انیس احمد شوق
ہوش اب آنے لگا کس لیے بے ہوش رہوں
کب تلک اشک پیوں محو غمِ دوش رہوں
ساس کے طعنے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
یعنی ذلت بھی سہوں اور میں خاموش رہوں
ساس کہتی ہے کہ منہ زور ہوں مغرور ہوں میں
میری فطرت ہے یہ عادت نہیں مجبور ہوں میں
گھر کے ہر چھوٹے بڑے کام پہ مامور ہوں میں
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی مزدور ہوں میں
میرے خاوند ذرا میری کہانی سن لے
سن چکا ماں کی ذرا میری زبانی سن لے
گھر میں رائج ہے بڑی بی کا ہی دستور قدیم
پاؤڈر پاس ہے میرے نہ میسر ہے کریم
دس عدد بچوں کی جو تم نے بنائی ہے ٹیم
چپ کراتی ہوں سمیہ کو تو روتا ہے ندیم
میرے ابا کو ہی شادی کی پریشانی تھی
ورنہ کیا عمر تھی گڑیوں کی میں دیوانی تھی
جم گئے آ کے یہاں جیٹھ بھی جیٹھانی بھی
ٹک گئے آ کے کبھی نانا کبھی نانی بھی
نندیں آ آ کے یہاں کرتی تھیں من مانی بھی
ہاتھ سے لیتی نہیں تھی جو کبھی پانی بھی
یہ بتاؤ کہ نحوست یہ بھگائی کس نے
گر رہی تھی جو معیشت وہ بچائی کس نے
روز دو وقت کا کھانا بھی پکایا میں نے
جھاڑو دی صحن میں پونچھا بھی لگایا میں نے
جا کے بازار سے سامان بھی لایا میں نے
گھر کی عزت کو کئی بار بچایا میں نے
ساس کہتی ہے مجھے پھر بھی وفا دار نہیں
مجھ پہ الزام ہے میں صاحب کردار نہیں
آ گئی عین رکابی میں اگر کچی پیاز
چھوٹے دیور نے بجایا جو مذمت کا ساز
تھا وہاں کون جو سن لیتا ابھاگن کا جواز
چار جانب سے دبائی گئی میری آواز
جو کسی بات پہ پہلے نہ کبھی ایک ہوئے
میں جو تھی مد مقابل تو سبھی ایک ہوئے
لطف آتا نہیں مر مر کے مجھے جینے میں
ہے نظر سب کی مرے کھانے میں اور پینے میں
دیکھتی ہوں جو کبھی خود کو میں آئینے میں
ایک طوفان سا اٹھتا ہے میرے سینے میں
اب مقدر میں میرے نرم نوالے ہی نہیں
ایسا لگتا ہے کہ قسمت میں اجالے ہی نہیں
خواب دیکھوں کہ مسرت کے سہانے دن ہوں
عیش و عشرت کے محبت کے ترانے دن ہوں
ہے یہ خواہش کہ میسر وہ پرانے دن ہوں
زندگی میں میری ہر وقت سہانے دن ہوں
بے سبب تم سے کہاں لہجہ درازی ہے میری
زندگی کیا ہے کہ ہاری ہوئی بازی ہے مری