وہ بالائی منزل کی جانب جاتی سیڑھیوں پہ بیٹھا تھا، جولان کے دائیں سائیڈ پہ واقع تھیں، سیڑھیوں کی ریلنگ کے ساتھ بوگن ویلیا کی خوب گھنی بیل تھی سبک ہوا کے جھونکے آتے جاتے شاخوں سے جب اٹکھیلیاں کرتے گزرتے تو شاخوں کے کنارے ٹکے گلابی پھول اڑ کر ہمہ وقت سیڑھیوں پہ برسا کرتے تھے۔
’’چائے۔‘‘ عریشہ کپ اس کی جانب بڑھا کر خودبھی وہیں بیٹھ گئی۔
’’تھینک یو۔‘‘ اس نے کپ تھام کر لبوں سے لگا لیا۔
’’میرے لئے تو یہ بہت بڑا سرپرائز ہے کہ تم میرے فرسٹ کزن ہو۔‘‘ وہ ابھی تک شاک کے زیر اثر تھی، کچھ وہ فطری طور پر لا ابالی تھی اور جس قدر لالہ جانی نے اسے پیار دیا تھا اسے تو کبھی اپنی ماں بھی یاد نہیں آئی تھی، کجا کہ ددھیالی رشتے دار اور پھر وہ خود سے ہی یہ سمجھتی رہی کہ اس کے لالہ جانی اکلوتے تھے اور دادی حیات نہیں ہیں اور اب یوں اچانک اتنے سارے رشتوں کا مل جانا کسی ونڈر سرپرائز سے کم نہیں تھا۔
’’اور مجھے بھی یہ کوئی فلمی سی سیچویشن لگ رہی ہے آئی کانٹ بلیو یار۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔
’’ویسے آپ کے گھر کو دیکھ کر اکثر میرے دل میں یہ خواہش ابھرتی تھی کہ کاش یہ گھر میرا ہوتا اور میں صبح صبح سارے گھر کو پھولوں سے سجا دیتی اور اب تو…‘‘
’’اے لڑکی خبردار جو میرے پھولوں پر اپنی نیت خراب کی تو۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر تیزی سے بولا تو وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔
’’چلو جلدی سے دونوں اپنا منہ میٹھا کرو۔‘‘ چینی کی پلیٹ میں دو رس گلے لئے مہرو ان کے سامنے کھڑی تھی۔
’’مگر کس خوشی میں۔‘‘ دونوں کے لبوں سے ایک ساتھ نکلا۔
’’راحل بھائی کی منگنی کی خوشی میں۔‘‘ ساتھ اس نے عریشہ کا بازو کھینچ لیا۔
’’جلدی آؤ سب وہاں تمہارا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی، مہرو نے لے جا کر اسے زہرہ بیگم کے پہلو میں بٹھایا تھا، زہرہ بیگم نے اپنی انگلی سے ڈائمنڈ رنگ اتار کر اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں سجا دی۔
’’آج سے یہ ہماری بیٹی۔‘‘ محبت بھرا لمس اس کی پیشانی پہ ٹھہرا اس نے کچھ نا سمجھی کے عالم میں خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھا تو نگاہ بے ساختہ راحل کی سمت اٹھ گئی وہ خاصی پر شوق نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
اس کے من میں نہ تو کوئی لطیف سا احساس جاگا نہ کسی جذبے نے کروٹ لی، بلکہ اس کے بر عکس ایک عجیب سا سناٹا اور خالی پن اس کے روم روم میں اترنے لگا تھا وہ اپنی کیفیت کو کوئی نام نہ دے پائی اور وہاں سے اٹھ گئی۔
٭٭٭
اسے واپس گھر آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا مگر نہ جانے کیسی اداسی اس کے دامن سے لپٹ گئی تھی لاکھ دامن جھاڑا، جھٹکا مگر بے سود، وہ اداسی و اضطراب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا تھا، اسے سیالکوٹ یاد نہیں آ رہا تھا اسے دادا جان، نانا جان، ممانی جو اب اس کی پھوپھو بھی تھی یا مہرو، راحل اور ماموں میں سے بھی کسی کی یاد نہیں ستا رہی تھی، اسے صرف مانی یاد آ رہا تھا اس کی باتیں، اس کی ہنسی، اس کی جھنجھلاہٹ اس کے ساتھ بیتا ایک ایک پل اور ہر لمحہ بہت یاد آ رہا تھا اور یہی یاد اسے تشویش میں مبتلا کیے دے رہی تھی۔
’’وہ کیوں مجھے یاد آتا ہے۔‘‘ وہ خود سے پوچھ پوچھ کر ہار گئی مگر کہیں کوئی جواب کوئی آواز نہیں تھی دل تھا کہ اس کی بے بسی پہ ہنستا رہتا اور آنکھیں اسے دیکھنے پر بضد جب کبھی نظر اپنے ہاتھ کی تیسری انگلی پر پڑتی تو اک رنگین دائرے کی صورت وہاں کچھ جلنے لگتا تھا جس کی تپش اس کے پورے وجود میں اضطراب کی لہریں دوڑا دیتی۔
’’تو کیا مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔‘‘ تھک ہار کر اس نے دل سے وہ سوال پوچھا جس سے وہ پچھلے سات دنوں سے نظریں چرا رہی تھی، دل کی لے ہی بدل گئی تھی وہ بے ساختہ بیڈ سے اٹھ بیٹھی۔
’’اف میرے خدایا یہ کیا ہو گیا۔‘‘ اس نے بے ساختہ سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اسے اس راہ کا مسافر کبھی نہیں بننا تھا مگر محبت پر کسی کا زور نہیں چلتا مگر یہ اپنا زور ہر کسی پر چلانے کی طاقت رکھتی ہے ہر وجود کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ یہ دل کو اپنا ہم نوا بناتی ہے دل کے سامنے وجود کی حیثیت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے۔
٭٭٭
وہ واپس آئی تو لغاری ہاؤس میں اس کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں، وہ مانی سے بات کرنا چاہتی تھی اسے خود کو دو حصوں میں بانٹ کر زندگی نہیں گزارنی تھی، مگر اس نے خود کو نہ جانے کن نادیدہ کاموں میں الجھا رکھا تھا ایک منٹ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس عریشہ کے لئے، وہ جس کا کبھی سارا وقت اس کا ہوا کرتا تھا۔
برسات کا موسم تھا جاتی گرمیوں کے دن تھے موسم بدل رہا تھا مگر اس کے لئے تو جیسے وقت رک سا گیا تھا نہ دن ڈھلتے تھے نہ راتیں کٹتی تھیں، کروٹیں بدل بدل کر جسم دکھنے لگا تو وہ اٹھ کر باہر لان میں چلی آئی، آسمان کے سینے پر سر رکھ کر لیٹا چاند بھی جاگ رہا تھا کہ رتجگے تو اس کا مقدر تھے، وہ خالی خالی نظروں سے کبھی چاند کو دیکھتی تو کبھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو۔
’’جدائی اگر دو پل کی ہو تو کوئی جھیل بھی سکتا ہے جدائی اگر چار دن کی ہو تو کوئی سہہ بھی سکتا ہے مگر جدائی اگر عمر بھر کی ہو تو کوئی کہاں تک چارا کرے میرے مولا میری طرف دیکھ میرے ان اٹھے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھ اگر تو چاہے تو انہیں بھر بھی سکتا ہے۔‘‘ وہ تنہائی اور اکیلے پن کے ساتھ رات کے آخری پہر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی اپنے رب سے ہمکلام تھی۔
ہلکے ٹمپریچر کی وجہ سے اسے باہر خنکی سی محسوس ہوئی مگر وہ ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی تیز ہواؤں کی زد میں شاخوں سے ٹوٹ کر بکھرے زرد سوکھے پتے محو رقص تھے لیکن آج اسے اپنی پسند کی یہ دھن بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی چند ہی دنوں میں اس کا جی جیسے ہر چیز سے اوب گیا تھا۔
اگلی شام جب وہ آوارہ گردی کرنے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے دادا جان اور لالہ جانی کو سلام کرنے کے بعد اسے مکمل نظر انداز کرتا اوپر چلا آیا تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر اس کے پیچھے آئی تھی۔
’’مانی مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے تم میری بات کیوں نہیں سن رہے۔‘‘
’’بھئی میری کیا مجال جو میں تمہاری بات نہ سنوں کہو کیا کہنا ہے۔‘‘ الماری میں سر گھسائے وہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا یا پھر یہ بھی ایک طرح سے لاتعلقی کا بہانہ تھا۔
’’تم یہاں میرے سامنے آ کر بیٹھو۔‘‘ وہ جھنجھلا گئی، وہ الماری کے دونوں پٹ بند کرتا اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور نظریں اس کے صبیح چہرے پر گاڑ دیں۔
وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے کچھ کہنے نہ کہنے کی کشمکش میں مبتلا تھی اس کے اس انداز پر مزید نروس ہو گئی۔
’’ایسا کرو تم سوچ لو میں اتنی دیر میں فریش ہو کر آتا ہوں۔‘‘
’’نہیں تم بیٹھو۔‘‘ اسے اٹھتے دیکھ کر وہ بہ عجلت بولی تھی وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔
’’اتنی سوچ بچار بھئی تم عریشہ ہی ہونا۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرایا جس پر عریشہ نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا تھا۔
’’یقین آ گیا ہے اب۔‘‘ وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔
’’مانی آئی لو یو۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بول گئی تھی وہ اپنی جگہ اچھل کر رہ گیا۔
’’یہ کیا بے ہودگی ہے۔‘‘ اگلے ہی پل اس کی فراخ پیشانی سلوٹوں سے اٹ گئی تھی۔
’’میں نے جسٹ اپنی فیلنگ کا اظہار کیا ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے گویا ہوئی۔
’’تمہاری شادی ہو رہی ہے راحل سے کارڈ بٹ چکے ہیں۔‘‘ وہ لفظوں کو خوب چبا چبا کر بولا تھا۔
’’یہ شادی رک بھی سکتی ہے اگر تم میرا ساتھ دو تو۔‘‘ وہ اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی۔
’’شٹ اپ۔‘‘ وہ پوری قوت سے چلایا اور اس کا ہاتھ عریشہ کے نازک رخساروں پہ اپنا نشان چھوڑتا ہوا ہوا میں ہی کہیں معلق ہو گیا تھا۔
وہ وہیں کھڑی ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھتی رہی، مانی ضبط کی انتہاؤں کو چھوتا اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا، وہ تو من ہی من میں خدا کا شکر گزار تھا کہ اس کے جذبات یکطرفہ ہیں کم از کم عریشہ کی زندگی میں کوئی خلش کوئی رنج اور ملال تو نہ ہو گا، مگر… جو اس نے سوچا بھی نہیں تھا وہ ہو گیا تھا، وہ تمام رات بے مقصد سڑکوں پہ گاڑی دوڑاتا رہا اتنے برسوں بعد تو خوشیوں نے گھر کا راستہ دیکھا تھا اس کے پاپا بھی اپنی فیملی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پاکستان آ رہے تھے وہ ایک بار پھر سے رشتوں کو آزمائش کی بھٹی میں نہیں جھونکنا چاہتا تھا، اکیس برس لگے تھے ان رشتوں کو دوبارہ جڑنے میں، اب جو ٹوٹتے تو پھر شاید کبھی نہ جڑ پاتے، زہرہ پھپھو کو ایک بار پھر سے وہ ان کے بھائیوں سے محروم نہیں کرنا چاہتا تھا، انہوں نے ماں بن کر اسے پالا تھا، وہ اپنی ذاتی خواہشوں پر ان کی خوشیاں نہیں چھین سکتا تھا۔
٭٭٭
میری روح یوں بے چین نہ ہوتی
کوئی موسم بھی ہوتا اگر
بہاریں آ بھی سکتی تھیں
میرے جیون کے صحرا پہ
گھٹائیں چھا بھی سکتی تھیں
یہ جتنے زخم دل پر ہیں
یہ سارے سل بھی سکتے تھے
اگر تم ساتھ دیتے تو
مقدر مل بھی سکتے تھے
وہ دلہن بنی پتھر کے بت کی طرح ساکت صامت بیٹھی تھی، محض سانسوں کا زہر و بم تھا جو اسے احساس دلا رہا تھا کہ وہ زندہ ہے، وہ زندہ بھی تھی مگر زندگی اس کے اندر مر چکی تھی، ٹوٹے خوابوں کے کانچ تھے جن کے نوکیلے کونے دل میں چبھ رہے تھے رہ رہ کر دل سے اٹھتی درد کی لہروں نے اس کے پورے وجود کو شل کر دیا تھا۔
’’عیشو وقت اور حالات انسان کو بدل دیتے ہیں جو محبت آج تمہارے وجود میں سانس لے رہی ہے ضروری تو نہیں کہ وہ عمر بھر جاوداں رہے مجھے یقین ہے وہ راحل کی چاہتوں کے سامنے اپنا دم توڑ دے گی۔‘‘ نوری نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے رسانیت سے کہا جس پر وہ اسے دیکھ کر رہ گئی کہا کچھ نہیں اب کہنے کو کچھ نہیں رہا تھا اب وہ کسی اور کی ہو چکی تھی اور اب اس کا بن کر رہنا تھا، البتہ یادوں پر پہرے نہیں تھے اور دل کے کواڑ وہ بند کر چکی تھی۔
مہرو ابھی ابھی اسے گلابوں سے مہکتے اس بیڈ روم میں چھوڑ کر گئی تھی آئینے میں جھلملاتے اپنے عکس کو اس نے دیکھا تو نگاہ اپنے وجود پر ساکت ہو کر رہ گئی، میرون لہنگے میں اس کا دو آتشی روپ قیامت ڈھا رہا تھا، اس نے نوچ نوچ کر اپنے سارے گہنے اتار دئیے، اپنے بالوں کے ساتھ بھی وہ یہی حشر کرنے والی تھی جب راحل نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’آرام سے بھئی اتنی بھی کیا جلدی ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ کو اپنے لبوں سے لگا کر وہ اس کے بالوں میں مہکتے گجرے اتارنے لگا۔
’’اچھا کیا تم نے جو یہ خود اتار دیا مجھے گہنوں سے لدی پھندی لڑکیاں بالکل اچھی نہیں لگتیں۔‘‘ اب وہ اس کی نازک کلائیوں سے چوڑیاں اتار رہا تھا۔
’’آج تم بہت خوبصورت لگ رہی تھی جانتی ہو میرے دوست میری قسمت پہ رشک کر رہے تھے۔‘‘ وہ گمبھیر لہجے میں کہتا اس کے بے حد قریب آ چکا تھا وہ اس کی سانسوں کا ارتعاش اپنے وجود پر محسوس کر سکتی تھی چاہنے کے باوجود وہ کوئی مزاحمت نہیں کر پائی اس نے خود کو خدا کی رضا پر چھوڑ دیا تھا۔
٭٭٭
’’السلام وعلیکم دادا جان!‘‘ لاؤنج میں سب بیٹھے شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب مانی نے اندر وارد ہوتے ہوئے سب کو مشترکہ سلام کیا، وہ غیر مخصوص انداز میں اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں چلی آئی تھی، اس روز کے بعد دونوں میں بات چیت بالکل بند تھی۔
’’عریشہ باہر آؤ نا، دیکھو مانی کتنے مزے کی باتیں سنا رہا ہے اور تمہیں اسے مبارک باد نہیں دینی اس کا رزلٹ آیا ہے ہمیشہ کی طرح بہت شاندار اور وہ اس خوشی میں ہم سب کو پارٹی دے رہا ہے۔‘‘ مہرو با آواز بولتی اس کے بیڈ روم میں داخل ہوئی جبکہ خاموش بیٹھی عریشہ کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
’’چلو اٹھو جلدی سے تیار ہو جاؤ سب آؤٹنگ پر جائیں گے۔‘‘ مہرو نے اس کا بازو کھینچا۔
’’مجھے کہیں نہیں جانا۔‘‘ وہ اپنا بازو چھڑاتی سپاٹ لہجے میں بولی تھی مہرو نے پہلی بار اس کے اکھڑے تیور دیکھے تو ٹھٹھک گئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس کے لہجے میں تشویش کا رنگ غالب تھا۔
’’کچھ نہیں بس میرا موڈ نہیں ہے۔‘‘ اس کے روکھے لہجے پر وہ مایوس ہوتی اٹھ کر باہر چلی آئی۔
رات کو راحل اسے گھمانے لے گیا تھا ڈنر کے بعد واپسی پر اس نے گاڑی ایک بیوٹی پارلر کے سامنے روک دی، عریشہ نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا کیونکہ اس کے خیال میں اسے ابھی پارلر کا چکر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
’’اپنے بالوں کی کٹنگ کروالو مجھے تمہارے یہ لمبے بال پسند نہیں۔‘‘ نارمل سے انداز میں آرڈر پاس کرتے ہوئے اس نے سگریٹ سلگا لیا سگریٹ سے اسے الرجی تھی اگلے ہی پل اس کا دم گھٹنے لگا تو وہ ڈور اوپن کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔
’’اتنے خوبصورت ریشمی بال ہیں آپ کے پھر کیوں کٹنگ کروا رہی ہیں۔‘‘ بیوٹیشن نے اس کے لمبے ریشمی بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے حسرت بھرے انداز میں کہا۔
’’بس جس کو جو نعمت مل جائے وہ پھر اس کی قدر نہیں کرتا۔‘‘ دوسری چیئر پہ فیشل کرواتی لڑکی نے کچھ عجیب سے انداز میں کہا تھا جو اسے برا بھی لگا، مگر وہ خاموش رہی۔
’’ایک ہم ہیں اتنے شیمپو اور امپورٹڈ آئل، گھریلو ٹوٹکے استعمال کر کے دیکھ لئے مگر کیا مجال ہے جو ذرا بھی بڑھ جائیں۔‘‘ نو وارد خاتون بھی اس کے قریب آ کھڑی ہوئی پھر جب تک اس کے بالوں کی کٹنگ ہوتی رہی ایسے ہی جلے کٹے تبصرے اس کی سماعتوں سے ٹکراتے رہے، فرش پر ٹوٹ کر بکھرے اپنے ریشمی بالوں کو دیکھ کر اسے یاد آیا تھا کہ کیسے وہ اور نوری روز اپنا ایک ایک بال اتار کر اسے پیمائشی فیتے سے ماپا کرتی تھیں لالہ جانی دیکھ کر ہنستے اور کہتے۔
’’اس طرح لمبے تو نہیں ہوں گے البتہ ایک بات پکی ہے کہ جو روز اتارتی ہو تو ایک دن گنجی ضرور ہو جاؤ گی۔‘‘ اس کے دل میں ڈھیر سارا ملال اتر آیا، مگر شوہر کی خوشنودی میں وہ بھی خوش تھی۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...