وہ بالکونی میں گم صم اداس سی کھڑی آسمان سے سفید روئی کو برستے ہوئے دیکھ رہی تھی اس کے کشمیر میں بھی ایسی ہی برف باری ہوتی تھی وہ اور نوری سنو مین بنایا کرتی تھیں، ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینکتی، ہنستی مسکراتی، کھلکھلاتی، کتنی خوش باش اور بے فکری کی زندگی تھی وہ، نہ کوئی غم تھا نہ کسی درد کا احساس، کچھ روز پہلے نوری کا خط آیا تھا اس نے لکھا تھا ’’کشمیر تمہارے بغیر بہت اداس ہے۔‘‘
بیڈ روم سے نکلتے نک سک سے تیار راحل نے ایک لمحے کو ٹھہر کر اسے دیکھا اس روز کے بعد سے دونوں میں بات چیت تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی، وہ تو پہلے بھی کم بولتی تھی مگر اب تو کوئی بات ہی نہیں کرتی تھی، وہ بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔
اس کے گلابی، شگفتہ رخساروں میں زردیاں سی گھل گئی تھیں، سنہری آنکھوں کی جوت بجھی بجھی سی تھی، عارضوں کے اوپر سیاہ حلقے بے حد نمایاں تھے، وہ اس کے حسن پر ہی تو مرتا تھا سو اس کی چمک ماند پڑتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
’’کم آن ہنی یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔‘‘ وہ اس کے دونوں ہاتھ تھام کر محبت سے بولا۔
’’تمہیں اس سے مطلب؟‘‘ وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر بالکونی سے ہٹ گئی راحل نے آگے بڑھ کر اسے شانوں سے تھام لیا، عریشہ کو اس کی قربت سے کراہیت سی محسوس ہوئی، وہ خود سے سمجھوتے کر کے تھک چکی تھی اب مزید اسے اس شخص کا وجود اپنے ساتھ گوارا نہیں تھا۔
کل شام اس کے لیپ ٹاپ پر اس نے جولیا کے ساتھ اس کی انتہائی قابل اعتراض تصویریں دیکھی تھیں زمانے کی ہر برائی تو اس میں موجود تھی وہ بھی کہاں تک خود کو آمادہ کرتی، وہ راشی تھا، زانی تھا، شرابی تھا، بے وفا تھا، قاتل تھا اور اسے بھی تو اپنے ساتھ اسی کیٹیگری میں شامل کرنا چاہتا تھا۔
’’چلو آج ذرا آؤٹنگ پر چلتے ہیں تمہارا موڈ فریش ہو جائے گا۔‘‘
’’مجھے کہیں نہیں جانا۔‘‘ اس پر جانے کیوں آج اس قدر قنوطیت طاری تھی۔
’’اچھا میں تمہیں فورس نہیں کروں گا، تم اپنی مرضی سے جو بھی ڈریس پہن لو۔‘‘ وہ اس کے گریز اور انکار کی یہی وجہ سمجھ سکا تھا۔
’’انسلٹ نہیں ہو جائے گی تمہاری جو میں سر پہ دوپٹہ اوڑھ لوں گی۔‘‘ وہ طنز سے گویا ہوئی۔
’’دس منٹ ہیں تمہارے پاس اگر تم نے چینج نہ کیا تو میں تمہیں ایسے ہی اٹھا کر لے جاؤں گا۔‘‘ وہ دھمکی آمیز لہجے میں کہتا صوفے پہ بیٹھتے ہوئے وال کلاک کی جانب نظریں جما چکا تھا، وہ کچھ دیر کھڑی اسے گھورتی رہی پھر چینج کر آئی۔
’’ویری گڈ کتنی سویٹ لگتی ہو جب بغیر کوئی ہنگامہ کیے بات مان لیتی ہو۔‘‘ وہ اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے باہر گاڑی تک لایا۔
پہلے وہ ڈسکو جانے کے لئے تیار ہوا تھا مگر اب اسے ہمراہ پا کر اس نے گاڑی کا رخ فائیو اسٹار کی جانب موڑ دیا۔
’’کیا لو گی تم؟‘‘ مینیو کارڈ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے راحل نے استفسار کیا۔
’’یہاں کچھ حلال ملتا ہے؟‘‘ اس نے مشکوک نظروں سے راحل کو دیکھا تو اس نے بے ساختہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔
’’ملتا ہے جناب سب ملتا ہے۔‘‘ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی اپنا آرڈر درج کروانے کے بعد اس نے گرد و نواح کا جائزہ لیا، عریانیت اور بے حیائی تو اس قوم پر ختم تھی۔
’’ہیلو راحل۔‘‘ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص نے ان کے قریب آ کر راحل سے ہاتھ ملایا۔
’’سر شی از مائی وائف۔‘‘ غالباً وہ اس کی کمپنی کے ایم ڈی صاحب تھے۔
’’ہیلو مسز راحل۔‘‘ ان صاحب نے راحل سے مصافحہ کرنے کے بعد اس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔
’’السلام وعلیکم!‘‘ وہ رکھائی سے کہتی دوبارہ بیٹھ گئی، راحل اندر ہی اندر اچھا خاصا جز بز ہو اٹھا۔
’’مے آئی جوائن یو۔‘‘ ڈھیٹ ہڈی تھا۔
’’شیور سر وائے ناٹ۔‘‘ راحل کا اخلاقی مظاہرہ قابل دید تھا عریشہ اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گئی وہ اس شخص کی موجودگی میں ان کمفرٹیبل محسوس کرنے لگی تھی، کھانا آ چکا تھا اور وہ صاحب بھی کمال بے تکلفی سے ان کے ساتھ شریک ہو چکے تھے اسی لمحے جولیا بھی نہ جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی، اس کا حلیہ آج ضرورت سے زیادہ ہی بے باک تھا عریشہ کو سرے سے نظر انداز کرتی وہ راحل سے ہائے ہیلو کرنے کے بعد چیئر گھسیٹ کر اس کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔
کھانے کے بعد جولیا نے ڈرنکس آرڈر کی تھی اور پھر وہ اور راحل اٹھ کر ڈانسنگ فلور پر چلے گئے تھے وہ وہاں اکیلی رہ گئی۔
’’ڈونٹ وری میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔‘‘ ٹیبل پہ رکھے اس کے سفید دودھیا ہاتھ پر اس شخص نے اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی، اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔
’’آؤ ہم بھی ڈانس کرتے ہیں۔‘‘ اس کی اگلی آفر پہ وہ اپنی جگہ دم بخود رہ گئی تھی اس کی باپ کی عمر کا شخص اس سے فلرٹ کر رہا تھا، اس کا رواں رواں سلگ اٹھا۔
’’ایکسکیوز می۔‘‘ وہ وہاں سے اٹھ کر دوسری سائیڈ پر چلی آئی، اس نے راحل کو دو تین بار پکارا مگر وہ شراب اور شباب کے نشے میں ہی گم تھا۔
’’او کم آن بے بی، لٹس ڈانس۔‘‘ وہ شخص جانے کب اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا تھا اور اب اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا تھا۔
’’راحل!‘‘ اس نے بے بسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے اسے آواز دی۔
’’کم آن ہری اپ۔‘‘ خمار آلود لہجے میں کہتا وہ اس کے بے حد قریب آ چکا تھا اور پھر اپنے بازو اس کی کمر کے گرد باندھ دئیے، عریشہ نے زور کا دھکا دے کر ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا تھا، جس کی آواز ہال میں آخری حد تک گونج اٹھی لوگوں نے اپنی اپنی سرگرمیوں سے ایک لمحہ نکال کر اسے دیکھا مگر وہ بنا کسی کی جانب دیکھے بھاگتی ہوئی ہوٹل کا داخلی گیٹ عبور کر گئی۔
٭٭٭
اجنبی شہر کے انجان راستے مگر وہ چلتی جا رہی تھی شام کے ملگجے اجالے کو سیاہ اندھیرا نگل چکا تھا برف باری کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی ہونے لگی تھی، سرسراتی ہواؤں کے سرد تھپیڑے نازک بدن کو چھیدتے ہوئے گزر رہے تھے، وہ کچھ اور خود میں سمٹ کر چلنے لگی جب اچانک ٹھوکر لگنے پر وہ منہ کے بل سڑک کے کنارے گری تھی اس کے پیر کے انگوٹھے کو کوئی نوکیلی چیز چیرتی ہوئی گزر گئی، درد کا شدید احساس، اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اپنی بے بسی کے احساس سے مغلوب ہو کر اس نے ایک شکوہ کناں سی نظر آسمان کی جانب اٹھائی تھی تبھی ایک گاڑی کے بریک اس کے قریب آ کر زور سے چڑچڑائے، اس نے رخ موڑ کر دیکھا راحل کا دوست عادل اس میں سے نکل کر اس کی جانب آیا تھا۔
’’عریشہ تم اور یہاں۔‘‘ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے وہ تعجب سے بولا، عریشہ نے نوٹ کیا کہ آج اس نے اسے بھابھی کہہ کر نہیں بلایا تھا۔
’’ارے تمہارا پاؤں تو زخمی ہو گیا۔‘‘ اس نے تشویش بھرے انداز میں زخم کا جائزہ لیا، پھر ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔
’’آؤ میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔‘‘ عریشہ نے دیکھا کہ اس کے سامنے بیٹھا وہ بھی مکمل طور پر بارش میں بھیگ چکا تھا اور اب ہولے ہولے کانپتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑا بارش کی تندی اور برف باری کی شدت میں ایک ساتھ اضافہ ہوا تھا۔
عادل نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر راستہ نظر آنا مشکل ہو گیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی چکر ویو میں پھنس گئے ہوں، چاروں طرف برف کا غبار اور دھواں ہی دھواں گاڑی دو قدم چل کر پھر رک گئی تھی۔
اچانک اس کی نگاہ عریشہ کے سفید مر مریں کانپتے ہاتھوں اور لرزتے لبوں پر پڑی وہ بے ساختہ یک ٹک اسے دیکھتا ہی چلا گیا، وہ قدرتی حسن کا شاہکار تھی یا پھر عادل کو تو ایسی ہی لگتی تھی اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی مستی تھی جو مقابل کو مسرور کر دیتی، محبت کا اک ساغر تھا جو اس کی ذات میں بہتا تھا، اندھیری رات میں وہ چمکتا ہوا چاند تھی وہ دئیے کی طرح روشن، ابر نیساں کی مانند پاکیزہ اور پھولوں کے جیسی کومل اور نرمل تھی اسے دیکھ کر بہاروں میں کھلنے والے پہلے شگوفے کا احساس ہوتا تھا۔
اس کی نظروں کی تپش نے عریشہ کو اس کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا تھا عادل نے فوراً نظروں کا زاویہ بدل لیا،
’’میرا اپارٹمنٹ قریب ہی ہے جب تک یہ طوفان تھم نہیں جاتا تم وہاں رک جاؤ۔‘‘ وہ اپنی جانب کا لاک کھول کر باہر نکلی آئی کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، خود عریشہ کو اپنے قدم زمین پہ اکھڑتے محسوس ہو رہے تھے۔
وہ اپارٹمنٹ کا دروازہ لاک کرتے اس کے قریب چلا آیا، وہ ایک کونے میں کھڑی کپکپا رہی تھی۔
’’ہم دونوں یہاں اکیلے ہیں، تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگ رہا۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر جذبات سے بوجھل لہجے میں بولا تو عریشہ نے گھبراہٹ کے باوجود نفی میں گردن ہلا دی۔
’’کیوں؟‘‘ اس کا انکار عادل کو حیرت میں مبتلا کر گیا تھا۔
’’کیونکہ میں اللہ کے بعد ایک مسلمان بھائی کی پناہ میں ہوں اور کوئی مسلمان بھائی اپنی بہن پر نیت خراب نہیں کرتا، بشرطیکہ اس کے ہوش و حواس سلامت ہوں اور تم اس وقت نشے میں نہیں ہو۔‘‘ وہ دل میں خوفزدہ تھی مگر بظاہر مضبوطی سے بولی۔
عادل کے بہکتے قدم وہیں تھم گئے تھے جو معتبر رشتہ وہ اس کے ساتھ جوڑ بیٹھی تھی اس کے بعد اسے اپنے گھٹیا ارادے پر خود ہی ندامت ہوئی، گو کہ اس کے اندر کہیں اچھائی کے آثار باقی تھے، اس نے مکمل طور پر اس چکا چوند میں خود کو گم نہیں کیا تھا۔
’’کافی پیو گی؟‘‘ اس کی اگلی آفر پر طمانیت کا سانس لیتے ہوئے اس نے انکار کرنا چاہا مگر وہ پھر بول اٹھا۔
’’پلیز انکار مت کرنا کیونکہ مجھے اس وقت بہت طلب ہو رہی ہے۔‘‘ وہ اس کے منت بھرے اصرار پر مسکرا دی اور وہ اس کی مسکراہٹ کو اقرار سمجھ کر کافی کے دو مگ بنا لایا۔
’’تھینک یو۔‘‘ وہ کپ تھام کر ہیٹر کے سامنے جا بیٹھی اور کافی کا ایک گھونٹ حلق میں اتارا، اس کا ذائقہ اتنا ہی کڑوا اور تلخ تھا جتنی کہ آج کل اس کی زندگی۔
’’عادل یہ جس طرح کی زندگی تم جی رہے ہو یہ سب کرنے کے بعد تمہیں سکون ملتا ہے جانتے ہو تم رحمان کی بجائے شیطان کی پیروی کر رہے ہو، اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر گمراہیوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہو اور جس روز تم سر تک اس میں دھنس گئے اس دن تمہارے لئے سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا، اور ابھی بھی وقت ہے عادل پلیز بچا لو خود کو لوٹ آؤ اپنے اصل کی جانب، چھوڑ دو شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پہ چلنا، ان راہوں کا انجام ذلت اور پشیمانی کے سوا کچھ بھی…‘‘
’’تمہارا پاؤں زخمی ہو گیا تھا بینڈیج کر لو اور آج لگتا ہے یہ طوفان نہیں رکے گا وہ سامنے گیسٹ روم ہے تم وہاں سو سکتی ہو اور کسی چیز کی ضرورت پڑے تو کچن میں سب کچھ موجود ہے۔‘‘ اپنی بات کے رد عمل میں بالکل بدلا ہوا جواب سن کر عریشہ نے تاسف بھری نظروں سے اس کی پشت کو گھورا اور رات بھر لاؤنج میں بیٹھی طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتی زیست کے سو دو زیاں میں الجھی رہی۔
٭٭٭
اگلے روز ناشتہ کرنے کے بعد عادل اسے واپس چھوڑنے آیا تھا گاڑی اس کے اپارٹمنٹ کے سامنے رک چکی تھی وہ ڈور اوپن کرنے ہی والی تھی جب عادل کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’عریشہ تم نے میرے دل میں ایمان کا ایک دیپک جلایا ہے میں کوشش کروں گا کہ اپنی ذات کے اندھیروں کو اس کی کرنوں سے منور کر سکوں۔‘‘
’’بیسٹ آف لک، میں تمہارے لئے دعا کروں گی۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور پھر اتر کر لفٹ کی جانب بڑھ گئی۔
’’آ گئی ہو رات بھر رنگ رلیاں منا کر، میرے سامنے تو بڑی شرافت اور پارسائی کا ڈھونگ کرتی ہو اور پیچھے یہ کھیل کھیلے جاتے ہیں۔‘‘ وہ دروازہ بند کر کہ پلٹی ہی تھی جب کسی نے اس کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کر اس کا رخ اپنی سمت کیا۔
’’کیا بکواس ہے یہ تم جانتے ہو رات بھر طوفان…‘‘
’’اگر یہ رات میرے ایم ڈی صاحب کے ساتھ گزاری ہوتی تو میرا کوئی فائدہ بھی ہوتا۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر خباثت سے بولا۔
’’جسٹ شٹ اپ۔‘‘ وہ پوری قوت سے چلائی بس نہیں چل رہا تھا ورنہ اس قدر گھٹیا بات پر اس کا منہ نوچ لیتی۔
’’ایم ڈی صاحب کو تھپڑ کیوں مارا تھا تم نے۔‘‘ وہ اس کا بازو تھام کر درشتی سے بولا۔
’’وہ میرے ساتھ بد تمیزی کر رہا تھا۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑاتی اس سے دو قدم پیچھے ہٹی۔
’’سو واٹ؟‘‘ اس نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔
’’اگر مجھے کوئی اعتراض نہیں ان باتوں سے تو تمہیں کیا پرابلم ہے۔‘‘ اس کے تیور خطرناک حد تک جارحانہ تھے۔
’’تمہارا تو ضمیر مر چکا ہے تم انسانیت کے معیار سے گر چکے ہو تم جیسا گھٹیا…‘‘ راحل نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا تھا وہ لڑھک کر پیچھے صوفے پہ جا گری۔
’’تم سے شادی میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی سکون برباد کر دیا ہے تم نے میرا، ہر جگہ ہر موقع پر تم میری انسلٹ کرواتی ہو، ایک سزا کے طور پر مسلط کر دی گئی ہو مجھ پر، تمہاری وجہ سے میری نوکری خطرے میں پڑ چکی ہے تم سے تو اچھی جولیا…‘‘
’’تو جولیا سے شادی کر لو، تم ویسی ہی بیوی ڈیزرو کرتے ہو۔‘‘ وہ چیخ اٹھی۔
’’تم کیا سمجھتی ہو میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘ عریشہ کا سرد، کٹیلا انداز اسے اندر تک سلگا گیا تھا۔
’’میں ابھی اور اسی وقت تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔‘‘ وہ پوری شدت سے دھاڑتا، راستے میں آئی ہر چیز کو ٹھوکروں سے اڑاتا اپارٹمنٹ سے باہر چلا گیا تھا اور وہ اپنی جگہ گم صم ساکت کھڑی رہ گئی تھی۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...