گندھے مٹھی بھر آٹے کو ہتھیلی پر جمایا۔ انگلیوں کی جنبش اور ہتھیلی کی رگڑ سے گولائی میں لا کر چکلے پر پٹخ دیا۔ بیلن سے اُس کے کس بل سیدھے کئے۔ چپاتی کو ہاتھ سے پھیلا کر جلتے توے پر پھینکا۔ روٹیاں بناتی جینا جیسے اشاروں میں اپنی حیاتی بیان کر رہی تھی۔
توے کے سیک کو ناکافی جان کر روٹی کو چمٹے سے پکڑ کر شعلوں کی لپکتی بھڑکتی زبان پر ذرا دیر کو ٹکاتی۔ پھولے ہوئے سنہرے پھلکے کو پلیٹ میں رکھ کر ایسی تیزی سے ڈائننگ ٹیبل پر رکھ آتی کہ میز کے چار جو فیرے عبد الرحمان، بیگم صاحب اور تینوں بچوں کو آتی جاتی کا پرچھاواں ہی نظر آتا۔ روٹی پل بھر میں شکم کی اتھاہ گہرائیوں میں غائب ہو جاتی۔
زرینہ اور ڈرائیور منظور اس گھرانے کے پرانے ملازم تھے۔ خاموش طبع، سر آنکھیں جھکا کر رکھنے والے، اسی واسطے مالکان کے منظور نظر تھے۔ زرینہ کے بالوں کی سیاہی میں دھیرے سفیدی گھلی جا رہی تھی۔ لیکن ’’خدا کے گھر دیر ہے اندھیرا نہیں‘‘ نے آس جوان رکھی تھی۔
زرینہ کوئی پل فارغ نہ رہتی۔ گنگناتے ہوئے کمے کجے لگی رہتی۔ ’’عرش منور مِلیاں بانگاں۔۔۔۔‘‘ سننے والیاں اپنے ناک بہتے، میل سے اٹے بچوں کے کمر پر دھموکا مارتے ہوئے کہتیں۔ ’’اونہ! اوتری نکھتری کے گاون دیکھو‘‘۔
سرگوشی کانوں میں سرسراتی: ’’کوکھ جلی نے جانے کس مولبی سے تاویج کروائے ہیں۔ گالی گلوچ دور کی بات ہے، خاوند اونچی آواز میں بولتا نہیں‘‘۔
حسرت آہ بھرتی: ’’ہا ہائے بچوں سے گھر بھر دیا۔ جرا سالن میں نمک تیج ہو جائے ماں بہن کچھ نہیں چھوڑتا‘‘۔
لیکن اس بانجھ کوکھ والی گود میں ممتائی نگھ تھی اسی گود میں اس گھر کے تینوں بچے ہمکتے پروان چڑھے تھے۔ تتلاتی زبان میں ’’جینا۔۔۔ جینا‘‘ بولتا ہوا بنٹی اب ’’ماشاء اللہ‘‘ سکول جانے لگا تھا۔ جب سے سکول جانے لگا تھا، لفظ ’’جینا‘‘ سے مٹھاس نچڑ گئی تھی۔ اب اس میں صاحب کے تحکم کی کڑواہٹ اور بیگم صاحب کے طنطنہ کی کھٹاس تھی۔
لفظ کا ذائقہ بدل گیا تھا لیکن ’’جینا‘‘ کی پکار سنتے ہی بے اختیاری ممتا بنٹی پر واری واری جاتی۔
بنٹی نے چمچ پلیٹ پر بجاتے شور مچایا۔ ’’مجھے روٹی نہیں کھانی۔۔۔ موم پلیز۔۔۔ پیزا‘‘۔
بنٹی نے کسی نئے لگام میں جتے بچھڑے کی طرح ایڑیوں سے فرش بجایا۔ سات سال کا بنٹی منہ لال کئے شیر خوار کی طرح اوں آؤں کرتا آنسوؤں کے ساتھ رو رہا تھا۔
میاں عبد الرحمن نے میز پر دھری کئی ڈشوں پر نظر دوڑا کر ڈپٹ کر کہا ’’جو گھر میں بنا ہے وہی کھاؤ‘‘۔
صوفشاں فروزاں نے فرمان حتمی جان کر بے دلی سے سامنے رکھی رکابیاں اپنے آگے کھسکا لیں۔
بنٹی نے سہم کر نوالہ منہ میں گھسیٹا اور آخ آخ کرتا ہوا سنک کی طرف بھاگا۔
’’بھاڑ میں جائے گھر کا کھانا‘‘ ماما بڑبراتے ہوئے فون پر آرڈر ٹائپ کرنے لگی۔ صوفشاں، فروزاں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے رکابیاں پھر پرے کھسکا دیں۔
بابا اپنی پلیٹ سے کھانا چگتے ہوئے لفظ کمپیوٹر میں فیڈ کی ہوئی ایک ہی ٹون جیسی آواز میں کئی بار بولے گئے لفظ دہرانے لگے:
’’دن بدن غبارے کی طرح پھولتا جا رہا ہے۔ اس کا کیا فیوچر ہو گا!!۔ گریڈ بی سے آگے بڑھتا ہی نہیں۔ نرسری کلاس سے قاری آ رہا ہے کلاس ون میں پہنچ گیا نہ قرآن ختم ہوا نہ نماز پڑھنی آئی۔
۔۔۔ فروزاں، صوفشاں اس عمر میں فرفر دعائے قنوت آیت الکرسی سناتی تھیں۔ اس ایڈیٹ کو دوسرا کلمہ یاد نہیں ہو رہا۔ ہر وقت ٹیبلٹ پکڑے وڈیو گیمز میں مگن ہے۔ زمانہ۔۔۔ کمپٹیشن۔۔۔ فیوچر۔۔۔‘‘
بنٹی آنکھ کا تارا تھا۔ ہر وقت نگرانی کرتی آنکھوں کے حصار میں رہتا تھا۔ سویرے بابا کے ساتھ نماز پڑھتا تو سجدہ ہی میں سر رکھے سو جاتا۔ بابا کا ٹھوکا اسے جگاتا پھر نیند جھولا جھلا دیتی۔ ماما کی آنکھوں میں تو ہر وقت چنتا چتون ہی راک رول کرتے نظر آتے۔ کارٹون دیکھتے ہوئے منہ میں توس ٹھونستا۔ جینا جلدی سے فرش پر بیٹھ کر اس کے بوٹوں کے تسمے باندھتی۔
رف کپڑے سے بوٹ ایک بار پھر رگڑ کر چمکاتی۔ گھنٹوں پر ہاتھ رکھ کر اُٹھتے ہوئے گھٹنے کڑ کڑ ایسے کرتے جیسے ہارر موویز میں کھوپڑیاں دانت بجاتی ہیں۔ لنچ باکس بیگ میں رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ پانی کی فلاسک تھامے بنٹی کی طرف لپکتی۔ جو پورچ میں کھڑی کار تک پہنچ کر ’’ڈرائیور انکل۔۔۔ ڈرائیور انکل‘‘ کی صدا بلند کر رہا ہوتا تھا۔
سفید تکونی ڈاڑھی، انڈے کے خول جیسی بیضوی چندیا۔ ناٹے سے قد کا منظور، وسیع دالان کے کسی کونے کھدرے سے نکل کر اچھل اچھل کر چلتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولتا۔ سنو وائیٹ کے دلارے بونوں میں سے ایک لگنا۔
سکول پہنچنے تک بنٹی ایسے چونچال پرندے کی طرح چہکتا جسے لمحہ بھر کیلئے پنجرے سے نجات ملی ہو۔ منظور آنکھوں میں ہنسی، آنکھوں میں مسکراہٹ لئے سنتا رہتا۔ کوشش کرتا کم ہی بولے۔
’’صاب جو ناراض ہوتے ہیں کہ تم پنجابی بول کر چھوٹے صاب کی زبان خراب کرتے ہو‘‘۔
ماما عربی میں دُعائیں پڑھ کر پھونکتی تھی۔ انگریزی ہی میں بنٹی سے بات کرتی۔ بنٹی بھی اسی لہجے میں اپنے فٹ بال جیسے پالتو کتے چارلی سے گفتگو کرتا۔
’’کم ہیئر۔۔۔ گو دیئر۔۔۔ سٹ ڈاؤن۔۔۔ سٹینڈ اپ۔۔۔!
چارلی بھی تو بس انگریزی ہی سمجھتا تھا۔ ’’ویری اوبی ڈینٹ سمارٹ چارلی‘‘۔ جب بھی بنٹی ’’ہینڈ واش‘‘ بولتا۔ ہمیشہ اگلے دو پنجے ہی اُٹھاتا۔
’’ڈرائیور انکل! اس برڈ کا کیا نام ہے؟‘‘ بنٹی نے درخت کی شاخ پر جھولتے پرندے کی طرف اشارہ کیا۔ منظور نے جھجکتے ہوئے کہا: گھگی اے صاب‘‘۔ بنٹی اپنی رٹائی کی عادت سے ’’گو گی، گو گی، دہرانے لگا۔
’’اچھا آ آ آ! اس ٹری کا نام بتاؤ؟‘‘ منظور کی نظروں نے انگلی کے اشارے کا تعاقب کیا۔ پستہ قامت درخت، نہ چھاؤں نہ پھل پھول۔ بے بسی سے بولا۔ ’’چھوٹے صاحب! مجھ کو یہ سب آندا ہوتا تے فیر میں ڈریبر ہوتا!!!‘‘۔
بنٹی کے لئے ڈرائیور کا کچھ اور ہونا ہی عجیب تھا۔ طوطے کی طرح آنکھوں کے ڈیلے گھما کر بولا۔ ’’ڈرائیور نہ ہوتے۔۔۔ تو پھر کیا ہوتے؟‘‘۔ انکل ڈریبر! پھر ’’ڈریبر‘‘ کو دہراتا ہوا قق قق ہنسا۔ بنٹی کے لئے تو اس چھوٹی سی دنیا میں ہر چیز فکس تھی۔ ہر لمحہ فکس تھا۔ بنٹی نے چہرہ سیدھا رکھتے ہوئے آنکھیں ترچھی کر کے منظور کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھا۔
مسکراتے تو پرنسپل بھی ہیں لیکن آدھے چہرے کے ساتھ۔ ہونٹوں کا ایک کنارہ کھینچ کر کان کی لو تک لے جاتے ہیں۔ منظور کی خاکستری رنگ کی قمیص کے کالر سے سفید بکرم جھانک رہا تھا۔ کالر کے کونے مڑے ہوئے تھے۔
پرنسپل کے سفید براق کپڑوں کا خیال آتے ہی بنٹی نے سوچا: ’’نہیں! منظور پرنسپل نہیں ہو سکتا۔‘‘۔
چھوٹا قد تو پرنسپل کا بھی تھا۔ لیکن وہ ہر دم چھاتی باہر نکالے، ٹھوڑی افق اور نظریں آسمان پر رکھتے تھے۔
بنٹی دزدیدہ منظور کو دیکھتا رہا۔ جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ منظور تو اس جھاڑن کی طرح چُڑ مُڑ تھا جسے جینا نے دھو کر بغیر جھاڑے تار پر ڈال دیا تھا۔ ’’اوہ مائی گاڈ‘‘ موم نے جینا کو کس قدر ڈانٹ پلائی تھی۔ ’’کوئی کام تو ڈھنگ سے کر لیا کرو‘‘۔
’’اور پرنسپل تو اس اکڑے کھڑکھڑاتے سوٹ کی طرح ہیں جو پاپا مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے پہنتے ہیں‘‘۔
’’انکل منظور! آپ ہر وقت سڑک پر کیا دیکھتے رہتے ہیں‘‘۔ چھوٹے صاحب! سپیڈ بریکر دیکھنے پڑتے ہیں ورنہ گاڑی جھٹکا کھا جاتی ہے‘‘۔
منظور نے سپیڈ بریکر کو دی گالی کو اپنی زبان کی نوک سے تالو پر چپکاتے ہوئے کیا۔ جیسے چلتی گاڑی میں دوڑتے مناظر نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی دوڑتے مناظر میں بنٹی ہفاہف رہتا تھا۔ نماز۔۔۔ قاری۔۔۔ تیاری۔۔۔ سکول۔۔۔ ٹیوشن۔۔۔ کمپیوٹر گیم۔۔۔ کمپیوٹر گیم۔
سورج کی جگہ کب چاند آ جاتا بنٹی کو خبر ہی نہ ہوتی۔ ذرا فرصت ملتے ہی ہاتھ میں ٹیبلٹ آ جاتا۔ انگوٹھے کا دباؤ اور ٹھش۔ ٹھاہ۔ ٹھاہ۔
بہت دنوں سے ماما کا بلڈ پریشر ہائی رہتا تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ’’چیزیں اپنی جگہیں سیٹ کیوں نہیں ہیں؟‘‘۔
قاری ہمیشہ شکایت کرتا کہ بنٹی کے ق ک درست نہیں۔ سکول میں بھی اوّل نمبر کی گھڑ دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہ جاتا تھا۔ ’’کمپٹیشن کا دور ہے اس کا کیا فیوچر ہو گا‘‘۔ پاپا فکر مندی سے سوچتے تھے۔
صوفشاں، فروزاں کے سامنے تو بنٹی کے رنگ ماند ہی رہتے۔ چھٹی والے دن بالکونی میں ریلنگ سے چپک کر بنٹی سامنے گراؤنڈ میں بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھتا رہتا تھا۔
تصور ہی میں ہاتھ میں بلا پکڑے وکٹوں کے سامنے جا کھڑا ہوتا۔۔۔ چھکا۔۔۔ تالیاں۔ ریلنگ کی راڈ اس کی گداز ہتھیلیوں میں کھب جاتی اور پھر کئی گھنٹے ان کی جلن ستاتی۔
جینا فکر مندی سے سوچتی۔ ’’چھوٹا صاب جانے کس سے باتیں کرتا، اپنے آپ ہی مسکرائے جاتا ہے‘‘۔ بنٹی کو ہتھیلیوں پر راڈ کے کھباؤ کے نشان میڈل کی طرح دکھتے۔ یہ تو بیٹ پر اس کی مضبوط گرفت کا ثبوت تھے۔
کسی شام صوفشاں، فروزاں کو اپنے حصے کی چاکلیٹ دے کر، ڈھیروں منتیں کر کے اپنے گھر کے لان میں کرکٹ کھیلنے پر راضی کر لیتا۔ پہلے ہی گیند پر آؤٹ ہو جاتا۔ بلّا وہیں پھینک کر گھٹنوں پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیتا تھا۔
صوفشاں، فروزاں پنجوں کے پل اچھلتے ہوئے چھوٹی سی نظم بلند سروں میں تالی کی تال کے ساتھ ہنستے کھکھلاتے گاتیں۔
موٹا آلو پلیلا۔۔۔ دھِکا دو تو گر پڑا۔ بیک گراؤنڈ میوزک میں بنٹی کی ’’ریں ریں‘‘ کی آواز گونجتی۔
بنٹی کو رنگ اچھے لگتے تھے۔ کتابوں پر لکھے ہوئے لفظ اسے تصویر کی صورت نظر آتے۔ وہ لفظ کی صوت سمجھے بغیر اسے تصویر کی طرح کاغذ پر اُتار لیتا۔
ان لفظوں کو من چاہے معنی دیتا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہر پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کے بعد ماما ڈیپریشن میں چلی جاتی۔ پورے گھر میں کھلونا ٹرین کی طرح ہوکتی کوکتی پھرتی۔
سہما ہوا بنٹی منظور سے پوچھتا: ’’انکل ڈرائیور یہ فیوچر کیا ہوتا ہے؟‘‘
منظور کے پاس ایک ہی جواب تھا۔ ’’چھوٹے صاحب مالوم نئیں۔‘‘۔
رات گئے ماما شب بخیر کہہ کر چلی گئی تو بنٹی نے سکیچ بک پر ہنستے کھیلتے بچوں کے اسٹک کیریکیچر بنائے۔ پھر ان کے چہرے بگاڑ کر سب کو ٹھوکروں میں اُڑا دیا۔
کاغذ کے گولے بنا بنا کر کمرے میں بکھیر دئیے۔ ٹیبلٹ پر انگوٹھے کا دباؤ بڑھتا گیا۔ تڑاق تڑاق فائرنگ کرتے ہوئے ہیولے دیواروں سے نکل کر باہر آنے لگے۔ بنٹی کی چیخیں سن کر ماما ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ بنٹی نے مٹھیاں بھنیج رکھتی تھیں۔ منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔
پھٹے کاغذ کے بیچ ٹیڈی بیئر اوندھا پڑا تھا۔ سائیڈ ٹیبل پر ٹیبلٹ ایسے ترچھا ہوا تھا جیسے پہلو میں کہنی ٹکائے بیٹھا ہو۔
بکھراؤ سے ہر دم الجھتی ماما بنٹی کے پاؤں گود میں رکھے، سیل ختم ہوئے کلاک کی سوئیوں کی طرح ساکت تھی۔ میاں عبد الرحمن رات لمحہ لمحہ تسبیح کے دانوں میں پروتا اور گراتا رہا۔ کھڑکیوں کے پردوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی روشنی۔۔
کمرے سے باہر فرش پر پوچا لگاتی جینا کے گنگنانے کی آواز بولائی ہوئی، دیواروں سے ٹکرا رہی تھی۔
بکل دے وچ چور نی
میری بکل دے وچ چور
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...