درشن مری آنکھوں کو کرانے نہیں آتے
کچھ دن سے وہ چکی پہ پسانے نہیں آتے
وہ آنکھ ملانے کی روش چھوڑ چکے ہیں
حد ہو گئی اب آنکھ دکھانے نہیں آتے
وہ جان ہتھیلی پہ لئے ملتا ہے تجھ سے
عاشق کو ترے حیلے بہانے نہیں آتے
برسوں سے مرا دل ہے حسینوں کے اثر میں
برسوں سے مرے ہوش ٹھکانے نہیں آتے
داداؤں کا سردار سمجھتے ہیں مجھے سب
اب غنڈے ادھر رنگ جمانے نہیں آتے
تھپّڑ ہے خزاں کی نہ بہاروں کے اشارے
موسم بھی تری یاد دلانے نہیں آتے
دولت کی مرے دیش میں تقسیم غلط ہے
حصے میں غریبوں کے پھُٹانے نہیں آتے
در اصل ہمیں ہاتھ دکھانے کا جنوں ہے
ہم تجھ سے کبھی ہاتھ ملانے نہیں آتے
طاقت کا مری اس طرح پر چار ہوا ہے
رستم بھی لقبؔ مجھ سے کھجانے نہیں آتے
۲
رہنے لگے ہیں جا کے وہ اب نینی تال میں
دیوانہ ہو گیا ہوں میں جن کے خیال میں
سمجھو کہ اس کی دنیا سے چھٹّی قریب ہے
جو پھنس گیا کسی کی محبت کے جال میں
اللہ کا کرم کہ ترقی ہوئی مری
دشمن نے لاکھ چاہا میں آؤں زوال میں
بادِ صبا نصیب تجھے ہو گی کیا بھلا
شوخی جو پائی جاتی ہے اس بت کی چال میں
مخصوص کمرہ چاہئے آرام کے لیے
اور تم بضد کہ ٹھہروں میں اس عام حال میں
جی چاہتا ہے اس میں لقبؔ ڈوب جاؤں میں
پڑتا ہے جو حسین گڑھا ان کے گال میں