ہیتھرو ایرپورٹ پر زیب کے ماموں انہیں ریسیو کرنے آئے تھے۔
’’السلام علیکم ماموں جان!‘‘ زیب دور سے دیکھتے ہی بھاگ کر ان کے سینے سے جا لگی تھی اور وہ گرد و پیش کا جائزہ لینے میں مگن، لندن سٹی تھا کہ خوابوں کا نگر یا پھر ماورائی دُنیا۔
شیشے جیسی شفاف سڑکیں، برف باری کا موسم، جدی طرز کی عمارتیں اور مشینی زندگی ہر کوئی اپنی ہی موج میں مگن لگی بندھی روٹین کے تخت چل رہا تھا۔
’’کیسی ہو ماموں کی جان۔‘‘ وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولے۔
’’فرسٹ کلاس۔‘‘
’’سفر کیسا گزرا؟‘‘
’’اے ون۔‘‘
’’تمہاری مما کیسی ہیں؟‘‘
’’مما بھی ٹھیک ہے او! شٹ!! میں تو بھول ہی گئی۔‘‘ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے اس نے رخ سخن حریم کی سمت موڑا تھا۔
’’ماموں شی از مائی فرینڈ حریم۔‘‘ اور پاس کھڑی حریم اس کے انداز تخاطب پر چونک اٹھی تھی ضوباریہ نے اس کے تاثرات سے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرا کر شانے اچکا دئیے تھے۔
’’بہت پیاری بچی ہے۔‘‘ اب وہ اس کا حال احوال دریافت کرنے لگے تھے حریم کو ان کا چہرہ کچھ جانا پہچانا محسوس ہوا تھا وہ سوچتی رہی لیکن یاد نہیں آ رہا تھا، پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ لائیڈن اسٹون پہنچ چکے تھے ان کا اپارٹمنٹ سیکنڈ فلور پر تھا۔
دو بیڈ روم، کچن، لاؤنج اور ٹیرس، گھوم پھر کر دیکھنے کے بعد وہ ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی تھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس وقت لندن میں کھڑی ہے اس سٹی میں جس کو ویب پر ریسرچ کر کے وہ گھنٹوں دیکھا کرتی تھی اس کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا کہ نا ممکن خواب بھی کبھی کبھار یوں اچانک تعبیر پا جاتے ہیں۔
’’کافی۔‘‘ زیب نے پیچھے سے آ کر اسے چونکا دیا تھا پھر اس کے ہاتھ میں کافی کے دو مگ دیکھ کر شرمندہ سی ہو گئی وہ یہاں اس کا خیال کرنے آئی تھی اور اب الٹا وہ اس کے لئے کافی بنا کر لا رہی تھی۔
’’ایم سوری۔‘‘
’’فار واٹ۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’کافی کے لئے تم مجھے کہتی میں بنا دیتی۔‘‘
’’ارے چھوڑو یہ پر تکلف باتیں، کل کو یہ سب کام تمہیں ہی کرنے ہیں اور ویسے بھی حریم تم میری دوست ہو میں اتنے خوبصورت لوگوں کو نوکر نہیں بنا سکتی اور تم نے جس طرح اپنے گھر والوں کی خاطر یہ سب کیا آئی ایم رئیلی امپریسڈ، پر خلوص حساس اور خوبصورت لوگ میری کمزوری ہیں اور تم نے تو صحیح معنوں میں میرا دل جیت لیا ہے۔‘‘ آخری جملے کی غیر سنجیدگی اور بے باکی پر وہ بے ساختہ مسکرائی تھیں۔
’’ماموں ابھی تو ریسٹ کر رہے ہیں لیکن وہ یہ ایک ہفتہ ہمارے ساتھ گزاریں گے اور ہمیں لندن گھمائیں گے۔‘‘ برف کے روئی جیسے گالوں کو دونوں ہتھیلیوں کی اوک میں جمع کرتے ہوئے وہ ریلنگ پر رکھتی جا رہی تھی اور پھر اس نے برف کا چھوٹا سا بھالو بنایا تھا۔
’’تمہارے ماموں لگتا ہے بہت پیار کرتے ہیں تم سے۔‘‘
’’ہاں بہت زیادہ۔‘‘ اس کی ہتھیلیاں سرخ ہو چکی تھیں دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے اسے مما کو فون کرنے کا خیال آیا تھا تو بات ادھوری چھوڑ کر لاؤنج میں چلی گئی تھی کافی کا ذائقہ کافی تلخ تھا لیکن اس ٹیسٹ کا بھی اپنا ہی مزہ تھا کیونکہ اپر کلاس کے لوگ چائے نہیں پیتے تھے۔
٭٭٭
رات دونوں نے مل کر اپنا مختصر سا سامان اپنی اپنی وارڈ روب میں سیٹ کر دیا تھا ماموں کھانا ہوٹل سے لائے تھے اور پھر برتن دھونے کے بعد دونوں ایک ہی بیڈ پر سوئی تھیں اگلے روز ناشتہ اس نے بنایا تھا لیکن زیب نے برابر اس کی ہیلپ کروائی تھی اور پھر ماموں اپنی لینڈ کروزر میں انہیں گھمانے لے گئے تھے، اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی ماورائی دنیا میں قدم رکھ چکی ہو۔
’’مادام تساؤ۔‘‘ کو دیکھ کر زیب نے اس سے کہا تھا۔
’’اگر تم اس وقت سفید لباس میں ہوتی تو تم پر بھی کسی سنگ تراش کے مومی مجسمے کا گمان ہوتا۔‘‘
لندن ساؤتھ بال ایشینز کے پاکستانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد الزبتھ محل ’’برمنگھم پیلس‘‘ دیکھا اور خوب گھوم پھر کر ونڈو شاپنگ کی، یہ اس کی زندگی کا ایک بھرپور اور خوشگوار دن تھا وہ جو کبھی پورا لاہور نہیں دیکھ پائی تھی اس نے آج لندن کا کونہ کونہ گھوم لیا تھا۔
رات سونے سے قبل اسے اچانک ایان کا خیال آیا تو زیب کے سیل فون سے اس نے پاکستان کال کی تھی فون ماہا نے ریسیو کیا۔
’’ہیلو حریم کیسی ہو تم۔‘‘ وہ اس کی آواز سن کر چہک اٹھی۔
’’میں ٹھیک ہوں تم سناؤ گھر میں سب کیسے ہیں؟‘‘
’’سب ٹھیک ہیں میں امی، ابو، چاچا، چاچی، حرمت اور ہمایوں، اس نے جان کر ہمایوں پر فل اسٹاپ لگا دیا تھا وہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔
’’اور ایان کیسا ہے؟‘‘ بطور خاص پوچھنا پڑا جبکہ وہ دوسری جانب اس کا۔
’’آہم۔‘‘ اچھا خاصا معنی خیز تھا۔
’’ماہا کی بچی۔‘‘ وہ تپ اٹھی۔
’’اس کا احوال اس سے دریافت کرنا مزاج خاصے برہم ہیں محترم کے۔‘‘
’’اچھا اسے کہنا کل گیارہ بجے میں اس سے آن لائن بات کروں گی۔‘‘ آخری پیغام دے کر اس نے سیل فون بند کر دیا تھا اور پھر آرام سے سو گئی تھی۔
اگلے روز زیب ماموں کے ساتھ یونیورسٹی گئی تھی وہ کمپیوٹر کے سامنے آ بیٹھی گیارہ بج چکے تھے لیکن وہ ابھی تک آن لائن نظر نہیں آ رہا تھا، وقت گزاری کے لئے اس نے روم جوائن کر لیا تھا، جب ایک ٹیکسٹ لکھا ہوا چلا آیا۔
’’تم کون؟‘‘ اس نے بیزاری سے پوچھا۔
’’تمہارا سویٹ ہارٹ۔‘‘ مسکراہٹ بھرے کارٹون کے ساتھ جواب حاضر تھا، جبکہ وہ لب بھینچے ہنوز لفظوں کو گھورے جا رہی تھی، غور کرنے پر معلوم ہوا اس کا آئی ڈی ہی ’’سویٹ ہارٹ‘‘ تھا۔
’’بھاڑ میں جاؤ۔‘‘ اس نے تپ کر لکھا۔
’’وہ کہاں ہے؟‘‘ معصومیت سے دریافت کیا گیا تھا، جس پر وہ غائب دماغی سے اسکرین کو گھورنے لگی، ’’بھاڑ‘‘ کا لفظ تو سن رکھا تھا لیکن مفہوم سے نا آشنائی تھی۔
’’ہا ہا ہا آپ کو بھی نہیں پتہ تو ایسا کرتے ہیں ساتھ چلتے ہیں کبھی نہ کبھی تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘ مقابل بھی اچھا خاصا لیچڑ ٹائپ تھا۔
’’تمہیں سمجھ میں نہیں آ رہا میں تم سے بات کرنے میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں۔‘‘ لکھنے کے بعد اس نے روم بند کر دیا لیکن آئی ڈی سائن آؤٹ نہیں کر سکتی تھی اسے ایان کا ویٹ کرنا تھا۔
’’اوہ ہو اتنا غصہ۔‘‘
’’ہاں ہے تو۔‘‘ وہ بے مروتی سے بولی۔
’’تو میں اس کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اور میں وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔‘‘
’’اور اگر میں گیس کر لوں تو۔‘‘ اس نے جیسے چیلنج کیا تھا حریم نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے مانیٹر اسکرین کو دیکھا اور اس کے اوور کانفیڈنیٹ پر استہزائیہ انداز میں لکھا۔
’’اچھا اتنا بھروسہ ہے اپنی قابلیت پر۔‘‘
’’آپ کی سوچ سے بھی زیادہ۔‘‘
’’اوکے فرسٹ اینڈ لاسٹ چانس اینڈ نو آپشن۔‘‘
’’کسی فرینڈ سے جھگڑا ہوا ہے یا پھر کوئی آپ سے خفا ہے۔‘‘ ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ اپنی ذہانت کا ثبوت دے چکا تھا وہ کتنی ہی دیر بے یقینی کے عالم میں بیٹھی رہی تھی پھر اس نے ہمت کر کے لکھا۔
’’تمہارے پاس آپشن نہیں ہے سو ’’یا‘‘ کی گنجائش نہیں نکلتی۔‘‘
’’اب میں کوئی جوتشی نہیں ہوں اتنا مارجن تو آپ کو مجھے دینا پڑے گا ویسے آپ کی بے تکلفی مجھے اچھی لگی۔‘‘
’’کون سی بے تکلفی۔‘‘ وہ اچنبھے سے بولی۔
’’یہی آپ کا مجھے تمہارے کہنا۔‘‘
’’میں صرف ان لوگوں کو ریسپکٹ دیتی ہوں جو اس کے قابل ہوں۔‘‘
’’ایسی ریسپکٹ کا کیا فائدہ جس میں اپنائیت نہ ہو مجھے تمہارا تم کہنا اچھے لگے گا سویٹ حریم۔‘‘ ڈور بیل کی آواز پر وہ سائن آؤٹ کرتی اٹھ گئی تھی۔
٭٭٭
آنے والے زیب اور ماموں تھے وہ یونیورسٹی سے اپنا ٹائم ٹیبل اور چند کتابیں لے کر آئی تھی، ماموں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپسی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ان کی سیٹ ٹرین میں پہلے سے ریزروڈ تھی جانے سے قبل وہ اپنی سیاہ لینڈ کروزر زیب کو دے گئے تھے۔
اگلے روز زیب کو یونیورسٹی جانا تھا، بلیک جینز اور پنک ہائی نیک پر وہ بلیک جیکٹ پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی، کافی میں کریم مکس کرتے ہوئے اچانک اس کا دل چاہا تھا۔
’’کاش میں بھی یونیورسٹی جا سکتی۔‘‘ اسے بچپن سے ہی مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھنے کی خواہش تھی اور پھر لندن یونیورسٹی کی تو بات ہی الگ تھی لیکن۔
’’حریم جلدی ناشتہ لاؤ۔‘‘ اگلے حکم پر اسے اپنی اوقات پتہ چل گئی تھی۔
’’دروازہ اندر سے لاکڈ کر لو اور دھیان سے رہنا۔‘‘ اپنے جوتے کے اسٹریپ باندھتے ہوئے زیب نے اسے چند ہدایات دیں اور پھر ہاتھ ہلا کر دروازے کے اس پار گم ہو گئی اب اسے سارا دن کیا کرنا تھا۔
اپنا ناشتہ ختم کرنے کے بعد اس نے ڈش واشر میں برتن دھوئے اور زیب کا پھیلایا ہوا پھیلاوا سمیٹ کر کمپیوٹر کے سامنے آن بیٹھی۔
’’سویٹ ہارٹ۔‘‘ نے فرینڈ ریکوسٹ سینڈ کی تھی جسے ریجیکٹ کرنے کا سوچ کر بھی اس نے نہ جانے کیوں ایکسپٹ کر لیا تھا۔
’’شکریہ۔‘‘ ساتھ ہی اس کا پی ایم چلا آیا جیسے وہ پہلے سے ہی منتظر بیٹھا ہو۔
’’بس غلطی سے ہو گئی۔‘‘ اس نے بے نیازی دکھائی۔
’’اف میرا دل ٹوٹ گیا۔‘‘ ساتھ ہی بروکن ہارٹ بھی چلا آیا تھا۔
’’ہا ہا ہا۔‘‘ اس نے تین کارٹون سینڈ کیے۔
’’ظالم لوگ۔‘‘ ساتھ ایک سیڈ سی شکل بھی نظر آ رہی تھی۔
’’یور نیم۔‘‘ اس نے پہلا سوال پوچھا تھا۔
’’سویٹ ہارٹ۔‘‘ فوراً جواب آیا۔
’’ڈونٹ بی فلرٹ۔‘‘ اسے غصہ آ گیا۔
’’ارے تمہارے ساتھ فلرٹ کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’بس تم اچھی لگتی ہو۔‘‘
’’میں نے تمہارا نام پوچھا تھا۔‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں سویٹ ہارٹ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس نے الٹا سوال پوچھا جس پر حریم نے اسے کارٹون سینڈ کیا تھا جو دائیں بائیں نفی میں سر ہلا رہا تھا۔
’’شہروز۔‘‘ اسٹائلش سی رائیٹنگ میں لکھا گیا تھا۔
’’میں حریم۔‘‘
’’حریم نہیں سویٹ حریم۔‘‘ اس نے تصحیح کی۔
’’حریم فرام۔‘‘
’’لندن۔‘‘
’’ویر ان لندن۔‘‘
’’لائیڈن اسٹون۔‘‘
’’میری فیملی برمنگھم میں ہے لیکن میں آج کل جاب کے سلسلے میں سعودیہ میں ہوں۔‘‘
’’او کے۔‘‘ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ نیکسٹ کوئسچن کیا پوچھے۔
’’یور کوالیفکیشن۔‘‘
’’ایم بی اے اور آج کل ایک اٹالین کمپنی میں جاب کر رہا ہوں۔‘‘
’’کس چیز کی کمپنی ہے؟‘‘
’’کنکریٹ۔‘‘
’’یور منتھلی انکم۔‘‘ کچھ جھجکتے ہوئے ہی سہی لیکن اب کی بار اس نے اپنے مطلب کا سوال پوچھا تھا۔
’’پاکستانی کرنسی میں تین لاکھ۔‘‘
’’تین لاکھ۔‘‘ پوری آنکھیں کھولتے ہوئے اس نے زیر لب دوہرایا تھا۔
’’اچھا اور تمہاری ہابیز۔‘‘
’’مجھے گاڑیاں جمع کرنے کا شوق ہے۔‘‘
’’انٹرسٹنگ۔‘‘ وہ اس کے اور اپنے مشترکہ شوق پر بہت خوش ہوئی تھی۔
’’لیکن یہ کافی مہنگا مشغلہ ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا میرے پاس لینڈ کروزر، پراڈو اور ہیوی بائیک ہے لیکن اب کی بار میں لیموزین لوں گا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ وہ تصور میں دیکھ کر ہی متاثر ہورہی تھی۔
’’اور تمہاری ہابیز؟‘‘
’’کچھ خاص نہیں۔‘‘ اس نے ٹالنا چاہا۔
’’چلو عام ہی بتا دو۔‘‘ وہ بصد اصرار بولا۔
’’مجھے بھی تمہاری طرح گاڑیاں جمع کرنے کا شوق ہے لیکن میں افورڈ نہیں کر سکتی۔‘‘
’’اسٹوڈنٹ ہو۔‘‘
’’ہاں میں ایل ایل بی کر رہی ہوں۔‘‘ کچھ سوچتے ہوئے اس نے جھوٹ لکھا تھا۔
’’پیرنٹس کے ساتھ رہتی ہو؟‘‘
نہیں فرینڈ کے ساتھ۔‘‘
’’اب کے بار میں لندن آؤں گا تو تمہیں اپنی ساری گاڑیوں میں گھماؤں گا، آئی وش کہ تم میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھو، کیا تم میرے ساتھ گھومنے چلو گی؟‘‘
’’کافی مشکل سوال ہے۔‘‘
’’کیوں مجھ پہ ٹرسٹ نہیں ہے۔‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر…‘‘
’’مجھے نہیں پسند لڑکوں کے ساتھ گھومنا۔‘‘
’’اوکے یور برتھ ڈے۔‘‘
’’فرسٹ جنوری۔‘‘
’’رئیلی۔‘‘ وہ شاکڈ ہی تو رہ گیا تھا۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’میرا برتھ ڈے بھی فرسٹ جنوری ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ اسے خوشگوار حیرت نے گھیرا۔
’’یور فیورٹ کلر۔‘‘ حریم نے پوچھا۔
’’سی گرین۔‘‘
’’میرا بھی اینڈ یور فیورٹ ڈش۔‘‘
’’سندھی بریانی اور اٹالین سیلڈ۔‘‘
’’مجھے بھی بریانی بے حد پسند ہے یور فیورٹ خوشبو۔‘‘
’’میں مختلف خوشبوئیں یوز کرتا ہوں۔‘‘
’’ارے میں بھی اور مجھے ساحل کا کنارا، ڈوبتا سورج اور بارش بہت پسند ہے۔‘‘
’’حریم یار نہ کرو۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ سمجھی نہیں۔
’’یار یہ سب تو میرا بھی فیورٹ ہے۔‘‘
’’اتفاق ہے۔‘‘ اس نے شانے اچکائے۔
’’حسین اتفاق ہے او کے یور فیورٹ مووی؟‘‘
’’ہم ساتھ لکھیں گے تاکہ تم چیٹنگ نہ کرو۔‘‘
’’ڈن اینڈ سٹارٹ۔‘‘ اگلے ہی پل ونڈو اسکرین پر ایک نام دو بار جگمگا رہا تھا۔
’’ٹائی ٹینک۔‘‘
’’او گاڈ۔‘‘ وہ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے ہنستی چلی گئی تھی اور پھر نیٹ ڈس کنیکٹ کرنے سے قبل وہ اسے فرینڈ شپ کی ریکوسٹ کر چکا تھا۔
٭٭٭