(Last Updated On: )
کچن میں کام کرتے ہوئے روشنی کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹا تھا اور پھر کانچ چنتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ زخمی کر بیٹھی تھی خون فوارے کی مانند اس کے ہاتھوں سے پھوٹ رہا تھا وہ چولہا بند کر کے اس کی جانب بڑھی۔
’’تمہیں کیا ضرورت تھی کانچ اٹھانے کی۔‘‘ پہلے اس نے روشنی کو ڈپٹا پھر بھاگ کر بی بی کے کمرے کی جانب آئی لیکن راستے میں چھوٹی بیگم سے سامنا ہو گیا تھا جو کھڑی درشت نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔
’’وہ روشنی کو کانچ لگ گیا تھا۔‘‘ پہلے اسے اپنے بھاگنے کی وضاحت پیش کرنا پڑی تھی انہوں نے آ کر زخم کا معائنہ کیا پھر اس سے مخاطب ہوئیں۔
’’اپنے بھائی کو فون کرو آ کر اس کی مرہم پٹی کر جائے زخم زیادہ گہرا لگ رہا ہے۔‘‘ اس نے جا کر راہب کو پیغام بھجوایا وہ فوراً ہی آ گیا تھا اور جب وہ روشنی کی بینڈیج کر رہا تھا تو چھوٹی بیگم غیر مخصوص انداز میں اٹھ کر اندر چلی گئیں تھیں۔
وہ چائے بنا کر واپس آئی تو اس کے قدم دہلیز کے اس پار ہی جامد ہو کر رہ گئے تھے۔
’’یہ کیا پاگل پن ہے محض مجھے دیکھنے کے لئے آپ نے خود کو اتنی اذیت میں مبتلا کیا۔‘‘ یہ راہب کی آواز تھی جو اسے ڈپٹ رہا تھا۔
’’تو کیا کرتی دوسرا کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔‘‘ روشنی کے جواب پر اس کی نظروں میں زمین و آسمان گھوم گئے تھے وہ بد وقت تمام خود پر جبر کرتی اندر داخل ہوئی۔
’’چائے کی تو اس وقت بالکل بھی طلب نہیں ہے تم چکر لگانا اماں اور ابا تمہیں بہت یاد کر رہے تھے‘‘ وہ کہہ کر جا چکا تھا اور روشنی کے چہرے پہ کتنے دلکش رنگ بکھرے ہوئے تھے وہ ان رنگوں سے نظریں چراتی راہب کے متعلق سوچنے لگی تھی۔
وہ کیا حماقت کرنے جا رہا تھا اس نے تو وہ خواب اپنی آنکھوں میں سجانے کی جسارت کی تھی جس کی پاداش میں آنکھیں بنجر کر دی جاتی ہیں اس کا دل دہل اٹھا تھا وہ سارا دن پریشان رہی تھی اور اس کی اس اداسی کو ہابیل نے بھی نوٹ کیا تھا۔
’’گھر والوں کی یاد آ رہی ہے کیا، تو کل چکر لگا آنا۔‘‘ وہ محبت سے اسے دیکھ رہا تھا سونم نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہابی مجھے کبھی چھوڑ تو نہیں دو گے۔‘‘
’’پاگل ہو کیا۔‘‘ ہابیل نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔
’’تم تو میری زندگی ہو تمہیں چھوڑ دیا تو سمجھ لو جینا چھوڑ دیا۔‘‘ اور پھر کتنی دیر وہ اسے اپنی محبت کے تحفظ کا اعتبار دلاتا رہا تھا اس کی باتیں سنتے ہوئے وہ اس کے سینے پہ سر رکھے رکھے ہی سو گئی تھی۔
راہب اگلی صبح پھر سے اس کی ڈریسنگ کرنے آیا تھا روشنی اس وقت لاؤنج میں بیٹھی تھی راہب کو دیکھ کر اس کا چہرہ گلاب کی مانند کھل اٹھا۔
’’بی بی قریب ہی بیٹھی تسبیح پڑھنے میں مشغول تھی اور ماریہ بھابھی حنا کو چاول کھلا رہی تھیں۔
دونوں کے لب خاموش تھے مگر بولتی نگاہیں نگاہوں میں حکایتیں اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھیں۔
وہ بی بی سے اجازت لے کر راہب کے ساتھ ہی گھر چلی آئی تھی، اماں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں راہب اسے گھر چھوڑ کر خود واپس ہاسپٹل چلا گیا تھا اور وہ اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی تھی۔
شام کو کھانے کے بعد دونوں چہل قدمی کے ارادے سے چھت پر چلے آئے تھے کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے راہب کو دیکھا تھا۔
’’آپ سے ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’ہاں پوچھو۔‘‘ وہ چائے کا کپ منڈیر پر رکھتے ہوئے ہمہ تن گوش ہوا سونم کے انداز سے وہ اخذ کر چکا تھا ضرور کوئی خاص بات ہے وہ ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے اوپر جھلملاتے ستاروں کو دیکھنے لگی تھی ایک معنی خیز سی خاموشی دونوں کے مابین آ کر ٹھہر گئی بالآخر اس نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے لب کھولے، مگر اندر ہی کہیں اس کے مثبت جواب پر خوفزدہ بھی تھی۔
’’آپ روشنی میں انٹرسٹڈ ہیں۔‘‘ وہ سمجھ نہیں پایا کہ یہ سوال تھا یا الزام وہ کچھ دیر اپنی جانب اٹھی سونم کی مشکوک نظروں کو دیکھتا رہا پھر قدرے لا پرواہ انداز میں بولا۔
’’نہیں۔‘‘ اور اس کا انکار سونم کو اندر تک شانت کر گیا تھا اسے لگا وہ پل صراط سے اتر کر واپس جنت میں آ چکی تھی۔
’’مگر اسے جانے کس طرح مجھ سے اتنا عشق ہو چکا ہے تم نے دیکھا تھا نا اس روز اس نے محض مجھے دیکھنے کی خاطر اپنا ہاتھ زخمی کر لیا تھا وہ بالکل پاگل لڑکی ہے تم اسے سمجھاؤ کہ جیسا وہ چاہتی ہے وہ سب نا ممکن ہے اور جہاں تک میری بات ہے تو میں سیدھا سادا سا پریکٹیکل بندہ ہوں عشق و محبت کے لئے کوئی جوگ نہیں لے سکتا میرے خواب کچھ اور ہیں۔‘‘ اور وہ خاموشی سے بیٹھی اس کو بولتے دیکھتی رہی۔
٭٭٭
’’یہ موسم ہجر کو لگتا ہے وصل سے کچھ بیر ہے جو آئے روز منہ اٹھا کر چلا آتا ہے اور میں تھک جاتی ہوں اس کے لمحے شمار کرتے ہوئے۔‘‘ وہ اس کے بازو سے سر اٹھا کر اٹھ بیٹھی تھی، ہابیل اس کی کلائیوں میں گجرے سجانے لگا۔
ابھی کچھ دیر قبل وہ ایک خوبصورت سہانی شام ایک دوسرے کی بھرپور سنگت میں گزار کر گھر لوٹے تھے وہ اسے اپنی جیپ میں بٹھا کر مری لے گیا تھا، تارکول کی لمبی سنسان سڑک پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلتے ہوئے اس نے کتنی حسرت سے ان لمحوں کو دیکھا جانے کیوں ایسا لگا کہ یہ پل زندگی میں دوبارہ نہیں آئیں گے۔
ٹھنڈی سبک ہوا کے جھونکے اس کے بالوں کو چھو کر گزرے تو وہ دھیرے سے گنگنایا۔
’’کاش یہ پل رک جائیں لمحے ساکت ہو جائیں وقت ٹھہر جائے اور تارکول کی اس لمبی سڑک پر یونہی ساتھ چلتے چلتے زندگی بیت جائے۔‘‘ اور وہ کتنی ہی دیر کھلکھلا کر ہنستی رہی تھی پھر اسے گھورتے ہوئے بولی۔
’’وقت ٹھہر جائے گا تو زندگی کیسے گزرے گی۔‘‘
’’تم میرے اتنے رومینٹک موڈ کا ہمیشہ ہی کباڑا کر دیتی ہو۔‘‘ وہ خفا ہو کر جیپ کی جانب چل پڑا تھا اور شام ان لمحوں کو مٹھی میں بند کر کے ہمیشہ کے لئے ماضی میں کہیں گم ہو گئی تھی۔
اور اب وہ اسے بتا رہا تھا کہ بابا سائیں شہر میں نئی فیکٹری لگا رہے ہیں جس کی کنسٹریکشن کی تمام تر ذمہ داری اس کے ذمے ہے اور اب اسے دو ماہ کے لئے شہر میں ہی رہنا ہو گا۔
’’ویک اینڈ پہ آیا کروں گا۔‘‘
’’مجھ سے تو وہ اینٹ سیمنٹ اچھے ہیں جن کو ہفتے میں چھ دن تو ملیں گے۔‘‘ وہ پھول نوچنے لگی۔
’’تم سے اچھا اور پیارا تو اس جہان میں کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ وہ اس کے شانوں کے گرد بازو پھیلا کر محبت سے بولا۔
’’ہٹو پرے مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘ سونم نے غصے سے اس کا بازو جھٹک دیا۔
’’ارے او ظالم محبوب کچھ تو رحم کرو اب تو پردیسی بندے ہیں۔‘‘ وہ مصنوعی بیچارگی سے کہتا اس کے قریب جھک آیا تھا۔
چاند کھڑکی پہ جھکا ان کی سرگوشیوں میں مسکراتا رہا ستارے جھلملاتے رہے اور رات بیت گئی، طلوع سحر کے ساتھ ہی موسم ہجر نے دروازے پر دستک دی اور وصل شب کا مسافر اپنے سفر کو لوٹ گیا۔
٭٭٭
اس کے جانے کے دو روز بعد روشنی کے لئے چھوٹی بیگم کے خاندان سے ایک رشتہ آیا تھا۔
’’میں مر جاؤں گی لیکن اس وڈیرے سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘ اس کا لہجہ سفاکی کی حد تک خطرناک تھا سونم کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے، فریال نے چور نظروں سے گرد و پیش کا جائزہ لیا اور کسی کو موجود نہ پا کر سینے میں گھٹی سانس خارج کی، وہ تینوں اس وقت عقبی برآمدے میں بیٹھی تھیں۔
’’تم کچھ نہیں کر سکتی آخری فیصلہ وڈے شاہ سائیں کا ہو گا۔‘‘
’’میں بغاوت کروں گی بچپن سے ہمارے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں وہ…‘‘
’’کیا زیادتیاں ہو رہی ہیں تمہارے ساتھ۔‘‘ فریال نے اس کی بات کاٹ کر گھورا۔
’’بجائے اس کے کہ ہم سکول جاتے سکول کو لاک ر ہمارے سر بٹھا دیا گیا لالہ کی شادی پر شاپنگ کرنے گئے تھے وہ بھی گاڑیوں میں بٹھا کر کروا دی۔ حویلی کا ہر دروازہ کھڑکی ہمارے لئے بند ہے دم گھٹنے لگا ہے میرا اس زندان میں پڑے ہوئے نفرت ہے مجھے ان حویلیوں سے اور ان میں تڑپتی سسکتی زندگیوں سے۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولی۔
’’اتنے برسوں کے انتظار کے بعد اس خاندان میں ایک روزن ملا ہے جہاں سے خوابوں کی کچھ کرنیں رہائی کی نوید لے کر آئی ہیں اور تم کہتی ہو کہ میں اپنے ہاتھوں سے اس روزن پر مٹی ڈال کر اس قبر کو پھر سے تاریک کر ڈالوں اور بن جاؤں جاگیر دار کی حویلی کی سجاوٹ۔‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے ان دونوں کو دیکھا اور پھر استہزائیہ انداز میں ہنستے ہوئے بولی۔
’’نہیں فریال بی بی میں اب کسی کو بھی اپنی زندگی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دوں گی یہ میری زندگی ہے اور مجھے اسے اپنی مرضی سے جینے کا پورا حق ہے، مجھے یہ نرم و لطیف جذبات سے عاری پتھروں اور اینٹوں سے بنے محل نہیں چاہے مجھے تو ایک چھوٹا سا گھر چاہے جسے میں اپنی مرضی سے سجاؤں سنواروں جس کے کونے کونے میں زندگی بستی ہو جس گھر کو چاند، بادل، پھول، بارش اور ہوا مل کر اپنے رنگوں سے آباد کریں۔‘‘ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں حسرتوں کا وہ جنگل بن چکی تھیں جسے کاٹتا اب نا ممکن تھا۔
اسے مظاہر فطرت سے عشق تھا اور اس گرداب میں وہ بچپن سے بھٹک رہی تھی بارہ سال کی عمر میں ان کو بتا دیا گیا تھا کہ یہ لاؤنج اور اس کے گرد بنے کمرے اور لان ہی تم لوگوں کی کل کائنات ہے اور پھر حویلی کی ہر چیز انہیں حویلی کے اس لاؤنج میں ملنے لگی تھی، پنجرہ سونے کا ضرور تھا مگر اسے سونے کی نہیں رہائی کی چاہ تھی۔
ہابیل شاہ کی شادی پر سونم کو مہندی لگانے کی اجازت بھی بڑی مشکل سے ملی تھی اور تب اس نے پہلی بار حویلی سے باہر کی ہنستی بولتی، مسکراتی زندگی کو دیکھا تھا اور دل کے نہاں خانوں میں تھپک تھپک کر سلائی امنگیں جیسے ایک جھٹکے سے بیدار ہوئی تھیں اور وہ بھی ایسی ہی آزاد بے فکری اور خوشیوں سے بھرپور زندگی کا خواب دیکھنے لگی تھی۔
اور جس لمحے راہب نے اس کا ہاتھ تھاما تھا، اسے لگا یہ شخص اس کے خوابوں میں چاہتوں کا رنگ بھرنے ہی آیا ہے اور اس ایک لمحے نے اس کی زندگی بدل دی تھی اور فریال اس قصے سے بے خبر نہیں تھی۔
مگر حویلی کے مردوں کے ممکنہ غصے سے خائف ہو کر اسے سمجھانے بیٹھ گئی تھی اس کا دل تو ویسے بھی چڑیا جتنا تھا جس بارش میں بھیگنے کو روشنی کا دل مچلا کرتا تھا اس کی گرج فریال کا دل دہلا دیا کرتی تھی۔
لاؤنج کے سامنے بڑا سا لان تھا اور اس کے دوسری جانب مردان خانہ، انہیں تو اس جانب کی کھڑکیاں تک کھولنے کی اجازت نہیں تھی روشنی جب بھی ان درزوں سے باہر جھانکتی اسے اپنا دم سینے میں گھٹتا محسوس ہوتا تھا اسے تو ان دیواروں سے عشق تھا جن کے اندر زنبیل شاہ سانس لیتا تھا اس نے تو کبھی ان روایات سے بغاوت کا تصور بھی نہ کیا تھا، ایک حویلی اور ایک ہی ماحول میں رہنے والی دو لڑکیاں دو متضاد خیالات کی مالک تھیں۔
’’شاہوں کی لڑکی کو عشق ہو گیا ہے حویلی کے مرد یہ تہمت برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ سونم نے پہلی بار لب کشائی کی تھی۔
’’ہابیل لالہ آپ سے شادی کر سکتے ہیں تو میں راہب سے کیوں نہیں کر سکتی۔‘‘
’’وہ لڑکا تھا اور تم…‘‘ اس نے بے بسی سے اپنا لب کچل ڈالا اس کی اچھی بھلی خوشگوار زندگی کس موڑ پر آ کر الجھ گئی تھی۔
’’وہ لڑکا ہے تو آزاد ہے ہر معاملے میں اور میرا جرم یہ ہے کہ میں لڑکی ہوں اس لئے کھلی ہوا میں سانس بھی نہیں لے سکتی اس کے لئے بھی پہلے ان کی اجازت درکار ہو گئی بس میں مزید کٹھ پتلیوں جیسی زندگی نہیں گزار سکتی۔‘‘ وہ بھڑکتے ہوئے بولی۔
’’آگ سے مت کھیلو روشنی۔‘‘ فریال نے اس کے گرد بازو پھیلا کر منت بھرے لہجے میں کہا مگر اس کا فیصلہ اٹل تھا۔
کچھ دیر کے لئے عقبی دلان میں مکمل خاموشی چھا چکی تھی پھر روشنی نے ایک عجیب بات کہہ دی۔
’’سنو تم راہب اور میرے رشتے کی بات بی بی سے کرو نا۔‘‘ اس کے لہجے میں کتنی آس تھی سونم کا دل بھر آیا وہ کچھ بھی کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔
اور اسی شام اسے ایک بہت خوشگوار خبر بھی ملی تھی وہ ماں بننے والی تھی بی بی نے اس کا صدقہ اتار کر مبارکباد دی، اس کا دل چاہنے لگا تھا دن پر لگا کر اڑ جائیں اور ہابیل شاہ جلد از جلد واپس لوٹ آئے پھر وہ اسے ساری حقیقت بتا دے گی وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔
٭٭٭
’’میں نے کہا تھا نا کہ میں کسی بھی قیمت پر زیب شاہ سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘ ہال کمرے میں سب کے سامنے اس نے اپنی بات کو کس دیدہ دلیری کے ساتھ دوہرایا تھا سونم کو امید نہیں تھی کہ وہ بی بی کو انکار کرنے کے بعد وڈے سائیں کے سامنے بولنے کی جرأت کر لے گی۔
’’بقیہ خاندان میں زیب شاہ کے علاوہ کوئی تمہارے جوڑ کا نہیں ہے۔‘‘ وڈے شاہ نے تحمل سے جواب دیا، مگر وہ آج آر یا پار کا فیصلہ کر کے آئی تھی۔
’’لیکن مجھے آپ کے خاندان میں شادی نہیں کرنی۔‘‘ اس کے سپاٹ لہجے پر دیوار کے پاس کھڑی سونم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔
وڈے شاہ سائیں خاموش سے ہو گئے، بی بی نے ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا فریال نے آنکھوں کے اشارے سے خاموش رہنے کی گزارش کی تھی، زنبیل شاہ مٹھیاں بھینچے اپنا ابال ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا، چھوٹی بیگم اور بھابھی انگشت بدنداں رہ گئیں۔
نبیل شاہ زمینوں پر تھے اور چھوٹے شاہ سائیں پر جیسے سکتہ طاری ہو چکا تھا۔
’’تو پھر کس سے شادی کرنی ہے تمہیں۔‘‘ کچھ دیر خاموشی کے بعد جب وہ بولے تو ان کا لہجہ بے تاثر تھا سونم کی ٹانگوں نے اس کا وزن سہارنے سے انکار کر دیا تھا وہ ملتجی نظروں سے روشنی کو دیکھ رہی تھی مگر اس پر تو جیسے اک جنون سوار ہو چکا تھا بغیر ڈرے یا جھجکے وہ بول رہی تھی۔
’’ڈاکٹر راہب سے۔‘‘ اور اس کی بات پوری ہونے سے قبل زنبیل شاہ کسی خونی بھیڑیے کی مانند اس پر جھپٹا تھا۔
’’بے غیرت بے حیا لڑکی تجھے تو میں زمین میں گاڑ دوں گا۔‘‘ تھپڑوں کے بعد اب وہ اس کی ٹھوکروں کی زد میں تھی۔
وڈے شاہ اور چھوٹے شاہ سائیں میں سے کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اس کی چیخوں پر حویلی کے سارے ملازم ہال کے باہر آن کھڑے ہوئے تھے لیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ زنبیل شاہ کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتا۔
تبھی چھوٹی بیگم نے اسے کالر سے کھینچتے ہوئے اس کا رخ اپنی سمت موڑا۔
’’پاگل ہو گئے ہو کیا، ارے ہماری بچی تو معصوم تھی اسے بہکایا ہے اس لڑکی نے جو اپنے بھائی کو زنانے میں بلوا کر ملاقاتیں کرواتی رہی ہے۔‘‘ ان کا اشارہ سونم کی جانب تھا وہ اس الزام پر حق دق سی ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’اسی لئے میں کہتی تھی مت بیاہ کر لاؤ اسے آتے ہی ہماری معصوم پارسا بچیوں پر اپنا رنگ چڑھا ڈالا ورنہ ایسی جرأت تو ہمارے خاندان کی سات پشتوں میں کبھی کسی نے نہیں کی تھی۔‘‘ ان کا واویلا جاری تھا زنبیل شاہ مزید کچھ بھی سنے بغیر حویلی سے باہر نکل گیا، چھوٹی بیگم الزام پہ الزام لگائے جا رہی تھی۔
’’یہ سب جھوٹ ہے بی بی آپ کو پتہ ہے روشنی کو کانچ لگ گیا تھا اور بھائی تو بس اس کی بینڈیج کرنے آیا تھا۔‘‘ اسے یقین تھا بی بی ضرور اس کا ساتھ دیں گی لیکن انہیں بھی بیٹی کی جان پیاری تھی سو انہوں نے اس کے دونوں ہاتھ جھٹکتے ہوئے رخ موڑ لیا تھا۔
’’مجھے کچھ نہیں پتہ اور تم نے ایسی کوئی اجازت لی تھی مجھ سے۔‘‘ اسے اپنے سینے میں گھٹن سی اترتی محسوس ہو رہی تھی دل و دماغ جیسے آندھیوں کی زد میں تھا عجیب بے کلی سی تھی دل کہیں ٹھہر نہیں رہا تھا۔
کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد وہ بھاگتے ہوئے فون اسٹینڈ کی جانب بڑھی پہلے اس نے ہابیل شاہ کا نمبر ڈائل کیا تھا کچھ دیر بیل ہونے کے بعد ایک اجنبی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’ہابیل شاہ سے بات کروائیں۔‘‘ وہ بولی تو اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’سوری میم وہ اس وقت آفس میں نہیں۔‘‘ اس نے ریسیور پٹخ ڈالا پھر راہب کا نمبر ملانے لگی بیل مسلسل جا رہی تھی مگر کوئی ریسیو نہیں کر رہا تھا ایک بار… دو بار… دس بار، اس کی انگلیاں شل ہو چکی تھیں نبض ڈوب رہی تھیں۔
لاؤنج میں موت کا سا سکوت چھایا ہوا تھا سب ایک دوسرے سے نظریں چرائے بالکل خاموش بیٹھے تھے روشنی کی سسکیاں وقفے وقفے سے اس سکوت زدہ فضا میں ارتعاش پیدا کرتی تھیں۔
تبھی زنبیل شاہ تن فن کرتا اندر آیا اس کے سفید کپڑوں پہ جا بجا خون کے دھبے لگے تھے۔
’’اسے تو قبر میں اتار آیا ہوں اور تمہیں اس کمرے میں زندہ درگور کروں گا۔‘‘ روشنی کو بالوں سے گھسیٹتے ہوئے اس نے کمرے میں بند کر ڈالا تھا، اس کے ہاتھوں سے ریسیور کب کا لڑھک کر نیچے گر چکا تھا۔
’’میرا بھائی… میرا راہب۔‘‘ وہ ننگے پاؤں پگڈنڈیوں پر بھاگتے ہوئے ہاسپٹل تک آئی تھی سارے گاؤں میں جیسے کہرام مچا ہوا تھا، چوکیدار نے اسے بتایا کہ انہیں شہر والے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔
٭٭٭