وہ اس کی ذہنی کیفیت بخوبی سمجھ رہا تھا اس سے مزید کوئی اصرار نہیں کیا تھا اعتبار کی وہ مالا جو ایک بار ٹوٹ چکی تھی اس کے بکھرے ہر موتی کو محبت کے دھاگے میں پرو کر وہ بڑے مان اور استحقاق کے ساتھ اسے لوٹانا چاہتا تھا سو اس میں کچھ وقت تو لگنا ہی تھا وہ آج کل پہلے سے بھی زیادہ اس کا خیال رکھ رہا تھا، حریم اس کے رویوں پر حیران تھی۔
نہ کوئی گرل فرینڈ، نہ اسموکنگ اور نہ کہیں آوارہ گردی اپنے شب و روز کا ہر لمحہ ہر پل وہ اس کے ساتھ گزار رہا تھا ایک بیڈ روم میں رہنے کے باوجود وہ اپنے وعدے پر قائم تھا وہ اس کا سیل فون والٹ، وارڈ روب کے علاوہ کئی لاکڈ دراز تک کھنگال چکی تھی لیکن کہیں سے بھی کوئی مشکوک سراغ برآمد نہیں ہو سکا تھا۔
اس کے لیپ ٹاپ پر کوئی پاس ورڈ نہیں لگا ہوا تھا وہ باتوں کے دوران اس سے پوچھ چکی تھی کہ کیا وہ کبھی کسی سے چیٹنگ کرتا رہا ہے تب اس نے شریر انداز میں پوچھا تھا۔
’’کیا تمہارا مطلب کسی لڑکی سے ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ وہ برملا بولی۔
’’نہیں میں کبھی کبھار فیس بک یوز کر لیتا ہوں ورنہ آفس کا کام ہی بہت ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ اس کے سفید جھوٹ پر دن بھر جلتی رہی تھی تب وہ شام میں اسے گھمانے لے گیا تھا وہ خوب ڈھیر ساری شاپنگ کر کے لوٹی تھی اس نے اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ سے ڈنر بھی کیا تھا اور سونے سے قبل جب اسے گرین ٹی کی کافی طلب ہو رہی تھی تو وہ اس کے بغیر کہے ہی دو مگ لیے حاضر تھا۔
آج کل وہ ویسی ہی عیش بھری زندگی گزار رہی تھی جس کے خواب کبھی اس نے دیکھے تھے مگر ایک بار ٹوٹنے کے عمل سے جو گزری تھی تو اب کسی بھی خوشی کا احساس باقی نہیں رہا تھا اس نے ہمیشہ سے سب چاہا تھا آدھی تکمیل تو اسے خوشی دے بھی نہیں سکتی تھی۔
نیشنلٹی کے لئے وہ اپلائے کر چکی تھی آج اس سلسلے میں ان کا انٹرویو تھا جو کہ بہت اچھا رہا تھا دو ماہ بعد نیشنیلٹی کارڈ ہاتھوں میں لئے وہ گھر آئی تو اسے اپنے اندر عجیب سے خالی پن کا احساس بڑی شدت سے ہونے لگا تھا۔
اس نے سوچا تھا یہ دن اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت اور یادگار دن ہو گا مگر یہ دن تو عام دنوں سے بھی زیادہ بیزار کن اور پژمردہ سا تھا سر میں ہونے والے شدید درد کے باعث وہ پین کلر لے کر لیٹ گئی تھی۔
سوچنے اور عمل کے مراحل سے گزرنے میں کتنا فرق تھا شاید اتنا ہی جتنا پھانسی کا حکم سننے اور صلیب پر لٹکنے میں تھا، یہ آخری مرحلہ تھا اور اس کے بعد وہ کہاں ہو گی شاید کہیں بھی نہیں۔
’’پہلے میں نے ابا، اماں کا دل دکھایا ان کی عزت اچھالی انہیں سارے زمانے میں رسوا کیا پھر اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے حرام موت کو گلے لگانے کی کوشش کی اور اب شوہر سے بیوفائی، کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے یوں لگتا ہے جیسے کوئی مجھ سے انتقام لے رہا ہو، یا پھر زندگی کسی کی بد دعاؤں کی زد میں ہے، ہاں ایک بندے کے ساتھ کی زیادتی تو میں بھول ہی گئی ایان کتنی محبت کرتا تھا وہ مجھ سے۔‘‘ آہٹ کا احساس اس کے خیالوں میں دراڑ ڈال گیا تھا بے دھیانی میں آنکھیں کھولیں سامنے شہروز کھڑا تھا جب وہ گھر آئی تھی اس وقت وہ بالکونی میں کھڑا تھا حریم کو وہ بہت رنجیدہ اور اداس سا لگا تھا۔
ہفتہ بھر سے وہ نوٹ کر رہی تھی کہ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور پھر کہہ نہیں پاتا وہ مسکراتا تھا لیکن مسکراتے ہوئے اس کی سنہری آنکھوں میں امڈنے والی وہ مخصوص چمک جیسے بجھ سی گئی تھی وہ عجیب کشمکش کی سی کیفیت میں تھا۔
’’حریم یہاں کمرے میں اندھیرا کیے کیوں بیٹھی ہو، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘
’’میرا تمہیں اتنا احساس ہے تو اس لڑکی کے لئے کیوں بے حس ہو گئے تھے جس نے تمہاری خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔‘‘ وہ اس فکر مند تشویش بھرے انداز پہ جل کر رہ گئی تھی لیکن لبوں سے کچھ نہیں کہا تھا۔
’’حریم!‘‘ اس نے پھر پکارا۔
’’ٹھیک ہوں میں۔‘‘ وہ بیزاری سے بولی۔
’’اٹھو باہر آؤ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ وہ کہہ کر چلا گیا تھا حریم کو اٹھ کر باہر آنا ہی پڑا لیکن لاؤنج تو بالکل خالی تھا ڈائیننگ ہال میں جھانکنے کے دوران اس کی بالکونی پر نظر پڑی تو وہ اسے وہاں کھڑا دکھائی دے گیا تھا۔
ریلنگ سے ٹیک لگائے بظاہر وہ کیج میں شور مچاتے آسٹریلین طوطے دیکھ رہا تھا، لیکن اس کا انداز ایسا تھا جیسے ذہنی طور پر وہ وہاں موجود نہ ہو۔
’’کہو کیا کہنا ہے۔‘‘ وہ بھی اس کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’حریم اگر میں کہوں کہ میں نے تمہیں دھوکے میں رکھا ہے صرف اس لئے کیونکہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور تمہیں کھونے کے خیال سے ڈرتا تھا اس لئے سچائی بتانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن پلیز کیا تم میرے اس جھوٹ کے لئے مجھے معاف کر دو گی۔‘‘ وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے کس قدر منت بھری، التجا آمیز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا حریم کو لگا اعتراف جرم کا لمحہ شاید آ چکا تھا۔
اب جبکہ وہ سزا دینے پر قادر تھی تو وہ معافی کا طلبگار بن کر آ گیا تھا مگر وہ فرشتہ نہیں تھی ایک عام سی انسان تھی اور اپنی دانست میں تو اسے انصاف کرنا تھا حالانکہ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ دونوں فریقین کی بات سن کر فیصلہ سنایا جاتا مگر اسے شاید فیصلہ سنانے کی جلدی بہت تھی یا پھر وہ انصاف کے اصولوں سے بھی نابلد تھی۔
’’اب اس کا کوئی فائدہ نہیں مجھے تم سے طلاق چاہیے میں نے محض نیشنلٹی کارڈ کی خاطر تم سے شادی کی تھی۔‘‘ اپنے دونوں ہاتھ اس کی مضبوط گرفت سے نکال کر وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے قدرے بے رحمی سے بولی تھی، جس پہ شہروز کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا۔
’’یہ کیا کہہ رہی ہو حریم۔‘‘
’’مجھے تم سے طلاق چاہیے ابھی اور اسی وقت۔‘‘ وہ اپنی بات پر مصر تھی۔
’’میں نے تمہاری خاطر اپنے سارے خاندان کو چھوڑا ہے اور تم مجھے چھوڑنے کی بات کر رہی ہو۔‘‘ وہ ہنوز بے یقین تھا۔
’’میں نے بھی چھوڑا تھا تمہارے لئے اپنا خاندان۔‘‘ وہ سکون سے بولی۔
’’حریم پلیز ایسا مت کرو میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔‘‘ شدت جذبات سے اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
’’میں نے بھی بہت محبت کی تھی تم سے۔‘‘ اس کا انداز ہنوز تھا قطعی اور بے رحم۔
’’میں مر جاؤں گا تمہارے بغیر۔‘‘ چند قطرے پلکوں کی باڑ پھلانگ گئے۔
’’میں نے بھی کوشش کی تھی لیکن دیکھو میں زندہ ہوں تم بھی زندہ رہو گے۔‘‘
’’میں وہ نہیں ہوں جوتم سمجھ رہی ہو۔‘‘
’’لیکن میں وہی حریم ہوں جو تمہارے لئے محض وقت گزاری اور ٹائم پاس کا سامان تھی جس کی تصویر کو تم پوجتے رہے اور آواز کو پہچان نہیں سکے جو تمہارے دل میں تھی لیکن تم نے اسے زندگی سے نکال دیا، جس کی…‘‘
’’وہ میں نہیں تھا۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر چلایا، اسی پل دروازے پر دستک ہوئی تھی، دونوں نے کھا جانے والی نظروں سے دروازے کو گھورا جیسے اس پل کسی کی آمد انتہائی ناگوار گزری ہو، دستک مسلسل ہو رہی تھی وہ بے نیاز بنا کھڑا رہا، بالآخر وہ دروازے تک آئی اور پوچھے بغیر ایک جھٹکے سے در وا کیا، لیکن مقابل کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ شاکڈ رہ گئی تھی۔
’’ایان تم۔‘‘ اس کے لب بے آواز ہلے۔
’’چلو میرے ساتھ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔‘‘
’ایک سیکنڈ۔‘‘ وہ الٹے قدموں واپس مڑی الگنی پر رکھا اپنا بیگ اٹھایا اور اس سے سپاٹ لہجے میں بولی۔
’’میں کچھ دیر میں اپنا سامان لینے واپس آؤں گی میرے آنے تک ان کاغذات پر سائن کر دینا۔‘‘
’’حریم میری بات…‘‘ وہ اس کے پیچھے لپکا مگر دروازہ ٹھک سے اس کے منہ پر بجا تھا وہ ایک گہرا اطمینان بھرا سانس خارج کرتے ہوئے واپس صوفے پر آ کر بیٹھ گیا اس کے سارے خدشات بے بنیاد تھے وہ تو سمجھ رہا تھا حریم اس سے محبت کرتی ہے لیکن اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ تو اس سے نفرت کرتی ہے جو در حقیقت کسی اور کے لئے تھی۔
٭٭٭
’’ایان تم اچانک یہاں کیسے۔‘‘ واک کرتے ہوئے دونوں قریبی پارک چلے آئے تھے راستہ بھر ایک دبیز خاموشی دونوں کے مابین حائل رہی تھی سنگی بنچ پر بیٹھنے کے بعد ایان وہ لفظ تلاش کر رہا تھا جس میں روداد زیست کو سمیٹا جا سکے جبکہ حریم کے اندر حیرت آمیز سوالوں نے اودھم مچا رکھا تھا، وہ اسے یوں اچانک غیر متوقع طور پر سامنے دیکھ کر شاکڈ رہ گئی تھی۔
’’اچانک نہیں ہفتہ بھر سے آیا ہوا ہوں شہروز کو میں نے بہت بار کہا وہ تمہیں حقیقت بتا دے لیکن لگتا ہے اس نے ابھی تک تمہیں کچھ نہیں بتایا۔‘‘
’’حقیقت کون سی حقیقت اور شہروز کو تم کیسے جانتے ہو۔‘‘ وہ مزید حیران ہوئی۔
’’بتاتا ہوں۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر پھر خاموش ہو گیا تھا جیسے بات کا سرا ڈھونڈ رہا ہو۔
’’گھر میں سب کیسے ہیں اماں، ابا، ہمایوں، حرمت، ماہا۔‘‘ وہ جانے کس حقیقت کی بات کر رہا تھا لیکن حریم کو تو اسے دیکھتے ہی سب کی یاد ستانے لگی تھی۔
’’سب خیریت سے ہیں۔‘‘ وہ دل گرفتی سے بولا۔
’’مجھے یاد کرتے ہیں۔‘‘ وہ بے تابی سے پوچھنے لگی۔
’’اماں ابا مجھے معاف کر دیں گے نا ایان تم سب کو منانے میں میرا ساتھ دو گے۔‘‘
’’حریم تمہیں یاد ہے جب تم لندن آئی تھی تو میں تم سے ناراض تھا۔‘‘ وہ کیا کہہ رہی تھی اور وہ کیا پوچھ رہا تھا اسے یکلخت ڈھیروں ندامت نے آن گھیرا تو حساب کا کھاتہ کھلنے والا ہے میں کیوں حقیقت کو فراموش کر گئی تھی۔
’’میں چھت پر کھڑا تھا اور تم مجھ سے ملے بغیر چلی گئی تھی تب مجھے تمہاری نظروں میں اپنی اہمیت کا احساس ہوا تھا تم سے بہت بدگمان ہو چکا تھا اس روز میں نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور رات بھر نیند میری آنکھوں سے روٹھی رہی تھی لیکن جب تم نے ماہا کو پیغام دیا کہ میں گیارہ بجے آن لائن ہو جاؤں تم مجھ سے بات کرو گی، تو میرا دل چاہا کبھی تم سے بات نہ کروں تم نہیں جانتی تم میرے لئے کیا تھی، تمہیں دیکھے بغیر ایک لمحہ جینا محال تھا اور کہاں تین سال، میں ان ہواؤں میں سانس کیسے لیتا جو تمہاری خوشبو سے خالی ہو چکی تھیں مجھے لگا میری ناراضگی تمہیں زیادہ دیر وہاں رہنے نہیں دے گی اور تم جلد واپس لوٹ آؤ گی، لیکن تم سے بات کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا تھا اس لئے میں نے ’’سویٹ ہارٹ‘‘ کے آئی ڈی سے تم سے بات کی۔‘‘ اس نے ایک لمحے کا توقف کیا اور ہمہ تن گوش بیٹھی حریم کے وجود میں چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں اسے پورے کا پورا آسمان اپنے سر پہ گرتا محسوس ہوا تھا۔
’’مجھے لگا تم مجھ سے بات نہیں کرو گی لیکن پہلے ایک دو بار تم نے غصہ کیا پھر ہماری گفتگو کا دورانیہ طویل ہو گیا میں نے دوستی کی آفر کی تو تم نے کہا ’’ایک شرط پہ تم سے دوستی کروں گی اگر تم ہینڈسم ہوئے تو‘‘ اس بات پر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اپنے اکاؤنٹ پر پڑی شہروز کی تصویر تمہیں دکھا دی شہروز سے میری دوستی فیس بک پر ہوئی تھی اور میں اس کے متعلق جو کچھ جانتا تھا میں نے سب اپنی جانب سے تمہیں بتا دیا، میں نے اپنی نوکری کی شفٹ چینج کر لی اور دن رات کی تمیز بھلا کر تم سے باتیں کرنے لگا مجھے اس کھیل میں بہت مزہ آ رہا تھا وہ ساری باتیں جو ایان بن میں تم سے کبھی نہ کر سکا وہ شہروز بن کر کر دیں جب میں نے تم سے اپنی محبت کا اظہار کیا تو تم نے میرا امتحان لینے کے لئے کہ میں کہیں تم سے فلرٹ تو نہیں کر رہا ایک روز ضویا نام کی آئی ڈی سے مجھے فرینڈ ریکوسٹ سینڈ کی لیکن میں تمہاری ہینڈ رائیٹنگ پہچان گیا تھا تم ہمیشہ سمال رائیٹنگ میں لکھتی تھی جے کو تم جی لکھتی تھی اور اس کے علاوہ تم ایک لائن میں تین کلر یوز کرتی تھی جس روز میں نے تم سے بات کرنا چھوڑا اس روز ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی میں نے سوچا اب تم واپس آ جاؤ گی تو مجھے یہ کھیل ختم کر دینا چاہیے لیکن تمہارے انکار پر میں شاکڈ ہو کر رہ گیا تھا تم مجھے چھوڑ کر شہروز کی محبت میں مبتلا ہو گئی تھی میں یقین نہیں کر پا رہا تھا مجھے تو لگا تھا تم محض فلرٹ کر رہی ہو پھر میں نے تمہیں وہ میسج سینڈ کیا تھا۔‘‘
’’سوری حریم میں تم سے محبت نہیں کرتا ہمارے درمیان جو بھی ہوا جسٹ ایک فلرٹ تھا تم اسے وقت گزاری یا ٹائم پاس کچھ بھی کہہ سکتی ہو اور تم اس لسٹ کی کس نمبر پر تھی یہ میں بھی نہیں جانتا۔‘‘ وہ جیسے کسی رو بوٹ کی مانند بولی تھی۔
’’ہاں مجھے لگا اب تم شہروز کی جانب سے مایوس ہو کر پاکستان لوٹ آؤ گی مگر میرا خیال غلط نکلا ہم آخری وقت تک تمہارا انتظار کرتے رہے لیکن تم نے نہ آنا تھا نہ آئی تب ابا نے زبردستی میرا نکاح ماہا سے کر دیا وہ لڑکی جسے میں ہمیشہ ہی بہنوں کی طرح سمجھتا آیا تھا ایک سزا کی صورت مجھ پر مسلط کر دی گئی تھی میں غم و غصے سے پاگل ہو چکا تھا مجھے تم سے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ ایک چہرہ تمہیں میرے دل، میری محبت اور ہمارے رشتے سے زیادہ عزیز ہو جائے گا، ان دنوں شہروز لاہور آیا ہوا تھا اور میری شادی پر بھی انوائیٹڈ تھا تمام تر صورتحال اس کے سامنے تھی میں نے اسے اصل حقیقت بتا دی تھی اور اس سے کہا تھا کہ وہ لندن جا کر تم سے ملے اور تمہیں سچائی بتا دے مگر وہ دھوکے باز، مکار، فریبی اس نے اتنا بڑا دھوکہ دیا مجھے کہ تم سے شادی کر لی، میں اتنی دور اپنی عمر بھر کی پونجی لگا کر یہاں محض تمہیں لینے آیا ہوں حریم چلو واپس چلیں۔‘‘ وہ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا تھا مگر وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی ہوئی تھی اس کے دل و دماغ میں جکڑ سے چل رہے تھے اور وجود جیسے آندھیوں کی زد میں تھا ساری چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔
’’تمہاری محبت میں ہوں حریم، تم شہروز سے طلاق لے لو میں ماہا کو چھوڑ دوں گا پھر ہم شادی کر لیں گے۔‘‘ ایان نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے ساکت بیٹھی حریم کو جھنجھوڑا مگر وہ تو جیسے گوں گی بہری ہو چکی تھی، نظروں کے سامنے بار بار وہ کاغذ گھوم رہا تھا جو وہ آتے ہوئے میز پر رکھ کر آئی تھی۔
’’اگر اس نے سائن کر دئیے تو۔‘‘ جان لیوا وہم کا نزول ہوا تھا اور دل جیسے کسی نادیدہ طاقت نے مٹھی میں جکڑ لیا۔
اس نے ہمیشہ غلط فیصلے کیے تھے اور بعد میں پچھتائی تھی، لیکن آج اپنے آخری فیصلے کو عمل کے مراحل میں گزرنے سے روکنا چاہتی تھی کیونکہ آج کے بعد وہ پچھتانا نہیں چاہتی تھی۔
اس شخص نے اس کی زندگی کو شطرنج کی بساط پر رکھ کر کھیلا تھا اور ہر مہرے پر مات دی تھی اور وہ مات کو جیت سمجھ کر اس پر مسرور ہونے کی بجائے ہمیشہ گلٹ محسوس کرتی رہی جیسے جیت کر اس سے کسی کے ساتھ بڑی زیادتی ہو گئی ہو اور آج جب وہ اسے آگہی بخشنے آیا تھا اس کی مات کا احساس دلانے آیا تھا تو وہ اس کی مشکور تھی اس کی شکر گزار تھی، انجانے میں ہی سہی لیکن آج اس شخص نے اسے صحیح معنوں میں جیت کر خوشی سے سرشار کر دیا تھا۔
’’تم نے کہا تھا نا تمہاری محبت دل ہے تو ماہا کے دل کا کچھ خیال کر لینا۔‘‘ اٹھنے سے قبل وہ اس سے گویا ہوئی تو وہ بے ساختہ بول اٹھا۔
’’اور تمہاری محبت…‘‘
’’میری محبت تو وہ چہرہ ہے جو تم نے مجھے دکھایا تھا۔‘‘ تھوڑی دور کھڑے شہروز کو دیکھ کر وہ ایک جذب کے عالم میں بولی تو ایان کے چہرے پر سناٹے چھا گئے اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اوپر کہکشاؤں پر لے جا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ہو وہ جیسے خلا میں معلق تھا جہاں ہوا کا وجود ناگزیر تھا اسے سانس لینے میں وقت ہو رہی تھی۔
اور حریم نے آج خلا سے ہوا میں قدم رکھ دیا تھا اب اس کے پاؤں زمین پر تھے اور خوشیاں محبت کے خوشنما پیکر میں ڈھلی سامنے منتظر کھڑی تھیں۔
’’ہو گئے سارے حساب پورے۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر خفگی سے بولا تھا۔
’’نہیں ابھی ایک حساب باقی ہے۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرائی۔
’’کیسا حساب؟‘‘ اس نے ابرو اچکائے۔
’’میری محبت اور تمہاری نفرت کا حساب۔‘‘ اس نے یاد دلاتے ہوئے کہا تو وہ بے یقینی سے بولا۔
’’میں تم سے نفرت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’تو محبت کر لو۔‘‘ وہ بے ساختہ بول اٹھی شہروز سے مزید خفا رہنا مشکل ہو گیا تھا وہ اس کی خوبصورت آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا اور دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر زندگی کی محبت بھری شاہراہ پر ہم قدم ہو گئے۔
٭٭٭
بشکریہ کتاب اینڈرائڈ ایپ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...