یارانِ بے پیالہ
اس باب میں ودربھ کے ان قلم کاروں کے مضامین شامل ہیں جن کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا کوئی مجموعہ تا حال منظرِ عام پر نہیں آیا لیکن ان کی ظریفانہ تخلیقات رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔
ڈاکٹر سمیع بن سعد
ڈاکٹر سمیع اللہ نے سمیع بن سعد کے قلمی نام سے چند مزاحیہ مضامین تحریر کئے تھے جو ماہنامہ شگوفہ اور دیگر اخبارات و رسائل میں شایع ہوئے تھے۔ ان کے والد ڈاکٹر سعد اللہ معروف ادیب اور محقق ہیں۔
ڈاکٹر سمیع اللہ ۱۹۵۳ میں جلگاؤں جامود میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جعفر زٹلی کی شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ گورنمنٹ کالج امراؤتی میں پروفیسر مقرر ہوئے اور امراؤتی یونیورسٹی کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے مضامین میں ظرافت اور انشا پردازی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے مضامین اعتراض اور تزکِ چغدی ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہو چکے ہیں۔
تزک چغدی
سمیع بن سعد
بات بہت پرانی ہے آدم علیہ السلام کی تخلیق ہو رہی تھی اِس پر و ٹو ٹائپ کو فرشتے اسی حیرت سے دیکھ رہے تھے جیسے کسی کارخانے میں کسی نئی مشین کا پروٹوٹائپ تیار ہوتا ہے تو کاریگر متعجب ہو کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ اس کا مصرف کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آب و گل کے اس پروٹوٹائپ کے اندر کیا ہے، فرشتوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے رو بوٹ یا کمپیوٹر کی ایک آدھ خصوصیت دکھانی منظور ہوئی تو فرشتوں کے سامنے آٹومیٹک ٹی۔ وی پر کائنات کی تمام اشیاء کو پیش کر کے فرمایا ان کے نام تو بتاؤ۔ فرشتے حیران رہ گئے وہ تو صرف وہی جانتے تھے جس کا علم خدا نے ان کو دیا تھا۔ اس امتحان میں تو وہ صفر لے کر رہ گئے۔ اب آدم کے سامنے انھیں اشیاء کو پیش کیا گیا تو آں جناب نے اِن تمام کے نام و خواص فٹافٹ بتا کر فرشتوں کو اس طرح حیران کر دیا جس طرح شہر کا پڑھا لکھا، دنیا دیکھا، ماڈرن آدمی دور دراز کے دیہاتوں میں رہنے والوں کو اپنی باتوں سے حیران کر دیتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ان حضرت میں ایک صفت یہ بھی موجود ہے کہ نہ صرف اشیاء کے نام رکھ دیتے ہیں بلکہ ان کی خصوصیات بھی اسی شدومد کے ساتھ ظاہر کر دیتے ہیں جس طرح ایک بازاری دوا فروش جڑی بوٹیوں کو بیچتے وقت بتاتا ہے۔ (صداقت سے ہمیں بحث نہیں)
ہمارے جد امجد کی یہی عادت یا خصوصیت ہماری گھٹی میں پڑ گئی اور نتیجۃً ’’نام رکھنا‘‘(اچھا یا برا) ہماری سب سے ’’بڑی عادت‘‘ بن گئی، جہاں کسی چیز کو دیکھا نہیں کہ اس کا نام معلوم کرنے کی جستجو ہوئی اور معلوم ہوا تو ٹھیک ورنہ رکھ دیا۔ نہ صرف نام بلکہ تجربہ یا تجربہ کاری کی بناء پر اس کی صفت بھی مقرر کر دی۔
مثالوں کی کثرت موضوع کو کتاب الامثال بنا دے گی۔ ایک دو سطروں کی مثالیں دیتا چلوں۔ کسی ارسطو زماں کا قول ہے کہ اگر دنیا میں محنت کی قدر ہوتی تو گدھے کا پہلا نمبر لگتا۔ عالم الحیوانات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گدھے سے بڑھ کر کوئی مضبوط، جفا کش، صابر شاکر اور عقلمند شاید ہی کوئی جانور ہو۔ مذہبی رہنماؤں کے نزدیک بھی یہ مقدس ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اسے سواری کے لیے پسند فرمایا تھا۔ فلسطین، شام، مصر، ایران کے عام لوگ اس کو زندگی کا جزو لازم سمجھتے ہیں۔ لیکن اس صابر، شاکر، عاقل، بالغ، محنتی جاندار کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا ذرا دیکھئے تو ہمارا ادب اس کا آئینہ دار ہے۔ ہمارے خیالات، گفتگو، ہمارا برتاؤ سب اس بات کا غماز ہے۔ ہمارے پاس گدھے سے زیادہ احمق، جاہل، نالائق قابل نفرت کوئی جاندار شاید ہی نکلے۔
اب دوسری مثال ملاحظہ فرمائیے: – شہباز شب، چغدِ دوراں، حضرتِ الّو عرف گھگھو وغیرہ۔ وہ بے چارہ، عابدِ شب زندہ دار، صوفیِ وقت شب، قانع زمانہ، تنہائی پسند جاندار ہمارے یہاں مفت مارا گیا ہے۔
اس کا قصور صرف یہی ہے کہ وہ کوّے چڑیوں کی طرح دن بھر ہماری نظروں کے سامنے نہیں رہتا اور نہ ہمارے بچوں کے ہاتھوں سے روٹی بوٹی چھین کر لے جاتا ہے۔ رات کی تنہائی میں جب سارا عالم محو خواب ہوتا ہے یہ عابدِ شب زندہ دار کسی ویرانے میں تنہا مقام پر گپھاؤں میں رشی منیوں کی طرح ہو حق کر لیتا ہے۔ اسے سوائے قوت لایموت کی تسکین کے کبھی بیجا ہوس نہیں ہوتی۔ چند گھونسیں، چند چوہے باقی اللہ خیر صلہ ملے تو ملے نہیں تو ہوائی کیڑوں سے ہی شکم دوزخ کو پُر کر لیا اور ہو حق میں مصروف۔ وہ وقفے وقفے سے آوازیں نکال کر غافلوں کو جگاتا رہتا ہے کہ…… سوتا ہے کیا۔
ایسے پرندے کو ہم نے کس نظر سے دیکھا۔ جہاں کسی نامعقول کو دیکھا، احمق کو دیکھا کہہ دیا۔۔ ابے اُلّو۔ دنیا بھر کی نحوست بے چارے کے سر لادی گئی، طرح طرح کی روایات گھڑی گئیں۔ بچوں سے لے کر بوڑھے تک اس سے ڈرنے لگے، نفرت کرنے لگے۔ جہاں بھولے سے اس نے کسی چھت پر قیام کر کے آواز لگائی۔ اہلیانِ خانہ ہش ہش کہہ کر اڑانے لگے اور پڑوسیوں کے گھروں پر پتھر برسانے لگے۔ کیونکہ تو ہم یہ ہے کہ اگر الّو پر پتھر مارا جائے تو وہ جھیل کر پنجے میں پکڑ کر اڑ جاتا ہے اور پھر پتھر کو گھولتا رہتا ہے اور پتھر پھینکنے والا گھل گھل کر مر جاتا ہے۔
مشرقیوں نے اس پرندے کو اس قدر منحوس سمجھا لیکن مغربیوں کا معاملہ ذرا الٹا ہے۔ جناب شیکسپیئر نے اس کی تعریف کی ہے اور اس کی ہو حق کو سُر مسرت (A merry note) قرار دیا ہے مغرب کی کئی کمپنیوں کا نشانِ تجارت الّو ہے۔ Henry Holts مشہور کتب فروش ہے ان کا نشان بھی الّو ہی ہے۔
الّو کو برا کہنا ہماری زبانی جمع خرچ ہے۔ ورنہ ہمارے مشرقی ادب میں کہیں کہیں یہ تاریخ ساز ہستی نظر آتی ہے۔ مثلاً اس مشہور الّو کا ذکر ہم صدیوں سے پڑھ رہے ہیں جس نے نوشیروانِ عادل کی تشکیل کی تھی۔ قصہ مشہور ہے کہ ابتداء میں یہ بادشاہ اشوک اعظم کی طرح بڑا جنگجو تھا اور اس کے ظلم و ستم سے ملک تباہ و برباد ہو رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنے وزیر بزرجمہر کے ساتھ شکار کے لیے جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ ایک درخت پر دو عابدوں کو ایک دوسرے پر آوازیں کستے دیکھ لیا۔ بزرجمہر سے کہا تم تو جانوروں کے بہت اچھے ٹرانسلیٹر اور ماہر لسانیات ہو۔ بتاؤ تو یہ دونوں بزرگ کیا فرما رہے ہیں۔ وزیر نے جو کہ موقع شناس و مردم شناس تھا، گرم لوہے کو دیکھ کر چوٹ کی کہ دونوں حضرات الّو شادی کی نسبت باتیں کر رہے ہیں (مشرقی جو ہیں ورنہ ان کی لڑکی لڑکا خود ہی کو رٹ شپ کے ذریعے ایک دوسرے کو پسند نہ فرما لیتے) ایک صاحب کہ پدر دختر نیک اختر اور دوسرے کہ پدرِ فرزند نیک فال ہیں۔ پدر نوشہ کا کہنا ہے کہ جانِ عزیز اگر میرے بیٹے سے شادی کرنا چاہتے ہو تو دس ویرا نے ڈاوری میں دے دیجئے تاکہ ہمارا پورا خاندان اس جاگیر سے مستفید ہو سکے۔ پدرِ دختر نیک اختر فرما رہے ہیں کہ بھائی فی الحال تو میرے پاس ایک ہی ویرانہ ہے جہاں ہو حق کر لیتا ہوں لیکن ہمارا بادشاہ اپنے کاروبارِ سلطنت کو اسی طرح جاری رکھے تو جلد ہی دس کیا سو ویرانے مہیا ہو جائیں گے اور وہ سب بخوشی سو ویرانے نذر کروں گا حضور کی۔ اور پھر اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ میں لکھا ہوا ہی ہے۔ نوشیروان عادل بن گئے اور تاریخ میں اپنے ساتھ اس عقلمند الّو کا بھی نام ثبت کر گئے۔
آج کا زمانہ ہوتا تو اس کے سونے کے بت جگہ جگہ چوک، چوراہوں پر نصب ہو جاتے تاکہ بنانے والوں، کاریگروں اور اسکیم نکالنے والوں کا بھلا ہو جاتا اور بچوں پر کھیلنے کودنے، ان کے سروں پر پھاندنے، گھوڑا بنانے کا موقع ہاتھ آ جاتا اور اشتہار والوں کو اس پر اشتہار لگانے کی جگہ میسر ہو جاتی۔
الّو ایک قسم کا نہیں ہوتا، انسانوں کی طرح کئی قسم کا ہوتا ہے۔ اس میں بزرگی اور بڑائی جسامت کے لحاظ سے نہیں بلکہ نام کی وجہ سے آتی ہے۔ مثلاً ایک بازار میں جب چڑی مارنے بڑے جسم الّو کے مقابلے میں چھوٹے الّو کی قیمت زیادہ بتائی تو وجہ دریافت کی گئی۔ فرمایا کہ یہ فارن کا مال ہے (حالانکہ اصلی ملکی تھا) اور بڑا تو صرف الو ہے، یہ چھوٹا الو کا پٹّھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب قیس کا انتقال ہو گیا تو لیلیٰ اس کی قبر پر آئی اور قیس کا ہی ایک شعر پڑھا کہ لیلیٰ میری قبر پر آ کر آواز دے گی تو میری روح قبر سے نکل کر آواز دے گی۔ اور زور سے آواز دی…….. افسوس کے دورِ حاضر کے عاشقانِ نامدار کی طرح قیس بھی اپنا وعدہ وفا نہ کر سکا۔ اس کی قبر سے ایک الّو جسے صدی کہتے ہیں نکل کر بدحواسی میں جھپٹا۔ لبنیٰ کی اونٹنی کے منہ پر لگا۔ جس سے وہ بدک گئی اور بیچاری لبنیٰ اپنے عاشق سے جا ملی۔
الّو کی کی ادبی خدمات میں سے قابلِ ذکر یہ ہے کہ اس نے اردو کو کئی محاورے دیے ہیں۔ الّو کا پٹھا، الّو کی دم، بے دال کا بودم، الّو بننا، الّو بنانا، الّو کا گوشت کھلانا، الّو سیدھا کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
عرصہ ہوا ہماری نظر سے پرانی بوسیدہ چھوٹی سی کتاب ’’ادویات الّو‘‘ گزری تھی۔ ہم حیران ہوئے الّو کب سے حکیم بن گیا۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ نسخہ علم طب کی کم اور ٹونا ٹوٹکا کے نسخوں سے زیادہ مزین ہے۔ افسوس کہ اس وقت ہم نے اس میٹریا میڈیکا آف الّو کی قدر نہ جانی اور پچھتا رہے ہیں۔ اس کے اندر الّو کی ہر شئے سے دواؤں اور ان کے طلسماتی اثرات کا ذکر تھا۔ بطور نمونہ۔ ھو الشافی
۱۔ الّو کے پروں کا کاجل لگا کر پیشِ معشوق جائیں تو چشم زدن میں بیقرار و گرفتار عشق ہو جائے۔ (اس نسخہ میں راز داری برتیں۔ کیونکہ آج کل جب کہ انگشتریاں، کاجل اور سرمے دھڑا دھڑ بِک رہے ہیں اور نوجوان ان کے دیوانے ہو رہے ہیں۔ ورنہ یہ لوگ الّو کا وجود ہی ختم نہ کر دیں)۔
۲۔ الّو کے خون سے رنگا کپڑا جلا کر راکھ حاصل کریں۔ جن دو شخصوں کے سر پر چھڑکیں گے ان میں جنم جنم کی دشمنی پیدا ہو جائے گی۔ (آج کی سیاسی پارٹیوں پر کسی ستم ظریف نے شاید یہی نسخہ آزمایا ہے)۔
۳۔ ایک اہم اور قیمتی نسخہ برائے امتحان دہندگان۔ (ہوشیار کہ ہماری باری آئی)….. الّو کا دماغ سکھا لیا جائے۔ چالیس رات تاروں کی چھاؤں میں چھت پر رکھا جائے۔ روغن زیتون میں ڈال دیا جائے۔ اماوس کی رات اس تیل کو نتھار لیا جائے۔ نسخہ تیار ہے اس کو سر پر لگائیں چودہ طبق روشن۔ اس کا کاجل بنا کر آنکھ میں لگا کر جائیں۔ نقل کریں نقل پکڑی نہ جائے گی۔ آپ بھلے ہی پکڑ لیے جائیں۔
اس کتاب میں یہ نسخے بھی تھے: –
بے موسم پھل کھائیں۔ محبت کے کئی نسخے اور فارمولے، ڈاکو گرفتار کرنے کے نسخے، عقل حاصل کرنے کے نسخے، روزگار کے نسخے، نیند لگانے و اڑانے کے نسخے، دودھ پر سے جانور اڑانے کے نسخے، اپنا بھلا، دوسروں کا نقصان کرنے کے نسخے، وغیرہ وغیرہ۔
اگر آج اس کتاب کو کوئی ہمیں لادے تو ہم نہ جانے اسے کیا کیا دے دیں۔ کیونکہ ہم تو اس کی بدولت ہزار پتی ہو جائیں گے لانے والے کا بھی بھلا ہو گا یہ کتاب ہماری غیر حاضری میں حکیم شیخ غیب نے غائب کر دی۔ وہ عرصے سے ٹونے ٹوٹکے، علاج معالجے وغیرہ میں لگے ہوئے تھے۔ کسی ستم ظریف نے پتہ دے دیا کہ ہمارے پاس دیہاتی معالج، رہنمائے صحت، ہمدرد صحت، مستانہ جو گی وغیرہ کے پرچے ہیں اور افسوس کہ انھیں کا معائنہ کرتے ہوئے وہ کب اس کتاب کو اپنی تھیلی میں رکھ کر رفو چکر ہو گئے پتہ نہ چلا۔ بعد میں ان کا بھی پتہ نہ چل سکا۔ اللہ عالم الغیب ہے۔
اب الّو خوانی آخری مراحل کی طرف قدم زن ہوتی ہے۔ ادب میں اس کے کئی نام ہیں۔ الّو، چغد، بوم، صدی، گھگھو، شہباز شب (یہ نام علامہ اقبال نے دیا ہے)
تعارف و تعریفات الّو کے خاتمہ پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ ؎
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
(ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۱۹۸۱)