئن تھی کہ اُس نے ٹھیک سوچا تھا اور مدد کے لیے ٹھیک انسان کا انتخاب کیا تھا۔اُس کے اندر کہیں کوئی ڈر خوف نہیں تھا ۔وہ اتنی تکلیف اور اذیت برداشت کر چکی تھی کہ اب اُس کے اعصاب مضبوط ہو گئے تھے ۔
’’ میں پکڑی گئی تو کیا ہوگا اب؟ اگر ظلم اپنی انتہا پر آیا تو وہ مجھے مار دے گا،اِس بدتر زندگی سے موت بھلی۔‘‘اُس نے ایک پل کے لیے انجام کے بارے میں سوچا ،مگر کوئی بھی چیز اُس کے حوصلے کو متزلزل نہیں کر سکی تھی۔ہر خوف سے مات کھانے کے بعد وہ ہر خوف سے لڑنے کے لیے تیار تھی۔
وہ بیڈ سے اُٹھی اور پردے ہٹا کر باہر دیکھنے لگی۔شیشے کے پار کی خوبصورت دنیا اُسے اپنی طرف بلا رہی تھی ۔اُس نے مسکرا کر باہر کے ہر نظارے کو محبت سے دیکھا ۔رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو چکی تھی۔اُسے نیند اور سکون سے کوئی غرض نہ تھی۔وہ آج سورج کو نکلتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ہلکی ہلکی روشنی سے پوری روشنی کو خود میں اُتارنا چاہتی تھی۔سورخ نکلا تو اُس نے ایک نظر جی بھر کر اُسے دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ایک سورج اُس کی دل کی زمیں پر بھی طلوع ہوا تھا۔
*****
دو دن گزر چکے تھے ،لیکن چاچی شگو نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا۔وہ چپ چاپ اپنا کام کرتیں اور فوراً کمرے سے چلی جاتیں۔اُن کی خاموشی صاحبہ کو بے چین کرنے لگی تھی۔اُس کے دل میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہو رہے تھے۔جس راستے پر اُس نے پہلا قدم رکھ دیا تھا،وہاں سے چاچی شگو کا پیچھے ہٹ جانا اُسے بالکل بھی منظور نہیں تھا۔
’’حُکم دو دن کے لیے حویلی سے باہر گئے ہیں۔ہمیں جو بھی کرنا ہے، آج رات ہی کرنا ہوگا۔‘‘ چاچی شگو نے دروازہ بند کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا تو وہ اُن کی ناگہانی آمد پر بری طرح سے چونک سی گئی ۔
’’سچ چاچی‘‘ صاحبہ کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
’’آپ تیار رہیے گا ۔رات کو میں آپ کی آزادی کی خوشخبری لے کر حاضر ہو جاؤنگی۔‘‘چاچی شگو فخر سے مسکرائیں تو وہ خوشی کے مارے اُن کے گلے لگ گی۔
’’میں آپ کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولو گی۔میں جب جب آزادی سے سانس لونگی تو اُس کی وجہ بس آپ ہوں گیں۔‘‘صاحبہ فرطِ جذبات سے کہتے کہتے رو پڑی تھی۔
’’بی بی میں بھی آپ کو یاد رکھونگی اور دعا کرونگی کہ آپ سے یہ آزادی کو ئی نہ چھین سکے۔‘‘چاچی شگو اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے رخصت ہو گئیں۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اپنی خوشی کیسے منائے یا کیسے چھپائے۔۔۔وہ کمرے کی ہر ناپسندیدہ شئے کو بھی پیار سے دیکھنے لگی۔۔۔کھڑکی کے نازک شیشے پر مخروطی انگلیوں سے ساز بجا کر گانے لگی۔۔۔قالین کو پھولوں کی راہگزر سمجھ کر جھومنے لگی ۔۔۔ساری بتیاں جلا کر روشنی میں چھن چھن بھیگنے لگی ۔۔۔آنے والی روشن صبح کا سوچ سوچ کر رات کی راہ تکنے لگی ۔۔۔اُس نے جلدی جلدی ا پنی ساری ضروری چیزیں سمیٹنا شروع کیں اور ہر وہ چیز جو اُس کی دی ہوئی تھی بری طرح سے توڑ کر کمرے میں پھینک دی۔اُس نے سب زیوارات کا ایک بیگ تیار کیا تھا جو اُس کی آزادی کی قیمت تھے۔
’’تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔تم کبھی اپنی زیادتیوں کا حساب نہیں دے سکے،مگر میرے جانے کے بعد تم کڑا حساب دو گے۔یاد کرو گے مجھے، جب ہر چیز تم پر اونچی آواز میں ہنسے گی اور سب لوگ کانوں میں باتیں کریں گے۔‘‘ صاحبہ نے کتنے عرصے بعد یوں قہقہہ لگایا تھا۔
رات کے دو بج رہے تھے اور چاچی شگو بغیر کسی خوف کے اُس کے آگے آگے چل رہی تھی۔اُن کی بہادری کو دیکھ کر صاحبہ کا رہا سہا ڈر بھی جا تا رہا۔پوری حویلی ایک ویران خاموش جنگل کی طرح معلوم ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حویلی میں صرف وہی دو عو رتیں ہیں۔وہ حیران تھی کہ چاچی شگو نے اُسے بھگانے کے لیے کوئی چور راستہ نہیں چنا تھا ۔اُسے لگا وہ بہت ہی شان اور عزت سے رخصت ہو رہی ہے۔دونوں دروازوں پر کوئی چوکیدار نہ تھا۔ وہ سمجھ گئی کہ چاچی نے انھیں بھی خرید لیا ہے۔
’’یہ کچھ پیسے رکھ لیجیے آگے آپ کو ضرورت پڑ سکتی ہے۔ حویلی کا دروازہ میں خود کھولو ں گی آپ کے لیے۔باہر ایک گاڑی آپ کا انتظار کر رہی ہے ۔وہ میرا قابل اعتبار بندہ ہے۔آپ جہاں کہیں گیں وہ حفاظت سے آپ کو وہاں پہنچا دے گا۔ڈرنے کی کوئی بات نہیں ، آپ کی منزل اب بہت قریب ہے ۔‘‘چاچی شگو نے کچھ پیسے اُس کی ہتھیلی پر رکھ کر بھرپور اعتماد سے کہا تھا۔
’’میرا بال بال آپ کا مقروض رہے گا۔۔۔میں آپ کو کبھی نہیں بھولوں گی۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔‘‘صاحبہ کے چہرے پر احسان مندی کے تاثرات تھے ۔وہ پل بھر کے لیے یوں اداس ہو ئی جیسے کسی اپنے سے بچھڑ رہی ہو۔
’’باتوں کا وقت گزر چکا ہے بی بی۔اب کوئی بھی لمحہ ضائع مت کیجیے ،یہ نا ہو اُس نشے کی دوا کا اثر ختم ہوجائے جو میں نے حویلی کے سارے نوکروں کو پلائی ہے ۔‘‘ چاچی شگو تیزی سے چلتے ہوئے دروازے کے پاس پہنچ گئی تھیں ۔صاحبہ نے آخری بار اُس عورت کو تشکر بھری نظروں سے دیکھا جس نے اُس کی خاطر ہر خطرہ مول لیا تھا۔
دروازے کے بڑے تالے کو کھولنے کے بعد ایک تیز ہوا کا جھونکا صاحبہ کے وجود سے ٹکرایا تو اُس نے سکون سے آنکھیں بند کر لیں۔یہی وہ آزادی تھی جس کے لیے وہ کتنا پھڑپھڑائی تھی، کتنا روئی تھی ،کتنا تڑپی تھی ۔اُسے لگا اُس نے کتنی صدیوں بعد باہر کا منظر دیکھا ہے ۔حویلی کے سامنے کھڑی ایک سفید گاڑی اُس کی منتظر تھی ۔
’’جائیے۔۔۔بھاگیے ۔۔۔سوچنے میں وقت ضائع مت کیجیے صاحبہ بی بی۔۔۔ آزادی آپ کو بلا رہی ہے۔‘‘چاچی شگو نے اُسے زور زور سے ہلایا تو وہ سکتے کی کیفیت سے باہر آگئی ۔
صاحبہ نے ایک ممنون نگاہ چاچی شگو پر ڈالی اور پوری طاقت سے گاڑی کی طرف دوڑ پڑی۔اُس کا اُڑتا آنچل اُس کی دلی کیفیت کا گواہ تھا۔خوشی کا بہاؤ اِتنا تیز تھا کہ اُس نے ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔
*****
ذکیہ بیگم اُسے تب تک دیکھتی رہیں جب تک وہ نظروں سے اُوجھل نہیں ہوگیا۔اُن بھی یہی خواہش تھی کہ جازم کچھ دن کے لیے حویلی سے دور چلا جائے۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ جازم جذبات میں آکر کوئی اور غلط قدم اُٹھائے ۔جازم کی اِس حرکت کی وجہ سے حویلی کے ماحول میں ایک تناؤ سا پیدا ہو گیا تھا۔سارے نوکر چپ تھے ،مگر اُن کی خاموش نگاہوں میں الجھن اور خوف لیے کئی سوال تھے۔اکثر نوکروں کی آنکھوں میں جازم کے لیے ناپسندیدگی تھی،مگر وہ کھل کر اِس کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ذکیہ بیگم کے لیے یہ ساری صورتحال پریشا ن کُن تھی۔وہ بے چینی سے ٹہلتے ہوئے سارے معاملات پر غور وفکر کرنے لگیں۔اُنھیں اُن سب لمحوں کا علم تھا جن میں جازم اور جیون نے ساری حدیں توڑی تھیں۔تمام باتوں کی گہرائی میں جاکر اُنھیں اپنا خون ہی ٹھیک لگا۔
’’ایک پختہ کردار کے بغیر عورت کھوکھلی ہے اور ایک کھوکھلی عورت اِس حویلی کی آبرو کیا سنبھالے گی۔مرد کا کیا ہے وہ ایسی غلطی کر کے بچ سکتا ہے ،مگر عورت آنے والی ساری نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔جازم کی غلطی نہیں ہے اُس کی عمر ہی ایسی ہے ،لیکن جیون کو ایک لڑکی ہونے اور اِس حویلی کی بیٹی ہونے کا پورا خیال رکھنا چاہیے تھا۔میں اِس حویلی کی چابیاں ایک کمزور کردار کی لڑکی کے حوالے نہیں کرسکتی۔‘‘ ذکیہ بیگم بڑبڑاتے ہوئے اپنی آرام دہ کرسی پر آکر بیٹھ گئی تھیں۔وہ ایک روایتی سوچ کی خاتون تھی جن کے نزدیک عورت اور مرد کے گناہ کو پرکھنے کا معیار مختلف تھا۔اُنھوں نے کرسی کی پشت پر سر رکھا اور سوچ میں ڈوب گئیں۔اُنھیں جلد ہی اِس بھڑکتی آگ کو سرد کرنا تھا۔آنے والے دنوں میں ایک اہم فیصلہ لینا تھا،جیون اور سیف کی شادی کا فیصلہ۔
’’کسی کی زندگی برباد ہوگئی اور تم یہاں آرام فرما رہی ہو؟‘‘رقیہ ناز کی بلند آواز پر ذکیہ بیگم نے سر اُٹھا کر سامنے دیکھا۔
’’کس نے اجازت دی آپ کو یہاں آنے کی؟‘‘ ذکیہ بیگم کو رقیہ ناز کا اپنے کمرے میں بے دھڑک آنا سخت ناگوار گزرا تھا۔
’’اجازت کی بات کرتی ہو تم ذکیہ ،تم نے اپنے خون کو کیسے اجازت دی کہ وہ جیون کے ساتھ کھیل کر اُسے دھتکار دے؟‘‘ رقیہ ناز نے چبھتے ہوئے جواب طلب لہجے میں کہا۔
’’اگر آپ جیون کی وکالت کرنے آئیں ہیں تو تب بھی اپنی اوقات کے دائرے سے باہر مت نکلیے۔جیون کوئی دودھ پیتی بچی نہیں جسے اپنی حد کا علم نہ ہو۔‘‘ ذکیہ بیگم نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے اُنھیں کرارا جواب دیا تھا۔
’’پہلے وہ تمھیں پسند تھی اور جب تمھارے بیٹے نے نا پسندیدگی کی سند جاری کردی تو تم نے بھی اُس پر مہر لگا دی۔ماننا پڑے گا ماں بیٹے کی کیا خوب ذہنی ہم آہنگی ہے۔‘‘ رقیہ ناز کا لب و لہجہ ترش اور طنز سے بھرپور تھا۔
’’کیا کہنا چاہتی ہیں آپ صاف صاف کہیں۔‘‘ ذگیہ بیگم نے بھی اُنھی کا انداز اپنایا۔
’’اِس حویلی کے مالکوں نے بے حسی کی ہر حد پار کردی ہے۔ میں تمھاری اور جازم کی گفتگو سن چکی ہوں ذکیہ۔‘‘رقیہ ناز نے اُنھیں سر تا پیر تاسف سے دیکھا۔
’’یہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے کہ آپ چھپ چھپ کر ہماری باتیں سنتی ہیں۔‘‘ذکیہ بیگم نے اُنھیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی،مگر رقیہ ناز کی ملامت کرتی نظریں ایک پل کے لیے بھی نہ جھکی تھیں۔
’’اخلاقیات۔۔۔کونسی اخلاقیات ؟ وہی جس کا سبق گھٹی میں ملا کر تم نے اپنے بیٹے کو پلایا ،جس کے زیرِ اثر وہ دوسروں کی زندگی میں زہر گھول رہا ہے۔‘‘
’’بس کیجیے اور چلی جائیے یہاں سے ۔‘‘رقیہ ناز کے طعنے برداشت سے باہر ہوگئے تو ذکیہ بیگم چلا کر بولیں۔
’’چلی جاؤنگی،مگر تم اچھا نہیں کر رہی ۔جازم کو سمجھانے کی بجائے تم ایک غلط فیصلے میں اُس کا ساتھ دے رہی ہو۔‘‘ رقیہ ناز کی آواز دھیمی تھی اور انداز احساس دلانے والا تھا۔
’’ مت سیکھائیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیں۔میں اِس حویلی اور اپنے بیٹے کے لیے وہی فیصلہ لونگی جو مجھے بہتر لگے گا۔‘‘ذکیہ بیگم نے ماتھے پر بل لاتے ہوئے دھونس سے کہا تھا۔
’’سیف سے تو تھی ہی نہیں،جیون سے بھی ذرہ ہمدردی نہیں ہے تمھیں؟ــ‘‘رقیہ ناز نے بے بسی سے پوچھا جبکہ وہ اِس سوال کا جواب بخوبی جانتی تھیں۔
’’مجھے ہے اُس سے ہمدردی جب ہی اُسے بدنامی سے بچانا چاہتی ہوں،اور اِس کا ایک ہی حل ہے کہ اُس کی شادی سیف سے کردی جائے۔‘‘ذکیہ بیگم نے پوچھے گئے سوال کا جواب منہ پھیر کر دیا ۔
’’تم جازم کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی سعی کر رہی ہو۔ یہ تمھارے اپنے اُصولوں کے بھی خلاف ہے ۔اِس حویلی کے نوکر تمھاری ناانصافی دیکھ کر تم سے منحرف ہو جائیں گے ۔یہ تمھاری ایک سنگین غلطی ہوگی ،جسے شاید آنے والا وقت بھی معاف نہ کر پائے۔‘‘رقیہ ناز کے الفاظ خدشات سے بھرپور تھے۔
’’نوکروں اور وقت کی پرواہ میں نے کبھی نہیں کی۔ میرے لیے جازم کی خوشی اور مرضی سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں۔اپنے بیٹے کی محبت میں ذکیہ حویلی کے سارے اُصول بدل سکتی ہے،ہر روایت توڑ سکتی ہے ۔‘‘ذکیہ بیگم نے زعم بھرے انداز میں اپنی مامتا ظاہر کی۔
’’واہ کیا خود غرض محبت ہے ۔تم جیسی مائیں پہلے بچوں کی غلط تربیت کرتی ہیں اور پھر اُن کے گناہوں کی پردہ پوشی کرکے اپنی تربیت کو ٹھیک ثابت کرتی ہیں۔پچھتاؤ گی تم ۔۔۔بہت پچھتاؤ گی۔‘‘رقیہ ناز نے انگلی کے اشارے سے اُنھیں کھری کھری سنائیں اور بنا کوئی جواب سنے وہاں سے چلی آئیں۔
ذکیہ بیگم نے اپنا غصہ کم کرنے کے لیے ایک گلاس پانی پیا تھا،لیکن بے عزتی کی آگ کسی طور ٹھنڈی نہ ہوئی جو رقیہ ناز نے لگائی تھی۔
*****
آنکھیں کھلی کھلی ہیں نظر لے گیا کوئی
دیوار و در تو ہیں وہی گھر لے گیا کوئی
اُس نے پھولوں کے پاس جانا نہیں چھوڑا تھا ،بس پھولوں سے باتیں کرنا بند کر دی تھیں۔۔۔اُس نے پھولوں کو دیکھنا نہیں چھوڑا تھا ،بس اُنھیں توڑنے سے رک گئی تھی۔۔۔ایک ہفتہ پہلے جو خواب ٹوٹا تھا وہ اُس کی کرچیوں سے لہولہان ہوتی تو اپنے بچپن کے ساتھیوں کے پاس چلی آتی۔۔۔ناجانے اُس کی نظر کا دھوکہ تھا یا نظاروں کی سازش ۔۔۔اُسے سارے تازہ پھول کاغذی سے لگتے اور ساری اڑتی تتلیاں مردہ۔۔۔اُسے پھولوں کے گجرے اور کلیوں کی مالا بنانے کا جنون تھا۔۔۔وہ پھولوں کے زیور بناتی اور آئینے سے گھنٹوں باتیں کرتی ۔۔۔پھر وہ خود پسندی کی نیند سے ایسے جاگی کہ سارے شوق حسرتوں کی قبر میں جا سوئے ۔۔۔پھولوں کو دیکھنے والی آنکھیں اور چھونے والے ہاتھ پتھر کے ہو چکے تھے ۔۔۔سب کچھ کتنا بدل گیا تھا ۔۔۔اُسے پھولوں سے خوشبو نہیں آتی تھی۔۔۔اُسے تتلیوں میں رنگ نہیں دیکھتے تھے۔۔۔وہ پھولوں کے ساتھ ساتھ اب کانٹوں کو بھی دیکھتی۔۔۔اِن کانٹوں کے ہونے کا مطلب سمجھتی ۔۔۔۔اِن پر غور کرتی ۔۔۔اُن کانٹوں میں چبھن تھی،درد تھا پر وہ پھولوں کے ساتھ تھے ۔۔۔ اُن کی حفاطت کے لیے ۔۔۔اُس کی لاعلم محبت کے گرد بھی تو کانٹے تھے ۔۔۔تحافظ دینے والے نہیں ،چبھنے والے کا نٹے ۔۔۔یہی وہ دھوکے کے خار تھے جو اُس کی روح میں اُتر چکے تھے۔۔۔جنھوں نے اُس کی ذات کی پتی پتی بکھیر دی تھی۔
’’ایسا کیا ہے اُس پھول میں جو تم اُسے دیکھنے میں اتنی مگن ہو ۔‘‘ ذکیہ بیگم نے تعجب سے پوچھا ۔اُن کی موجودگی کا احساس پاکر بھی جیون نے کالے گلاب سے نظریں نہ ہٹائیں۔
’’تمھیں شاید اندازہ نہیں کہ گرمی کی شدت کتنی بڑھ چکی ہے ،سورج سر پر آچکا ہے۔‘‘اُنھوں نے اپنی چادر ماتھے پر سرکاتے ہوئے کہا ،مگر پسینے سے بھیگی ہوئی جیون نے اب کی بار بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
’’میں تم سے مخاطب ہوں۔تمھاری یہ خاموشی بدتمیزی کے زمرے میں آتی ہے ۔‘‘ذکیہ بیگم کے چہرے کے تاثرات بگڑنے لگے تھے۔
’’آپ وہ بات کریں جس کا مقصد آپ کو یہاں کھینچ لایا ہے۔‘‘جیون نے مٹھی میں مٹی بھرتے ہوئے رکھائی سے کہا۔
’’ساری باتوں کو پھر سے دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔تمھاری ماں ہونے کے ناطے میں تمھارا بھلا چاہتی ہوں۔اِس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے تمھاری شادی سیف سے کردی جائے۔‘‘ ذکیہ بیگم اپنی ہچکچاہٹ چھپاتے ہوئے حکمانہ انداز میں بولیں۔
’’ماں۔۔۔آپ میری ماں نہیں ہیں ۔۔۔آپ اپنے کھوکھلے اُصولوں کی ماں ہیں۔۔۔آپ اپنی بوسیدہ روایتوں کی ماں ہیں۔۔۔آپ اِ س جیتی جاگتی حویلی کی ماں ہیں ۔۔۔اور اُس پتھر دل جازم کی ماں ہیں۔‘‘جیون نے اُن کے برابر کھڑی ہوکر تنی ہوئی گردن سے کہا۔اُس کی آنکھوں میں وحشت تھی اور لہجہ بے خوف تھا۔
’’یہ تم کس طرح بات کر رہی ہو جیون ؟یہ کیسے الفاظ ہیں تمھارے؟ کیا تم سارے ادب وآدا ب بھول چکی ہو؟‘‘ ذکیہ بیگم بھنویں سکیڑتے ہوئے تند مزاجی سے بولیں۔وہ لڑکی جو نظریں اُٹھا کر بات نہیں کرتی تھی اُس کا یوں منہ پھاڑ کر بولنا اُن کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔
’’سب ختم ہو چکا ہے ۔۔۔ادب و آداب بھی۔۔۔۔ لحاظ شرم بھی۔‘‘جیون کے لبوں پر افسردگی اور پھیکی مسکراہٹ تھی۔
’’اِن حالات کی تم خود ذمہ دار ہو۔اپنی غلطی کی سز ا ہر شخص کو بھگتنی پڑتی ہے ۔‘‘ ذکیہ بیگم نے ملامتی نظروں سے دیکھتے ہوئے اُسے قصور وار ٹھرایا۔
ـ’’غلطی دونوں کی ہے اور ہم دونوں سے بڑی غلطی ہے ہماری پرورش کرنے والی کی ۔آپ کی غلطی ہے ذکیہ بیگم آپ کی! ہمارے سامنے گناہ اور نفرت کا وجود اتنی خوبصورتی سے پیش کیا آپ نے کہ ہم اچھائی اور محبت کی اصل روح کو پہچان ہی نہ سکے۔آپ مجرم ہیں اور وقت ہر مجرم کو سزا ضرور دیتا ہے۔‘‘ جیون نے اونچی آواز میں بد لحاظی کی ہر حد پار کی تو ایک زور دار تھپڑ نے اُسے خاموش کرادیا۔
’’احسان فراموش لڑکی ۔مت بھولو کہ تم اِس حویلی کے ٹکڑوں پر پلی ہو۔تمھیں بھی وہی حیثیت اور مقام دیا جاتا جو سیف کا ہے۔ٹھیک کہا تھا جازم نے تم نافرمان ہو،سرکش ہو اور اپنے اِس غرور میں تم میرے سب احسانات بھول چکی ہو۔تم اِس حویلی کی بہو بننے کی بالکل بھی اہل نہیں ہو۔‘‘ذکیہ بیگم کی غصیلی آواز اہانت کی انتہا کو چھو رہی تھی۔
’’مجھے چپ کرانے کے لیے اِس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی آپ۔۔۔کان کھول کر سن لیجیے میں سیف سے شادی نہیں کرونگی اور جازم کی شادی کسی اور سے نہیں ہونے دونگی۔۔۔میں جازم سے شاید نفرت نہ کر سکوں ،مگر آپ کے سب احسانات کا بدلا یہی ہے کہ میں اپنی آخری سانس تک آپ سے نفرت کرونگی۔‘‘جیون نے مٹھی میں بند مٹی نیچے گرائی اور اپنا فیصلہ سنا کر چلی گئی۔ذکیہ بیگم نے شعلہ بار نگاہوں سے اُسے جاتے ہوئے دیکھا۔اُن کے دل میں اُس کے لیے رہی سہی ہمدردی بھی ختم ہو چکی تھی۔
*****
جب تک جازم حویلی میں نہیں تھا ہر شخص نے خاموشی اوڑھ لی تھی۔۔۔نہ رقیہ ناز نے ذکیہ بیگم کو پھر سے احساس دلانے کی کوشش کی نہ ذکیہ بیگم نے جیون سے دوبارہ بات کرنے کو ترجیح دی ۔۔۔حویلی کے سارے نوکر اِس خاموشی کا مطلب سمجھ کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو چکے تھے۔سب نے جیون کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔بس ایک سیف تھا جو اُس کے ٹوٹے دل کے جڑنے کی دعائیں کرتا ،مگر اُس کی دعائیں بھی جیون کا دل نہ جوڑ پائیں۔ جدائی کی ہر دیوار کھڑی ہوجانے کے باوجود وہ اپنے ہر جائی کو بھولنے کے لیے تیار نہ تھی۔اُس کا زخمی دل پھر سے انتظار کے رستے پر چل پڑا تھا۔اُسے اپنے اندر لگی انتقام کی آگ بجھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔اُسے پھولوں اور کانٹوں کا رشتہ سمجھ آگیا تھا،اُن کے ساتھ کی وجہ معلوم ہو گئی تھی ۔ لڑنے جھگڑنے ، برا بھلا کہنے اور نفرت ظاہر کرنے کے باوجود وہ جا زم سے نفرت کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔
تمھارے نام پر میں نے ہر آفت سر پہ رکھی تھی
نظر شعلوں پہ رکھی تھی زباں پتھر پہ رکھی تھی
’’تم بہت برے ہو ،مگر میرا دل تمھیں خود سے جدا کرنے کو تیار نہیں۔۔۔تم بہت سنگدل ہو ،مگر میری روح ہر اذیت کے باوجود تم سے جڑے رہنا چاہتی ہے ۔۔۔تم بہت ظالم ہو ،مگر میرا عشق تمھارے ظلم کے آگے ہار رہا ہے ۔۔۔میں تمھارے خوابوں کے چبھتے ٹکڑے اپنی آنکھوں سے نوچ کر پھینک نہیں سکتی ۔۔۔میں تمھاری یادوں کے سوکھے پھول دل کی زمین سے اُکھاڑ نہیں سکتی ۔۔۔میں خود کو مار بھی دوں تو تمھیں اپنے اندر مار نہیں سکتی ۔۔۔ کیوں آخر کیوں ؟ ۔۔۔یہ عشق کی کیسی چال ہے ؟ ۔۔۔ یہ بے بسی کا کونسا مقام ہے ؟۔۔۔میں بے وفائی کی دلدل میں گر کر بھی کیوں تمھارا ہاتھ پکڑے رہنا چاہتی ہوں۔۔۔میرے خدا! میرا نام اُس کی زندگی کی کتاب کے کسی بھی کونے میں لکھ دے یا پھر میرے ٹوٹے دل کے ذرّے ذرّے سے اُسے نکال دے۔‘‘وہ دونوں ہاتھ جوڑے شدت سے دعا مانگ رہی تھی کہ اُسے اپنے دل میں جازم کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ الہامی عشق نے بتا دیا تھا کہ وہ دشمنِ جاں واپس آچکا ہے۔
سحر تک تم جو آجاتے تو منظر دیکھ سکتے تھے
دیئے پلکوں پہ رکھے تھے شکن بستر پہ رکھی تھی
اُس نے آنکھیں کھول کر آس پاس دیکھا ۔ وہ اُسے ہر جگہ دیکھائی دے رہا تھا۔بیڈ سے نیچے لٹکتی شکن آلود چاد ر کے پھولوں میں۔۔۔کھڑکی سے والہانہ لپٹے پردے کی پھڑپھڑاہٹ میں۔۔۔دیوار کے سینے پر آویزاں بولتے آئینے میں۔۔۔خوشبو کو باندھ کر رکھتی نشیلی پرفیوم کی بوتلوں میں۔۔۔وہ کسی جوگن کی طرح جوگ لیے بیٹھی تھی۔ اچانک ایک خیال نے اُس کی ساری بکھری سوچوں کو مربوط کردیا تھا۔یہ اُس کے دل کو ملنے والا وہ اشارہ تھا جس سے اُسے پورا سمندر تو نہیں پر چند قطرے نصیب ہو سکتے تھے۔ وہ ایک پرسکون مسکراہٹ چہرے پر سجائے چادر سنبھالتی ننگے پاؤں چل پڑی تھی۔ہر طرف گھپ اندھیرا تھا اور اُسے صبح سے پہلے اپنی زندگی میں سویرا کرنا تھا۔جازم کے کمرے کے باہر پہنچ کر اُس نے دستک دی اور تب تک دستک دیتی رہی جب تک دروازہ کھل نہ گیا۔
’’کیوں تم بار بار آجاتی ہو ؟۔۔۔کیا تمھیں ہر سوال کا جواب مل نہیں گیا؟۔۔۔کیا چاہتی ہو تم کہ میں اِس حویلی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلا جاؤں؟‘‘ جازم نے آنکھیں ملتے ہوئے آہستگی سے کہا ۔وہ نیند خراب ہو جانے پر سخت بدمزہ ہوا تھا۔
’’جازم مجھے معاف کردو۔۔۔میں نے تمھیں برا بھلا کہا۔۔۔تم سے ناراض ہوئی۔۔۔تم سے لڑی ۔۔۔لیکن میں جان گئی ہوں کہ اِس غصے ، اِن شکایتوں،اِس بیوفائی کے باوجود بھی میں تمھارے بغیر نہیں جی سکتی۔‘‘
’’مت کرو ایسا جیون۔۔۔مت کرو ایسا۔۔۔اِن حرکتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘‘
وہ روتے ہوئے اُس کے قدموں میں گری تو وہ جھنجھلاتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔
’’ تم کر لو اُس لڑکی سے شادی ،مگر مجھے بھی خود سے جدا نہ کرو۔وڈیروں کی دو شادیاں بھی تو ہوتی ہیں۔اُسے چاہے تم اِس حویلی کی ملکہ بنا دو ۔پورا گلستان اُس کے نام کردو،مگر میرے لیے تمھاری چاہت کا ایک پھول ہی کافی ہے ۔‘‘وہ اپنے لفظوں کی بازگشت سے خود ہی سسک پڑی تھی۔
’’تم نے اپنی محبت کو ضد بنا لیا ہے اور اُس ضد کی خاطر تم اپنے آپ کو گرا رہی ہو۔بھیک میں ملنے والی محبت کا کیا کرو گی تم؟ کتنے دن خوش رہو گی آخر ؟کتنے سال یہ ظرف نبھاؤ گی؟‘‘ جازم نے عاجز آتے ہوئے سخت سوال اُٹھائے۔
’’پہلے یہ خواہش تھی اور اب یہ خواہش سے آگے کی کوئی منزل ہے ۔محبوب سے مانگنے میں قد چھوٹا نہیں ہوجاتا ،بلکہ دل بڑا ہوجاتا ہے۔میں نے اپنا دل بڑا کر لیا ہے جازم ۔مجھے اُس بھیک کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہے جس سے میرا چین سکون وابستہ ہے۔‘‘جیون کا جواب خالص جذبات سے لبریز تھا۔
’’کسی بھی صورت میں اور کسی بھی شرط پر میں تم سے شادی نہیں کرسکتا۔۔۔میری جان چھوڑ دو۔۔۔چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔چلی جاؤ ۔‘‘ جازم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بے رخی سے رخ موڑ لیا ۔
’’اِس کمرے کے باہر اب میرے لیے کوئی امید نہیں۔‘‘ جیون کی کانپتی آواز بھیگنے لگی تھی ۔
’’مجھے اِس سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘جازم کے انداز میں بے پروائی تھی۔
’’اِس حویلی میں آگ لگ جائے گی۔‘‘وہ پلکیں جھپکائے بغیر صدمے سے بولی۔
’’مجھے اِس کی پرواہ نہیں۔‘‘جازم نے بدمزاجی سے کہا۔
’’جیون ہمیشہ کے لیے جل جائے گی۔‘‘اُس نے گیلی پلکیں گرا دیں۔
’’مجھے اِس کی بھی پرواہ نہیں۔‘‘جازم کا لہجہ سفاک تھا۔
اور وہ پھر چین سے سوگیا ،مگر جیون نے آخری امید بجھاتے ہوئے ایک بے رحم فیصلہ کیا تھا ۔سورخ کی کرنیں پھیلنے سے پہلے حویلی میں شعلے بھڑک اُٹھے تھے اور یہ آگ کہیں اور نہیں جیون کے کمرے میں لگی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...