جیب سے پیلے رنگ کی گاجر نکالی۔ سنو مین کی فٹبال سی کھوپڑی کے درمیان فکس کرتے ہوئے بڑبڑایا: ’’خدیجہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے، قسم سے یار!۔‘‘
’’کیوں مسکراتے ہو۔ اگر پولیس کا ڈر نہ ہوتا تو ٹکا کر ایک چپیٹ دھرتا تمہارے اس گول کدو جیسے منہ پر۔۔۔ اونہہ!۔
کیا کنٹری ہے۔ نہ بندہ روڈ پر تھوک سکتا ہے نہ دھاڑ مار کر رو سکتا ہے، اپنی اولاد کو بھی پلیز پلیز کہنا پڑتا ہے، زیادہ بگڑ جائے تو دم دلاسے واپس پیارے وطن لے جا کر سبق سکھانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ ٹوٹکا بھی تو لڑکیوں پر ہی کارگر ہے۔ اپنے دو صاحبزادوں کا کیا کروں جو بے نیازی سے ہم دونوں کو بائی بائے کرتے بائے پاس کر گئے۔ ایک گوری کے ساتھ رہتا ہے دوسرا کالی کے ساتھ۔ گوری کی تو خیر ہے لیکن کالی کے ساتھ تف ہے یار! چاہے وہ کالی، ریس کی لشکتی، کسی کسائی، مشکی گھوڑی مانند طرحدار ہے۔ لیکن ہے تو کالی! نا ہنجار نے اپنا ہی نہیں ہمارا بھی منہ کالا کیا۔
’’اس کو کیا سمجھ! وہ کیا جانے! کہ کالک سفید بالوں پر زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔
’’سیکس ہماری نسل کے لیے تو تازیانہ تھی، سرد جاڑے کی راتوں میں چاندنی گنگناتا ہوا چاند تھی۔ ایسی گنگناہٹ جس کے سننے والے کانوں میں تپتے گرز ٹھونسے جاتے تھے۔ آج کی نسل کے لیے سیکس بازیچہ ہے، کھیل تماشا ہے۔ محض بدنی ضرورت سے بڑھ کر نہیں جانتے، آج کے افلاطون!۔۔۔۔۔ یار سنو مین! یہ جو ارتقا کا نظریہ ہے، یہ جو ترقی ہے، جدت ہے، کہیں ایک بڑے وسیع دائرے ہی میں تو نہیں وقوع پذیر ہو رہی؟۔ اتنا وسیع دائرہ جس کے دونوں انت ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔؟‘‘۔ قیوم روئی جیسے ملائم برف کے گولے بنا بنا کر سنو مین کے تن پر تھوپتا رہا، جیسے اُس کے بچپن میں دیہات میں عورتیں گوبر کے اپلے مٹی کی دیواروں پر تھوپتی تھیں۔ یہ ہنر کاری جو پچپن میں دیکھی گئی، اب کام آ رہی تھی۔ کچھ سال قبل قیوم پیارے وطن گیا تھا۔ اپنے ننھیالی گراں بھی گیا جو گلزار کے دینے کے پاس تھا۔ گلزار کا دینہ پشمینہ گندگی سے اٹا پڑا تھا۔ شاعر کے تخیل میں جو دنیا بہشت سے کم نہیں ہوتی۔ حقیقت میں اس کی تعمیر دوزخ کی اینٹوں سے ہوتی ہے۔ بل کھاتی گلیاں جو محبوبہ کی بانہوں کی طرح گلے میں حمائل ہوتی تھیں، اب ان میں اجنبیت در آئی تھی۔ پلٹ کر آنے کی چاہت اپنی جگہ لیکن بندہ پلٹے بھی تو کس برتے پر!!! سنجڑاں نے بوہے تے چق تان لئی۔ کمپیوٹر نے ڈاک خانے بند کروا دیے۔ پیارا دلبر لیٹر باکس بھی رب کو پیارا ہوا۔ اب پیا جی کو چٹھی بھیجنے واسطے سوشل میڈیا موجود ہے۔
پیا نام کا دیا جلے ہے ساری رات۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب چاہو پیا کو بلاک کرو، نیا پیا ڈھونڈ لو۔ بے شک سائنس نے انسان کو بہت آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ ورنہ ہم سے کملے ایک معصوم سے لو لیٹر کی پاداش میں عمر قید بھگتتے آئے ہیں۔ کاغذ پر لکھے گئے لفظ جو تتلیوں کے پنکھ کی طرح انگلیوں کے پوروں پر رنگ چھوڑ جاتے تھے، بکسوں کی تہوں اور الماری کے چور خانوں میں سنبھال کر رکھے جاتے تھے، جب سب ساتھ چھوڑ جاتے تو یہ لفظ ساتھ نبھاتے، ٹم ٹم کرتے جگنو سے لفظ اندھیری راتیں کیسی سندر کر دیتے تھے۔ لفظ تو بڑی شے تھے یار! اب تو گلی کے ککھ ہوئے، نہ یاد میں رہتے ہیں نہ قرطاس میں رہتے ہیں۔
’’بات یہ ہے پیارے! خدیجہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے، بہت سمجھدار ہے، میں نے تو اس کا نک نیم ڈارلنگ لومڑی رکھ چھوڑا ہے، سیانا تو میں بھی کم نہیں بآواز بلند ڈارلنگ کہتا ہوں، دل ہی دل میں لومڑی دہراتا ہوں لیکن خدیجہ میری طرح ہومیو پیتھک نہیں جس کا نہ فائدہ نہ نقصان۔ خدیجہ ایسی کفایت شعار ہے کہ ترازو میں تول کر فیتے سے ناپ کر لفظ ادا کرتی ہے اور ان لفظوں کی اوٹ میں جولاہا سازش کے تانے بانے بنتا ہے۔‘‘
’’یار سنو مین!۔ ہم محلے سے انجان بن کر نکلتے کہ پاک وطن میں لک چھپ کھیلنا تو برداشت ہو جاتا ہے پر کھلے عام نوجوان ایک دوسرے سے گفتگو کریں، ڈیٹیں ماریں!!!! نہ بھئی نہ ایسی بے راہ روی پیارے وطن میں نہیں ہے، الحمد للہ۔ بوائز کالج میں بی ایس کلاسز میں لڑکیوں کو بھی ایڈمشن کا پرمٹ ملا تو لڑکیوں کے ریوڑ کے ریوڑ داخل ہوئے۔ ہم لڑکے دور سے للچائی نظروں سے حجابوں میں پیک شدہ مخلوق کو دیکھتے رہتے جو شاید مریخ سے برآمد کی گئی تھی۔ کالج والوں نے شرعی فاصلہ برقرار’ رکھنے واسطے باقاعدہ مولا جٹ ٹائپ داروغے حلق میں رکھے کھنکھورے اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی سمیت بھرتی کر رکھے تھے۔ خیر سیل فون تو کسی کے کہنے سننے میں نہیں، رابطے تو رہتے تھے۔ یونیورسٹی کی تو بات ہی اور تھی‘‘۔
قیوم نے پھولی ہوئی جیکٹ کی کوٹ سے پرانے کوٹ سے اتارے گئے بٹن نکال کر سنو مین کے چہرے پر ٹھکی گاجر کے اطراف ثبت کیے۔۔۔
’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا ہم محلے سے انجان بن کر نکلتے تھے۔ یونیورسٹی بس میں بھی ایک خاص فاصلے پر بیٹھتے تھے۔ میں اپنی ایک ہم جماعت لڑکی میں بہت انٹڑسٹڈ تھا۔ موہنی سی صورت اور قاتل اداؤں کے ڈھیر لگے تھے، لیکن سچ بتاؤں؟
دل کی سناؤں؟۔۔۔ مجھے تو بس اس کی ایک ادا بھا گئی تھی، جب اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو جلدی سے دوپٹہ اپنی چھاتیوں پر پھیلانے لگتی۔ بھر پور چھاتیوں نے کیا چھپنا تھا!۔ میری نگاہیں اس کی بیقرار انگلیوں کے ساتھ سارے اطراف و جوانب کا طواف کر آتیں۔ محترمہ نے اسی بوکھلاہٹ میں شعبہ کے چئیر پرسن کو شکایت لگا دی کہ میں نے چائے کی دعوت دی ہے۔ میں ڈر گیا، ذرا پیچھے ہٹ گیا۔ وہ لڑکی تو دیوار سے چپکی مکھی کی طرح پھڑپھڑاتی رہ گئی۔ لیکن خدیجہ بڑی سیانی تھی۔ اور ظالم مسلسل سیانی ہے۔ چائے کی دعوت کی مشہوری ہوتے ہی اس نے مجھ پر نگاہ رکھ لی۔ خدیجہ نے سوچا کہ بجائے اس کے کہ وہ چائے کی ٹرے کے ساتھ ہر آنے والے کے سامنے پیش ہوتی رہے۔ صوفوں پر صوفوں جیسی عورتوں سے اور گھسے ہوئے بیضوی چندیا والے مردوں سے، شناختی پریڈ میں کھڑے ملزموں کی طرح سر تا پا اپنا مشاہدہ کروائے، کیوں نہ چائے کی پیشکش کرنے والے دیالو کی بانہہ پکڑ لے!۔ چیئر پرسن نے بھی سمجھایا کہ محبتیں شبتیں رکھو طاق پر، زندگی کی حقیقتیں سمجھو، کسی ماں جیسی مامتا نچھاور کرتی لڑکی سے شادی کر لو، امن سے رہو گئے۔ کیا بتاؤں یار سنو مین! ایسا امن ہوا، ایسا امن ہوا کہ میں انسان نہیں رہا تیرے جیسا برف کا تودہ بن گیا۔
’’لیکن خدیجہ مجھ سے پیار بہت کرتی ہے۔ بہت خیال رکھتی ہے میرا، جو نسخہ بزرگوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کتابوں میں لکھوایا تھا کہ کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگاہ سے، اس دشمن جاں نے اس کا مجھ پر اپلائی بڑی خوبی سے کیا۔۔۔۔۔ آہ! اب تو اس کی پکی تازہ گندم کی روٹی کا خمار اور مرچیلی گھرکیوں کا باقاعدہ ایڈکٹ ہو گیا ہوں۔
’’پیارے وطن میں روزگار نہ لگا۔ پیارے ہم وطنوں نے جینا حرام کر دیا۔ ویزہ لگوایا اور یورپ کا سٹریٹ ہاکر ہو گیا۔ اس دوران ایک گوری سے نتھی ہو گیا۔ اس گوری نے تو مجھے تہذیب سے رہنا سہنا سکھا دیا۔ میں بستر سے نکلتے ہی اپنا بستر بنا دیتا، اپنی تھالی خود دھوتا۔ ہم مل کر گھر صاف رکھتے۔ اپنا اپنا کماتے اور مل کر کھاتے۔ ہر لمحے زنجیر کی کڑیوں کی طرح ساتھ لپٹے تو نہ رہتے پر جتنا وقت ساتھ گزارتے ایک دوسرے کو دق کیے بنا خوشی سے بتاتے۔ دھیرے دھیرے پیارے وطن کی عطا کردہ گھٹی میں پڑی بد عادتیں غائب ہونے لگیں۔ یار سنو مین! یہ گوریاں کمال ہوتی ہیں جب ساتھ ہوتی ہیں تو مکمل ساتھ ہوتی ہیں۔ جب چھوڑتی ہیں تو مکمل چھوڑ جاتی ہیں۔ پھر بریک اپ ہو گیا۔ میں ڈر گیا جی! سوچا کہ مجھے تو اس کے ساتھ کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔ اگر شادی وادی کے چکر میں پڑ گیا تو مسئلہ بن جانا ہے۔ بیٹا ہوا پھر تو خیر ہے لیکن بیٹی! توبہ استغفار! وہ ایسے بغیر نکاح کے، کسی کے ساتھ رہے، مجھ سے برداشت نہیں ہونا تھا۔
’’یار! میں پیارے وطن لوٹ آیا۔ الحمد للہ۔ نکاح کی سنت پر عمل کیا۔ لیکن شادی کے بعد اماں اور خدیجہ کی کڑک مرغیوں جیسی کٹ کٹ برداشت نہیں ہوتی تھی۔ دونوں مالکیاں جماتی تھیں اور میں شاملات دیہہ اصل میں کسی کا بھی نہیں تھا۔
’’ان عورتوں کا بھی قصور نہیں۔ ہماری مشرقی شادیوں کو تو حوالگی، تقریب سمجھا جاتا ہے۔ کھینچا تانی تو پہلے دن سے شروع ہو جاتی ہے۔ بس اسی اڈی ٹپے میں، اتاولی میں خدیجہ کا پاؤں بھاری ہو گیا۔ یار سنو مین! تجھے بتایا نا کہ خدیجہ بہت سیانی ہے۔ پھر پڑھی لکھی بھی، یعنی کریلا نیم چڑھا بھی، شاید کہاوت غلط بول گیا، لیکن بات کچھ ایسی ہی ہے۔ بس جی! خدیجہ کو تو چار چاند لگ گئے۔ کاش ذرا سا سورج بھی لگ جاتا۔ پیار تو مجھ سے بہت کرتی پر برف جیسا ٹھنڈا ٹھار۔ اولاد کی چاہت نہ ہوتی تو پھر وہ یہ گناہ کبھی نہ کرتی۔ شریف بہو بیٹیوں، کنجریوں اور گوریوں میں فرق تو ہوتا ہے نا۔ پیارے وطن میں تو عورتیں اس قدر کانشس ہیں وہ تو موٹر بائیک کا وساہ نہیں کھاتیں، ان پاپی اکھیوں نے وہاں کبھی عورت کو ٹانگیں کھول کر موٹر سائیکل پر بیٹھے نہیں دیکھا، ہمیشہ خیال سے، اخلاق سے دونوں گھٹنے جوڑ کر ٹانگیں ایک سائیڈ پر رکھ کر سرین پچھلی سیٹ پر ٹکاتی ہیں۔
’’ہاں! تو تمہیں بتا رہا تھا کہ اتاولی میں خدیجہ کا پاؤں بھاری ہو گیا!‘‘
قیوم اب سنو مین کی برفیلی واسکٹ پر چھوٹے بٹن ٹکا رہا تھا۔ ’’میں نے بتایا نا خدیجہ بہت سیانی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ دوسری جگہ لگایا گیا شجر تبھی مضبوط ہوتا ہے، جب اس سے پھل اترتا ہے۔ بے ثمر شجر پر تو آری ہی پھرتی ہے۔ باپ کی پینشن دوائیوں پر ہی خرچ ہونے لگی تو بھائیوں کی آنکھیں دھکے، بہنوں کی طعنے دینے لگیں، اور جب ماں کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا تو میں نے اپنا آسمان پھر سر پر اٹھایا اور نئی زمینوں کی تلاش میں نکل پڑا۔ خدیجہ ایک گود میں، دوجا کوکھ میں سنبھالے، بڑے حوصلے میں رہی۔ دیار غیر میں بہت دل گھبراتا۔ خدیجہ سے جب بھی بات ہوتی کبھی لوٹ آنے کا نہ کہتی۔ ہاں خرچے گنواتی رہتی، کبھی منے کا ناک بہتا کبھی منے کا پیچھاڑ۔
پیارے وطن میں تو ڈاکٹر بزنس آئیکون ہیں۔ لوکی لاکھوں کروڑوں انویسٹ کر کے اپنی اولاد کو دھڑا دھڑ ڈاکٹر بنا رہے ہیں۔ بہوئیں تو پکے پھل کی طرح آپوں آپ گود میں آ گرتی ہیں۔ مناسب موزوں دامادوں کے لیے خوار ہونا پڑتا ہے۔ بیٹی ڈاکٹر ہو تو من پسند داماد آرڈر پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔
قیوم برف کے گولے لگا کر سنو مین کو قد آور کرتا گیا۔
’’خدیجہ کبھی بھی کھل کر نہیں ہنستی۔ وہ ہمیشہ ناز و ادا سے ہتھیلی منہ پر رکھ لیتی ہے۔ وہ تو یارا! کھل کر جیتی بھی نہیں اور نہ ہی جینے دیتی ہے۔ جیسے آسٹریلین رنگ برنگے طوطے خوبصورت سجاوٹی پنجروں میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ان پنجروں کے درزوں سے جتنا آسمان نظر آتا ہے، اتنا ہی آسمان اپنے تئیں اپنا نصیب فرض کر لیتے ہیں‘‘۔
قیوم نے جیکٹ کی جیب سے ذرا سے چڑمڑا ہیٹ نکال کر سنو مین کی کھوپڑی پر ٹکایا۔ جب بھی سنو مین مکمل ہو جاتا تو وہ قیوم کا ہم شکل ہو جاتا، موٹا بھدا، کنگ فشر کی چونچ جیسی ناک، بٹن سی آنکھیں۔ ان پروسس تو سنو مین قیوم کے دکھ سکھ دم سادھے سنتا رہتا تھا، وہ ساری باتیں جو قیوم کبھی کہہ نہ سکا، اَن کیے گناہوں کی رال ٹپکاتی چاہ جو حسرتوں میں بدلتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی سنو مین تکمیل پا جاتا، وہ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا۔ یکدم اُسے شٹ اپ کال دے دیتا۔ اوہ شٹ اپ اوئے۔۔ بڈھے کھوسٹ!
دو کھوسٹ ایک دوجے کے دو بدو مینڈھوں کی طرح سینگ پھنسائے کھڑے رہتے۔ رت بدلتی تو سنو مین قطرہ قطرہ غائب ہونا شروع ہو جاتا، قیوم بھی؟ وہ جو اپنا آپ مٹھیوں میں سمیٹ کر سنو مین میں مجتمع کرتا رہتا تھا، سنو مین کے جاتے ہی بھورا بھورا بکھر جاتا۔ سڑک پر بچھ جاتا۔ آتی جاتی گاڑیاں اس کی چھاتی پیٹتی گزرتیں۔
زندگی کی قیمت بریڈ کے سلائس سے بڑھ کر نہیں، پہلے جب ذرا فرصت ملتی تو پیارے وطن کال ملا دیتا تھا۔ دوستوں سے خوب گپ شپ رہتی۔ خدیجہ اور بچوں کے آنے کے بعد، قیوم دھیرے دھیرے آنکھوں پر کھوپے چڑھائے نگاہ کی سیدھ میں دیکھتا ہوا پرفیکٹ کولہو کا بیل بنتا گیا۔ باتوں اور دلوں میں وقفے طویل ہونے لگے۔ اب کبھی اوب کر، یونہی چلتے چلتے، کسی پرانے دوست سے گفتگو کی کوشش بھی گیلی ماچس کی تیلی کی طرح عبث ہی ہوتی، کوئی شعلہ نہ چنگاری۔ وہ قیوم کا بچپن کا بیلی تھا، وقت کا بے رحم چنگل پیارے وطن کی تپتی سڑکوں سے اٹھا کر ان بے مہر برفیلی سڑکوں پر لے آیا۔ دن رات کام کی دھن۔ جھکے کندھوں کے ساتھ وقت کو مچھر کی طرح اپنی دونوں ہتھیلیوں بیچ مارتا رہا۔ بس پھر، کرونا کے پنجوں کی زد میں ایسا آیا کہ مچھر کی طرح بن موت مارا گیا۔ قیوم کی آنکھوں سے آنسو ہی خشک نہ ہوں۔ خدیجہ تنک کر بولی: ’’آپ کے ان آنسووں نے زندگی وبال کر دی ہے، وقت بے وقت بہتے رہتے ہیں، مرد بنیں مرد۔۔۔۔۔ آپ کو یاد ہے؟ جب ہماری شادی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔‘‘ زندگی میں واحد قابل ذکر واقعے کی یاد نے خدیجہ کے خشک لہجے میں تازگی بھر دی۔ قیوم رندھی ہوئی آواز میں بولا: ’’ہاں! کچھ کچھ یاد ہے۔‘‘
’’رخصتی پر میں نے میک اپ خراب ہونے کے ڈر سے ایک آنسو نہیں بہایا اور آپ کے آنسو ایویں خواہ مخواہ ٹپ ٹپ گرتے جا رہے تھے، سب کزنز نے ہا ہا ہا ہا، کھی کھی کر کے جو مذاق اڑایا کہ بس! مرد ہو کر آنسو بہانا! اور جو لمبی چوڑی تحقیق ہوتی رہی کہ آنسو خوشی کے تھے کہ صدمے کے؟۔ وہ الگ۔
قیوم اکتا کر بولا: ’’میری تو اس مرد ہونے سے بس ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔ مجھ سے تو آپ کے بیمار والد کا پسیجا چہرہ برداشت نہیں ہوا۔ سوچا کہ اگر میری بیٹی ہوئی تو کیا اسے بھی ایسے قربانی کی گائے کی طرح سجا سنوار کر ساز و سامان سمیت گھر سے لاتعلق کروں گا!!!‘‘
خدیجہ اکتا کر بولی ’’آپ بھی عجب ہی سوچتے ہیں شکر کریں کہ خدا نے بیٹی نہیں دی‘‘۔
قیوم نے برف کا گولا سنو مین کو دے مارا۔۔ ہانپتا ہوا گھٹنوں کے بل ایسے گرا جیسے میلوں مراتھن ریس میں دوڑتا ہوا آیا ہو۔
’’خدیجہ کہتی تو نہیں لیکن اس کی آنکھیں بولتی ہیں یار!۔ پاگل پاگل کہتی ہیں۔۔۔۔ وہ مجھے سمجھاتی تو رہتی ہے، عقل سکھاتی رہتی ہے‘‘ برف کا آدمی بنانا وقت کا زیاں ہے، جانے ہم مشرقیوں کو وقت کی قدر کرنا کب آئے گی؟
خدیجہ بڑبڑاتی: ’’مر مر کر دوستوں سہیلیوں سے جان چھوٹی۔ اب سنو مین سے یارانہ لگا لیا ہے۔‘‘
‘‘یار! خدیجہ تو مجھ سے پیار ہی بہت کرتی ہے۔ وہ بھی کیا کرے بیچاری! جانتی تو ہے پر مان کر نہیں دیتی کہ وقت بیلے ڈانسر کی طرح رقص میں ہے اور خدیجہ مکان کی دیوار پر قد آدم سکیچ کی طرح کھینچی گئی ہے۔ ایک ہی انداز میں خالی گھڑا سر پر اٹھائے سالوں سے کھڑی ہے، خدیجہ بہت سمجھدار ہے لیکن نہیں جانتی کہ اب وہ نہیں رہی‘‘۔
بوٹ کی ایڑی کے ساتھ شاخ کا دھتکارا ہوا زرد پتا سہما ہوا چمٹا تھا۔
یار سنو مین!۔
قیوم سنو مین کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ کنفیشن کے بعد جھگڑالو من شانت تھا۔ سنو فلیکس ہولے ہولے گر رہی تھی۔ ایک گہری نیند قیوم کو ماں کی گرم آغوش کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ رہی تھی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...