’’گورنمنٹ جاب ہے، آدمی شریف ہے، شادی تو کر لوں لیکن اس کی تعیناتی کسی دور دراز قصبہ میں ہے، وہاں تو کوئی مناسب سکول بھی نہیں ہو گا، بچے کہاں پڑھیں گے!!‘‘۔
سارہ نے حیران نظروں سے لفظوں سے خراٹے بھرتی جمیلہ کی طرف دیکھا جو اپنی شادی کے خواہشمند امیدواروں کی فہرست خوبیوں خامیوں سمت گنوا رہی تھی۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ جمیلہ ایک تعلیمی ادارے میں استاد تھی۔ اپنی کولیگ سارہ کو اپنے گھمبیر سائل تفصیل سے بیان کرنے کی عادی تھی۔
’’توبہ ہے ان لوگوں کی آنکھوں کی جگہ دوربینیں فٹ ہیں۔ اپنے دریچوں سے دوسروں کے آنگنوں میں جھانکتی رہتی ہیں‘‘
ایک ہی سانس کے بعد جمیلہ نے سلسلہ، کلام جوڑا ’’پہلے انہی لوگوں کو یہ فکر ستاتی تھی۔ جمیلہ کا ریزلٹ آ گیا۔۔ کیا ایگریگیٹ بنا؟ اور اب ہر آنے جانے والا ایک ہی سوال اٹھائے ہوتا، ’’کہیں بات طے کی‘‘
جمیلہ ناک پر چنٹیں ڈال کر بولی، سارہ نے اچنبھے سے بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’لیکن جمیلہ! بچے کون سے؟ جن کے لیے سکول نہ ہونے کی فکر تمہیں ہے؟؟‘‘
’’بھئی! شادی ہو گی تو بچے بھی ہوں گے نا‘‘ جمیلہ نے سارہ کی کم فہمی کو لتاڑتے ہوئے کہا۔
سارہ کا بے ساختہ قہقہہ۔ ’’اف! اتنی دور اندیشی!‘‘ جمیلہ نے گول شیشوں والی نظر کی عینک کو ناک پر جماتے ہوئے بڑی مہارت سے اپنے فربہی مائل جسم کو چار انچ کی پنسل ہیل پر سنبھالا دیا۔ ’’اب تمہاری جیسی ملنگ تو ہوں نہیں، انسان کو ہر پہلو سے سوچنا چاہیے‘‘
ڈھیلے ربر بینڈ سے کچھ نکلے، ادھ کھُلے ذرا بکھرے بالوں والی سارہ اور سیدھی مانگ نکالے، بال کھینچ کر جوڑے میں باندھے گھڑی کی سوئی کی طرح تواتر سے بولتی ہوئی جمیلہ میں خوب نبھتی تھی۔ سارا دن سکول ہی میں گزر جاتا تھا۔ پرائیویٹ سکول زیادہ ہی ایفی شینسی دکھانے کیلیے کچھ ضروری اور بہت غیر ضروری کاموں میں شام تک الجھائے رکھتا۔
یونہی آتے جاتے کہیں ذرا تھم کر یا کسی مشترکہ پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے دونوں میں گپ شپ رہتی۔
ہاں اور ناں کے بیچ ڈولتے ایک روز جمیلہ کی نسبت طے ہو گئی۔ جمیلہ منگنی پر ملے تحائف کی تفصیل بتاتی رہی۔ سارہ نے غور سے جمیلہ کے خوشی سے لال ہوتا چہرہ دیکھا۔ تو دل میں ایک کسک سی محسوس کی اسی کسک نے سارہ سے کئی سالوں سے ملتوی ہوتا فیصلہ بھی کروا لیا۔
جمیلہ سارہ کے دل میں برپا اتھل پتھل سے بے نیاز اپنی ہر خوشی میں بولتی گئی۔
’’بہت اچھی پوسٹ پر ہے، خوش شکل، دھیمے مزاج والا، ہر بات پرفیکٹ سے بس اس کے شہر میں کوئی اچھا سکول نہیں ہے‘‘
سارہ کی خوشحالی یکدم غائب ہو گئی۔ جھنجھلا کر بولی ’’یار! بس بھی کرو جب تک بچے ہوتے ہیں۔ سکول بھی بن جائے گا۔ سکولوں کا کیا ہے! جا بجا برساتی کھمبیوں کی طرح اگتے نظر آتے ہیں‘‘۔
سارہ جمیلہ کے پاس سے اٹھ کر سٹاف روم سے باہر نکل گئی۔ پھر دونوں میں کوئی ان دیکھا سا پردہ مائل ہو گیا۔ ہیلو ہائے موسم پر تبصرہ کے علاوہ کوئی بات ہی نہ ہو پاتی۔
جمیلہ نے کئی بار سارہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن سارہ کنی کترا جاتی۔ آخر اس نے سکول لائبریری میں سارہ کو نوٹ بکس کی جانچ کرتے ہوئے گھیر ہی لیا۔
’’بات تو سنو!‘‘ جمیلہ نے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ہوں‘‘ سارہ نے سر اٹھائے بغیر ہنکارا بھرا۔ اس کی انگلیوں میں دبا پین جلدی سے ٹِک مارک کرتا جا رہا تھا۔
’’بہت ہی سنجیدہ بات ہے ذرا توجہ سے سنو‘‘
جمیلہ منمنائی۔
’’بولتی جاؤ سن رہی ہوں توجہ کے لیے صرف اپنے کان دان کر سکتی ہوں‘‘۔
’’سارہ! اس کا فون آیا تھا۔‘‘
’’اس کا! کس کا؟‘‘
’’لیاقت میرے منگیتر کا‘‘
’’اچھا! منگیتر کا فون آیا۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’اوہ نہیں اے دانش مند الو! اس نے مجھ سے اک عجب بات کہی‘‘
’’اس کی تو ساری ہی باتیں انوکھی ترالی ہیں۔‘‘
’’مذاق نہیں میں سیریس ہوں۔‘‘
’’تم کب سیریس نہیں ہوتی؟‘‘
جمیلہ: ’’بات یہ ہے میرا مطلب ہے‘‘
سارہ: ’’تم سیدھی سادی بات بتاؤ۔ مطلب میں خود ہی سمجھ لوں گی‘‘
جمیلہ: تم جانتی ہی ہو کہ اگلے ماہ میری شادی طے ہو گئی ہے‘‘
سارہ: ’’جی‘‘
جمیلہ: ’’وہ کہتا ہے‘‘
سارہ: ’’ہوں؟‘‘
جمیلہ: ’’وہ کہتا ہے‘‘‘
سارہ نے نظریں اٹھا کر قلم کاغذ پر پٹخا اور بولی ’’اب وہ بک بھی چکے کہ کیا کہتا ہے!‘‘۔
جمیلہ جلدی سے ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔
’’وہ کہتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی جسمانی مسئلہ ہے میڈیسن لے رہا ہے تین ماہ کا کورس ہے ٹھیک ہو جائے گا اس کے خیال میں کسی پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی کو اس بات کا ایشو نہیں بنانا چاہیے‘‘
سارہ نے حیرانی سے پوچھا، ’’کیا کیا؟ دوبارہ کہو!‘‘۔
جمیلہ نے کسی رٹے ہوئے سبق کی طرح ساری بات دوبارہ دہرا دی۔
سارہ: ’’لیکن وہ تمہارے بچے! سکول! پڑھائی!‘‘۔
جمیلہ پریشانی سے ہاتھ کے ناخن دانتوں سے کترتے ہوئے بولی۔ ’’اب کیا کروں؟ کارڈ تک چھپ چکے۔ اتنی دھوم دھام سے تو منگنی ہوئی تھی۔ ایسا اچھا رشتہ دوبارہ ملنے کا بھی نہیں۔ کوئی ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ تو معمولی سا مسئلہ بنا۔ دوائیاں کھا رہا ہے، ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ ہے نا؟؟‘‘
سارہ: ’’اب مجھے کیا خبر کہ ٹھیک ہو جائے گا کہ نہیں!‘‘۔
سارہ تو اپنی متوقع شادی کے تھکا دینے والے سمجھوتوں کی بار بار کھلتی گرہ کو گانٹھ پر گانٹھ لگانے میں الجھی ہوئی تھی۔
’’شادی تو اگلے ماہ میری بھی طے ہے‘‘ سارہ نے لاتعلقی سے سرسری سا ذکر کیا۔
جمیلہ چونکتے ہوئے ’’ہیں۔۔؟‘‘ سارہ نے جمیلہ کی آنکھوں میں سے جھانکتے سوالوں سے نظریں چرا کر نگاہیں ہاتھ میں تھمی نوٹ بک پر جما دیں۔ ایم سی کیوز پر ٹِک کرتے ہوئے سوچا۔ ‘‘زندگی کس قدر محدود انتخابی آپشن دیتی ہے‘‘۔
سارے سوال سارہ کے سپاٹ چہرے سے ٹکرا کر لوٹ آئے۔ جمیلہ تو مجسم سوالیہ نشان تھی، ’’مجھے بتا! میں کیا کروں؟‘‘
سارہ ہنستے بولی، ’’چڑھ جا بچہ سولی، رام بھلی کرے گا‘‘ جمیلہ سے اس بے بس ہنسی کا ہاتھ تھاما نہ گیا۔ بے قرار انگلیاں میز پر طبلہ بجاتی رہیں کہ گھنٹی ٹن ٹن بج اٹھی۔ سارہ نوٹ بکس سنبھالے کلاس روم کی جانب چل پڑی۔ جمیلہ وہیں بیٹھی بکھری سوچوں کا چوگ چنتی رہی۔
وقت نے تالی بجائی۔
’’ایکسکیوز می میم!‘‘ ایک کھنکتی آواز نے مارٹ پر کھڑی سارہ کو چونکا دیا۔ تر و تازہ چہرے اور مسکراتی آنکھوں کے ساتھ نوجوان لڑکی اُس سے مخاطب تھی۔ ’’آپ ٹیچر سارہ ہیں؟‘‘
’’جی‘‘۔ سارہ نے مانوس لیکن اجنبی چہرے کی طرف دیکھا۔
’’ٹیچر! میں عالیہ ہوں، آپ کی سٹوڈنٹ آپ ہمیں نویں جماعت میں اُردو پڑھایا کرتی تھیں‘‘
سارہ نے پہچانتے ہوئے پیار سے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اس کے گال چھوئے۔ ’’اوہ عالیہ، کہاں ہوتی ہو اور آج کل کیا کرتی ہو؟‘‘
’’ٹیچر میں ریڈیالوجسٹ ہوں‘‘ عالیہ نے پر جوش ہوتے ہوئے کہا، ’’آپ کو ہم سب نے بہت یاد کیا۔ اچانک ہی جاب چھوڑ گئیں اور دوبارہ ملنے بھی نہیں آئیں۔‘‘
سارہ نے مسکراتے ہوئے عالیہ کے ساتھ کھڑی ڈھلتی عمر کی عورت کی طرف دیکھا۔ جس کی آنکھوں کی ویرانی اس کے زیورات کی چمک کو ماند کر رہی تھی۔ سلیقے سے کیا ہوا میک اپ، جوڑے میں کس کر بندھے بال بھی بدن سے نکلتی وحشت سنبھال نہیں پا رہے تھے۔
وہ عورت اپنے ہونٹ سختی سے بھینچے ایک ٹُک سارہ کو دیکھ رہی تھی۔ سارہ نے عالیہ کی طرف دیکھا۔ ’’ٹیچر آپ نے پہچانا نہیں؟۔۔ جمیلہ۔۔ میری خالہ بھی تو ہیں‘‘ سارہ ششدر سی رہ گئی۔ وقت جیسے طمانچے مارتا گزر گیا ہو۔ بوکھلا کر اپنا آپ جمیلہ کی آنکھوں میں دیکھا تو وہاں بھی ایک پژمردہ تھکی ماندی عورت ’’ہائے! وہ چونچال سی سارہ کہاں گئی؟ دوسروں کو خوش کرتے رکھتے اپنا آپ تو کسی بیوٹی سوپ کی طرح گھل گیا‘‘
جمیلہ کے آنکھوں میں آنسو تھے ’’یہ خوشی کے آنسو ہیں کیا؟‘‘ عالیہ نے آنسوؤں سے خوشی چھاننے کی کوشش کی۔
’’سارہ! آؤ کہیں بیٹھتے ہیں۔‘‘ جمیلہ بولی ’’نہیں آج نہیں‘‘ سارہ نے ملول سا ہو کر کہا۔ ’’آج بالکل فرصت نہیں ہے، گھر بہت کام ہے۔ بچے سکول کالج سے واپس آنے والے ہیں‘‘ پھر ذرا رک کر پوچھا: ’’جمیلہ! کتنے بچے ہیں؟ کوئی پیر فقیر کوئی آستانہ دربار نہیں چھوڑا جہاں جا کر منت نہ مانی ہو۔ اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ بس تم دعا کرو‘‘
جمیلہ کی رندھی ہوئی آواز میں التجاء کرب اور جانے کیا کیا تھا۔ سارہ لرز کر رہ گئی۔ اس نے جمیلہ کا ہاتھ پکڑا اور اُسے لے کر ایک طرف لگے صوفے پر بیٹھ گئی۔ سیل کا نمبر لیتے ہوئے اس کا حال احوال پوچھا۔ ’’تمہارے میاں کیسے ہیں؟ ٹھیک ہیں؟‘‘
جمیلہ نے کچھ بولے بنا نفی میں سر ہلا دیا
’’سارہ، وہ جو علاج۔۔۔؟‘‘
جمیلہ نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا، کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ لیکن سارہ! وہ مزاج کے بہت اچھے ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتے ہیں یہ دیکھو۔۔۔‘‘ جمیلہ نے اپنی کلائی سجی سنہری چوڑیاں دکھاتے ہوئے کہا ’’یہ انہوں نے شادی کی سالگرہ پر مجھے گفٹ کیا ہے‘‘
سنہری چوڑیوں کی آب میں جمیلہ کا زرد چہرہ جگمگا اٹھا۔ پھر چہرے پر ایک سایہ پھیلا جیسے گرہن نے سورج کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ ’’میں نے ایک مزار پر جانا ہے۔ ساتھ جانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہو رہا‘‘
’’مزار کہاں؟‘‘ سارہ نے پوچھا
نزدیک ہی ایک گاؤں کے پاس کسی بزرگ کا مزار ہے۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ وہاں بڑی پہنچ والے پیر آئے ہیں۔
سارہ جمیلہ کو ٹوکتے ہوئے بولی۔ ’’تم دونوں میاں بیوی کو کسی اچھے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے‘‘
جمیلہ نے سارہ کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے بیتابی سے کہا۔ ’’کل کا پروگرام بنا لو، میں کار خود ڈرائیو کر لیتی ہوں‘‘۔
سارہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہامی بھرنا پڑی اگلے ہی روز بہت ساری مٹھائیاں اور پھل نذرانے کے لیے اٹھائے دونوں ایک چھوٹے سے پختہ کمرے سے باہر کھڑی تھیں۔ کمرے کے چھت پر کسی اناڑی کے ہاتھوں بنا گنبد تھا۔ جس پر سبز رنگ کا وارنش کیا گیا تھا۔
جنڈ لیگر کے درختوں نے مزار گھیرے میں لے رکھا تھا۔ کمرے سے باہر احاطے میں رنگ برنگے کپڑوں کی جھنڈیوں سورج کی تپش، ہواؤں کے تھپیڑ سے سہ کر ایسی بے حال پڑی تھیں کہ پھڑپھڑانے کی بھی سکت نہ تھی۔
بارش کو ترستی، دھول مٹی سے اٹی آک کی جھاڑیاں حدِ نظر تھیں۔ برگد کا بوڑھا درخت لمبی جٹائیں لیے جھوم رہا تھا۔
سارہ ہول اٹھی ’’یہ تو جنوں بھوتوں کا ڈیرہ لگتا ہے‘‘۔
’’شش!‘‘ جمیلہ نے سرگوشی کی
’’کوئی بے ادبی نہ کر دینا کہیں بابا جی جلال میں نہ آ جائیں۔ انہیں سب خبر ہوتی ہے‘‘۔
سارہ ششدر سی انگلش لٹریچر کی ڈگری ہولڈر کو دیکھتی رہ گئی۔
جوتے کمرے سے باہر اتارے۔ دونوں کمرے میں داخل ہو گئیں۔ کمرے کا ایک داخلی دروازہ تھا کوئی کھڑکی نہ تھی ایک طرف زمین پر چھوٹے سے ابھار کو کوٹے بچکے والے سبز کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔
سانتا کلاز کی طرح بابا کی بھی صرف آنکھیں اور ناک کی پھنگ نظر آ رہی تھی۔ لیکن پیٹ تک پھیلی ہوئی داڑھی الجھی ہوئی ملگجی تھی۔ انگلیوں میں بڑے بڑے رنگ برنگے پتھروں کی انگوٹھیاں گلے میں ملنگوں کا ہار۔ بابا زمین پر آتی پالتی لگائے بیٹھا تھا۔ بے اولاد عورت کو اولاد دینا بابا کی سپیشلٹی تھی۔
نیم دائرے میں عورتیں بیٹھی تھیں سارہ نے ایک کونے میں دبک کر بیٹھتے ہوئے عورتوں کو جائزہ لیا۔ کچھ پسینے اور سرسوں کے تیل کی ملی جلی سڑاند لیے دیہاتی عورتیں تھیں۔ چند مہنگے پرفیوم کی مہکار لیے برانڈڈ لان کے سوٹ میں ماڈرن عورتیں۔ لیکن سب نے اپنے آپ کو بڑی چادروں میں اچھی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ سارہ نے اپنا دوپٹہ ماتھے تک لا کر اپنے گرد لپیٹا۔ اپنی باری پر ہر عورت بابا کے پاس دو زانو بیٹھ جاتی۔ پیر بابا اونچی آواز میں عربی کے کچھ الفاظ بولتا۔ پھر زور دار تھپڑ عورت کی کمر پر سرین سے ذرا اوپر لگاتا اور کہتا ’’جا مولا تجھے ہری کرے‘‘۔ زور دار تھپڑ سے عورت ہل کر رہ جاتی اوسان بحال ہوتے ہی کچھ نوٹ بابا کے نیچے بچھی دری کے نیچے کھسکا دیتی۔ پھر الٹے پاؤں ایسے باہر دروازے کی طرف چلتی جیسے گاڑی ریورس میں جاتی ہے۔
احاطے میں ایک بڑے ٹوکرے میں پانی کی بھری پلاسٹک کی بوتلیں لیے ایک ملنگ دم والا پانی کچھ نوٹوں کے عوض تقسیم کر رہا تھا۔
جمیلہ نے بھی تھپڑ کے بعد دم والی پانی کی بوتل وصول کی۔ گاڑی میں بیٹھ کر اے سی آن کیا۔ حواس باختہ سارہ کی طرف دیکھ کر بولی۔ ’’پیر بابا بڑی کرنی والا ہے، تم دیکھنا!‘‘۔
پیر بابا تو واقعی کرنی والا نکلا۔ ایک دن جمیلہ احتیاط سے پاؤں زمین پر رکھتی ہوئی سارہ کے گھر تھی۔ خوش اور بڑے ہوئے پیٹ کی وجہ سے جامے میں نہیں سما رہی تھی۔ ’’دیکھا سارہ! میں نے کہا تھا نا۔‘‘
سارہ حیرانی اور خوشی کے ہنڈولے میں چکراتی بمشکل بولی۔ ’’کونسا مہینہ چل رہا ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ چھٹا ماہ ہے‘‘ جمیلہ نے جواب دیا۔ ’’خیال کیا مطلب؟ ڈاکٹر سے چیک نہیں کروایا؟‘‘ سارہ بولی۔
جمیلہ دونوں ہاتھ کان کی لوؤں سے لگا کر بولی۔ ’’نہیں پیر بابا نے سختی سے ڈاکٹر کے پاس جانے سے منع کیا۔ بس ہر ماہ مزار پر حاضری دینا لازمی ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی تو حمل کا کیسے پتہ چلا؟‘‘ سارہ کے تو سوال ہی ختم نہ ہوتے تھے۔
’’سادہ سی بات ہے۔ ماہواری کو بند ہوئے چھ ماہ ہو گئے ہیں‘‘۔
سارہ کے کچھ بولنے سے بیشتر ہی اس کا ہاتھ اٹھا کر اپنے پیٹ پر رکھا۔ ’’حرکت بھی ہوتی ہے‘‘۔
’’اچھا مجھے کچھ کھانے کو دو۔ بھوک بہت زیادہ لگتی ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہوں‘‘۔
جمیلہ نے ہنستے مسکراتے کچن کا رُخ کیا۔ سارہ اپنے ہاتھ میں جنبش ڈھونڈتی ہی رہ گئی۔
ہر ماہ کیلنڈر اپنا صفحہ پلٹ دیتا۔ ہر بار سارہ چیک اپ کے لیے اصرار کرتی۔ لیکن جمیلہ کے ایمان میں ذرا سی دراڑ نہیں آئی۔
’’نہیں پیر بابا نے منع کیا ہے۔ جب درد لگیں گے تو دائی گھر ہی میں بلوا لوں گی‘‘۔
بے تحاشا کھانے کی وجہ سے وزن کے ساتھ امیدیں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ جب کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا تو سارہ فکر مند ہوئی۔ جمیلہ کے میاں سے اصرار کیا کہ اب ہر صورت ڈاکٹر کو دکھا لینا چاہیے۔ جمیلہ نے شور مچا دیا۔ ’’نہیں مجھے کسی ڈاکٹر شاکٹر کے پاس نہیں جانا‘‘۔
جمیلہ کا میاں بے بسی سے دونوں کی طرف دیکھتا رہا۔ منت سماجت کے بعد جمیلہ چیک اپ کے لیے راضی ہو گئی۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ امیدوں آرزوؤں کا منہ چڑا رہی تھی۔ لیڈی ڈاکٹر نے کہا ’’ایسی کوئی بات نہیں ہے زیادہ مٹاپے سے بھی ماہواری آنا رک جاتی ہے۔ میں دوا لکھ دیتی ہوں۔‘‘
جمیلہ خاموشی سے آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ مین روڈ پر آتے ہی خاموشی کو ہسٹریائی چیخوں نے شیشے کی دیوار کی طرح چکنا چور کر دیا۔ لیاقت کے لیے گاڑی کا سٹیرنگ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ جمیلہ نے دروازہ کھولا۔ رُکتی ہوئی کار میں سے باہر چھلانگ لگا دی۔ ہاتھوں کانوں سے زیور نوچ کر سڑک پر پھینک دیے۔ لیاقت نے جلدی سے گاڑی سائیڈ پر لگائی۔ سامنے آتے ٹرک سے بچانے کے لیے دوڑ کر جمیلہ کو اپنے کلا وے میں لے کر ایک طرف کیا۔
جل تو جلال تو، مٹی کا پاوا قابو میں نہیں آ رہا تھا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...