ڈی کے ناز کو ترقی کرنے کا جنون تھا۔والدین نے نام تو دُرا خاں رکھا تھا۔ بچپن میں سبھی دُورو کہہ کر پکارتے۔والدین کی وفات کے بعد تلاش معاش کے لیے کوئٹہ چلا آیا تو نام اسے کھلنے لگا،مگر غربت کی طرح اس نام سے بھی چھٹکارا پانا آسان نہ تھا۔
کوئٹہ بلوچستان کا دل ہے،حالاںکہ ایسے شہروں کو پیٹ کہنا بجا ہے، کیوںکہ ایسے بڑے بڑے شہر معاشرے کا پیٹ بھرتے ہیں۔یوں بھی دل کے بغیر تو انسان جیسے جاتا ہے،مگر دل بدلا جاسکتا پیٹ نہیں۔دُورو کو محنت کی عادت تھی۔ بے چین طبیعت کا مالک تھا۔نومبر کے مہینے میں پیدا ہوا تھا۔کہتے کہ نومبر میں پیدا ہونے والوں کے سر پر مریخ بولتا ہے۔مریخ یعنی جنگ کا دیوتا۔اس لیے دُورو ایک جہادِ مسلسل میں مبتلا تھا۔اینٹوں کے بھٹے پر صبح و شام محنت کرتا۔سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں تھی۔رات کو وہیں سو رہتا۔ تنخواہ ملتی،اوور ٹائم ملتا اور چوکیداری کی تنخواہ الگ سے پاتا۔اس نے اپنی محنت،لگن اور ذاتی کردار سے مالک بھٹہ کا دل جیت لیا۔حالاںکہ سیٹھ ہمیشہ خشت (اینٹ) کا کاروبار کرتا۔ اسے اچھے کوئلے اور مٹی کی پہچان تو تھی،انسان کی پرکھ نہ تھی۔کبھی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ کیوںکہ انسان کوئلے سے سستا ملتا ہے۔ کوئلے میں تو پڑے پڑے آگ بھی سلگ اٹھتی ہے،لیکن تقدیر پر شاکر محنت کش کبھی نہیں بھڑکتے۔سیٹھ نے چند برس کے مشاہدے میں اسے اچھا انسان پایا تو اپنے بھٹے پر منشی مقرر کردیا اور آنے والے برسوں میں اپنا داماد بنا لیا۔سیٹھ کی ایک ہی بیٹی تھی،زبیدہ۔وہ تھی تو قبول صورت، مگر اپاہج تھی۔بچپن میں باپ کے ساتھ کوئلے کا ڈمپ دیکھنے سپیزنڈ گئی۔اچانک دھواں اگلتے سیاہ انجن کی زد میں آگئی۔جان تو خیر بچ گئی، مگر گھٹنے کے نیچے سے ٹانگ کٹ گئی۔اس لکڑی کی مصنوعی ٹانگ پر غیر متوازن انداز میں بیسا کھی کے بغیر چلتی پھرتی،جسے دیکھ کر کوئی رشتہ بھی مانگنے نہ آتا۔مردوں کی بھی جانے کیا پسند ہے۔کبھی محض دو آنکھوں یا بالوں کی وجہ سے پوری لڑکی پر مر مٹتے ہیں اور کبھی محض ایک لکڑی کے پاؤں کی خاطر پوری لڑکی رد کر دیتے ہیں۔
دُورو نے بھی حالات سے سمجھوتہ کرلیا۔ زبیدہ کا ایک پاؤں نہ بھی ہوا تو کیا ہے۔ غربت کی آزادی سے تو اپاہج لڑکی کی غلامی بہتر ہے۔اسی پیٹ کی خاطر تو بسیمہ جیسے گاؤں سے جلاوطنی اختیار کی تھی۔کہاں وہ معصوم انسان کی پُرسکون بستی، کہاں پانچ لاکھ انسانوں کا جنگل۔۔۔کوئٹہ۔۔۔! اگر اسے معلوم ہوتا کہ زبیدہ کا مطلب، ”بلونی” ہے تو لڑکی کی طرح اسے نام بھی بے تکا لگتا۔ شکر ہے کہ وہ لاعلم تھا۔لاعلمی بڑی نعمت ہے۔
سیٹھ کو بڑے لوگوں کی بیماری تھی۔۔۔عارضہ قلب!!!ایک روز اچانک یوں گرا کہ بے جان ہوگیا۔جیسے ریڑھے کے پہیے تلے کچی اینٹ بکھر جائے، سیٹھ کی یہی ایک بیٹی تھی۔قریبی رشتے دار کوئی تھا نہیں،لہٰذا دُورو بھٹے اور جائیداد کا مالک بن بیٹھا۔چند ادیبوں سے دوستی تھی، حالاںکہ خود اَن پڑھ تھا، مگر تھا ادب دوست۔ادیب اکثر اس کے دفتر چلے آتے۔بھدی اینٹوں اور ٹین کی بے رنگ چھت والا یہ دفتر انگور کی بیلوں سے ڈھکا رہتا۔دفتر میں دن بھر پسے ہوئے کوئلے کی گرد اڑتی یا ٹرکوں کی گھن گرج رہتی، مگر دانش وروں کو محفل سجانے کے لیے ایک آرام دہ جگہ کی ضرورت تھی جہاں سکون سے دانش ورانہ گفتگو ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ ایسی گفتگو ایک بھٹے والا ہی برداشت کرسکتا ہے۔دانش ور محسوساتی دنیا میں پرائے اصول اپنا کر جیتے ہیں۔نہ مکمل غیر مادی زندگی اور نہ ہی مکمل مادی زندگی۔ جیسے علمِ نجوم کی برجِ قوس والی مخلوق، جس کا نصف دھڑے گھوڑے کا ہے، نصف انسا ن کا!۔۔۔نامکمل انسان، نامکمل گھوڑا یا پھر تھوڑا سا انسان ‘تھوڑا سا گھوڑا۔
دُورو نے ایک روز ادیبوں کو اپنے نام کی جانب متوجہ کیا جس سے وہ سخت نالاں رہتا، مگر نام بھی،ولدیت اور بری عادتوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ہمزاد کی طرح۔۔۔!پورا نام بدلنے میں قانونی دشواریاں مانع تھیں، لہٰذا ادیبوں نے بحث و مباحثے کے بعد مخفف ڈی کے ناز تجویز کیا۔ناز سا تخلص مجبوراً ساتھ جوڑ دیا تاکہ نام میں کچھ موسیقیت محسوس ہو ،ورنہ یہاں ناز نہیں نیاز والی کیفیت تھی اور اس کی کامیابی کا راز بھی ناز میں نہیں نیاز میں تھا۔یوں وہ نام ہی سے خاصا پڑھا لکھا معلوم ہونے لگا۔
ڈی کے ناز کو دوسرا شوق یہ تھا کہ بڑے لوگوں کی طرح اس کے گھر کے سامنے بھی اسپیڈ بریکر ہو۔ ایک روز اس نے ہچکچاتے ہوئے یہ آرزو بھی بیان کردی۔ادیبوں نے فوراً حل تلاش کرلیا۔ اتفاقاً اینٹوں کے لیے بھٹے کا خالی ٹرک کھڑا تھا۔سبھی ادیب، دانش ور ٹرک میں بیٹھ کر علاقے کے کونسلر کے ہاں جا پہنچے۔بڑی پذایرئی ہوئی۔انہوں نے مدعا بیان کیا تو کونسلر نے سینہ ٹھونک کر کہا۔۔۔”بنالیں بریکر، میں سنبھال لوں گا۔آخر کونسلر ہوں معمولی بات تو نہیں۔” یکایک اسے احساس ہوا کہ فی الوقت انکساری ہی بہتر رہے گی۔اس نے فوراً اندازِ تخاطب بدل لیا۔ جیسے بھٹے کا پرانا ٹرک گیئر تبدیل کیا کرتا تھا۔۔۔” آپ شوق سے بریکر بنالیں۔آپ سب بھائیوں کی ہی مہربانیوں سے تو یہاں تک پہنچا ہوں۔”
رخصت کرتے ہوئے اس نے ناز کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔” ناز بھائی، کچھ اینٹیں مل جائیں۔ یہی کوئی ایک دو ریڑھے تو ذرا ایک آدھ کمرہ اور بنالوں۔۔۔” وہ انکساری سے مکارانہ انداز میں ہنسنے لگا۔ منکسرالمزاج اکثر مکار ہوا کرتے ہیں۔
ناز کے گھر کے سامنے بریکر بن گیا۔شاہ جہان کو ایسی خوشی شاید ممتاز محل بنوانے میں کبھی نہ ہوئی ہو،جو اس نے غریب رعایا کا خون چوس چوس کر زرِکثیر سے بنوایا تھا، جیسی خوشی ناز کو ہوئی۔ جب اس نے بھٹے کی چند اینٹیں لگوا کر اسپیڈ بریکر بنوالیا۔کامیابی کی مسرت، احساسِ فتح مندی کا نشہ۔۔۔! مغرب کی نماز میں اس نے نوافل شکرانہ بھی پڑھے۔ پھر بہت دیر تک وہ سر بہ سجود رہا۔ کہاں بسیمہ کی کسمپرسی اور کہاں یہ شان و شوکت۔۔۔ کہ اس کے گھر کے سامنے پجیرو اور مرسیڈیز جیسی گاڑیاں رک جاتیں،دم لیتیں،حدِ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بریکر پار کرلیتیں۔۔۔ ایسی اطاعت۔۔۔ایسا احترام۔۔۔کیا راجا ‘کیا پرجا۔۔۔ جیسے پھنکارتا ناگ سپیرے کے سامنے سیس جھکا دے، جیسے بلوچستان کے سرکش دریا کچھی کے میدانوں میں حلیم ہو جایا کرتے ہیں، لیکن خوشی کو کسی کی نظر لگ گئی۔
اگلے ہی مہینے نیا کمشنر کیا آیا،کہرام سا مچ گیا۔اس نے میئر کے ساتھ مل کر اسپیڈ بریکرز کے خلاف ایسی جذباتی مہم شروع کردی کہ یہ ولولہ کبھی کتا مہم میں بھی دکھائی نہ دیا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے اسپیڈ بریکرز یکے بعد دیگر اکھاڑ دیے گئے۔ ناز کو اپنے اسپیڈ بریکر کی فکر لاحق ہوئی، جس سے اس کی اپنی انا وابستہ تھی، لہٰذا ایک دو بار متعلقہ عملہ توڑنے بھی آیا تو ناز نے ان کی خاطر مدارات کی،مٹھی بھی گرم کردی، سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ اسپیڈ بریکر بھی توڑ کر ہٹا دیا گیا، مگر درحقیقت موجود ہی رہا۔
ایک مرتبہ خود کمشنر کا گزر ہوا تو اسے بڑی حیرت ہوئی کہ اسپیڈ بریکر موجود تھا۔اگلے روز افسر میونسپل کی طلبی ہوئی،عملہ پھر روانہ کیا گیا۔ناز کے ادیب اور شاعر دوست جذباتی ہوگئے، ایسے جذباتی نہ ہوتے تو ادیب کیسے بن پاتے۔ ایک تل پر سمرقند و بخارا قربان کرنے والے اسپیڈ بریکر پر دھرنا مار کر بیٹھ گئے۔مقابلے والی کیفیت پیدا ہو گئی۔بھٹے کے مزدوروں کو خبر ہوئی تو لکڑیاں اور ڈنڈے اٹھائے وہ بھی دوڑے چلے آئے اور روڈ بلاک کردیا۔آس پاس کے مزدوروں نے ناز کی حمایت میں لوہے کی سلاخیں اور بیلچے اٹھالیے۔ناز نے ساری طاقت ساری قوت جھونک دی۔چند مزدور لیڈروں سے شناسائی تھی۔انہیں پیغام دوڑایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ پولیس کی نفری کچھ دور کھڑی اپنی طاقت مستحکم کرتی رہی۔ میونسپلٹی کا متعلقہ عملہ ناز کے سگریٹ پھونکتا رہا اور لاتعلقی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتا رہا۔کمشنر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی معمولی سی بات پر ایسا بڑا فساد برپا ہوسکتا ہے۔اس نے جرأتِ رندانہ سے کام لیا۔ وہ اکیلا ہی ڈرائیو کرتا موقع پر جا پہنچا۔ضلعی افسر روکتے ہی رہ گئے۔ہجوم نے اس کی گاڑی پر ہاتھ مارے، مردہ باد کے نعرے لگائے،لیکن وہ ایسے پُرسکون انداز میں کار سے اترا کہ مجمع ٹھٹک کر رہ گیا۔اس کی آنکھوں میں اعتماد تھا اور چہرے پر سچائی کی جھلک۔۔۔!! دلیری کی بنیاد ہی سچائی ہے۔جھوٹا،ظالم تو ہوسکتا ہے،مگر دلیر نہیں۔ناز نے نہتے دشمن کو نرغے میں دیکھا تو اس کی خاندانی شرافت عود کر آئی،بڑھ کر استقبال کیا۔ دفتر میں اپنی کرسی پر لا بٹھایا۔چائے سے تواضع کی۔ کمشنر نے کہا کہ وہ چائے اس شرط پر پئے گا کہ اس کی بات سنی جائے۔ناز نے اقرار کیا تو کمشنر نے دوستانہ ماحول میں چائے پی اور پھر ان سے خطاب کیا۔
”اسپیڈ بریکر پس ماندگی کی علامت ہے۔ہم زندگی اور وقت کی رفتار کو روکنا چاہتے ہیں۔اسے سست رفتاری پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ شہروں میں جتنے زیادہ اسپیڈ بریکر ہوں گے، لوگ اسی قدر زیادہ پس ماندہ ہوں گے۔غیر محتاط اور سست ہوں گے۔ان کے ردِعمل (Reflexes) انتہائی مجہول ہوں گے۔جیسے قدیم اسپارٹا کے مفکر نے کہا تھا کہ شہروں کی حفاظت فصیلوں سے نہیں، شہریوں سے ہوا کرتی ہے۔ پتھر چونے کی دیواروں سے نہیں، شہریوں کے حوصلوں سے ہوتی ہے تو اسپارٹا کے لوگوں نے فصیلیں گرادیں اور پھر اسپارٹا نے ایک عرصے تک قوموں پر حکومت کی۔بعینہٰ شہریوں کی حفاظت اسپیڈ بریکر سے نہیں،بلکہ ان کی ذہنی مستعدی اور عملی استعداد سے ہوتی ہے ، ورنہ کچھوا تو مضبوط ترین خول میں بھی مر جاتا ہے۔ سارے بریکرز توڑ ڈالیں۔شہری محتاط، پابند،ہوشیار اور چوکنا ہوجائیں گے۔یہ بریکرز نہیں، ناروا تحفظ کا احساس ہے۔یہ ہماری اناکی لاشعوری تسکین ہے۔اسپیڈ بریکر علامیہ ہے،جہالت کا، شہریوں کی ذہنی پسماندگی، خوف کا،جب کہ خوف کی جبلت حیوانیت ہے۔کب تک ہم حیوان بنے رہیں گے۔بلوچستان بھر کوان اسپیڈ بریکرز سے نجات دلادیں اور متمدن قوموں کی صفوں میں لاکھڑا کریں۔مجھے یہی کہنا تھا۔ شکریہ باقی فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔”
کمشنر کی دھول اڑاتی کارچلی گئی۔ دھول کا ایک طوفان ناز کے ذہن میں کوندنے لگا۔جیسے دشت گواران میں دھول اڑاتی ہوائیں براجتی ہوں۔جیسے ریت کے بنے محلّوں کو تند و تیز ہوائیں لے اڑایں۔
کمشنر کی ہدایت پر پولیس کی نفری اور میونسپلٹی کا عملہ بھی واپس چلا گیا۔
” یہ بریکر توڑ دیا جائے۔۔۔” ناز نے حتمی اعلان کیا۔ مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔سبھی انا کا مسئلہ بنائے بیٹھے تھے۔رفتہ رفتہ مجمع چھٹ گیا۔رضاکار بدستور اسپیڈ بریکر کی حفاظت کررہے تھے، اس کے باوجود یکہ اس کی سا لمیت کو اب بظاہر کوئی بھی خطرہ نہ تھا۔
اگلی صبح نمازِ فجر کے لیے جانے والوں نے دیکھا کہ اسپیڈ بریکر ٹوٹ چکا ہے۔کوئی شخص اندھیرے میں کوہ کنِ بے ستوں کی سی آن اور قوتِ ارادی سے تیشہ زن ہے۔ان کے قدم تیز ہوگئے۔قریب جا کر دیکھا تو jپسینے میں شرابور ہانپتا شخص کوئی سرکاری اہلکار نہیں بلکہ خود ڈی کے ناز تھا۔سفید چادر اوڑھے زبیدہ لنگڑاتی ہوئی شکستہ اسپیڈ بریکر کے ٹکڑے سڑک سے نیچے،کناروں کی جانب پھینک رہی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...